حرفِ آغاز

مولانا محمد سلمان بجنوری

اس وقت دنیا میں جس قدر تعلیمی نظام رائج ہیں، ان کومقاصد کے اعتبار سے بنیادی طور پر دو قسموں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے۔ ایک تو وہ جن کا مقصد انسان کی معاشی ضروریات کی تکمیل اور اس کی دنیوی زندگی کو آسان اور بہتر بنانا اور اس مقصد کے لیے ضروری صلاحیت انسان میں پیداکرنا ہے۔ اس نظام کے تحت دنیا کے ہر خطے اور ہر ملک میں اپنے اپنے انداز میں سرکاری اور غیر سرکاری ادارے چل رہے ہیں۔ اس وقت ایسے اداروں پر گفتگو ہمارا موضوع نہیں ہے۔

دوسرا نظام وہ ہے جس کا اصل مقصد انسان کی آخرت سنوارنا ہے، ظاہر ہے اس نظام کا تعلق صرف اسی امت سے ہوسکتا ہے جو اللہ کے آخری دین پر ایمان رکھتی ہے اور اس مقصد تک پہنچانے والا اس کا دینی تعلیمی مذہبی نظام ہوسکتا ہے۔ پھر اس مقصد کے لیے بھی دنیا کے اکثر ملکوں میں جہاں مسلمان رہتے ہیں خواہ ان کی حکومت ہو یا نہ ہو مختلف نظام تعلیم رائج ہیں؛ لیکن اگر ایک انتظامی ڈھانچہ سے مربوط ہونے کی شرط نہ لگائی جائے تو دنیا کے تمام دینی تعلیمی نظاموں میں، اپنے دائرہٴ فیض کی وسعت اور اثرات کی ہمہ گیری کے اعتبار سے سب سے بڑا اور وسیع نظام، دینی مدارس کا موجودہ نظام ہے، جو مغلیہ سلطنت کے خاتمہ کے بعد ہندوستان میں شروع ہوا جس کا نقطئہ آغاز اور مرکزی ادارہ دارالعلوم دیوبند ہے پھر مظاہر علوم سہارنپور، مدرسہ شاہی مرادآباد اور بعد میں (اپنے نصاب میں اختلاف کے باوجود، فکر وعقیدہ اور نظام میں یکسانیت کی بنا پر) دارالعلوم ندوة العلماء، نیز برصغیر کے دیگر ملکوں کے مرکزی ادارے اس کے اہم ستون ہیں۔

اس نظام کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یورپ ہو یا امریکہ یا افریقہ، ہر براعظم کے اُن تمام ممالک میں جہاں مسلمان آباد ہیں، اس نظام کے مدارس، مصروفِ خدمت ہیں جودارالعلوم دیوبند، یا دیگر مرکزی اداروں کے بلاواسطہ یا بالواسطہ فرزندوں نے قائم کیے ہیں، ایسے ادارے ان ممالک کے ہر اس شہر میں موجود ہیں، جہاں کسی بھی درجہ میں مسلمانوں کی قابلِ ذکر آبادی ہے۔ پھر ایشیا اور اس کا یہ خطہ جسے غیرمنقسم ہندوستان یا برصغیر کہاجاتا ہے، یہاں سے تو اس سلسلہ کا آغاز ہی ہوا ہے؛ اس لیے اس خطے کے تینوں ملکوں میں مدارس کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا ہی مشکل ہے۔

اسی کے ساتھ یہ بھی ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ان مدارس نے ماضی میں ایسے افراد تیار کیے ہیں جن میں سے ایک ایک فرد ایک امت کی حیثیت رکھتا ہے، شیخ الہند حضرت مولانا محمودحسن دیوبندی، حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری، حکیم الامت حضرت تھانوی، علامہ انور شاہ کشمیری، شیخ الاسلام حضرت مدنی، مفتی کفایت اللہ دہلوی، حضرت مولانا عبیداللہ سندھی، علامہ شبیر احمد عثمانی، علامہ سید سلیمان ندوی، حضرت مولانا محمدالیاس کاندھلوی، حضرت مولانا فخرالدین احمد مرادآبادی، حضرت مولانا مناظراحسن گیلانی، شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی، حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، ابوالمآثر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی، حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہم اللہ اور ان جیسے سیکڑوں اعیان واکابر جن میں سے ہر ایک کو دنیا کے کسی بڑے سے بڑے ادارے کے افراد کے مقابلہ میں پیش کیا جاسکتا ہے؛ بلکہ ان اکابر میں بعض نام تو ایسے ہیں کہ انھیں امت کے سابقہ بزرگوں کا نمونہ کہاجاسکتا ہے۔

ان دونوں باتوں کے ساتھ اس بات سے انکار بھی تعصب یا نادانی کا مصداق ہوگا کہ آج بھی امت کو مدارس کے اس نظام کی شدید ضرورت ہے اور اس کی نئی نسلوں کے دین وایمان کا تحفظ انہی مدارس سے وابستہ ہے؛ بلکہ مجموعی اعتبار سے مسلمانوں کی اکثردینی ضروریات کی تکمیل انہی سے ہوتی ہے، خواہ وہ تعلیمی ودینی ضروریات ہوں یا دیگر میدانوں میں درست رہنمائی کا معاملہ ہو۔ یہی مدارس آج امت کے معتبرعلمی ورثہ اور متوارث ومتوازن فکر وعقیدہ کی حفاظت وآبیاری کا فریضہ انجام دے رہے ہیں؛ بلکہ بعض حقائق کو سامنے رکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ آج امت کو ان مدارس کی ضرورت پہلے سے بھی زیادہ ہے۔

ہے ابھی محفل ہستی کو ضرورت تیری

اس کا تقاضا ہے کہ یہ مدارس ماضی سے کہیں زیادہ احساسِ ذمہ داری اور دیانت وامانت کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنے کی فکر کریں اور صداقت، عدالت اور شجاعت کا جو سبق ان کو اپنے اسلاف سے ورثہ میں ملا ہے، اسے پھر پڑھنے اور یاد کرنے کے لیے کمربستہ ہوجائیں کہ اس کے بغیر دنیا کی امامت کا کام نہیں لیا جاتا۔

لیکن اس وقت جو حقیقی صورت حال ہے، وہ یہ ہے کہ مدارس اپنے اس کردار پر باقی تو کیا رہتے اس کردار کو زندہ کرنے کی فکر ہی رخصت ہوتی جارہی ہے اور مدارس چلانے والے طبقہ کی ایک بڑی تعداد شاید مدارس کے مقاصدِ تاسیس کا پورا شعور وادراک بھی نہیں رکھتی یا اس سلسلے میں فکرمندی سے محروم ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ معیار تعلیم گھٹ رہا ہے،اچھے افراد تیار ہونا مشکل ہورہا ہے، علمی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہیں اور فرزندان مدارس میں فکر معاد کے بجائے کوئی اور ہی فکر پیدا ہوتی جارہی ہے؛ لیکن ان میں بھی علم وہنر اور اخلاص وعمل کی گرم بازاری پہلے جیسی نہیں نظر نہیں آرہی ہے اوراکثریت کا حال تو بلاشبہ تشویشناک ہے۔

اسی کے ساتھ ایک اور پہلو ہے، جسے نظر انداز کرنا بڑی نادانی کی بات ہوگی اور وہ یہ کہ اپنوں اور غیروں کا ایک طبقہ ان مدارس اور ان کی افادیت کا منکر؛ بلکہ ان کے وجود کا مخالف ہے۔ اپنوں میں پھر بھی نرم گرم دونوں طرح کے لوگ ہیں، جدت پسند طبقہ مدارس کی قدامت پسندی سے چڑتا ہے؛ مگر ان کے وجود کو سرے سے خارج نہیں کرتا؛ لیکن مذہب بیزار طبقہ ان کے وجود ہی کوپسند نہیں کرتا۔ اس کے باوجود کلمہ گو ہونے کی حیثیت سے ان طبقات کی جانب سے مدارس کے وجود کے لیے ایسا بڑا خطرہ سامنے نہیں ہے، اگرچہ مدارس کے اپنے منہاج پر قائم رہنے میں پھر بھی دشواریاں کھڑی ہوتی ہیں؛ لیکن غیروں کی جانب سے تو مدارس کے خلاف منظم اور منصوبہ بند مخالفت جاری ہے، عالمی طاقتیں، دینی تعلیم کے نظام کو ہی دنیا سے اکھاڑ پھینکنا چاہتی ہیں یا اس کا حلیہ اس قدر تبدیل کردینا چاہتی ہیں کہ وہ مسخ ہوکر رہ جائے۔ ان طاقتوں کی جانب سے یہ مخالفت کوئی تصوراتی یا موہوم چیز نہیں ہے؛ بلکہ واقعات وحقائق اس خطرے کی تصدیق کرتے ہیں، جن کی تفصیلات میں جانے کا یہ موقع نہیں ہے؛ البتہ یہ حالات شدت کے ساتھ اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہم ہوش کے ناخن لیں اور اپنی اندرونی خامیوں کی بھرپور اصلاح کرکے اپنے فرزندوں میں وہ ”شرر“ پیداکریں جس کے بعد ”خیال فقر وغناء“ سے آدمی کا پیچھا چھوٹ جاتا ہے اور اسے اس بات کا یقین حاصل ہوجاتا ہے۔#

کہ جہاں میں نانِ شعیر پر ہے مدارِ قوتِ حیدری

اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ مدارس کے تمام ترکیبی عناصر (اساتذہ، انتظامیہ اور طلبہ) کا جائزہ لے کر اصلاح کی فکر کی جائے اور اس کے لیے کسی دوسرے کی نصیحت کا انتظار نہ کرکے فوری طور پر یہ کام شروع کیا جائے۔

اس سلسلے میں چند گذارشات پیش خدمت ہیں، ان گذارشات میں کوئی ترتیب یاجامعیت ملحوظ نہیں ہے؛ بلکہ صرف اصلاح کی فکر پیدا کرنے کے لیے اُس میں معاون چند باتوں کا تذکرہ بطور یاددہانی مقصود ہے۔ فان الذکریٰ تنفع الموٴمنین․

(۱) معیار تعلیم: مدارس کے بارے میں جب بھی کوئی بات کی جاتی ہے تو سب سے پہلے ان کے معیارِ تعلیم کا مسئلہ سامنے آتا ہے بالخصوص مدارس کے شان دار ماضی کے پیش نظر، جس کی کچھ جھلکیاں ”تاریخ دارالعلوم دیوبند“ آپ بیتی حضرت شیخ الحدیث اور تذکرہ وسوانح کی دیگر کتب میں ملتی ہیں، جن کو دیکھ کر تعلیمی معیار کے بارے میں احساس شدت احتیاط کرجاتاہے۔

معیار تعلیم بہتر بنانے کے لیے پہلی چیز اساتذہ وطلبہ کی جانب سے اسباق کی بھرپور پابندی ہے کہ کسی شرعی، طبعی یا انتظامی عذر کے بغیر سبق کا ناغہ گوارا نہ کیا جائے، پھر طلبہ کو مطالعہ کا عادی بنایاجائے، ابتدائی درجات میں سبق سننے اور ہر طالب علم سے وقتاً فوقتاً عبارت پڑھوانے کا اہتمام کیاجائے، عربی نحو وصرف کی عملی تمرین پر توجہ دی جائے، ان میں عربی کی صلاحیت پیدا کی جائے، گویا طلبہ کی استعداد سازی کا کام پوری سنجیدگی کے ساتھ کیا جائے، ان کو وقت ضائع کرنے سے بچایا جائے، نظام الاوقات کی پابندی کرائی جائے؛ بلکہ ہر طالب علم کو ذاتی نظام الاوقات بھی مرتب کرنے کی ترغیب دی جائے۔

یہ تمام باتیں پہلے عام طور پر مدارس میں پائی جاتی تھیں، اب خال خال پائی جاتی ہیں؛ اس لیے معیار میں اس درجہ فرق آگیا کہ پہلے اچانک کسی مدرسے میں جاکر کسی بھی طالب علم سے سوالات کرکے اچھا گمان قائم ہوتا تھا اور آنے والا حسنِ ظن لے کر جاتا تھا اور آج بعض مدارس میں باقاعدہ امتحان کی مجلس سے مایوس ونمناک اٹھنا پڑتا ہے، اس صورتِ حال کا فوری تدارک ضروری ہے۔

حضرات اساتذہ کرام کو بھی مطالعہ کی وسعت، پوری دیانت سے کتاب حل کرنا اور سبق پڑھانا، انتھک محنت، تدین وتقویٰ اور تزکیہٴ نفس کا اہتمام، غیرتعلیمی مشاغل سے اجتناب، طلبہ کے ساتھ خیرخواہی وشفقت جیسے اوصاف اپنے اندر پیدا کرنے ہوں گے۔ اس کے لیے نئے فضلاء اپنے اساتذہ یا بڑوں سے کسی کو اپنا نگراں بناکر ان کے مشوروں کی روشنی میں خدمت جاری رکھیں۔ ہمارے سامنے ہمارے اکابر کی تدریسی زندگی کی جو تابناک مثالیں موجود ہیں، ان سے سبق حاصل کریں۔

(۲) تربیتی نظام: مدارس میں اس پہلو سے بھی تشویشناک حد تک انحطاط آیا ہے؛ جب کہ حالات کا تقاضا یہ تھا کہ اس سلسلے میں پہلے سے زیادہ مستعدی وبیداری کا ثبوت دیا جاتا؛ اس لیے کہ بگاڑ کے اسباب اس دور میں پہلے سے کہیں زیادہ ہیں، پہلے زمانے میں طالب علم گھر سے بھی کچھ نہ کچھ تربیت لے کر آتا تھا اور مدرسہ میں آکر تو اس کو صاف ستھرا ماحول مل ہی جاتا تھا، آج انٹرنیٹ اور موبائل کے دور میں نہ صرف گھر؛ بلکہ مدرسہ کی چہاردیواری میں بھی برائیوں سے اجتناب دشوار ہوگیا ہے، ایسے حالات میں تربیت پر توجہ کی کہیں زیادہ ضرورت ہے اور اس کے لیے صرف ضابطہ کی کچھ پابندیاں کافی نہیں ہوں گی؛ بلکہ مدرسہ کے مجموعی ماحول میں صلاح وتقویٰ اور دین داری کا مزاج بنانا ہوگا اور طلبہ کی ذہن سازی اور ان کے لیے صحبتِ صالح کا ماحول فراہم کرنا ہوگا۔ نیز ان میں دینی تعلیم کی عظمت واہمیت پر بھرپور اعتماد پیدا کرنا ہوگا۔

اسی طرح، باطل افکار ونظریات کے شیوع کے اس دور میں طلبہٴ مدارس کی فکری تربیت بھی حددرجہ ضروری ہوگی۔ ان میں عقیدہ کی اہمیت اور حقیقت کا ادراک پیدا کیا جائے، صحیح عقیدہ ومسلک سے روشناس کرایا جائے، باطل افکار اور فرق ضالہ کے سلسلے میں بھرپور معلومات سے آراستہ کیا جائے، دیگر مذاہب سے بھی مناسب واقفیت پیدا کی جائے، یہ تو ہرطالب علم کی ضرورت ہے پھر منتخب طلبہ کو الگ الگ موضوعات پر اختصاصی تربیت دی جائے۔ (دارالعلوم دیوبند میں قائم، نظام محاضرات اس سلسلہ میں عملی نمونہ بن سکتا ہے)۔

جہاں تک انتظامی معاملات کی بات ہے ان میں بھی بڑی نزاکتیں ہیں اور ان کی بھرپور اصلاح وقت کا شدید تقاضہ ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مدارس قائم کرنے کا محرک صرف علاقہ کی حقیقی ضرورت اور دینی تقاضہ ہو۔ اس کے بغیر کسی بھی دیگر سبب سے مدرسہ قائم کرنے کا سلسلہ فوری طور پر بند کیاجائے اور اس کا فیصلہ ہر شخص کا ضمیر ہی کرسکتا ہے ورنہ ہمارے پاس اس کی روک تھام کے لیے کوئی ضابطہ کا نظام تو نہ ہے اور نہ ہوسکتا ہے؛ اس لیے اس مسئلہ پر پوری دیانت، خداترسی اور اخلاصِ نیت سے غور کرکے فیصلہ کیاجائے۔

پھر ادارہ کے لیے لائق اساتذہ کا تقرر اور محنتی اساتذہ کی حوصلہ افزائی کا سلسلہ ہو اور استاذ کی اصل کارگذاری اس کی تعلیمی محنت ہی کو قرار دیا جائے، تنخواہوں کا معیار بہتر بنایاجائے، طلبہ کے لیے بھی قیام وطعام کا نظام درست رکھا جائے، ایسا نہ ہو کہ دارالاقامہ یا مطبخ دیکھ کر کوئی سلیقہ مند آدمی اپنے بچے کو مدرسہ میں بھیجنے کا ارادہ ہی بدل دے، صفائی ستھرائی کا بھی اہتمام کیا جائے۔

ایک بہت اہم پہلو مالیاتی معاملات کا ہے، اس میں سب سے اہم جز حسابات کی صفائی اور ان کا پوری دیانت وامانت پر مبنی ہونا ہے کہ حساب دیکھ کر کسی بھی سرکاری یا غیرسرکاری شخص کو انگلی رکھنے کا موقع نہ ملے۔ نیز فراہمی مالیات میں آبرومندانہ طرزعمل اختیار کیاجائے اور صرف اسباب ہی کو سب کچھ نہ سمجھا جائے؛ بلکہ مسبّب الاسباب پر نظر رکھی جائے، اس کے لیے حجة الاسلام حضرت اقدس مولانا محمد قاسم نانوتوی نوراللہ مرقدہ کے ”اصول ہشت گانہ“ برائے دارالعلوم دیوبند سے رہنمائی لی جائے کہ انسان کس طرح اسباب کی فراہمی کا اہتمام کرتے ہوئے توکل علی اللہ کی دولت سے بہرہ ور رہ سکتا ہے۔

یہ چند گذارشات ارباب مدارس کی خدمت میں اس لیے پیش کی جارہی ہیں کہ ہمیں یقین ہے کہ ابھی قدرت کو اس نظام مدارس سے کام لینا اور اسے باقی رکھنا منظور ہے؛ اس لیے اس نظام کو ہر قسم کے خلل اور کمزوری سے پاک کرنا ہی اس کے ساتھ اصل خیرخواہی ہے جس سے ان مدارس کو نئی زندگی ملے گی اور پورے اعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اگر اہل مدارس نے اخلاص کے ساتھ ان امور پر توجہ دینے کاکام شروع کردیا اور ”ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا“ سے اپنے آپ کو بلند کرلیا تو ان مدارس کا مستقبل، ان کے ماضی کی طرح روشن اور تاب ناک ہوجائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ

میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے

$$$

نوٹ: مضمون نگار حضرات کی خدمت میں گذارش ہے کہ مضمون کے ساتھ اپنا صحیح پتہ اور موبائل نمبر ضرور تحریر فرمائیں، نیز نئے حضرات اپنا تعارف بھی منسلک فرمادیا کریں۔ دوسری درخواست یہ ہے کہ مضامین میں جامعیت کے ساتھ اختصار ملحوظ رکھاجائے۔

ضروری تصحیح

 گذشتہ شمارے میں صفحہ ۴۷ پر ”مکتوب تعزیت“ میں حدیث اور بزرگوں کے قول کی تعیین میں تبدیلی ہوگئی؛ اس لیے تصحیح فرمالی جائے کہ الموت جسر یوصل الحبیب الی الحبیب ایک بزرگ حیان بن الاسود کا قول ہے اور من أحب لقاء اللہ أحب اللہ لقائہ حدیث نبوی ہے۔

——————————————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ3، جلد:101 ‏، جمادی الاخری 1438 ہجری مطابق مارچ 2017ء

Related Posts