حرفِ آغاز
مولانا حبیب الرحمن اعظمی
دسویں صدی ہجری کے اخیر اور گیارہویں صدی ہجری کے آغاز کا زمانہ ہندوستان میں اسلام اور حامیانِ اسلام کے لیے انتہائی نازک شمار کیا جاتا ہے؛ جب کہ مغل تاجدار جلال الدین اکبر (۹۶۳/۱۰۱۴ء) نے شہنشاہیت کی ترنگ اور عقلیّت کے نشہ میں عقل وہوش سے بے نیاز ہوکر ”دینِ اسلام“ کے متوازی ”دین الٰہی“ کے نام سے ایک جدید مذہب کی تحریک چلائی۔
دربارِ اکبری سے منسلک ایک ثقہ عالم اور مستند موٴرّخ ”ملا عبدالقادر بدایونی“ اس جدید مذہب کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”اکبر کا حال یہ تھا کہ جب اس کے سامنے کسی معاملہ سے متعلق شرعی ثبوت پیش کیے جاتے تو برہم ہوکر یہ کہتا تھا کہ یہ سب ملاؤں کی باتیں ہیں مجھ سے تو عقل وحکمت ہی کی باتیں بیان اور دریافت کی جائیں (منتخب التواریخ،ص۳۰۸) اس عقلیت پرستی کے دور میں عام طور پر یہ بات مشہور کردی گئی تھی کہ ”دین کا مدار عقل پر ہے، نقل پر نہیں“ (م،ص۲۱۱) موٴرخ بدایونی نے اس سے بھی خطرناک روش کی اطلاع دی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ یہ برخود غلط مجتہد اور امام تھا، وحی الٰہی کو محال قرار دیتا، غیب اور عالم غیب سے متعلق ارشاداتِ نبوی علی صاحبہا الصلوٰة والسلام کی برملا تکذیب کرتا اور فرشتوں، جنّات، معجزات، بعث بعد الموت، حساب و کتاب اور ثواب وعذاب کا کھلے لفظوں انکار کرتا تھا (ص۲۷۳) اس الحاد و زندقہ میں صرف اکبر ہی نہیں گرفتار تھا؛ بلکہ اس کے ارد گرد رہنے والوں میں سے اکثر لوگوں کا حال یہی تھا، معجزاتِ نبوی کے ساتھ استہزاء کی کیفیت کو ملابدایونی نے یوں بیان کیا ہے کہ ”بھرے دربار میں ایک پیر پر کھڑے ہوکر معراجِ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) کا مذاق اڑاتا اور کہتا کہ میں جب اپنا دوسرا پیر اٹھاکر کھڑا نہیں رہ سکتا تو راتوں رات ایک شخص آسمان سے اوپر کیسے پہونچ گیا، پھر خدا سے باتیں بھی کیں اور جب واپس ہوا تو بستر تک گرم تھا“ اس کے بعد لکھتے ہیں کہ مذاق واستہزاء کا یہی معاملہ شق القمر اور دیگر معجزات کے ساتھ بھی تھا (ص۲۱۷) اکبر کے اس سطحی طریقِ استدلال سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مدعیانِ عقل کی عقل وفہم کو کس طرح زائل فرمادیتے ہیں۔
ائمہٴ دین اور مجتہدینِ اسلام کی توہین وتحقیر برسرعام کی جاتی تھی اور انھیں فقیہ کور، رجعت پسند، رفتار زمانہ سے ناواقف، خشک ملا اور متعصب، جیسے اہانت آمیز الفاظ سے یاد کیا جاتا تھا، دربارِ اکبری کا ممتاز محقق، دین الٰہی کا مرتب ابوالفضل فقہائے کرام کے فیصلوں کو یہ کہہ کر رد کردیا کرتا تھا کہ ان مٹھائی فروخت کرنے والوں، جوتا گانٹھنے والوں اور چمڑا فروشوں کی بات کیسے مان لوں (ص۲۰۰) (یہ ائمہٴ فقہ شمس الدین عبدالعزیز بن احمد الحلوائی متوفی ۴۹۸ھ اور شیخ احمد بن عمر خصّاف متوفی ۲۶۱ھ کی نسبتوں کی طرف تعریض ہے)
دین اسلام کی بیخ کُنی کی ان عملی کوششوں کے ساتھ علمی طور پر اسلامی عقائد واعمال کے اندر شکوک وشبہات پیدا کرنے کی غرض سے (آج کل کی اصطلاح میں اسلام کا آزاد سائنٹفک مطالعہ کے لیے قانون ساز کونسلیں قائم کی گئیں، اس کمیٹی میں اسلامی عقائد اور مسلمات کے متعلق عقل کی روشنی میں فیصلے کیے جاتے اور اسلامی معتقدات کا مذاق اڑایا جاتا، اگر کسی ممبر کی ایمانی غیرت بیدار ہوجاتی اور وہ ان فیصلوں پر اختلافی نوٹ لکھنا چاہتا تو اسے روک دیا جاتا تھا (ص۳۱۷)
غرضیکہ ایک عظیم تحریک تھی جو ایک مطلق العنان خود سر بادشاہ کی سرپرستی میں دینِ اسلام کے خلاف چلائی جارہی تھی اور مظلوم اسلام انتہائی کس مپرسی کے ساتھ اس کی مخالفانہ اور معاندانہ یورشوں کو برداشت کررہا تھا؛ لیکن وہ اسلام جو دنیا میں سربلندی کے لیے برپا کیاگیا تھا، آخر کب تک اس کس مپرسی اور بیچارگی کی حالت میں رہتا، الف ثانی کے اس محرفِ اعظم کی دین اسلام میں تحریفات دیکھ کر سرہند میں آباد خانوادئہ فاروقی کے ایک فرزندِ رشید شیخ احمد فاروقی کی رگِ فاروقیت پھڑک اٹھی اور اپنی تمام تر بے سروسامانی کے باوجود برِصغیر کی اس سب سے بڑی طاقت سے ٹکراگئے، ابتدا میں اگرچہ چندے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں؛ لیکن آخر میں دنیا نے دیکھ لیا کہ محرفِ الف ثانی کے مقابلہ میں فتح وکامرانی مجدّدِ الف ثانی ہی کے حصہ میں آئی اور جس گھر سے اسلام کو بیخ وبن سے اکھاڑنے کی تحریک چلی تھی، اسی گھر میں اورنگ زیب، جیسا اسلام دوست اور شاہی میں فقیری اداؤں کا رمزشناس بادشاہ پیدا ہوا، جس نے اسلامی حمیت کا قابلِ ستائش مظاہرہ کرتے ہوئے، ببانگِ دُہل اعلان کیا کہ ”جدِما اکفربود“۔
تین چار صدی تک کنجِ گمنامی میں پوشیدہ رہنے کے بعد عقلیت پرستی کا یہ فتنہ سرزمین علی گڈھ ودہلی سے پھر سراٹھارہا ہے اورقرطاس وقلم کے زور سے امت کے رشتے کو سلفِ صالحین اور صحابہٴ کرام سے کاٹنے کی ناروا کوشش کی جارہی ہے، یہ فتنہ اپنے نام ولباس کے اعتبار سے اگرچہ مختلف ہے؛ لیکن اس کی روح اور آئیڈیل وہی فتنہٴ اکبری ہے۔
الحاصل شراب وہی پرانی ہے؛ لیکن پیالے بدل بدل کر پیش کی جارہی ہے، فتنہ تو وہی قدیم ہے؛ مگر اسے مختلف رنگ برنگ لباس سے آراستہ وپیراستہ کرکے سامنے لایا جارہا ہے، اربابِ بصیرت جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی معرفت کی دولت سے نوازا ہے، وہ تو پہلی ہی نظر میں اصل حقیقت کو تاڑ لیتے ہیں اور انھیں دیکھ کر برملا پکار اٹھتے ہیں کہ
بہر رنگِ کہ خواہی جامہ پوشی
من انداز قدت را می شناسم
لیکن جنھیں دین کی پوری بصیرت حاصل نہیں ہوتی، وہ بسا اوقات ظروف کی جدت اور لباس کی تراش وخراش سے متاثرہوکر مبتلائے فریب ہوجاتے ہیں؛ اس لیے حضرات علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس فتنہ کی حقیقت سے عام مسلمانوں کو آگاہ کریں اور جس طرح حضرت مجدد الفِ ثانی اور شیخ عبدالحق محدّث دہلوی قدس سرہما نے اس فتنہ کے مرجع ومنشاء یعنی فتنہٴ اکبری کا مقابلہ ہر خوف وخطر اور لومة لائم سے بے نیاز ہوکر کیا اور اس سلسلے میں ہر مشقت کو نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کی، اسی غیرت ایمانی کے ساتھ نفع ونقصان کے اندیشہ سے بالاتر ہوکر آج کے روشن خیالِ تاریک دل تہذیب مغرب کے آلہ کاروں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوجائیں اور ان کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے آگے سدِّ سکندری بن کر کھڑے ہوجائیں۔
———————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ10، جلد: 99 ، ذی الحجہ1436 ہجری مطابق اکتوبر 2015ء