حرفِ آغاز
مولانا حبیب الرحمن اعظمی
مملکت سعودیہ عربیہ کے فرماں روا خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کا ۳/ربیع الثانی ۱۴۳۶ھ مطابق ۲۴/جنوری ۲۰۱۵/ کو طویل علالت کے بعد انتقال ہوگیا، انا لِلّٰہِ وانا الیہ راجعون، شاہ عبداللہ مرحوم مشہور قول کے مطابق ماہ اگست ۱۹۲۴/ کو ریاض میں پیدا ہوئے تھے، وہ مملکت سعودیہ کے بانی شاہ عبدالعزیز کے ۳۷ صاحبزادوں میں ۱۳ویں نمبر پر تھے۔ اپنے پیش رو شاہ فہد مرحوم کی وفات کے بعد یکم اگست ۲۰۰۵/ کو سریرآرائے سلطنت ہوئے تھے، ان کی سیاسی سرگرمیوں کاآغاز فروری ۱۹۶۳/ ہی سے ہوگیا تھا، جب وہ نیشنل گارڈ کے رئیس مقرر ہوئے تھے، اس عہدہ پر وہ ۲۰۱۰/ تک فائز رہے، ۱۹۷۵/ میں نائب دوم وزیراعظم، پھر ۱۹۸۲/ میں ولی عہد مملکت اور نائب اوّل وزیراعظم نامزد ہوئے، مزید برآں اور بھی متعدد سیاسی وحکومتی ذمہ داریاں نبھائیں اور شاہ فہد مرحوم کے آخری دور میں ان کے مشیر خاص ہونے کی حیثیت سے نمایاں خدمات انجام دیں۔
شاہ عبداللہ مرحوم کو عام طور پر ایک اعتدال پسند اور دوراندیش حکمراں تصور کیا جاتا تھا، وہ اپنے عہد حکومت میں اتحاد بین المسلمین اور بین المذاہب رواداری کے لیے برابر کوشاں رہے، ان کی دہلی خواہش تھی کہ عالمی برادری جنگ وجدال اور نفرت و عداوت کے بجائے افہام و تفہیم اور باہمی بات چیت سے پیش آمدہ مشکلات ومسائل کا حل تلاش کرے، اس کے لیے انھوں نے خود پیش قدمی کرتے ہوئے ویٹکن سٹی جاکر مسیحی پوپ سے ملاقات کی اور متعدد مقامات پر بین مذہبی مذاکرات کی راہیں ہموار کیں، علاوہ ازیں جن ممالک سے مملکت کے تعلقات بہتر نہیں تھے، ان کے ساتھ بھی بہتر تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرتے رہے، اسلام اور انسانیت دشمن عالمی فتنہ گروں کی سازشوں کا وہ پورا ادراک رکھتے تھے اور ان کے اٹھائے ہوئے فتنوں کا اپنی حد تک تدارک بھی کرتے تھے۔
شاہ مرحوم کا بلاشبہ یہ ایک کارنامہ ہے کہ انھوں نے حجاج کرام کی سہولت کے لیے حرمین شریفین اور دیگرمشاعرمقدسہ کی توسیع کی جس سے حجاج کو مناسک حج کی ادائیگی میں بڑی آسانی ہوگئی، وہ حاجیوں کی راحت رسانی کا بڑا خیال رکھتے تھے۔
ان کا دورحکومت اس اعتبار سے بھی یاد کیا جائے گا کہ مملکت سعودیہ نے ان کے عہد میں زندگی کے ہر شعبہ میں نمایاں ترقی کی اور خوشحالی وفارغ البالی کے نئے نئے باب رقم ہوئے، تعلیم ، صحت، صنعت وزراعت، نقل وحمل، وغیرہ ہر شعبے میں ماضی کے بہ نسبت انھوں نے سعودیہ عربیہ کو زیادہ ترقی یافتہ بنادیا، ان کے زمانہٴ حکمرانی میں بطور خاص تعلیم کے شعبہ نے غیرمعمولی ترقی کی، تقریباً ۲۰ نئی یونیورسٹیاں قائم ہوئیں، درجنوں ٹیکنکل اور میڈیکل کالج کھلے، شاہ عبداللہ سائنس وٹیکنالوجی یونیورسٹی، جازان، مدینہ منورہ، حائل اور باغ شہروں میں شاہ عبداللہ اکنامک سٹی کا قیام بھی ان کی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
مرحوم شاہ کی مسلسل کوششوں کے نتیجے میں آج مملکت میں تعلیمی بیداری کی ایک ہمہ جہت تحریک پائی جارہی ہے، ملک کے طول وعرض میں کالجوں اور اسکولوں کا ایک جال بچھ گیا ہے اور تقریباً ۷۰۱۶۸۱ طلبہ کی تعلیمی ضروریات سے ہم آہنگ نئے تعلیمی ادارے قائم ہوئے ہیں کالجوں کے ساتھ ساتھ ۳۲ ہزار اسکول بھی کھولے گئے، جن کے قیام کے بعد سعودی عرب میں اسکولوں میں زیر تعلیم طلبہ کی تعداد پانچ ملین سے تجاوز کرگئی ہے، ان تعلیمی اداروں کے قیام سے تقریباً ۴ لاکھ ۲۶ ہزار اساتذہ کو روزگار فراہم ہوا ہے۔
آج کے دین بیزار ماحول میں وہ سعودیہ عربیہ جیسے عظیم اسلامی ملک کو ممکنہ حد تک اسلامی تعلیمات کے دائرہ میں لے کر چلتے رہے اور اسلامی کاز کی تعمیر وترقی اور اسے آگے بڑھانے کے لیے اپنی حد تک برابر جدوجہد کرتے رہے۔
ان کے دور میں عرب وہند تعلقات میں بھی غیرمعمولی گرم جوشی آئی، وہ ۲۰۰۶/ میں یوم جمہوریہ کی تقریب میں بحیثیت مہمان خصوصی تشریف لائے تھے، اور ہندوستان سے اپنی سچی وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا ”ہندوستان میرا دوسرا گھر ہے“ جس سے ہندوستان کے ساتھ ان کی ہم آہنگی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، دنیا میں پھیلی ہوئی اسلامی تعلیم گاہوں کے سچے خیرخواہ تھے اور ان کی تعمیر وترقی کے لیے اپنی جیسی کسی کوشش سے دریغ نہیں کرتے تھے، بالخصوص دارالعلوم دیوبند کے تعلیمی و تربیتی احوال وکوائف سے باخبر تھے، جس کے نتیجے میں علمائے دیوبند اور شیوخ حرمین شریفین کے مابین روابط میں غیرمعمولی اضافہ ہوا، حرمین شریفین کے ائمہ عظام، سعودیہ عربیہ کی جامعات کے مقتدر اساتذہ اور مملکت کی اہم سیاسی شخصیات کی دارالعلوم دیوبند میں آمد کا سلسلہ سرگرمی کے ساتھ شروع ہوگیا، اس طرح علمائے عرب کو دارالعلوم دیوبند، اور علمائے دیوبند کی علمی ودینی وسیع تر خدمات سے براہ راست متعارف ہونے کا موقع فراہم ہواہے۔
دس سال کی مختصرمدت میں شاہ عبداللہ مرحوم نے جو کارہائے نمایاں انجام دیے وہ اس بات کے شاہد عدل ہیں کہ شاہ مرحوم عصر حاضر کی ایک عظیم شخصیت تھے، جن میں فکر وتدبر کے ساتھ جوشِ عمل بھی تھا، انھیں اپنے منصوبوں کو پایہٴ تکمیل تک پہنچانے کا ہنر معلوم تھا، ظاہر ہے ایسے ہمہ جت وہمہ گیر قائد ورہنما سے مملکت سعودیہ ؛ بلکہ ملت اسلامیہ کا محروم ہوجانا ایک ایسا خسارہ ہے جس کی تلافی شاید مدتوں میں بھی نہیں ہوسکے گی، اللّٰھم اغفرلہ وارحمہ وادخلہ فی جنة النعیم․
خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ مرحوم نے مملکت سعودیہ کے دستور ومعمول کے مطابق اپنی حیات میں شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز کو ولی عہد نامزد کردیا تھا، اب وہ مملکت کے فرماں روا ہیں، شاہ سلیمان ایک تعلیم یافتہ اور تجربہ کار شخصیت کے حامل ہیں، وہ پانچ دہائیوں تک دارالحکومت ریاض کے گورنر رہ چکے ہیں، اس طرح وہ کاروبارسلطنت سے پوری طرح واقفیت رکھتے ہیں، بین الاقوامی واقعات و حالات پر بھی وہ اچھی نظر رکھتے ہیں، بالخصوص مسلم ممالک آج جن ناگفتہ بہ حالات کے شکار ہیں اس کے پیش منظر اور عواقب سے بھی وہ واقفیت رکھتے ہیں، وہ خوب جانتے ہیں کہ ان کے پیش رو بزرگ نے مملکت سعودیہ کی کس حکمت وتدبر کے ساتھ امن وسلامتی کو متاثر نہیں ہونے دیا؛ اس لیے ان سے بجا طور پر توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے پیش رو بزرگ کی مفید وبارآور پالیسیوں کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کریں گے، نیزمملکت سعودیہ اور ملت اسلامیہ کے لیے انشاء اللہ نعم البدل ثابت ہوں گے۔
————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 2، جلد: 99 ، ربیع الثانی1436 ہجری مطابق فروری 2015ء