از: مولانا محمد انس حسان
گورنمنٹ ڈگری کالج جہانیاں، پاکستان
اجماع
(فقہ اسلامی کا تیسرا ماخذ)
فقہ اسلامی کا تیسرا ماخذ اجماع ہے۔ اجماع کا لغوی معنی ہے کسی بات پر متفق ہوجانا؛ چنانچہ قرآنِ کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاَجْمِعُوا أمْرَکُمْ شُرَکَاءَ کُمْ﴾ (۱۷)
”تم اپنی بات طے کرلو اور اپنے شریکوں کو اکٹھا کرلو۔“
فقہاء کی اصطلاح میں اجماع کسی معاملہ پر امت اسلامیہ کے اہل علم طبقہ کے اتفاق کرنے کو کہتے ہیں۔ جیسا کہ اصول کی کتابوں میں ہے:
وَھُو اِتِّفَاقُ أھْلِ الْحِلِّ وَالْعَقْدِ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم عَلٰی أمْرٍ مِنَ الأُمُوْرِ․(۱۸)
”حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے اہلِ حل و عقد کے کسی معاملہ میں اتفاق کا نام اجماع ہے۔“
جمہور علماء نے اجماع کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
”اِتِّفَاقُ الْمُجْتَھِدِیْنَ مِنْ أمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ وَفَاتِہ فِیْ عَصْرٍ مِنَ الْعُصُوْرِ عَلٰی حُکْمٍ شَرْعِیٍ․(۱۹)
”رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی بھی زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے مجتہدین کا کسی شرعی حکم پر اتفاقِ رائے کرلینے کو اجماع کہتے ہیں۔“
علامہ علی بن محمد الآمدی(متوفی ۶۳۱ھ) فرماتے ہیں:
اِتَّفَقَ أَکْثَرُ الْمُسْلِمِیْنَ عَلٰی أنَّ الاجْمَاعَ حُجَّةٌ شَرْعِیَّةٌ یَجِبُ الْعَمَلُ بِہ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ خِلاَفًا لِلشِّیْعَةِ وَالْخَوَارِجِ وَالنِّظَامِ مِنَ الْمُعْتَزِلَةِ․(۲۰)
”اکثر مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ اجماع حجت شرعیہ ہے اور تمام مسلمانوں کا اس پر عمل کرنا واجب ہے۔ ماسوائے شیعہ، خوارج اور معتزلہ میں سے نظام کے کہ وہ اس کو نہیں مانتے۔“
امام شافعی رحمة اللہ علیہ اجماع کو حجتِ شرعیہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
”حجتِ شرعیہ صرف اللہ کی کتاب، سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ائمہ کا اجماع ہے۔ علم کے تین درجات ہیں کتاب، حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس مسئلہ میں ائمہ کا اجماع جس کے بارے میں کوئی نصِ شرعی موجود نہیں ہے۔“ (۲۱)
ڈاکٹر محمود احمد غازی (۱۹۵۰ء۔۲۰۱۰ء)نے اجماع کی جامع تعریف بیان کی ہے؛ چنانچہ فرماتے ہیں:
”اجماع سے مراد یہ ہے کہ کسی نئے پیش آنے والے فقہی اور شرعی نوعیت کے معاملے پر امت کے فقہاء اور مجتہدین تفصیل کے ساتھ آزادانہ یعنی کسی حکومتی، سرکاری یا بیرونی اثر و رسوخ کے بغیر محض دلائل کی روشنی میں غور و فکر کریں اور قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں اس کا حل تلاش کریں۔ پھر ان کے آپس کے تبادلہٴ خیال سے جب وہ متفقہ طور پر کسی ایک نتیجہ پر پہنچ جائیں تو وہ متفقہ نتیجہ اور فیصلہ اجماع کہلائے گا۔“ (۲۲)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہٴ حیات میں اجماع کا ثبوت نہیں ملتا؛ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ لوگوں میں موجود تھی اور کسی بھی مسئلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلمسے ہی رجوع کیاجاتا تھا۔ جیسا کہ ڈاکٹر حمید اللہ( ۱۹۰۸ء۔۲۰۰۲ء)لکھتے ہیں:
”عہد نبوی میں اس کی ضرورت ہی نہیں تھی؛ اس لیے کہ اگر کوئی سوال پیدا ہوتا تو لوگ فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ فرمادیتے جو قطعی اور آخری ہوتا تھا۔ آپس میں مشورہ کرکے کسی پر متفق ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوتاتھا۔“(۲۳)
لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکت سے محروم ہوجانے کے بعد عہدِ صحابہ میں اجماع کی بنیاد پڑی۔ جس طرح تمام فقہاء کے نزدیک اجماع شریعت میں حجت ہے اور شریعت کا بنیادی ماخذ ہے، اسی طرح صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اجماع پر بھی سب کا اتفاق ہے اور تمام اس پر عمل کو لازم قرار دیتے ہیں اور اگر صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال متعدد ہوں تو جس قول کو پسند کرتے اختیار کرلیتے ہیں؛ لیکن تابعین اور تبع تابعین کے اقوال میں اس اصول کے پابند نہیں تھے۔
صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سب سے پہلے اس ضرورت کو محسوس کیا؛ چنانچہ اس مقصد کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہٴ خلافت میں کبار صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم ا جمعین کو باہر جانے سے روک دیاگیاتھا؛ تاکہ پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے ان سے فائدہ اٹھایا جاسکے اور جس پر یہ تمام متفق ہوجائیں اسے اجماعِ امت سمجھا جائے۔
چنانچہ عہدِ صحابہ میں اجماع کی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہے:
(۱) مثال کے طور پر صحابہ کرام نے فیصلہ کیا کہ اگر کوئی شخص زکوٰة کا منکر ہے تو اس کو اسی طرح سمجھا جائے گا، جیسے کوئی شخص نماز کا منکر ہو اور جو نماز کا منکر ہے وہ دائرہ اسلا م سے خارج ہے۔ لہٰذا زکوٰة کے منکر کو بھی دائرہ اسلام سے خارج سمجھا جائے گا۔ صحابہٴ کرام نے سیدنا صدیق اکبر کی سربراہی میں ان لوگوں کے خلاف جہاد کیا جنہوں نے زکوٰة کا انکار کیاتھا۔ شروع میں بعض صحابہ کو یہ سمجھنے میں تامل ہوا کہ نماز اور زکوٰة کو ایک سطح پر کیسے رکھا جائے اور کسی ایک جزوی حکم کو نہ ماننے کو پوری شریعت کے انکار کے برابر کیسے مانا جائے؛ لیکن سیدنا صدیق اکبر نے قسم کھا کر فرمایا کہ قسم خدا کی میں نماز اور زکوٰة کے درمیان کوئی فرق نہیں کروں گا اور جس نے یہ فرق کیا میں اس کے ساتھ جنگ کروں گا، یہاں تک کہ میری جان چلی جائے۔ (۲۴)
(۲)اسی طرح حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شام اور عراق کی مفتوحہ زمینوں کوفوج میں تقسیم کرنے کی بجائے وقف قرار دیا اور اس پر صحابہ کا اجماع ہوگیا (۲۵) اور اس کی سند یہ تھی کہ زمین ان کے اصل باشندوں کے پاس رکھی جائیں اور ان پر خراج عائد کردیاجائے؛ تاکہ مسلمانوں کو آمدنی ہو اور بیت المال مضبوط ہو جس کے نتیجے میں فوجیوں ، سرکاری ملازمین، ضرورتمندوں کے اخراجات کا بندوبست ہوسکے اور دیگر رفاہی کام بھی انجام دیے جاسکیں۔
(۳)واقعہ یمامہ میں قرّاء کی بڑی تعداد کی شہادت کے بعد اس اندیشہ کے پیشِ نظر کہ اگر قراء یونہی شہید ہوتے رہے تو کہیں قرآن ضائع نہ ہوجائے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قرآن کو مصحف کی صورت میں جمع کرنے پر اصرار کیا اور تمام صحابہٴ کرام نے اس رائے سے اتفاق کیا اور اس طرح صحابہٴ کرام کے اس اجماع کی صورت میں قرآنِ کریم کی تدوین عمل میں آئی۔(۲۶)
(۴)تیسری مرتبہ چوری کرنے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول پر تمام صحابہٴ کرام کا اجماع ہوا۔ (۲۷)
(۵)حضرت عمر نے ۲۰ /تراویح کے حوالے سے کبار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اجماع اور باقاعدہ ان کی مشاورت سے اس کا حکم جاری فرمایا۔ (۲۸)یہ بھی صحابہٴ کرام کے اجماع کی ایک واضح مثال ہے۔
اجماع کا دین میں حجت ہونا تین امور پر مبنی ہے۔ گویا اجماع کی اساس ان تین امور پر قائم ہے۔
(۱) اجماع کی اساسِ اول یہ ہے کہ صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پیش آمدہ مسائل میں اجتہاد کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عام سیاسی امور میں صحابہٴ کرام کو جمع کرکے ان سے مشورہ طلب کرتے تھے۔ جب تمام لوگ ایک بات پر متفق ہوجاتے تو اس کو قانون کا حصہ بناتے اور اگر اختلاف رونما ہوتا تو اکثریت کا ساتھ دیتے۔
(۲)اجماع کی دوسری اساس یہ ہے کہ دور اجتہاد میں ہر امام کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ ان سے کوئی ایسا شاذ قول صادر نہ ہو جو ان کے یہاں فقہاء کے خلاف ہو؛تاکہ اس کے طرزِ فکر کو اجنبی نہ سمجھا جائے؛ چنانچہ تمام ائمہ اپنے علاقہ کے اجماع کی بڑی سختی سے پابندی کرتے تھے۔
(۳)اجماع کی تیسری بنیاد وہ دلائل ہیں جن سے حجیت اجماع ثابت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول : ”انَّ أُمَّتِيْ لاَ تَجْتَمِعُ عَلَی الضَّلاَلَةِ“ (۲۹) یعنی میری امت گمراہی پر جمع نہ ہوگی۔
اسی طرح ایک اثر میں آتا ہے: ”مَا رَاہُ الْمُسْلِمُوْنَ حَسَنًا فَھُوَ عِنْدَ اللہِ حَسَنٌ“(۳۰) ”جس بات کو مسلمان بہتر سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی بہتر ہے۔“
اجماع کی حجیت کے حوالہ سے فقہاء نے اس کی درجہ بندی کی ہے کہ کونسا اجماع کس نوعیت کا ہوگا؛ چنانچہ اسے تین درجوں میں تقسیم کیا ہے۔
(۱) سب سے اعلیٰ درجہ صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اجماع کا ہے۔ جو حدیثِ متواتر اور دلیل قطعی کا درجہ رکھتا ہے۔
(۲)دوسرے نمبر پر تابعین کا اجماع ہے جو کسی غیر اجتہادی مسئلہ میں منعقد ہو۔ یہ حدیث مشہور کا درجہ رکھتا ہے۔
(۳)تیسرے درجہ کا اجماع وہ ہے جو کسی اجتہادی مسئلہ میں منعقد ہوا ہو یہ خبرِ واحد کی طرح ظنی ہے۔
اجماع کے اختیارات کی وسعت اور باقاعدہ اجماع منعقد ہوجانے کے بعد معاشرتی حالات و واقعات کے مطابق اس میں ترمیم و تنسیخ کے حوالے سے مولانا محمد تقی امینی رحمة اللہ علیہ درج ذیل نکات بیان فرماتے ہیں:
(۱) حالات اور تقاضوں کی مناسبت سے نئے قوانین وضع کرنا۔
(۲)پرانے اجماعی فیصلے جو مصلحت کے تابع تھے، ان میں موجودہ حالات و مصلحت کے پیشِ نظر مناسب ترمیم کرنا۔
(۳)وہ احکام جو بتدریج نازل ہوئے ہیں، معاشرتی حالات کے لحاظ سے انھیں مقدم و موٴخر کرنا۔
(۴)وہ احکام جن میں عرب کے مقامی حالات، رسم و رواج، خصائل و عادات مخلوط ہیں، ان کی روح اور پالیسی برقرار رکھتے ہوئے جدید حالات کے پیشِ نظر ان کے لیے نئے قالب تیار کرنا۔
(۵)وہ احکام جو وقتی تقاضہ اور مصلحت کے تحت ہیں، موجودہ تقاضے اور مصلحت کے تحت ان میں مناسب ترمیم کرنا۔
(۶)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب جن احکام میں مختلف الرائے ہیں، معقول دلیل کی بناء پر ان میں سے کسی ایک کو ترجیح دینا۔
(۷)فقہاء کی مختلف رایوں میں معاملات و تقاضوں کی مناسبت سے ترجیحی صورت پیدا کرنا وغیرہ۔(۳۱)
جہاں تک اجماع کے شرعی حکم کا تعلق ہے تو یہ واضح ہے کہ اس کا فیصلہ نہایت مستند اور واجب العمل ہے، جیسا کہ صاحبِ توضیح کا یہ قول ہے کہ :
فَانِ اسْتَنْبَطَ الْمُجْتَھِدُوْنَ فِیْ عَصْرٍ حُکْمًا وَاتَّفَقُوْا عَلَیْہِ یَجِبُ عَلٰی أھْلِ ذٰلِکَ الْعَصْرِ قُبُوْلُہ فَاِتِّفَاقُھُمْ صَارَ بَیِّنَةً عَلٰی ذٰلِکَ الْحُکْمِ فَلاَ یَجُوْزُ بَعْدَ ذٰلِکَ مُخَالَفَتُھُمْ․(۳۲)
”جب مجتہدین نے کسی زمانہ میں کسی حکم کا استنباط اور اس پر اتفاق کیا تو اس زمانہ والوں پر اس کا قبول کرنا واجب ہے، اس کی مخالفت جائز نہیں؛ کیونکہ یہ اتفاق اس حکم پر بطور دلیل کے ہے۔“
عصرِ حاضر میں اجماع کی واضح مثال مسئلہٴ ختم نبوت ہے۔ جس پر تمام علماء و فقہاء کا اجماع ہوچکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے علماء و فقہاء دورِ حاضر میں اسلام کو درپیش چیلنجز پر بھی اس اصول کا اطلاق کرتے ہوئے امت کی درست سَمت پر رہنمائی کریں۔
قیاس
(فقہ اسلامی کا چوتھا ماخذ)
فقہ اسلامی کا چوتھا ماخذ قیاس ہے۔ قیاس کے لغوی معنی اندازہ کرنا، پیمائش کرنا، مطابق اور مساوی کرنا ہیں، چنانچہ ”قَاسَ الثَّوْبَ بِالذِّرَاعِ“ کے معنی ”قَدَّرَ أجْزَائَہ بِہ “ (کپڑے کی ذراع سے پیمائش کی) اسی طرح ”یُقَاسُ فُلاَنٌ بِفُلاَنٍ فِي الْعِلْمِ وَالنَّسَبِ“ کے معنی ”یُسَاوِیْہِ فِی الْعَلْمِ وَالنَّسَبِ“ (علم اور نسب میں وہ اس کے برابر ہے) ۔(۳۳)
قیاس کا لفظ دو چیزوں میں مساوات و برابری نیز دو چیزوں کے مابین موازنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ (۳۴)
اصطلاح ِ فقہ میں قیاس کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:
الْحَاقُ أمْرٍ غَیْرِ مَنْصُوْصٍ عَلٰی حُکْمِہ الشَّرْعِیِّ بِأمْرٍ مَنْصُوْصٍ عَلٰی حُکْمِہ لِاِشْتِرَاکِھِمَا فِیْ عِلَّةِ الْحُکْمِ․(۳۵)
”حکم کی علت میں اشتراک کے سبب اس معاملہ کو جس کے شرعی حکم کے بارے میں نص وارد نہیں ہوئی، ایسے معاملہ کے ساتھ ملحق کرنا جس کے حکم کی بابت نص وارد ہوئی ہے (فقہ کہلاتی ہے)“۔
محمد بن صالح العثیمن کے مطابق:
تَسْوِیَةُ فَرْعٍ بِأصْلٍ فِیْ حُکْمٍ لِعَلَّةٍ جَامِعَةٍ بَیْنَھُمَا (۳۶)
”فرع اور اصل میں حکم کی علت کی بنیاد پر برابری کرنا جو ان دونوں میں یکساں ہیں“۔
مولانا محمد تقی امینی فرماتے ہیں کہ علامہ ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے قیاس کی اصطلاحی تعریف یوں بیان کی ہے:
فَالْقِیَاسُ الصَّحِیْحُ مِثْلُ أنْ تَکُوْنَ الْعِلَّةُ الَّتِيْ عُلِّقَ بِھَا الْحُکْمُ فِی الْأصْلِ مَوْجُوْدَةٌ فِی الْفَرْعِ مِنْ غَیْرِ مُعَارِضٍ فِی الْفَرْعِ یَمْنَعُ حُکْمَھَا․(۳۷)
”قیاسِ صحیح مثلاً یہ ہے کہ جس علت پر اصل میں حکم کا مدار ہے وہی علت فرع میں موجود ہو اور فرع میں کوئی رکاوٹ ایسی نہ ہو جو اس میں حکم جاری ہونے کو روک سکے“۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی نے قیاس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
”شریعت اور فقہاء کی اصطلاح میں قیاس سے مراد یہ ہے کہ اصل حکم میں پائے جانے والی علت کو دوسرے نئے حکم پر منطبق کرنا (قیاس کہلاتا ہے) ۔(۳۸)
جمہور علماء و فقہاء اسے حجتِ شرعی تسلیم کرتے ہیں؛ بلکہ ڈاکٹر محمود احمد غازی تو اسے فقہی ترتیب میں تیسرے درجے پر رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق چونکہ اس کی اجازت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دی تھی؛ اس لیے اس کا درجہ اجماع سے زیادہ ہونا چاہیے۔ (۳۹)
محمد بن صالح العثیمن کے مطابق قیاس تمام علماء کے نزدیک دلیلِ شرعی ہے۔وہ لکھتے ہیں:
وَأمَّا جُمْھُوْرُ الأُمَّةِ فَقَالُوْا: انَّ الْقِیَاسَ دَلِیْلٌ شَرْعِيٌّ ثَابِتٌ فِی الْکِتَابِ وَفِی السُّنَّةِ وَ فِیْ أقْوَالِ الصَّحَابَةِ․(۴۰)
”جمہور امت کے بقول قیاس دلیلِ شرعی ہے، جو قرآنِ کریم، سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام کے اقوال سے ثابت ہے۔“
قیاس فقہ اسلامی کا انتہائی اہم ماخذ ہے۔ زمانہ چونکہ تغیر پذیر ہے اور ہر آنے والا دن نئے مسائل اور نئے چیلنجز کے ساتھ رونما ہورہا ہے تو اس صورت میں فقہ اسلامی کا دیگر تمام مذاہب میں یہ خصوصی امتیاز ہے کہ وہ ان جدید مسائل کے حوالے سے واضح رہنمائی کرتی نظر آتی ہے۔
اسلامی شریعت نے ایک ایسا خود کار نظام وضع کردیا کہ جس میں قانون اور نظام کے اساسی قواعد و اصول نیز دستور اور آئین کے اساسی تصورات سب کے لیے مشترک اور واجب التعمیل ہیں۔ تمام انسان یکساں طور پر ان اصولوں کے پابند ہیں۔ اس جامعیت اور تنوع کی وجہ اس کی دقَّتِ نظری اور آزادی رائے ہے جو ہر دور میں اس کی ترقی کے لیے ممدو معاون ثابت ہوتی آئی ہے۔
اگر ایک دور میں کسی مسئلہ پر قیاس سے کام لیتے ہوئے کوئی نتیجہ اخذ کیا گیاتھا اور آنے والے وقت نے اس کی کسی شق پر کوئی سُقم پایاتو اس دور کے فقہاء کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ اپنے قیاس سے کام لیتے ہوئے اس مسئلہ کا کوئی اور حل تجویز کریں جو قرآن و سنت سے زیادہ قریب ہو۔ اس کی بکثرت مثالیں ہمیں فقہ اسلامی کی کتب میں ملتی ہیں۔ اس آزادی رائے نے فقہ اسلامی کی اہمیت میں بہت اضافہ کردیا ہے۔ اور یہ سب قیاس سے استفادہ کی صورت ہی میں ممکن ہوسکا ہے۔قیاس کی اسی اہمیت و افادیت کے حوالے سے قرآنِ کریم، سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام کے عمل سے بہت کچھ رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔
قرآنِ کریم میں قیاس کی بنیاد کے حوالے سے درج ذیل آیاتِ مبارکہ سے رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(۱) ﴿لِیَتَفَقَّھُوا فِی الدِّیْنِ﴾(۴۱)
”تاکہ دین میں فہم و بصیرت حاصل کرتے۔“
(۲)﴿فَاعْتَبِرُوْا یَأُوْلِی الأَبْصَارِ ﴾(۴۲)
”پس اے دیکھنے والو! عبرت حاصل کرو۔“
یہاں”اِعْتَبَرَ“ کا مطلب ہے ”رَدَّ الشَّیْءَ الٰی نَظِیْرِہ “ کسی چیز کو اس کے مثل کی طرف لوٹانا۔
(۳)﴿وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ ﴾(۴۳)
”اوروہ ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیں۔“
(۴)﴿وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ الَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ ﴾(۴۴)
”ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن اتارا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سامنے اس چیز کو بیان کردیں جو ان کی طرف بھیجی گئی ہے؛ تاکہ وہ خود غوروفکر کریں۔“
(۵)﴿وَلَوْ رَدُّوْہُ الیَ الرَّسُوْلِ وَالٰی أُوْلِی الأَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہ مِنْھُمْ﴾(۴۵)
”اگر اس کو اللہ کے رسول اور اہل علم تک پہنچادیتے تو ان میں سے جو استنباط کرنے والے ہیں وہ سمجھ جاتے۔“
یہ اور اسی طرح کی دیگر بہت سی آیات ہیں جن میں قیاس اور فکر و شعور کی بنیاد پر سوچنے سمجھنے کی دعوت دی گئی ہے۔
(۱) قیاس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بھی ملتی ہے؛چنانچہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن کا گورنر بناکر بھیج رہے تھے تو پوچھا:
کَیْفَ تَقْضِيْ؟ فَقَالَ أقْضِيْ بِمَا فِیْ کِتَابِ اللہِ قَالَ فَانْ لَمْ یَکُنْ فِیْ کِتَابِ اللہِ تَعَالٰی قَالَ فَبِسُنَّةِ رَسُوْلِ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ فَانْ لَمْ یَکُنْ فِیْ سُنَّةِ رَسُوْلِ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اَجْتَھِدُ رَأْیِیْ قَالَ اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ وَفَّقَ رَسُوْلَ رَسُوْلِ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم․(۴۶)
”جب کوئی مقدمہ تمہارے سامنے پیش ہوگا تو کیسے فیصلہ کرو گے؟ جواب دیا جیسا کتاب اللہ میں ہے اس کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ پھر سوال کیا کہ اگر کتاب اللہ میں صراحت کے ساتھ ذکر نہ ہوتو پھر کیسے فیصلہ کرو گے؟ جواب دیا پھر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق فیصلہ کرو ں گا۔ پھر سوال کیا کہ اگر سنت میں بھی صراحت کے ساتھ ذکر نہ ہوتو پھر کیسے فیصلہ کروگے؟ جواب دیا ایسی حالت میں اپنی رائے سے اجتہاد کرکے فیصلہ کروں گا۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوئے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے اپنے فرستادہ رسول کے فرستادہ کو اس بات کی توفیق دی جو اس کے رسول کو پسند ہے۔“
(۲)ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابوموسیٰ اشعری دونوں کو یمن کے الگ الگ علاقوں کا قاضی و گورنر بناکر بھیجاگیاتھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پر دونوں نے جواب دیاتھا کہ :
اِذَا لَمْ نَجِدِ الْحُکْمَ فِی السُّنَّةِ نَقِیْسُ الأَمْرَ بِالأَمْرِ فَمَا أقْرَبَ الیَ الْحَقِّ عَمِلْنَا بِہ فَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ اَصَبْتُمَا․(۴۷)
”جب ہم سنت میں حکم نہیں پائیں گے تو ایک معاملہ کو دوسرے معاملہ پر قیاس کریں گے اور جو فیصلہ حق سے زیادہ قریب ہوگا، اسی پر عمل کریں گے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دونوں کی رائے درست ہے۔“
(۳)اسی طرح بلی کے جھوٹے کے بارے میں دریافت کیاگیا تو فرمایا کہ یہ حرام نہیں ہے اور اس کی علت یہ بیان فرمائی کہ لوگوں کے گھروں میں کثرت سے آتی جاتی ہے۔ (۴۸)
(۴)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء میں قربانی کے گوشت کو ذخیرہ کرنے سے منع فرمایاتھا؛ لیکن بعد میں اس کی اجازت دے دی۔ (۴۹)
(۵)حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی کے رشتے کے بارے میں پوچھاگیا تو فرمایا وہ میری رضاعی بھتیجی ہے اور میرے لیے درست نہیں۔ (۵۰)چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں سگی بھتیجی پر قیاس کیا یعنی حرمت کی علت بھی بتادی۔
(۶)قبیلہٴ خشعم کی ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اورکہا میرے والد نے اسلام قبول کرلیا ہے اور وہ بہت زیادہ بوڑھے ہیں۔سواری پر بیٹھ نہیں سکتے اور حج ان پر فرض ہوگیا ہے، تو کیا میں ان کی طرف سے حج ادا کرسکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے اگر تمہارے والد پر قرض ہوتاتو وہ تم ادا کرتی یا نہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں، ادا کرتی، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر ان کی طرف سے حج ادا کرو۔ (۵۱)گویا بندے کے قرض پر اللہ کے قرض کو قیاس فرمایا۔
(۷)ایک بدوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میری بیوی کے ہاں ایک کالے رنگ کا لڑکا پیدا ہوا ہے؛ لیکن مجھے اس میں شک ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ان کے رنگ کیسے ہیں؟ اس نے کہا سرخ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا کہ ان میں گندمی رنگ کے بھی ہیں؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کہاں سے آگئے؟ اس نے جواب دیا کہ کوئی رگ ہوتی ہے، اس کا اثر آگیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس بچے کے ساتھ بھی یہی صورت ہوسکتی ہے۔ (۵۲)گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حیوانی وجود پر انسانی وجود کو قیاس کیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیاس صحیح کی اجازت دی تھی اور اس پر اجر کا اعلان فرمایاتھا؛ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے:
اذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَھَدَ ثُمَّ أصَابَ فَلَہ أجْرَانِ وَاذَا حَکَمَ فَاجْتَھَدَ ثُمَّ أخْطَأَ فَلَہ أجْرٌ․(۵۳)
”حاکم جب اجتہاد سے صحیح فیصلہ کرتا ہے تو اس کو دوہرا اجر ملتا ہے اور اگر غلط فیصلہ کرتا ہے تو ایک اجر ملتا ہے۔“
ایک اور جگہ یہ روایت الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ یوں وارد ہوئی ہے:
اذَا قَضَی الْقَاضِیْ فَاجْتَھَدَ فَأصَابَ فَلَہ عَشَرَةُ اُجُوْرٍ وَاذَا اجْتَھَدَ فَأخْطَأَ کَانَ لَہ أجْرٌ أوْ أجْرَانِ․(۵۴)
”قاضی جب اجتہاد سے صحیح فیصلہ کرتا ہے تو اس کو دس گنا اجر ملتا ہے اور اگر غلط فیصلہ کرتا ہے تو اس کے لیے دواجر ہیں۔“
صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی قیاس سے بھرپور فائدہ اٹھایا؛ چنانچہ نئے پیش آنے والے واقعات میں اجتہاد کرتے ہوئے ایک حکم کو دوسرے پر قیاس کرتے تھے۔ حضرت عمر نے قاضی شریح کو خط لکھاتھا کہ جو واقعہ تمہیں پیش آئے اور اس کا حکم قرآن و سنت میں نہ ہوتو اس پر خوب سوچو اور اس کو پوری طرح سمجھنے کی کوشش کرو۔ پھر ایک معاملہ کو دوسرے معاملہ پر قیاس کرو۔ معاملات کو مختلف انداز سے پہچانو۔ پھر جو تمہاری رائے میں اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسندیدہ ہو اور حق کے قریب ہوتو اس کااعتبار کرو۔ (۵۵)
حضرت ابوبکر صدیق سے ”کلالہ“ (جس کے نہ والدین ہوں نہ اولاد) کی وراثت کے متعلق پوچھاگیاتو فرمایا:
أقُوْلُ فِیْھَا بِرَأیِیْ فَانْ یَکُنْ صَوَابًا فَمِنَ اللہِ وَانْ یَّکُنْ خَطَأً فَمِنِّي وَمِنَ الشَّیْطَانِ․(۵۶)
”میں اپنی رائے سے بات کہتا ہوں اگر وہ صحیح ہے تو اللہ کی طرف سے اور اگر غلط ہے تو میری اور شیطان کی طرف سے سمجھو۔“
اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عورت کے طلاق لینے کے اختیار کے متعلق فرمایا:
اَجْتَھِدُ فِیْھَا بِرَأیِیْ انْ اَصَبْتُ فَمِنَ اللہِ وَانْ أخْطَأْتُ فمِنِّیْ وَمِنَ الشَّیْطَانِ․․․الخ(۵۷)
”میں اپنی رائے سے فتویٰ دیتا ہوں؛ اگر صحیح ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہے تو میری اور شیطان کی طرف سے ہے، اللہ اور اس کا رسول اس سے بری ہیں۔“
قیاس میں صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بعض اوقات کسی ایک مسئلہ پر اختلاف بھی رہا ہے؛ چنانچہ اس حوالہ سے صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جو قیاس کیا اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
(۱) دادا کی موجودگی میں حضرت ابوبکر صدیق بھائیوں کو وراثت نہیں دلواتے تھے؛ لیکن حضرت عمر نے دادا کی موجودگی میں بھی بھائیوں کو وراثت دلوائی۔ حضرت ابوبکر نے دادا کو باپ تسلیم کیا ہے اور باپ کی موجودگی میں بہ نصِ قرآن بھائیوں کو وراثت نہیں ملتی۔ حضرت عمر نے اس کو باپ تسلیم نہیں کیا اور حضرت زید بن ثابت بھی ان کے ساتھ متفق الرائے ہیں۔ (۵۸)
(۲)جس حاملہ عورت کا شوہر مرجائے اس کی عدت حضرت عمر بن خطاب نے وضع حمل مقرر کی ہے؛ لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ وضعِ حمل اور چار مہینے دس دن کی مدت میں جو زمانہ زیادہ طویل ہوگا وہی اس کی عدت کا زمانہ ہوگا۔ (۵۹)
(۳)ایک مطلقہ عورت جس نے اپنی عدت ہی میں نکاح کرلیاتھا حضرت عمر نے اس کے موجودہ شوہر کو چند کوڑوں کی سزا دے کر دونوں میں علیحدگی کرادی اور فرمایا کہ جو عورت عدت گزرنے سے پہلے نکاح کرلے اور اسی حالت میں اس سے مقاربت کرلی جاے تو اس شوہر پر وہ ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی ہے؛ لیکن حضرت علی کے نزدیک پہلے شوہر کی عدت گزرنے کے بعد یہ شخص اس سے نکاح کرسکتا ہے۔ حضرت عمر کا یہ فیصلہ مصلحتِ عامہ کی بناء پرتھا؛ جب کہ حضرت علی کا فیصلہ اصولِ عامہ کی بناء پر تھا، حالات کے لحاظ سے روحِ شریعت میں دونوں کی گنجائش ہے۔(۶۰)
$$$
حوالہ جات
(۱۷) یونس، آیت ۷۱۔
(۱۸) ا لبیضاوی ،ناصر الدین ابوالخیر عبداللہ بن عمر بن محمد، منہاج الاصول الی علم الاصول، ص ۲۴۔
(۱۹) ابن امیر الحاج،التقریر والتجسیر،ج ۳،ص۸۰۔
(۲۰) الآمدی ،علی بن محمد ، الاحکام فی اصول الاحکام، ص ۲۶۶۔
(۲۱) الجوزیہ، ابن قیم ،محمد بن ابی بکر ، اعلام الموقعین، ج ۱، ص ۳۰۔
(۲۲) غازی، محموداحمد، ڈاکٹر، محاضراتِ فقہ، ص ۹۲۔
(۲۳) محمدحمیداللہ، ڈاکٹر،خطباتِ بہاولپور، ص ۷۵۔
(۲۴) سعیدالرحمن، ڈاکٹر،استحسان (بحیثیت ماخذ قانون) مقالہ پی ایچ ڈی، ص ۱۹۹۔
(۲۵) وہبة الزحیلی،ڈاکٹر،الفقہ الاسلامی وادلتہ،ج۵،ص۵۳۵۔
(۲۶) القرطبی،ابو عبداللہ محمدبن احمد،الجامع لاحکام القرآن،ج۱،ص۵۰۔
(۲۷) وہبة الزحیلی،ڈاکٹر،الفقہ الاسلامی وادلتہ،ج۶،ص۹۷۔
(۲۸) ایضاً، ج ۲،ص۴۴۔
(۲۹) ابن ماجہ،محمد بن یزید ابو عبداللہ قزوینی،السنن لابن ماجہ،ج۳،۱۳۰۳۔
(۳۰) مالک بن انس،الموطاء،ج۳،ص۸۰۔
(۳۱) امینی ،محمد تقی ، فقہ اسلامی کا تاریخی پسِ منظر، ص ۱۲۱۔۱۲۰۔
(۳۲) تاج الشریعہ ،عبیداللہ بن مسعود، التوضیح والتلویح مع الحاشیة التوشیح، ص ۳۴۔
(۳۳) امینی ،محمد تقی ،اجتہاد، ص ۱۴۱۔۱۴۰
(۳۴) سعید الرحمن، ڈاکٹر، استحسان ( بحیثیت ماخذ قانون) مقالہ پی۔ایچ ۔ڈی، ص ۲۰۷۔
(۳۵) ابن قدامہ، ابو عبداللہ ،شمس الدین ،روضة الناظر وجنة المناظر، ج ۲، ص ۲۲۷۔
(۳۶) العثیمٰن ،محمد بن صالح ، شرح الاصول من علم الاصول، ص ۵۰۹۔
(۳۷) امینی ،محمد تقی ،اجتہاد، ص ۱۴۱۔
(۳۸) غازی، محموداحمد، ڈاکٹر، محاضرات فقہ، ص ۹۶۔
(۳۹) ایضاً، ص ۵۹۔۶۹۔
(۴۰) العثیمٰن ،محمد بن صالح، شرح الاصول من علم الاصول، ص ۵۱۲۔
(۴۱) التوبہ، آیت ۳۶۔
(۴۲) الحشر، آیت ۲۔
(۴۳) الجمعة، آیت ۲۔
(۴۴) النحل، آیت ۴۴۔
(۴۵) النساء، آیت ۸۳۔
(۴۶) الترمذی،محمد بن عیسیٰ،السنن لترمذی،ج۳،ص۶۱۶۔
(۴۷) الرازی،محمد بن عمرالحسین،المحصول فی علم الاصول،ج۵،ص۵۲۔
(۴۸) سلیمان بن اشعث،السنن ابو داوَد،ج۱،ص۱۹۔
(۴۹) البخاری، محمد بن اسماعیل ، الجامع الصحیح للبخاری، ج ۵، ص ۲۱۱۶۔
(۵۰) القشیری ،مسلم بن حجاج بن مسلم ، الجامع الصحیح للمسلم، ج ۴، ص ۱۶۴۔
(۵۱) احمد بن حنبل،المسند لامام احمد بن حنبل، ج ۱، ص ۲۸۶۔
(۵۲) عبدالباقی ، محمدفواد، اللوٴلوٴ والمرجان، ج ۱، ص ۴۴۶۔
(۵۳) القشیری،مسلم بن حجاج بن مسلم، الجامع الصحیح للمسلم، ج ۵، ص ۱۳۳۔
(۵۴) البخاری، محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح للبخاری، ج ۶، ص ۲۶۷۶۔
(۵۵) الہثیمی ،نورالدین علی بن ابی بکر،مجمع الزوائد، ج ۴، ص۳۶۲۔
(۵۶) الجوزیہ،ا بن قیم ،محمد بن ابی بکر ، اعلام الموقعین، ج ۱، ص۶۳۔
(۵۷) ملا جیون ،احمد بن سعید، نورالانوار، ص ۲۵۰۔
(۵۸) ندوی ،عبدالسلام ، تاریخ فقہ اسلامی، ص ۱۵۵۔
(۵۹) ایضاً، ص ۱۵۲۔
(۶۰) امینی ،محمد تقی ، اجتہاد، ص ۵۶۔
————————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ11، جلد: 99 ، محرم الحرام1437 ہجری مطابق نومبر 2015ء