سوال: غیرمسلم کے تہواروں پر مبارک باد دی جاسکتی ہے کیا؟ غیرمسلم حضرات اسلامی تہواروں پر فون کے ذریعے یا پھر whatsaap کے massages کے ذریعے اسلامی تہواروں کی مبارک باد دیتے ہیں اور اگر ہم نہ دیں تو تنگ نظر یا کٹر اسلامی سمجھتے ہیں تو ایسے حالات میں کیا کرسکتے ہیں، برائے کرم رہنمائی فرمائیں۔

            جواب: مسلمانوں کے لیے غیرمسلم کے تہواروں پر مبارکبادی پیش کرنا درست نہیں اور اس پر ہمیں تنگ نظر ہونے کا طعنہ دینا یہ خود غیرمسلموں کی تنگ نظری ہے، یہ ہماری وسعت ظرفی ہے کہ ہم مسلمان، اسلامی تہواروں پر غیرمسلموں کی جانب سے مبارکبادی ملنے کی نہ چاہت رکھتے ہیں نہ اُن کو مجبور کرتے ہیں اورنہ، نہ دینے کی وجہ سے ہم ان کو تنگ نظر کہتے ہیں۔

فقط واللّٰہ اعلم

 وقار علی غفرلہ، نائب مفتی

الجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، محمود حسن بلند شہری غفرلہ

مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

======================

            سوال: میرا سوال یہ ہے کہ میری ناک تھوڑی موٹی اور آگے سے چوڑی ہے جس کی وجہ سے میں ہمیشہ احساس کمتری میں مبتلا رہا ہوں ، اپنی ناک کی وجہ سے میں نئے لوگوں سے بھی ملنے سے اکثر کتراتا ہوں۔ اب کچھ عرصے بعد میری شادی ہونے والی ہے ، میں چاہتا ہوں کہ میری بیوی کو میں جاذب نظر آؤں اور میں خود بھی اس کے سامنے پر اعتماد رہوں۔ کیا ایسی صورت میں ناک کی معمولی سی سرجری کروانا گناہ اور حرام ہے ؟

            جواب: جسم میں اگر پیدائشی طور پر ایسا ظاہری نقص یا عیب ہو کہ جو عام فطری ہیئت سے ہٹ کر ہو یا کسی حادثے کی وجہ سے ایسا عیب پیدا ہوگیا ہو اور اس نقص وعیب کو زائل کرنے اورجسم کے اعضاء کو معتاد ہیئت پر کرنے کی غرض سے سرجری کرائی جائے جس میں دوسرے انسان کا کوئی جزء بدن نہ لگایا جائے اور نہ کسی حرام امر کا ارتکاب کیا جائے تو شرعاً اس کی گنجائش ہے؛ لیکن محض حسن وخوبصورتی میں اضافہ کے لیے یا دوسروں کی نظر میں خود کو جاذب نظر بنانے کے لیے سرجری کرانا مکروہ اور ناپسندیدہ عمل ہے، صورت مسئولہ میں آپ کی ناک بہت تھوڑی اور معمولی سی موٹی اور چوڑی ہے اس لیے بہت زیادہ فکر مند ہونے اور احساس کمتری میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں، عن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ: لعن اللّٰہ الواشمات والمستوشمات والتنمّصات والمتفلجات للحسن المغیرات خلق اللّٰہ تعالی (مشکاة:۳۸۱، صحیح البخاری، کتاب اللباس باب المتفلجات للحسن) قال النووي: فیہ إشارة إلی أن الحرام ہو المفعول لطلب الحسن، أما لو احتاجت إلیہ لعلاج أو عیب في الحسن ونحوہ فلا بأس بہ․ (مرقاة المصابیح: ۸/ ۲۹۵، اشرفیہ دیوبند)

فقط واللّٰہ اعلم

 وقار علی غفرلہ، نائب مفتی

الجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، محمود حسن بلند شہری غفرلہ

مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

======================

            سوال: خون دینا صرف جائز ہے ، کیا باعث ثواب بھی ہے ؟

            بعض ادارے یہ اواز لگاتے ہیں کہ کسی انسان کو خون دینا بہت زیادہ اجر و ثواب کا کام ہے اور اس طرح اور اعضاء دینا؟

            کیا خون عطیہ کرنا باعث ثواب ہے بعض بلڈ بنک والے اداروں نے یہ بھی مشہور کیا ہے کہ کسی کو خون دینے سے کسی کی زندگی بچ گئی تو اجر و ثواب اتنا ہے کہ پوری انسانیت کی زندگی بچ گئی تو کیا خون دینے میں واقعی اتنا ثواب ہے یا صرف جائز ہے ؟ ضرورت کے وقت کوئی ثواب نہیں؟ براہ کرم، رہنمائی فرمادیجیے۔

            جواب: نص قرآنی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے بنی آدم یعنی انسان کو مکرم بنایا ہے اوراس کو دوسری مخلوقات پر فضیلت وبرتری عطا کی ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ انسان بجمیع اجزائہ محترم رہے اس کے کسی جز کے ساتھ ایسا تصرف نہ کیا جائے جو تکریم انسانی کے خلاف ہو اور جس سے اس کی توہین وتذلیل ہوتی ہو، خون بھی انسانی بدن کا ایک جزء ہے اور اجزائے انسانی سے انتفاع ناجائز ہے، بنابریں عام حالات میں خون عطیہ کرنے کی اجازت نہیں، ہاں اگر کوئی مریض اضطراری حالت سے دوچار ہو اور ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون دیئے بغیر اس کی جان کو شدید خطرہ لاحق ہو ایسی شدید مجبوری اور اضطراری حالت میں کوئی شخص اس جذبے سے خون دیدے کہ اس کی زندگی بچ جائے گی تو شرعاً یہ جائز ہے اور حسن نیت کی وجہ سے ثواب کی بھی امید ہے؛ لیکن اس کے ثواب کو بہت زیادہ بڑھا چڑھاکر پیش کرنا محتاجِ دلیل ہے ہمیں اس کی صراحت نہیں ملی۔

فقط واللّٰہ اعلم

وقار علی غفرلہ، نائب مفتی

الجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، محمود حسن بلند شہری غفرلہ

مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

———————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ: 1،  جلد:102‏، ربیع الثانی –جمادی الاول 1439ہجری مطابق جنوری 2018ء

#             #             #

Related Posts