حرفِ آغاز

مولانا حبیب الرحمن اعظمی

۱۸۵۷ہندوستان کی علمی تاریخ سے جو لوگ واقف ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلم دور اقتدار میں تعلیم و تدریس کاتمام تر انحصار مسلم حکمرانوں، امراء، اور نوابین کی علم پروری، علماء نوازی اور داد ودہش پر تھا، ہر شہر اور قصبات میں سلاطین اور امراء کی جانب سے مدرسے قائم تھے جن کے مصارف کی مکمل ذمہ داری شاہی خزانے پر ہوتی تھی، چنانچہ اجمیر، دہلی، پنجاب، آگرہ، اودھ، بنگال، بہار، دکن، مالوہ، ملتان، کشمیر، گجرات وغیرہ میں اس قسم کی ہزاروں درسگاہیں قائم تھیں، ان باقاعدہ درسگاہوں کے علاوہ علماء شخصی طور پر بھی اپنے اپنے مستقر پر تعلیم وتعلم کی خدمات انجام دیا کرتے تھے، اور ان علماء کو معاش کی جانب سے بے فکر رکھنے کے لیے دربار شاہی سے مدد معاش کے عنوان سے جاگیریں اور وظائف مقرر تھے۔

مسلمانوں کا یہ نظام تعلیم ۱۸۵۷ء تک قائم رہا، اس نظام تعلیم میں عام طور پر صَرف، نحو، بلاغت، فقہ، اصول فقہ، منطق، کلام، تصوف، تفسیر، حدیث وغیرہ کے علوم وفنون پڑھے پڑھائے جاتے تھے، البتہ حدیث وتفسیر کا فن برائے نام تھا، زیادہ توجہ فقہ واصول فقہ اور پھر منطق وفلسفہ پر دی جاتی تھی۔

۱۸۵۷ء میں جب ہندوستان سے مسلمانوں کی حکومت کا چراغ گل ہوگیا اور مسلمانوں کی بجائے سیاسی اقتدار پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا تو یہاں کے عام باشندے اور بطور خاص مسلمان ”انّ الملوک اذا دخلوا قریة افسدوھا وجعلوا اعزة اھلھا اذلة“[1]کے فطری اصول کا تختہ مشق بن گئے۔

اس سیاسی انقلاب نے مسلمانوں کے اقتصادی، تمدنی اور علمی ودینی نظام کو کس طرح پامال کیا؟ اس کی تفصیل سرولیم ہنٹر نے اپنی کتاب ” انڈین مسلمانز“ ہمارے ہندوستانی مسلمان میں کسی قدر بیان کی ہے، انھوں نے ایک جگہ مسلمانوں کی اقتصادی زبوں حالی اور مشکلات پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے:

”حکومت نے ان کے لیے تمام اہم عہدوں کا دروازہ بند کردیا ہے۔ دوسرے ایسا طریقہٴ تعلیم جاری کردیا ہے جس میں ان کی قوم کے لیے کوئی انتظام نہیں ہے، تیسرے قاضیوں کی موقوفی نے ہزاروں خاندانوں کو جو فقہ اور اسلامی علوم کے پاسبان تھے بیکار اور محتاج کردیا ہے، چوتھے ان کے اوقاف کی آمدنی جو ان کی تعلیم پر خرچ ہونی چاہیے تھی غلط مصرفوں پر خرچ ہورہی ہے۔“[2]

تعلیم کے سلسلہ میں اس نئی حکومت کی پالیسی یہ تھی کہ اس طرح کا تعلیمی نظام رائج کیاجائے جسے پڑھ کر ہندوستانی ذہنی وفکری طور پر بالکل انگریز بن جائیں۔

چنانچہ مسٹر انفنسٹن اپنی یاد داشت میں لکھتے ہیں:

”میں اعلانیہ نہیں تو درپردہ پادریوں کی حوصلہ افزائی کروں گا، اگرچہ مجھے گورنر صاحب سے اس بارے میں اتفاق ہے کہ مذہبی امور میں امداد کرنے سے احتراز کیا جائے تاہم جب تک ہندوستانی لوگ عیسائیوں کی شکایت نہ کریں، تب تک ان کی تعلیم کے مفید ہونے میں ذرا شبہ نہیں، اگر تعلیم سے ان کی رایوں میں ایسی تبدیلی پیدا نہ ہوسکے کہ وہ اپنے مذہب کو لغو سمجھنے لگیں تاہم وہ اس سے زیادہ ایمان دار محنتی رعایا تو ضرور بن جائیں گے۔“[3]

اس سلسلے کی تفصیلات کے لیے ”اسباب بغاوت ہند“ ازسرسید مرحوم، روشن مستقبل از مولوی سید طفیل احمد مرحوم اور نقش حیات (ج۲ )از شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ ملاحظہ کی جائیں۔

ان حالات میں مسلم مفکرین ومدبرین کا یہ متفقہ فیصلہ ہوا کہ گورنمنٹ کا قائم کیا ہوا نظامِ تعلیم مسلمانوں کی ضرورت کو پورا نہیں کرسکتا؛ بلکہ یہ اسلامی تہذیب اور کلچر کے لیے تباہ کن اور ان کے عقائد واخلاق کے واسطے مہلک ہے، مگر اس نظام کی اصلاح کے سلسلے میں ان کی رائیں مختلف ہوگئیں، ایک جماعت نے مسلمانوں کی اس زبوں حالی کا علاج انگریزی علوم وفنون اور تہذیب وتمدن میں تجویز کیا، بالفاظ دیگر اس جماعت کا اصل مقصد مسلمانوں کی اقتصادی اصلاح اور دنیوی پستی کا دور کرنا تھا، اس جماعت کے سربراہ اور قائد سرسید احمد مرحوم تھے اور اس نظریہ کی اولین مظہر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ہے، سرسید مرحوم بھی اگرچہ مذہب کی ضرورت کو تسلیم کرتے تھے؛ مگر دنیوی ترقی کو وہ اولیت دیتے تھے، ان کا خیال یہ تھا کہ دنیوی ترقی کی راہ سے دینی مقاصد تک پہنچا جائے، مرحوم اپنے اس نظریہ کی وضاحت ان الفاظ میں کرتے تھے۔

”فلسفہ ہمارے دائیں ہاتھ میں ہوگا، نیچرل سائنس بائیں ہاتھ میں اور لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا تاج سرپر“۔

ایک موقع پر مرحوم سرسیّد نے اپنے اس نظریہ کی وضاحت ان لفظوں میں کی ہے:

”دراصل مقصد اس کالج کا یہ ہے کہ مسلمانوں میں عموماً اور بالتخصیص اعلیٰ درجہ کے مسلمان خاندانوں میں یورپین سائنسز اور لٹریچر کو رواج دے اور ایک ایسا فرقہ پیدا کرے جو از روئے مذہب کے مسلمان اور از روئے خون اور رنگ کے ہندوستانی ہوں مگر باعتبار مذاق اور رائے وفہم کے انگریز ہوں۔[4]

مگر وہ اپنے اس منصوبہ میں کامیاب نہیں ہوسکے، چنانچہ تحریک علی گڈھ کے معقول وکیل اور سرسیدمرحوم کے زبردست حامی شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں۔ وہ مغربی علوم کے ساتھ ایمان کامل اور صحیح مذہبی تربیت کو ضروری سمجھتے تھے، لیکن اس میں انھیں پوری کامیابی نہیں ہوئی۔[5]

اس ناکامی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے یہی شیخ اکرام لکھتے ہیں:

”جن لوگوں نے مسجدوں کی چٹائیوں پر بیٹھ کر تعلیم پائی، ان میں تو سرسید، محسن الملک اور وقار الملک جیسے مدبر اور منتظم پیدا ہوئے، جو لوگ انگریزی سے قریب قریب ناواقف تھے اور جن کے لیے مغربی ادب ایک گنج سرسبتہ تھا انھوں نے نیچرل شاعری اور ایک جدید ادب کی بنیادڈالی اور آب حیات، سخندانِ فارس، شعر وشاعری، مسدس حالی جیسی کتابیں تصنیف کرلیں؛ لیکن جن روشن خیالوں نے کالج کی عالیشان عمارتوں میں تعلیم حاصل کی اور جن کی رسائی مغرب کے بہترین اساتذہ اور دنیا بھر کے علم وادب تک تھی وہ مطمح نظر کی پستی اور کیرکٹر کی کمزوری سے فقط اس قابل ہوئے کہ کسی معمولی دفتر کے کل پرزے بن جائیں“۔[6]

مزید لکھتے ہیں:

کسی طرف سے اسلام یا مسلمانوں یا علی گڈھ کے خلاف آواز اٹھے اس پر لبیک کہنے والے سب سے پہلے علی گڈھ سے نکلیں گے۔[7]

ایک اقتبال اور ملاحظہ کیجیے:

”لیکن آپ ان بزرگوں کا معاملہ ان کے ضمیر اور احساس فرض پر چھوڑدیں اور ارکانِ اسلام کی ظاہری پابندی کو بھی ایک لمحے کے لیے نظر انداز کردیں تب بھی علی گڈھ کی فضا میں اندر اندر ایک عام ایمانی کمزوری اور روحانی کم ہمتی کا سراغ ملے گا، آپ بعض مستثنیات کو چھوڑ کر وہاں کے قابل اور ذہین اساتذہ اور تیز اور ہونہار طلبہ کی باتیں سنیں اور ان کے ذہنی رجحانات کا تجزیہ کریں تو آپ کو احساس ہوگا کہ (اگر وہ قومی نوحہ خوانی کا پرانا اور رسمی لبادہ نہ پہن لیں) تو ان کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ آپ انھیں کسی طرح دقیانوسی، قدامت پسند مسلمان نہ سمجھ لیں، یعنی علی گڑھ

ع                    کالج ہے، امام باڑہ تو نہیں ہے۔“[8]

مفکرین اسلام کی دوسری جماعت کا نقطئہ نظر یہ تھا کہ اب ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کی بقاء کا واحد ذریعہ اسلامی تعلیمات ہیں، لہٰذا برٹش گورنمنٹ کی تعلیمی امداد واعانت سے صرفِ نظر کرکے دینی درسگاہیں اور اسلامی ادارے قائم کیے جائیں، اس جماعت کے سامنے بھی مسلمانوں کی اقتصادی زبوں حالی تھی مگر اس نے اولیت ایمانیات وروحانیات کو دی اس جماعت کے سرخیل اور میرکارواں حجة الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی تھے، اس نقطئہ نظر کا مظہر اولین دارالعلوم دیوبند ہے، شیخ اکرام ان دونوں نظریوں کے اختلاف کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

”سرسید کا مقصد مسلمانوں کے دنیوی تنزل کو روکنا تھا اور ارباب دیوبند کی نظر دینی ضرورت پر تھی، پھر سرسّید طبقہٴ امراء کے رکن تھے اور مولانا قاسم جمہور کے نمائندے“[9]

اس نظریہ اور طریقہٴ کار پر پیام ندوہ میں ان الفاظ سے تبصرہ کیاگیا ہے۔

” اس حقیقت سے کوئی ہوشمند اور منصف انسان انکار نہیں کرسکتا کہ دارالعلوم دیوبند کے فضلاء نے ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں پھیل کر دین خالص کی جس طرح حفاظت کی ہے اور اس کو بدعت تحریف اور تاویل سے محفوظ رکھا ہے اس سے ہندوستان میں اسلامی زندگی کے قیام و بقا واستحکام میں بیش بہا مدد ملی ہے اور آج جو صحیح اسلامی عقائد، دینی علوم، اہل دین کی وقعت اور صحیح روحانیت اس ملک میں نظر آتی ہے اس میں بلاشبہ اس کا نمایاں اور بنیادی حصہ ہے۔

آج کل ہندوستان میں مسلمانوں کے جودینی ودنیاوی ادارے اور تعلیم گاہیں قائم ہیں اور اپنے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں وہ سب درحقیقت انھیں دونوں نقطئہ نظر کی ترجمان ہیں اور اپنے اپنے نظریہ کے مطابق مسلمانوں کی علمی، دینی اور دنیاوی تعمیر وترقی میں مصروف عمل ہیں، اب اگر کسی ایک نظریہ کو دوسرے پر تھوپنے کی کوشش کی جائے گی تو یہ اتحاد واتفاق کے بجائے انتشار اور پراگندگی کا سبب ہوگی، یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ مدارس کے نصاب تعلیم میں ترمیم کی ضرورت رفتار زمانہ کے ساتھ پیش آتی رہتی ہے جس سے اہل مدارس اچھی طرح واقف ہیں اور اپنے طور پر اس سلسلے میں کوششیں بھی کرتے رہتے ہیں، اس کوشش کو بروئے کار لانے میں کوئی تعاون پیش کرتا ہے تو اہل مدارس اسے شکریہ کے ساتھ قبول بھی کرتے رہتے ہیں؛لیکن نصاب تعلیم میں وقت اور تقاضا کا نام لے کر ایسی ترمیم جو ان کے مقصد قیام کے خلاف ہو جمہور مسلمین اسے کسی قیمت پر قبول نہیں کرسکتے، اس لیے دانشوران قوم کو اس زندہ حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے مدارس اور ان کے نصاب تعلیم وتربیت کے بارے میں گفتگو کرنی چاہیے۔ مسلم طبقہ کو مزید انتشار سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ احتیاط ضروری ہے۔

$ $ $


[1] جب بادشاہ کسی آبادی میں داخل ہوتے ہیں تو اس کو برباد اور اس کے باعزت باشندوں کو ذلیل کرڈالتے ہیں۔

[2] موج کوثر ص 74

[3] روشن مستقبل‏، ص 95

[4] بحوالہ ایڈریس اور اسپیچس متعلق ایم او کالج دیباچہ ص 2

[5] موج کوثر ص 146

[6] موج کوثر ص148

[7] موج کوثر ص 150

[8] ایضاً‏، ص151

[9] ایضاً‏ ص 201

———————————————

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ6، جلد: 99 ‏، شعبان 1436 ہجری مطابق جون 2015ء

Related Posts