حرفِ آغاز

مولانا محمد سلمان بجنوری

شمع کی طرح جئیں بزم گہہ عالم میں

خود جلیں، دیدہٴ اغیار کو بینا کردیں

اس وقت مسلمان، پوری دنیا میں جن حالات سے گزر رہے ہیں انھوں نے فکرمند لوگوں کو حددرجہ تشویش میں مبتلا کررکھا ہے، ایک طرف تو عالمِ اسلام کے نام سے موسوم اُس مبارک خطہ کی صورتِ حال ہے جواگر واقعتہً عالم اسلام ہوتا تو یقینا یہ حالات نہ ہوتے، موجودہ دور میں اس خطے کو فقط عالمِ مسلمین کہا جاسکتا ہے، اور پھر مسلمان بھی جس معیار کے ہیں اس کانتیجہ یہ ہے کہ جس کے سبب بیمار ہوئے ہیں اسی عطار کے بیٹے سے دوا لینے کی غلطی مسلسل کررہے ہیں، اس سنگین غلطی نے صورتِ حال کو قابو سے باہر کردیا ہے، جن لوگوں کی نظر، یمن، شام، عراق اور فلسطین ومصر کے حالات پر ہے، وہ ہر صبح کسی انہونی کا خطرہ دل میں لیے اٹھتے ہیں اور ہر دن کی خبریں ”اوروں کی عیاری“ اور ”مسلم کی سادگی“؛ بلکہ مجرمانہ سادگی کے شواہد پیش کرتی نظر آتی ہیں۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان ماؤں کی گودوں میں ابوعبیدہ وخالد نہیں، زنگی وایوبی نہیں بلکہ سلطان عبدالحمید کے نمونے بھی پیدا ہونے بند ہوگئے ہیں، جس نے ہر ٹزل کی بھاری رشوت کے بدلے فلسطین دیے جانے کی درخواست کو ٹھکرادیا تھا اور یہ کہا تھا کہ میری حیات میں توبڑی سے بڑی قیمت پر فلسطین کی ایک بالشت زمین وہ حاصل نہیں کرسکتے؛ البتہ اگر کبھی خلافت کا خاتمہ ہوگیا تو پھر بغیر کسی قیمت کے فلسطین لینا ان کے لیے ممکن ہوجائے گا۔ افسوس صد افسوس کہ یہ دوسری بات سچی ہوگئی اور آج فلسطین ہی نہیں، ہر اسلامی ملک میں عالمی طاقتوں کے ہراوَل دستے ثابت ہونے والے لوگوں کی فصلیں اُگ رہی ہیں۔

دوسری طرف بہت سے وہ ممالک ہیں جہاں مسلمانوں کی حکومت نہیں ہے؛ مگر وہاں مسلمان کم یا زیادہ تعداد میں رہتے ہیں، ایسے متعدد ملکوں میں بھی حالات نازک ہوتے جارہے ہیں، بالخصوص برما کے روہنگیائی نسل کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم نے تو اقوامِ متحدہ جیسے عالمی طاقتوں کے نمائندہ ادارے کو اس بات پر مجبور کردیا کہ وہ اپنا بھرم رکھنے ہی کے لیے سہی، ان مظلوموں کی مظلومیت کا اعتراف اتنی قوت سے کرے کہ ان کو دنیا کی مظلوم ترین اقلیت قرار دے۔ وہاں ہونے والے ظلم وستم نے برما کی، ”نوبل امن ایوارڈ“ یافتہ لیڈر آنگ سان سوچی کی شبیہ دنیا کے امن پسندوں کی نظر میں اس درجہ خراب کردی کہ وہ اس سے امن ایوارڈ واپس لیے جانے کا مطالبہ کرنے لگے۔

برما کے علاوہ چین سمیت اور بھی بعض ممالک میں بندہٴ مومن کے اوقات بہت تلخ چل رہے ہیں اور جان ومال، عزت وآبرو اور امن وامان کو درپیش خطرات کے حوالے سے تو ہمارے وطن عزیز سمیت شاید ہی کسی ملک میں اطمینان کی صورت حال ہو۔

ان حالات نے تشویش واضطراب کی لہر تو تمام ہی کلمہ گو انسانوں میں دوڑا رکھی ہے اور وہ بے یقینی اور بے چینی کی کیفیت سے گذر رہے ہیں؛ البتہ مستقبل کے حوالے سے دو طرح کے ذہن ہمارے درمیان پائے جاتے ہیں: ایک ذہن وہ ہے جو خوف، مایوسی اور دہشت کا اس درجہ شکار ہے کہ وہ صحیح تدبیریں سوچنے کی صلاحیت بھی کھوتا جارہا ہے اور اس سے اندیشہ ہے کہ وہ کسی افراط وتفریط کا شکار نہ ہوجائے۔ دوسرا ذہن وہ ہے جو امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑنا نہیں چاہتااور وہ حالات کی کسی بھی سنگینی کو ناقابلِ تبدیل نہیں سمجھتا؛ بلکہ یہ یقین رکھتا ہے کہ      ع

شب گریزاں ہوگی آخر جلوہٴ خورشید سے

البتہ یہ امر واقعہ ہے کہ صحیح فکر رکھنے والا یہ طبقہ بھی کسی سنجیدہ، مثبت اور موٴثر اقدام کی پوزیشن میں نظر نہیں آرہا ہے، جس کے اسباب پرگفتگو کا یہ موقع نہیں ہے، سردست صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ مایوس طبقہ کو یا عام مسلمانوں کو صحیح نہج پر لانا بھی اسی طبقہ کی ذمہ داری ہے؛ اس لیے جس سے جو کچھ بن پڑے اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔

فی الحال اس بارے میں دو باتیں عرض کرنی ہیں: پہلی بات کا تعلق امت کے ہر طبقہ اور تمام افراد سے ہے اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم سب کا ایمان ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے، اللہ رب العزت کے حکم سے ہوتا ہے۔ تمام انسانوں کے دل اللہ کے قبضے میں ہیں اور یہ کہ مشکل حالات اس امت کی تاریخ میں پہلی بار نہیں ہیں۔ کیا اس وقت کے حالات ۶۵۶ھ کے خلافتِ عباسیہ اور بغداد کے حالات سے زیادہ سخت اورمایوس کن ہیں؟ جن کو پیشِ نظر رکھ کر شیخ سعدی جیسے ذہین شخص نے یہ شعر کہا تھا کہ۔#

آسماں را حق بُود گر خوں ببارد بر زمین

بر زوالِ مُلکِ مستعصم امیر الموٴمنین

یعنی آسمان کو حق ہے کہ وہ امیرالمومنین مستعصم باللہ عباسی کی حکومت کے زوال کی وجہ سے زمین پر خون کی بارش برسائے۔ ظاہر ہے کہ مشکل حالات ہردور اور ہر علاقہ میں آئے ہیں؛ اس لیے مایوس وخوفزدہ ہونے کے بجائے حالات کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے۔

لیکن سچی بات یہ ہے کہ اسی مرحلے پر آکر ہم سے چوک ہوجاتی ہے، ہم میں سے جو بھی آدمی حالات کی اصلاح کے بارے میں فکرمند ہوتا ہے وہ شاید اپنے علاوہ باقی سب لوگوں کو حالات کا ذمہ دار سمجھتا ہے؛ اس لیے دوسروں کی اصلاح کی فکر کرتا ہے اور اپنے بارے میں غور کرنے کی زحمت نہیں کرتا۔ عام طور پر جب حالات کی بات آتی ہے تو حکمراں طبقہ اور قائدین کو لعنت ملامت شروع کردی جاتی ہے؛ بلکہ یہ کار خیر کرکے اپنی ذمہ داری ختم سمجھی جاتی ہے۔ ہمیں اس سے انکار نہیں کہ قائدین کی ذمہ داری زیادہ بڑی ہے اور ان کی کوتاہیاں بھی بڑی ہی ہوسکتی ہیں؛ لیکن ہم اس حقیقت کو کیوں فراموش کرجاتے ہیں کہ قائدین بھی ہم میں سے ہی پیدا ہوتے ہیں اور ہم جیسے کمزور ایمان اور غلط اعمال والے لوگوں کے لیے کسی زیادہ بہتر قیادت یا حکمرانوں کا ملنا خواب وخیال ہی کی بات ہوسکتی ہے۔

کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہم اپنے ذاتی کردار کے حوالے سے انتہائی پست اور ناقابل بیان حالت میں مبتلا ہیں۔ ہم میں کتنے لوگ ہیں جو اپنے اوپر اللہ کی شریعت پورے طور پر نافذ کرنے کے لیے بخوشی تیار ہوں، جو دوسروں کے حقوق کی ادائیگی پوری ذمہ داری سے کرنا چاہتے ہوں اور کرتے ہوں، جو عبادات کا حق نہیں، فرض ہی ادا کرنے کے لیے تیار ہوں، جو صداقت وشجاعت اور دیانت وامانت کے اوصاف سے متصف ہوں، جن کے اخلاق، اسلامی اور نبوی اخلاق کا نمونہ ہوں، جو اپنی زبان یا ہاتھ سے دوسروں کو تکلیف نہ پہنچاتے ہوں، جو اپنے ذاتی فائدے کے لیے ملت کو یا کسی دوسرے انسان کو نقصان پہنچانے سے پرہیز کرتے ہوں، جو اپنے منصبی فرائض پوری ذمہ داری سے ادا کرتے ہوں، جو اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کرکے اللہ سے مدد مانگتے ہوں جن کو تنہائی میں یہ یاد رہتا ہو کہ ہمارا رب ہمیں دیکھ رہا ہے، جو اپنے رب سے استغفار کااہتمام کرتے ہوں جو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق زندگی گذارنے کو باعثِ عزت سمجھتے ہوں، جو اپنے کلمہ گو بھائیوں سے حسد نہ رکھتے ہوں، جو اللہ کے کلام مقدس کی تلاوت کا اہتمام کرتے ہوں اور اسے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی سنجیدہ فکر رکھتے ہوں۔ اگر ایسے لوگوں کی تعداد ہم میں کم ہے اور یقینا کم؛ بلکہ بہت کم ہے تو پھر ہم کس منہ سے اپنے آپ کو اللہ کی مدد کا مستحق گردانتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ انتہائی سنجیدگی کے ساتھ ہر فرد اپنی اصلاح کی فکر کرے اور اپنے رب سے اپنا تعلق استوار کرے۔

دوسری گذارش افراد کے ساتھ جماعتوں، اداروں اور تنظیموں سبھی سے ہے اور وہ یہ کہ موجودہ حالات میں خواہ وہ کسی بھی ملک کے ہوں، ہماری اجتماعیت وقت کا سب سے بڑا تقاضا ہے، اس سلسلے میں یہ امید یا مطالبہ تو زیادہ ہی سادگی کے مرادف ہوگا کہ ہم اپنے تمام تر اختلافات بھلاکر ایک ہوجائیں اور اپنی اپنی علیحدہ شناخت ختم کردیں۔ ظاہر ہے یہ بات عملاً ناممکن ہے؛ البتہ دوباتیں بالکل عملی ہیں اور اجتماعی معاملات میں اگر ہم نے اپنے آپ کو ان دو باتوں پر بھی آمادہ نہ کیا تو پھر ہمارا اختلاف ہماری تباہی کا سبب ہوگا اور ہم پر کوئی رونے والا بھی نہ ہوگا۔

پہلی بات تو یہ کہ جن معاملات کا تعلق پوری ملت یا امت سے ہو، اُن میں کسی بھی طرح متحدہ موقف اپنایاجائے خواہ اُس کے لیے کوئی قربانی ہی دینی پڑے اور اس کے لیے عمومی ذہن سازی پر بھی محنت کی جائے۔

دوسری بات یہ کہ اختلاف کی بنیاد ذاتی مفاد پر نہ ہو اور کسی صحیح بات کو محض اس لیے رد نہ کردیا جائے کہ وہ دوسرے طبقہ کی جانب سے آئی ہے اور کسی غلط بات کی تائید محض اس لیے نہ کی جائے کہ وہ ہمارے حلقہ کی ہے؛ بلکہ شریعت وسنت اور ملت کے اجتماعی مفاد کو سامنے رکھ کر رائے قائم کی جائے۔

عام طور پر جب لوگ اختلاف کے نقصانات پر غور کرتے ہیں تو وہ سرے سے اختلافات ختم کرنے کا مطالبہ شروع کردیتے ہیں؛ جب کہ یہ غیرفطری بات ہے اور اسی لیے بارآور نہیں ہوتی؛ لیکن اگر ہم یہ سلیقہ پیدا کریں کہ اپنے اختلاف یا علیحدہ وجود کو باقی رکھتے ہوئے بھی مشترکہ معاملات میں اتحاد کرلیا کریں تو یقینا حالات بدلنے کی امید کی جاسکتی ہے۔

جس دن یہ دونوں باتیں یعنی اپنی ذاتی اصلاح کی فکر اور اجتماعی معاملات میں اتحاد کی فکر، ہمارے مزاج کا حصہ بن جائیں گی اسی دن سے وہ عمل حقیقی معنوں میں شروع ہوگا جسے دعوت کہتے ہیں اور اسی معیار پر ہوگا جس معیار پر اسے ہونا چاہیے، ورنہ ہم جیسے مسلمانوں سے تو کارِ دعوت انجام پانا مشکل ہے؛ البتہ آج کل کے حالات سے جس درجہ فکر اور اندیشوں کا ماحول بنا ہوا ہے، اسے دیکھ کر یہ امید دل میں جاگتی ہے کہ شاید اب ہم حالات بدلنے کی ان صحیح بنیادوں کو اپنانے کی سنجیدہ فکر تک بھی پہنچ جائیں گے، ان شاء اللہ۔

دل کہتا ہے فصلِ جنوں کے آنے میں کچھ دیر نہیں

ا ب یہ  ہو ا  چلنے  ہی  کو  ہے  صبح  چلے یا شام چلے

———————————————————

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ10 ، جلد:101‏، محرم-صفر 1439 ہجری مطابق اکتوبر 2017ء

Related Posts