از: مولانا ضمیر رشیدی
وارث پورہ، کامٹی، ناگپور (مہاراشٹر)
درخت کی جڑ کا تعلق جب تک زمین سے مضبوط رہتا ہے ، تب تک وہ ہوا ، پانی، روشنی اور دوسری چیزوں سے نہ صرف فائدہ اٹھاتا ہے؛ بلکہ وہ دوسروں کے لیے پھل، پھول ، سایہ اور ٹھنڈی ہوا کا ذریعہ بنا رہتا ہے ۔ مگر جوں ہی اس کا تعلق زمین سے ٹوٹتا ہے، پانی اورکھادوغیرہ فائدہ پہنچانے والی چیزیں اب اس کے نقصان کا باعث بنتی چلی جاتی ہیں۔ مثلاً ہوا اس کی پتیوں کو شاخوں سے جدا کرتی ہیں۔ پانی اس کی ٹہنیوں کو سڑاتا ہے۔ سورج کی گرمی اس کے تنوں کو سکھانا شروع کر دیتی ہے۔گویا درخت کے مختلف چیزوں سے فائدہ اٹھانے یا نقصان اٹھانے کا راست تعلق زمین سے اس کے تعلق پر موقوف ہے۔ٹھیک اسی طرح انسانی سماج و معاشرہ میں ہر قسم کی بھلائی اور بگاڑ کا براہ راست تعلق انسانی قلوب سے وابستہ ہے۔دل بگڑتا ہے تو اس میں قساوت پیدا ہوتی ہے اور بالآخر انسانی بستیوں میں بگاڑ آتا ہے ۔اور جب دلوں میں سدھار آتا ہے توانسانیت اپنی فلاح وبہبود اور کامرانی کو پہنچ جاتی ہے۔
پیغمبرِ اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مکہ معظمہ کا کیا عالم تھا، وہ ہم آپ بخوبی جانتے ہیں۔مثلاً شرک ، بت پرستی، زناکاری ، بدکاری، قتل و غارت گری، لڑکیوں کا زندہ در گور کردیا جانا، قمار بازی وغیرہ کی ارزانی ۔یہ فہر ست کافی طویل ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی دلوں سے اپنی دعوت و محنت کی بنیاد رکھی۔ آپ نے لوگوں کے دلوں کو اپنی محنت کا میدان بنایا۔ جب انسانی قلوب اللہ کی محبت، عظمت، کبریائی ، پاکی اور خوف سے لبریز اور معمور ہو گئے تو ہر بھلائی اور خیر اس طرح انسانی معاشرہ میں وجود میں آگئی جس طرح موسلا دھار بارش کے بعد چہار طرف سبزہ اگ آتا ہے۔
دل انسان کے جسم میں بادشاہ کی حیثیت رکھتا ہے اور باقی ماندہ اعضاء مانند رعایا کے ہیں۔ لہٰذا جب دل میں کوئی بات قرار پکڑ تی ہے تو سارے اعضاء اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں لگ جاتے ہیں ۔ داعی کا انسانوں کے قلوب سے اپنی محنت کا آغاز گویا بادشاہ سلامت سے براہ راست خطاب کرنا ہے؛چنانچہ اس سلسلہ میں رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذیل میں دی گئی ایک حدیث میں ہر زمانہ کے داعیوں کے لیے کام کے نقطئہ آغازکے لیے واضح رہنما ئی و اشارہ موجود ہے۔
”سنو! جسم کے اندر گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، وہ درست ہو تو پورا جسم درست رہتا ہے۔وہ بگڑجائے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے ۔سنو! وہ دل ہے۔“یہی دل جس سے سارے خیر اور اصلاح و فلاح کا نقطئہ آغاز ہوتا ہے، کل قیامت کے دن اللہ کو اس کی ربوبیت، پاکی، کبریائی وغیرہ سے متصف مطلوب ہے۔ جب محنت کرکے دل کو ہر قسم کی برائیوں کبر،حسد،جلن،بغض،کینہ ،طمع، حرص،حب جاہ، حب مال وغیرہ سے پاک و صاف کر لیا جاتا ہے اور اس میں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت،یقین،توکل،تعلق،بھروسہ، احسان،عجز، انکساری، تواضع وغیرہ صفات پیدا کر لی جا تی ہیں تو یہ دل ’قلبِ سلیم‘ بن جا تا ہے۔اب یہ دل وہ دل بن جاتا ہے جو بندہ سے اللہ تعالی کو عین مطلوب ہے، جیسا کہ قرآن مجید کی سورہ ا لشعراء کی آیت نمبر ۸۸،۸۹ میں ارشاد باری تعالی ہے:
” جس دن نہ مال کام آئے گااور نہ اولاد؛مگر وہ جو اللہ کے پاس قلب سلیم لے کر آئے ۔“
آ ج ہر قسم کا بگاڑ عام ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں برائی کے طوفان کا مقابلہ کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہیں۔ انھوں نے بگاڑ کی اصلاح کے لیے مختلف اسکیمیں، پروگرام، مہم، اشتہارات، قانون ، قاعدوں اور ضابطوں کی دھوم مچائی ہے۔ مختلف اچھائیوں کو جاری و ساری کرنے اور برائیوں کو دور کرنے کے لیے دن اور ہفتہ منائے جا رہے ہیں ۔مثلاً یوم تعلیم، ایڈس مخالف دن، رشوت مخالف قسم و حلف ، منشیات مخالف دن،لڑکیوں کو رحم مادر میں نہ ختم کرنے کی مہم وغیرہ؛مگر یہ ساری محنتیں اور کوششیں ایسی ہی ہیں، جیسے کہ ایک زوال پذیر درخت کی جڑ کو مضبوط نہ کرتے ہوئے اس کے پتوں اور تنوں کو پانی اور کھاد پہنچانا۔اور ظاہر ہے کہ ایسی کوئی بھی کوشش کبھی بھی کامیاب ہونے والی نہیں۔
مسلمان من حیث القوم حامل قرآن ہیں، اللہ کے آخری محفوظ و موجود کلام ،احکام،منشاء کے جاننے اور ماننے والے ہیں؛ مگر یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ وہ خود عمل سے کوسوں دور ہیں؛ چناں چہ موجودہ داعیانِ اسلام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ انسانی معاشرہ میں انسانوں کے دلوں سے اپنی محنت کا آغاز کرتے ہوئے برائیوں سے پاک اور ہر خیر و بھلائی سے آراستہ ایسا معاشرہ وجود میں لائیں کہ انسانی فطرت خود پکار اٹھے کہ جو زندگی ہمیں مطلوب ہے وہ بلا شبہ اہل ایمان کے پاس ہے۔ اور وہ ان سے کہہ اٹھیں کہ آپ ہمیں بھی اپنے جیسا بنا لو؛ مگر چونکہ تقوی سارے امور کی جڑ ہے؛ اس لیے ضروری ہے کہ اہل ایمان اپنے عمل کا آغاز قرآن مجید کی درج ذیل آیت سے کریں جو پکار پکا ر کر دل میں تقوی پیدا کرنے کی دعوت دے رہی ہے ۔ (سورہ : الرعد ۔ آیت نمبر:۱۶)” کیا ایمان والوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی نصیحت کے آگے جھک جائیں اور اس حق کے آگے جو نازل ہوا ہے۔“
————————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ6، جلد: 99 ، شعبان 1436 ہجری مطابق جون 2015ء