دارالعلوم دیوبند كے ’’شیخ ثانی‘‘ حضرت مولاناعبد الحق اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ۱۳۴۷ھ/۱۹۲۸ ء    ــــــــــ  ۱۴۳۸ھ/۲۰۱۶ء

بہ قلم  :      مولانا نور عالم خلیل امینی

چیف ایڈیٹر ’’الداعی‘‘ عربی و استاذ ادبِ عربی

دارالعلوم دیوبند

            معدے میں معمولی انفیكشن كے بعد ، جس كی وجہ سے متلی سی آئی اور طبیعت میں گرانی محسوس ہوئی، دارالعلوم دیوبند كے ’’شیخ ثانی ‘‘حضرت مولانا عبدالحق صاحب اعظمی كو ، جمعہ – شنبہ:۳۰/ربیع الاول  – یكم ربیع الآخر ۱۴۳۸ھ مطابق ۳۰-۳۱/دسمبر ۲۰۱۶ءكی شب میں ،مقامی ڈاكٹر’’ ڈی كے جین ‘‘كے ذاتی ہسپتال میں داخل كیا گیا ، جہاں سات بج كر دس منٹ پر اُنھوں نے آخری سانس لی۔ إِنَّا لِلہِ وَإِنَّا إِلَيْہ رَاجِعُونَ۔   وہ سنہ ٴ  ہجری كے حساب سے ۹۱   ا ور سنہٴ  عیسوی كے اعتبار سے ۸۸سال كے تھے ۔ وہ دارالعلوم دیوبند كے كباراساتذہ اور شیخ الاسلام حضرت مولاناسیدحسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ (۱۲۹۵ھ /۱۸۷۹ء  –  ۱۳۷۷ھ/۱۹۵۷ء) كے ممتاز تلامذہ میں تھے۔

            وہ سال ہاسال سے بڑھاپے كے متنوع عوارض اور كئی طرح كی بیماریوں كا شكارتھے ، بلڈپریشر كے بھی مریض تھے، كئی سال سے ٹانگوں میں شدید كم زوری كی وجہ سے ، وھیل چیر (wheel chair) استعمال كرتے تھے، نماز كے لیے مسجد ، پڑھانے كے لیے درس گاہ اور كہیں بھی آنے جانے كے لیے اُسی كا سہارا لیتے تھے؛ لیكن وہ بڑے متحمل مزاج اور پریشانیوں كو انگیز كرنے كے عادی تھے ؛ اِس لیے اپنی معذوریوں كے باوجود ، دعوتی واصلاحی وتعلیمی وتربیتی جلسوں اور مجلسوں میں شركت كے لیے اندرونِ ملك وبیرونِ ملك كثرت سے سفر كرلیتے تھے، ہم جیسے خردوں كو اُن كی اِس ہمت وحوصلے پر حیرت كے ساتھ رشك آتا تھا اور اپنے دل میں كہتے تھے كہ اگر مولانا عبدالحق كے جیسے ہم معذور ہوتے، تو ہر گز كوئی سفر بیرونِ دیوبند كا بھی نہ كرتے ، چہ جائے كہ بیرونِ ملك كا ۔وہ اپنی اِس ہمتِ عالی كی وجہ سے ، عوام وخواص میں مقبول تھے اور دارالعلوم كےعوامی رابطے كی مہم میں بڑا كردار اداكركے ربِّ شكور كی جزاے بے پناہ كے مستحق ہوتے تھے:

جہاں چاہے بشر كو لے كے جائے، ہمتِ عالی

جسے كہتے ہیں زاہد، عرش پر زینہ اُسی كا ہے

(شادؔ  عظیم آبادی)

            اُن كی وفات كی خبر عشا كی نماز كے بعد ، جیسے ہی دارالعلوم كی مسجد قدیم كے مناروں سے لوگوں نے سنی ، اُنھیں شدید صدمہ ہوا؛ كیوں كہ وہ كل تك خاصے صحت مند تھے ، اُنھوں نے جمعہ كے دن اپنے سارے معمولات پورے كیے، وہ اِس سے قبل برابر بیماریوں كے بڑے بڑے اور تیز وتندحملوں كا مقابلہ كرتے رہے اور امراض كے بعد شفایاب ہوكر حسب ِسابق زندگی میں اپنا كردار اداكرتے رہے ؛ لیكن اب كی بارچوں كہ خدا كے یہاں مُقَدَّرْ اُن كا آخری وقت آچكا تھا ؛ اِس لیے بہ ظاہر معمولی بیماری كے معمولی حملے كو بھی نہیں سہار سكے اور اپنے رب سے جاملے ۔ اللہ اُنھیں بہت نوازے اور اُن كی نیكیوں كا اُنھیں بے پناہ بدلہ عطاكرے اور خطاؤں اور لغزشوں سے  –  جن سے كوئی فردِبشر خالی نہیں  –  مكمل طور پر نہ صرف درگزر كرے ؛ بل اپنی شانِ كریمی سے اُنھیں حسنات میں تبدیل كركے اُن كی میزانِ حسنات كو مطلوبہ طور پر باوزن بناكر ، اُنھیں جنت الفردوس میں جانے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ كے صحابہؓ كی رفاقت سے بہرہ یاب ہونے كا یقینی ذریعہ بنائے۔آمین۔

آسماں تیرے عدم زار كو شاداں ركھّے

شمعِ رحمت تری تُرْبَتْ كو فروزاں ركھّے

            دارلعلوم كے انتظامیہ نے، شنبہ: یكم ربیع الآخر ۱۴۳۸ھ كو ظہر كی نماز كے بعد ڈھائی بجے دن میں ، اُن كی نمازِ جنازہ اداكیے جانے كا اِعلان كیا تھا ؛ لیكن چوں كہ مرحوم كے بعض اَعِزَّا جن میں اُن كے بعض فرزندان بھی شامل تھے، اُن كے آبائی وطن اعظم گڑھ سے ، وقت پر نہیں پہنچ سكے؛ اِس لیےنمازِجنازہ ساڑھے تین بجے شام كو ادا كیے جانے كا اعلان كیا گیا ، چناں چہ وقتِ مقررہ پر صفیں لگ گئیں ؛ لیكن جن لوگوں كی آمد كا انتظار تھا ، وہ ہنوز نہیں پہنچ سكے تھے، بل كہ وہ تب پہنچ سكے جب عصر كی اذان ہونے كو تھی؛ اِس لیے۳بج كر ۵۵منٹ پر نمازِ جنازہ صدرجمعیۃ علماے ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی زیدمجدہم استاذِ حدیث دارالعلوم دیوبند نے پڑھائی۔ تقریباً چالیس ہزار كے مجمع نے نمازِ جنازہ اور تدفین میں شركت كی۔ اِس مجمع میں باشندگانِ دیوبند كے علاوہ ، زیادہ تر علماوطلبہ وذمے دارانِ مدارس تھے۔ قرب وجوار كےتقریبًا سارے مدارس كی نمایندگی تو تھی ہی، بہت سے لوگ دور دراز اور دوسرے صوبوں سے بھی آگئے تھے، چوں كہ مولانا عبدالحق ؒ بخاری شریف كے استاذ تھے ، نیز كثرت سے مدارس میں آتے جاتے تھے ، اِس لیے علماوطلبہ سے اُن كا گہرا رابطہ تھا اور عوام كی بھی بڑی تعداد اُن سے مانوس تھی اور اُن كی سادگی وخدا ترسی كی وجہ سے اُن سے بہت محبت كرتی تھی ؛ اِس لیے سارے محبین جن كے لیے نماز جنازہ وتدفین میں شركت كے لیے آنا ممكن ہوسكا ، وہ سبھی آگئے تھے۔

            چوں كہ عصر كی اذان ہوگئی تھی ؛ اِس لیے اكثر لوگ نمازِجنازہ كے فورًا بعد مسجد وں میں جاكر نمازِ عصر پڑھ كر قبرستانِ قاسمی گئے اور اُنھیں مٹی دی۔ كچھ لوگوں نے دارالعلوم كے دارالحدیث تحتانی میں نمازِ عصر اداكركے جنازے كے پیچھے پیچھے قبرستان جاكر مٹی دینی مناسب سمجھا۔راقم بھی اُنھی آخرالذكر لوگوں میں تھا؛ كیوں كہ اپنی ٹانگوں كی كم زوری اور چلنے میں دشواری كی وجہ سے اُس نے بھی دارالحدیث تحتانی میں اپنے چند شاگردوں كے ساتھ باجماعت عصر پڑھی پھر قبرستان كا رخ كیا۔قبیل اذانِ مغرب ہم لوگ مٹی دے كر فارغ ہوگئے اور علم وصلاح كے اِس گنجینے كو تہ ِخاك كركے اپنی رہایش گاہ ’’ افریقی منزل قدیم ‘‘ نزد چھتہ مسجد آگئے ، جہاں تادیر مولانا مرحوم كی تصویر خانہٴ  خیال میں گردش كرتی اور دل ودماغ كو متاثر كرتی رہی۔

یہ جو ملتی ہے ترے غم سے، غمِ دہر كی شكل

دل نے تصویر سے تصویر اُتاری ہوگی

                                                                   (اخترؔ سعید خاں)

*       *       *

            مولانا عبدالحق اعظمی رحمۃ اللہ علیہ سچ مچ ’’عالم ِباعمل ‘‘تھے، اُنھوں نے تدریسِ حدیث میں پچاس سال گزارے ، اِس لیے وہ ایك تجربہ كار محدث اور پختہ علم مدرس تو تھے ہی ؛ لیكن وہ صالح اور عابد ومتقی عالم ہونے كی بھی شناخت ركھتے تھے۔تواضع ، خاكساری ، سادگی ، بے تكلفی وبے ساختگی ، خدا ترسی ، شب بیداری ، تہجد گزاری ، رات كے سناٹے میں گریہ وزاری ؛ اُن كی ممتاز شناخت تھی۔ اُنھیں دیكھ كر ہرمسلمان كو، دل كی گہرائیوں سے یہ شہادت دینے پر مجبور ہونا پڑتا تھا كہ یہ كوئی خدائے پاك كا خاص بندہ ہے ، جو آخرت كو دنیا پرترجیح دیتا ہے۔ اُن كی گفتار اور اُن كے كردارہی سے نہیں؛ بل كہ اُن كی ہر ادا سے ایك خاص قسم كی معصومیت اور نیكی ٹپكتی تھی۔ اُن كے پاس بیٹھ كر خدا سے تعلق میں اِضافہ محسوس ہوتا تھا۔ اُن میں بلاكی اپنائیت تھی، وہ زور سے اور كرخت آواز سے عموماً بولتے تھے؛ لیكن اُن كی گفتگومیں غضب كی شیرینی تھی، اُن كی ڈانٹ میں البیلا سا پیار تھا، اُن كے غصے میں نرالی سی جاذبیت تھی، اُ ن كی جِھڑكی میں ساحرانہ كشش تھی، اُن كی باتوں میں یقین افزا جادو تھا۔ وہ طلبہ كے لیے نہ صرف پدرِ مہربان؛ بل كہ مادرِمہربان تھے۔ اُن كی زبان ہمیشہ اُن كے دل كی رفیق رہتی تھی۔ وہ كسی كی چغل خوری كرتے نہ بدگوئی ۔اُن كے چہرے سے سحر خیزی ہویدا رہتی تھی۔ اِنابت وخوفِ خدا اُن كا ، كارگر ہتھیار تھا۔ راقم نے جوانی اور صحت وقوت كی جولانی كے زمانے میں بھی، دارالعلوم مئو ناتھ بھنجن میں، اپنی طالب علمی اور اُن كی تدریس كے زمانے میں، اُن میں اِن اعلی وارفع صفات كا مشاہدہ كیا تھا ، وقت اور عمر كے ساتھ ساتھ اُن كی اِن مبارك كیفیات میں اِضافہ ہوتا رہا اور اُن كاحال، اُن كے ماضی سے بہتر ہوتاگیا۔ وہ دنیا میں رہتے ؛ لیكن اُس سے لَاتعلق رہتے تھے، دنیا اُنھیں رجھانے كی كوشش كرتی ؛ لیكن وہ اُس سے بےزار رہتے تھے:وہ زبانِ حال سے ہمہ وقت زمزمہ سنج رہتے :

دنیا میں ہوں ، دنیا كا طلب گار نہیں ہوں

بازار سے گزراہوں ، خریدار نہیں ہوں

                                                             (اكبرؔ الہ آبادی)

            یاد آتا ہے كہ ۱۳۹۰ھ/۱۹۷۰ء میں ، تبلیغی جماعت نے ،ضلع اعظم گڑھ كے قصبہ ’’سرائے میر‘‘  كے مشہور مدرسہ ’’مدرسۃالاصلاح ‘‘ میں سہ روزہ اجتماع بڑے پیمانے پر منعقد كیا ، جو واقعتًا تاریخی، عالمی اور مثالی تھا ، اُس میں تبلیغی جماعت كے بڑے ذمّے داروں اور تبلیغی جماعت سے وابستہ ملك كے نام ور علماودعاۃ نے ـ، روح افزا اور ایمان افروز تقریریں كیں ۔ تبلیغی جماعت كے امیر حضرت مولانا انعام الحسن كاندھلویؒ (۱۳۳۷ھ/۱۹۱۸ء  –  ۱۴۱۶ھ/۱۹۹۵ء) اور تبلیغی جماعت كے سحبانِ وائل ‘‘ حضرت مولانا محمد عمر پالن پوریؒ (۱۳۴۸ھ/۱۹۲۹ء  –  ۱۴۱۸ھ/۱۹۹۷ء)نے بھی جلسے كو خطاب كیا، جس سے نہ صرف دلوں كا زنگ دورہوا؛ بل كہ دین سے دوری اور غفلت كی عمومی كیفیت كے كافور ہوجانے كی راہ ہم وار ہوئی اور بھٹكے ہوئے آہو كو پھر سوے حرم لوٹنے كا موسم بَہار اپنی خوش منظری وباد بَہاری كے ساتھ معرض وجود میں آیا ، كتنی آنكھوں كو خشیتِ اِلہی كے آنسوؤں سے غسلِ صحت نصیب ہوا اور كتنے دلوں میں اِیمان ویقین كی كلیاں كھِل اُٹھیں۔

            حضرت مولانا عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ، دارالعلوم مئو كے طلبہ واساتذہ كو اِس تبلیغی اجتماع كے انعقاد كی تاریخوںسے بہت پہلے سے ، اس میں شركت كی تشویق وترغیب كرتے رہے، اجتماع كے انعقاد سے ایك روز قبل ہی، ہم لوگ بڑی تعداد میں ’’سرائے میر‘‘ پہنچ گئے۔ طلبہ واساتذہٴ مدرسہ كے علاوہ ’’مئو‘‘ شہر كے مسلمانوں كی بڑی تعداد اِس مبارك جلسے میں شریك ہوئی اور ایمان ویقین كی بےحساب دولت كے ساتھ واپس آئی ۔ ہم طلبہ واساتذہ كے قائد مولانا عبدالحق  ؒ تھے ۔ یہ سفر كیا تھا ایمانی قافلے اور روحانی كاروانِ نور وسرور كے، ایك گل بہ داماں وسحر طراز منظر كی، زندہ ومتحرك مثال تھا۔ حقیقت یہ ہے كہ اِس روحانی سفر كے بعد ہم نے ابنے اندر خوش گوارتبدیلیوں كا لمس مخملی محسوس كیا ، ہمیں اپنی تقصیرات كو محسوس كرنے كی توفیق ملی ۔ ہمارے اندر نماز باجماعت كا داعیہ پیدا ہوا ، وقت كی قدر كرنے كا شعور بیدار ہوا، تعلیمی فرائض كو كماحقہ اداكرنے كی ہمیں تحریك ملی ۔ درحقیقت یہ ہماری زندگی كے سعادت مندانہ دنوں میں سے چند دن تھے ، جو ہمارے خانہٴ  خیال سے محو ہوے ہیں نہ ہوںگے ؛ كیوں كہ یہ لذیذترین لذتوں كے دن تھے، جن میں بعض دفعہ انسان كی قسمت اِس طرح جاگ اُٹھتی ہے كہ وہ پھركبھی خوابیدہ نہیں ہوتی۔

            ہم نے حضرت مولانا عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ كو، تینوں دنوں میں ایك مجاہد كی طرح زندگی كے لمحے لمحے كو، صرف كرتے ہوے پایا۔وہ جلسے كے سارے پروگراموں میں شركت كے علاوہ ،شب وروز عبادت وتلاوت اور شب بیداری وتہجد گزاری میں لگے رہتے ، طویل دعائیں كرتے، رات كی تنہائیوں كو روروكے آباد كرتے اور ہم لوگوں كو ہر جتن كے ساتھ اُن ایام كو غنیمت جاننے كی تلقین كرتے ۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ پہلے استاذ تھےجنھوں نے اپنی عفت ریز جوانی كی نیكی وعبادت گزاری كے ذریعے، ہمیں صالحیت كی نہ صرف عملی تلقین كی؛ بل كہ نیكی وخداشناسی كی راہ پرچلنے كی لذت سے ہم كناركرنے كی بھر پور كوشش كی۔ ہم جلسے سے اِس حال میں لوٹے كہ ہماری زبانیں اُن كے لیے شكروسپاس كے جذبات سے لبریز تھیں۔ یہ ہماری زندگی كا پہلا اور انوكھا تجربہ تھا، جس سے عملی طورپر معلوم ہواكہ خداكی یاد میں اور اُس كے خوف سے رونے كا معنی ومطلب كیا ہوتاہے اور اس میں كیسی ناقابلِ بیان لذت ملتی ہے، جو دنیا كی كسی شے میں نہیں ملتی ۔ حقیقت یہ ہے كہ محبوبِ حقیقی كی شناسائی كی ذراسی لذت بھی دنیا ومافیہا كی ساری لذتوں سے بے حساب بہتر ہے، اِس دولت كے حصول كے بعد ، ہر چیز نہ صرف مكروہ لگتی ہے؛ بل كہ كھلی ہوئی دشمن نظر آنے لگتی ہے: 

لڑاكر آنكھ اُس سے، ہم نے دشمن كرلیا اپنا

نگہ كو، نازكو، اندازكو، ابروكو، مژگاںكو

                                                              (بہادرشاہ ظفرؔ)

            دارالعلوم مئو كے اِن خوب صورت ایام كے بعد ،حضرت مولانا عبدالحق  ؒسے كم وبیش بارہ سال تك كسی موقع سے كہیں ملاقات نہ ہوسكی ، حتی كہ اللہ تعالی نے ہمیں دیوبند میں اُن سے اِس طرح ملایا كہ الحمد للہ اُن كی موت تك یہ ملاقات ممتدرہی۔ جمعہ : ۱۵/شوال ۱۴۰۲ھ مطابق ۶/اگست ۱۹۸۲ء كو دارالعلوم بہ حیثیت استاذادب عربی وچیف ایڈیٹر ’’الداعی ‘‘ عربی راقم كی حاضری ہوئی۔ چند روز بعد حضرت مولانا عبدالحق  ؒ، حدیث شریف كے استاذ كی حیثیت سے دارالعلوم تشریف لائے ۔ دارالعلوم كے اِحاطے میں اُنھیں پاكر اور اُن سے مل كر بے حد خوشی ہوئی اور اِس اِحساس سے اور مسرت ہوئی كہ تدریسی سفر كے اِن شاء اللہ طویل دورانیے میں اُن كی صحبت سے ہم بہرہ یاب رہیں گے اور برّصغیر كے اِس سب سے بڑے اِسلامی قلعے كی پاسبانی میں، ہم دونوں نہ صرف ایك دوسرےكے؛بل كہ بہت سارے اساتذہ گرامی قدر اور ذمےّ دارانِ سعادت نصیب كےساتھ شراكت كركے ، اپنے دامنِ عمل كو بہ فضل اِلہی بے حساب نیكیوں سےبھرلیں گے ؛ لیكن خوشی كے یہ چھتیس سال برقِ خاطف كی طرح گزرگئے، بالآخر اُن كا وقتِ آخر آگیا اور وہ اپنے ہزاروں ماننے والوں كو روتا بلكتا ہوا چھوڑ، اِس دنیا سے منھ موڑ ربِّ شكور كے حضور پہنچ گئے ۔ رہے نام اللہ كا۔ دارالعلوم آمد كے چند روز بعد، اُن سے محمودہال كے ایك كمرے میں(جس میں دارالعلوم كے استاذِحدیث حضرت مولانا حبیب الرحمن قاسمی دامت بركاتہم ، سابق چیف ایڈیٹر ماہ نامہ ’’دارالعلوم‘‘كی اُس وقت رہایش تھی )ملاقات ہوئی، راقم نے خبر خیریت دریافت كی تُو، اُنھوں نے دارالعلوم كے اُس وقت كے حالات (جوفتح كے بعد كے انتشار اور عدم استحكام سے بالكل مُشابِہ تھا؛ كیوںكہ سابق انتظامیہ كی رخصت پذیری اور نئی انتظامیہ كی اساس گزاری كو ابھی كچھ ہی مدت گزری تھی ؛ اِس لیے جو نئے اساتذہ دارالعلوم آتے تھے، اُنھیں نامعلوم سا اندیشہ اور مبہم سی بے كیفی ستاتی تھی)كے پس منظر میں جو كچھ ارشاد فرمایا ، اُس كا حاصل یہ تھا:

گلوں سے داغ، كانٹوں سے خلش، لینے كو آئے ہیں

گلستاں میں، ہم اپنے دل كو بہلانے نہیں آئے

                                                                        (حفیظ ؔمیرٹھی)

            وہ دارالعلوم دیوبند آئے، تو گووہ ادھیڑعمر كے تھے؛ لیكن خاصے تندرست، توانا،صحت منداور ہٹے كٹے تھے، ہمت وحوصلے كے مالك تھے، اُن میں سرگرمیِ حیات كا ولولہ تھا۔ وہ سنہٴ  عیسوی كے حساب سے ۵۴سال اور سنہ ٴ  ہجری كے لحاظ سے ۵۵سال كے تھے؛ لیكن الحمدللہ اُس وقت تك جسمانی كم زوری سے مُبَرَّا اور چاق وچوبند تھے؛ لیكن چند ہی سال بعد سے وہ متعدد بیماریوں كا شكار ہوگئے ، بلڈپریشر، معدے ، جگر اور گردے سے متعلق امراض نے اُنھیں نشانہ بناناشروع كردیا ، كچھ سالوں بعد وہ چلنے پھر نے سے معذور ہوگئے اور وھیل چیر كا سہارا لینے لگے ، كئی سعادت مند طلبہ اُن كی خدمت كركے اپنی قسمت كو چارچاند لگاتے رہے۔ كچھ سالوں بعد اُن پر بڑھاپے كی خاصی علامتیں رونماہوتی گئیں جووقت كے ساتھ ساتھ شوخ ہوتی گئیں اور سن وسال كے آہنی پنجوں نے اپنی پكڑمضبوط كرنی شروع كی اور وہ اثر دكھایاجو ہر انسان میں وہ دكھاتے ہیں، خواہ وہ كتنا ہی مضبوط ساخت اور طاقت ور ارادے كا مالك كیوں نہ ہو۔زندگی كے ایام اِسی طرح موجِ نسیم كی طرح تیزی سے گزرجاتے ہیں اور انسان ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔

اے ہم نفس نہ پوچھ جوانی كا ماجرا

موجِ نسیم تھی، اِدھر آئی اُدھر گئی

                                                      (تلوك چند محرومؔ)

            لیكن وہ اِن بڑھتے ہوے اعذار كے باوجود، اپنی تدریسی ذمے داریوں، شرعی فرائض اور زندگی كے ناگزیر مسائل سے بہ حسن وخوبی عہدہ برآہوتے رہے۔اِسی كے ساتھ وہ دینی اجتماعات،اسلامی تقریبات اور تعلیمی وتربیتی جلسوں میں بھی بڑی حدتك شركت فرماتے رہے؛ جن كے لیے اُن كے پاس كثرت سے دعوتیں آتی رہتی تھیں ؛ كیوں كہ وہ اپنی سادگی اور منكسر المزاجی كی وجہ سے كسی دعوت كو مسترد نہیں فرماتے تھے۔

            اُن كی نیكی، سچی خداترسی اور دل وزبان كی یكسانیت كی وجہ سے ، اُن كی تقریریں جادوئی اثر ركھتی تھیں، دل وزبان كی یكسانیت كسی واعظ شریں بیاں كا سب سے بڑا اور كار گر ہتھیار ہوتی ہے، اس ہتھیار كا وار كبھی خطا نہیں كرتا ۔مولانا رحمۃ اللہ علیہ رقیق القلب بھی تھے، اُن كے مستجاب الدعوات ہونے كی بھی شہرت تھی، تقریر كے دوران اكثراُن كی آنكھیں نم ہوجاتی تھیں اور دردِ دل زبان كی راہ سے چھلك پڑتاتھا؛اِسی لیے اُن كی تقریر كو سننے كے لیے اكثر بڑا مجمع اكٹھا ہوجایا كرتا تھا ، جو بڑے شوق ومحبت اور گرویدگی كے ساتھ اُنھیں سناكرتا تھا۔ اُن كی اِن خوبیوں كی وجہ سے ، لوگ اُن سے بڑی اُنسیّت محسوس كرتے تھے اور اُنھیں اپنے دل سے قریب پاتے تھے؛ كیوں كہ انسان میں جتنی فِروتنی اور بے نفسی ہوتی ہے، وہ اُسی قدر لوگوں كے دلوں میں جابستا ہے كہ وہ اسے اپنا عزیزوقریب سمجھنے لگتے ہیں، عاجزی ومسكینیت دلوں پر حكم رانی كی شاہ كلید ہے ؛ كیوں كہ اس میں شرافت اور مروّت كے سارے معانی اور خوبیاں سمٹ آتی ہیں، جن سے انسان میں نہ صرف مردانگی اور كمال رجولیت اجاگر ہوتا ہے؛ بل كہ وہ انسانی آداب بھی جلوہ گرہوتے ہیں جن كو ملحوظ ركھ كر انسان اعلی سے اعلی اخلاق وعادات كا حامل بنتا ہے؛ اِسی لیے مولانا ؒ سے مل كر ہر جوہر شناش اور ہربے بصیرت كو بھی كہنا پڑتا تھا:

بہت جی خوش ہوا، اے ہم نشیں ! كل جوشؔ سے مل كر

ابھی اگلی شرافت كے نمونے پائے جاتے ہیں

                                                                                          (جوشؔ ملیح آبادی)

            افسوس ہے كہ ۱۴۰۲ھ/۱۹۸۲ء  –  ۱۴۳۸ھ/۲۰۱۶ء كے ۳۵   – ۳۶    سال كےطویل عرصے میں، راقم كو اپنی بے پناہ تحریری تدریسی مشغولیت كی وجہ سے، حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ ملنے جلنے كا موقع نہ مل سكا۔ دارالعلوم آمد كے چند سال بعد ہی شكر كی تكلیف دہ وكیثر العوارض بیماری كا شكار ہوگیا ، جس سے راقم جسمانی اور ذہنی مشغولیت اور الجھن سے مسلسل دوچار رہا۔ اُن سے اكثر دارالعلوم آتے جاتے ہوے ملاقات ہوتی رہتی تھی، راقم اُن سے معذرت خواہانہ لہجے میں اكثر كہتا كہ حضرت! بیماری اور مشاغل، نیز اپنی كاہلی كی وجہ سے، حاضرِخدمت نہیں ہوپاتا ؛ لیكن محبت واحترام كی جذبات میں كوئی كمی نہیں ،چناں چہ دعاؤں سے دریغ نہیں ركھتا ، توقع ہے كہ حضرت كچھ محسوس نہیں فرمائیں گےاور ہماری اِن كوتاہیوں سے آیندہ بھی درگزر فرماتے رہیں گے، تو وہ فرماتے : میں آپ كی مشغولیت اور اعذار سے بہ خوبی واقف ہوں، جن خردوں كے نہ ملنے یاكم ملنےسے كوئی شكایت میرے دل یازبان پر نہیں آتی ، اُن میں آپ سر فہرست ہیں، میں واقعتاً آپ سے بہت خوش رہتا ہوں كہ آپ بہت كام كے آدمی ہیںاور اپنے فرائض كا بہت احساس ركھتے ہیں اور اُنھیں بروقت اور بہت اچھی طرح انجام دینے كی كوشش كرتے ہیں، آپ دارالعلوم مئو میں محنتی طالب علم تھے اور دارالعلوم دیوبند میں لائق استاذ اور قیمتی تحریروں كے ذریعے طلبہ وعلما كوفائدہ پہنچارہے ، خدا كرے ہمارا آپ كا وہاں كاساتھ ہو ، جہاں ہمیشہ رہنا ہے۔

*       *       *

            حضرت مولانا عبدالحق اعظمیؒ بن عمر بن كریم بخش بن علی صدیقی كا خاندان اصلاً ضلع ’’جون پور‘‘ صوبہ ’’اترپردیش‘‘ كے گاؤں ’’ظفرآباد‘‘كا باسی تھا، جووہاں سے منتقل ہوكر ضلع’’اعظم گڑھ‘‘ كے ’’بسہی اِقبال پور‘‘ میں آبسا اور وہاں سے اسی ضلع كے موضع ’’جگدیش پور‘‘ میں سكونت پذیر ہوا، جہاں دوشنبہ : ۶/رجب ۱۳۴۷ھ مطابق ۱۷/دسمبر ۱۹۲۸ء كو مولانا ؒ كی پیدایش ہوئی۔ یہ تاریخِ پیدایش مولانا  ؒ نے اپنی یادداشت میں كسی جگہ تحریر فرماركھی ہے اور اُن كے اہلِ خانہ نے اِسی كو قابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔

            لیكن مولانا رحمۃاللہ علیہ نے دارالعلوم دیوبند میں داخلے كے وقت داخلہ فارم میں اپنی تاریخ پیدایش، دارالعلوم میں درج شدہ ریكارڈ كے مطابق ۱۹/جنوری ۱۹۳۵ھ لكھ ركھی ہے، جو سنہٴ  ہجری میں ۱۲/ذی قعدہ ۱۳۵۳ھ ہوتی ہے۔ اُنھوں نے دارالعلوم دیوبند میں ۱۳/شوال ۱۳۷۳ھ مطابق ۲۱/مئی ۱۹۵۱ء میں داخلہ لیاتھا۔ اِس تاریخ كے اعتبار سے دارالعلوم میں داخلہ كے وقت ، اُن كی عمرسنہٴ  عیسوی كے اعتبار سے انیس(۱۹) سال اور سنہٴ  ہجری كے اعتبار سے بیس(۲۰) سال ہوتی ہے۔ جب كہ پہلی والی تاریخ ولادت(جواُنھوں نے اپنی ڈائری میں درج كرركھی ہے )كے اعتبار سے دارالعلوم میں داخلے كے وقت ، اُن كی عمر كم وبیش ۲۶سال تھی۔

            حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تعلیم كا آغاز اپنے گاؤں  ’’جگدیش پور‘‘ كے مكتب ’’اِمدادالعلوم‘‘ میں كیا۔پھر وہ قصبہ ’’سرائے میر‘‘ ضلع اعظم گڑھ كے مشہور مدرسہ ’’بیت العلوم‘‘ میں داخل ہوے ، جہاں اُنھوں نے فارسی ، عربی ، نحووصرف اور فقہ وغیرہ كی ابتدائی اور متوسط كتابیں پڑھیں ۔ اِس مدرسے میں اُن كے اساتذہ میں مولانا محمدسجادؒ(۱۳۳۲ھ/۱۹۱۴ء  – ۱۴۰۵ھ/۱۹۸۴ء) مولانا عبدالقیومؒ (۱۳۲۴ھ/۱۹۰۶ء  –  ۱۴۱۵ھ/۱۹۹۴ء)مولانا احمدعلیؒ (۱۳۱۳ھ/۱۸۹۵ء  –  ۱۳۷۹ھ/۱۹۵۹ء) اورمولانا سعید احمدؒ (متوفی ۱۴۰۳ھ/۱۹۸۳ء)تھے۔

            پھر وہ اِ س كے بعد كی تعلیم كے لیے، دارالعلوم مئوناتھ بھنجن آگئے،جہاں مولانا محمد مسلم ؒ (۱۳۰۱ھ/۱۸۸۴ء  –  ۱۳۸۱ھ/۱۹۶۱ء) شیخ الحدیث اوبڑے استاذتھے۔ مولانا محمد مسلم ، ؒ مولانا عبدالحق ؒكے پھوپھی زاد بھائی تھے اور اُن كے سوتیلے والدبھی تھے؛ كیوں كہ اُن كے (مولانا عبدالحق  ؒ كے ) والد كے فوت ہوجانے كے بعد، اُن كی والدہ مولانا محمد مسلمؒ كے نكاح میں آگئی تھیں، مولانا عبدالحق  ؒ اپنے والد كی وفات كے وقت صرف چھ سال كے تھے۔ مولانا محمد مسلم ؒ نے اُن كی اپنے حقیقی بیٹے كی طرح پرورش وپرداخت كی، اُن كی وہبی صلاحیتوں نے بھی اپنا كردار ادا كیا اور مولانا محمد مسلمؒ كی عنایات والطاف نے اپنا رنگ دكھایا، چناں چہ مولانا عبدالحق باوصافہ وفضائلہ وہ بنے جو وہ تھے۔

            دارالعلوم مئوناتھ بھنجن میں مولانا عبدالحق  ؒ نے جن اساتذہ سے تعلیم وتربیت پائی ، اُن میں مولانا محمد مسلم ؒ كے علاوہ بھی كئی باكمال اور صاحب ِزہدوورع علماے نام دارتھے ،جن میں عاشق رسول  –  صلی اللہ علیہ وسلم  –  واعظ ِ لاجواب ، مدرس بے مثال ، عالم ظریف الطبع حضرت مولانا قاری وحافظ ریاست علی بحری آبادی ثم المئوی ؒ ۱۳۱۳ھ/۱۸۹۵ء  –  ۱۳۹۲ھ/۱۹۷۲ء) اور عالم اوَّاب وصالح تَوَّاب وصاحب كشف بزرگ حضرت مولانا محمد امین ادروی ؒ (۱۳۱۴ھ /۱۸۹۶ء – ۱۳۹۹ھ/۱۹۷۹ء ) اور مولانا حكیم منظور احمد ؒ( ۱۳۱۴ھ/ ۱۸۹۶ء  –  ۱۳۷۳ھ/ ۱۹۵۳ء )كے نام سرے فہرست ہیں ۔ اُن میں سے اول الذكر دونوں علما،حضرت مولانا شاہ وصی اللہ اعظمی ثم الگوركھپوری ثم الاِلہآبادی كے دست گرفتہ وخلیفہ ومجازِ بیعت تھے اور شاہ صاحب ؒ حكیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی نوَّراللہ مرقدہ (۱۲۸۰ھ/۱۸۶۳ء  –  ۱۳۶۲ھ/۱۹۴۳ء)كے اجلِّ خلفا میں تھے ، اسی لیے مشرقی یوپی كا یہ مدرسہ اپنی سادگی ، ٹیپ ٹاپ سے دوری ، خود نمائی وطمطراق سے مكمل بے نیازی كے باوجود ، تعلیم وتربیت اور طلبہ كی استعداد سازی كے تعلق سے مثالی اِدارہ رہا ہے ۔ اِس مدرسے میں تعلیم دینے والے اور تعلیم پانے والے دونوں ممتاز رہے ہیں، اِس نے بڑے بڑے علم وعمل كے جامع علما پیداكیے یا اُن كی علمی بنیاد استوار كركے دارالعلوم دیوبند میں طلبِ علم كے لائق بنایا۔ مشہور محدث اور اسناد واسماء الرجال كے عالمی سطح كے محقق ومحدث حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒ (۱۳۱۹ھ/ ۱۹۰۱ء  –  ۱۴۱۲ھ /۱۹۹۲ء) اور علم وسیاست كے میدان كے عظیم شہشوار وسپہ سالارحضرت مولانا عبداللطیف نعمانی ؒ (۱۳۱۵ھ/۱۸۹۸ء  –  ۱۳۹۲ھ/ ۱۹۷۳ء) اور مشہور محدث ومحقق ومصنف حضرت مولانا محمد مصطفی الاعظمی ثم السعودی، اسی مدرسے كے فاضل ہیں، گوآخر الذكر نے بعد میں دارالعلوم دیوبند سے بھی دورہٴ حدیث كیا۔ مشہورداعی ومصنف واہل قلم حضرت مولانا محمد منظورنعمانی  ؒ (۱۳۲۳ھ/۱۹۰۵ء  – ۱۴۱۷ھ /۱۹۹۷ء) اور فقیہ الاسلام حضرت مولانا مجاہدالاسلام قاسمیؒ (۱۳۵۵ھ/۱۹۳۶ء  –  ۱۴۲ھ/ ۲۰۰۲ء) اسی مدرسے كے خوشہ چیں تھے اور دارالعلوم دیوبند كے موجودہ مہتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی قاسمی بنارسی مدظلہ اسی مدرسے كے فیض یافتہ ہیں۔ اِس راقم ِ آثم : نورعالم خلیل امینی نے كم وبیش پانچ سال وہاں تعلیم پائی اور اِس وقت وہ جوكچھ ہے، اسی كا اصل فیضان ہے ۔ وہاں كے دوردیوانے اور اساتذہٴ  صالحین كی كیمیانظری نے ہی وہاں كی طالب علمی كے شب وروز كو قیمتی تربنانے كے لیے ، جگایا اور اكسایا او رنــتیجتًاكام كا بنایا۔ راقم نے ایسا علمی ماحول خدا شاہد ہے كہیں نہیں دیكھا ۔ افسوس ہے كہ اب وہ دن رہے نہ وہ لوگ  ع:

آں قدح بہ شكست وآں ساقی نہ ماند

            دارالعلوم مئو میں مذكورہ بالا علماے صالحین واساتذہٴ  مخلصین كی خدمات كے طفیل میں وہ توقع بے محل نہ ہوگی جوحضرت علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ (۱۳۰۲ھ/۱۸۸۴ء  –  ۱۳۷۳ھ/ ۱۹۵۳ء) نے حضرت تھانویؒ كی وفات پر كہے گئے اپنے مرثیے میں، حضرت تھانویؒ كی خانقاہ امدادیہ تھانہ بھون، كے لیے كی تھی:

پیر مغاں نہیں ہے، مگر مَےْ كدہ تو ہے

جام وسبو یہاں سے اٹھایا نہ جائے گا

            مولاناعبدالحق  ؒ نے دارالعلوم مئو میں موقوف علیہ تك تعلیم حاصل كی ۔ ۱۳۷۳ھ/ ۱۹۵۳ء میں دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوے اور یہاں دورہٴ حدیث شریف مكمل كیا ۔ ۱۳۷۴ھ/۱۹۵۴ءمیں دارالعلوم سے فراغت حاصل كی ۔ اُنھوں نے دارالعلوم دیوبند میں ،اُس كے سنہرے دور كی مكمل جھلك دیكھی اور اصحاب ِ عزیمت واربابِ زہدواتَّقا اساتذہٴ  گرامی كے سامنے زانوے تلمذ تہ كیا ، جو اپنے اپنے فن میں بے مثال تو تھے ہی ، تعلق مع اللہ مین بھی اپنےزمانے میں فرد تھے ۔ اُنھوں نے بخاری شریف كی دونوں جلدیں مجاہد مع النفس ومع الاِستعمار الانجلیزی، بطل حریت، شیخ الاسلام، حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنی نوَّرَاللہ مرقَدَہ سے پڑھی اور نہ صرف ظاہری اسباق سے فائدہ اُٹھایا؛  بل كہ اُن كے قلب ونظر سے بھی روحانیت كی مَےِ طہور كا جام آتشیں نوش كیا۔ مولانا عبدالحق  ؒ میں جو بے نفسی اور خاك ساری تھی، یقین ہے كہ حضرتِ مدنی قُدّسَ سرّہ كی منكسرالمزاجی كے درد تہ ِجام كا فیضان تھا جو مولانا ؒ نے جذب كیا تھا۔

            اُن كے دوسرےاستاذ، تاریخِ دارالعلوم دیوبند كے لاثانی ولافانی استاذ، شیخ الادب والفقہ، حضرت مولانا محمد اعزاز علی امروہوی قُدِّسَ سِرُّہ(۱۳۰۰ھ/۱۸۸۲ء  –  ۱۳۷۴ھ/۱۹۵۴ء) تھے، جن سے اُنھوں نے جامعِ ترمذی ، سنن ابی داوداور شمائل ترمذی پڑھی۔

            اُن كے تیسرے استاذ ،حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاوی رحمۃ اللہ علیہ (۱۳۰۴ھ /۱۸۸۶ء  –   ۱۳۸۷ھ/۱۹۶۷ء) تھے، جن كی ذہانت اور فہم وفراست نہ صرف دارالعلوم دیوبند ؛ بل كہ سارے علمی حلقوں میں ضرب المثل تھی، علمی نكتہ رسی اور حقائق ودقائق كی باریك بینی،اُن كی خاص شناخت تھی، اُ ن كے ذہین تلامذہ كا اُن كے متعلق خیال ہے كہ وہ درس گاہ میں جو درسی تقریریں كرتے تھے اُن میں صرف مغز ہوتا تھا، چھلكا بالكل نہیں ہوتا تھا ، اِسی لیے كم فہم طلبہ كے اكثر وہ پلے نہیں پڑتی تھیں ، گویا وہ طلبہٴ  خواص كے استاذ تھے، طلبۂ  عوام كے لیے وہ مخلوق نہیں ہوےتھے۔ مولانا عبدالحق  ؒ نے اُن سے صحیح مسلم پڑھی اوراور دیگر ذہین طلبہ كی طرح اُن كی فكری بلند پروازی سے خوب خوب فائدہ اُٹھایا۔

            دورہٴ حدیث شریف كے اُن كے دیگر اساتذہ یہ تھے: حضرت مولانا سید فخرالحسن مرادآبادیؒ (۱۳۲۳ھ/ ۱۹۰۵ ء –   ۱۴۰۰ھ/۱۹۸۰ء)جن سے اُنھوں نے سنن نسائی ، موطا مالك اور معانی الآثار للطحاوی پڑھی۔ مولانا محمدجلیل كیرانویؒ(متوفی ۱۳۸۸ھ/۱۹۶۸ء) جن سے موطا محمد پڑھی ۔ مولانا ظہور احمد دیوبندیؒ( ۱۳۱۸ھ/۱۹۰۰ء  –  ۱۳۸۳ھ/۱۹۶۳ء) جن سے سنن ابن ماجہ پڑھی۔

            مولانا ؒ نے دورہٴ  حدیث شریف كے امتحان میں امتیازی نمبرات سے كام یابی حاصل كی ؛ كیوں كہ پڑھائی لكھائی میں یك سوئی كے وہ عادی تھے، تعلیمی فرائض كے سواكسی چیز سے اُنھیں كوئی مطلب نہ تھا ۔ اُنھوں نے بخاری شریف میں ۴۵، ترمذی شریف میں ۴۸، نسائی شریف میں۴۶، ابن ماجہ شریف ۴۷، طحاوی شریف میں ۴۶، اور شمائل ترمذی میں ۴۶، موطامالك میں ۴۸،، موطا محمد میں ۴۶،اور تجوید كے امتحان میں ۴۹نمبر حاصل كیے۔اس وقت دارالعلوم میں ۵۰نمبر ہی آخری نمبر تھا،اس لیے۵۰،۱۰۰كے برابر تھا۔

            اُنھیں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زكریاكاندھلوی قدس سرہ(۱۳۱۵ھ/ ۱۸۹۷ء  –  ۱۴۰۲ھ/۱۹۸۲ء) محدث كبیر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی نوراللہ مرقدہ (۱۳۱۹ھ/۱۹۰۱ء  –  ۱۴۱۲ھ/۱۹۹۲ء) حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھول پوری نوراللہ مرقدہ (۱۲۹۳ھ/۱۸۷۶ء  –  ۱۳۸۳ھ/۱۹۶۳ء ) جو حضرت تھانویؒ كے كبار خلفا میں تھے، سے بھی اجازت حدیث حاصل تھی اسی طرح خطیب بے بدل ، عالم جلیل دارالعلوم دیوبند كے سابق مہتمم حضرت مولانا قاری محمد طیب بن محمد احمد بن امام محمد قاسم نانوتوی نوراللہ مرقدہ (۱۳۱۵ھ/۱۸۹۷ء  –  ۱۴۰۳ھ/ ۱۹۸۳ء) سے بھی۔

*       *       *

            دارالعلوم دیوبند سے فراغت كے بعد اُنھوں نےتدریسی زندگی كی ابتدا مدرسہ’’ مطلع العلوم ‘‘ وارانسی سابق’’بنارس‘‘ سے كیا، جہاں اُنھوں نے محرم ۱۳۷۵ھ مطابق اگست ۱۹۵۵ء تا شعبان ۱۳۸۸ھ مطابق اكتوبر ۱۹۶۸ءسولہ(۱۶) سال تك تدریسی خدمت انجام دی۔ اِ س مدرسے میں سولہ سالہ تدریسی مدت كے دوران اُنھوں نے نو مہینے آب وہواكی تبدیلی كے لیے ’’ جھاركھنڈ ‘‘ صوبہ كے ضلع ’’گریڈیہہ ‘‘ كے گاؤں ’’بولڈیہا‘‘ كے مدرسہ حسینیہ میں گزارے ، یعنی ذی الحجہ ۱۳۸۲ھ/ اپریل ۱۹۶۳ءسے شعبان ۱۳۸۳ھ/دسمبر ۱۹۶۳ءتك ۔

            یہاں سے اُنھوں نےاپنی سابقہ مادرعلمی دارالعلوم مئوناتھ بھنجن میں رحلِ سفراتارا ، جہاں شوال ۱۳۸۸ھ مطابق دسمبر۱۹۶۸ء سے شعبان ۱۴۰۲ھ مطابق جون ۱۹۸۲ءتك دیگر شرعی علوم كے ساتھ ساتھ بخاری شریف (۱۴) چودہ سال تك پڑھائی ۔ یہاں اُنھیں بہت پذیرائی ملی اور علما وطلبہ واہالیانِ شہر نے بہت محبت ، انسیت اور عقیدت سے نوازا۔ ویسے بھی وہ یہاں طالب علمانہ زندگی گزارچكے تھے؛ لیكن تدریسی زندگی میں وہ تقریباً اسی شہرِ حبّ و  وفا كے باسی بن گئے تھے، بعض اہلِ علم اُنھیں اپنا فرد خاندان تصور كرتے تھے اور زندگی كے سارے مسائل اور خوشی وغم كے مواقع سے اُنھیں شریك مشورہ ركھتے تھے، جن میں ہمارے شفیق ومخلص وفیّاض وغریب پرور وعلم دوست استاذ حضرت مولانا نذیر احمد مئوی بن مولانا حكیم محمد فاروق دامت بركاتہم سرفہرست ہیں،جو نہ صرف شہر مئو میں ؛ بل كہ مشرقی یوپی كے اس بہت بڑے خطے میں دارالعلوم دیوبند وجمعیۃ علماے ہند كے سب سےبڑے نمایندے اور ترجمان كی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ، اللہ اُنھیں صحت وعافیت كے ساتھ عمردراز اور توفیقِ مزید سے نوازے۔مئو كے لوگ نہیں چاہتے تھے كہ مولانا عبدالحق اب كبھی بھی حین حیات اُن سے جدا ہوں؛ اِسی لیے ۱۴۰۲ھ/۱۹۸۲ء میں دارالعلوم دیوبند میں سابقہ انتظامیہ كے رخصت ہوجانے اور نئے انتظامیہ كے استوار ہوجانے كے بعد ،جب آخر الذكر كی طرف سے مولانا عبدالحق  ؒ كو شیخ الحدیث ثانی كی حیثیت سے بُلَاوا آیا تو دارالعلوم دیوبند سے مثالی محبت وعقیدت كے باوجود مئووالوں نے مولانا عبدالحق  ؒ كو اپنے یہاں سے دارالعلوم جانے كو بادل ناخواستہ ہی گوارا كیا۔دارالعلوم آنے كے بعد بھی وہ سال میں كئی كئی بار مئو كا سفر كرتے اور اپنے وطن ’’جگدیش پور‘‘ میں اپنے اہل خانہ كے علاوہ مئوشہر كے اپنے ’’افراد خاندان‘‘ سے بھی مل كر بے پناہ خوشیوں اور حسین یادو كی سوغات لے كر واپس آتے اور اُس دیار كے دارالعلوم كے اساتذہ سے ہفتوں اُن خوشیوں كا تبادلہ كرتے رہتے۔

            دارالعلوم كی طلب پر وہ شوال ۱۴۰۲ھ/ اگست ۱۹۸۲ء میں دارالعلوم آگئے ، جہاں چونتیس(۳۴)سال اُنھوں نے بخاری شریف جلد ثانی كا درس دیا اور ’’شیخِ ثانی‘‘كے لقب سے مشہور ہوے۔ انھوں نے دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم مئو(جہاں بخاری شریف كی دونوں جلدیں پڑھائیں) میں تقریبًا پچاس سال تك بخاری شریف كی تدریس كی سعادت حاصل كی، جو بہت بڑی سعادت ہے، جس كے لیے بے شمار علما ترستے رہتے ہیں؛ لیكن یہ ہزاروں میں كسی كو ملتی ہے، كہ           

ایں سعادت بہ زور بازو نیست

تا نہ بخشد خداے بخشندہ

            اُنھوں نے درالعلوم دیوبند میں بخاری شریف كے علاوہ ’’ مشكاۃ المصابیح ‘‘ و ’’نخبۃ الفكر ‘‘ و ’’الاشباہ والنظائر‘‘ و تفسیر مظہری‘‘ و ’’تفسیر بیضاوی‘‘ و ’’موطامالك‘‘ بھی پڑھائیں۔ مولانا عبدالحق  ؒ جو كچھ پڑھاتے مطالعہ اور غور وفكر كے بعد پڑھاتے۔ وہ رقتِ قلبی كے غلبے كی وجہ سے، طلبہ كے لیے اپنے دروس میں روحانی تربیت كا خوب صورت ذریعہ بنتے۔ طلبہ اُن كے دل كی گدازی اور چشم ِ پرنم سے بہت متاثر رہتے اور اُن كے درس میں اور اُن كی تقریر میں اُن كا بہت جی لگتا تھا ۔ وہ درجے میں عموماً درسی موضوعات كی باتیں كرتے ؛ لیكن كبھی كبھی بزرگوںاور اپنے اساتذہ كے دل گدازواقعات بھی سناتے تھے؛ اس لیے اُن كے دروس، صرف علمی نہیں ؛ بل كہ تربیتی بھی ہوتے تھے، جو مدارس اسلامیہ كا اصل مقصد ہے۔

*       *       *

            مولانا عبدالحق  ؒ تزكیہ واِحسان كی راہ طے كرنے كے لیے سب سے پہلے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زكریا كاندھلوی قدس سرہ سے بیعت ہوے، جن كے پاس مدینہٴ  منورہ سے، اُن كے آمد كے موقع سے،بالخصوص رمضان المبارك میں ضرور حاضر ہوتے ، عشرہٴ  اخیرہ كا اعتكاف اُن كے ساتھ پابندی سے كرتے ۔ یكم شعبان ۱۴۰۳ھ مطابق ۲۴/مئی ۱۹۸۲ء ،كوشام كےوقت، ۵بج كر ۴۰منٹ پر جب اُن كا انتقال اور جنت البقیع میں اُن كی تدفین ہوگئی ، تواُنھوں نے اُن كے بعد ، اُ ن كے صاحب زادہٴ گرامی پیرجی حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب دامت بركاتہم سے رجوع فرمایا اور اُن سے اِجازت وخلافت حاصل كی ۔ نیز اُنھیں حضرت شاہ ابرارالحق حقی ہردوئی  ؒ (۱۳۳۹ھ/۱۹۲۰ء  –  ۱۴۲۶ھ/۲۰۰۵ء) كے داماد وخلیفہ جناب حكیم كلیم اللہ صاحب بن حكیم افہام اللہ انہونوی ثم العلی گڑھی دامت بركاتہم سے بھی اِجازتِ بیعت وارشاد حاصل تھی۔

*  *  *

            مولانا مرحوم نے اپنے پیچھے پانچ لڑكیاں اور سات صاحب زادے چھوڑے، جن كے نام بالترتیب یہ ہیں: عبدالحكیم ، مولانا عبدالبرقاسمی، عبدالتواب، مولاناعبدالمنعم قاسمی، عبدالمتعال، عبدالمقتدر اور محمد احمد۔ صاحب زادیاں سب شادی شدہ ہیں، صاحب زادے بھی متاہل ہیں ، البتہ تین صاحب زادے : عبدالمتعال، عبدالمقتدر اور محمداحمد غیر شادی شدہ ہیں۔

            مولانا رحمۃ اللہ علیہ كی پہلی شادی ،اعظم گڑھ كے قصبہ ’’پھول پور ‘‘ كے پاس كے ایك گاؤں ’’بیسان‘‘ میں ہوئی تھی۔ پہلی اہلیہ سے ایك لڑكا ’’عبدالحكیم ‘‘ اور دولڑكیاں متولد ہوئیں۔ اُن كے انتقال كے بعد دوسری شادی قصبہ ’’سراے میر‘‘ ضلع اعظم گڑھ كے پڑوس كے گاؤں ’’ننداؤں‘‘ میں ہوئی ، اُن اہلیہ سے صرف ایك لڑكا متولد ہوا ۔ اُن كے فوت ہوجانے كے بعد تیسری شادی ’’بنارس‘‘ میں ہوئی، اُن اہلیہ سے دولڑكیاں اور چھ لڑكے متولد ہوے۔ ماشاء اللہ ساری اولادیں حیات ہیں اور خوش وخرم ہیں۔ اللہ اُن سبھوں كا والی اور مدد گار ہوكہ خداكے سہارے كے بعد كسی سہارے كی ضرورت نہیں۔

*       *       *

            مولانا رحمۃ اللہ علیہ بلندآواز تھے، وہ اپنے خردوں اور تلامذہ سے باتیں كرتے توایسا محسوس ہوتاكہ وہ اُنھیں ڈانٹ رہے ہیں؛ بل كہ وہ بہت غصے كی حالت میں ہیں؛ لیكن ایسا كچھ نہیں تھا؛ بل كہ زور سے اور كراری آواز میں بات كرنا ، اُن كی فطرت تھی۔ وہ لوگوں كے ساتھ بالعموم نرمی اور ملاطفت سے پیش آتے ، كسی كو اُن سے كسی قول یافعل كے ذریعے كسی طرح كی اذیت كا كبھی كوئی خطرہ نہیں ہوتا تھا؛ كیوں كہ اُ ن كے ظاہر وباطن میں ایسی یگانگت تھی جو كم لوگوں كے حصے میں آتی ہے۔

            وہ صلحا وزاہدین كے اخلاق كے حامل تھے، نرم خواور نرم پہلو تھے، بے نفسی اُن كی گھٹی میں پڑی تھی، جسے اساتذہ ومشائخِ ربانیین كی صحبت نے اور صیقل كردیا تھا ۔ وہ مہمانوں كا بڑا اكرام كرتے اور انواع واقسام كے كھانے سے اُن كی ضیافت كرتے ۔ علما وطلبہ وعوام الناس میں یكساں مقبول ومحبوب تھے۔ اندازہ ہے كہ ان سے شاید ہی كسی كو تكدر رہاہو چہ جاے كہ كراہیت ؛ كیوں كہ وہ خود بھی كسی كے ساتھ كدورت اوركراہیت كا معاملہ نہ كرتے تھے؛ اِس لیے لوگوں كی طرف سے اُسی طرح كی خوش معاملگی اُن كے ساتھ ہوتی تھی۔

            وہ طویل القامت ، بٹے ہوے بدن كے، مائل بہ سیاہی گندم گوں رنگ كے تھے، پیشانی كشادہ، آنكھیں متوسط اور رسیلی ، ناك اونچی ، بھنویں اور داڑھی كے بال گھنیرے تھے، وھیل چیر كے استعمال سے پہلے تك ہاتھ میں سہارے كے لیے مضبوط اور چھریری چھڑی ركھتے تھے، گول ٹوپی اوڑھتے ، كرتا لمبا اورڈھیلا ڈھالا ہوتا، عمومًا سفید كپڑے زیبِ تن كرتے ؛ لیكن جاڑے میں اونی اوررنگین لباس استعمال كرتے،تكلف،بناوٹ اور زیب وزینت سے بالكل بیگانہ تھے۔ وہ آسان ، معمولی اور بے ساختہ زندگی گزارتے ۔بہت زیادہ نظام وقانون اور ضابطہ بندی سے كوئی مناسبت نہ تھی۔ وہ لوگوں كی نیكیوں سے خوش ہوتے اور اُن كی لغزشوں سے بالعموم چشم پوشی كرتے۔ اپنی نیكی ، یاعلم ، یا اپنی صلاحیت ، یا اپنے كسی ہنر پر فخر كرتے نہ اِتراتے نہ جتاتے ، اسی كے ساتھ وہ ظریف الطبع،  خوش مزاج اور وقاركے ساتھ پرُ مزاح بھی تھے۔ وہ معاملہ فہم اور صحیح وقت پر صحیح فیصلہ لینے والے بھی تھے۔ الغرض وہ ایك بہت اچھے انسان تھے۔

            حضرت مولاناؒ ، كاروانِ حیات سے، سنت اللہ كے مطابق، بچھڑكر وہاں پہنچ گئے، جہاں ہر فردِ بشر كو جانا ہے؛لیكن وہ ہمیشہ یاد ركھے جائیں گے؛ كیوں كہ وہ لوگوں كو دلوں میں سكونت پذیر تھے، ہیں اور رہیں گے اور اُن كی روح زندہ لوگوں سے ہمیشہ اِس طرح مخاطب رہے گی:

بچھڑ كر كارواں سے میں كبھی تنہا نہیں رہتا

رفیقِ راہ بن جاتی ہے گردِكارواں میری

                                                                       (جلیلؔ مانك پوری)

            صحیح ہے كہ اِس دنیاسے چلے جانے والے،پھر كبھی لوٹ كر نہیں آتے؛ لیكن اُن كی یادوں كی قندیل اُن كی انسانیت اور بھلائی كے بہ قدر تاقیامت انسانوں كےدلوں میں مُعَلَّقْ اور روشن رہتی ہے اور كسی لمحے ٹمٹماتی ہے، نہ بجھتی ہے، نہ جھپكتی ہے۔ سكندر علی وجدؔ نے كیا خوب كہا ہے :

جانے والے كبھی نہیں آتے

جانے والوں كی یاد آتی ہے

            اللہ پاك اُن كی حسنات كو حسنِ قبول عطاكرے اور اُن كی سیئات سے مكمل درگزركرےاور اُنھیں اپنی جنت میں اعلی سے اعلی مقام عطاكرےاور پس ماندگان واساتذہ وتلامذہ كو، صبرِ جمیل اور اجرِ جزیل سے نوازے ۔

اردوتحریر، عربی تحریر كی روشنی میں

پونے ۹بجے، شبِ جمعہ وشنبہ، ۶- ۷/صفر ۱۴۳۹ھ

مطابق۲۸-۲۷ /اكتوبر۲۰۱۷ء

*       *       *

————————————————

ماہنامہ دارالعلوم‏، شمارہ: 11،  جلد:101‏، صفر -ربیع الاول 1439ہجری مطابق نومبر 2017ء

Related Posts