حضرت مولانا ریاست علی ظفر بجنوریؒ ایک مخلص ومہربان شخصیت

از: حضرت مولانا عبدالخالق صاحب سنبھلی زید مجدہ

نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند                        

حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری نوراللہ مرقدہ ہمارے استاذ تو نہیں تھے؛ لیکن درحقیقت ہمارے اساتذہ ہی کے صف کے آدمی تھے؛ اس لیے کہ ان کا دارالعلوم میں تقرر، ہماری طالب علمی کے آخری سال میں ہوگیا تھا،اُسی وقت سے ان کو دیکھا، خاص طور سے جب کبھی حضرت الاستاذ شیخ الحدیث حضرت مولانا فخرالدین احمد مرادآبادی نوراللہ مرقدہ کے یہاں اس زمانے میں (جو حضرت کی حیاتِ طیبہ کا بھی آخری سال تھا) جاناہوا تو حضرت مولانا کو وہاں ضرور پایا، اس طرح طالبِ علمی ہی کے زمانے سے ان کی شخصیت سے واقف ہونے کا موقع ملا۔

اس کے بعد جب ۱۴۰۲ھ میں ہمارا دارالعلوم میں تقرر ہوگیاتو حضرت مولانا کو زیادہ قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، اس دور میں وہ ابتدائًانائب ناظم اور کچھ ہی عرصہ بعد ناظمِ مجلس تعلیمی کی حیثیت سے دارلعلوم کی تعلیمی سرگرمیوں کے روحِ رواں تھے۔ اس حیثیت سے ان کی شفقت ومحبت کا خوب تجربہ ہوا؛ حالانکہ وہ انتظامی منصب پر فائز تھے؛ لیکن ان کا طرزِ عمل اتنا متوازن ہوتا تھا کہ کسی کو ان سے شکایت کا موقع نہیں ملتا تھا۔ ہر ایک کے لیے اخلاص و ہمدردی ان کا خصوصی وصف تھا، ذاتی طور پر راقمِ سطور کے ساتھ اُن کا طرزِ عمل ایک مشفق ومخلص سرپرست کا ساتھا، ہمیشہ محبت کااظہار فرماتے اور مفید مشوروں سے نوازتے تھے۔

ان کے مخلصانہ مشوروں اور شفقت ومحبت کا اس وقت سے اور زیادہ تجربہ ہوا جب راقم کے کاندھوں پر موجودہ ذمہ داری آئی، اس زمانے میں ان کے مشورے اور رہنمائی سے خوب مستفید ہونے کا موقع ملا۔ مشورہ کی مجالس میں بھی اُن کی اصابتِ رائے سامنے آتی رہی، وہ جو بھی رائے پیش فرماتے تھے وہ تدبر و دوراندیشی کا مظہر ہوتی تھی، پھر رائے پیش کرنے کا اُن کا طریقہ بھی قابلِ تقلید تھا، وہ اپنی بات نہایت سلیقہ سے، مناسب الفاظ اور خوشگوار لہجہ میں پیش فرماتے اور ان کو اپنی رائے پر اصرار نہیں ہوتاتھا؛ جب کہ عام طور پر ان کی رائے، سب سے زیادہ باوزن ہوتی تھی۔

ذاتی طورپر راقم کے ساتھ یہ معاملہ بھی تھا کہ اگر میری کوئی تحریر ان کی نظر سے گذرتی اور اس میں کوئی بات ان کو قابلِ اصلاح محسوس ہوتی تو پوری ہمدردی کے ساتھ اس کی نشاندہی فرماتے اور اس میں حوصلہ افزائی کا پہلو بھی ہاتھ سے نہ جاتا، یہ ان کی محبت واخلاص کی واضح دلیل تھی۔ مجموعی اعتبار سے وہ دارالعلوم کے ماحول میں ایک انتہائی مشفق، مخلص اور مہربان سرپرست کی حیثیت رکھتے تھے؛ اسی لیے ان کے حادثہٴ وفات سے ہر شخص متاثر ہوا ہے۔

اللہ رب العزت حضرت کی مغفرت فرمائے اور ان کی حسنات کا بہترین بدلہ عطا فرمائے!

——————————————————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ8-9، جلد:101 ‏،ذی قعدہ-محرم 1438 ہجری مطابق اگست-ستمبر 2017ء

Related Posts