شاہ فیصل عالمی ایوارڈ یافتہ عظیم محدث مولانا ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمیؒ  کی وفات پر عالم اسلام کا علمی حلقہ سوگوار

از:ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی

 ریاض                   

            سال ۲۰۱۷ء میں متعدد جید علماء کرام اس دار فانی سے رخصت ہوئے، ان میں مادر علمی دارالعلوم دیوبند کے جیالے سپوت، حدیث کی عظیم خدمات پر ”شاہ فیصل عالمی ایوارڈ“ یافتہ ہند نزاد سعودی مولانا ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی بھی ہیں، جو ریاض شہر میں بروز بدھ ۲۰ دسمبر ۲۰۱۷ء کو بعد نمازِ فجر انتقال فرماگئے۔ شہر ریاض کی مشہور مسجد الراجحی میں اُسی دن نماز ظہر کے بعد مرحوم کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور محلّہ نسیم کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ میرے لیے بڑی سعادت کی بات ہے کہ مجھے حدیث کے اس امام کی نمازِ جنازہ پڑھنے اور جنازہ کو کندھا دینے کے ساتھ آپ کی قبر پر مٹی ڈالنے کا بھی شرف حاصل ہوا۔ مرحوم کے انتقال پر عالمِ اسلام سمیت ہندوستان کے علمی حلقوں میں رنج وغم کا ماحول ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی صاحب نے ڈاکٹر اعظمی کی وفات کو امتِ مسلمہ کے لیے ایک بڑا علمی خسارہ قرار دیا۔ ریاض میں مقیم فضلاء دارالعلوم دیوبند نے بھی ڈاکٹر مصطفی اعظمی کے دولت کدہ پر حاضری دے کر آپ کی وفات پر اپنے دکھ درد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ احادیث نبویہ کو سب سے پہلے کمپیوٹرائزڈ کرکے مرحوم نے حدیث کی وہ عظیم خدمت انجام دی ہے کہ آنے والی نسلیں آپ کی اس اہم خدمت سے استفادہ کرتی رہیں گی۔

            ۲۰۱۳ء میں اپنی Ph.D کے مقالہ کی تحقیق کے دوران ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی کے نام نامی سے واقفیت ہوئی۔ ۱۹۹۹ء سے ریاض میں مقیم ہونے کے باوجود عصرِ حاضر کے عظیم محدث سے اب تک ملاقات نہ کرنے پر بہت قلق اور افسوس ہوا؛ لیکن موصوف سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے میں مزید تاخیر کرنے کے بجائے آپ کے علاقہ کے ہی ریاض میں مقیم مولانا شانِ الٰہی قاسمی کے ہمراہ آپ کے دولت کدہ پر حاضری دی۔ پہلی ہی ملاقات میں ڈاکٹر صاحب سے ایسا خصوصی تعلق ہوگیا کہ اس کے بعد سے ملاقات کاایک معمول بن گیا یا کم از کم فون پر ہی بات ہوجاتی۔ اگر ملاقات یا فون کرنے میں تاخیر ہوتی تو ڈاکٹر صاحب کی محبت پر قربان جائیے کہ خود ہی مجھے فون کرلیا کرتے تھے۔

            ڈاکٹر صاحب انتہائی مخلص انسان اور قرآن وحدیث کے سچے داعی تھے، جس کا اندازہ صرف ایک واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ ایک مرتبہ جب اُن سے ملاقات کے دوران کہا کہ آپ نے قرآن وحدیث کی تدوین پر مستشرقین کے اعتراضات پر مدلل جوابات دے کر، احادیث نبویہ کو سب سے پہلے کمپیوٹرائزڈ کرکے نیز عربی اور انگریزی میں متعدد کتابیں تحریر فرماکر وہ عظیم کارنامہ انجام دیا ہے کہ اُس میں آپ کا کوئی ثانی نہیں ہے؛ لیکن اُس کے باوجود آپ کی شخصیت عوامی سطح پر متعارف نہ ہوسکی، جب کہ سعودی عرب میں مقیم ہندپاک کے بعض دیگر علماء نے آپ کی بہ نسبت بہت کم کام کیا ہے؛ لیکن انہوں نے اپنے نام او ر منصب کی قیمت وصول کی۔ جس پر موصوف نے جو جواب دیا اُس میں ہم سب کے لیے عبرت ونصیحت ہے: ”حضرت میں تاجر نہیں ہوں؛ بلکہ ریسرچ اسکالر ہوں۔“ ڈاکٹر صاحب کا ایک دوسرا جملہ بھی ہمارے خاص کر علماء کے لیے انتہائی سبق آموز ہے: ”میں روزانہ اپنا محاسبہ کرتا ہوں اور جس دن میں نے کوئی علمی کام نہیں کیا ہوتا تو میں اس دن اپنے کو مردہ سمجھتا ہوں۔“ ڈاکٹر صاحب قرآن وحدیث کی تدوین پر مستشرقین کے اعتراضات پر بہت زیادہ فکر مند رہتے تھے؛ اس لیے ان کی گفت وشنید مستشرقین کی ریشہ دوانیوں پر ضرور ہوا کرتی تھے، نیز وہ ہجری کیلنڈر کو زیادہ سے زیادہ رائج کرنے کی ترغیب بھی دیا کرتے تھے۔

            کم وبیش ہر ملاقات میں آپ کی ۹۰ سالہ زندگی کے مختلف مراحل پر گفتگو کے ساتھ مادر علمی دارالعلوم دیوبند کا بھی ذکر خیر ہوا کرتا تھا۔ موصوف نے ہمیشہ دارالعلوم دیوبند سے اپنی نسبت کو فخریہ طور پر ہی بیان فرمایا۔ ایک طویل عرصہ سعودی عرب میں رہنے کے باوجود ہندوستان خاص کر اپنے علاقہ سے تعلق کو برقرار رکھا۔ ہندوستان کے موجودہ حالات پر بھی آپ کافی فکرمند رہا کرتے تھے۔ ۲۰۱۳ء سے ۲۰۱۶ء کے دوران جب بھی ہم نے ڈاکٹر صاحب کو اپنے کسی پروگرام میں شرکت کی دعوت دی اپنی بیماری اور ضعف کے باوجود اس میں ضرور تشریف لائے۔ دسمبر ۲۰۱۳ کے ایک پروگرام میں ڈاکٹر اعظمی صاحب کے ساتھ ہندوستان کے مشہور اسکالر پروفیسر اختر الواسع صاحب بھی تشریف لائے تھے۔ انہوں نے اس وقت کہا تھا کہ مجھے ہندوستان سے سعودی عرب کے اس پورے سفر کا ماحصل مل گیا اور وہ ہے ڈاکٹر اعظمی صاحب سے ملاقات۔ انہوں نے مزید کہا کہ تابعین کہا کرتے تھے کہ ہم نے فلاں صحابی سے ملاقات کی، اور تبع تابعین کہا کرتے تھے کہ ہماری فلاں تابعی سے ملاقات ہوئی، اسی طرح علماء لکھتے ہیں کہ ہماری فلاں فلاں محدثین ومفسرین سے ملاقات ہوئی، اب مجھے بھی یہ شرف حاصل ہوگیا ہے کہ میں بھی کہوں اور لکھوں کہ میری ملاقات عصرِ حاضر کے عظیم محدث یعنی ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی صاحب سے ہوئی ہے۔

            ڈاکٹر اعظمی صاحب نے اپنی خصوصی دلچسپی سے قرآن کریم کے نسخوں پر مستشرقین کے اعتراضات کے مدلل جوابات کے لیے ۲۵۰ صفحات پر مشتمل ایک ایسی کتاب مکمل فرمادی جو صدیوں تک دینِ اسلام کی حفاظت کے لیے مضبوط قلعہ کا کام کرتی رہے گی۔ ڈاکٹر اعظمی صاحب تقریباً ۱۵ سال سے اس کتاب کی تکمیل میں لگے ہوئے تھے، جس کے لیے انہوں نے مختلف ممالک کے اسفار بھی کیے۔ انہوں نے اس کتاب میں قرآن کریم کے دنیا میں موجود مشہور ومعروف ۱۹ مخطوطوں کا مقارنہ کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ میں ۱۴۰۰ سال سے آج تک کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ اس کتاب کے ۱۵۰ صفحات پر مشتمل قرآن کریم کے مخطوطوں کا مقارنہ ہے؛ جب کہ ۵۰صفحات پر انگریزی میں اور ۵۰ صفحات پر عربی میں ڈاکٹر صاحب کا تحقیقی مقدمہ ہے۔ یہ کتاب ترکی سے شائع ہونے کے بعد جنوری ۲۰۱۸ء کو ریاض پہنچنے والی تھی؛ مگر اُس سے قبل ہی حضرت اپنے حقیقی مولا سے جاملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مگر اس کتاب کے دو نسخے پوسٹ کے ذریعہ آپ کے پاس پہنچ گئے تھے، غرضیکہ ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی کی آخری واہم کتاب (Ageless Qur’an Timeless Text) (النص القرآنی الخالد عبر العصور) بھی آپ کی زندگی میں شائع ہوگئی ہے۔ میری ڈاکٹر صاحب سے اس نئی کتاب کے اجرا کی تقریب منعقد کرنے کے لیے متعدد مرتبہ گفتگو ہوئی تھی؛ مگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہر چیز پر غالب آتا ہے۔

            مولانا ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی کی علمی خدمات اور اُن کی سوانح حیات پر بندہ کی کاوش پیش خدمت ہے، اللہ تعالیٰ قبولیت سے نوازے۔ آمین۔

            آپ کی پیدائش ۱۹۳۰ء (۱۳۵۰ھ) کے آس پاس اترپردیش کے مردم خیز علاقہ مئو (اعظم گڑھ) میں ہوئی۔ برصغیر کی معروف علمی درس گاہ دارالعلوم دیوبند سے ۱۹۵۲ء (۱۳۷۲ھ) میں فراغت حاصل کی۔ ازہر الہند دارالعلوم دیوبند سے علومِ نبوت میں فضیلت کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد دنیا کے معروف اسلامی ادارہ جامعہ ازہر، مصر سے ۱۹۵۵ء میں ”شہادة العالمیة مع الاجازة بالتدریس“ (MA) کی ڈگری حاصل کی اور وطن عزیز واپس آگئے۔ ۱۹۵۵ء میں ملازمت کی غرض سے قطر چلے گئے اور وہاں کچھ دنوں غیر عربی داں حضرات کو عربی زبان کی تعلیم دی، پھر قطر کی پبلک لائبریری میں لائبریرین کی حیثیت سے فرائض انجام دئے۔ اس دوران آپ نے اپنے علمی ذوق وشوق کی بنیاد پر متعدد قیمتی مخطوطات پر بھی کام کیا۔

            ۱۹۶۴ء میں قطر سے لندن چلے گئے اور ۱۹۶۶ میں دنیا کی معروف یونیورسٹی Cambridge, London سے جناب A.J.Arberry اور جناب Prof.R.B.Serjeant کی سرپرستی میں Studies in Early Hadith Literature کے موضوع پر Ph.D کی۔ مذکورہ موضوع پر انگریزی زبان میں Thesis پیش فرماکر Cambridge University سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے سرفراز ہونے کے بعد آپ دوبارہ قطر تشریف لے گئے اور وہاں قطر پبلک لائبریری میں مزید دوسال یعنی ۱۹۶۸ء تک کام کیا۔

            ۱۹۶۸ء سے ۱۹۷۳ء تک جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ میں مساعد پروفیسر کی حیثیت سے ذمہ داری بخوبی انجام دی ۔

            ۱۹۷۳ء سے ریٹائرمنٹ یعنی ۱۹۹۱ء تک کنگ سعود یونیورسٹی میں ”مصطلحات الحدیث “کے پروفیسر کی حیثیت سے علمِ حدیث کی گراں قدر خدمات انجام دیں۔

            ۱۹۶۸ء سے ۱۹۹۱ء تک مکہ مکرمہ اور ریاض میں آپ کی سرپرستی میں بے شمار حضرات نے حدیث کے مختلف پہلوٴوں پر ریسرچ کیا۔ اس دوران آپ سعودی عرب کی متعدد یونیورسٹیوں میں علم حدیث کے ممتحن کی حیثیت سے متعین کیے گئے، نیز مختلف تعلیمی وتحقیقی اداروں کے ممبر بھی رہے۔

حدیث کی عظیم خدمات پر ۱۹۸۰ء میں کنگ فیصل عالمی ایوارڈ:

            ۱۹۸۰ء (۱۴۰۰ھ) میں مندرجہ ذیل خدمات کے پیش نظر آپ کو کنگ فیصل عالمی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔

            (۱) آپ کی کتاب "دراسات فی الحدیث النبوی وتاریخ تدوینہ” جو کہ انگریزی زبان میں تحریر کردہ آپ کی Thesis کا بعض اضافات کے ساتھ عربی میں ترجمہ ہے، جس کا پہلا ایڈیشن کنگ سعود یونیورسٹی نے ۱۹۷۵ء میں شائع کیا تھا۔اس کتاب میں آپ نے مضبوط دلائل کے ساتھ احادیث نبویہ کا دفاع کرکے تدوینِ حدیث کے متعلق مستشرقین کے اعتراضات کے بھرپور جوابات دیے ہیں۔

            (۲) صحیح ابن خزیمہ جو صحیح بخاری وصحیح مسلم کے علاوہ احادیث صحیحہ پر مشتمل ایک اہم کتاب ہے، عصرِ حاضر میں چار جلدوں میں اس کی اشاعت آپ کی تخریج وتحقیق کے بعد ہی دوبارہ ممکن ہوسکی۔ اس کے لیے آپ نے مختلف ممالک کے سفر کیے۔

            (۳) احادیث نبویہ کو عربی زبان میں سب سے پہلے کمپیوٹرائزڈ کرکے آپ نے حدیث کی وہ عظیم خدمت کی ہے کہ آنے والی نسلیں آپ کی اس اہم خدمت سے استفادہ کرتی رہیں گی۔ ان شاء اللہ یہ عمل آپ کے لیے صدقہٴ جاریہ بنے گا۔

            اس طرح ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی قاسمی دنیا میں پہلے شخص ہیں جنہوں نے احادیث کی عربی عبارتوں کو کمپیوٹر ائزڈ کیا۔ غرضیکہ منتسبین مکتب فکر دیوبند کو فخر حاصل ہے کہ جس طرح احادیث کو پڑھنے وپڑھانے، کتب حدیث کی شروح تحریر کرنے اور حجیت حدیث اور اس کے دفاع میں سب سے زیادہ کام ان کے علماء نے کیا ہے، اسی طرح احادیث نبویہ کو کمپیوٹرائز کرنے والا پہلا شخص بھی فاضل دارالعلوم دیوبند ہی ہے جس نے قرآن وحدیث کی تعلیم وتعلّم سے کامیابی کے وہ منازل طے کیے جو عموماً لوگوں کو کم میسر ہوتے ہیں۔ یا اللہ! موصوف کو آخرت میں بھی امتیازی کامیابی عطافرما! (آمین)۔

            ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی قاسمی صاحب نے کتب حدیث کی تخریج وتحقیق، ان پر تعلیقات، اپنی نگرانی میں ان کی اشاعت اور قرآن وحدیث کی تدوین کے متعلق مستشرقین کے اعتراضات کے مدلل جوابات انگریزی وعربی زبان میں پیش کرکے دین اسلام کی ایسی عظیم خدمت پیش کی ہے کہ ان کی شخصیت صرف ہندوستان یا سعودی عرب تک محدود نہیں ہے؛ بلکہ دنیا کے کونے کونے سے ان کی خدمات کو سراہا گیا ہے، حتی کہ اسلام مخالف قوتوں نے بھی آپ کی علمی حیثیت کو تسلیم کیا ہے۔ غرضیکہ عصرِ حاضر میں شیخ الحدیث مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ (۱۸۷۵ء-۱۹۳۳ء) کے شاگر رشید محدث کبیر شیخ حبیب الرحمن اعظمی رحمة اللہ علیہ (۱۹۰۱ء-۱۹۹۵ء) کے بعد شیخ ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی قاسمی صاحب کا نام سرفہرست ہے جنہوں نے متعدد کتب حدیث کے مخطوطات پر کام کرکے احادیث کے ذخیرہ کو امتِ مسلمہ کے ہر خاص وعام کے پاس پہونچانے میں اہم رول ادا کیا۔ شیخ حبیب الرحمن اعظمی رحمة اللہ علیہ نے بھی تقریباً گیارہ احادیث کی کتابوں کی تخریج وتحقیق کے بعد ان کی اشاعت کروائی تھی۔

             ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی صاحب نے سعودی نیشنلٹی حاصل ہونے کے باوجود اپنے ملک، علاقہ اور اپنے ادارہ سے برابر تعلق رکھا ہے، تقریباً ہر سال ہی اپنے وطن کا سفر کرتے رہے ہیں، اپنے علاقہ کے لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے متعدد کام کرواتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر اعظمی صاحب نے دارالعلوم دیوبند میں داخلہ سے قبل تقریباً چھ ماہ مدرسہ شاہی مرادآباد میں تعلیم حاصل کی ہے، نیز آپ تقریباً ایک سال علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی زیر تعلیم رہے ہیں۔ آپ کے تین بچے ہیں، بیٹی فاطمہ مصطفی اعظمی امریکہ سے M.Com اور Ph.D کرنے کے بعد شیخ زاید یونیورسٹی میں مساعد پروفیسر ہیں۔ بڑے صاحبزادے عقیل مصطفی اعظمی امریکہ سے Engineering پھر Master in Engineering اور Ph.D کرنے کے بعد کنگ سعود یونیورسٹی میں مساعد پروفیسر ہیں، چھوٹے بیٹے جناب انس مصطفی اعظمی نے UK سے طب میں Ph.D کی ہے اور King Faisal Specialist Hospital میں برسر روزگار ہیں۔

            *          اس کے علاوہ کنگ خالد بن عبد العزیز نے آپ کی عظیم خدمات کے پیش نظر ۱۹۸۲ء میں آپ کو Medal of Merit, First Class سے سرفراز فرمایا۔

سعودی نیشنلٹی

            ۱۹۸۱ء (۱۴۰۱ھ) میں حدیث کی گراں قدر خدمات کے پیش نظر آپ کو سعودی نیشنلٹی عطا کی گئی۔

دیگر اہم ذمہ داریاں

            – Chairman of the Dept. of Islamic Studies, College of Education, King Saud University.

            – Visiting Scholar at the University of Michigan, Ann Arbor, Michigan (1981-1982).

            – Visiting Fellow of St. Cross College, Oxford, England, during Hilary term (1987).

            – Visiting Scholar at the University of Colorado, Boulder, Colorado, USA (1989-1991).

            – King Faisal Visiting Professor of Islamic Studies at Princeton University, New Jersy (1992).

            – Member of Committee for promotion, University of Malaysia.

            – Honorary Professor, Department of Islamic Studies, University of Wales, England.

علمی خدمات:

            آپ کی علمی خدمات کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے۔

            (۱) Studies in Early Hadith Literature: یہ کتاب دراصل ڈاکٹر مصطفی اعظمی قاسمی صاحب کی Ph.D کی Thesis ہے جو انگریزی زبان میں تحریر کی گئی تھی جس کا پہلا ایڈیشن بیروت سے ۱۹۶۸ء میں شائع ہوا، دوسرا ایڈیشن ۱۹۷۸ء اور تیسرا ایڈیشن ۱۹۸۸ء میں امریکہ سے شائع ہوا اور اس کے بعد متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں اور الحمد للہ یہ سلسلہ برابر جاری ہے۔ اس کا ۱۹۹۳ء میں ترکی زبان میں اور ۱۹۹۴ء میں اندونیشی اور اردو زبان میں ترجمہ شائع ہوچکا ہے۔ مشرق ومغرب کی متعدد یونیورسٹیوں میں یہ کتاب نصاب میں داخل ہے۔

            (۲) دراسات فی الحدیث النبوی وتاریخ تدوینہ: موصوف نے انگریزی زبان میں تحریر کردہ اپنی Thesis میں بعض اضافات فرماکر خود عربی زبان میں ترجمہ کیا ہے، جو ۷۱۲ صفحات پر مشتمل ہے، جس کا پہلا ایڈیشن کنگ سعود یونیورسٹی نے ۱۹۷۵ء میں شائع کیا تھا۔ اس کے بعد ریاض وبیروت سے متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ ان دونوں مذکورہ انگریزی وعربی کتابوں میں مستند دلائل سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ تدوین حدیث کا آغاز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی ہوگیا تھا ،نیز اس دعوہ کو غلط ثابت کیا گیا ہے کہ تدوین حدیث کا آغاز دوسری اور تیسری صدی ہجری میں ہوا تھا۔

            (۳) منہج النقد عند المحدثین نشاتہ،تاریخہ: اس کتاب میں موصوف نے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ محدثین کرام نے احادیث کے علمی ذخیرہ کو صحیح قرار دینے کے لیے جو اسلوب اختیار کیا ہے اس کی کوئی نظیر حتی کہ ہمارے زمانہ میں بھی نہیں ملتی ہے۔ نیزاس کتاب میں تدوین حدیث کے ابتدائی دور میں محدثین کے حقیقی طریق کار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ کتاب عربی زبان میں ہے اور ۲۳۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ۱۹۷۵ء میں ریاض سے، دوسرا ایڈیشن ۱۹۸۲ء میں ریاض سے اور تیسرا ایڈیشن ۱۹۸۳ء میں ریاض سے شائع ہوئے ہیں، اس کے بعد بھی اس کتاب کے شائع ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ کتاب جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے نصاب میں داخل ہے، یہ اپنی نوعیت کی پہلی اہم کتاب ہے۔

            (۴) کتاب التمییز للامام مسلم: امام مسلم  کی اصول حدیث کی مشہور کتاب التمییز آپ کی تحقیق وتخریج کے بعد شائع ہوئی۔

            (۵) Studies in Hadith Methodology and Literature: اس کتاب میں حدیث کے طریق کار سے بحث کی گئی ہے؛ تاکہ احادیث کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ نیز مستشرقین نے جو شبہات پیدا کردیے تھے ان کا ازالہ کرنے کی ایک بہترین کوشش ہے۔ مصنف نے اس کتاب کو دو حصوں میں منقسم کیا ہے پہلے حصہ میں احادیث کے طریق کار سے بحث کی گئی ہے؛ جب کہ دوسرے حصہ میں حدیث کے ادبی پہلو کو صحاح ستہ اور دوسری کتب حدیث کی روشنی میں اجاگر کیا ہے۔ یہ کتاب انگریزی داں اصحاب کے لیے علوم وادب حدیث کے مطالعہ کا اہم ذریعہ ہے جو مختلف یونیورسٹییوں کے نصاب میں داخل ہے۔ کتاب کا پہلا اور دوسرا ایڈیشن ۱۹۷۷ء میں امریکہ سے، تیسرا ایڈیشن ۱۹۸۸ء میں امریکہ سے شائع ہوا۔ اس کے بعد متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔

            (۶) The History of the Quranic Text from Revelation to Compilation:

            یہ ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی قاسمی کی بہترین تصانیف میں سے ایک ہے جس میں قرآن کریم کی تدوین کی تاریخ‘ مستند دلائل کے ساتھ ذکر فرمائی ہے۔ دیگر آسمانی کتابوں کی تدوین سے قرآن کریم کی تدوین کا مقارنہ فرماکر قرآن کریم کی تدوین کے محاسن وخوبیوں کا تذکرہ فرمایا ہے، نیز اسلام مخالف قوتوں کو دلائل کے ساتھ جوابات تحریر کیے ہیں۔ اس کتاب میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ قرآن کریم کا حتمی نسخہ تیار کرنے کے لیے طریق کار پر بھی مفصل روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ۲۰۰۳ء میں انگلینڈ سے، دوسرا ایڈیشن ۲۰۰۸ء میں دبئی سے شائع ہوا۔ اس کے بعد سعودی عرب، ملیشیا، کناڈا اور کویت سے متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔

            ابھی تک اس اہم کتاب کا عربی یا اردو زبان میں ترجمہ تحریر نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے ۸ فروری ۲۰۱۳ء کو میری ملاقات کے دوران اس عظیم کتاب کے اردو یا ہندی میں ترجمہ کی خواہش کا اظہار فرمایا، یہ کتاب تقریباً ۴۰۰ صفحات پر مشتمل ہے۔

            (۷) On Schacht’s Origins of Muhammadan Jurisprudence:

            مشہور ومعروف مستشرق "شاخت” کی کتاب کا تنقیدی جائزہ اور فقہ اسلامی کے متعلق اس کے ذریعہ اٹھائے گئے اعتراضات کے مدلل جوابات پر مشتمل ایک اہم تصنیف ہے جو مختلف یونیورسٹییوں کے نصاب میں داخل ہے۔ یہ کتاب ۲۴۳ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ۱۹۸۵ء میں نیویارک سے، دوسرا ایڈیشن ۱۹۹۶ء میں انگلینڈ سے شائع ہوا ہے۔ اس کے بعد متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں اور سلسلہ برابر جاری ہے۔ یہ کتاب دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں کے نصاب میں داخل ہے۔ ۱۹۹۶ء میں اس کا ترکی زبان میں ترجمہ شائع ہوا۔ عربی زبان میں ترجمہ اور اردو میں ملخص طباعت کے مرحلہ میں ہے۔

            (۸) اصول الفقہ المحمدی للمستشرق شاخت (دراسة نقدیة) یہ ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی صاحب کی انگریزی زبان میں تحریر کردہ کتاب کا عربی ترجمہ ہے جو ڈاکٹر عبدالحکیم مطرودی نے کیا ہے ، جو ابھی تک شائع نہیں ہوسکا ہے۔

            (۹) کُتّابُ النبی  صلی اللہ علیہ وسلم : اس کتاب میں نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں رہ کر لکھنے والے صحابہٴ کرام کا تذکرہ ہے۔ موٴرخین نے عموماً ۴۰-۴۵ کاتبین نبی کا ذکر فرمایا ہے لیکن ڈاکٹر اعظمی صاحب نے ۶۰ سے زیادہ کاتبین نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ذکر تاریخی دلائل کے ساتھ فرمایا ہے۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ۱۹۷۴ء میں دمشق سے اور دوسرا ایڈیشن ۱۹۷۸ء میں بیروت سے اور تیسرا ایڈیشن ۱۹۸۱ء میں ریاض سے شائع ہوا ہے۔ اس کے بعد اس کتاب کے متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ جلدی ہی شائع ہوا ہے۔ اردو ترجمہ ”نقوش“ کے ”رسول نمبر“ میں بھی شائع ہوا ہے۔

            (۱۰) المحدثون من الیمامة الی ۲۵۰ ہجری تقریباً : ابتدائے اسلام سے اب تک عالم اسلام کے تمام شہروں کے محدثین کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے؛ مگر مصنف نے الیمامہ کے محدثین کا تذکرہ اس کتاب میں کیا ہے۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ۱۹۹۴ء میں بیروت سے شائع ہواہے۔

            (۱۱) موطا امام مالک: آپ کی تخریج وتحقیق کے بعد اس اہم کتاب کی ۸جلدوں میں اشاعت ہوئی۔ یہ حدیث کی مشہور ومعروف کتاب ہے جو امام مالک نے تصنیف فرمائی ہے، بخاری ومسلم کی تحریر سے قبل یہ کتاب سب سے معتبر کتاب تسلیم کی جاتی تھی۔ آج بھی اسے اہم مقام حاصل ہے۔ موٴسسة زاید بن سلطان آل نہیان ، ابوظبی نے اس کی اشاعت کی ہے۔ آپ نے موطا مالک کے راویوں پر بھی کام کیا ہے جن کی تعداد آپ کی تحقیق کے مطابق ۱۰۵ ہے۔

            (۱۲) صحیح ابن خزیمہ: صحیح ابن خزیمہ جو حدیث کی صحیح بخاری وصحیح مسلم کے علاوہ احادیث صحیحہ پر مشتمل ایک اہم کتاب ہے، ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی صاحب نے ہی حدیث کی اس نایاب کتاب کو تلاش کیا جس کے بارے میں یہ خیال تھا کہ یہ ضائع ہوچکی ہے، اس طرح حدیث کی یہ اہم کتاب موصوف کی تخریج وتحقیق کے بعد ہی دوبارہ شائع ہوسکی۔ اس کی چار جلدیں ہیں ، پہلا ایڈیشن ۱۹۷۰ء میں بیروت سے، دوسرا ایڈیشن ۱۹۸۲ء میں ریاض سے اور تیسرا ایڈیشن ۱۹۹۳ء میں بیروت سے اور اس کے بعد بے شمار ایڈیشن مختلف اداروں سے شائع ہوئے اور ہو رہے ہیں۔

            (۱۳) العلل لعلی بن عبداللہ المدینی: آپ کی تحقیق وتعلیق کے بعد اس کا پہلا ایڈیشن ۱۹۷۲ء میں اور دوسرا ایڈیشن ۱۹۷۴ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد سے متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔

            (۱۴) سنن ابن ماجہ : حدیث کی اس اہم کتاب کی آپ نے تخریج وتحقیق کرنے کے بعد اس کو کمپیوٹرائزڈ کرکے چار جلدوں میں ۱۹۸۳ء میں ریاض سے شائع کرایا۔ احادیث کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کا سلسلہ آپ نے کسی حد تک Cambridge University میں Ph.D کے دوران شروع کردیا تھا۔

            (۱۵) سنن کبری للنسائی : آپ نے ۱۹۶۰ء میں اس کے مخطوطہ کو حاصل کرکے اس کی تخریج وتحقیق کے بعد اشاعت فرمائی۔

            (۱۶) مغازی رسول اللہ ﷺ لعروة بن زبیر بروایة أبی الأسود : مشہور ومعروف تابعی حضرت عروہ بن زبیر  (ولادت ۲۳ھ) کی سیرت پاک کے موضوع پر تحریر کردہ سب سے پہلی کتاب (مغازی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ) ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی صاحب نے اپنی تخریح وتحقیق اور تنقید کے بعد شائع کی۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ۱۹۸۱ء میں شائع ہوا۔ یہ کتاب اس بات کی علامت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے فوراً بعد سیرت نبوی پر لکھنا شروع ہوگیا تھا۔ ادارہٴ ثقافت اسلامیہ، پاکستان نے اس کتاب کا اردو ترجمہ کرکے ۱۹۸۷ء میں شائع کیا ہے، اس کتاب کا انگریزی زبان میں تعارف طباعت کے مرحلہ میں ہے۔ اصل کتاب (عربی زبان میں) کا پہلا ایڈیشن ۱۹۸۱ء میں ریاض سے شائع ہوا ہے۔

            (۱۷) صحیح بخاری کا مخطوطہ: متعدد علماء کے حواشی کے ساتھ ۷۲۵ھ میں تحریر کردہ صحیح بخاری کا مخطوطہ جو ۱۹۷۷ء میں استنبول سے حاصل کیا گیا ،موصوف کی تحقیق کے بعد طباعت کے مرحلہ میں ہے۔

            (۱۸) Ageless Qur’an Timeless Text (النص القرآنی الخالد عبر العصور): قرآن کریم کے نسخوں پر مستشرقین کے اعتراضات کے جوابات کے لیے ۲۵۰ صفحات پر مشتمل ڈاکٹر صاحب کی یہ آخری کتاب ہے، جو انہوں نے تقریباً ۱۵ سال میں مکمل فرمائی ہے۔ اس کتاب کی تکمیل کے لیے انہوں نے مختلف ممالک کے اسفار بھی کیے۔ ڈاکٹر اعظمی صاحب نے اس کتاب میں قرآن کریم کے دنیا میں موجود مشہور ومعروف ۱۹ مخطوطوں میں نقطے اور اعراب ہٹاکر یہ ثابت کیا ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ میں ۱۴۰۰ سال سے آج تک کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے، اور نہ کل قیامت تک ان شاء اللہ کوئی تبدیلی رونما ہوگی۔ اس کتاب میں ۵۰ صفحات پر انگریزی میں اور ۵۰ صفحات پر عربی میں ڈاکٹر صاحب کا تحقیقی مقدمہ؛ جب کہ۱۵۰ صفحات پر مشتمل قرآن کریم کے مخطوطوں کا مقارنہ ہے، یہ کتاب ترکی سے دسمبر ۲۰۱۷ء میں شائع ہوئی ہے۔

            غرض ڈاکٹر محمدمصطفی اعظمی قاسمی صاحب نے حدیث کی ایسی عظیم خدمات پیش فرمائی ہیں کہ ان کی حدیث کی خدمات کا اعتراف عالمِ اسلامی ہی میں نہیں؛ بلکہ مستشرقین نے بھی آپ کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے۔ اللّٰہُمّ زِدْ فَزِدْ۔ موصوف کی اکثر کتابیں انٹرنیٹ پر Free Download کے لیے مہیا ہیں۔

—————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ: 2،  جلد:102‏،  جمادی الاولیٰ- جمادی الآخرہ ۱۴۳۹ھ مطابق فروری 2018ء

#             #             #

Related Posts