حیاتِ نانوتوی رحمہ اللہ کے روشن عناوین (ولادت: ۱۲۴۸ھ مطابق ۱۸۳۲ء، وفات: ۱۲۹۷ھ مطابق ۱۸۸۰ء)

از: مولانا اشتیاق احمد قاسمی

مدرس دارالعلوم دیوبند

حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی (۱۳۱۷ھ) نے حضرت حافظ محمد احمد صاحب رحمة اللہ علیہ کو تحریر فرمایا:

”شکر کنیدکہ خدا تعالیٰ شمارا یک ”ولیِ کامل“ عطا فرمودہ کہ بہ برکتِ انفاسِ او، ایں چنیں اعمالِ نیک ورضامندیِ اللہ ورسول بہ ظہور آمد واِلّا ایں دولت ہمہ کس را نہ دہند“ (امداد المشتاق، ص۲۵۳)

ترجمہ: آپ اللہ رب العزة کا شکر ادا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک ”ولیِ کامل“ عنایت فرمایا ہے کہ انھیں کے سانسوں کی برکت سے اس طرح کے نیک اعمال ظاہر ہورہے ہیں جو خدا اور رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی کا باعث ہیں؛ ورنہ یہ دولت اللہ تعالیٰ ہر کسی کو عنایت نہیں فرماتے ہیں۔

گم نامی

اس ولیِ کامل نے اپنے کو مٹانے ہی کی کوشش کی، وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کو کوئی جانے، کہیں اُن کے کارناموں کا ذکر ہو؛ چنانچہ ارشاد فرمایا:

”اگر مولویت کی یہ قید نہ ہوتی تو قاسم کی خاک تک کا بھی پتہ نہ چلتا، جانوروں کا بھی گھونسلا ہوتا ہے، میرے لیے تو یہ بھی نہ ہوتا اور کوئی میری ہوا تک نہ پاتا۔“ (سوانح قاسمی ۱/۱۴۵)

ایک دوسرے موقع سے فرمایا:

”لوگ جان نہ گئے ہوتے تو ایسا گم ہوتا کہ کوئی بھی نہ پہچانتا کہ قاسم دنیا میں پیدا بھی ہوا تھا۔“ (سوانح قاسمی ۱/۱۴۵)

حقِ میراث کی ادائیگی

لڑکیوں اور بہنوں کو میراث سے محروم کرنے کے لیے آج لوگ ہزار حیلے حوالے کرتے ہیں، آج مسلمانوں میں یتیموں، بیواؤں اور کمزوروں کے مال کھانے اور ہڑپنے کا رواج پڑا ہوا ہے، دنیا کی محبت میں لوگ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں سنتے، ان کی خواہش ہوتی ہے کہ شریعت کا قانون بھی ہماری خواہش کی موافقت کرے، آج دلوں سے اللہ کا خوف نکل چکا ہے، آخرت کے جزا وسزا کا تصور مٹ چکا ہے، حضرت نانوتوی جب تحصیل علم سے فارغ ہوئے تو سب سے پہلے رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی کی فکر دامن گیر ہوئی، میراث کی شرعی تخریج مرتب فرمائی اور سب کو اُن کا حصہٴ رسد پہنچادیا، فرائض کی تخریج کا عکس ”سوانح قاسمی“ میں موجود ہے۔ لکھا ہے:

”جب تحصیلِ علم“ سے فارغ ہوکر گھر آئے، تو املاک کا جائزہ لیا اور تمام املاک کو مشتبہ اور بعض کو مغصوبہ پایا، والد صاحب کو بہت سمجھایا کہ یہ کمائی ناجائز اور مشتبہ ہے، قیامت کے مواخذہ کا تقاضا ہے کہ حقیقی حق داروں تک ان کے حصے پہنچادیے جائیں، پھر ان زمینوں کے غلے کے استعمال میں احتیاط فرمائی اور والد صاحب کو بار بار سمجھاتے رہے،یہی نہیں؛ بلکہ مفصل فرائض نکلوائے اور اوپر کی بعید بعید پُشتوں کے حقوق اور حصے نکلوائے۔“ (سوانح قاسمی ۱/۴۹۶)

تقدیر پر اطمینان

اولیائے کاملین کی طبیعت بالکل معتدل رہتی ہے، ان کا ایمان تقدیر پر بالکل کامل رہتا ہے، خوشی کے مناظر سے وہ بہت زیادہ خوش نہیں ہوتے اور مصائب میں وہ زیادہ غمگین نہیں ہوتے، ان کا یقین ہوتا ہے ”لَنْ یُصِیْبَنا الّا ما کَتَبَ اللہُ لَنَا“ (ہرگز ان کو کوئی تکلیف نہیں پہنچ سکتی؛ مگر وہی جو اللہ تعالیٰ نے لکھ دی ہے)

حضرت نانوتوی آخری حج سے واپس ہورہے تھے، کشتی غرق ہوئی چاہتی تھی، سارے لوگ گھبراگئے؛ مگر حضرت پر بالکل اطمینان کی کیفیت تھی:

”کشتی جب ساحل سمندر سے جہاز تک پہنچنے کے لیے کھلی تو اس قدر تیز وتُند ہوا چلنے لگی کہ کشتیاں اِدھر اُدھر قریب غرق ہونے کے جھک جاتی تھیں، کشتی پر جو لوگ سوار تھے ہر ایک کا چہرہ زرد ہوجاتا تھا، اس طوفانِ بے تمیزی سے سب لوگ گھبراتے تھے؛ مگر مولانا اپنے حال پر رہے، ہم نے کبھی مولانا کو گھبراتے ہوئے نہیں دیکھا، مولوی صاحب اپنے معمولی کام بہ دستور انجام فرماتے رہے۔“ (سوانح قاسمی ۱/۲۸۲)

حرام و مشتبہ سے نفرت

عام طور پر آدمی حرام کھانے سے تو احتیاط کرتا ہے؛ مگر دوسرے کے یہاں دعوت وغیرہ کھانے سے احتیاط نہیں کرتا، تاویل کرلیتا ہے کہ داعی کی کمائی حلال اورحرام دونوں ہے تو ہم حلال کو سوچ کر قبول کرتے ہیں، حضرت نانوتوی کا باطن اتنا صاف اور پاکیزہ تھا کہ حرام ومشتبہ کا احساس بھی ہوجاتا تھا تو طبیعت منقبض ہوجاتی تھی، ”سوانح قاسمی“ میں ہے:

حضرت نانوتوی کو حرام کے طعام سے جیسی نفرت تھی ویسی ہی اس کا احساس بھی بہت جلد کرتے تھے۔ (۱/۳۶۵)

اگر کسی آدمی کی دل شکنی سے بچنے کے لیے مجبوری میں دعوت قبول کرتے تو چند لقمے کھالیتے اور گھر پہنچ کر قے کرتے تھے۔“ (ایضاً)

دنیا سے نفرت

حضرت نانوتوی کو دنیا چھوکر بھی نہیں لگی تھی، آپ دنیا کو بڑی حقارت سے ٹھکرادیا کرتے تھے، بڑے بڑے نوابوں نے ملنے کی تمنا کی؛ مگر کسی سے نہ ملے اور جب بھی ملے دین کے لیے ملے اور بے غرض ملے، ایک مرتبہ ایک رئیس صاحب روپے لے کر آئے اور آپ کو پیش کیا، آپ نے انکار کردیا، وہ مایوس ہوکر آپ کی جوتیوں میں ڈال دیا اور سوچا کہ اس طرح اٹھوالیں گے؛ مگر آپ جوتیوں کو جھاڑ کر کھڑے ہوگئے اور ہنس کر فرمانے لگے:

”دیکھو کہ دنیا ہمارے قدموں پر گرتی ہے اور دنیا دار اس کے قدموں پر گرتے ہیں۔“ (سوانح قاسمی ۱/۵۸۷)

حضرت شیخ الہند نے حضرت نانوتوی کی سادگی اور زہد واستغناء کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:

”اُس منقطع عن الخلق (مخلوق سے کنارہ کش) اور زاہد فی الدنیا (دنیا سے بے نیاز) کے حجرے میں کچھ بھی تو نظر نہ آتا تھا، چٹائی بھی اگر ایک تھی تو وہ بھی ٹوٹی ہوئی، گویا عمر بھر کے لیے اس چٹائی کو منتخب کرلیا تھا، نہ کوئی صندوق تھا، نہ کبھی کپڑوں کی گٹھری بندھی تھی۔

سفر میں بھی کوئی اہتمام نہ تھا، اگر کبھی ایک آدھ کپڑا ہوتو کسی کے پاس رکھوادیا، ورنہ اسی ایک جوڑے میں سفر پورا ہوتا، جو حضر میں پہنے ہوتے؛ البتہ ایک نیلی لنگی ساتھ رہتی تھی، جب کپڑے زیادہ میلے ہوگئے تو لنگی باندھ کر کپڑے اُتار لیے اور خود ہی دھولیے۔“ (ایضاً ۱/۴۵۲)

حضرت نانوتوی نے اپنی اہلیہ محترمہ کو بھی زہدوقناعت کی تعلیم دی اور عجیب وغریب تربیت فرمائی، خود اہلیہ محترمہ فرماتی ہیں:

”جب حضرت شبِ اوّل میں تشریف لائے تو آتے ہی نوافل شروع فرمائیں، نوافل سے فارغ ہونے کے بعد میرے پاس تشریف لائے اور متنانت وسنجیدگی سے فرمانے لگے، جب تم کو اللہ نے میرے ساتھ وابستہ کردیا ہے تو نبھاؤ کی ضرورت ہے؛ مگر بہ صورتِ موجودہ نبھاؤ میں دشواری ہے کہ تم امیر ہو اور میں غریب ونادار ہوں، صورتیں اب دو ہی ہیں، یا میں بھی تونگر (مال دار) بنوں، یا تم میری طرح نادار بن جاؤ! پھر فرمایا: میرا امیر بننا دشوار ہے؛ اس لیے آسان صورت دوسری ہوسکتی ہے کہ تم میری طرح ہوجاؤ!

یہ سب قول وقرار لے کر فرمایا:

”اچھا سب زیور اتار کر مجھے دے دو!“ پھر کپڑوں اور جہیز کے سامانوں پر بھی اختیار کا مطالبہ کیا اور علی الصباح تمام زیورات، تمام جوڑے کپڑوں کے اور سارے برتن جو ہزاروں روپے کے تھے، سب کا سب چندئہ سلطانی (ترکی امدادی فنڈ) میں دے دیا، سسرال والوں نے پھر سارے زیور بنوادیے، حضرت نے دوبارہ سارا سامان چندہ میں دے دیا۔ (سوانح قاسمی ۱/۵۰۸،۵۱۳)

مدرسہ کے مال میں احتیاط

دارالعلوم دیوبند کے مال میں حضرت نانوتوی بڑی احتیاط برتتے تھے: ”اگر کبھی بہ ضرورت مدرسہ کے دوات وقلم سے کوئی اپنا خط لکھ لیتے تو فوراً ایک آنہ مدرسہ کے خزانے میں داخل کردیتے تھے اور فرماتے تھے: بیت المال کی دولت ہے، ہم کو اس پر تصرف جائز نہیں۔“ (ایضاً ۱/۵۳۶)

بڑی ملازمت سے کنارہ کشی

حضرت نانوتوی نے اپنے آپ کو ہمیشہ ہی عہدوں اور دنیاداری سے دور رکھا، ان کے بہت سے ساتھی بڑے عہدوں پر فائز ہوئے؛ مگر آپ نے بڑی بڑی ملازمت کو قبول نہ فرمایا، ان کا دل بڑا غنی تھا، ان کا یقین تھا: ”الدُّنیا جِیْفَةٌ وَطَالِبُھَا کِلَابٌ“ (کہ دنیا مردار ہے اور اس کے طالب کتے ہیں) آپ ہمیشہ کمینی دنیا سے بالکل بے نیاز رہتے تھے، حضرت مولانا یعقوب فرماتے ہیں:

”ملک ومال کے جھگڑے اگر حضرت نانوتوی اپنے سر رکھتے تو ․․․․ وہ کہیں کے ڈپٹی کلکٹر یا صدر الصدور ہوتے۔“ (سوانح قاسمی ۱/۳۲۴)

”بھوپال سے غالباً نواب صدیق حسن خاں صاحب کی طرف سے مولانا نانوتوی کی طلبی آئی اور پانچ سو روپے ماہ وار تنخواہ مقرر ہوئی۔“ (ایضاً ۱/۳۵۸) آپ نے انکارفرمادیا۔

کبھی یہ بھی فرماتے: مجھے صاحبِ کمال سمجھ کر بلاتے ہیں اور میں اپنے اندر کوئی کمال نہیں پاتا۔

ایک بار آپ کے رفیقِ درس حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی دہلی تشریف لے گئے، وہاں اپنے استاذ حضرت مفتی صدرالدین آزردہ# سے ملاقات ہوئی، بڑی شفقت سے ملے، حالات دریافت کیے اور ساتھ ہی پوچھا: ”میاں قاسم کیا کرتے ہیں؟“ جواب میں حضرت گنگوہی نے ارشادفرمایا:

”مطبع میں تصحیح کرتے ہیں، آٹھ دس روپے تنخواہ پاتے ہیں۔“

یہ سن کر مفتی صاحب حیرت وافسوس کے لہجے میں ہاتھ پر ہاتھ مارکر فرمانے لگے: ”قاسم ایسا سستا! قاسم ایسا سستا!․․․ فقیر ہوگئے، فقیر ہوگئے! (سوانح قاسمی ۱/۲۵۲)

تواضع اور بے نفسی

حضرت نانوتوی میرٹھ میں تشریف فرماتھے کہ ایک شخص نے عشاء کے وقت ایک مسئلہ پوچھا، آپ نے سوال کا جواب دیا، سائل جب چلاگیا تو آپ کے ایک شاگرد نے عرض کیا کہ مجھے یہ مسئلہ یوں یاد ہے․․․․ آپ نے فرمایا: تم ٹھیک کہتے ہو، اب مستفتی کو تلاش کرنا شروع کیا، رات کافی گزر چکی تھی، تلاش پر اصرار جب زیادہ بڑھا تو لوگوں نے عرض کیا، رات زیادہ ہوچکی ہے، اب آرام فرمایے، ہم صبح ہونے پر اس کو بتادیں گے؛ لیکن آپ نے قبول نہ فرمایا، خود بنفس نفیس اٹھے اور رات کی اسی تاریکی میں، اس مسئلہ پوچھنے والے کے مکان پر تشریف لے گئے، گھر میں سے اس کو بلایا اور فرمایا: ہم نے اس وقت مسئلہ غلط بتلادیا تھا، تمہارے آنے کے بعد ایک شخص نے صحیح مسئلہ ہم کو بتلایا اور وہ اس طرح ہے۔“ (ایضاً ۱/۳۸۷)

جب ”میلہ خدا شناسی“ میں حضرت نانوتوی کی تقریر سے اسلام کا غلبہ ہوا، عیسائی پادری بہت شرمندہ ہوے، اس موقع سے رخصت ہوتے وقت ایک پادری آپ کے قریب آیا اور کہا: مولوی صاحب! آپ کی تقریر نہایت عمدہ رہی! آپ نے فرمایا:

گاہ باشد کہ کودکے ناداں

بہ غلط بر ہدف زند تیرے

ترجمہ: کبھی ایسا ہوتا ہے کہ نادان بچہ، غلطی سے نشانہ پر تیرماردیتا ہے۔ (گفتگوئے مذہبی، ص۴۰)

علم لدنی

حضرت نانوتوی کو اللہ تعالیٰ نے علوم ومعارف کا خزانہ عنایت فرمایا تھا، آپ کی تصانیف اس کے لیے شاہد عدل ہے، آپ کی تصانیف کا مطالعہ کرنے والا جانتا ہے کہ ان میں صرف وہی علوم نہیں ہیں جو کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں؛ بلکہ ایسے علوم بھی ہیں جو اللہ رب العزة محض اپنے فضل وکرم سے کسی خاص بندے کو عطا فرماتے ہیں، پنجاب کے ایک مشہور ومعروف بزرگ راؤ عبدالرحمن خان نے حضرت نانوتوی کی درخواست دعاء کے جواب میں فرمایا:

”بھائی تمہارے لیے کیا دعا کروں، میں نے اپنی آنکھوں سے تمہیں دونوں جہاں کے بادشاہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بخاری شریف پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔“ (سوانح قاسمی ۱/۲۵۷)

اور ایک دوسرے بزرگ حافظ عبدالقادر شہید نے ایک خاص انداز میں فرمایا:

”جا تو بڑا عالم ہے۔“ (ایضاً)

ایک بار اپنے پیرومرشد حضرت حاجی صاحب سے اپنے باطنی احوال رو رو کر بیان فرمائے تو حضرت حاجی صاحب نے فرمایا:

”تم سے حق تعالیٰ کو وہ کام لینا ہے جو نبیوں سے لیاگیا ہے، جاکر دین کی خدمت کرو! ذکر وشغل کا اہتمام چھوڑ دو!“ (ایضاً ۱/۲۵۹)

عشقِ نبوی

حضرت نانوتوی کے بہت سے واقعات ہیں، جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت اور عشق کی دلیل ہیں، حضرت مولانا منصورعلی خاں فرماتے ہیں: ”اسم گرامی جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا سن کر لرزہ بدن پر پڑجاتا تھا اور چہرہ کا رنگ متغیر ہوجاتا تھا اور ایک عجیب حالت نمایاں ہوتی تھی، جو معرضِ تحریر میں نہیں آسکتی۔“ (ایضاً ۱/۲۸۳)

حضرت نانوتوی حج سے فارغ ہوکر جب مدینہ منورہ روانہ ہوئے اوراس مقام پر پہنچے جہاں سے ”روضہٴ اطہر“ نظر آتا ہے، تو دیکھتے ہی وجد کا عالم طاری ہوگیا، آپ کے ساتھی آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہیں:

”جناب مولانا مرحوم نے اپنی نعلین اتار کر بغل میں دبالیں اور پا برہنہ، چلنا شروع کیا․․․․ میں نے اُن کی دیکھا دیکھی اپنی جوتیاں اتار، ننگے پیر ہمراہ مولانا مرحوم چلنا شروع کیا؛ مگر اس قدر پتھریاں پاؤں میں چبھنے لگیں کہ متحمل نہ ہوسکا،آخر جوتا پہن کر چلنے لگا؛ مگر مولانا مرحوم مدینہ منورہ تک کئی میل آخر شب تاریک میں اسی طرح برہنہ پا پہنچ گئے۔“ (ایضاً ۱/۱۵۶)

تلامذہ تیار کرنا

حضرت نانوتوی کی زندگی کا سب سے پُررونق کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے تلامذہ تیار کیے، وہ آفتاب وماہتاب بن کر روشن ہوئے، انھوں نے اپنے استاذِ محترم کے مشن کو آگے بڑھایا، کفر وشرک اور بدعات وخرافات سے بھری زمین میں رشد وہدایت کے چراغ جلائے اور ایسی تحریک برپا کردی کہ پورا عالم گواہ ہے کہ آج دنیا کا کوئی خطہ ایسا باقی نہیں جہاں دارالعلوم دیوبند کا فیض نہ پہنچ چکا ہو۔

حضرت نانوتوی کے براہِ راست تلامذہ کی بڑی تعداد ہے، ان میں نمایاں درج ذیل ہیں:

(۱)           حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی

(۲)          حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی

(۳)          حضرت مولانا رحیم اللہ بجنوری

(۴)          حضرت مولانا فخرالحسن گنگوہی

(۵)          حضرت مولانا عبدالعلی میرٹھی

(۶)           حضرت مولانا احمدحسن امروہی

آخرالذکر کا قصہ حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری نے بیان فرمایا کہ حضرت نانوتوی میرٹھ میں تھے، حضرت مولانا احمدحسن پڑھنے کے لیے آئے، اس زمانہ میں طلبہ خود کتاب حل کرکے آتے اور استاذ صاحب کے سامنے پڑھتے تھے، استاذ صاحب مزید وہ باتیں بیان کردیتے جو طلبہ کتاب میں نہ پڑھے ہوتے؛ چنانچہ حضرت نانوتوی کے سامنے جب وہ کتاب لے کر آئے تو حضرت نے فرمایا: ”اس مسئلہ میں قاسم یہ کہتا ہے“، اس طرح کئی دن سبق ہوا، پھر اچانک مولانا احمد حسن غائب ہوگئے، حضرت نے معلوم کیا تو معلوم ہوا کہ انھوں نے اپنے ایک ساتھی سے یہ بتایا تھا کہ میں تو کتاب ہی نہیں سمجھ پاتا ہوں تو ”قاسم“ کی کس طرح سمجھوں؟ اس لیے گھر جاتا ہوں۔

حضرت نانوتوی کو بڑا احساس ہوا، وہ امروہہ تشریف لے گئے اور اپنے شاگردِ عزیز سے کہا کہ تم چلو پڑھو! میں اب کتاب ہی پڑھاؤں گا، تم کو قاسم کی نہیں سناؤں گا؛ چنانچہ وہ دوبارہ آئے اور بہت بڑے محدث ہوئے اور حضرت نانوتوی کے علوم کے حقیقی وارث ثابت ہوئے۔

ایک بار ”میلہ خداشناسی“ سے واپسی پر لوگوں کا اصرار ہوا کہ حضرت نانوتوی وہی تقریر یہاں بھی بیان فرمادیں، حضرت نے فرمایا کہ اگر آپ حضرات اس تقریر کو سننا چاہیں تو مولوی احمدحسن سے سن لیں، خود فرماتے ہیں کہ یہ سن کر میں شش در رہ گیا، تقریر کا اعادہ ناممکن نظر آرہا تھا؛ مگر حکم کی تعمیل میں، میں نے تقریر شروع کردی، پھر مجھے خبر نہ رہی کہ میں کیا کہہ رہا ہوں جب تقریر ختم ہوئی تو میلے میں حاضر لوگوں نے گواہی دی کہ مِن وعَن وہی تقریر تھی جو حضرت مولانا قاسم نانوتوی نے فرمائی تھی۔ (سوانح قاسمی ۱/۴۴۲)

شورائیت کے اصول پر مدارس کا قیام

مغلیہ حکومت کا چراغ گل ہوا چاہتا تھا، مسلمانوں کے لیے اسلام کا تحفظ اہم ترین مسئلہ تھا، اس نازک وقت میں حضرت نانوتوی اور ان کے پانچ رفقا نے عام مسلمانوں کی امداد سے دینِ اسلام کی حفاظت کا طریقہ سوچا، ان رفقاء کے نام یہ ہیں: حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی، حضرت مولانا رفیع الدین صاحب، حضرت مولانا ذوالفقار صاحب، حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب اور حضرت حاجی سیّد محمدعابد صاحب رحمہم اللہ اجمعین۔

انھوں نے مدارس کے لیے ایسے رہ نما اصول وضع کیے جن پر مدارس کی بقا کا انحصار ہے، ان کی توجہ سے تھانہ بھون، مظفرنگر، گلاؤٹھی (بلندشہر) کیرانہ، دان پور، میرٹھ اور مرادآباد وغیرہ میں مدارس قاسم ہوئے، ان میں سے اکثر اب بھی دین اسلام کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔

اس طرح عیسائیوں کے عزائم خاک میں مل گئے، اسلام کی حقانیت کا جھنڈا صرف ہندوستان ہی نہیں پورے عالم میں لہراتا رہا۔

اوصافِ حمیدہ کا بیان ناممکن

حضرت نانوتوی اپنے دبلے پتلے وجود میں ملت کے لیے نہایت ہی دردمند دل رکھتے تھے، اسلام کی سربلندی کے لیے عملی طور پر تلوار سے بھی جہاد کیا اور زبان وقلم سے بھی؛ تقریر کا جواب تقریر سے؛ تحریر کا تحریر سے؛ شعر کا جواب شعر سے؛ انجیل کا جواب قرآن سے؛ اور تثلیث کا جواب توحید سے دیا۔

آپ بے مثال خطیب، لاجواب مصنف اور بے نظیر مجاہد تھے۔ آپ کے اوصافِ حمیدہ کو الفاظ و عبارات کا جامہ نہیں پہنایا جاسکتا ہے۔

بس یہی کہنے کو جی چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ہمارے لیے کچھ ایسے نفوس کو باقی رکھ رکھا تھا کہ ہم نے ان میں صحابہٴ کرام کا نمونہ دیکھ لیا، ورنہ ان کے اوصافِ حمیدہ کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو خیرالقرون میں پیدا ہونا چاہیے تھا۔

————————————————————-

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ5-6، جلد:101 ‏،شعبان۔رمضان 1438 ہجری مطابق مئی۔جون 2017ء

Related Posts