از: مولانا اسرارالحق قاسمی

ممبر پارلیامنٹ ورکنِ مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند

یوں تو روئے زمین پر بے شمار امتیں اور ملتیں ہیں؛ لیکن ان میں جو مقام ومرتبہ امت محمدیہ کو حاصل ہے،وہ کسی اور کو نہیں۔ امت محمدیہ کے مقام ومنصب کااندازہ قرآنِ کریم کی اس آیت سے کیاجاسکتاہے: ”کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ المُنْکَر“۔ اس آیت میں مسلمانوں کو مخاطب کرکے صاف کہہ دیا گیاہے کہ تم بہترین ا مت ہو۔ خیرِامت سے مراد مسلمان ہیں؛ لیکن جو مسلمان جس قدر اسلام کا پابند ہوگا اور اپنے فرائض منصبی کی تکمیل کرنے والا ہوگا، اس کا مقام اسی اعتبار سے بلند ہوگا ۔ جیسا کہ فضیلت کامعیار بیان کرتے ہوئے قرآن میں ارشاد فرمایاگیا: اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقَاکُمْ ”بلاشبہ تم میں زیادہ مکرم وہ ہے جو متقی ہو ۔“

اگر مسلمانوں میں کسی ایسے طبقے کی تلاش کی جائے جو مقام ومنصب کے اعتبار سے زیادہ بلند مقام رکھتا ہو، تو ان میں اول مقام صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کاہے۔صحابہ وہ ہیں جن کے بارے میں رسولِ خداصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْم ”میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد فرمانے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مسلمانوں میں صحابہ کامقام بہت نمایاں ہے۔”ما اَنا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ“ والی حدیث سے بھی صحابہ کے مقام کا پتہ چلتاہے ۔اس حدیث سے بھی صحابہ کے مقام و منصب کا اندازہ کیاجاسکتاہے کہ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ سب سے بہتر لوگ کون ہیں؟ اس کے جواب میں آپ نے فرمایا: خَیْرُ القُرُوْنِ قَرْنِیْ، ثم الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ”میرے زمانے کے لوگ سب سے بہترہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے زمانے سے ملے ہوئے ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے زمانے سے متصل ہیں ۔یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے مسلمانوں کو سب سے بہتر قراردیا ۔ظاہرہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے لوگوں سے مراد صحابہ ہیں۔ صحابہ کے بعد تابعین ہیں اور تابعین کے بعد تبع تابعین ہیں۔

صحابہ کون لوگ ہیں؟ اس بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:الصحابی من لقی النبی صلی اللہ علیہ وسلم مومنا بہ ومات علی الاسلام”صحابی اس کو کہتے ہیں جس نے ایمان کی حالت میں بنی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی ہو اور ایمان کی حالت میں ہی اس کی موت آئی ہو۔“اس تعریف کی روسے ہر وہ مومن صحابی ہوگا جس نے ایمان کی حالت میں رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو دیکھا ہو یا ملاقات کی ہواور ایمان کی حالت میں اس کا انتقال ہوا ہو۔

صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت وعظمت کے سلسلے میں بہت سی حدیثیں موجودہیں اور قرآن کی آیات بھی۔ سورہ توبہ کی آیت نمبر ۱۰۰ میں صحابہ کے بارے میں ارشاد فرمایاگیا:

وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِینَ اتَّبَعُوہُم بِإِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّہُ عَنْہُمْ وَرَضُواْ عَنْہُ وَأَعَدَّ لَہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی تَحْتَہَا الأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا أَبَداً ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ (التوبة:۱۰۰)

ترجمہ: ”اور مہاجرین وانصار میں سے وہ اولین لوگ( جو ہجرت اور ایمان میں) دوسرے پر سبقت لے گئے اور وہ لوگ بھی جنھوں نے ان اولین لوگوں کی اخلاص کے ساتھ پیروی کی،اللہ ان سب سے راضی ہوگیا اور وہ سب اللہ سے راضی ہوگئے، اور اللہ نے ان کے لیے ایسی جنت تیار کی ہے کہ جس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔“

اگر غور وفکر کیاجائے تو صحابہ کے مقام ومرتبہ کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتاہے کہ صحابہ کو رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل ہوئی۔انھوں نے براہِ راست آپ سے فیضان حاصل کیا۔ساتھ ہی صحابہ نے اللہ کے رسول کی اتباع کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا۔ جب بھی آپ کچھ ارشاد فرماتے، صحابہ بصد شوق واشتیاق اس کی تکمیل میں لگ جاتے، مال، جان سب کچھ آپ کے اشارے پر قربان کرنے کے لیے تیار رہتے ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کی آواز بلند کی تو مکہ کے لوگ آپ کے دشمن ہوگئے، وہ آپ پر ظلم ڈھانے لگے، ایسے ہی ان لوگوں پر بھی جودائرہٴ اسلام میں داخل ہوگئے ۔ ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے؛ مگر وہ کسی بھی صورت میں اسلام کو نہ چھوڑتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کررہے تھے، تو اس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ساتھ تھے؛حالانکہ یہ وقت بڑا صبر آزما تھا۔دشمن پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو العیاذ باللہ قتل کرنے کے درپے تھے،انھوں نے آپ کے گھر کا محاصرہ کرلیا تھا، اور پھر صبح ہوتے ہی آپ کو ڈھونڈنے کے لیے وہ نکل پڑے تھے۔ یعنی دشمنانِ اسلام کی پوری ایک جماعت آپ کا پیچھا کررہی تھی۔ ایسے موقع پر حضرت ابوبکر اپنی جان کی بازی لگاکر آپ کے ساتھ تھے، انھیں اپنی جان اتنی عزیز نہ تھی جتنی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ غار میں بھی انھوں نے سانپ کے کاٹنے کی کوئی پرواہ نہ کی، اپنی جان پر کھیلنا گوارہ کیا؛ مگر آپ کو کوئی تکلیف پہنچے اس کو پسند نہ کیا۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے ہجرت کے لیے نکلے تھے تو امانتیں تقسیم کرنے کی غرض سے حضرت علی کو چھوڑ آئے تھے ۔حضرت علی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر لیٹے ہوئے تھے، اس بات سے بے پرواہ ہوکر کہ دشمن اس حالت میں ان پر حملہ بھی کرسکتے ہیں۔

غزوہٴ بدر میں صحابہ کی مختصر سی جماعت دشمنانِ اسلام سے لڑنے کے لیے صف آرا تھی۔سامنے ان سے تین گنا زیادہ مسلّح کافر تھے، ان میں کئی بڑے بہادر اور سالار تھے، اُدھر یہ بے سروسامانی کے عالم میں مقابلے کے لیے تیار تھے۔ یہاں بھی وہ اپنی جانوں کو قربان کرنے کے لیے تیار تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس غزوہ میں موجود تھے۔غزوہٴ احد میں ذراسی غفلت کی وجہ سے کفار ومشرکین نے مسلمانوں پر تابڑتوڑ حملے شروع کردیے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تیروں کی بارش ہورہی تھی، صحابہ نے آپ کے گرد حلقہ بنالیا تھا، اب جو تیرآتے تھے، ان کی پیٹھوں میں گھستے چلے جاتے تھے، وہ تیروں کی تکالیف کو برداشت کررہے تھے؛ مگر اپنی جگہ نہیں چھوڑرہے تھے؛ کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی تیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمِ اطہر کو لگے۔ کیسی کیسی قربانیاں تھیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی۔بہت سے غزوات میں صحابہ نے دشمنوں کا مقابلہ کیا، کم ہونے کے باوجود، بے سروسامانی کے عالم میں ہونے کے باوجود؛ گویاکہ ایک ایک اشارے پر صحابہ اپنی جانوں کو نچھاورکرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ صرف جان ہی نہیں؛ بلکہ مال کی قربانی کے لیے بھی وہ ہمہ وقت آمادہ رہتے تھے۔ انھیں بھوکاپیاسا رہنا پسند تھا؛ مگر اتباع رسول کو چھوڑنا گوارہ نہ تھا۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے راہِ خدا میں خرچ کرنے کے فضائل بیان کیے تو حضرت ابوبکر اپنے گھر کا سارااثاثہ لے آئے، گھر میں کچھ بھی نہ چھوڑا، حضرت عمر اپنے گھر کا آدھا سامان لے آئے اور دوسرے صحابہ بھی حتی الوسع اپنے گھروں سے چیزیں لے آئے۔ صحابہٴ کرام نے ہر سطح پر اسلام کے لیے قربانیاں پیش کیں۔ایسی قربانیاں جن کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ دراصل وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے، ان کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ تھی۔

صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کی اسلام کے تئیں مخلصانہ قربانیوں کے سبب ہی وہ امت محمدیہ میں سب سے اہم قرار پائے اور ان کی اہمیت وعظمت کو قرآن نے بھی بیان کیا اور حدیث نے بھی۔حضرت ابوموسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

النجومُ أمنة للسماء فاذا ذہبتِ النجومُ اتیٰ السماءُ بما تُوْعَدُ، وأنا أمنةٌ لأصحابی، فاذا ذہبت أتٰی أصحابي مایوعدون، وأصحابی أمنة لأمتی، فاذا ذہب أصحابي أتٰی أمتی مایوعدون․

ترجمہ: ”یعنی ستارے آسمان کے لیے امان ہیں، جب ستارے جھڑجائیں گے تو آسمان بھی اس چیز کو لے آئے گا جس کا اس سے وعدہ کیا گیاہے، اور میں اپنے صحابہ کے لیے امان ہوں، اور جب میں فوت ہوجاؤں گا تو میرے صحابہ پر وہ وقت آئے گا جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے، اور میرے صحابہ میری امت کے لیے امان ہیں جب میرے صحابہ ختم ہوجائیں گے تو میری امت پر وہ وقت آئے گا جس کا اُن سے وعدہ کیا گیا ہے۔“ (مسلم شریف، حدیث نمبر ۲۵۳۱)

مذکورہ تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم عظیم مقام کے حامل ہیں؛اس لیے آنے والی نسلوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان کا احترام وقدر کریں ۔ان کی زندگیوں کو اپنے لیے نمونہ خیال کریں، ان کے اقوال اور اعمال کو سامنے رکھیں؛لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ متعدد لوگ اور گروہ مسلمانوں میں ایسے ہیں جو صحابہٴ کرام کا ایسا احترام نہیں کرتے، جیسا کہ ان کا حق ہے، بعض لوگ تو صحابہ کو برا بھلاتک کہہ ڈالتے ہیں، بعض لوگ کچھ خاص صحابہ کو برا کہتے ہیں؛جب کہ صحابہ کو برا کہنا ناجائز اور حرام ہے،یہاں تک کہ انھیں اہم نہ سمجھنا بھی درست نہیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو قدر کی نگاہوں سے دیکھتے تھے، انھیں عزیز جانتے تھے، تو دوسرے لوگوں کو کیا حق پہنچتاہے کہ وہ انھیں بُرا کہیں۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو برا کہنے سے منع کیا ہے۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

”لاتَسُبُّوا أصحابي فَوالذي نفسي بیدہ، لو أن أحدَکم أنفقَ مثلَ أُحُدٍذَہَبًا، ما بلغ مُدَّ أحَدِہِمْ وَلَانَصِیْفَہ․

ترجمہ: ”میرے صحابہ کو گالیاں مت دینا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم میں سے کوئی شخص اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرڈالے، وہ ان کے ایک مد کے برابر نہیں ہوسکتا اور نہ آدھے مد کے برابر (بخاری، ومسلم)

اس حدیث سے صاف معلوم ہوگیا کہ صحابہ کو برا کہنے کی قطعی ممانعت ہے۔ اس حدیث سے صحابہ کی فضیلت وعظمت کا بھی پتہ چلتا ہے؛اسی لیے علماء بیان کرتے ہیں کہ لوگ صحابہ کے مقام کو نہیں پہنچ سکتے۔مذکورہ حدیث میںآ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابہ کے تئیں محبت کا بھی پتہ چلتا ہے۔ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو صحابہ سے محبت کرنے کی ترغیب دی ہے اور ان سے بغض رکھنے والے کو منافق کہا ہے،آپ نے فرمایا:

” ان سے محبت صرف مومن ہی کرسکتا ہے اور ان سے بغض رکھنے والا منافق ہی ہوسکتا ہے، اورجو ان سے محبت کرے گا اللہ اس سے محبت کرے گا، اور جو ان سے بغض رکھے گا، اللہ اس سے بغض رکھے گا۔“(بخاری ومسلم)

ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو گالیاں دینے والوں پر لعنت بھیجی ہے۔آپ نے فرمایا:

 من سَبَّ أصحابی فعلیہ لعنةُ اللّٰہ والملائکةِ والناس أجمعین․

ترجمہ:”یعنی جس شخص نے میرے صحابہٴ کرام کو گالیاں دیں، اس پر اللہ کی لعنت، فرشتوں کی لعنت اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔“

مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ صحابہ کو قدر واحترام کی نگاہوں سے دیکھیں، ان کی زندگیوں کو اپنے لیے نمونہ خیال کریں اور اس بات کی ترغیب لیں کہ وہ کس طرح زندگی گزارتے تھے، اسلام پر کتنا عمل کرتے تھے اور کیسی کیسی قربانیاں دینے کے لیے تیار رہتے تھے!

————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ: 1،  جلد:102‏، ربیع الثانی –جمادی الاول 1439ہجری مطابق جنوری 2018ء

#             #             #

Related Posts