دارالافتاء دارالعلوم دیوبند‏، ملتِ اسلامیہ كا سب سے معتمد دارالافتاء ہے‏، جس سے ہر ماہ سیكڑوں فتاویٰ صادر ہوتے ہیں۔ ماہ نامہ دارالعلوم كے قارئین كی دیرینہ خواہش تھی كہ دارالافتاء كے فتاویٰ سے استفادہ كا موقع دیا جائے‏، اس لیے اس شمارے سے منتخب فتاویٰ كی اشاعت كا سلسلہ شروع كیا جارہا ہے۔

سوال:

(۱)جوائنٹ فیملی کے اندر شرعی پردے کا کیا حکم ہے ؟

(۲)شرعی پردے کے بارے میں جوائنٹ فیملی میں کیا حقوق ہیں؟

(۳)کن کن امور پر کہاں تک پردہ کرنے کی گنجائش ہے، تفصیل سے بتائیں۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب وباللہ التوفیق(۱-۳):عورت کا اجنبی مردوں سے پردہ کرنا لازم وضروری ہے اگرچہ وہ اجنبی مرد ،عورت یا اس کے شوہر کے قریبی رشتہ دار ہوں، جیسے: شوہر کا بھائی اور چچا زاد بھائی وغیرہ ؛ بلکہ حدیثِ پاک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شوہر کے بھائی کو عورت کے حق میں موت قرار دیا ہے(مشکوة شریف ص ۲۶۸،بحوالہ:صحیحین،مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند) ، یعنی: اس سے سخت پردہ کی ضرورت ہے؛ اس لیے عورت کو شوہر کے یا اپنے قریبی رشتہ داروں میں جو اجنبی مرد ہوں،ان سے پردہ کا خاص اہتمام کرنا چاہیے؛ تاکہ فتنوں کا انسداد رہے ؛البتہ اگر مالی تنگی کی وجہ سے پردہ شرعی کے لیے الگ الگ مکانات کا نظم سخت مشکل ودشوار ہو اور بچے بچیاں بڑی ہوچکی ہوں اور گھر میں بہوئیں آچکی ہوں تو ایسی صورت میں بوجہ مجبوری درج ذیل چند باتوں کی رعایت کے ساتھ مشترکہ فیملی میں رہنے کی گنجائش ہوسکتی ہے :

 ۱- اجنبی مرد اور عورتیں یا لڑکے لڑکیاں بے تکلف ایک دوسرے کے سامنے نہ آئیں۔۲:- یہ لوگ بلا ضرورت ایک دوسرے سے کوئی گفتگو نہ کریں۔۳- نامحرم کے ساتھ خلوت و تنہائی سے سخت پرہیز کیا جائے۔۴- مرد اور لڑکے اطلاع کے بغیر گھر کے اندر نہ آئیں۔۵- عورت اگر کمرے سے باہر صحن وغیرہ میں آنا چاہے تو موٹی چادر یا دو پٹہ سے بال وغیرہ ڈھانک کر نکلے، چہرہ اور ہتھیلیاں کھلی رہیں توگنجائش ہے (فتاوی دار العلوم دیوبند ۱۶: ۱۹۹-۲۰۱،سوال: ۳۷۹- ۴۳۸۱، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند، احسن الفتاوی ۹: ۳۷،مطبوعہ: ایچ،ایم،سعید کمپنی،کراچی،آپ کے مسائل اور ان کا حل جدید تخریج شدہ ۸: ۸۹،۹۰، مطبوعہ: کتب خانہ نعیمیہ دیوبند بحوالہ: تعلیم الطالب،موٴلفہ: حضرت مولانااشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ص ۵)۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم․

محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ

الجواب صحیح:         حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، محمود حسن بلند شہری غفرلہ

مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

۲۱/جمادی الاولیٰ ۱۴۳۷ھ مطابق ۲/مارچ ۲۰۱۶/ چہارشنبہ

$$$

بعد سلام دعا عرض ہے کہ کیا بیت الخلاء میں ہم وضو شروع کرنے اور ختم کرنے کی مسنون دعائیں پڑھ سکتے ہیں اور وہاں آئینہ بھی لگا ہے تو کیا ھم آئینہ دیکھنے وقت کی مسنون دعا پڑھ سکتے ہیں؛جب کہ بیت الخلاء ایک نجاست والی جگہ ہے . جزاک اللہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب وباللہ التوفیق:-اگر بیت الخلاء میں غسل خانہ بھی ہے،یعنی: اٹیچ لیٹرین باتھ روم ہے اور دونوں ایک دوسرے سے واضح طور پر ممتاز ہیں ، مثلاً دونوں کے درمیان کوئی چھوٹی دیوار ہے اور غسل خانہ کے حصہ میں بیت الخلاء کی بدبو وغیرہ محسوس نہیں ہوتی تو غسل خانہ والے حصے میں وضو کرتے وقت وضو کی دعائیں پڑھ سکتے ہیں؛البتہ ہلکی آواز سے پڑھے،زور سے نہ پڑھے۔اسی طرح اگر آئینہ غسل خانے کے حصہ میں ہے تو آئینہ دیکھتے وقت آئینہ کی دعا بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اور اگر بیت الخلاء اورغسل خانہ دونوں واضح طور پر ممتاز نہیں ہیں یا وہ در اصل صرف بیت الخلاء ہے اور ہاتھ منھ دھونے کے لیے کسی جگہ کنارے کوئی چھوٹا سا واش بیسن لگادیا گیا ہے، جیسے عام طور پر ٹرینوں میں ہوتا ہے تو وہاں اگر کوئی شخص وضو کرے یا آئینہ میں چہرہ دیکھے تو وہ صرف دل دل میں دعا پڑھ سکتا ہے، زبان سے نہیں، مستفاد: ویدخل الخلاء… والمراد بیت التغوط برجلہ الیسری …، و…یستعیذ …باللہ من الشیطان الرجیم قبل دخولہ وقبل کشف عورتہ (مراقی الفلاح مع حاشیة الطحطاوی ص ۵۱، مطبوعہ: دار الکتب العلمیة بیروت)، قولہ:”قبل دخولہ“:الأولی التفصیل، وھو إن کان المعد لذلک یقول قبل الدخول، وإن کان غیر معد کالصحراء ففي أوان الشروع کتشمیر الثیاب مثلاً قبل کشف العورة، وإن نسي ذلک أتی بہ في نفسہ لا بلسانہ (حاشیة الطحطاوی علی المراقی )، وفي مسألتنا المکان کلہ غیر معد للخلاء بل المعد لہ ھو البعض من ذلک وھو ممتاز عن الآخر، وقال فی الفتاوی الھندیة: قال عین الأئمة الکرابیسي: لا تکرہ الصلاة في بیت فیہ بالوعة کذا فی القنیة (فتاوی عالمگیری قدیم ۵: ۳۱۵، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) فقط واللہ تعالیٰ أعلم․

محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ

الجواب صحیح:         حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، محمود حسن بلند شہری غفرلہ

مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

۱۸/جمادی الاولیٰ ۱۴۳۷ھ مطابق ۲۸/فروری ۲۰۱۶/ یکشنبہ

$$$

سوال: (۱) عرض یہ ہے کہ کیا ہر وقت ٹوپی پہننا ضروری ہے؟

(۲) اگر میں پینٹ شرٹ ، جینس ٹی شرٹ پہنتا ہوں؛ حالانکہ میں کوئی غلط کام نہیں کرتا، نماز اورتلاوت کا پابند ہوں؛ لیکن میں چاہتاہوں کہ لباس کے طورپر میں پینٹ شرٹ کوٹ ، جینس اور ٹی شرٹ پہنوں تو اگر میں ایسا کرتاہوں تو کیا میں گناہ گار ہوں؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حامدًا مصلیًا ومسلمًا: (۱) ہروقت ٹوپی پہننا ضروری تو نہیں؛ البتہ کھلے سر پھرنے کی عادت ناپسندیدہ، خلافِ ادب اور فساق کا شعار ہے؛ اس لیے شرعاً مکروہ ہے، اس سے احتراز ضروری ہے، پیرانِ پیر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”ویکرہ کشف الرأس بین الناس وما لیس بعورة مما جرت العادة بسترہ“ یعنی اپنے سر کو اور بدن کے اس حصے کو جو ستر میں داخل نہیں ہے؛ مگر باشریعت با تہذیب نیک لوگوں کا طریقہ یا ان کی عادت یہی ہے کہ وہ اس کو چھپائے رکھتے ہیں تو سرکو یا بدن کے ایسے حصے کو لوگوں کے سامنے کھولنا مکروہ ہے۔ (غنیة الطالبین: ۱/۱۳) علامہ جوزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ولا یخفی علی عاقل أن کشف الرأس مستقبح وفیہ إسقاط مروئة وترک أدب وإنما یقع في المناسک تعبداً للہ یعنی عاقل شخص پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ لوگوں کے سامنے سر کھلا رکھنا مکروہ ہے، جس کو بری نظر سے دیکھا جاتا ہے، شرافت، مروت، ادب اور شریفانہ تہذیب کے خلاف ہے، شریعت میں صرف احرام حج میں سر کھلا رکھنے کا حکم ہے جس کا مقصود تعبد ہے۔

(۲) لباس میں اہلِ تقوی حضرات کے لباس کو اختیار کرنا چاہیے، اس کا اثر دیگر چیزوں پر پڑتا ہے، لباس سے فساق وفجار کی مشابہت مکروہ ہے، پینٹ شرٹ میں اگرچہ اب پہلے کی طرح تشبہ نہیں رہا؛ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ پینٹ شرٹ اب بھی صالحین کا لباس نہیں رہا؛ اس لیے پینٹ شرٹ کا پہننا ناپسندیدہ ہے، حتی الامکان اس سے احتراز کرنا چاہیے، یہ تفصیل اس صورت میں ہے؛ جب کہ اس سے واجب الستر اعضاء کی بناوٹ اور حجم نظر نہ آتا ہو ورنہ اگر اس سے واجب الستر اعضاء کی بناوٹ اور ساخت نظر آتی ہو، جیسا کہ جینس پینٹ میں ہوتا ہے تو اس کا پہننا ناجائز وحرام ہوگا۔ فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم

فخر الاسلام عفی عنہ، نائب مفتی دارالعلوم دیوبند

الجواب صحیح:         زین الاسلام قاسمی الٰہ آبادی، وقار علی غفرلہ

مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

$$$

——————————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ12، جلد:100 ‏، ربیع الاول 1438 ہجری مطابق دسمبر 2016ء

Related Posts