از:ڈاکٹرفخرالاسلام الہ آبادی مظاہری، علیگ

اشرفی ٹریڈرس، محلہ خانقاہ، دیوبند

حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی نے نصوص کی فہم و تفہیم کے لیے مختلف علوم و فنون کے تناظر میں علمِ منطق اور معقولات و فلسفہ کی ضرورت و اہمیت پر ایک نہایت مکمل اور عمدہ گفتگو فرمائی ہے، اور اِس حوالہ سے معاصرین کے اِشکالات کو دفع کیا ہے، یہ گفتگو بڑی اہم ہے، اوربدلتے حالات میں مدارِس کی ترجیحات کی تعیین میں کلیدی حیثیت کی حامل ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: ”قاسم العلوم حضرت نانوتوی: اَحوال وکمالات ․․․․․“، از: جناب نور الحسن راشد کاندھلوی ص۶۶۶، تا ۶۷۳)۔ دورِ حاضر میں اِس کی ضرورت اور اِطلاقی حیثیت اس لیے قائم ہے کہ حضرت نانوتوی کے زمانہ میں،اِن فنون کے حوالہ سے جو اِشکالات تھے، وہی اِشکالات آج بھی ہیں ، اورمعقولات کی طرف توجہ کے باب میں جو داعیہعصرِ نانوتوی میں تھا، وہی دواعی آج بھی موجود ہیں؛ کیوں کہ یہ بات اپنے موقع پر ثابت ہو چکی ہے کہ بیسویں اور اکیسویں صدی عیسوی کے افکار، مسائل اور مذہبِ اسلام سے مزاحمت کے اُصول انیسویں صدی کے ہی ہیں،اور یہ بات بھی ثابت ہے کہ اُن کے جواب کے اصول بھی وہی ہیں جنھیں انیسویں صدی عیسوی میں حضرت نانوتوی نے مقرر فرمایا تھا۔ اِس لیے مذکورہ مضمون کی افادیت و اہمیت کے پیش نظر اَلفاظ کو محفوظ رکھتے ہوئے اُس کی تلخیص، ذیلی عنوانات کے اِضافہ اور کسی قدر بین الہلالین توضیحات کے ساتھ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔

علمِ صرف ونحو، اَدب ، معانی، بیان و بدیع اور علم منطق ومعقول کی ضروت، اور اِن کی باہمی نسبت پر کلام کرتے ہوئے حضرت نانوتویفر ماتے ہیں:

            ”صرف ونحو تواَوضاعِ صیغہ ہائے مختلفہ اور مدلولاتِ اِضافاتِ متعددہ، مثل فاعلیت و مفعو لیت میں محتاج اِلیہ ہیں․․․․․ (جہاں تک)علم ادب (کی بات ہے،تو وہ) اطلاعِ لغات وصلات و محاورات میں مفید“ہے۔رہے علم معانی، بیان و بدیع،تو وہ: ”قدر شناسیِ فصاحت و بلاغت، یعنی حسنِ عبارتِ قرآن و حدیث میں کارآمد “۔

            ”علمِ منطق کمالِ استدلال، و دلائلِ خدا وندی و نبوی … میں نافع“ہے۔

            مطلب یہ ہے کہ اگر صرف و نحو واَدب سے اعراب شناسی اور عبارت فہمی حاصل ہو تی ہے،اور مفہوم و مضمون واضح ہوتا ہے، علمِ بلاغت سے حسنِ کلام کا اِدراک ہوتا ہے، تومنطق سے مقصد کلام کی واقفیت، اور خوبیِ اِستدلال کا ہنر پیدا ہو تا ہے۔

            ”اور ظاہر ہے کہ جو نسبت عبارت و معانی میں ہے(یعنی صرف و نحو و اَدب کو جو نسبت علمِ بلاغت سے ہے)، وہی نسبت حسنِ عبارت اور خوبیِ اِستدلال میں(یعنی بلاغت اور منطق میں) ہوگی؛ کیوں کہ وہ(بلاغت) عبارت سے متعلق ہے، تو یہ (منطق) معانی سے مربوط، پھر کیوں کر کہہ دیجیے کہ علم معانی اور بیان تو جائز ہو، اور منطق نا جائز ہو“(۱)۔

منطق اور فلسفہ سے شغف رکھنے والے علومِ نقلیہ سے بے زار ہوجاتے ہیں؟

            ”اور اگر اِشتغالِ منطق؛ گاہ وبے گاہ، یا بعض افراد کے حق میں موجبِ محرومیِ علوم دینیہ ہو جا تا ہے، تو یہ بات صرف و نحو و غیرہ علوم مسلَّمة الاِباحة میں بھی بالبداہت موجود ہے“۔

کیا اَکابر سے منطق اور معقولات کی مذمت منقول ہے؟

            ”جس کسی نے بزرگانِ دین میں سے منطق کو برا کہا ہے،بایں نظر کہا ہے“(۲)۔

            ”کم فہموں اور کم ہمتوں کے حق میں اِ س کا مشغلہ تحصیلِ علومِ دین میں حارج ہو، تو اُس وقت وہ ذریعہٴ خیر نہ رہا، وسیلہٴ شر ہو گیا“۔

 بزرگانِ سلف کی فہم کامل تھی؛ اس لیے اُنھوں نے منطق کی طرف توجہ نہیں کی

            ”یا یہ وجہ ہو ئی کہ خود بہ وجہِ کمالِ فہم ان بزرگوں کو منطق کی ضرورت نہ ہوئی، جو (اِس فن کے) مطالعہ کی نو بت آتی، (اس لیے، وہ) یہ سمجھے کہ یہ علم من جملہ علومِ اِیجاد کردہٴ حکمائے یو نان ہے،اور اُن (حکمائے یو نان)کے اِیجاد کیے ہو ئے علوم کی مخالفت کسی قدر یقینی تھی؛ اس لیے یہی خیال جم گیا کہ یہ علمِ بھی مخالفِ دینِ اسلام ہی ہو گا۔ورنہ اِس علم کی حقیقت سے آگاہ ہو تے، اور اِس زمانہ کے نیم ملاوٴں کے اَفہام کو دیکھتے؛ جو چھوٹتے ہی قرآن وحدیث کو لے بیٹھتے ہیں، اور با وجودے کہ قرآن کتابِ مبین ،اور اُس کی آیات واقعی بیِّنات ہیں، فہمِ مطالب واحکام میں ایسی طرح دھکے کھاتے ہیں، جیسے آفتابِ نیم روز کے ہوتے، اَندھے دھکے کھا تے ہیں۔

            پھر اُن خرابیوں کو دیکھتے جو ایسے لو گوں کے ہا تھوں دین میں واقع ہو ئی ہیں، ہر گز یوں نہ فرماتے(منطق و فلسفہ کو برا نہ کہتے)؛بلکہ علمائے جامعین کی برکات اور فیوض کو دیکھ کر تو عجب نہیں، بشرطِ حسنِ نیت بوجہِ توسُّلِ مذکور(کہ یہ منطق و معقولات: خوبیٴِ اِستدلال، کمالِ اِستدلال،نیز تشحیذِ ذہن کا ذریعہ ہونے، اور مراداتِ خدا وندی و نبوی کے سمجھنے میں اور اُن پر پڑنے والے شبہات کے اِزالہ میں نافع ہیں۔ف)ترغیب ہی فرماتے“(۳)۔

            (اور ترغیب ۔ف) ”کیوں نہ فرماتے؛ وجہِ حر متِ علومِ فلسفہ اگر ہے تو مخالفتِ دینِ اسلام ہے؛ چناں چہ تصریحاتِ فقہاء اِس پر شاہد ہیں، سو فرمائیے تو سہی!منطق کا وہ کون سا مسئلہ ہے جس کو یوں کہیے(کہ )مخالفِ عقائدِدین و اسلام، اور احکامِ دین وایمان ہے؛ مگر جب مخالفت نہیں، اور وجہِ ممانعت مخالفت تھی، تو (اگر اِس کے بعد بھی اُنہوں نے برا کہا، توسوائے اس کے ) اور کیا کہیے کہ بوجہِ نا واقفیتِ حقیقتِ علم مذکور( منطق وفلسفہ کی حقیقت سے نا واقف ہو نے کی وجہ سے) فقط اِنتسابِ فلاسفہ سے اِن فقہاء کو دھوکا ہوا،جو اس کو بھی ہم سنگِ علومِ مخالفہ سمجھ گئے۔(پھر جب معلوم ہو گیا کہ جن فقہاء نے ممانعت کی، اُنہوں نے اپنی ناواقفیت کی وجہ سے عقائد اور اَحکام دین کے مخالف سمجھ کرممانعت کی؛ لیکن جب اِن فنون میں عقائد اور اسلامی احکام کی مخالفت نہیں ہے، تواُن کی ممانعت بھی ثابت نہ ہو گی،لہٰذا۔ف ) کلامِ فقہاء سے بہ نسبت علومِ فلسفہ(ممانعت کو) ایسی عامہ مطلقہ سمجھ لینا، اُنہی کا کام ہے جن کو فہمِ ثاقب خداوند عالم نے عطا نہیں کیا“۔

فلسفہ اور معقولات میں ا کابر وسلف کی مہارت

            ”صاحبو! (فلسفہ اور معقولات میں اکابر وسلف کوجومہارت حاصل رہی ہے، اُس کا اِجمالی جائزہ بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ اَب جو معقولات سے گریز کی راہ تجویز کی جانے لگی ہے، وہ محض مغربی اَثر ہے، جس کا نتیجہ صحیح اُصولوں کا ترک اور خیالات اور عقائد میں اِلتباسِ فکری ہے، فلسفہ اور معقولات میں اکابر وسلف کے شغف اورمہارت کی مختصر روداد یہ ہے کہ) اِس زمانہ سے لے کر آغازِ سلطنتِ عباسیہ تک جس میں علومِ فلسفہ یو نانی سے عربی میں ترجمہ ہوئے، لاکھوں علماء اور اولیاء ایسے ہیں اور گزرے، جن کو علومِ مذکورہ میں مہارتِ کاملہ تھی اور ہے ․․․․․ علمائے ضلع سہارنپور کی جامعیت خود مشہور ہے“۔(۴)

            اور اَب مابعد کے زمانہ میں حضرت قدس سرہ کی تحریریں ہیں، موجودہ زمانہ کے تمام اعتراض جو علومِ جدیدہ، سائنس و عقلیات کی راہ سے پیدا ہوتے ہوں، اُن شبہات کو دور کر نے کے لیے یہ تحریریں نسخہٴ اِکسیر ہیں۔

            ”پہلے زمانہ کی سنئے!․․․․․ مولانا عبد الحی صاحب، مولانا اسمٰعیل صاحب شہید، مولانا شاہ عبدالقادر صاحب،مولانا شاہ رفیع الدین صاحب، مولانا شاہ عبد العزیز صاحب، مولانا شاہ ولی الله صاحب رحمةالله علیہم کا کمال، علومِ مذکورہ میں شہرہٴ آفاق ہے۔حضرت شاہ عبد الحق صاحب محدث دہلوی اور حضرت شیخ مجددِ الف ثانی رحمةالله علیہما کا کمال، علومِ مذکورہ میں اُن کی تصانیف سے ظاہر و باہر ہے۔حضرت علامہ سعد الدین تفتا زانی اور علامہ سید شریف مصنفانِ شرحِ مقاصد وشرحِ مواقف اور علامہ جلال الدین دوَّانی مصنفِ شرحِ عقائد ، ملا جلال؛ جو تینوں کے تینوں امامِ علمِ عقائد ہیں، علومِ مذکورہ میں ایسے کامل ہیں کہ کا ہے کو کوئی ہوگا!حضرت امام فخر الدین رازی، حضرت امام غزالی، حضرت شیخ محی الدین عربی یعنی حضرت شیخ اکبر رحمةالله علیہم اجمعین کا علوم مذکورہ میں کمال ایسا نہیں جو ادنی سے اعلی تک کسی پر مخفی ہو ․․․․․“۔

             مذکورہ بالا تصریحات کی روشنی میں یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ معقولات و فلسفہ نہ صرف مفید ہیں، بلکہ علومِ شرعیہ کے لیے معین ہیں اوردفاعِ اسلام کے باب میں ضروری اور لابدی ہیں، اِن کی اہمیت سلف سے خلف تک تسلیم شدہ ہے؛اس لیے:

            ” اگرنیت اچھی ہو، اور لیاقت کما ینبغی (قابلِ لحاظ) خدا داد موجود ہو، یعنی معلم و متعلّم بغرضِ تشحیذِ ذہن، یا ردِّعقائدِ باطلہ، یا اِظہار و ظہورِ بطلانِ مسائلِ مخالفہ عقائدِ اسلام، یہ (علوم عقلیہ کا) مشغلہ اختیار کریں، اور پھر دونوں میں یہ لیاقت بھی ہو(کہ)معلم(مخالف عقائد کے) اِظہارِ بطلان پر قادر ہو اور متعلّم دلائلِ اِبطال کے سمجھنے کی لیاقت رکھتا ہو، تو بے شک تحصیلِ علوم مذکورہ داخلِ مثوبات و حسنات ہو گی“۔یعنی منطق و فلسفہ کا حاصل کرنا عملِ نیک اور کارِ ثواب ہوگا، اور ایسی صورت میں:

            ”․․․․․اِشاعتِ علوم ربانی اور تائیدِ عقائدِاَحکامِ حقانی منجملہ سبیل الله؛ بلکہ سبیل الله میں بھی اول درجہ کا(قرار پائے گا۔ف)؛ اِس لیے کہ قِوَام و قیامِ دین، بے علومِ دین اور تائیدِ علومِ دین وردِّعقائدِ مخالفہٴ عقائدِ دین، متصور نہیں۔ اگر تمام عالم مسلمان ہو جائے، تو اِعلائے کلمة الله کی حاجت نہیں، پر علومِ دین کی حاجت جوں کی توں رہے“۔

#         #         #

حواشی

(۱)           حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی مجلس میں ایک شخص نے عرض کیا: فلسفہ کارآمد چیز تو ضرور ہے، فرما یا: ہاں، عمقِ نظر و دقتِ فکر اس سے پیدا ہوتی ہے“۔ ”محض اِستعداد کے لیے پڑھا یا جا ئے، خدا کی نعمت ہیں، اِن سے دینیات میں بہت معاونت و مدد ملتی ہے، لطیف فرق اِنہی سے سمجھ میں آتے ہیں“ ۔”علم کلام میں،منطق میں مہارت ہو، تو فنِ حدیث اور فقہ کے سمجھنے میں بڑی سہولت ہوتی ہے“۔ ”معقول کو اِس غرض سے پڑھا جاوے کہ اِس سے فہم واِستدلال میں سہولت ہو جا تی ہے، تو اُس وقت اِس کا وہی حکم ہے جو نحو، صرف، بلاغت وغیرہ کا حکم ہے کہ یہ سب علومِ آلیہ ہیں، اگراِن سے علمِ دین میں مدد لی جائے، تو تبعاً اِن سے بھی ثواب مل جا تا ہے “۔ (کمالاتِ اشرفیہ ص۲۵۷،ملفوظات جلد ۱ ص۱۴۷،اشرف التفاسیر جلد۴ ص۷۲علی الترتیب) ۔

(۲)         ایک زمانے میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نے دار العلوم دیوبند کے نصاب سے فلسفہ کی بعض کتابیں خارج کر دیں،تو ”بعض طلبہ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی سے شکایت کرنے لگے کہ حضرت نے فلسفہ کو حرام کر دیا، فرمایا : ہرگز نہیں، حضرت نے نہیں حرام فر مایا؛ بلکہ تمہاری طبیعتوں نے حرام کیا ہے، ہم تو پڑھتے ہیں اور ہم کو امید ہے کہ جیسے بخاری اور مسلم کے پڑھنے میں ہم کو ثواب ملتا ہے، ایسے ہی فلسفہ کے پڑھنے میں بھی ملے گا، ہم تو اِعانت فی الدین کی وجہ سے فلسفہ کو پڑھتے پڑھاتے ہیں“۔(ملفوظات جلد۲۹ص۱۶۶،۱۶۷)

(۳)         حضرت تھانوی نے اِس باب میں ایک واقعہ ذکر کیا ہے،اُس کا تذکرہ اِس موقع پر لطف اور فائدہ سے خالی نہیں، فرما تے ہیں:

                ”ایک دفعہ ایک مولوی اور ایک نئے تعلیم یا فتہ صاحب سے گفتگو ہو ئی، یہ تھے تو نئے خیال کے؛لیکن فلسفہ داں اور سائنس داں اور علماء کی صحبت پا ئے ہوئے تھے۔ گفتگو اِس آیت میں تھی فَإِمَّا مَنّاً بَعْدُ وَاِمَّا فِداءً (محمد: پ:۲۶، آیت۶) سید احمد خاں نے اِس سے اِستدلال کیا ہے منعِ اِسترقاق، یعنی بردہ فروشی(غلام بنانے،اور فروخت کر نے) کی ممانعت پرکہ قرآن میں تو صرف مَنْ اور فداء ہے۔ یعنی قیدیوں کا حکم یہ آیا ہے کہ یا مال لے کر چھوڑ دیا جاوے، یایوں ہی تبرُّعاً چھوڑ دیا جا وے، یہ صرف علماء کی گڑھت ہے کہ بردہ فروشی (غلام بنانا، اور فروخت کرنا) جائز ہے۔وہ نئے خیال والے صاحب کہہ رہے تھے کہ دیکھیے! سرسید کا اِستدلال آیت سے ہے۔اِس کا آپ کے پاس کیا جواب ہے؟مولوی صاحب نے کہا: یہ بھی غور کیا آپ نے کہ فَإِمَّا منّاً بَعْدُ وَاِمَّا فِداء ً،قضیہ کون سا ہے؟بس اِتنے ہی جواب سے وہ سمجھ گئے، اور کہا :بس جواب مل گیا۔واقعی اِس کے منفصلہ حقیقیہ، یا مانعة الخلو ہو نے پر کوئی دلیل نہیں، اور اِستدلال اِسی پر موقوف ہے، ممکن ہے قضیہ مانعة الجمع ہو، وَاِذا جاء الاحتمال بَطَلَ الاستدلالُ․(ملفوظات جلد ۲۹، ص۱۷۴،۱۷۵)

(۴)         اِس کی نہایت نمایاں مثال اپنے زمانہ میں خودحضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی کا وجود تھا، حکمت و فلسفہ اور فنونِ عقلیہ میں حضرت کے عبور اور مہارت کا یہ عالم تھا کہ رام پور میں اہلِ علم عقلیین کے بعض اعتراضات سننے کے بعد خاص کیفیت میں حضرت مولانا نانوتوی کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ بھی ادا کرائے گئے:

                ”لوگ گھر میں بیٹھ کر اعتراض کرتے ہیں، اگر کچھ حوصلہ ہے تو میدان میں آجائیں؛ مگر ہرگز اِس کی توقع لے کر نہ آئیں کہ وہ قاسم سے عہدہ برآ ہو سکیں گے، میں کچھ نہیں ہوں؛ مگر جن کی جوتیاں میں نے سیدھی کی ہیں،وہ سب کچھ تھے“۔ (سوانحِ قاسمی، ص۳۷۲)۔

—————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ: 1،  جلد:102‏، ربیع الثانی –جمادی الاول 1439ہجری مطابق جنوری 2018ء

#             #             #

Related Posts