از: مولانا رفیع الدین حنیف قاسمی

وادی مصطفی، شاہین نگر، حیدرآباد

اصلاحِ حال کے حوالے سے سرگرم مختلف تحریکوں اور تنظیموں کے نمائندہ لوگوں کی جانب سے یہ رویہ مشاہدے میں آرہا ہے کہ وہ دبی زبان میں مدارس کی افادیت اور ان کی نافعیت کا یا تو بالکل انکار کرہے ہیں یا اپنی ناقص فہم میں ان کی نافعیت کو بالکل محدود ٹھہرانے پر تلے ہیں۔ان میں بعض حضرات تہذیبِ جدیدکے مذہب بیزار اورمادہ پرست نظامِ تعلیم کے زیر اثر اس طرح کی بیمار اور مذموم ذہنیت کا مظاہرہ کررہے ہیں، یہ لوگ قرآن فہمی اور حدیث دانی کے لیے اپنے محدود فہم میں عربی کی تھوڑی سی شُدبُدیا اس کے صرف ترجمہ پڑھ لینے ہی کو کافی سمجھ رہے ہیں، یہ لوگ مدارس کے تعلق سے ایسے طنز آمیز اور رکیک جملہ بازیوں اور اس قسم کی دریدہ دہنیوں سے بھی گریز نہیں کرتے کہ”یہ مدارس معاشرے پر خیراتی بوجھ کے سوا کچھ نہیں ہیں“گویا یہ اپنے اس طرزِ عمل کے پسِ پردہ مدارس کے سارے نصاب ونظام ہائے شب وروز کی تگ ودو اور وہاں کی ساری نقل وحرکت کو فرسودہ، نامعقول، غیر نفع بخش اور تضیعِ اوقات باور کرانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اس کے بالمقابل بعض حضرات وہ ہیں جو محض تبلیغی جماعت سے وابستگی اور اس کے طریقہٴ کار اور نظامِ عمل پر مکمل کاربند رہنے ہی کو مدارس کے دس بارہ سالہ تعلیمی وتربیتی دورانیہ کے ہم پلہ اور مماثل قرار دے رہے ہیں۔

حالاں کہ مدارس کو ان نوع بہ نوع اور ہمہ اقسام تحریکوں وتنظیموں کے بیچ وہی حیثیت حاصل ہے جوسارے نظامِ فلکی میں کواکب وسیّارات کے مقابل سورج کو ہے کہ ان تمام کی ساری رونق، چمک دمک اور قوت کا اصل منبع اور سرچشمہ یہی سورج ہے، آپ آزادیِ ہند کے بعد کی اصلاحی یا رفاہی کسی بھی تحریک کے بنیادی ڈھانچہ اور اس کے ابتدائی مراحل کا جائزہ لیجیے، اس کا آخری سرا کہیں نہ کہیں انھیں مدارس سے مربوط نظر آئے گا، اس کی زمام اور باگ انھیں مدارس کے فارغ التحصیل علماء کے ہاتھوں میں ہوگی، یا اس تحریک کے مختلف ادوار میں اس کی ترقی وترویج اور تقویت کے یہی باعث نظر آئیں گے، آج بھی قرآن وحدیث پر گہری بصیرت، علومِ اسلامیہ پر کامل دسترس اور ان علوم کے تئیں وسیع نظر اور دوربیں نگاہ چاہتے ہیں تو وہ انھیں مدارس اور اسی نصابِ تعلیم وتربیت کے زیرِاثر حاصل ہوگی۔

مدارس کے نصابِ تعلیم پر ہونے والے اعتراضات کا جائزہ

بعض لوگوں کا یہ مطالبہ کہ مدارس کے موجودہ نصابِ تعلیم کے ڈھانچہ کو یکسر بدل دیا جائے اور اس کی جگہ ایک ایسا نیا نصاب رائج کیا جائے کہ جو ان مدارس کے فارغین کی معاشی کفالت کا ضامن ہو، اس طرح کا مطالبہ نہ تو عقل ودانش کے موافق ہے اور نہ ہی یہ بات مدارس اسلامیہ کے قیام کے اہداف ومقاصد کے ہم آہنگ نظر آتی ہے، رہی جزوی ترمیم اور تبدیلی تو یہ علماء دین اور اربابِ مدارس وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں۔آج سے ساٹھ سال قبل داخل درس نظامی کا نقشہ موجودہ نصاب سے ملا کر دیکھیے، موجودہ نقشہ اس سے یکسر مختلف نظر آئے گا، ابھی فی الحال موجودہ احوال اور تقاضوں کے پیشِ نظر عالمیت سے فراغت کے بعد دوسالہ انگریزی زبان کا کورس بھی مدارس میں شروع کردیا گیا ہے، اس کا ذوق رکھنے والے فارغ التحصیل طلباء اس شعبہ سے منسلک ہو کر انگریزی پرعبور حاصل کررہے ہیں۔ چنانچہ حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب  سے جب ایک دفعہ کسی نے نصاب میں تبدیلی کے متعلق دریافت کیا توانھوں نے یوں فرمایا :

” جہاں تک نصاب کا تعلق ہے تو وہ بالکل قابلِ اطمینان ہے، یہ وہی نصاب ہے جس سے بڑے بڑے اکابر علماء تیار ہوئے ہیں؛۱لبتہ جزوی ترمیم وتغیر تو پہلے بھی ہوتی رہی ہے، اورآئندہ بھی ہوگی؛ البتہ اصل وہی ہیں جو نہیں بدل سکتے، جیسے صحاح ستہ اور قرآن کریم کی تعلیم، باقی جتنے علومِ آلیہ ہیں، مبادی ہیں، ان میں جزوی طور پر تغیر وتبدیل ہوتا رہا ہے، نوعی طور پر نصاب وہی باقی رہا؛ اس لیے جہاں تک نصاب کا تعلق ہے وہ تو بالکل قابلِ اطمینان ہے“۔(دینی مدارس، ابن الحسن عباسی:۱۱۰)

ہم ان حضرات سے جو مدارس کے نصاب ونظام کی مکمل تبدیلی کے طالب ہیں سوال کرتے ہیں کہ کیا ان میں سے کبھی کسی نے بڑے بڑے اسکول اور کالجس کے چلانے والوں یا بڑی بڑی میلوں، کمپنیوں اور کارخانوں کے ٹھیکیداروں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ لوگ وہاں طلباء او رکارکنان کو اس عصری تعلیم سے ہٹ کر یا کارخانے کی مصروفیت سے تھوڑا ساٹائم علٰحدہ کرکے، ان کے اسلامی شعور کو بیدار اور زندہ رکھنے کے لیے، دینی تعلیم کا بھی کوئی نظم ونسق کریں؛ تاکہ ان کی ا س دنیا کے ساتھ ان کی آخرت کی سدھار کا بھی سامان ہوجائے ۔

مدارس کا موجودہ نصابِ تعلیم حذف واضافہ تغیر وتبدل کے مختلف ادوار ومراحل سے گذر کر موجودہ حالت میں آیا ہے، یہ مسلمانوں کی آٹھ سوسالہ علمی وتعلیمی تاریخ کا نچوڑ ہے، اس نصابِ تعلیم میں مختلف وقتوں میں تغیرات ہوتے رہے ہیں اور مختلف اثرات واحوال کے ماتحت اس میں ترمیم وتنسیخ کا عمل جاری رہا ہے، آخر میں جس سلسلہٴ درس اورنصابِ تعلیم کی قسمت میں جہانگیری اوردوام وبقا لکھا تھا، جس کا سکہ ہندوستان سے لے کر افغانستان وایران تک رہا، اس کے نامور بانی ”ملا نظام الدین سہالوی“( م۱۱۶۱) رہے ہیں، جن کا نصاب تعلیم خفیف حذف وترمیم کے ساتھ آج تک مدارس میں رائج ہے۔( ہندوستانی مسلمان ۱۲۸)

امتِ اسلامیہ پر مدارس کا احسانِ عظیم

جس طرح ایک انسان اپنی زندگی کی بقا کے لیے خوراک اور پوشاک کو ضروری خیال کرتا ہے، اسی طرح ایک حقیقی مسلمان اپنی اسلامی شناخت، تہذیبی خصوصیات اور معاشرتی امتیازات سے وابستگی اور اپنے ملی وجود کی حفاظت کو اس سے کہیں بڑھ کر اہمیت دیتا ہے، وہ کسی دام پر اپنے ملی تشخص او راپنے امتیازات وشعائر سے دستبردارنہیں ہوسکتا؛ چونکہ خوراک سے پیٹ اور پوشاک سے جسم کی حفاظت توہوسکتی ہے؛ لیکن ایک حقیقی مسلمان کے پاس اس کے پیٹ او رجسم کے ان تقاضوں اور ان مادی ضرورتوں کے علاوہ بھی ایک اہم چیز اور بھی ہے، وہ ہے اس کاد ین اور ایمان۔

مسلمان بھوکا تو رہ سکتا ہے؛ لیکن وہ اپنی تہذیبی خصوصیات سے دستبردار نہیں ہوسکتا، اگروہ اس دین میں رہے گا تو اپنی ان تمام خصوصیات کے ساتھ ،آج پوری دنیامیں مسلمانوں کو بحیثیت ایک ملت کے ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، آج ہمارا دشمن ہمارے ملی وجود اور تہذیبی خصوصیات کو چن چن کر ختم کرنے پر تلا ہوا ہے، اگر آج اسلام اپنی تمام خصوصیات وامتیازات کے ساتھ نظر آرہا ہے، تو وہ انھیں مدارسِ عربیہ کے زیر احسان، شہر شہر ، گلی گلی، قریہ قریہ، چھوٹی بڑی، کچی پکی جو مساجد آباد نظر آرہی ہیں، مختلف تحریکوں کی شکل میں مسلمانوں کی اخلاقی واعتمادی اور معاشی اصلاح کا جو جال ہرسمت بچھا ہوا ہے، یا کسی بھی جگہ دین کا شعلہ یا اس کی تھوڑی سی رمق اور چنگاری سلگتی ہوئی نظر آرہی ہے وہ انھیں مدارس کا فیضِ اثر ہے، اگر ان مدارس کا وجود نہ ہوتا تو آج ہم موجود ہوتے؛ لیکن بحیثیت مسلم نہیں؛بلکہ ان حیوان نما انسان کے ان تمام درندہ صفت خصوصیات کے ساتھ۔

ہندوستان میں عوامی نذرانے پر چلنے والے موجودہ شکل کے مدارس کی ابتدائی تحریک کا جائزہ لیجیے کہ کن اسباب ومحرکات کے تحت اس نظام کے حامل مدارس کا آغاز ہوا؟ دراصل اس وقت بھی یہی صورت حال تھی کہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے زمامِ اقتدار چھن چکا تھا، انگریزی قوم یہاں کے ہر سیاہ وسفید کی مالک ہوچکی تھی، اگر انھیں مستقبل میں اپنے اور اپنے اس آمرانہ حکمرانی کے بیچ کو ئی چیز سب سے بڑی رکاوٹ اور حائل نظر آرہی تھی تو وہ یہاں کی غیور، باحمیت اور زندہ دل مسلمانوں کی تھی، چونکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ مسلمانوں کو ان کی موجودہ خست وذلت سے نکال کر انھیں رفعت وبلندی کے اوجِ ثریا پر کوئی چیز پہونچاسکتی ہے تو وہ ہے، ان کا ایمان وایقان اور ان کی دینی حمیت۔

 انھو ں نے اس کے لیے حکومت کے ماتحت چلنے والے تمام تعلیمی اداروں کے نصاب ونظام میں حذف واضافہ شروع کردیا، اس نصابِ تعلیم کی تبدیلی اور ترمیم کا راست اثر مسلمانوں کے ایمان وعقیدہ پر ہورہا تھا، وہ اپنی تہذیبی خصوصیات سے دستبردار ہوکر بحیثیت قومِ مسلم کے اپنا وجود کھورہے تھے، اس وقت بھی مدارس ومکاتب کی اسی تحریک ہی کے ذریعہ اسلام کا بچاوٴ ممکن ہوسکا۔

 مدارس کی اہمیت وضرورت اور مسلم معاشرے پر ان کے احسانِ عظیم کا تذکرہ کرتے ہوئے، علامہ سید سلیمان ندوی رقم طراز ہیں:”ہم کو یہ صاف کہنا ہے کہ عربی مدرسوں کی جتنی ضرورت آج ہے، کل جب ہندوستان کی دوسری شکل ہوگی اس سے بڑھ کر ہوگی، یہ ہندوستان میں اسلام کی بنیاد اور مرکز ہوں گے، لوگ آج کی طرح کل بھی عہدوں اور ملازمتوں کے پھیر اور اربابِ اقتدار کی چاپلوسی میں لگے ہوں گے اور یہی دیوانے آج کی طرح کل بھی ہوشیار رہیں گے؛اس لیے یہ مدارس جہاں بھی ہوں، جیسے بھی ہوں، ان کا سنبھالنا، اور چلانا مسلمانوں کا سب سے بڑا فریضہ ہے، اگر ان عربی مدرسوں کا کوئی دوسراہ فائدہ نہیں تو یہی کیا کم ہے کہ یہ غریب طبقوں میں مفت تعلیم کا ذریعہ ہیں، اور ان سے فائدہ اٹھا کر ہمارا غریب طبقہ کچھ اور اونچا ہوتا ہے اور اس کی اگلی نسل کچھ اور اونچی ہوتی ہے، اور یہی سلسلہ جاری رہتا ہے، غور کی نظر اس نکتہ کو پوری طرح کھول دے گی“۔

حکیم الامت حضرت مولانا تھانوی ان مدارس کے بارے میں یوں ارشاد فرماتے ہیں : ”اس وقت مدارسِ علوم دینیہ کا وجود مسلمانوں کے لیے ایسی بڑی نعمت ہے کہ اس سے بڑھ کر متصور نہیں، دنیا میں اگر اسلام کے بقاء کی کوئی صورت ہے تو یہ مدارس ہیں“۔( حقوق العلم: ۵۱)

حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی  یوں فرماتے ہیں:”یہی کہفی مدارس تھے(علماء اور طلباء کے نسبت مولانا کی خصوصی اصطلاح) جنہوں نے مسلمانوں کے ایک طبقہ کو خواہ ان کی تعداد جتنی بھی کم ہے، اعتقادی واخلاقی گندگیوں سے پاک رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے“۔ (الفرقان، افاداتِ گیلانی:نمبر ۱۸۸ بحوالہ فتاوی رحیمیہ ۱/۴۹)

یہ مدارس معاشرے کو کیا دے رہے ہیں؟:

یہ ایسی واضح اور روشن حقیقت ہے کہ جس کا معاشرے کے حقیقی احوال سے ناواقفیت یا ایسا شخص ہی منکر ہوسکتا ہے جس نے جان بوجھ کر ان احوال سے آگہی کے باوجود اس سے آنکھیں موند لینے کی ٹھان لی ہو کہ دین کا بقاء وتحفظ، اسلامی اقدار وروایات کی پاس وحرمت، مسلمانوں کی اپنی شریعت کے ساتھ سچی وابستگی وعقیدت اور پورے معاشرے کے اصلاح ودرستگی کا اگر کوئی کام انجام دے رہے ہیں تو یہی مدارس ہیں۔

جو کسی نہ کسی طریقے سے اصلاحِ امت او ربھلائی کے فروغ کے سارے کاز کو اپنے ناتواں کندہوں پر اٹھا ئے ہوئے ہیں، اور یہ مسلم معاشرے کی اسلام کے ساتھ حقیقی ربط وضبط کی برقراری کے لیے تمام ضروریات کی تکمیل(جن میں مساجد کے لیے عملی صلاحیت کے حامل مقررین، اسلامی تعلیمات کی تدریس کے لیے مدرسین واساتذہ کی فراہمی، امتِ مسلمہ کے مختلف مسائل اور اس کے اسلامی حل کے لیے دارالافتاء کے قیام اور اس کے لیے باصلاحیت صاحبِ بصیرت اور دوررس نگاہ مفتیان عظام کے نظم اور امت کے اصلاح کے کاز کو تصنیف وتالیف، دعوت وتبلیغ، وعظ وارشاد اور خانقاہی نظام کے ذریعے انقلاب برپا کرنے والے شامل ہیں)میں پوری تندہی کے ساتھ بغیر کسی شور وشغب اور پروپیگنڈے کے مصروفِ عمل ہیں۔

معاشرے کی دینی ضروریات کی تکمیل میں مدارس کی حیثیت اس کسان کی سی ہے جو زمین کے ہموار کرنے، فصل کے اگانے، کٹائی سے لے کر اس غلہ اور اناج کے مارکٹ پہونچنے تک اپنی ساری توانائی اور قوت اس کے پیچھے صرف کرتا ہے، جو غلہ تمام انسانوں کی آسودگی اور بھوک مٹانے کا سبب بنتا ہے، دین کے تمام شعبوں کو زندہ، بیدار اور متحرک رکھنے میں مدارس کی یہی مثال ہے۔

—————————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 2، جلد: 99 ‏، ربیع الثانی1436 ہجری مطابق فروری 2015ء

Related Posts