از: مولانا عبدالرزاق القاسمی، خادم التدریس جامع مسجد، امروہہ
پیدائش اور نشوونما
امام الانبیاء حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش یتیمی کی حالت میں واقعہٴ فیل کے تقریباً پچاس دن بعد، مشہور قول کے مطابق ۱۲/ربیع الاوّل مطابق ۲۰/اپریل ۵۷۱ء بروز پیر موسم بہار میں ہوئی(۱)۔ آپ کے داد اعبدالمطلب نے آپ کا نام محمد اور والدہ نے خواب میں ایک فرشتے سے بشارت پاکر احمد رکھا۔ آپ کی والدہ حضرت آمنہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو تین دن تک اپنا دودھ پلایا، اس کے بعد آپ کے چچا ابولہب کی باندی ثویبہ نے آپ کو چند دن دودھ پلایا، پھر حضرت حلیمہ سعدیہ رضی الله تعالیٰ عنہا نے دو سال پورے ہونے تک آپ کو دودھ پلایا، دو سال پورے ہونے پر آپ کا دودھ چھڑا دیا گیا۔آپ صلی الله علیہ وسلم کی عمر چھ سال تھی کہ آپ کی والدہ کا انتقال ہوگیا(۲) اور جب آپ کی عمر آٹھ سال ہوئی تو آپ صلی الله علیہ و سلم کے دادا عبدالمطلب بھی دنیا سے پردہ فرماگئے۔(۳)
ملک شام کا سفر اور بحیرہ راہب سے ملاقات
بارہ سال دو ماہ کی عمر میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے چچا ابو طالب کی ہمراہی میں تجارت کی غرض سے ملک شام کی طرف پہلا سفر کیا۔ راستے میں یہودیوں کے ایک بڑے عالم بُحَیرہ راہب سے ملاقات کے بعد ابو طالب نے آپ کو واپس مکہ بھیج دیا، ۱۵ سال سات ماہ کی عمر میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے قبیلہ قریش اور ایک دوسر ے قبیلہ قیس کے درمیان ہونے والی جنگ (حرب الفجار) میں حصہ لیا(۴)، لیکن اس لڑائی میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے کسی پر ہاتھ نہ اُٹھایا، اس جنگ کے بعد عرب کے چند قبائل نے ان جنگوں سے تنگ آکر یہ معاہدہ کیا کہ آئندہ قبائلی عصبیت سے بالاترہوکر صرف مظلوم کی مدد کی جائے گی، اس معاہدے کو ”حلف الفضول“ کہتے ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسے پسند فرماتے ہوئے اس میں شرکت فرمائی، اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کی عمر ۱۵سال آٹھ ماہ تھی۔ ۲۳سال کی عمر میں آپ صلی الله علیہ وسلم حضرت خدیجہ رضی الله تعالیٰ عنہا کے سامان کو تجارت کی غرض سے ملک شام لے کر گئے اور اس میں خوب نفع کما کر واپس ہوئے۔
حضرت خدیجہ سے نکاح اور اولاد:
پچیس سال دو ماہ کی عمر میں حضرت خدیجہ رضی الله تعالیٰ عنہا سے آپ صلی الله علیہ وسلم کا نکاح ہوا، حضرت خدیجہ رضی الله تعالیٰ عنہا کے بطن سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں پیدا ہوئیں، آپ کی اولاد میں حضرت قاسم رضی الله تعالیٰ عنہ کی پیدائش سب سے پہلے ہوئی، یہ پاوٴں پر چلنا سیکھ رہے تھے کہ ان کی وفات ہوگئی۔ دوسرے بیٹے حضرت عبدالله رضی الله تعالیٰ عنہ ہیں، انہی کا لقب طیب و طاہر ہے، پیدائش کے کچھ عرصہ بعد ان کا بھی انتقال ہوگیا، ان کی ولادت آپ صلی الله علیہ وسلم کو نبوت ملنے کے بعد ہوئی۔
جب آپ کی عمر ۳۰سال ہوئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہاں آپ کی بڑی بیٹی حضرت زینب رضی الله تعالیٰ عنہا کی پیدئش ہوئی، ان کا نکاح مکہ میں ہی ان کے خالہ زاد بھائی ابوالعاص رضی الله تعالیٰ عنہ سے حضرت خدیجہ رضی الله تعالیٰ عنہا کے سامنے ہوا، جب آپ کی عمر ۳۳ سال ہوئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم کی دوسری بیٹی حضرت رقیہ رضی الله تعالیٰ عنہا کی پیدائش ہوئی، جن کا نکاح مکہ میں ہی حضرت عثمان رضی الله تعالیٰ سے ہوا، آپ کی تیسری بیٹی حضرت ام کلثوم رضی الله تعالیٰ عنہا ہیں، جن کا نکاح مدینہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت رقیہ رضی الله تعالیٰ عنہا کی وفات کے بعد ۳ھ میں حضرت عثمان رضی الله تعالیٰ عنہ سے کیا تھا۔ نبوت ملنے کے بعد جب آپ کی عمر ۴۱ سال تھی تو آپ صلی الله علیہ وسلم کی چوتھی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی الله تعالیٰ عنہا کی پیدائش ہوئی، ان کا نکاح مدینہ میں غزوہٴ بدر کے بعد ذوالحجہ سنہ ۳ھ میں ہوا، آپ صلی الله علیہ وسلم کے ایک تیسرے بیٹے حضرت ابراہیم رضی الله تعالیٰ عنہ ہیں جو حضرت ماریہ رضی الله تعالیٰ عنہا کے بطن سے مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے، سترہ ماہ کی عمر پاکر ۱۰ھ میں ان کی وفات ہوگئی۔
تقریباً ۳۳ برس کی عمر میں آپ صلی الله علیہ وسلم پر غیبی اسرار کا ظہور شروع ہوا۔ ۳۵ سال کی عمر میں آپ نے قبائل کے سب منتخب افراد کے ساتھ کعبہ کی از سرنو تعمیر کے دوران حجر اسود کی اپنے ہاتھ سے تنصیب کی۔
خلعت نبوت
۹/ربیع الاوّل مطابق ۱۴/فروری ۶۱۰/ کو جب آپ صلی الله علیہ وسلم کی عمر چالیس برس ایک دن تھی تو باضابطہ طور پر آپ کو الله رب العزت نے خلعتِ نبوت کے ساتھ ممتاز و مشرف فرمایا۔ بعثت نبوی ( آپ صلی الله علیہ وسلم کو نبوت ملنے کے بعد سے شروع ہونے والا زمانہ) کے پہلے سال نمازیں فرض کر دی گئیں، اٹھارہ رمضان المبارک کو جب آپ کی عمر چالیس سال چھ ماہ چھ دن ہوئی تو آپ پر قرآن کریم نازل ہونا شروع ہوا۔
تبلیغ کی ابتداء اور مشکلات
نبوت ملنے کے تین سال بعد تک آپ خفیہ تبلیغ فرماتے رہے، جس کے نتیجے میں ۳۰ سے زائد افراد مسلمان ہوگئے، تین سال کے بعد آپ صلی الله علیہ و سلم نے اسلام کی تبلیغ علی الاعلان شروع کر دی، جس کے نتیجے میں کفار مکہ جو اس وقت بیت الله میں رکھے بتوں کو پوجا کرتے تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے جانی دشمن بن کر آپ اور آپ کے صحابہ رضی الله تعالیٰ عنہم و صحابیات رضی الله تعالیٰ عنہن کو تکلیفیں پہنچانے لگے، ان کفار مکہ کے مظالم جب حد سے بڑھنے لگے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے بعثت کے پانچویں سال اپنے صحابہٴ کرام رضی الله عنہم و دیگر اقارب کو جو تقریباً گیارہ مرد اور چار عورتوں پر مشتمل پندرہ افراد تھے، ملک حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم دیا(۵)۔ (تین ماہ بعد اس اطلاع پر کہ اہل مکہ نے اسلام قبول کر لیا ہے، ان میں سے کچھ افراد مکہ واپس آگئے، یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ اطلاع جھوٹی تھی) بعثت کے چھٹے سال حضرت حمزہ رضی الله تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ بھی اسلام لے آئے(۶) تو لوگ اعلانیہ اسلام میں داخل ہونے لگے، اسلام کی روز بروز بڑھتی ہوئی شان سے خوفزدہ ہوکر کفار مکہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے خاندان بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب کے مکمل مقاطعہ کے لیے ایک عہدنامہ(۷) لکھ کر بیت الله میں لٹکا دیا، اس طرح آپ صلی الله علیہ وسلم بعثت کے ساتویں سال ایک گھاٹی شعب ابی طالب میں اپنے تمام اقرباء ورفقاء سمیت مقید کر دیے گئے(۸)، ان سخت حالات میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے صحابہٴ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم کو ایک مرتبہ پھر ملکِ حبشہ کی طرف ہجرت کے لیے فرمایا، جن میں تراسی مرد اور بارہ عورتیں شامل تھیں، تین سال بعد اس شدید محاصرے کا خاتمہ ہوا۔ جب آپ صلی الله علیہ وسلم کی عمر تقریباً ۴۹ سال سات ماہ ہوئی تو ماہ شوال میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے چچا ابوطالب وفات پاگئے اور اس کے صرف تین دن بعد ہی حضرت خدیجہ رضی الله تعالیٰ عنہا کا بھی انتقال ہوگیا؛ اسی لیے آپ … نے اس سال کو عام الحزن(غم کا سال) فرمایا۔
سفر معراج
اسی سال ماہ رجب کی ستائیسویں شب آپ صلی الله علیہ وسلم معراج کے سفر پر تشریف لے گئے(۹) اور اسی سفر میں پانچوں نمازیں فرض کی گئیں(۱۰)۔ جب الله تعالیٰ نے مدینہ میں اسلام کی اشاعت کا فیصلہ فرمالیا تو قبیلہ اویس کے چند آدمیوں کی آپ صلی الله علیہ وسلم سے مکہ میں ملاقات ہوگئی اور ان میں سے دو آدمی اسعد بن زاردہ رضی الله تعالیٰ عنہ اور ذکوان بن عبد قیس رضی الله تعالیٰ عنہ مشرف باسلام ہوئے۔ بعثتِ نبوی کے گیارہویں سال کچھ اور آدمی مدینہ سے آکر آپ صلی الله علیہ وسلم کو ملے اور ان میں سے تقریباً آٹھ افراد مسلمان ہوئے(۱۱)۔ بعثت نبوی کے بارہویں سال جب آپ صلی الله علیہ وسلم کی عمر ۵۲ سال تھی، ماہ ذوالحجہ میں جمرہ عقبہ کے قریب مدینہ سے آئے ہوئے تقریباً بارہ افراد نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی، جسے بیعت عقبہ اولیٰ کہا جاتا ہے(۱۲)، اگلے سال جب آپ صلی الله علیہ وسلم عمر کے تریپنوے سال میں تھے تو ماہ ذی الحجہ میں مدینہ طیبہ سے ایک بڑا قافلہ مکہ معظمہ پہنچا، جن میں ستر مرد اور دو عورتیں شامل تھیں(۱۳)۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے نصف شب کے وقت جمرئہ عَقبہ کے قریب ان سے ملاقات کی، اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کے چچاحضرت عباس رضی الله تعالیٰ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ حضرت عباس رضی ا لله تعالیٰ عنہ نے مدینہ سے آئے ہوئے ان حضرات سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: یہ میرا بھتیجا ہے جو ہمیشہ اپنی قوم میں عزت و حفاظت کے ساتھ رہا ہے، تم ان کو مدینہ لے جانا چاہتے ہو۔ اگر ان کے مخالفین سے ان کی حفاظت کا ذمہ لے سکتے ہو تو ٹھیک ہے، ورنہ ان کو اپنے قبیلہ میں رہے دو۔ اس مدنی قافلہ کے سردار نے کہا کہ ہم حضور صلی الله علیہ وسلم کی حفاظت کا ذمہ لیتے ہیں، اے الله کے رسول اپنا دست مبارک دیجیے کہ ہم بیعت کریں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہاتھ بڑھایا اور یہ سب لوگ بیعت نبوی سے مشرف ہوئے، اس بیعت کو بیعت عقبہ ثانیہ کہتے ہیں(۱۴)۔
ہجرت
پھر اسی سال آپ صلی الله علیہ وسلم نے ماہ صفر کی ستائیسویں شب کو مکہ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی الله تعالیٰ عنہ کو ساتھ لیا اور روانہ ہوکر غار ثور پہنچے(۱۵) اور اس غار میں تین راتیں قیام کرنے کے بعد یکم ربیع الاوّل ایک ہجری (وہ زمانہ جو آپ صلی الله علیہ وسلم کے مدینہ کی طرف ہجرت سے شروع ہوا) بروز پیر(۱۶) جب آپ صلی الله علیہ وسلم کی عمر تقریباً باون سال گیارہ ماہ انیس دن تھی، مدینہ طیبہ روانہ ہوگئے، سات دن کے سفر کے بعد ۸/ربیع الاوّل سنہ ۱ھ مطابق ۲۳/ستمبر ۶۲۲ء بروز پیر آپ صلی الله علیہ وسلم مدینہ کے علاقے قبا پہنچے اور یہاں مسجد قبا کی بنیاد رکھی(۱۷)۔ ۱۲/ربیع الاوّل بروز جمعہ آپ صلی الله علیہ وسلم قبا سے سوار ہوکر بنی سالم کے گھروں تک پہنچے تھے کہ جمعہ کا وقت ہوگیا، یہاں تقریباً سو آدمیوں کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسلام کا پہلا جمعہ پڑھایا(۱۸)۔ جمعہ سے فارغ ہوکر آپ یہاں سے روانہ ہوئے، جہاں اب مسجد نبوی ہے اس سے متصل حضرت ابوایوب انصاری رضی الله تعالیٰ عنہ کا گھر تھا، یہاں آکر آپ صلی الله علیہ وسلم کی اونٹنی رک گئی، پھر آپ نے مستقل یہیں قیام فرمایا(۱۹)۔
مسجد، مدرسہ اور ازواجِ مطہرات کے حجروں کی تعمیر
مدینہ میں قیام کے بعد ماہ ربیع الاوّل میں ہی سب سے پہلے آپ نے مسجد نبوی(۲۰) اور ازواج(۲۱) مطہرات حضرت سودہ رضی الله تعالیٰ عنہا اور حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا کے لیے گھر تعمیرکرائے۔ جب مسجد نبوی کی تعمیر تقریباً مکمل ہوگئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے انصار کو بلایا اور مکہ سے ہجرت کرکے آنے والے ۴۵مہاجرین اورا ن انصار مدینہ کے مابین مواخات قائم کرتے ہوئے ایک انصاری اور ایک مہاجر کو بلاکر فرماتے گئے کہ یہ اور تم بھائی بھائی(۲۲) ہو، اور پھر آپ نے اسی سال اسلام کا پہلا مدرسہ صفہ قائم فرمایا۔ صفہ سائبان کو کہتے ہیں، یہ سائبان مسجد نبوی کے ایک کنارے پر مسجد سے ملا ہوا تیار کیا گیا تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ رضی الله تعالیٰ عنہم جو دن بھر آپ سے احادیث سنتے تھے، رات کو یہیں آرام فرماتے(۲۳)۔
اسی سال آپ نے ایک منشور تیار کیا جس میں مہاجرین و انصاری کے علاوہ ان یہود و مشرکین کو بھی شامل کیا گیا جو اس وقت مدینہ میں آباد تھے، جس کا مقصد بلا امتیاز مذہب و قوم کے اندرونی و بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک اتحادی عمل کی ترویج تھی، اس معاہدہ کو میثاق مدینہ کہا جاتا ہے(۲۴) ، اسی سال ماہ شوال میں حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا کی (جن کا نکاح آپ سے پہلے ہوچکا تھا) رخصتی ہوئی(۲۵)۔ اس سال آپ نے دو سریےّ روانہ فرمائے،سریہ جہاد کے اس دستے کو کہا جاتا ہے جس میں آپ نے خود شرکت نہ فرمائی ہو، بلکہ اپنے کسی صحابی رضی الله تعالیٰ عنہ کو اس دستے کا امیر مقرر کرکے روانہ فرمایا ہو، خواہ جنگ کی نوبت آئی ہو یا نہیں، نیز یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ دستہ جنگ ہی کی نیت سے روانہ کیا گیا ہو۔
غزوات اور دعوتی خطوط
۲ھ میں پانچ غزات ہوئے،غزوہ اس چھوٹے یا بڑے لشکر کو کہتے ہیں جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم بنفس نفیس شریک ہوئے ہوں، خواہ اس سفر میں جنگ کی نوبت آئی ہو یا نہ آئی ہو اور خواہ اس لشکر کے پیش نظر جنگ کے علاوہ کوئی اور مقصد ہو، غزوہ ابوأجس کو غزوہ ودان بھی کہتے ہیں۔ غزہ بواط، غزوہ بدر کبریٰ، غزہ بنی قینقاع، غزہ سوید۔ اس سال کے غزوات میں سب سے اہم غزوئہ بدر ہے جو رمضان(۲۶) المبارک کی ۱۸ تاریخ کو بدر کے مقام پر(جو مدینہ سے ۸۰ میل دور ہے) وقوع پذیر ہوا(۲۷)۔ اب تک مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے، حضور صلی الله علیہ وسلم کی خواہش پرپندرہ شعبان ۲ھ نماز ظہر کے دوران الله تعالیٰ نے بیت الله کی طرف مسلمانوں کو منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم فرمایا(۲۸)۔ اسی سال(۲۹)یکم رمضان المبارک کو روزے فرض کیے گئے اور آپ نے یکم شوال کو نماز عیدالفطر پڑھائی اور خطبہ عبدالفطر میں لوگوں کو صدقة الفطر(۳۰)کا حکم دیا۔
۳ھ میں تین غزوات ہوئے: غزوہٴ غطفان، غزوہٴ احد، غزہ حمرأالاسد ا(۳۱) اور دوسریےّ روانہ ہوئے، غزوہٴ احد اس سال کا سب سے اہم غزوہ ہے جو ماہ شوال(۳۲) میں وقوع پذیر ہوا۔ ماہ شعبان میں حضرت حفصہ رضی الله تعالیٰ عنہا آپ کے نکاح میں آئیں اور اسی سال ماہ رمضان میں حضرت زینب بنت خزیمہ رضی الله تعالیٰ عنہا بھی آپ کی منکوحہ(۳۳) بنیں۔ کعب بن اشرف یہودی کا خاتمہ(۳۴)، سود خوری کی حرمت کا ابتدائی حکم، شراب(۳۵) کی ابتدائی حرمت کا حکم، یتیموں اور زوجین کے حقوق سمیت وراثت کے مفصل قوانین کا نزول بھی اسی سال ہوا۔ ۴ھ میں دو غزوات پیش آئے: غزوہٴ بنی انضیر، غزوہٴ بدر صغریٰ اور چار سریےّ روانہ کیے گئے(۳۶)۔ اس سال کے اوائل میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی زوجہ حضرت زینب بنت خزیمہ رضی الله تعالیٰ عنہا (جو صرف چار ماہ قبل آپ صلی الله علیہ وسلم کے عقد میں آئی تھیں) انتقال فرماگئیں۔ یکم ذی القعدہ بروز جمعہ کو پردے کا حکم نازل ہوا، شراب کی قطعی حرمت کا حکم بھی اسی سال دیا گیا۔ نیز حضرت ام سلمہ رضی الله تعالیٰ عنہا اسی سال ماہ جمادی الثانیہ میں آپ کے عقد میں آئیں(۳۷)۔
سنہ ۵ھ میں چار غزوات ہوئے: غزوہ ذات الرقاع، غزوہ دومتہ الجندل، غزوہ مریسیع(۳۸) جس کو غزوہ بنوالمصطلق بھی کہا جاتا ہے اور غزوہٴ خندق جو زیادہ مشہور اور اہم ہے۔ غزوہٴ بنوالمصطلق سے واپسی پر تیمم کا حکم نازل ہوا، اسی سال ماہ شعبان میں حضرت جویریہ رضی الله تعالیٰ عنہا آپ صلی الله علیہ وسلم کے عقد میں آئیں اور اسی سال حضرت زینب بنت جحش رضی الله تعالیٰ بھی آپ کی منکوحہ بنیں۔
۶ھ میں تین غزوات پیش آئے، غزوہ بنی الحیان، غزوہ غابہ جس کو ذی قرہ بھی کہا جاتا ہے، غزوہ حدیبیہ جس کو صلح حدیبیہ بھی کہا جاتا ہے اور گیارہ سریےّ بھی روانہ کیے گئے۔ اسی سال کے وسط میں حضرت ام حبیبہ رضی الله تعالیٰ عنہا آپ صلی الله علیہ وسلم کے عقد میں آئیں اور اسی سال کے اواخر میں حضرت ماریہ قبطیہ رضی الله تعالیٰ عنہا سے بھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے نکاح فرمایا، حضرت خالد بن ولید رضی الله تعالیٰ عنہ اور حضرت عمرو بن العاص رضی الله تعالیٰ عنہ بھی اسی سال مسلمان ہوئے(۳۹)اور نیز اس سال آپ صلی الله علیہ وسلم نے بادشاہوں کو دعوتی خطوط لکھ کر اپنے صحابہ رضی الله تعالیٰ عنہم کے ذریعے ان تک پہنچائے(۴۰)۔ آپ نے وحیہ کلبی رضی الله تعالیٰ عنہ کو ہر قل نامی بادشاہ روم کے پاس بھیجا، حضرت عبدالله بن حذافہ رضی الله تعالیٰ عنہ کو کسریٰ خسرو پرویز کج کلاہ ایران کی طرف روانہ فرمایا اور حاطب بن ابی بلتعہ رضی الله تعالیٰ کو سلطان مصر واسکندریہ (مقوقس) کی طرف بھیجا اور عمرو بن عاص رضی الله تعالیٰ عنہ کو بادشاہان عمان یعنی جیفر اور عبدالله کے پاس بھیجا۔
۷ھ میں صرف ایک غزوہٴ خیبر ہوا اور پانچ سرایا آپ صلی الله علیہ وسلم نے روانہ فرمائے، غزوہٴ خیبر کے بعد اس سال کے اوائل میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی الله تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمایا(۴۱)اور اسی سال کے آخر میں حضرت میمونہ رضی الله تعالیٰ عنہا بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کے عقد میں آئیں، اسی سال آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس عمرہ کی جو صلح حدیبیہ میں چھوڑ دیا گیا تھا، قضاء فرمائی۔
۸ھ میں چار اہم غزوات پیش آئے۔ غزوہٴ موتہ، فتح مکہ، غزوہ حنین، غزوہ طائف اور دس سرایا آپ صلی الله علیہ وسلم نے روانہ فرمائے، ابوسفیان رضی الله تعالیٰ عنہ جو اب تک مسلمانوں کے دشمن تھے، اس سال اسلام لے آئے(۴۲)۔
۹ھ میں غزوہٴ تبوک ہوا اور آپ نے تین سرایا روانہ کیے․․․․ غزوہٴ تبوک سے واپسی پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے منافقین کی مسجد ضرار( جس میں جمع ہوکر وہ اسلام اور مسلمانون کے خلاف مشورہ کرتے تھے) کو آگ لگا دینے کا حکم دیا۔ اطراف عالم میں پھیلتی اسلام کی نشر و اشاعت سے متاثر ہوکر اس سال درج ذیل دفود قبولِ اسلام کی غرض سے آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوئے: وفد ثقیف، وفد بنی فزارہ، وفط بنی تمیم، وفد کندہ، وفد بنی عبدالقیس، وفط بنی حنیفہ، وفد بنی قحطان، وفد بنی الحارث، نیز اسی سال عیسائیوں کا ایک وفد جو ساٹھ افراد پر مشتمل تھا، جسے وفد نجران کہا جاتا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم سے مدینہ میں ملا، یہ لوگ جب ایمان نہ لائے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں جزیہ ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے ان کے لیے ایک صلح نامہ تحریر فرمایا(۴۳)۔
۱۰ھ میں آپ صلی الله علیہ و سلم نے صرف دو سریےّ روانہ فرمائے اور اسی سال ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حجة الوداع ادا فرمایا اور جو مسلمان اس سال حج میں نہیں تھے، ان کی تعداد اس سے کئی گنازیادہ تھی(۴۴)۔
حیاتِ طیبہ کے آخری لمحات
۱۱ھ میں سفر حج کے بعد ۲۶صفر ۱۱ھ بروز پیر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک سریہ جہاد روم کے لیے تیار فرمایا، جس میں حضرت صدیق اکبر رضی الله تعالیٰ عنہ، حضرت فاروق اعظم رضی الله تعالیٰ عنہ اور حضرت ابوعبیدہ رضی الله تعالیٰ عنہ جیسے اکابر شامل تھے؛ مگر اس کے امیر حضرت اسامہ رضی الله تعالیٰ عنہ مقرر ہوئے، یہ وہ آخری لشکر تھا، جس کا انتظام حضور صلی الله علیہ وسلم نے خود فرمایا، ابھی یہ لشکر روانہ نہ ہوا تھا کہ ۲۸/صفر ۱۱ھ میں آپ … کو بخار شروع ہوگیا، جب آپ … کا مرض طویل اور سخت ہوگیا تو ازواجِ مطہرات رضی الله تعالیٰ عنہما سے اجازت لے کر آخری ایام مرض میں عائشہ صدیقہ رضی الله تعالیٰ عنہا کے گھر رہنے لگے، رفتہ رفتہ مرض اتنا بڑھ گیا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم مسجد تک بھی تشریف نہ لاسکتے، ایسی صورت حال میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: صدیق اکبر رضی الله تعالیٰ عنہ سے کہو کہ نماز پڑھائیں، تقریباً تیرہ دن متواتر یہ بخار رہا ارو ۱۲/ربیع الاوّل بروز پیر بوقت چاشت آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہاتھ کو بلند فرمایا: زبانِ قدسی سے اللّٰھم الرفیق الاعلیٰ کہتے ہوئے جسمِ اطہر سے روح انور پرواز کرکے عالمِ قُدس میں جا پہنچی، قمری سال کے مطابق اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کی عمر ۶۳ سال چار دن تھی(۴۵)۔ انا لله و اناالیہ راجعون
***
حواشی:
(۱) الرحیق المختوم میں ۹ربیع الاوّل کا قول اختیار کیا گیا ہے۔ ص ۸۳
(۲) مکہ اور مدینہ کے درمیان مقام ایواد میں آپ کا انتقال ہوا۔ الرحیق اختوم ص ۸۸
(۳) آٹھ سال دو مہینے دس سن کی عمر میں آپ کے دادا کا انتقال ہوا۔ الرحیق المختوم ص ۸۸
(۴) اس وقت آپ کی عمر پندرہ برس کی تھی۔
(۵) الرحقیق المختوم ص ۱۴۱
(۶) الرحیق المختوم ص ۱۵۸ بحوالہ تاریخ عمر بن الخطاب لا بن الجوزی صحیح البخاری باب اسلام عمر بن الخطاب
(۷) لکھنے والا بعبض بن عامر بن ہاشم تھا۔ ص ۱۷۲، الرحیق المختوم، بحوالہ زادالمعاد
(۸) بائیکاٹ کی تفصیل صحیح بخاری باب اول النبی … ۱/۲۱۶ زاد امعاد ۲/۴۶ رحمة للعالمین ۱/۷۹ وغیرہ سے لی گئی ہے۔
(۹) الرحیق المختوم ص ۲۱۹
(۱۰) ص ۳۲۱
(۱۱) بدایہ والنہابة ۳/۱۴۸ (۱۲) سیرةالمصطفیٰ ج ۲ ص ۳۳۴
(۱۳) الحیق المختوم ص ۳۳۷ (۱۴) ص ۳۴۱، ۳۴۲
(۱۵) ص ۳۶۱ (۱۶) الرحیق المختوم ۳۸۷
(۱۷) زرقانی ص ۳۵۱ (۱۸) سیرةالخاتم النبین ص۴۰۱
(۱۹) زرقانی ص ۳۵۶، ۳۵۹ (۲۰) شرح زرقانی ج ۲/۴۲۵
(۲۱) شرح زرقانی ج: ۱ ص ۴۳۰ (۲۲) فتح الباری ج ۷ ص ۲۱۰
(۲۳) فتح الباری ج ۱ ص ۴۶۳ تا ۴۷۱ (۲۴) بدایة النہایہ ج ۳ ص ۲۳۴ و سیرت ابن ہشام ج۱ص۱۷۸
(۲۵) فتح الباری ج ۱ ص ۴۵۹ تاریخ طبری ج ۲ ص ۲۵۷ (۲۶) ج ۲ ص ۵۵
(۲۷) تاریخ طبری ملخص از ص ۴۷ تا ج ۲ ص ۱۷۲ (۲۸) ج ۱ ص ۴۶۲
(۲۹) تاریخ طبری ملخص ج ۱ ص ۴۷۱ (۳۰) ج ۱ ص ۴۷۱ و ۴۷۲
(۳۱) تاریخ طبری ملخص از ص ۱۷۳ تا ۲۵۶ (۳۲) بدایہ والنہایہ ج ۴ ص ۹، ج ۲ ص ۱۸۵
(۳۳) فتح الباری ج ۲ ص ۲۵۶ و طبری ج ۳ ص ۲۹ (۳۴) طبری ج ۲ ص ۱۷۵ زرقانی ج ۲ ص ۹
(۳۵) فتح الباری ج ۲ ص ۲۵۶، زرقانی ج ۲ ص ۶ (۳۶) طبری ج ۲ ص ۲۵۷ تا ج ۲ ۲۷۷
(۳۷) فتح الباری ج ۷ ص ۳۳۳، طبری ج ۳ ص ۴۲، ۴۳، ج ۲ ص ۲۷۸ (۳۸) الرحیق المختوم ص ۵۰۶
(۳۹) الرحیق ا لمختوم ص ۵۴۴، تفصیلی ماخذ یہ ہیں فتح الباری ۷/۴۳۹، ابن ہشام ج ۲ ص ۳۰۸ وغیرہ
(۴۰) رحمة للعالمین ج ۱ ص ۱۷۱ (۴۱) ابن ہشام ج ۲ ص ۳۴۰ صحیح بخاری باب غزوہ خیبر
(۴۲) سیرة ابن ہشام ج ۲ ص ۶۳۳، رحمة للعالمین ج ۲ ص ۲۳۳
(۴۳) ابن ہشام ج ۲ ص ۵۴۳ اور کتب تفسیر ابتداء سورہ برأت
(۴۴) صحیح البخاری ج ۲ ص ۶۲۶، ابن ہشام ۵۰۱ تا ۵۰۳ رحمة للعالمین ج ۱ ص ۱۸۴
(۴۵) الرحیق المختوم ص ۷۳۴
***
———————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 9 – 10 ، جلد: 97 ، ذیقعدہ – ذی الحجہ 1434 ہجری مطابق ستمبر – اکتوبر 2013ء