عقیدہٴ توحید کی عظمت واہمیت

از: یرید احمد نعمانی

                یَا أَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُواْ رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ(21) الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الأَرْضَ فِرَاشاً وَالسَّمَاء بِنَاءً وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِہِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقاً لَّکُمْ فَلاَ تَجْعَلُواْ لِلہِ أَندَاداً وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ (22)…(سورةالبقرة)

                ترجمہ: ”اے لوگو! اپنے اس پرودگار کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور ان لوگوں کو پیدا کیا جوتم سے پہلے گزرے ہیں؛ تاکہ تم متقی بن جاؤ(21)(وہ پرودگار) جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا بنایااور آسمان کو چھت، اور آسمان سے پانی برسایا،پھر اس کے ذریعے تمہارے رزق کے طور پر پھل نکالے۔ لہٰذا اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹہراؤ؛جب کہ تم ( یہ سب باتیں) جانتے ہو۔(22)“ (آسان ترجمہٴ قرآن)

تشریح وتوضیح:

                قرآن کریم سرچشمہٴ ہدایت ہے۔یہ اللہ رب العالمین کی وہ آخری الہامی کتاب ہے،جو اس نے اپنے آخری نبی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری۔ یہ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کو فلاح،نجات اورسعادت کاراستہ دکھاتی رہے گی۔اس کلام مبین سے کون فائدہ اٹھاتا ہے اورکون انکارکرکے اپنے لیے ابدی شقاوت کا سامان اکٹھا کرتاہے؟ اس کا جواب سورت بقرہ کی ابتدائی آیات سے ہی مل جاتاہے۔جن میں رب کریم نے انسانوں کے تین طبقات کا ذکر فرمایا ہے:

                ۱۔مومنین ۲۔کافرین                  ۳۔ منافقین

                ابتدائے سورت میں ہر ایک کی الگ الگ صفات بیان فرمانے کے بعد، تمام انسانوں کو ”یا ایھا الناس“ سے مخاطب کیا گیاہے۔ اس خطاب میں مومن مخلص بھی داخل ہے اور کافر ومنافق بھی۔ قرآن مجید میں یہ پہلا خطاب ہے،جس میں اللہ رب العالمین پوری انسانیت کو کسی لحاظ وامتیاز کے بغیر اپنی ذات عالی کی طرف متوجہ فرمارہے ہیں اور بندوں کو اپنی قدرتِ کاملہ اور الوہیتِ مطلقہ سے آگاہ کرنے کے لیے ”آفاقی اور انفسی نعمتوں“ کا تذکرہ فرمارہے ہیں۔

                یعنی کچھ نعمتیں تو وہ ہیں جو براہ راست انسان کی اپنی ذات سے متعلق ہیں۔ بعضے ایسی ہیں جن کا تعلق انسان کے اردگرد پائی جانے والی چیزوں سے ہے۔ انسان پر اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت، خود اس کا وجود ہے۔ مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی نور اللہ مرقدہ اس حوالے سے لکھتے ہیں:”نیست سے ہست اور نابود سے بودکرنا، پھر بطن مادر کی تاریکیوں اور گندگیوں میں ایسا حسین وجمیل ،پاک وصاف انسان بنا دینا کہ فرشتے بھی اس کی پاکی پر رشک کریں،یہ سوائے اُ س ذات حق کے کس کا کام ہوسکتاہے،جو کسی کا محتاج نہیں اور سب اس کے محتاج ہیں۔“(معارف القرآن:133/1)

                جب کہ آفاقی نعمتوں میں چار چیزوں کا ذکر فرمایا ہے:

                ۱۔            زمین                        ۲۔           آسمان

                ۳۔            بارش                        ۴۔            زمین سے غلہ اگنا

                ان چاروں نعمتوں کے خالق ومالک بھی صرف اورصرف اللہ رب العالمین ہیں۔ قرآن کریم میں کئی مقامات پر ان کی تخلیق وپیدائش کا مفصل ذکر کیا گیاہے۔ غرض! انسان کو حاصل تمام نعمتیں خواہ ان کا تعلق ا س کی ذات سے ہو یا نہ ہو ،اللہ تعالیٰ کی عطافرمودہ ہیں۔اوربندگی والوہیت کا مستحق بھی صرف وہی ہے۔

                شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی زید مجدہم آیاتِ بالا کی تشریح یوں بیان کرتے ہیں:”ان دوآیتوں میں اسلام کے بنیادی عقیدئہ توحید کی دعوت دی گئی ہے۔ اور مختصر انداز میں اس کی دلیل بھی بیان کردی گئی ہے۔ اہل عرب یہ مانتے تھے کہ ساری کائنات کو پیدا کرنا، زمین وآسمان کی تخلیق اور آسمان سے بارش برسانا،او راس سے پیداوار اگانا،یہ سب کام اللہ تعالیٰ کے ہیں۔ اس کے باوجود وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے بہت سے کام بتوں کے سپرد کررکھے ہیں۔ اوروہ بت اپنے اپنے کاموں میں براہ راست فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا وہ ان بتوں کی عبادت اس لیے کرتے تھے کہ وہ ان کی مدد کریں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب ہر چیزکے پیدا کرنے والے ہم ہیں اور ہمیں کائنات چلانے کے لیے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں، تو عبادت کسی اور کی کرنا کتنے بڑے ظلم کی بات ہے۔“(آسان ترجمہ قرآن: 49/1)

آیات صلی اللہ علیہ وسلم حدیث نبوی کے آئینے میں

                یہی وجہ ہے کہ جب اللہ کے پیارے نبی علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ کون سا گنا ہ اللہ کے ہاں بڑاہے؟تو آپ علیہ السلام نے جواب میں ارشاد فرمایا:”تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹہراؤ(ذات میں یا صفات میں) حالاں کہ اسی نے تمہیں تن تنہا پیدا کیا ہے۔“(تفسیر ابن کثیر بحوالہ صحیحین:80/1)

                ایک دوسری حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایاگیا:”اے معاذ!کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟(پھر ارشاد فرمایا بندوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ ) اسی کی عبادت کریں اور کسی چیز کو اس کے ساتھ شریک نہ ٹہرائیں۔“(حوالہ بالا)

                شریعت مطہرہ میں عقیدہٴ توحید کی حفاظت کا کس قدر حکم دیاگیاہے؟اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ جن الفاظ سے شرک کا معمولی شائبہ بھی پیدا ہوسکتاہو، شارع علیہ السلام نے امت کو اس سے اجتناب کا حکم فرمایاہے۔ اس سلسلے میں طفیل رضی اللہ عنہ ،جو ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے ماں شریک بھائی بھی ہیں،کا واقعہ لائق مطالعہ ہے۔

                وہ فرماتے ہیں: ”ایک دن میں نے خواب دیکھا کہ میں یہود کی ایک جماعت کے پاس سے گزررہاہوں۔میں نے ان سے دریافت کیا کہ تم کون ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم یہودی ہیں۔ میں نے یہ سن کر کہا:”تم وہی قوم ہو جس نے عزیر ابن اللہ ( کامشرکانہ جملہ) کہاتھا۔“ جواب میں وہ کہنے لگے :”تم لوگ بھی ایسی (شرک سے مشابہ باتیں) منہ سے نکالتے ہو کہ ماشاء اللہ وماشاء محمد (جو اللہ چاہے اور جومحمد چاہے) کہتے ہو۔“طفیل کہتے ہیں کہ اس کے بعد میرا گزر عیسائیوں کی ایک جماعت پر ہوا۔ان سے بھی یہی دریافت کیا۔ انہوں نے کہا ہم عیسائی ہیں۔میں نے کہا تم وہی قوم ہو جس نے المسیح ابن اللہ ( کا مشرکانہ جملہ) کہا تھا۔جواب میں انہوں نے بھی یہود والی بات دہرائی۔“

                حضرت طفیل کہتے ہیں کہ صبح ہوئی تو جس کو اس بارے میں خبر دے سکتاتھا،دے دی ۔پھر اللہ کے پیارے نبی علیہ اسلام کی خدمت میں حاضری دی اورساراماجرا کہہ سنایا۔

                آپ علیہ السلام نے دریافت فرمایا:”کیا آپ نے اس بارے میں کسی اورکو بھی خبردی ہے؟“ میں نے اثبات میں جواب دیا۔آپ علیہ السلام نے کھڑے ہوکر خطبہ کے بعد ارشاد فرمایا: ”طفیل نے ایک خواب دیکھا ہے۔ وہ جس جس کو تم میں سے خبر دے سکا، دے دی۔ یادرکھو!تم لوگ ایک ایسا کلمہ کہتے رہے ہو ،جس کے روکنے سے مجھے اب تک رکاوٹ تھی۔بس( آج کے بعد) تم لوگ”ماشاء اللہ وشاء محمد“ کا جملہ نہ کہو بلکہ (اس کی جگہ) صرف ماشاء اللہ کہو۔“(بن کثیر:80/1)

نکات ومعارف

۱ …….”یا ایھاالناس“

                مذکورہ جملے کا اردومیں ترجمہ کیا جائے تو مطلب ہوگا:”اے انسانو“۔اس کی لغوی تحقیق وتشریح کے بعدامام عبداللہ بن احمد نسفی  اس طرز خطاب کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں: ”قرآن مجید میں اکثر مقامات پر اس طرح کا خطاب لایاگیاہے۔ وجہ ا س کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جن اوامرونواہی،وعدووعید کا مخاطب بناتے ہیں وہ اپنی جگہ عظیم الشان ہیں۔لہٰذا بندوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ غفلت سے نکل کر کامل بیداری اورقلبی میلان کے ساتھ ان ندآتِ ربانیہ کی طرف متوجہ ہوں۔ یہی سبب ہے کہ اس طرزِ تخاطب کو عربی زبان کے اعتبار سے بہت زیادہ مُوکَّد بنایاگیاہے۔“(مدارک:32/1)

۲…”عبادت “کا مفہوم ومطلب:

                عبادت کے معنی اپنی پوری طاقت مکمل فرماں برداری میں صرف کرنا اور خوف وعظمت کے پیش نظر نافرمانی سے دور رہنا۔(معارف القران بحوالہ روح البیان:132/1)

                اسی بات کو حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قد س سرہ نے اپنے ایک ملفوظ میں یوں بیان فرمایا ہے:”اگر انسان میں عبدیت پیدا ہوجائے تو وہ انسان ہے ورنہ حیوان سے بھی بدتر ہے۔ انسانیت حقیقی یہی ہے کہ عبدیت ہو،فناہو، افتقارہو، انکسار ہو، عجز ہو؛ کیوں کہ یہ سب علامات ہیں عبد کامل کی۔ اسی عبدیت کی بدولت ہر وقت انسان کے اندر ایک حتیاج کی سی کیفیت غالب رہتی ہے،جو عین مقصود اورمطلوب ہے۔“(ملفوظات حکیم الامت: 141/4)

۳وجود باری تعالیٰ پر چند اقوال:

                امام شافعی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:” اس کائنات کو بنانے والا کوئی ہے؟“ انہوں نے جو اب میں فرمایا :” شہتوت کا پتہ جس کا ذائقہ ایک ہے؛لیکن اگرریشم کا کیڑا اسے کھائے تو اس سے ریشم نکلتاہے۔اگر شہد کی مکھی کھائے تواس سے شہد نکلتاہے۔اگرگائے، بکری اوردیگر چوپائے اس اپنے پیٹ میں ڈالیں تو یہ گوبر اورمینگنی کی صور ت میں باہر نکلتاہے۔ہرن کھالے تو مشک نکلتاہے؛حالاں کہ چیز ایک ہی ہے؛مگرصورتیں مختلف بن رہی ہیں۔“( یہ مختلف نتائج ایک شئی سے کس طرح برآمد ہورہے ہیں)

                کسی عرب بدو سے جب خداتعالیٰ کے وجود پر دلیل پوچھی گئی تو اس نے کہا:”سبحان اللہ! جب اونٹ کی مینگنی اس پر دلالت کرتی کہ یہاں سے اونٹ گزراہے۔کسی مسافر کے نقش قدم سے یہ معلوم ہوجاتاہے کہ اس راستے سے اس کا گزرہواہے۔ تو پھر یہ آسمان جو ستاروں سے چمک دمک رہاہے۔یہ زمین جو راستوں سے سجی ہوئی ہے اور یہ سمندر جو لہروں کے ساتھ جوش ماررہاہے، کیا کسی ایسی ہستی کے ثبوت ووجود پر دلالت نہیں کرتا جو خوب باخبر بھی ہے اور تمام چیزوں کے حقائق واسرار سے واقف بھی؟“

ابن المعتزشاعر کہتاہے #

فَیَا عَجَباً کیفَ یُعْصَیٰ الْالٰہ        اَمْ کیفَ یَجْحَدُہ الجاحِد

وَفِیْ کُلِّ شئیٍ لَہ ایة      تَدُلُّ علی أنَّہ وَاحِد

                ترجمہ: تعجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کیسے کی جاسکتی ہے یا اس کے وجود سے کوئی کیسے منکرہوسکتاہے ؟جب کہ ہر چیز میں اس کے وجود کی نشانی اور دلیل موجود ہے۔جو بہ زبان حال پکار پکار کر گواہی دے رہی ہے کہ وہ اکیلا ویکتاہے اس کا کوئی شریک وسہیم نہیں۔(ابن کثیر:82/1)

۴…”انداد“ کسے کہتے ہیں؟

                علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں :”انداد وہ شرک ہے ،جو اندھیری رات میں سیاہ پتھر کے اوپر چیونٹی کے رینگنے سے بھی زیادہ پوشیدہ اورمخفی ہے۔اس کی مثال یوں سمجھی جاسکتی ہے کہ کوئی یوں کہے: ”اللہ کی قسم اور تمہاری زندگی کی قسم!“ یا کوئی یوں بولے:”اگر یہ کتا ہماری چوکیداری نہ کررہا ہوتا تو رات گھر میں چور آجاتے “ اسی طرح کوئی انسان اپنے دوست سے یہ کہے کہ ”جو اللہ چاہے اور تم چاہو“ یہ تمام کے تمام الفاظ اور جملے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک ہے۔ ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ ایک صحابی رسول نے یوں کہا:”جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں“یہ سن کر آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:”کیا تم مجھے اللہ کا شریک ٹہرارہے ہو؟“(ابن کثیر:81/1)

حاصل کلام

                مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی نوراللہ مرقدہ اپنی شہرہ آفاق تفسیر ”معارف القرآن“ میں آیات بالا کا خلاصہ یوں ذکر کرتے ہیں:”عقیدہٴ توحید جو اسلام کا سب سے پہلا بنیادی عقیدہ ہے،یہ صرف ایک نظریہ نہیں؛ بلکہ انسان کو صحیح معنی میں انسان بنانے کا واحد ذریعہ ہے۔ جو انسان کی تمام مشکلات کا حل،اورہر حالت میں اس کے لیے پناہ گاہ اورہرغم وفکر میں اس کا غم گسار ہے۔ کیوں کہ عقیدہ توحید کا حاصل یہ ہے کہ عناصر کے کون وفساد اوران کے سارے تغیرات صرف ایک ہستی کی مشیت کے تابع اور اس کی حکمت کے مظاہر ہیں۔ اورظاہر ہے کہ جب یہ عقیدہ کسی کے قلب ودماغ پر چھا جائے اور اس کا حال بن جائے تو یہ دنیا ہی اس کے لیے جنت بن جائے گی۔ سارے جھگڑے فساد اور ہر فساد کی بنیادیں ہی منہدم ہوجائیں گی۔ اس عقیدہ کا مالک ساری دنیا سے بے نیاز، ہر خوف وخطر سے بالاتر زندگی گزارتاہے؛ مگر ظاہر ہے کہ توحید محض کازبانی اقرار اس کے لیے کافی نہیں؛ بلکہ سچے دل سے اس کا یقین اور استحضار ضروری ہے؛ کیوں کہ توحید خدا․․․․․

واحد دیدن بود، نہ واحد گفتن

                کلمہ لا الہ الا اللہ کے پڑھنے والے توآج دنیا میں کروڑوں ہیں اوراتنے ہیں کہ کسی زمانے میں اتنے نہیں ہوئے؛ لیکن عام طور پر یہ صرف زبانی جمع خرچ ہے۔توحید کا رنگ ان میں رچا نہیں ورنہ ان کا بھی وہی حال ہوتا جو پہلے بزرگوں کا تھا کہ نہ کوئی بڑی سے بڑی قوت وطاقت ان کو مرعوب کرسکتی تھی اور نہ کسی قوم کی عددی اکثریت ان پر اثر انداز ہوسکتی تھی۔نہ کوئی بڑی سے بڑی دولت وسلطنت ان کے قلوب کو خلاف حق اپنی طرف جھکا سکتی تھی۔ ایک پیغمبر کھڑا ہوکر ساری دنیا کو للکار کر کہہ دیتاتھا کہ تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔”کیدون فلا تنظرون“ انبیا کے بعد صحابہ وتابعین جو تھوڑی مدت میں دنیا پر چھاگئے، ان کی طاقت وقوت اسی حقیقی توحید میں مضمر تھی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور سب مسلمانوں کو یہ دولت نصیب فرمائیں۔“(معارف القرآن :139/1)

***

——————————————

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 9 – 10 ‏، جلد: 97 ‏، ذیقعدہ – ذی الحجہ 1434 ہجری مطابق ستمبر – اکتوبر 2013ء

Related Posts