از: مولانا مفتی عمرفاروق لوہاروی
شیخ الحدیث دارالعلوم، لندن
یہ عبداللہ بن زید، ابن عبد ربّہ نہیں؛ بلکہ ابن عاصم المازِنی رضی اللہ عنہما ہیں
$ ”صحیح بخاری“ میں ہے:
․․․ عَنْ عبدِ اللہِ بنِ أبی بکرِ بنِ محمدِ بنِ عمروِ بنِ جَزْمٍ عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِیْمٍ عَنْ عبدِ اللہِ بنِ زیدٍ أنّ النبیَّ صلی اللہُ علیہ وسلم تَوَضَّأَ مَرَّتَیْنِ مَرَّتَیْنِ․ (صحیح بخاری، کتاب الوضوء، باب الوضوء مرتین مرتین، ص:۲۷، ج:۱، قدیمی: کراچی)
”․․․ عبد اللہ بن ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم، عَبَّاد بن تَمیم سے اور وہ عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعضاءِ وضو کو دو دو مرتب دھویا“۔
شیخ الاسلام زکریا الانصاری (ولادت: راجح قول کے مطابق ۸۲۶ھ، وفات: ۹۲۶ھ)، علامہ قسطلانی (۸۵۱-۹۲۳ھ)، شیخ عبد اللہ بن حجازی الشرقاوی (۱۱۵۰-۱۲۲۷ھ)، نواب صدیق حسن خاں قنوجی بھوپالی (۱۲۴۸-۱۳۰۷ھ) رحمہم اللہ نے اس حدیث کی سند میں وارد عبداللہ بن زید سے عبداللہ بن زید بن عبدربّہ رضی اللہ عنہ کو جنھوں نے اذان والا خواب دیکھا تھا، مراد لیا ہے؛ چنانچہ منحة الباری بشرح صحیح البخاری المسمّی بہ تحفة الباری ہے (عن عبد اللہ بن زید) أی ابن عبد ربّہ․ (منحة الباری، ص:۴۳۷، ج:۱، الرشد: الریاض)
”ارشاد الساری“ میں ہے:
(عن عبد اللہ بن زید) أی ابن عبد ربّہ صاحب روٴیا الأذان رضی اللہ عنہ․ (ارشاد الساری، ص:۳۷۰، ج:۱، العلمیہ: بیروت)
”فتح المبدی بشرح مختصر الزبیدی“ للشرقاوی میں ہے:
(عن عبد اللہ بن زید) أی ابن عبد ربّہ صاحب روٴیا الأذان (رضی اللہ عنہ)․ (فتح المبدی، ص:۲۲۴، ج:۱، العلمیة: بیروت)
”عون الباری لحلّ أدلة صحیح البخاری“ میں ہے:
(عن عبد اللہ بن زید) بن عبد ربّہ صاحب الأذان․ (عون الباری، ص:۲۷۰، ج:۱، العلمیة: بیروت)
بندہ کہتا ہے:
امام ترمذی رحمة اللہ علیہ (اصح قول کے مطابق ۲۰۹-۲۷۹ھ) صاحب روٴیا الاذان: حضرت عبداللہ بن زید عبد ربّہ رضی اللہ عنہ کی اذان والی روایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
وعبدُ اللہِ بنُ زیدٍ ھُو ابنُ عبدِ رَبِّہ (ویُقال: ابنُ عبدِ ربٍّ)․
وَلاَ نَعْرِفُ لَہٗ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم شیئًا یَصِحُّ الّا ھذا الحدیثَ الواحدَ فی الأذانِ․ (الکتب الستة، جامع الترمذی، أبواب الصلاة، باب ما جاء فی بدء الأذان، ص:۱۶۵۴، دارالسلام: الریاض)
”عبد اللہ بن زید وہ ابن عبدربّہ ہیں، یعنی عبداللہ کے دادا کا نام عبدربّہ ہے (اور ایک قول عبدُربٍّ (ہ کے بغیر) کا ہے)۔
اوراذان کے متعلق اس ایک حدیث کے علاوہ ہم ان کی ایسی کوئی روایت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں جانتے، جو ثابت ہو۔“
امام ترمذی رحمة اللہ علیہ کے کلام کے اعتبار سے جب حضرت عبداللہ بن زید بن عبد ربہ رضی اللہ عنہ سے اذان والی روایت کے علاوہ کوئی اور روایت ثابت نہیں، تو مذکورہ بالا حضرات: شیخ الاسلام زکریا الانصاری رحمة اللہ علیہ وغیرہ کا ”صحیح بخاری“ کی روایت مذکورہ میں ”عبداللہ بن زید“ سے عبد اللہ بن زید بن عبد ربہ کو مراد لینا وہم ہوگا۔ مذکورہ روایت میں علامہ کرمانی، حافظ ابن حجر عسقلانی، علامہ عینی اور امام عبداللہ بن سالم البصری رحمہم اللہ نے ”عبداللہ بن زید“ سے عبد اللہ بن زید بن عاصم المازنی رضی اللہ عنہ کو مراد لیا ہے؛ چناں چہ علامہ کرمانی رحمة اللہ علیہ (۷۱۷-۷۸۶ھ) فرماتے ہیں:
و (عبد اللہ بن زید) بن عاصم ھو عمّ عباد، قد تقدم ذکرھما فی باب لا یتوضأ من الشک حتی یستیقن وھو غیر عبد اللہ بن زید بن عبد ربہ صاحب روٴیا الأذان․ (شرح البخاری للکرمانی، ص:۲۰۷، ج:۲، داراحیاء التراث العربی: بیروت)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وعبد اللہ بن زید ھو ابن عاصم المازنی․ (فتح الباری، ص:۳۱۱، ج:۱، دارالریان: القاہرة)
علامہ عینی رحمہ اللہ حدیث مذکور کے ذیل میں (بیان رجالہ) کے تحت اس چھٹے راوی کے سلسلے میں فرماتے ہیں:
السادس عبد اللہ بن زید بن عاصم المازنی وھو عمّ عَبّاد․․․ وھو غیر عبد اللہ بن زید بن عبد ربہ صاحب روٴیا الأذان رضی اللہ عنہ․ (عمدة القاری، ص:۴، ج:۳، داراحیاء التراث العربی: بیروت)
امام عبد اللہ بن سالم البصری رحمة اللہ علیہ (۱۰۴۸-۱۱۳۴ھ) فرماتے ہیں:
(عن عبد اللہ بن زید) أی: ابن عاصم الأنصاری المازنی، وھو عم عباد بن تمیم کما مرّ فی ”باب لا یتوضأ من الشک حتی یستیقن“، وھو غیر عبد اللہ بن زید بن عبد ربہ صاحب روٴیا الأذان․ (ضیاء الساری فی مسالک أبواب البخاری، ص:۲۱۹، ج:۳، دارالنوادر: سوریة)
ملحوظة:
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ حضرت عبداللہ بن زید بن عبد ربہ رضی اللہ عنہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ کئی حضرات نے ان کے بارے میں مطلقاً یہ کہہ دیا ہے کہ اذان والی روایت کے علاوہ ان کی کوئی اور روایت ہے ہی نہیں؛ حالاں کہ یہ خطا ہے۔ ان کی چھ یا سات روایتیں ہیں، جن کو میں نے الگ جزء میں جمع کیا ہے۔ ”الاصابة فی تمییز الصحابة“ لابن حجر میں ہے:
قال الترمذی: لا نعرف لہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم شیئًا یصح الا ھذا الحدیث الواحد․ وقال ابن عدی: لا نعرف لہ شیئًا یصح غیرہ، وأطلق غیر واحد أنہ لیس لہ غیرہ وھو خطأ، فقد جاء ت عنہ عدةُ أحادیث: ستة أو سبعة، جمعتھا فی جزء مفرد، وجزم البغوی بأن ما لہ غیر حدیث الأذان․ (الاصابة، ص:۳۱۲، ج:۲، دارالفکر: بیروت)
”تہذیب التہذیب“ لابن حجر میں ہے:
قال الترمذی عن البخاری: لا یعرف لہ الا حدیث الأذان․․․ قلت: وقال ابن عدی: لا نعرف لہ شیئًا یصح عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم الا حدیث الأذان․ انتھی (قال صدفی جمیل العطار فی تعلیقہ علی تھذیب التھذیب: لم نجدہ عند ابن عدی فی ”الکامل“) وھذا یوٴید کلام البخاری وھو المعتمد، وقد وجدت لہ أحادیث غیر الأذان جمعتھا فی جزء․ واغتر الأصبہانی بالأول، فجزم بہ، وتبعہ جماعة فوھموا․ (تھذیب التھذیب، ص:۳۰۷، ج:۴، دارالفکر: بیروت)
امام نووی رحمة اللہ علیہ (۶۳۱-۶۷۶ھ) ”تہذیب الأسماء واللغات“ میں فرماتے ہیں:
قال الترمذی: سمعت البخاریّ یقول: لا یعرف لعبد اللہ بن زید بن عبد ربہ الا حدیث الأذان․
قلت: قد روینا فی مسند أبی یعلی الموصلی عن محمد بن المثنی عن عبد الوھاب عن عبید اللہ بن بشیر بن محمد عن عبد اللہ بن زید بن عبد ربہ أنہ تصدق علی أبویہ ثم توفیا فردہ الیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میراثا․
وروینا فی تاریخ دِمَشق عن ابنہ محمد عن أبیہ عبد اللہ بن زید حدیثا فی حلق النبی صلی اللہ علیہ وسلم رأسہ بمنی وقسمة شعرہ وھو فی طبقات ابن سعد واسنادہ جید․ (تھذیب الأسماء واللغات، ص:۲۶۸، ۲۶۹، ج:۱، العلمیة: بیروت)
”عصر“ کی صراحت کہاں ہے؟
”صحیح بخاری“ کتاب مواقیت الصلاة میں ہے:
․․․ عَنِ ابْنِ شِھَابٍ أنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیْزِ أَخَّرَ الصَّلاَةَ یَوْمًا، فَدَخَلَ عَلَیْہِ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَیْرِ، فَأَخْبَرَہُ أَنَّ الْمُغِیْرَةَ بْنَ شُعْبَةَ أَخَّرَ الصَّلاَةَ یَوْمَاً، وَھُوَ بِالْعِرَاقِ․․․․ (صحیح بخاری، کتاب مواقیت الصلاة، باب مواقیت الصلاة وفضلھا الخ، ص:۷۵، ج:۱، قدیمی: کراتشی)
”․․․ ابن شہاب رحمہُ اللہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ نے ایک دن نماز میں تاخیر کردی، تو حضرت عروہ بن زبیر رحمہما اللہ ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان کو بتایا کہ ایک دن حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے نماز میں دیر کردی، دراں حالے کہ وہ عراق میں تھے – عراق کے گورنر تھے- ․․․“
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ نے (مدینہ منورہ زادھا اللہ شرفاً کے عہدِ گورنری بزمانہٴ اِمارت ولید بن عبدالملک میں) جس نماز میں تاخیر کردی تھی، وہ ”عصر“ کی نماز تھی، اس بات کی صراحت کہاں ہے؟
علامہ ابن بطال مالکی رحمة اللہ علیہ (وفات: ۴۴۹ وقیل غیرھا) فرماتے ہیں کہ یہ ”صحیح بخاری“ کتاب المغازی میں شعیب عن الزہری کی روایت میں ہے:
وھذہ الصلاة التی أخرھا عمرکانت صلاة العصر، روی ذلک شعیب عن الزھری فی المغازی من ھذا الکتاب․ (شرح صحیح البخاری لابن بطال، کتاب مواقیت الصلاة وفضلھا، قولہ تعالیٰ: ﴿اِنَّ الصَّلوٰةَ کَانَتْ عَلَی الْمُوٴْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا﴾ ص:۱۴۹، ج:۲، الرشد: الریاض)
بندہ کہتا ہے: یہ ابن بطال رحمة اللہ علیہ کا وہم ہے؛ اس لیے کہ یہ بات ”کتاب المغازی“ کی روایت میں نہیں ہے؛ چناں چہ ”کتاب المغازی“ کی روایت یہ ہے:
حَدَّثَنَا أبُوالْیَمَانِ، قَالَ: أخْبَرَنَا شُغَیْبٌ عَنِ الزُّھْرِیِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُرْوَةَ بنَ الزُّبَیْرِ یُحَدِّثُ عُمَرَ بنَ عَبْدِ الْعَزِیْزِ فِیْ امَارَتِہ: أَخَّرَ الْمُغِیْرَةُ بْنُ شُعْبَةَ الْعَصْرَ وَھُوَ أَمِیْرُ الْکُوْفَةِ․․․ (صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب بلا ترجمة بعد باب شھود الملائکة بدرًا، ص:۵۷۱، ج:۲، قدیمی: کراتشی)
اس میں تو حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے عصر کی نماز کو موٴخر کرنے کا ذکر ہے، حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ کے کسی نماز کوموٴخر کرنے کاذکر ہی نہیں، چہ جائے کہ ”عصر“ کی صراحت ہو۔ ہاں! ”کتاب بدء الخلق“ میں ”لیث عن الزہری“ کی روایت میں اس کی صراحت ہے، جو حسب ذیل ہے:
حَدَّثَنَا قُتَیْبَةُ حَدَّثَنَا لَیْثٌ عَنِ ابْنِ شِھَابٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ العَزِیزِ أَخَّرَ العَصْرَ شَیْئًا، فَقَالَ لَہُ عُرْوَةُ: أَمَا إِنَّ جِبْرَئِیْلَ قَدْ نَزَلَ فَصَلّٰی أَمَامَ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عُمَرُ: اَعْلَمُ مَا تَقُولُ یَا عُرْوَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ بَشِیرَ بْنَ أَبِی مَسْعُودٍ یَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا مَسْعُودٍ یَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: نَزَلَ جِبْرَئِیْلُ فَأَمَّنِیْ فَصَلَّیْتُ مَعَہُ، ثُمَّ صَلَّیْتُ مَعَہُ، ثُمَّ صَلَّیْتُ مَعَہُ، ثُمَّ صَلَّیْتُ مَعَہُ، ثُمَّ صَلَّیْتُ مَعَہُ یَحْسُبُ بِأَصَابِعِہِ خَمْسَ صَلَوَاتٍ․ (صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکة، ص:۴۵۷، ج:۱، قدیمی:کراچی)
یہاں وہم ہوگیاہے
حضرت مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو واپسی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
صَلُّوْا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ أُصَلِّیْ․ (صحیح بخاری، کتاب الأذان، باب الأذان للمسافر اذا کانوا جَماعة، والاقامة الخ، ص:۸۸، ج:۱، قدیمی: کراتشی)
”تم اسی طرح نماز پڑھنا، جیسے مجھے پڑھتے دیکھا ہے۔“
اس جملہ کو حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ (۷۷۳-۸۵۲ھ) نے ”تلخیص الحبیر فی تخریج أحادیث الرافعی الکبیر“ میں ایک مقام پر ”متفق علیہ“ قرار دیا ہے؛ چناں چہ ”تلخیص الحبیر“ میں ہے:
حدیث: ”صلّوا کما رأیتمونی أصلّی“ متفق علیہ من حدیث مالک بن الحویرث․ (تلخیص الحبیر، ص:۲۴۶-۲۴۷، ج:۲، موٴسسة قرطبة: القاھرة)
بندہ کہتا ہے:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کو یہاں وہم ہوگیا ہے؛ اس لیے کہ ”صلّوا کما رأیتمونی أصلّی“ صرف ”صحیح بخاری“ میں ہے، ”صحیح مسلم“ میں نہیں۔ البتہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دوسرے مقام میں اس کی تخریج کی نسبت بخاری ہی کی طرف کی ہے؛ چناں چہ ”تلخیص الحبیر“ میں ہے:
وحدیث: ”صلّوا کما رأیتمونی أصلّی“ رواہ البخاری من حدیث مالک بن الحویرث․ (تلخیص الحبیر، ص:۹، ج:۲، موٴسسة قرطبة: القاھرة)
عہد نبوت میں سورج گہن اور دو وہم کاذکر
عہدِ نبوت میں سورج گہن کتنی بار ہوا؟
$ عہد نبوت میں سورج گہن متعدد بار ہوئے یا صرف ایک مرتبہ ہوا؟ اس میں دو قول ہیں:
قولِ اوّل: علماء کی ایک جماعت، جن میں اسحق بن راہویہ، ابن جریر طبری اور ابن المنذر رحمہم اللہ ہیں، کہتی ہے کہ عہد نبوت میں سورج گہن متعدد بار ہوئے ہیں۔ ”فلکیاتِ جدیدہ“ میں ماخذ کے ذکر کے بغیر ماخوذ ایک جدول دیاگیا ہے، جس میں ۲۳ سالہ عہد نبوت کے ۱۹ سورج گہنوں کا وقوع کی تاریخوں کے ساتھ ذکر ہے۔ ملاحظہ ہو: فلکیاتِ جدیدہ، ص:۲۴۴، ۲۴۵، ادارة التصنیف والادب: لاہور۔
بندہ کہتا ہے:
”فلکیاتِ جدیدہ“ میں جو جدول دیاگیا ہے، وہ قاضی عبدالرحمن صاحب کا تیار کردہ ہے، جسے حضرت مولانا قاضی محمد سلیمان سلمان صاحب منصورپوری رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب ”رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم“، ص:۱۰۷،۱۰۸، ج:۱، دارالاشاعت: کراچی میں نقل فرمایا ہے؛ اس لیے ”فلکیاتِ جدیدہ“ میں مذکور جدول کا ماخذ غالباً ”رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم“ ہوگا۔
سورج گہن کی نماز کی کیفیت کے سلسلے میں وارد مختلف ومتعارض روایات کے درمیان جمع کے لیے امام نووی رحمة اللہ علیہ نے اس قول کو قوی قرار دیا ہے، جیساکہ ”صحیح مسلم بشرح النووی“ ص:۱۷۷، ج:۶، العلمیة: بیروت میں ہے۔
قولِ ثانی: علماء کی دوسری جماعت کہتی ہے کہ ۲۳ سالہ عہد نبوت میں سورج گہن ایک ہی مرتبہ ہوا ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحب زادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا وصال ہوا۔ علومِ ریاضی کے ماہر محمود پاشا مصری کی تحقیق یہی ہے۔
اِس قول کے اعتبار سے سورج گہن کی نماز کی کیفیت کے سلسلے میں وارد متعارض روایات ایک ہی واقعہ سے متعلق ہیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ کا رجحان ”فتح الباری“ ص:۶۱۲، ج:۲، دارالریان: القاہرة میں اسی طرف ہے اور محدث العصر علامہ انور شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ (۱۲۹۲-۱۳۵۲ھ) نے ”فیض الباری علی صحیح البخاری“ ص:۳۸۱، ج:۲ (المجلس العلمی: ڈابھیل) اور ”العرف الشذی شرح سنن الترمذی، ص:۶۰۶، ج:۱ (العلمیة: بیروت) میں اسی کو اختیار فرمایا ہے۔
قولِ ثانی پر تاریخ وقوع کیا ہے؟
$ قولِ ثانی: سورج گہن ایک ہی مرتبہ ہوا، پر اس کی تاریخ وقوع کیا ہے؟
(۱) فن ریاضی کی مایہٴ ناز شخصیت محمود پاشا مصری – جنھوں نے اسلام سے قبل عرب کی تقویم وجنتری سے متعلق فرانسیسی زبان میں ایک رسالہ لکھا ہے، جس کو احمد ذکی پاشا نے ”نتائج الأفھام فی تقویم العرب قبل الاسلام“ کے نام سے عربی جامہ پہنایا ہے- کی تحقیق کے مطابق مدینہ منورہ میں سورج گہن ۲۹/شوال ۱۰ھ مطابق ۲۷/جنوری ۶۳۲/ پیر کے دن ہوا۔
”مقالات الکوثری، ص:۴۰۶ (ایچ ایم سعید: کراتشی)، ”فتح الملھم“ ص:۶۱۳،۶۱۴، ج:۵ (مکتبة دارالعلوم: کراتشی) اور ”معارف السنن“ ص:۵، ج:۵ (المکتبة الرشیدیة: کراتشی) میں محمود پاشا کی یہی تحقیق مذکور ہے۔
(۲) ”العرف الشذی شرح سنن الترمذی“ ص:۶۰۶، ۶۰۷،ج:۱ (العلمیة: بیروت) اور ”أنوار الباری شرح صحیح البخاری“ ص:۳۲۸، ج:۱۶ (ادارہٴ تالیفاتِ اشرفیہ: ملتان) میں ۹ھ مذکور ہے۔
بندہ کہتا ہے:
۹ھ ذکر کرنے میں وہم واقع ہوا ہے؛ کیوں کہ ”العرف الشذی“ اور ”انوارالباری“ دونوں ہی میں محمود پاشا فلکی مصری کی تحقیق کا حوالہ دیاگیا ہے؛ حالاں کہ ان کی تحقیق ۹ھ نہیں؛ بلکہ ۱۰ھ ہے۔
(۳) احمد آباد شہر (صوبہ: گجرات، انڈیا) کے ایک ہندو پروفیسر کے حساب کی رُوسے اس کی تاریخ ۲۹/شوال ۱۰ھ مطابق ۲۸/جنوری ۶۳۲/ منگل ہے۔ (فلکیاتِ جدیدہ، ص:۲۴۳)
حضرت مولانا محمد موسیٰ روحانی بازی رحمة اللہ علیہ (وفات: ۱۴۱۹ھ): شابق شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ، لاہور فرماتے ہیں:
”ہمارے خیال میں مذکورہ بالا بیان میں یہ اشکال ہے کہ ۲۷/جنوری ۶۳۲/ کو اتوار کا دن تھا؛ سوموار کا نہیں (جیسا کہ فلکی محمود پاشا مصری نے لکھا ہے)۔
اسی طرح ۲۸/جنوری ۶۳۲/ کو سوموار کا دن ہونا چاہیے؛ منگل نہیں (جیساکہ ہندوپروفیسر نے لکھا ہے)۔
نیز جنوری میں سخت سردی پڑتی ہے اور صحیح روایاتِ ابی داود ومسلم میں ہے کہ یہ آفتاب گہن سخت گرمی کے موسم میں واقع ہوا تھا، صلاةِ کُسُوف پڑھتے ہوئے بعض لوگ شدّتِ گرمی کے باعث بیہوش ہوکر گرپڑے، ہوش میں لانے اور گرمی دفع کرنے کی خاطر ان پرپانی ڈالاگیا۔“ (فلکیاتِ جدیدہ، ص:۲۴۳،۲۴۴)
(۴) حضرت مولانا محمدموسیٰ روحانی بازی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”ہمارے خیال میں اس کُسوف کی تاریخ وقوع سوموار ۳۰/محرم ۱۱ھ مطابق ۲۸/اپریل ۶۳۲/ ہے۔ مدینہ منورہمیں عرضِ بلد کی کمی کی وجہ سے اپریل ہمارے (اہل ملتان وپنجاب کے) جون یا مئی سے کم گرم نہیں ہوتا۔
(۵) یا اس کی تاریخ وقوع اس سے قبل جمعرات (خمیس) (۲۹/ربیع الاول ۱۰ھ مطابق ۶/جون ۶۳۱/ ہے۔
اس بیان کی تائید میں بعض وہ روایات پیش کی جاسکتی ہیں، جن میں حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ربیع الاوّل میں بتائی گئی ہے۔“ (فلکیاتِ جدیدہ، ص:۲۴۴)
سورج گہن کا وقت کون سا تھا؟
محمودپاشا فلکی مصری کی تحقیق کے مطابق عہد نبوت میں ہونے والا واحد سورج گہن صبح ساڑھے آٹھ بجے ہوا تھا۔ ”العرف الشذی“ میں ہے:
وقال (أی محمود فاشا الفرنساوی): ان الکسوف فی عھدہ علیہ الصلاة والسلام واحد، وانکسف وقت ثمانیة ساعات ونصف ساعة علی حساب عرض المدینة․ (العرف الشذی، أبواب الصلاة، باب ما جاء فی صلاة الکسوف، ص:۶۰۶، ۶۰۷، ج:۱)
”فتح الملھم“ میں ہے:
․․․ أن الشمس کسفت فی المدینة المنورة فی یوم الاثنین ۲۹ شوال سنة ۱۰، الموافق لیوم ۲۷ ینادر سنة ۶۳۲ میلادیة فی الساعة ۸، والدقیقة ۳۰ صباحاً․ (فتح الملھم، کتاب الکسوف، ص:۶۱۴، ج:۵، مکتبہ دارالعلوم کراتشی)
حضرت مولانا احمد رضا صاحب بجنوری نور اللہ مرقدہ (۱۹۰۷/-۱۴۱۸ھ) ”أنوار الباری شرح صحیح البخاری“ میں تحریر فرماتے ہیں:
حضرت (علامہ انور) شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ نے فرمایا:
”حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں صرف ایک بار سورج گرہن ہوا تھا، جو حسب تحقیق مشہور ماہر ریاضی محمود شاہ فرنساوی ۹ھ میں ساڑھے آٹھ گھنٹے تک رہا تھا۔“ (أنوارالباری، ص:۳۲۸، ج:۱۶، ادارہٴ تالیفاتِ اشرفیہ: ملتان)
بندہ کہتا ہے:
”انوارالباری“ میں وہم ہوگیا ہے، ”ساڑھے آٹھ بجے ہوا تھا“ کی بجائے ”ساڑھے آٹھ گھنٹے تک رہا تھا“ ذکر کردیا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
اس مضمون کی تکمیل کے بعد ”نتائج الأفھام فی تقویم العرب قبل الاسلام“ دستیاب ہوئی، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کی متعلقہ عبارت ذیل میں درج کردی جائے:
وقد تتبعت حسابًا دقیقًا، فاتضح لی منہ أن الشمس کسفت فی المدینة المنورة فی الساعة ۸ والدقیقة ۳۰ بعد نصف اللیل من یوم ۲۷ ینایر سنة ۶۳۲م․
وبناءً علی ذلک یکون الیوم التاسع والعشرون من شوال من السنة العاشرة للھجرة موافقًا للیوم السابع والعشرین من ینایر سنة ۶۳۲م، فھذہ مسئلة فلکیة قد توصلنا الی تحقیقھا، فاجعلھا علی بال منک․ (نتائج الأفھام فی تقویم العرب قبل الاسلام، المبحث الأول فی تحدید یوم مات ابراھیم بن النبی علیہ الصلاة والسلام بکسوف شمسی، ص:۹، ۱۰، داراحیاء التراث العربی: بیروت)
ابومروان الغسانی کی صحیح بخاری میں کتنی حدیثیں ہیں؟
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ (۷۷۳-۸۵۳ھ) ابومروان یحییٰ بن ابی زکریا الغسانی الواسطی کے ترجمہ میں فرماتے ہیں:
مالہ فی البخاری سوی موضع واحد متابعة․ (تقریب التھذیب، ص:۶۵۸، ج:۲، دارالفکر: بیروت)
”ان کی ”صحیح بخاری“ میں ایک جگہ متابعتاً حدیث کے علاوہ کوئی حدیث نہیں ہے۔“
لہ فی صحیح البخاری حدیث واحد عن ھشام بن عروة عن أبیہ عن عائشة – رضی اللہ عنہا – متابعة․ (تھذیب التھذیب، ص:۲۳۰، ج:۹، دارالفکر: بیروت)
”ان کی ”صحیح بخاری“ میں ہشام بن عروہ عن ابیہ عن عائشة – رضی اللہ عنہا- کے طریق سے ایک متابعتاً حدیث ہی ہے۔“
بندہ کہتا ہے:
ابومروان الغسانی کی ”صحیح بخاری“ میں ایک ہی حدیث ہونے کا قول وہم ہے۔ خود حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ نے ”فتح الباری“ میں دوسری حدیث کا وجود تسلیم کیا ہے؛ چناں چہ فتح الباری، کتاب الھبة، باب من أھدی الی صاحبہ وتحری بعض نسائہ دون بعض میں ابومروان الغسانی کی متابعتاً حدیث کے ذیل میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقد تقدمت لأبی مروان ھذا روایة موصولة فی کتاب الحج․ (فتح الباری، کتاب الھبة، باب من أھدی الی صاحبہ وتحری بعض نسائہ دون بعض، ص: ۲۴۷، ج:۵، دارالریان، القاھرة)
”اس ابومروان کی موصول روایت کتاب الحج میں گزرچکی ہے۔“
درحقیقت ابومروان یحییٰ بن ابی زکریا الغسانی کی ”صحیح بخاری“ میں نہ صرف ایک حدیث ہے اور نہ ہی دو؛ بل کہ ان کی حدیثیں پانچ سے کم تو ہرگز نہیں، جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
(۱) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ قال حَدَّثَنِی سُلَیْمَانُ عَنْ ھِشَامٍ ح قال وَحَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ قال حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ یَحْیَیٰ بْنُ أَبِی زَکَرِیَّاءَ عَنْ ھِشَامٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: ”إِنْ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیَتَعَذَّرُ فِی مَرَضِہِ: أَیْنَ أَنَا الیَوْمَ، أَیْنَ أَنَا غَدًا؟ اسْتِبْطَاءً لِیَوْمِ عَائِشَةَ․ فَلَمَّا کَانَ یَوْمِی قَبَضَہُ اللہُ بَیْنَ سَحْرِی وَنَحْرِی، وَدُفِنَ فِی بَیْتِی“ (صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم وأبی بکر و عمر رضی اللہ عنہما، ص:۱۸۶، ج:۱، قدیمی: کراچی)
(۲)حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ یُوسُفَ قال أَخْبَرَنَا مَالِکٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ زَیْنَبَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا قالت: ”شَکَوْتُ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ“ ح قال وحَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ یَحْیَیٰ بْنُ أَبِی زَکَرِیَّاءَ الغَسَّانِیُّ عَنْ ھِشَامٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا زَوْجِ النَّبِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ”أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ وَھُوَ بِمَکَّةَ وَأَرَادَ الخُرُوجَ – وَلَمْ تَکُنْ أُمُّ سَلَمَةَ طَافَتْ بِالْبَیْتِ وَأَرَادَتِ الخُرُوجَ – فَقَالَ لَھَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ”إِذَا أُقِیمَتْ صَلاَةٌ لِلصُّبْحِ (صلاة الصبحِ) فَطُوفِی عَلَی بَعِیرِکِ وَالنَّاسُ یُصَلُّونَ، فَفَعَلَتْ ذَلِکَ وَلَمْ تُصَلِّ حَتَّیٰ خَرَجَتْ“ (صحیح بخاری، کتاب الحج، باب من صلّی رکعتی الطواف خارجًا من المسجد، ص:۲۲۰، ج:۱، قدیمی: کراچی)
(۳)وَقَالَ أَبُو مَرْوَانَ الغسانی عَنْ ھِشَامٍ عَنْ عُرْوَةَ ”کَانَ النَّاسُ یَتَحَرَّوْنَ بِھَدَایَاھُمْ یَوْمَ عَائِشَةَ“․ وَعَنْ ھِشَامٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ قُرَیْشٍ وَرَجُلٍ مِنَ المَوَالِی عَنِ الزُّھْرِیِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ ”قَالَتْ عَائِشَةُ: کُنْتُ عِنْدَ النَّبِیِّ فَاسْتَأْذَنَتْ فَاطِمَةُ“․ (صحیح بخاری، کتاب الھبة، باب من أھدی الی صاحبہ وتحری بعض نسائہ دون بعض، ص:۳۵۱، ج:۱، قدیمی: کراچی)
(۴)حَدَّثَنَا فَرْوَةُ بْنُ أَبِی المَغْرَاءِ قال حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْھِرٍ عَنْ ھِشَامٍ عَنْ أَبِیہِ ”عَنْ عَائِشَةَ ھُزِمَ المُشْرِکُونَ یَوْمَ أُحُدٍ․․․“ ح وحَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ قال حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ یَحْیَیٰ بْنُ أَبِی زَکَرِیَّاءَ الوَاسِطِیَّ عَنْ ھِشَامٍ عَنْ عُرْوَةَ ”عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْھَا، قَالَتْ: صَرَخَ إِبْلِیسُ یَوْمَ أُحُدٍ فِی النَّاسِ: یَا عِبَادَ اللہِ أُخْرَاکُمْ، فَرَجَعَتْ أُولاَھُمْ عَلَی أُخْرَاھُمْ، حَتَّی قَتَلُوا الیَمَانِ، فَقَالَ حُذَیْفَةُ: أَبِی أَبِی، فَقَتَلُوہُ، فَقَالَ حُذَیْفَةُ: غَفَرَ اللہُ لَکُمْ․ قَالَ: وَقَدْ کَانَ انْھَزَمَ مِنْھُمْ قَوْمٌ حَتَّی لَحِقُوا بِالطَّائِفِ“․ (صحیح بخاری، کتاب الدیات، باب العفو فی الخطأ بعد الموت، ص:۱۰۱۷، ج:۲، قدیمی کراچی)
(۵)وَقَالَ أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ ھِشَامٍ ح وَحَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ قال حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی زَکَرِیَّا الغَسَّانِیُّ عَنْ ھِشَامٍ بن عُرْوَةَ عن أبیہ ”عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطَبَ النَّاسَ فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ وَقَالَ: مَا تُشِیرُونَ عَلَیَّ فِی قَوْمٍ یَسُبُّونَ أَھْلِی مَا عَلِمْتُ عَلَیْھِمْ مِنْ سُوءٍ قَطُّ“ وَعَنْ عُرْوَةَ قَالَ: ”لَمَّا أُخْبِرَتْ عَائِشَةُ بِالأَمْرِ قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللَّہِ أَتَأْذَنُ لِی أَنْ أَنْطَلِقَ إِلَی أَھْلِی؟ فَأَذِنَ لَھَا فَأَرْسَلَ مَعَھَا الغُلاَمَ․ وَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ: سُبْحَانَکَ مَا یَکُونُ لَنَا أَنْ نَتَکَلَّمَ بِھَذَا، سُبْحَانَکَ ھَذَا بُھْتَانٌ عَظِیمٌ․ (صحیح بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب قول اللہ تعالیٰ ﴿وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ، وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ﴾ الخ، ص:۱۰۹۶، ج:۲، قدیمی: کراچی)
(جاری)
———————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ12، جلد: 99 ، صفر1437 ہجری مطابق دسمبر 2015ء