حرف آغاز
محمد سلمان بجنوری
گذشتہ مہینے ان صفحات پرجو معروضات پیش کی گئی تھیں، ان کا خلاصہ یہ تھا کہ موجودہ دور میں، دین وشریعت کے خدام اور علم دین کی امانت کے حاملین کی ذمہ داریاں بہت متنوع ہوگئی ہیں اور ان کو مختلف میدانوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آج کی ان سطور میں اسی موضوع سے قریب؛ بلکہ اس کے ایک پہلو کی حیثیت رکھنے والی ضرورت کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہ تو معلوم ہے کہ علماء دین وخادمان شریعت کی ذمہ داریوں کا ایک بڑا حصہ، دفاعِ اسلام سے تعلق رکھتا ہے؛ اس لیے کہ اسلام کے دنیا میں رونما ہونے اور پھیل جانے سے جن ادیان ومذاہب پر قدغن لگی یا اُن کا کردار ختم ہوگیا، اُن کے ماننے والوں نے بجائے دین اسلام کو اختیار کرکے حق پسندی کا ثبوت دینے کے، اُلٹا اسلام کو مٹانے کی سازشیں شروع کردیں اور اس کے لیے اپنے تمام وسائل کو استعمال کیا، اس مذموم ومسلسل عمل کی تفصیلات بھی مستقل کتابوں کا موضوع ہیں۔
سردست اس سلسلے میں انٹرنیٹ پر ہونے والی بعض خطرناک کوششوں کی طرف اشارہ کرنا ہے، یہ تو بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ انٹرنیٹ یا ڈیجیٹل میڈیا نے اس وقت دیگر ذرائع ابلاغ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، یہاں تک کہ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کا استعمال بھی اب عموماً انٹرنیٹ کے واسطے سے ہورہا ہے، یعنی لوگوں کی بڑی تعداد آج کل ٹی وی کی نشریات بھی موبائل پر دیکھتی ہے اوراخبارات بھی موبائل پر پڑھتی ہے۔ اس طرح ڈیجیٹل میڈیا، اپنی بات پہنچانے کے سب سے اہم ذریعہ کی حیثیت اختیار کرگیا ہے، اسی لیے دشمنانِ اسلام نے بھی پوری تیزی سے دین حق کی مخالفت کے لیے اس کا استعمال شروع کردیاہے۔
اس وقت بطور نمونہ نیٹ پر چلنے والے ایک خطرناک سیریل (مسلسل الحلقات) کا تذکرہ کرنا ہے، جس کا عنوان ہے: سوٴال جریٴ اور اس کو چلانے والے شخص کا نام ہے الأخ رشید جو پہلے مسلمان تھا اور اس کے والد ایک مسجد کے امام تھے؛ لیکن بدقسمتی سے بیٹاعیسائی بن گیا اور آج وہ اسلام کا ایسا دشمن ہے جو سالہا سال سے اسلام مخالف سیریل چلارہا ہے، بعض عزیزوں کے متوجہ کرنے پر ہم نے اس سیریل سے واقفیت حاصل کی تو اندازہ ہوا کہ وہ انتہائی خطرناک سلسلہ ہے جو ایک عام آدمی کے ایمان کو متزلزل کرنے کے لیے کافی ہے۔
یہ شخص جو مراکش کا رہنے والا ہے، عربی زبان میں اپناسیریل چلاتا ہے اوراس کی زبان نہایت آسان، فصیح اور لہجہ نہایت نرم اور موٴثر ہے، اسلامیات پراُس کا مطالعہ نہایت وسیع ہے، اس کی ہر قسط ایک گھنٹہ یااس سے کچھ کم یا زیادہ وقت کی ہوتی ہے اور یہ تفسیر وحدیث، سیرت اور اسلامی تاریخ کے حوالوں کے ساتھ بات کرتا ہے، اس کے فتنہ کی سنگینی کا اندازہ کرنے کے لیے آپ اس کے چند عنوانات یا موضوعات پر نظر ڈال لیں، ان میں سے ہر عنوان پر وہ ایک الگ نشست میں تفصیلی بات کرتا ہے۔
بطور نمونہ: (۱) ہل القرآن وحی من اللّٰہ؟ کیاقرآن اللہ کی طرف سے آنے والی وحی ہے؟ اس سوال کے تحت وہ بحث کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ قرآن، اللہ کا کلام نہیں ہوسکتا۔
(۲) ہل محمد رسول من عند اللّٰہ؟ کیا حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں؟ اس سوال کے تحت وہ اپنے ذہن کے مطابق اس بات پر دلائل قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول نہیں ہوسکتے۔
(۳) ہل کان محمد علیٰ خلق عظیم؟ کیا حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) خلق عظیم کے حامل تھے؟
(۴) ہل صحیح أن قریشًا کانت تلقب محمدًا بالصادق والأمین؟ کیا یہ بات صحیح ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قریش والے صادق وامین کہتے تھے؟
(۵) من أین أخذ القرآن قصة عیسیٰ (علیہ السلام)؟ قرآن نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قصہ کہاں سے لیاہے؟
(۶) أخطاء القرآن فی الحدیث عن اللّٰہ․ اللہ رب العزت کے بارے میں قرآن کریم کی اغلاط۔
(۷) أکذوبة تحدی القرآن للعرب بأن یأتوا بمثلہ: قرآن میں عربوں کو قرآن کا مثل پیش کرنے کا چیلنج جھوٹ ہے۔ نعوذ باللہ۔
اس طرح کے گمراہ کن اور اشتعال انگیز عنوانات دس بیس نہیں ہیں پانچ سو سے اوپر ہیں آخری قسط جس پر ہماری نظر پڑی ہے اس کا نمبر ۵۲۳ ہے اور اس کا عنوان ہے ہل أراد محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) أن یکون ہو المسیح؟ کیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو مسیح کی حیثیت سے پیش کرنا چاہتے تھے؟
ان عنوانات سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ شخص کس قسم کے موضوعات پر گفتگو کرتا ہے اور اگر آپ اس کی کسی قسط کو سن لیں تو آپ تکلیف اور غم وغصہ محسوس کرنے کے علاوہ اس بات پر حیران ہوں گے کہ یہ شخص کس درجہ چالاکی سے بات کرتا ہے، اس کا لہجہ نرم اور لچکیلا ہوتا ہے، پوری خوداعتمادی کے ساتھ اسلامی کتابوں کے حوالے پیش کرتا ہے اور ایک ایک لفظ پر بھرپور بحث کرکے اپنا مدعا ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی ایک قسط سن کر ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ عام مسلمان آدمی جس کا دینی علم گہرانہ ہو اور خاص طور سے وہ لوگ جو عصری تعلیم یافتہ ہوں اور دینی تعلیم و تربیت سے بہرہ مند نہ ہوں بڑی آسانی سے اس کا شکار ہوسکتے ہیں اور ہماری معلومات کے مطابق نوجوان طبقے میں اس کے زہر کے اثرات کچھ نہ کچھ آبھی چکے ہیں۔
یہ سیریل اس موضوع پر دشمنان اسلام کی سرگرمی کا ایک نمونہ ہے ورنہ خود عربی زبان ہی میں اس طرح کی بے شمار سائٹس کام کررہی ہیں اور جب عربی میں یہ حال ہے تو انگلش اور دیگر زبانوں کا کیا حال ہوگا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
اس میں شک نہیں ہے کہ اس قسم کے معاندین اسلام جو کچھ پیش کرتے ہیں وہ غلط ہے اور جو نتائج وہ اخذ کرتے ہیں وہ دھوکہ ہے؛ لیکن کیا اس سے بھی انکار ممکن ہے کہ یہ چیزیں ایک عام شخص کے لیے حددرجہ ایمان سوز اور خطرناک ہیں اور کیا یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اس قسم کی کوششوں کا مقابلہ سرسری مطالعہ یا معمولی محنت سے ناممکن ہے؟ بلاشبہ اس کے لیے ایک طرف اسلامی تعلیمات اور تفسیر، سیرت، تاریخ اور حدیث کے ذخیرے پر گہری نظر کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف دیگر مذاہب وادیان بالخصوص عیسائیت ویہودیت کا وسیع مطالعہ اور ان کی کمزوریوں پر گہری نظر درکار ہے۔
یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہنا ضروری ہے کہ ان چیزوں کی تردید کے لیے ہمارے سامنے یقینا کچھ حدود وقیود آئیں گی؛ کیوں کہ ہم ہر حال میں اس بات کے پابند ہیں کہ کوئی بھی کام خواہ وہ دفاعِ اسلام کی خدمت ہی ہو دینی وشرعی حدود میں رہ کر ہی کریں اور ان معاملات پر غور وفکر اور فیصلہ کرنا فقہاء ومفتیان کرام کا کام ہے؛ لیکن کیا ہم لوگ اس کی علمی تیاری سے بھی بے نیاز رہ سکتے ہیں؟ کیا ان موضوعات پر وسیع مطالعہ کی راہ میں بھی کوئی پابندی حائل ہے؟ اور کیا ان موضوعات پر تالیفات کا انبار لگادینا بھی کوئی ممنوعہ عمل ہے؟ کیا آج بھی تحریرہی تمام دینی کاموں کے لیے بنیاد کی حیثیت نہیں رکھتی؟ کیا آج بھی کتاب کے ذریعہ اپنے افکار کو ساری دنیا میں عام کرنے کا عمل جاری نہیں ہے؟ یقینا ہم اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری سے صرف نظر نہیں کرسکتے۔
——————————————–
دارالعلوم ، شمارہ: 2، جلد:102، جمادی الاولیٰ- جمادی الآخرہ ۱۴۳۹ھ مطابق فروری 2018ء
٭ ٭ ٭