فلسفۂ قاسمی: منہج اور اصول (۲/۲)

از: مولانا محمد ساجد قاسمی ہردوئی

استاذ تفسیر وادب، دارالعلوم دیوبند

(۴)    نظائرسے حکم کا استنباط

            اس اصول کا مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کے نظائر کو سامنے رکھ کر اس چیز کا حکم ثابت کرنا۔ حضرت نانوتویؒ نے اس اصول سے انسان کی تخلیق کی مقصدیت کو ثابت کیا ہے۔

            چنانچہ آپ نے فرمایا کہ جیسے انسان کے جسم کے اعضا کسی نہ کسی کام کے لیے ہیں، مثلا: آنکھ دیکھنے کے لیے، ناک سونگھنے کے لیے اور کان سننے کے لیے وغیرہ وغیرہ، اسی طرح انسان بھی خداکی اطاعت کے لیے ہے۔

            اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ زمین سے لے کر آسمان تک جس چیز پرسوائے انسان کے نظر پڑتی ہے، وہ انسان کے کار آمد نظر آتی ہے، پر انسان ان میں سے کسی کے کام نہیں آتا؛ چنانچہ اگر زمین، پانی، ہوا، آگ، چاند، سورج اور ستارے نہ ہوں تو جینا محال یا دشوار ہو جائے اور ہم نہ ہوں تو اشیائے مذکورہ میں سے کسی کا کوئی نقصان نہیں۔ درخت، جانور وغیرہ مخلوقات اگر نہ ہوتے توہمارا کچھ نہ کچھ حرج ضرور تھا؛ کیوں کہ اور کچھ نہیں تو یہ اشیا کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی مرض ہی کی دوا ہو جاتی ہیں، پر ہم کو دیکھیے کہ ہم ان کے حق میں کسی مرض کی دوا نہیں۔

            مگر جب ہم مخلوقات میں سے کسی کے کام کے نہیں، توبالضرور ہم اپنے خالق کے کام کے ہوں گے، ورنہ ہماری پیدائش محض فضول اور بے ہودہ ہوجائے جس سے خالق کی طرف بیہودہ کاری کا الزام عائدہو اور ہماری طرف نکمّے ہونے کا عیب راجع ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں ایسی ہیں کہ کوئی عاقل ان کو تسلیم نہیں کرسکتا۔

             نیز اسی اصول سے آپ نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ گوشت خوری انسان کا فطری تقاضاہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہم شیر، چیتا اور بھیڑیا وغیرہ کو دیکھتے ہیں کہ ان کے کچلیاں ہوتی ہیں، جو ان کے لیے گوشت خوری میں معاون ہوتی ہیں، جس سے معلوم ہواکہ گوشت ان کی اصلی غذا ہے۔

             ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی بھی کچلیاں ہوتی ہیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کم ازکم انسان کے لیے بھی گوشت خوری کی اجازت ہے، اگر گوشت خوری کی اجازت نہ ہوتی تو کچلیوں کا کیا فائدہ تھا؟ انسان کو جتنے اعضا عطا ہوئے ہیں ان میں سے ہر ایک کا کوئی نہ کوئی کا م ہے، آنکھ کا کام دیکھنا، ناک کا کام سونگھنا اور کان کا کام سننا ہے۔ اگر کچلیوں کا کام گوشت کھانا نہ ہوتو وہ کس کام کے ہیں؟  خدا کی طرف سے اس کو کچلیوں کا عطا ہونا اس کے لیے فطری طور پر گوشت خوری کی اجازت کے مترادف ہے(۶)۔

(۵)      فریق مخالف کو اس کے عقائد ومسلمات کے ذریعہ الزام دینا

            اس اصول کا مطلب یہ ہے کہ فریق مخالف کے مذہب کے معتقدات ومسلمات کے ذریعہ اسے الزامی جواب دینا۔ حضرت نانوتویؒ نے ’’انتصار الاسلام‘‘ میں پنڈت دیانند کے ہر اعتراض کے دو جواب دیے ہیں، پہلا جواب الزامی اور دوسرا تحقیقی۔آپ کا پہلا جواب عام طورپر اسی اصول پر مبنی ہے۔

            مثال کے طور پر پنڈت جی کا اعتراض ہے کہ مسلمان کہتے ہیں کہ گناہ توبہ سے معاف ہوجاتے ہیں، یہ غلط ہے؛ بلکہ ہر فعل کی جزا یا سزا بہ طور تناسخ کے ملتی ہے، سزا معاف نہیں ہوسکتی؛کیوں کہ عدل کے خلاف ہے۔

            آپ نے ان کو اسی اصول کے تحت جواب دیا کہ اور کتابوں کوشاید پنڈت جی نہ مانیں، پر چاروں بیدوں کی نسبت تووہ اقرار تحریری ہمارے خط کے جواب میں کرچکے ہیں کہ ان کا ایک فقرہ بھی غلط نہیں۔سو اتھر وید میں ہے:ــــ ـ تارک کے ذکر سے جنموں کے گناہ بر طرف ہوتے ہیں، اگر موافق عدل سزا کا ملنا ضرور تھا توبے سزا اس بر طرفی کی کیا وجہ ہے؟۔اگر یہ یاد الہی کی برکت ہے، قطع نظر اس سے کہ موافق ارشاد پنڈت صاحب یہ معافی مخالف عدل ہے، تو توبہ میں بھی خدا ہی کی یاد گاری ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ پشیمانی کے پیرائے میں خدا کی یاد گاری پر معافی جس قدر قرین ِعقل وقیاس ہے، اس قدر اور یاد گاریوں پر یہ معافی قرین قیاس نہیں۔

            علاوہ بریں خود توبہ ہی سے معافی کی سند لیجیے۔ مہابھارت بھی معتبر کتاب ہے، اس میںہے ــ’’اگرکسے مرتکب گناہے باشد، باز پشیماں گردد، وزود تدارک آں نماید از گناہ خلاصی یابد‘‘ اب فرمائیے، پشیمانی توبہ نہیں تو اور کیا ہے؟ توبہ میں بھی پشیمانی ہوتی ہے(۷)۔

(۶)     فریق مخالف کومقبولات مشہورہ سے الزام دینا

            اس اصول کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے یہاں جو امور مسلَّم ہیں، ان کے ذریعہ فریق مخالف کو جواب دیا جائے اور اپنا مدعا ثابت کیا جائے۔حضرت نانوتویؒ نے اس اصول سے بھی کام لیا ہے اور اس کے ذریعہ اعتراضات کے جوابات دیے ہیں۔

            حضرت نانوتوی نے عقیدہ ٔنسخ پر پنڈت جی کے اعتراض کا جواب اسی اصول سے دیا ہے۔

            اعتراض یہ ہے کہ مسلمان قائل ہیں کہ احکام خداوندی میں نسخ ہوتاہے؛ لیکن یہ امر بالکل خلافِ عقل ہے؛ کیوں کہ اس کے یہ معنی ہوئے کہ خدا نے بے سوچے سمجھے آج کچھ کہہ دیا، کل کو جب کوئی خرابی دیکھی اور حکم بدل دیا۔ خدا کا حکم آدمیوں کے حکم کے برابر نہیں، ہمیشہ اس کا ایک حکم رہتا ہے اور تغیر وتبدلِ احکام کی اس کے ہاں نوبت نہیں آتی ہے۔

            آپ نے اس اعتراض کا جواب اسی اصول کے تحت دیا ہے۔ آپ نے فرمایاکہ حکم اول کبھی بوجہ غلطی بدلا جاتا ہے اور کبھی بوجہ تبدل مصلحت بدلا جا تاہے۔طبیب کبھی تشخیص میں غلطی کرتا ہے اور اس وجہ سے بعد اطلاع غلطی، نسخہ بدل دیتا ہے اور کبھی بوجہ تبدل احوال مریض یا بوجہ اختتام وقت دوا، اس دوائے اول کو بدل دیتا ہے۔ اثنائے بخار میں اگر سرسام ہوجائے، تو بوجہ تبدل احوال مریض نسخہ بدلا جاتاہے اور بعد اختتامِ وقت منضج جو مسہل لکھا جاتاہے، تو یہ تبدیلی بوجہ اطلاع غلطی نہیں ہوتی ـ، سو خدا کے احکام کا تغیر وتبدل بھی اسی قسم کا ہوتا ہے، اس قسم کا نہیں ہوتا(۸)۔

            حکیم کا مریض کے احوال و کیفیات کے پیش نظر نسخے کا  تبدیل کرنا  ایک ایسا امر ہے جسے لوگ تسلیم کرتے ہیں، اور اس کی اس تبدیلی کو غلطی نہیں قرار دیتے۔ اس مسلمہ امر کے ذریعے حضرت نے عقیدہٴ نسخ پر وارد ہونے والے اعتراض کا جواب دیا ہے۔

(۷)      فریقِ مخالف کے دعوے میں تناقض کا اثبات

            اس اصول کا مطلب یہ ہے کہ فریق مخالف کے دعوے میں تناقض ثابت کرکے اسے باطل قرار دیا جائے۔ حضرت نانوتویؒ نے اس اصول سے عیسائیوں کے عقیدۂ تثلیث کی تردید کی ہے۔

               عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ خدا تین ہیں اور ایک بھی ہے۔ یعنی خدا میں تثلیث اور توحید دونوں ہیں۔

            آپ نے ان کے دعوے میں تناقض ثابت کیا ہے کہ تعددِ حقیقی او ر وحدت حقیقی میں تناقض ہے ؛ کیوں کہ وحدتِ حقیقی اور کثرتِ حقیقی دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں اور اجتماعِ ضدین محال ہے۔ جیسے یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک آن میںایک شئی سیاہ بھی ہو اور سفید بھی ہو، گرم بھی ہو سرد بھی ہو، یا ایک وقت میں ایک جگہ رات بھی ہو دوپہر بھی، آدھی رات بھی ہو، ایک شخص ایک وقت میں عالم بھی ہو جاہل بھی ہو، بیمار بھی ہو، تندرست بھی ہو، موجود بھی ہو معدوم بھی ہو، ایسے ہی یہ بھی نہیں ہوسکتاکہ خدا تعالی ایک بھی ہو اور تین بھی ہو (۹)۔

(۸)    روح کا کیفی ارتقا

            اس اصول کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح انسانی جسم پر مختلف احوال طاری ہوتے ہیں پہلے بچپن پھر جوانی اس کے بعد بوڑھاپا۔ اسی طرح روح پر بھی مختلف احوال طاری ہوتے ہیں، روح حرکتِ کیفیہ کے ذریعہ بہ تدریج اپنے مبدا سے منتہا کو پہنچتی ہے۔ وہ اپنے مبدا پر بغیر حرکت کیفیہ کے یکبارگی واپس نہیں آسکتی۔

            اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی پتھر اوپر پھینکا جائے تویہ حرکتِ صاعدہ کے ذریعہ اپنے منتہا تک پہنچتا ہے پھر حرکتِ ہابطہ کے ذریعہ اپنے مبدا پر آتاہے، فرق دونوں حرکتوں میں صرف اتنا ہے کہ حرکت صاعدہ میں جومنتہا تھا وہ حرکتِ ہابطہ میں مبدا ہوجاتا ہے اور جومبدا تھا وہ منتہا ہوجاتاہے؛ لیکن یہ ممکن نہیں کہ پتھر بلا حرکتِ ہابطہ کے مبدا پر واپس آجائے۔

            اس اصول سے حضرت نانوتویؒ نے تناسخ کے غیر معقول ہونے پر استدلال کیا ہے۔آپ نے فرمایا کہ جس طرح انسانی جسم پر مختلف احوال طاری ہوتے ہیں بچپن، جوانی اور بوڑھا پا وغیرہ اسی طرح روح بھی مختلف احوال سے دوچار ہوتی ہے، اس میں کمالات و عادات وغیرہ بہ تدریج پیدا ہوتے ہیں،اس طرح وہ اپنے منتہا کو پہنچ جاتی ہے۔

             لیکن جب تناسخ کودیکھا تو مذکورہ بالا اصول کے خلاف پایا؛ کیوں کہ اس میں بغیرحرکت اور بغیر مسافت طے کیے ہوئے منتہا سے مبدا پر آنا ہوتاہے۔ یعنی روح بچپن سے بوڑھاپے تک جو روحانی ترقیات اور علمی وعملی کمالات بہ تدریج حاصل کرتی ہے، محض موت سے یکبارگی پہلی کیفیت پر آجاتی ہے اور وہ تمام کمالات وعادات بالکل زائل ہوجاتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے پتھر حرکتِ صعود بالائی کے بعد حرکتِ ہبوط نزولی کے بغیر اپنے مبدا پر آجائے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پتھر کی حرکت حسی ہوتی ہے اور روح کی حرکت کیفی ہوتی ہے(۱۰)۔

(۹)      تمثیل

            حضرت نانوتویؒ نے عقلی وعلمی مضامین سمجھانے کے لیے تمثیلات کا سہارا لیا ہے، جنھیں عام لوگوںکے عرف اور ان کے تعامل سے لیا گیا ہوتاہے، جن کو وہ تسلیم بھی کرتے ہیں اور قبول بھی۔یہ تمثیلات ہمیں آپ کی تحریروں میں ایک اصول اور ضابطے کے طور پر ملتی ہیں، اور آپ نے اس سے بہت کام لیا ہے۔

            مثلا آپ نے تقدیر کا پیچیدہ مسئلہ سمجھانے کے لیے عرف سے تمثیل پیش کی ہے۔

            آپ نے فرمایا کہ ارادے کے کاموں میں پہلے کام کا منصوبہ بنا لیا جاتاہے؛ چنانچہ مکان کی تعمیر سے پہلے نقشہ بنایا جاتاہے، کپڑا سلنے سے پہلے کاٹا جاتاہے، کھانا پکانے سے پہلے اس کا ایک تخمینہ لگا لیا جاتاہے۔اسی طرح اللہ کی منصوبہ بندی کا نام تقدیر ہے۔

            اللہ تعالی کے منصوبے کے مطابق نیکی وبرائی اور جنت ودوزخ کا ہونا، پھر نیک لوگوں کا جنت میں جانا، برے لوگوں کا دوزخ میں جانا ایسے ہی ہے جیسے نقشہ کے مطابق مکان کی تعمیر ہو، اس میں کمرے، دالان اور بیت الخلاہو۔ راحت وآرام کے لیے کمرے اور دالان میں جایا جائے اور استنجاء کے لیے بیت الخلاء۔ اگر بیت الخلاء کی زبان ہواور وہ شکایت کرے کہ میرا کیا قصور جوہر روز مجھ میںغلاظت ڈالی جاتی ہے؟ اور کمرے اور دالان  نے کیا انعام کا کام کیا ہے کہ ان میں فرش وفروش وشیشہ آلات وجھاڑ فانوس وعطر وخوشبو ہے؟۔ تو اس کا یہی جواب ہوگا کہ تو اسی کے لائق ہے اور تجھ کو اسی کے لیے بنایا ہے، اور وہ اسی کے قابل ہے اس کو اسی لیے بنایا ہے۔

            اسی طرح ناپاکی، مثل پاخانہ پیشاب اگر یہ شکایت کریں کہ ہم نے کیا قصور کیا کہ ہم کو بیت الخلاء ہی میں ڈالا جاتا ہے، کبھی دالان نصیب نہیں ہوتا اور عطر وخوشبو وغیر ہ نے کیا انعام کا کام کیا ہے جو ہمیشہ دالان ہی میں رہتے ہیں اور کبھی بیت الخلاء میں ان کو نہیں بھیجا جاتا۔ تو اس کا جواب بھی وہی ہوگا۔

            ایسے ہی اگر دوزخ اس کی شکایت کرے کہ میں نے کیا قصور کیاہے؟ اور جنت نے کیا انعام کا کام کیا؟ یا برائی یہ شکایت کرے کہ میں نے کیا قصور کیا کہ جو میرے لیے سوائے دوزخ اور برے لوگوں کے اور کچھ نہیں؟ اور بھلائی نے کیا انعام کا کام کیا جو ہمیشہ اچھے آدمی اور جنت ہی اس کے لیے ہے؟ یا برے آدمی یہ شکایت کریں کہ ہم لوگ اگر برے ہیں توتقدیر کی برائی ہے، ہمارا کیا قصور؟ اور اچھے آدمی اگر اچھے ہیں تو تقدیر کی بھلائی ہے، اُن کا کیا زور؟ تو یہاں بھی یہی جواب ہوگا کہ تم اسی لائق ہو اور تمھیں اسی لیے بنایا ہے، اور وہ اُسی لائق ہے اور اُن کو اسی لیے بنایا ہے(۱۱)۔

(۱۰)   مادیات ومعنویات کے طبقات

            اس اصول کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح  مرکباتِ عنصریہ (وہ اجسام جو عناصر اربعہ: مٹی، پانی، آگ اور ہوا سے مرکب ہیںاور ان کا ایک مزاج ہے) متضاد عناصر سے بنتے ہیں اور ان عناصر کے اپنے اپنے طبقات ہیں۔اسی طرح معنویات میں مرکبات ہوتے ہیں جو متضاد عناصر سے بنتے ہیں اور ان عناصر کے بھی اپنے اپنے طبقات ہیں۔

            اس اصول سے آپ نے جنت ودوزخ کے وجود کو ثابت کیا ہے۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ مرکباتِ عنصریہ میں گرمی وسردی وخشکی وتری دیکھ کر ان کے مزاج (اجزائے ترکیبی)کا پتہ چلتا ہے؛چنانچہ جب ہم اپنے بد ن کو دیکھتے ہیں تو اس میں ہم تھوڑی بہت یبوست پاتے ہیں، تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ہمارے بدن میں مٹی کا جز شامل ہے، ورنہ یبوست کی اور کیا صورت ہوسکتی تھی؛کیوں کہ یبوست مٹی کی خاصیت ہے، سوا اس کے اور کسی چیز میں یہ بات نہیں، ہو نہ ہومٹی کے جز کی یہ تاثیر ہے کہ ہمارے بدن میں یبوست پائی جاتی ہے۔

            اسی طرح رطوبت بھی کسی نہ کسی قدر ہمارے بدن میں موجود ہے اور یہ پانی کی خاصیت ہے؛ اس لیے لازمی طور پر ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ پانی بھی ہمارے بدن کا جز ہے۔ ہوا اور آگ کو بھی اسی طرح سمجھ لیجیے۔

            پھر یہ چاروںمتضاد عناصر بدن میں کمی وبیشی کے ساتھ یکجاہیں؛ لیکن بدن سے الگ ان میں سے ہر ایک عنصر کا اپنا طبقہ ہے، مثلا مٹی کا طبقہ الگ ہے جس میں دوسرے عنصر کی آمیزش نہیں،اسی طرح پانی کا طبقہ مستقل ہے جس میں دوسرے عناصر کی شمولیت نہیں ـ، یہی حال ہوا اورآگ کا ہے۔

            مادیات کی طرح ہم معنویات میں بھی دیکھتے ہیں کہ لذتیں اپنے جلومیں کلفتیں لیے ہوئے ہیں اور کلفتیں اپنے پہلو میں راحتیں لیے ہوئے ہیں۔منافع مضرتوں سے خالی نہیں اور مضرتیں منفعتوں سے خالی نہیں۔ کھانا پینا یقینا سامانِ راحت اور نفع کی چیز ہیں؛ لیکن اِن کے ساتھ پاخانہ پیشاب کی خرابی اور امراض کی تکالیف بھی لگی ہوئی ہیں۔ اسی طرح کڑوی دوائیں اور آپریشن وجراحی وغیرہ اگرچہ سرِدست سرمایۂ تکلیف ہیں؛ مگر انجام کار کیسی کیسی راحتیں ان کے ساتھ لگی ہوئی ہیں۔

            اس بات کے دیکھنے سے یوں معلوم ہوتاہے کہ یہ چیزیں بحیثیت آرام وتکلیف ونفع وضرر ایسی ہیں جیسے باعتبار گرمی وسردی، وخشکی وتری مزاجِ مرکبات عنصری معلوم ہوتاہے، یعنی جیسے وہاں اشیائے متضادہ کے اجتماع سے ایک مزاج مرکب حاصل ہوجاتا ہے، ایسے ہی یہاں بھی سمجھیے۔

            جس طرح مرکباتِ عنصریہ کے تمام عناصر مٹی،پانی، آگ اور ہوا کے طبقات الگ الگ ہیں اسی طرح یہاں بھی آرام وتکلیف میں سے ہرایک کا الگ الگ طبقہ تسلیم کرنا پڑے گا، جس میں دوسرے کی آمیزش نہ ہو؛چنانچہ جہاں راحت ہی راحت ہو اسی کو بہشت کہتے ہیں۔کسی نے کہا ہے:

ع              بہشت آنجا کہ آزارے نہ باشد

            اور جہاں تکلیف ہی تکلیف ہو اس کو دوزخ کہتے ہیں۔

            جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ یہ دونوں کہاں اور کدھر ہیں تو  از روئے عقل یہ سوال قابلِ اعتنا نہیں ہے؛ کیوں کہ موجود ہونے کے لیے معلوم ہونا لازم نہیں ہے۔ خود زمیں ہی میں ایسے ہزارہا مقامات اور اشیا ہیں جو ہمیں معلوم نہیں۔اگر زمین و آسمان کے اندر ہوں اور ہم کومعلوم نہ ہو تو کیا محال ہے۔اور اگر زمین وآسمان کے باہر ہو ں تو کیا ممتنع ہے؟(۱۲)

            مندرجہ بالا سطور حضرت نانوتوی کے فلسفے اور اس کی اصول بندی کی ادنی کاوش ہے، عام طور پر آپ نے انہی اصولوں کے تحت گفتگو کی ہے اوران میں سے بعض اصول بڑی اہمیت کے حامل ہیں؛ تاہم یہ حرفِ آخر نہیں، اس رخ پر مزید کوشش ہوگی تو جواہر پارے کی رونق نگاہِ بینا کو خیرہ کردے گی۔

*       *       *

حواشی:

(۶)       حجۃ الاسلام، ص: ۸۰)

(۷)        انتصار الاسلام، ص: ۴۷۔

 (۸)      انتصار الاسلام، ص:۲۱۔

(۹)       مباحثہ شاہ جہاں پور، ص: ۱۷۔

(۱۱)      حجۃ الاسلام، ص: ۲۹،۳۰۔

(۱۲)      مباحثۂ شاہ جہاںپور، ص:۱۰۷،۱۰۹۔

*       *       *

———————————————–

ماہنامہ دارالعلوم‏، شمارہ: 11،  جلد:101‏، صفر -ربیع الاول 1439ہجری مطابق نومبر 2017ء

Related Posts