از: مولانا ندیم احمد انصاری
ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فائونڈیشن، انڈیا
تمام مسلم حلقوں میں مرکزی اقلیتی امور کی وزارات کے ذریعے بنائی گئی حج ریویو کمیٹی کی حج برائے ۲۰۲۲-۲۰۱۸ء کے لیے پیش کی گئی نئی حج پالیسی پر ناراضگی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق حج کمیٹی آف انڈیاکی نئی پالیسی کے تحت ۴۵سال سے زیادہ عمر کی خواتین کو محرم کے بغیر خواتین کے چارگروپ میں سفرِ حج کی منظوری دی گئی ہے ، جس کا تعلق ظاہر ہے انتظامی امور سے نہیں؛ بلکہ مذہب میں بے جا مداخلت سے ہے ، یہی وجہ ہے اس کی چو طرفہ مذمت ہو رہی ہے اور مطالبہ کیا جارہا ہے کہ مسلمانوں کے حق میں ایسا کوئی فرمان جاری کرنے سے گریز کیا جائے جو شریعتِ اسلامی سے ٹکراتا ہو کہ اس سے ملک میں انتشار کا اندیشہ ہے ۔اس نئی پالیسی پر ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی سمیت تقریباً تمام بیدار مغز مسلم تنظیموں کے اہم ارکان نے اپنا موقف بھی ظاہر کیا ہے، جس میں یہ تمام اس نکتے پر تقریباً متفق نظر آتے ہیں کہ پالیسی کے یہ نکات نہ صرف اسلامی شریعت کے مخالف ہیں؛بلکہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو بر انگیختہ کرنے کے مرادف بھی ہیں۔ امام بخاری کا کہنا بجا ہے کہ شرعی امور تالیوں کی گونج میں نہیں؛ بلکہ انتہائی سنجیدگی کے ساتھ شرعی نقطئہ نظر کے تحت طے ہوتے ہیں۔ انھوں نے بھارتی عازمینِ حج کو دی جانے والی سبسڈی ختم کرنے اور ان کی پروازوں کے لیے گلوبل ٹینڈر کی تجویز پر بھی وضاحت طلب کی ہے ؛ کیوں کہ حج سبسڈی کے نام پر عازمینِ حج کو جو رعایت دی جاتی ہے اس سے حاجیوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، اس سے صرف ایئر انڈیا فائدہ اٹھاتی رہی ہے ۔عام دنوں میں سعودی عرب کے لیے ہوائی جہاز کا کرایہ فی شخص زیادہ سے زیادہ ۳۵ہزار روپے ہوتا ہے ، جب کہ حجاج سے اسی سفر کے تقریباً ۹۰ ہزار روپے لیے جاتے ہیں، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حاجیوں کو جو سبسڈی دی جاتی ہے، وہ ساری کی ساری ائیر انڈیا کو چلی جاتی ہے، لہٰذا عازمینِ حج کو سعودی عرب لے جانے کے لیے کسی عالمی ائیر لائنز کی خدمات حاصل کی جائیں یا ائیر انڈیا ہی اگر یہ کام کرے تو ان دنوں میں بھی اتنا ہی وصول کیا جائے ،جتنا عام دنوں میں وصول کیا جاتا ہے ۔اس موقع پر ایک بار پھر حجاجِ کرام کے لیے قربانی کوپن کو لازم کرنے کی بات بھی کہی گئی ہے ، جس پر ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ حج کی تین قسمیں ہیں اور حجِ افرادکرنے والے پر قربانی واجب ہی نہیں ہوتی، نیز حجِ تمتع اور حجِ قران میں قربانی واجب تو ہوتی ہے؛ لیکن اس میں دیگر بہت سے مسائل ہیں، اس صورتِ حال میں حج کمیٹی کی جانب سے قربانی کی فیس لازم کرنا زیادتی ہوگی۔ خیر اس وقت ہمارے پیشِ نظر عورت کے لیے بغیر محرم سفرِ حج کے مسئلے پراسلامی، فقہی اور عملی نقطئہ نظر سے مختصر گفتگو کرنا ہے ، ملاحظہ فرمائیں:
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے : ایک شخص حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا: اے اللہ کے رسول…! حج کس چیز سے فرض ہوتا ہے ؟ آپ…نے ارشاد فرمایا: زادِ راہ اور سواری سے ۔(ترمذی:۸۱۳، ابن ماجہ:۲۸۹۶)نیز حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے : اللہ کے رسول… نے ارشاد فرمایا: مَنْ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیلًا کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے پاس توشہ اور سواری ہو۔(ابن ماجہ:۲۸۹۷) لیکن عورت پر حج فرض ہونے کے لیے ذاتی صرفے کے علاوہ ساتھ میں جانے والے محرم کا سفرِ خرچ میسر ہونا بھی لازم ہے ، ورنہ عورت پر حج فرض ہی نہیں ہوگا۔ یہ حکم اس وقت ہے جب کہ اس عورت کا یہ سفر، شرعی سفر یعنی تین دن یا اس سے زیادہ مسافت کا ہو، اس لیے کہ رسول اللہ… کاارشاد ہے : اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان رکھنے والی کسی عورت کے لیے حلال نہیں کہ وہ کوئی دن ورات کا سفر بھی بغیر محرم کے کرے ۔ (بخاری:۱۰۸۸، مسلم:۱۳۳۹)
حدیث شریف میں صراحت کے ساتھ وارد ہوا ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، انھوں نے رسول اللہ… کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت اختیار نہ کرے الا یہ کہ اس کا محرم اس کے ساتھ ہو، اور نہ کوئی عورت محرم کے بغیر سفر کرے ۔ یہ سن کر ایک شخص نے کھڑے ہوکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول…! میری بیوی حج کے لیے جا رہی ہے ، اور میرا نام فلاں غزوے کے لیے لکھا جاچکا ہے ، تو آپ… نے ارشاد فرمایا: تم جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔(بخاری:۵۲۳۳، مسلم:۱۳۴۱)
اسی لیے فقہا نے لکھا ہے کہ عورت کے ساتھ اس کا شوہر سفرِ حج پر جائے گایا کوئی محرم، لہٰذا! اگر محرم یا شوہر عورت کے ساتھ سفر کے لیے میسر نہ ہو تو عورت پر حج فرض نہیں ہوگا۔(ہندیہ:۱/۲۴۱، تاتارخانیہ:۲/۴۳۴) ہاں اگر سفرِ شرعی مسافت سے کم ہوتو اس عورت کو بغیر محرم کے یا بغیر شوہر کے بھی حج کے لیے جانا فرض ہے ؛ البتہ اگر کسی فساد وغیرہ کا اندیشہ ہو تو پھر اس شرعی مسافت سے کم میں بھی عورت کو بغیر شوہر یا محرم کے سفر کرنا مکروہ ہوگا اور ملا علی قاریؒ نے تحریر فرمایا کہ اس زمانے میں لوگوں کے فساد کی وجہ سے اسی قول پر فتویٰ دیا جائے گا۔(دیکھیے اللباب المناسک:۶۰-۶۲،زبدۃ المناسک مع عمدۃ المناسک:۳۳)نیز حنفی مسلک میں عورت خواہ جوان ہو یا بوڑھی اس کے لیے حج پر جانے کے لیے محرم کی رفاقت شرط ہے ، لہٰذا اگر کوئی بوڑھی عورت اپنے پڑوسی یا کسی اور غیر محرم کے ساتھ حج کو جانا چاہتی ہے تو نہیں جاسکتی ہے ، لہٰذا حنفی مسلک میں حکم یہ ہے کہ جب تک محرم نہ ملے حج پر نہ جائے اور آخر عمر تک محرم نہ ملے تو وصیت کرجائے کہ میری طرف سے حج بدل کرادیا جائے ۔(فتاویٰ عثمانی:۲/۲۰۱) کما فی ردالمحتار: یجب الإیصاء إن منع المرض اوخوف الطریق اولم یوجد زوج ولا محرم۔ (شامی:۲/۲۰۰)اور ہندوستان میں رہنے والے اکثر مسلمان حنفی مسلک کے پیروکار ہیں اور ان کے نزدیک بغیر محرم کے عورت اگر جائے تو حج تو اس کا (کراہت کے ساتھ ادا) ہوجائے گا؛ مگراس سفر کا گناہ سر پر رہے گا۔
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا حکمت سے پُر بیان ہے کہ گو بعض کو ائمہ کے قول پر بعض خاص قیود و شروط کے ساتھ اس کی گنجایش ہے ؛ لیکن اوّل تو عوام کو ایسی بے قیدی کی اجازت نہیں کہ جس وقت جس کا قول دل چاہا لے لیا، دوسرے جانے والیاں ان قیود و شرائط کو نہ جانتی ہیں، نہ ان کی پروا کرتی ہیں،ہر حال میں چلی جاتی ہیں جوکہ ان ائمہ کے نزدیک بھی جائز نہیں۔نیز اس وقت اتنا فساد نہ تھا، ثقہ عورتوں کے ساتھ امن غالب تھا اور اس زمانے میں فساد اس قدر غالب ہے کہ عورتوں کے ہوتے ہوئے بھی شریر طبیعتیں شرارت سے نہیں چوکتیں، پھر تعاون وہمدردی کم ہوتی جاتی ہے ، اگر بیماری وغیرہ پیش آگئی تو کم عورتوں سے اُمید ہے کہ اپنا کام چھوڑ کر ان کی امداد کریں، اکثر لوگوں کو خصوصاً ضعفاء و نسواں کو نفسی نفسی میں مشغول دیکھا ہے ، تو بہ وجہ مجبوری مرد ہی امداد کریں گے ، تو لا محالہ اُتار نے میں چڑھانے میں اجنبی مرد اس کا ہاتھ بھی پکڑیں گے ، کمر بھی تھامیں گے ، تو ایسے وقت فتن سے محفوظ رہنا جانبین کا یا ایک ہی جانب کا مشکل ہے ، خاص کر قلب اور عین کے فتنے سے ، تو ایسے حج کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ جب شریعت اس کو حاضر ہونے کا حکم نہیں کرتی؛ بلکہ روکتی ہے ، تو پھر یہ کیوں مصیبت میں پڑتی ہے ؟ اگر اس عورت کو مالی استطاعت ہو، اور محرم و شوہر موجود نہ ہو، یا جانے پر آمادہ نہ ہو؛کیوں کہ اس کو شرعاً اس کا اختیار حاصل ہے تو اس میں فقہاء مختلف ہیں کہ آیا استطاعتِ مالی سے نفسِ وجوب حج کا اس کے ذمے ہوگیا ہے یا نفسِ وجوب بھی نہیں ہوا، پہلے قول پر اس عورت کے ذمے حجِ بدل کی وصیت کرنا واجب ہوگا اور دوسرے قول پر نہیں، لیکن احتیاط اسی میں ہے کہ وصیت کی جائے ،اگر یہ وسوسہ ہو کہ اگر وصیت نافذ نہ کی گئی تو حج میرے ذمے رہے گا، اس کا جواب یہ ہے کہ خواہ ایسا ہو؛ لیکن گناہ گار نہ ہوگی؛ کیوں کہ اس نے اپنے ذمے کے واجب کو یعنی وصیت کو ادا کردیا، اب نفاذ اس کا جب کہ مال چھوڑ جائے وَرثا کے ذمے واجب ہے ،اگر وہ کوتاہی کریں گے اس کا مواخذہ ان سے ہوگا۔(اصلاحِ انقلابِ امت:۱/۲۰۴بترمیم)
مفتیِ اعظم ہند، مفتی کفایت اللہ دہلویؒ نے لکھا ہے کہ بغیر محرم کے عورت کو حج کے لیے جانا نہیں چاہیے، اگر چہ بوڑھی عورت ہو۔ (کفایت المفتی:۴/۳۴۱) کمافی الخانیۃ: ولا یثبت الاستطاعۃ للمرأۃ إذا کان بینھا وبین مکۃ مسیرۃ سفر شابۃ کانت أو عجوزۃ إلا بمحرم۔ (۱/۱۳۵)بلکہ یہاں تک کہا گیا ہے کہ جس طرح بعض خواتین ہندوستان سے جدہ تک تنہا سفر کرکے چلی جاتی ہیں اور وہاں ان کا کوئی محرم مقیم ہوتا ہے ، جو آگے کے سفر میں ساتھ ہو جاتا ہے ، ان کا ہندوستان سے جدہ تک اس طرح جانا بھی درست نہیں۔ فتاویٰ رحیمیہ میں ایک سوال کے جواب میں ہے کہ ایسی عورت جانا ہی چاہتی ہے تو ہندوستان سے اپنے ساتھ کسی محرم کو کرلے یا پھر خود لڑکا (یا جو بھی محرم ہو، وہ) آکر والدہ کو ساتھ لے جاوے اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں۔ (فتاویٰ رحیمیہ:۸/۶۶)
یہ بھی واضح رہے کہ محرم وہ ہوتاہے جس سے اس عورت کانکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہو مثلاً؛ باپ، بیٹا، دادا، نانا، نواسہ، پوتا، بھانجا، بھتیجا وغیرہ، اور عورت خاوند یامحرم کے ساتھ ہی حج یاسفرکرسکتی ہے۔ فی ردالمحتار: (قولہ مع زوج أومحرم)۔۔ والمحرم من لایجوز لہ مناکحتھا علی التأبید بقرابۃ أو رضاع أو صھریۃ۔۔ (قولہ فی سفر) ھو ثلاثۃ أیام ولیالیھا فیباح لھا الخروج إلی ما دونہ لحاجۃ بغیر محرم۔ (۲/۴۶۴) اور ’’کتاب الفتاویٰ‘‘ میں ہے کہ محرم رشتے داروں سے وہ اقارب مرادہیں ،جن سے ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہے ، نسبی رشتے داروں میں باپ دادا اور ان کاآبائی سلسلہ ،چچا ،ماموں ، بیٹا،بیٹے اور بیٹی کی اولاد ، اور ان کاآبائی سلسلۂ اولاد ،بھتیجا،بھانجہ ،سسرالی رشتے داروں میں خسر اور ان کاآبائی سلسلہ ،شوہر کی اولاد،اسی طرح داماد، یہ سب ہمیشہ کے لیے حرام ہیں،تیسرے وہ لوگ جو دودھ کے رشتہ سے حرام ہوں ،یعنی رضاعی باپ ،چچا ، ماموں ،داداوغیرہ۔جن لوگوں سے عارضی طورپر نکاح حرام ہو مثلاًپھوپھا، خالو، بہنوئی، یہ محرم نہیں ہیں؛ کیوں کہ پھوپھی ،خالہ اوربہن کے انتقال یاان کو طلاق دینے کے بعد نکاح کی حرمت ختم ہوجاتی ہے؛ اس لیے بہنوئی محرم میں داخل نہیں ہے ، نہ اس کے ساتھ سفرِ حج درست ہے اور نہ عام سفر۔ (کتاب الفتاویٰ:۴/۴۴)اور داماد سے بھی ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہے؛ یہاں تک کہ اگر نکاح کے بعد بیوی سے قربت کی نوبت نہ آئی ہو اور اس سے پہلے ہی طلاق ہو جائے ، تب بھی ساس اور داماد ایک دوسرے پر ہمیشہ کے لیے حرام ہیں ،خود قرآن مجید میں اس کی صراحت موجود ہے ،اس لیے ساس کا اپنے داماد کے ساتھ سفر حج کرنا جائز ہے؛البتہ اگر عمر میں زیادہ تفاوت نہ ہو ،یا مرد یا عورت کے اخلاق وعادات قابلِ اطمینان نہ ہوں ، یا کسی اور وجہ سے فتنے کا اندیشہ ہو، توایسی صورت میں ان کا ایک دوسرے کے ساتھ سفر کرنا مناسب نہیں ہے ۔(ایضاً:۴۲)
مختصر یہ کہ عورت پر حج فرض ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے ساتھ اس کا کوئی محرم رشتے دار موجود ہو ، اگر اس کے ساتھ کوئی محرم چلنے کو تیارنہ ہو ،یاتیار ہو؛ لیکن عورت کے اندر اتنی استطاعت نہ ہو کہ وہ اپنے علاوہ اپنے کسی محرم رشتے دار کے اخراجات ِ سفربھی برداشت کرسکے تو اس پر حج فرض نہیں۔ عورت کے محرم کے بغیر سفرنہ کرنے کے بارے میں رسول اللہ…کے متعددارشادات ہیں جو حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں؛ اس لیے خواتین کو محرم کے بغیر سفرحج سے گریز کرنا چاہیے ؛ کیوںکہ عبادتوں کا اصل مقصود اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی حاصل کرناہے اور جب شریعت میں ایک بات سے منع کردیا گیا ہوتو اس کے ارتکاب کی وجہ سے بجائے ثواب کے گناہ ہی کا اندیشہ ہے۔ شر عی اور فقہی نقطئہ نظر سے ہٹ کر عملی طورپر بھی سفرِ حج میں خواتین کے ساتھ شوہر یامحرم کاہونا نہایت ضروری محسوس ہوتاہے ۔ آب وہوا کی تبدیلی کی وجہ سے باربار طبیعت خراب ہوتی ہے ، مقام کی اجنبیت ،ازدحام اور زبان کی عدمِ واقفیت کی وجہ سے خواتین کو باربار مدد کی ضرورت پیش آتی ہے، بہت سی جگہ طویل قیام کرناپڑتاہے اور بہت سی دشوارقانونی کارروائیوں سے گزرناپڑتاہے، ان مواقع پر محر م رشتے داریاشوہر کاقدم قدم پر تعاون مطلوب ہوتاہے ۔(ایضاً:۴۳)
* * *
————————————————–
ماہنامہ دارالعلوم، شمارہ: 12، جلد:101، ربیع الاول –ربیع الثانی 1439ہجری مطابق دسمبر 2017ء