از: ڈاکٹر ایم․ اجمل، ۱۵- گاندھی روڈ، دہرہ دون
مرض کے بجائے علامات کا علاج کرنے والے جدید ہندوستانی معاشرہ کو ترون تیج پال کے بہانہ ایک اور سنسنی خیز معاملہ ہاتھ آگیا، گو کہ اس معاملہ میں ماڈرن ہندوستان کے رویّہ کا تضاد ویسا ہی ہے، جیسا کہ دہلی کے کچھ اردو اخباروں کا کہ ایک طرف وہ ہندو فرقہ پرستوں کو کوستے ہیں مودی کو دن رات بُرا بھلا کہتے ہیں؛ مگر اسی قاتل مودی کی تصویر کا آدھے صفحہ کا پہلے صفحہ کا اشتہار بھی شائع کرتے ہیں۔ ویسے ہی نام نہاد ماڈرن، لبرل معاشرہ ایک طرف جرم کیے جانے کے تمام اسباب مہیا کراتا ہے، دوسری طرف اس کے نتائج سے روبرو ہونے کا حوصلہ بھی نہیں رکھتا۔ اگر ماں باپ کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ اپنے ایک بچہ کو بھی ڈھنگ سے پال سکیں، اسے وقت دے سکیں اسے پیار کے دوگھنٹہ دے سکیں تو انھیں کیا حق ہے کہ وہ اس بچہ کی غلط عادت جو کہ انھیں کی غفلت اور اپنی خودغرضی ونفس پرستی سے وجود میں آئی ہے، اسے قتل کردیں (آروشی قتل) سالوں سال بچی کو جوان نوکر نوکرانیوں کے درمیان چھوڑ کر ماں باپ دولت کمانے نکل جاتے ہیں، بچہ پیچھے کالج میں دوستوں کے ساتھ، لیپ ٹاپ پر، آئی پیڈ پر کیاکرتا ہے آپ کو خبر نہیں، جب شیطان بچہ کے پیار، محبت کے بھوکے ذہن پر ڈاکہ ڈال چکا ہوتا ہے تو آپ کواچانک ایک حادثہ کے تحت حقیقت سے آنکھیں چار کرنے کی ہمت نہیں ہوتی اور آپ اچانک انتہائی مشرقی مرد یا باغیرت بن جاتے ہیں اور اپنے جرم کو بھول کر پوری سزا بچہ کو دے دیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ضمیر کا بوجھ اور غیرت کا تقاضہ پورا کردیا۔
حال کے دنوں میں جدید ہندوستانی سماج کی کشمکش مختلف بڑی بڑی خبروں کے حوالہ سے ایک بار پھر اُجاگر ہورہی ہے بڑے بڑے لال بجھکڑ چینلوں پر بیٹھ کر سخت قانون، عورتوں کی آزادی مردوں کے دماغ درست کرنے کی تراکیب وغیرہ وغیرہ پر غور کررہے ہیں اور حال یہ ہے کہ جس عطار کے لڑکے کی وجہ سے بیمار ہوئے اسے ہی معالج بنائے رکھنے کی ضد بھی ہے، ورنہ بیک وارڈ اور دقیانوسی کا طعنہ سہنا پڑے گا۔ ترون تیج پال کا معاملہ، سپریم کورٹ کا فیصلہ کہ بغیر شادی کے ساتھ رہنے والے جوڑوں کے بچوں اور خمار اترنے کی صورت میں علاحدگی پر خاتون کے تحفظ کا بندوبست ہونا چاہیے، گجرات میں ایک نوجوان بچی کی صوبہ کے بڑے نیتاؤں کے ذریعہ جاسوسی اور دہلی میں ایک ڈاکٹر خاتون جو کہ موجودہ M.P. کی بیوی بھی ہیں کے ذریعہ اپنی نوکرانی کا بے رحمانہ قتل (پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق قاتلہ ڈاکٹر نے مقتولہ پر ۲۸ وار کیے ہیں جن میں ۹ سرپر ہوئے ہیں)۔
یہ پچھلے ایک دو ہفتہ کی سرخیوں والی خبریں ہیں جو بتارہی ہیں کہ سماج میں اندر اندر کیا چل رہا ہے۔ آج کی نام نہاد جدید تہذیب جسے بجا طور پر ”جاہلیتِ جدیدہ“ کہا گیا ہے، وہ ہزاروں سال پرانے اصول، ضوابط، اخلاقیات سب کو تباہ کرنے پر آمادہ ہے اور یہ سب علم، سائنس اور ترقی کے نام پر کیاجارہاہے؛ جبکہ یہ ساری گمراہی سراسر غیرعملی، غیرسائنسی اور غیرحقیقی ہے۔ مثال کے طور پر جدید مغربی تہذیب نے مساواتِ مردو زن کا نعرہ زور شور سے بلند کیا؛ مگر قانونی اور جسمانی ساخت اور جسمانی افعال کا فرق سازشاً بحث میں نہیں لایاگیا۔ ہر دو صنف کو ہر طرح کے کام ، حالات اور ذمہ داریوں کا حقدار بتایاگیا؛ جبکہ ہر دو صنفوں میں بناوٹ، مزاج اورافعال کا فرق بالکل واضح ہے اور یہ فرق سائنس، تجربہ اور تاریخ ہر ایک سے ثابت شدہ ہے۔ یہ بہتر اور کمتر کا معاملہ نہیں؛ بلکہ مختلف صلاحیتوں کا معاملہ ہے، جسے شیطانی اغراض کے تحت بہتر وکمتر کی کشمکش بناکر شیطانی تہذیب نے عالمِ انسانیت کا استحصال کیا، خصوصاً خواتین کا۔ کچھ ازلی وابدی حقیقتیں ہیں ان سے سائنسی اعتبار سے انکار ممکن نہیں۔ مردوں کی بیرونی اندرونی بناوٹ، مختلف ہارمون کا پایا جانا، ان ہارمون کے مختلف کیمیائی اثرات اور نفسیاتی اثرات ایسی گھلی ہوئی حقیقتیں ہیں کہ ان کا انکار ہی خللِ دماغ کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایک دوسرے صنف کے لیے جنسی کشش سے کبھی کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اس سب حقائق کے باوجود آپ بضد ہیں کہ دونوں کو ایک ساتھ رکھیں گے، ایک جیسی ذمہ داریاں دیں گے، ایک جیسے کپڑے پہنائیں گے، ایک جیسے کام کرائیں گے وغیرہ؛ مگر عملاً جدید جاہلیت کے دعویداروں نے آج تک اس خوشنما جال میں پھانس کر خواتین کے جسمانی، نفسیاتی، جنسی استحصال کو صرف بڑھاوا ہی دیا ہے۔ اس شیطانی تہذیب کے علمبرداروں نے کہیں بھی اہم کلیدی شعبوں اور عہدوں پر خواتین کو مقرر نہیں کیاہے۔ امریکہ کی آزادی کی تقریباً ۳۰۰ سال کی تاریخ میں ایک بھی خاتون صدر، خاتون آرمی چیف، خاتون پنٹاگن چیف نہیں مقرر ہوا۔ برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر کے علاوہ کون نام نظر آتا ہے، اگر کسی ایک بھی شعبہ میں جو کہ سب سے اہم بھی مانا جاتاہو، خواتین کو عملاً ذمہ داریاں دنیا میں انھیں علمبرداروں نے نہیں دی ہیں جوکہ اس کے دعویدار ہیں تو اس کا مطلب یقینا یہ ہی ہے کہ صلاحیتوں میں اختلاف ہے۔ اور یہ عیب نہیں ہے یہ خالقِ کائنات کی طرف سے دنیا کا نظام چلانے کا منصفانہ نظام ہے۔ جدید جاہلیت کے علمبرداروں نے اس منصفانہ نظام کو ظالمانہ اور غلامانہ بتاکر انھیں آزادی اور برابری کا وہ خواب دکھایا، جس کی بھیانک تعبیر آج ساری دنیا بکھرتے رشتوں، ٹوٹتے خاندانوں، جنسی جرائم، ہم جنس پرستی، بڑھتی شرحِ طلاق، بغیر نسب کی نسل، کنواری مائیں، ایڈس، جسم فروشی، خودکشی، بوڑھاپے کی مایوسی اور تنہائی (خصوصاً خواتین) جیسے لاتعداد مسائل کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ بے حیائی، بے قید آزادی، بے لگام جنسی اختلاط اور اوپر سے میڈیا اور اشتہارات کی انڈسٹری نے سماج میں عورت کی جنسی کشش کو ہی عورت بناکر اتنا پیش کیاکہ سماج میں پوری طرح سے جنسی بارودی سرنگیں بھردی ہیں، جنھیں شیطانی وسوسہ کی ذراسی لہر دھماکہ میں تبدیل کرکے زندگیوں، خاندانوں اور سماج کو تباہ کررہی ہے۔ جب ایسی کوئی بارودی سرنگ پھٹ کر خبر بن جاتی ہے، تو پھر یہی جنس کا کاروبار کرنے والے چینلوں اور اخباروں میں عدالتیں سجاکر عورت کے حمایتی بن کر بیٹھ جاتے ہیں اور سخت سے سخت سزا اور فوری سزا (مگر عورت زیادہ سے زیادہ آزادی اور ہر جگہ موجودگی پر اصرار کے ساتھ) کی مانگ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ مسئلہ ایسا ہے کہ جتنا قانون بنا رہے ہیں، معاملہ اتنا الجھ رہا ہے۔ قانون تو آپ نے بنادیا کہ اگر کوئی خاتون کو چھوبھی لے گا، گھور کر دیکھ لے گا، کچھ اشارہ کردے گا تو وہ بھی جرم ہوگا۔ اب ہر مرد اور عورت اپنے آپ کو اس جگہ رکھ کر تصور کرے کہ آفس، کلاس روم، کوچنگ، ٹرین، میٹرو، سٹی بس وغیرہ کے ماحول میں اور میڈیا کی تمام جنسی اکساہٹ (فلمیں اور لٹریچر سمیت) کے بعد کیا مندرجہ بالا قوانین پر عمل کرنا آسان ہے؟ فرشتوں یا کم سے کم صوفی ہستیوں سے ہی یہ توقع رکھی جاسکتی ہے۔ نارمل مرد اور عورت سے یہ توقع کرنا بے وقوفی ہی ہے اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ہمارے لال بجھکڑ سخت سزا کی بات کرتے ہیں؛ مگر کسی بھی حفاظتی تدبیر خصوصاً صنفوں کی علاحدگی کی شدومد سے مخالفت کرتے ہیں۔ سعودی عرب کے سخت قوانین اور تیز انصاف کی بات کرتے ہیں؛ مگر وہاں پر جنسی اختلاط پر پابندی ہے، اس سے نظریں چراتے ہیں؛ بلکہ مذاق اڑاتے ہیں۔ حفاظتی تدبیر کے نام پر محافظ رکھو، کمیٹی بناؤ، سی سی ٹی وی کیمرہ لگاؤ سب کچھ ہے، مگر یہ نہیں ہے کہ دونوں کے ساتھ ساتھ ہی کیوں رکھو؟ ساتھ ساتھ اسکورلنگ کے کیا فائدے ہوتے ہیں؟ ساتھ ساتھ بسوں میں یا دوکانوں میں جانے کے کیا فائدے ہوتے ہیں، اس کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا جاتا۔ بس ضد ہے کہ ترقی کی یہ علامت ہے کہ ساتھ ساتھ پڑھیں؛ بلکہ اب تو ہاسٹل میں بھی ساتھ ساتھ رہنے کی پابندی کی بات ہورہی ہے کہ اس سے ”اعتماد“ پیدا ہوتا ہے۔ اس کلچر کو فروغ دینے کے لیے کروڑوں لوگوں کو ”ریالٹی شو“ جیسے فحش اور شیطانی سیریل کروڑوں روپیہ خرچ کرکے دکھائے جاتے ہیں۔
قانونی لحاظ سے ہمارے سپریم کورٹ نے بھی اس فساد کو پیدا کرنے میں پورا تعاون یہ کہہ کر کیاہے کہ اگر شادی کے علاوہ جنسی روابط بنائے گئے ہیں اوراس میں زور زبردستی نہیں ہوئی ہے تو یہ جرم نہیں ہے۔ اب اتنی بڑی شیطانی چھوٹ کے بعد آپ اگر عقل رکھتے ہیں تو خود نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ آج جو کچھ ہورہا ہے، وہ ہمارے اِن لال بجھکڑوں کی اُلٹی سیدھی تدبیروں اور سماج کو جنس کا غلام بناکر سماجی ذمہ داریوں سے بھگانے کی سازش کا ہی نتیجہ ہے، جس کے مظاہر ہم آج دن رات دیکھ رہے ہیں۔
خواتین کی کسی بھی ترقی تعلیمی، معاشی، معاشرتی، تخلیقی کے لیے مخلوط سوسائٹی ناگزیر شرط نہیں ہے۔ ناگزیر ضرورت بھی نہیں؛ مگر اس پر دن رات اصرار بڑھ رہاہے کہ نہیں انھیں ساتھ ساتھ رکھنا ہے۔ یہ بھی مانا جاتا ہے کہ جنس کا داعیہ انسانوں میں بھوک کے بعد سب سے بڑا داعیہ ہوتا ہے۔ اب جو معاشرہ اتنے زبردست داعیہ کو بے لگام چھوڑ دے اوراس کو بے لگام کرنے کے اسباب لباس، نشست وبرخواست، ہیجان انگیز لباس اور ماحول سب کچھ مہیا کرادے، پھر امید کرے کہ سب ٹھیک ٹھاک رہے گا تو کیا عقلاً ممکن ہے۔ اتنا سب خلافِ فطرت رویہ اپناکر ہم اچانک مشرقی بھی بن جاتے ہیں۔ بیٹی کو کسی کے ساتھ دیکھ لیا، اسے قتل کردیا، بیوی کو دیکھ لیا آگ لگادی، محبوبہ کو کسی کے ساتھ بات کرتے دیکھ لیا تیزاب ڈال دیا، یہ سب کیا ہے۔ یا تو مکمل جانور بن جانا چاہیے (بے غیرت بے حس) اور اگر غیرت، حس، عزت، آبرو نامی الفاظ کے معانی بھی قدروقیمت رکھتے ہیں، تو ان الفاظ کی آبرو بھی رکھنی ہوگی۔ منافقانہ طرزِ عمل جو ہم نے آج اپنا رکھا ہے کہ فتنہ وفساد کے تمام اسباب مہیا کرادو اور پھر ”کھلاپن“ اور مخلوط معاشرہ بھی پروان چڑھایا جائے اورامید رکھی جائے کہ کوئی گھورے گا نہیں، چھیڑے گا نہیں، چھوئے گا نہیں، آنکھوں سے اشارہ بھی نہیں کرے گا، جسم سے بھی اشارہ نہیں کرے گا ، کیا ایسا ممکن ہے؟ کیا انسانی تاریخ میں کبھی بھی ایساہوا ہے؟ کیا آج کا نام نہاد مغربی یا مغرب زدہ معاشرہ اسی فساد کی آخری انتہاؤں پر پہنچ کر واپسی کی راہ نہیں تلاش رہا ہے؟ کیا آج پھر وہاں ”بنیادوں کی طرف واپسی“ کی لہر نہیں چل رہی؟ جس روش سے اس کے موجد ہی عاجز ہوکر پناہ مانگ کر تائب ہورہے ہیں، اس روش کی اندھی نقل کرنے پر ہمیں کون مجبور کررہا ہے؟ اس مہم کو چلانے والے مغرب کی وظیفہ خوار، کارپوریٹ میڈیا، میک اپ کا سامان بنانے والی کمپنیوں کے اربوں روپیہ کے مقابلہٴ حسن اور اشتہارات اور اِن کے خریدے ہوئے نام نہاد حقوقِ نسواں کے دعویدار، ماڈلنگ کے نام پر سماج میں جسم کی نمائش کو پروان چڑھانے والے میڈیا گروپ، اسکول، تعلیمی ادارہ وغیرہ وغیرہ ہی اصل میں خواتین کے خلاف ہورہی زیادتیوں اور اخلاقی فساد وجنسی بے راہ روی کے لیے ذمہ دار ہیں۔ ان تمام طاقتوں کے خلاف خواتین کے ہر حقیقی بہی خواہ کو اٹھ کھڑا ہونا ہوگا، ورنہ سماج میں کسی کی بھی عزت وآبرو، جان ومال محفوظ نہیں رہے گی۔ صرف سخت قوانین ہی نہیں؛ بلکہ حفاظتی تدابیر اختیار کرنی بھی ضروری ہے، جو کہ اصلاً فطرت کا منشاء بھی ہے۔
***
—————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 3، جلد: 98 ، جمادی الاولی 1435 ہجری مطابق مارچ 2014ء