حرفِ آغاز

مولانا حبیب الرحمن اعظمی

                آج کل مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں جو خبریں آرہی ہیں، وہ انتہائی تشویشناک اور اضطراب انگیز ہیں،امریکہ نے -خوں ریزی اورانسان کشی جس کی طبیعت وفطرت ہے- شام پر حملہ کا بگل بجادیاہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ خود براک اوباما نے بطور سنیٹر عراق پر امریکی صدر جارج ڈبلیوبش کی جانب سے فوج کشی کے اس بہانے کی مخالفت کی تھی کہ عراق کے صدر صدام حسین نے عام تباہی کے اسلحے جمع کررکھے ہیں، جن سے اس خطہ کو انتہائی خطرہ ہے؛ جبکہ آج یہی اوباما اسی نوع کے حیلہ کو بنیاد بناکر شام کو عراق کی طرح تاخت وتاراج کرنے کے لیے بے چین ہیں۔

                اوباما کے اس تیور کو دیکھتے ہوئے اسرائیل نے – جس کا حماس سے قدیم تنازح ہے، اور حماس کو شام اور ایران کی تائید وحمایت حاصل ہے – شام کی سرحد پر میزائلیں نصب کردی ہیں، دوسری طرف ایران نے بھی اپنی فوجوں کو تیار رہنے کا حکم دے دیا ہے، اور روس کی طرف سے بھی کہا جارہا ہے کہ شام کی اس بلاوجہ تباہی پر وہ خاموش تماشائی نہیں رہے گا، اس صورتِ حال کے پیش نظر مشرقِ وسطیٰ کے حالات سے باخبر مبصرین کہتے ہیں کہ افغانستان اور عراق کے برعکس اس مرتبہ جنگ ایک ملک تک ہی محدود نہیں رہے گی؛ بلکہ اس کی زد میں پورے خطے کے آجانے کا اندیشہ ہے، نیزاگر اس جنگ کی آگ زیادہ بڑھی تو اس کا دائرہ اور بھی وسیع ہوسکتا ہے، جو ”جنگِ عظیم“ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔

                یکم ستمبر آج کی دنیا میں ایک سیاہ دن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہی وہ تاریخ ہے جس میں ”جنگ عظیم“ کی شروعات ہوئی تھی، یکم ستمبر ۱۹۳۹ء کو جرمنی کا ناعاقبت اندیش حکمراں ہٹلر پولینڈ پر حملہ آور ہوا تھا، جس کی پشت پناہی اور حمایت اٹلی، جاپان، ہنگری، رومانیہ اور بلغاریہ کررہے تھے؛ جبکہ ان کے مدِمقابل امریکہ، سویت یونین اور اہم مغربی ممالک کی فوجیں تھیں۔ ۶ سال تک جاری اس تباہ کن جنگ میں لگ بھگ ۷ کروڑ انسانوں کی جانیں ضائع ہوئی تھیں، اسی موقع پر انسانی جانوں کے تحفظ پر مگرمچھ کے آنسو بہانے والے امریکہ نے ایٹم بم کا استعمال کیا تھا، جس کی قیامت خیز تباہی کی داستان ہیروشیما اور ناگاساکی کے ذرے ذرے سے آج بھی سنی جاسکتی ہے، اور یہی وہ امریکہ ہے جس نے ویت نام کی جنگ میں ایجنٹ اور ینج نامی محلول استعمال کیا تھا، جو ہزاروں افراد کی ہلاکت کا باعث بنا تھا، بہرحال امریکہ کی ہٹ دھرمی سے اگر جنگ کی یہ آگ بھڑکی تو اس کی ذمہ داری تنہا امریکہ پر ہی عائد ہوگی اور تاریخ کے صفحات میں اوباما دوسرے ہٹلر شمار کیے جائیں گے۔

                پھر انسانی جانوں کے لیے مہلک ہتھیار ایجاد کرنے اور انھیں تیار کرنے میں بہ شمول مغربی ممالک امریکہ کی ایک تاریخ ہے، جس میں ان کا کوئی ہمسر اور مقابل نہیں ہے اور جب بھی انھیں ان اسلحوں کی اچھی قیمت ملی ہے تو اسے فروخت کرنے میں بھی انھوں نے کوئی جھجک محسوس نہیں کی ہے، عالمی خبروں سے واقفیت رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کے پلانٹ مغربی ممالک کے تعاون سے ہی لگائے گئے تھے، کیا ان حقائق کی موجودگی میں امریکہ اور مغربی ملکوں کو یہ اخلاقی حق پہنچتا ہے کہ وہ اس طرح کے ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف زبان کھولیں، دنیا اس کی شاہد ہے کہ امریکہ کے لیے ایک اسرائیل نے غزہ پٹی میں محصور فلسطینیوں پر فاسفورس اور کلسٹر کے بم برسائے تھے، اس وقت برطانیہ، فرانس اور امریکہ کا تحفظ آدمیت کا جذبہ کہاں سورہا تھا؟

                امریکہ اور یورپی ممالک کی طرف سے مبینہ کیمیاوی حملے پر یہ واویلا دراصل ایک خوش نما حیلہ ہے، جس کے ذریعہ امریکہ بشار الاسد کی حکومت کو ختم کرکے، وہاں افغانستان اور عراق کی طرح اپنی کسی کٹھ پتلی کو شام کے تخت وتاج کا مالک بنانا چاہتا ہے۔ امریکہ اور مغربی طاقتوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ انھیں صرف اپنا مفاد عزیز ہے، کسی ملک کے شہریوں سے ان کی دلچسپی اور ہمدردی محض دکھاوا ہوتی ہے؛ اس لیے یہ طاقتیں جو کچھ بھی کررہی ہیں یا کرنا چاہتی ہیں، وہ ان کی عادت وفطرت کے بالکل مطابق ہے، ان میں ذرہ برابر انسانیت ہوتی تو انھیں شام میں اب تک کی ہلاکتوں پر تشویش ہوتی۔ ۲۰ لاکھ افراد کے دیگر ملکوں میں پناہ لینے کی فکر ستاتی؛ لیکن اس کے برعکس وہ ملک جو خود خانہ جنگی سے دوچار ہے، جس سے نکلنے کی بہ ظاہر ابھی کوئی صورت بھی نظر نہیں آرہی ہے، اس پر مزید جنگ مسلط کرنے کی تگ و دو آخر اس ملک کی خیرخواہی اور ہمدردی کی کونسی قسم ہے؟ اصل حقیقت یہ ہے کہ سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد امریکہ کو اس بات کا یقین تھا کہ مسلم ممالک کی قسمتوں کا فیصلہ اب اسی کے ہاتھ میں ہوگا؛ لیکن جب اس کی مخالفت کرنے والے کچھ نکل آئے تو ان کو ملاعمر، صدام حسین، کرنل قذافی اور محمدمرسی بناکر اقتدار سے محروم کردیاگیا۔ یہ سلسلہ جاری ہے، جس کی ایک کڑی شام ہے۔ امریکہ کی درحقیقت کوشش یہی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اس کی مخالفت کرنے والا ایک بھی ملک یا حاکم موجود نہ رہے، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟

                اس صورت حال کا یہ رخ انتہائی حیرت خیز اور افسوس ناک ہے کہ امریکہ کو شام پر حملہ کی تحریک اسرائیل سے زیادہ سعودی عرب سے مل رہی ہے، عرب لیگ کی میٹنگ اسی لیے طلب کی گئی تھی، اسی طرح امریکہ نے جب طالبان کو نیست ونابود کرنے کے لیے افغانستان کو کھنڈر میں تبدیل کردیا تو سعودی عرب نے نہ صرف اس حملہ کی حمایت کی؛ بلکہ جنگی وسائل کے لیے اپنی سرزمین بھی فراہم کی، مصر میں ماضی میں جب اسلام پسندوں کو بری طرح کچلا گیا تو انھیں کچلنے والے حکمرانوں کی سرپرستی نہ صرف امریکہ واسرائیل نے کی؛ بلکہ خطہ کے بیشتر عرب حکمرانوں نے بھی ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کی۔

                مصر کا حالیہ میدان کارزار ہمارے سامنے ہے، جہاں حسنی مبارک کے آمرانہ نظام کا تختہ پلٹے جانے کے بعد وہاں کے عوام نے اپنی پسند کی حکومت منتخب کی؛ چوں کہ یہ حکومت اسرائیل اور امریکہ کو گوارا نہیں تھی؛ اس لیے فوجی مداخلت کے ذریعہ عوام کی منتخبہ حکومت کو اقتدار سے محروم کردیاگیا، جس کے نتیجہ میں مصر میں پھر سے خون خرابہ کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے، المیہ یہ ہے کہ مصر کی اس اسلام پسند حکومت کی بے دخلی پر اسرائیل ہی نے نہیں؛ بلکہ اس کے ساتھ سعودی عرب، عرب امارات، کویت وغیرہ کے حکمراں طبقہ نے بھی اطمینان محسوس کیا اوراس پر خوشی کا اظہار کیا۔

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

فالی اللّٰہِ المُشْتَکیٰ

————————

                فرقہ پرست عناصر کی شرانگیزیوں کی بنا پر اس وقت مغربی یوپی کے امن وسلامتی کی حالت ناگفتہ بہ ہے، مظفرنگر، جانسٹھ، کھتولی، شاملی وغیرہ مقامات فتنہ وفساد کی لپیٹ میں ہیں، انتظامیہ کی بے حسی،غفلت شعاری اور مفسدوں کے جرائم سے چشم پوشی کی وجہ سے شرپسندوں کے حوصلے اس قدر بلند ہوگئے ہیں کہ وہ اب چلتی ٹرینوں اور بسوں پر مسلم مسافروں کو زدوکوب سے بھی دریغ نہیں کررہے ہیں، دارالعلوم دیوبند وغیرہ مدارس کے متعدد طلبہ اس کے شکار ہوچکے ہیں، معلوم یہ ہوا ہے کہ مجرموں کو ان کی اس ظالمانہ حرکت پر فرقہ پرست تنظیموں کی طرف سے انعامات سے نوازا جاتا ہے، اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ برقہ پوش خواتین اور اپنی شکل ووضع سے مسلمان نظر آنے والے مردوں نے ٹرین اور بس کے سفر بڑی حد تک کم کردیے ہیں، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ خود اپنے ملک، صوبہ اور ضلع میں مسلم اقلیت کے اسفارپَر تشدد اور جارحیت کے ذریعہ قدغن لگانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔

                دارالعلوم دیوبند کی انتظامیہ نے اس سلسلے میں بغیر کسی تاخیر کے ضلع کمشنری اور صوبائی سطح کے افسروں سے زبانی اور تحریری شکایات کیں؛ حتی کہ ایک انتہائی موٴقر وفد وزیرریلوے اور صوبہ میں برسراقتدار سماج وادی پارٹی کے سپریمو اور قومی صدر ملائم سنگھ سے ملاقات کرکے پوری صورت حال ان کے سامنے پیش کی اور مسافروں بالخصوص مدارس کے طلبہ کے قرار واقعی تحفظ کا مطالبہ کیا، جس کا یہ اثر ہوا کہ انتظامیہ بہ ظاہر غفلت سے بیدار ہوگئی ہے اور اس کے بڑے آفیسر یہ اطمینان دلانے لگے ہیں کہ صورت حال بدلے گی اور مسافروں کو مکمل تحفظ حاصل ہوگا۔ خدا کرے ایسا ہی ہو، ورنہ سماج وادی پارٹی کی پالیسی ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ ایک طرف تو وہ مسلم اقلیت کی خیرخواہی اور ہمدردی کا بار بار اعلان کرتی ہے اور اس بات کے اعتراف سے بھی اس کے بڑے لیڈر بالخصوص ملائم سنگھ نہیں چوکتے کہ صوبہ کے مسلمانوں ہی نے انھیں حکومت کرنے کا موقع دیا ہے، دوسری طرف اب تک صوبہ میں درجنوں فرقہ وارانہ ہنگامے ہوچکے ہیں، جن میں مسلم اقلیت ہی کے جان ومال برباد ہوئے اور حکومت کی طرف سے ان پر بندش لگانے کا اب تک کوئی موٴثر انتظام نہیں کیاگیا، اگر سماج وادی حکومت اس کا معقول وموثر بندوبست کرتی تو مغربی یوپی میں اس وقت فرقہ پرست جوکچھ کررہے ہیں وہ ایسا کبھی نہیں کرسکتے تھے، صدرپارٹی ملائم سنگھ یادو، وزیراعلیٰ اکھلیش یادو،اور سماج وادی کے سب سے سینئراور بااثر وزیر،اعظم خان کو حکومت کے اس قول وعمل کے تضاد کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے،ابھی وقت ہے ورنہ خود ان کا ہی خسارہ ہوگا، مسلم اقلیت تو ساٹھ برسوں سے ان مصیبتوں کو جھیل رہی ہے کچھ دن اور بھی جھیل لے گی۔

***

——————————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 9 – 10 ‏، جلد: 97 ‏، ذیقعدہ – ذی الحجہ 1434 ہجری مطابق ستمبر – اکتوبر 2013ء

Related Posts