از: ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی
۱۵- گاندھی روڈ، دہرہ دون
انسانیت کے عظیم محسن، اسلامی شاعر علامہ اقبال نے موجودہ تہذیب کے اٹھان کے وقت ہی اس کی بنیاد کو دیکھ کر ایک پیشین گوئی کی تھی کہ ”یہ قوم اپنے خنجر سے آپ خودکشی کرے گی جو شاخِ نازک پر بنے گا آشیانہ نا پیدار ہوگا“۔ آج اگر ہم پوری دنیا کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو مشرق سے مغرب تک، شمال سے جنوب تک ہر جگہ اور انسانی معاشرہ کے ہر طبقہ میں فساد وبگاڑ لاعلاج ہونے کی حد تک بڑھ چکا ہے؛ یہاں تک کہ اس فساد نے قرآنی الفاظ میں ”خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا ہے تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی کے نتیجہ میں؛ اس لیے کہ انھیں ان کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ چکھادے، بہت ممکن ہے کہ وہ باز آجائیں۔“ (الروم:۴۱)
مغربی تہذیب کے علمبرداروں نے یہ فساد ، بگاڑ دانستہ اور نادانستہ طورپر پیدا کیا اور بڑھایا ہے اوراس فساد کو اور اپنی کالی کرتوتوں، مکاریوں اور سازشوں کو چھپانے کے لیے طرح طرح کے فرضی، جعلی اور مصنوعی مسئلے پیدا کردیتے ہیں۔ حقوقِ انسانی، جمہوریت، حقوقِ نسواں، دہشت گردی، آزادی، کھلی تجارت، کھلی مارکیٹ، گلوبل ولیج اور نہ جانے کیا کیا، ثانوی اور غیر اہم مسئلہ اور ان کی وجوہات کو میڈیا کے بل بوتے پر خاص و عام کے دل ودماغ میں پیوست کردیتے ہیں، جس کے نتیجہ میں دنیا کے اہم مسائل سے اور ان کے پیچھے ہونے والے کھیل سے ناواقف رہتے ہیں۔ پچھلے دنوں I.P.C.C. نے جو کہ عالمی موحولیاتی تبدیلی پر عالمی ادارہ ہے، کی رپورٹ جاری کی ہے، جس نے سائنسی طریقہ پر مطالعہ کے بعد اعداد وشمار کی روشنی میں زمین میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے شدید مہلک اور تباہ کن اثرات کے بارے میں وارننگ دی ہے، گرین ہاؤس گیسوں (وہ گیس جن کے اخراج سے زمین کا درجہ حرارت غیر فطری طریقہ سے بڑھتا ہے) کے غیرمعمولی اخراج سے زمین پر پچھلے ۳۰ سال گذشتہ ۱۴۰۰ سالوں میں سب سے گرم سال تھے۔ اس کے نتیجہ میں موسمی غیرمعمولی تبدیلیاں دیکھنے میں آرہی ہیں۔ سمندروں کی سطح پر درجہٴ حرارت بڑھ رہا ہے، سمندروں کی تیزابیت نارمل سے 26% بڑھ چکی ہے ، آرکٹک گلیشیر پر برفانی چادر 3.5%ہر دس سال کی شرح سے گھٹ رہی ہے، جس کے نتیجہ میں پانی کی کمی، فصلوں کی گھٹتی پیداوار، جانوروں، کیڑے مکوڑوں وغیرہ کی نابودگی اور سمندری سواحل کے آس پاس کے ملکوں اور آبادیوں کے زیرِ آب آنے کے خطرات اور امکانات بڑھ رہے ہیں۔ ماحولیات میں کثافت کی مختلف شکلوں کے نتیجہ میں، ہوا، پانی، زمین اور پانی سے اگنے والی ہر فصل میں انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر اور قاتل مادوں کی موجودگی بڑھ رہی ہے، جن میں پارہ، سیسہ اور سنکھیا Arsenic یوریا وغیرہ بہت اہم ہیں، جن سے کینسر جیسے موذی امراض کے علاوہ دمہ، بانجھ پن تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ کیمیاوی کھادوں کے استعمال سے زیرِ زمین پانی تک آلودہ ہوگیا ہے۔ پنجاب اور مغربی یوپی کے بعض علاقے کینسر کی بڑھتی پکڑ سے زندگی اور موت کے مسئلہ سے جوجھ رہے ہیں۔ مسئلہ کتنا نازک ہوتا جارہا ہے، اسے صرف ایک چھوٹے سے مسئلہ سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سانتا باربرا کے ماحولیاتی ماہر مارک براؤن نے ایک تحقیق میں دنیا کے اٹھارہ سمندری ساحلوں (ہندوستان، برطانیہ، سنگاپور سمیت) سے پانی کے نمونہ حاصل کرکے پایا کہ ان میں مصنوعی مادوں سے بنائے گئے کپڑوں کی دھلائی کے دوران فی دھلائی ایک ہزار نوسوفائبر پلاسٹک کے ذرات خارج ہوتے ہیں اور یہ سمندر میں جمع ہورہے ہیں اور یہ باریک ذرات سمندری جانوروں کے گوشت پوست میں جگہ بنارہے ہیں۔ خشکی پر بھی یہی عمل ہورہا ہے، پلاسٹک کھانے والے جانوروں میں ہضم ہوکر یہ ذرات ان کے خون اور گوشت میں اکٹھا ہوکر انسانوں کے خوراک کے دائرہ میں شامل ہوکر انسان کو امراض میں مبتلا کررہے ہیں (آگ، لکھنوٴ ۲۳/۹/۲۰۱۴/)
انسانی خوراک کے دائرہ میں جگہ جگہ سے زہر شامل ہورہا ہے جس میں سینچائی کا پانی، زیرِ زمین پانی کی آلودگی، کیمیاوی کھادیں، کیڑے مارنے والی زہریلی دوائیں سب شامل ہیں۔ حضرتِ انسان کی بے اعتدالی اور فطرت سے بغاوت کے سبب ذرہ ذرہ میں فساد اور ہلاکت خیزی پرورش پارہی ہے۔ ایک دیگر سائنسی مطالعہ میں بتایاگیا ہے کہ زمین اور ماحول کے گرم ہونے کے ساتھ ساتھ زمین پر بجلی گرنے کے واقعات میں اضافہ ہوگا۔ سائنس دانوں نے حساب لگایا کہ عالمی درجہٴ حرارت میں ایک ڈگری کے اضافہ سے بجلی گرنے کی شرح 12%بڑھ جاتی ہے۔ جب آسمان سے بجلی گرتی ہے تو یہ کچھ مقدار میں زمین کو گرم کرنے والی گیس (گرین ہاؤس گیس) G.H.G نائٹروجن آکسائڈ کا اخراج کرتی ہے اوراس کے بعد دوسری گرین ہاؤس گیسوں میتھین کا اخراج ہوتا ہے، جس سے پھر ماحول اور گرم ہوتا ہے، اس طرح یہ چکر چلتا رہے گا۔ (حالاتِ وطن ۲۱/۱۱/۲۰۱۴/)
حالات کے بگاڑ میں دولت مند طبقہ، حکمراں اور صنعت کاروں کا رول سب سے زیادہ مجرمانہ ہے۔ یہ سب مل کر میڈیا خصوصاً الیکٹرونک میڈیا اور تعلیمی نظام کی مادہ پرستانہ تفسیر کے ذریعہ سماج کو زیادہ سے زیادہ صَرف کرنے Consume کرنے کی کمزروی اور حکمرانوں اور صنعت کاروں کی زیادہ سے زیادہ نفع کمانے (وہ بھی کم سے کم خرچ اور ذمہ داروں کے ساتھ) کی خصلت کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ دنیا کے تمام قدرتی ذرائع اور وسائل جنگل، زمین، ندی، نالے، معدنیات کی کانیں Mines ، آبشار، پیڑ پودے، جانور سب کچھ نفع خور تاجروں، سرمایہ داروں، حکمرانوں کی ہوس گیری کا شکار ہیں۔ عوام کو میڈیا کے ذریعہ نیا سے نیا اور زیادہ سے زیادہ کی ہوڑ میں لگادیاگیا ہے، ایک ایسی دوڑ جس میں ہر ایک کے لیے شکست مقدر ہوگی اور پوری انسانیت کو ہی نقصان اٹھانا ہوگا۔
انسانوں کی اپنے ہاتھوں تباہی
ایک اور پہلو یہ ہے کہ حضرتِ انسان خصوصاً انسانی حقوق، آزادی، ترقی، تعلیم کی ٹھیکیداری کا دعویٰ کرنے والوں امریکہ اور یوروپ نے دنیا بھر میں انسانوں کی آبادی سے زیادہ بربادی پر رقم خرچ کرانے کا شیطانی کام اپنی شیطانی حرکتوں کے ذریعہ کررکھا ہے، دنیا بھر میں آج کی تاریخ میں تینتیس مسلح تصادم جاری ہیں۔ پوری دنیا ہتھیاروں کی خریداری پر سالانہ ۱۷۶۵ارب ڈالر (ایک ڈالرRs 65/=) پر خرچ کررہی ہے (جس کا بڑا حصہ دنیا کے پانچ ممالک: امریکہ، روس، فرانس، جرمنی، اسرائیل کے کھاتے میں جاتا ہے) دنیا بھر میں اس وقت ۸۷۵ ملین (ایک ملین برابر دس لاکھ) چھوٹا اسلحہ موجود ہے اور۲۰۵۰۰ نیوکلیائی ہتھیار بھی موجود ہیں۔ ہر سال لگ بھگ ۱۰-۸ ملین چھوٹے اسلحہ کی تیاری کی جارہی ہے اور یہی چھوٹا اسلحہ دنیا بھر میں گوریلا جنگوں، آزادی کی لڑائیوں اور خانہ جنگیوں میں استعمال ہورہا ہے۔ انتہائی قابلِ غور بات یہ ہے کہ یہ تباہی کے سوداگر ہی دنیا بھر میں ”نام نہاد دہشت گردی“ کے خلاف جنگ کی باتیں کرتے ہیں۔ آج جبکہ دنیا میں امریکن، مغربی ورلڈ آرڈر کو تسلط ہے اورامن، انسانیت، انسانی ترقی وفلاح کی باتیں کرنے والے اسلحہ پر۱۷۶۵ارب ڈالر خرچ کررہے ہیں۔ ہتھیار بنانے والے اربوں ڈالر کمارہے ہیں۔ دنیامیں ہر صنعت مندی کا شکار ہے؛ مگر ہتھیارکی صنعت میں مندی نہیں ہے۔ سعودی عرب اور دبئی دنیا کے سب سے بڑے ہتھیاروں کے خریدار ہیں۔ اکیلے امریکہ کا دفاعی خرچ ۸۰۰اَرب ڈالر کا ہے۔ اس کے مقابلہ انسانیت کی ترقی کا کتنا لحاظ ہے وہ بھی ذہن نشین کرلیجیے۔ اقوام متحدہ جو دنیا بھر میں امن، تحفظ، حقوقِ انسانی، انسانی معلومات (امدادی امور) اور بین الاقوامی قوانین کو لاگو کرنے کا کام کرتا ہے، ان اہم ترین امور کے لیے اس عالمی ادارہ کو ملتے ہیں (دل تھام کر پڑھیے) ۷ء۲اَرب ڈالر یعنی ہتھیاروں پر ۱۷۶۵اَرب اور تحفظ وامداد پر ۷ء۲ ارب (نبیلہ جمشید اقوام متحدہ میں معاون ای، او، انڈین ایکسپریس ۲۵/۹/۲۰۱۴/)
یہ ہے اس دھونگی، منافق انسانیت دشمن کا اصلی چہرہ جسے چھپائے رکھنے کے لیے دنیا بھر میں دنگوں کی آگ بھڑکائی جاتی ہے، ملکوں کو ملکوں سے، پڑوسیوں کو پڑوسیوں سے، قبائل کو قبائل سے لڑایا جاتا ہے۔ طرفین کو اسلحہ دیا جاتا ہے، اسلحہ پاکستان کو بھی فروخت کرتے ہیں، افغانستان کو بھی، بھارت کو بھی، اسلحہ اسرائیل کو بھی دیتے ہیں، سعودی عرب کوبھی، اسرائیل کو سالانہ فوجی امریکی امداد ۶ ارب ڈالر کے آس پاس ہے۔ تقریباً اتنی ہی رقم کے اسلحے سعودی عرب کو فروخت کیا جاتاہے۔ مصر کو بھی اسرائیل کے بعد دوسری بڑی فوجی مدد دی جاتی ہے۔ ISIS کو بھی اسلحہ دیا جاتا ہے اور عراق کو بھی اور ترکی کو بھی اسلحہ فروخت کیا جاتاہے؛ تاکہ خون بہتا رہے، اسلحہ فروخت ہوتا رہے، کھیتیاں اور نسلیں تباہ ہوتی رہیں؛ مگر لاک ہیڈ مارٹن؛ لوئنگ وغیرہ کے خزانے بھرتے رہیں۔ دنیا کے تمام انسان اگر وہ انسانیت کے حقیقی بہی خواہ ہیں تو انھیں ہتھیاروں کے ان بے رحم سوداگروں کی چالوں کو سمجھنا ہوگا، ان کے مکروہ چہروں کو بے نقاب کرنا ہوگا۔
مسئلہ کا تیسرا پہلو ہے دنیا میں اناج کی پیداوار میں اضافہ
کسانوں کو ملنے والی قیمت میں کمی اور عام گاہک کو مہنگا اناج ملنا، خوراک کی کمی کو بڑا مسئلہ بنایا جاتا ہے؛ مگر اعداد وشمار بتا رہے ہیں کہ ۲۰۱۳-۲۰۰۳ کے دس سالوں میں اناج کی پیداوار بڑھی ہے، عالمی پیمانہ پر عام خریدار کو دام زیادہ دینے پڑ رہے ہیں۔ خصوصاً پچھلے ۶-۵ سالوں میں رٹیل کے داموں میں قیمت بڑھ رہی ہے، جب قیمت بڑھتی ہے تو عوام کو زیادہ دام دینے پڑتے ہیں؛ مگر جب دام عالمی منڈیوں میں کم ہوجاتے ہیں تو اس کا فائدہ عوام کو نہیں ملتا اوراس گھپلے پر روک لگانے کا کوئی نظام بھی حکومتوں کے پاس نہیں ہے۔ اصل فائدہ جمع خوروں، منافع خوروں اور سٹہ بازوں کو ہوتا ہے۔ عالمی اداروں نے پچھلے دس سالوں کی ایک تقابلی فہرست جاری کی ہے جس میں بڑھتی پیداوار اور گھٹتے تھوک داموں کو دکھایا گیا ہے؛ مگر جیسا کہ ہم سب بھگت رہے ہیں کہ پچھلے سالوں میں ہی دال، چاول، آٹا، تیل ہر جنس کے دام بڑھے ہوئے ہیں اور پیداوار بڑھنے کے باوجود عوام کو راحت نہیں ہورہی ہے۔
نام جنس 2003-4 میں مقدار 2013-14 میں مقدار
چاول 201.48 ملین ٹن 248.76 ملین ٹن
گندم 71.35 ملین ٹن 90.39 ملین ٹن
مکئی 12.57 ملین ٹن 21.36 ملین ٹن
دَلہن 12.78 ملین ٹن 17.52 ملین ٹن
تلہن 19.97 ملین ٹن 30.20 ملین ٹن
کپاس 15.38 ملین ٹن 35.04 ملین ٹن
گنا 282.75 ملین ٹن 337.95 ملین ٹن
داموں کی صورت حال عالمی منڈیوں میں:
نام جنس موجود ہ دام ایک سال پہلے دو سال پہلے
گیہوں فی 25کلو 5.38 ڈالر 6.63 ڈالر 8.65 ڈالر
مکئی فی 25کلو 3.74 ڈالر 4.26 ڈالر 7.40 ڈالر
چاول فی ٹن 424 ڈالر 439 ڈالر 579 ڈالر
سویابین فی 25کلو 10.30 ڈالر 12.57ڈالر 15.27ڈالر
پام آئل فی ٹن 710 ڈالر 814.00ڈالر 818 ڈالر
کپاس ایک پونڈ 70 سینٹ 84.00سینٹ 80.30سینٹ
چینی ایک پونڈ 15.93 سینٹ 18.32سینٹ 19.45سینٹ
پاؤڈر ایک ٹن 2464 ڈالر 4541 ڈالر 3225 ڈالر
(انڈین ایکسپریس نئی دہلی۵/۱۱/۲۰۱۴)
داموں میں ہیرپھیر کرنے والے ہی حکومتوں اور میڈیا کو قابو کرتے ہیں وہ مہنگائی کے لیے بڑھتی آبادی، سوکھا، باڑھ، لڑائیاں اور نہ جانے کس کس کو ذمہ دار بتاتے ہیں؛ مگر اوپر کے اعداد وشمار بتارہے ہیں کہ پیداوار بڑھ رہی ہے تو دام کم کیوں نہیں ہورہے ہیں۔ کم سے کم دام بڑھتے نہیں یا ایک اوسط کے مطابق بڑھتے؛ مگر دام تو اشیاء خوردونوش کے کئی گنا بڑھ گئے ہیں یہ کیوں ہوا؟
یہ تو صرف تین اہم معاملات ہیں جن میں یہ پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں آج جو بھی مسئلے ہیں چاہے امن وامان کا ہے، خوراک کا ہے، ماحولیاتی آلودگی یا روزگار کا ہے یا بڑھتی مہنگائی کا، ہر ایک کی جڑ میں حضرتِ انسان کا دولت مند، حکمراں طبقہ ہی موجود ہے؛ مگر یہ گروہ کمالِ مکاری سے اس کا الزام جھوٹے گھڑے ہوئے مسائل پر تھوپ دیتا ہے۔ ان مسائل کی تفصیل میں جیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ سرمایہ دار، صنعت کار، حکمراں طبقہ کس طرح قوم، ملک، رنگ، نسل کے مفادات کے تحفظ کے نام پر قدرتی وسائل کی لوٹ مچاتے ہیں، دام بڑھانے کے لیے قدرتی وسائل کو ضائع کرتے ہیں، فصلوں کو، دودھ کو ضائع کرتے ہیں، ملکوں کے درمیان جنگیں بھڑکاتے ہیں اور کمزور غریب عوام کو مسئلہ کی جڑ قرار دیتے ہیں؛ جبکہ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ مسئلہ آبادی نہیں؛ بلکہ حد سے بڑھا ہوا اسراف اور ضیاعِ وسائل ہے، جس سے فطرت کا نظام متاثر ہورہا ہے اس کو اعتدال اور فطرت پر رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ فطری اسلامی طریقہ پر یعنی ”کھاؤ، پیو، مگر اسراف نہ کرو (اعراف) اور میزان سے تجاوز نہ کرو“ (رحمن) کی بنیاد پر عالمی حکومت یا حکومتوں کے درمیان پروٹوکول طے ہو۔ ورنہ کرہٴ ارض ڈوبے گا تو سب غرق ہوں گے، بگاڑ اور فساد کے اصل مجرم بھی اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں پائیں گے۔
————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 2، جلد: 99 ، ربیع الثانی1436 ہجری مطابق فروری 2015ء