اہل السنة والجماعة کون ہیں اور کیا ہیں؟

از: مولاناتوحیدعالم بجنوری‏، مدرس دارالعلوم دیوبند

امتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلاة والسلام کا ابتدائی دور سے آج تک بڑا طبقہ اور سوادِ اعظم جس منہج وراستہ پر ہے، وہ وہی راستہ ہے جس کو زبانِ رسالت مآب  صلی اللہ علیہ وسلم نے نجات کا راستہ قرار دیا تھا اوراسی راہ کے راہی اہل السنة والجماعة کہلاتے ہیں؛ کیونکہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق جو جماعت اور گروہ قرآن وسنت اور جماعتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے راستہ کو مضبوطی سے پکڑ کر راہِ منزل اختیار کرے گا وہ بہ سلامت منزلِ مقصود تک پہنچ جائے گا اور جو فرقہ مذکورہ اصولِ ثلاثہ یا ان میں سے کسی ایک سے بھی گریز کرکے راہِ سفر طے کرے گا وہ زیغ وضلال میں مبتلا ہوکر نجات پانے والی جماعت سے نہیں ہوگا؛ بلکہ ناری اور جہنمی فرقوں میں شامل ہوجائے گا۔ اس سلسلہ میں متکلمِ اسلام، سرخیل جماعتِ دیوبند حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند کی جامع تحریر جو حضرت موصوف نے شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی  صدرالمدرسین وشیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کے ایک مکتوبِ گرامی بنام ”مودودی دستور اور عقائد کی حقیقت“ کے مبسوط مقدمہ میں رقم فرمائی ہے، اس کو بعینہ نقل کرتا ہوں:

                ”عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْروِ بْنِ الْعَاصِ قَالَ قَالَ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تَفْتَرَقُ أُمَّتِیْ عَلیٰ ثَلاثِ وَّسَبْعِیْنَ مِلَّةً کُلُّھُم فِی النَّارِ الاّ مِلَّةً واحدةً، قِیْلَ مَنْ ھُمْ؟ یَ یَا رَسُوْلَ اللہِ! قَالَ: مَا أنَا عَلَیْہِ وَأصْحَابِیْ (مختصرًا عن المشکاة)

                ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت تہتر ملتوں پر تقسیم ہوجائے گی، سوائے ایک کے سب جہنم میں ڈالے جائیں گے، پوچھا گیا کہ وہ (مستثنیٰ) کون ہیں یا رسول اللہ؟ تو فرمایا کہ جولوگ میرے اور میرے اصحاب کے طریق پر ہیں۔

                اس حدیث میں فرقِ اسلامیہ کی نجات وہلاکت اور بہ الفاظ دیگر ان کے حق وباطل ہونے کا معیار نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا ہے کہ وہ میرا اور میرے صحابہ کا طریقہ ہے؛ لیکن اس طریقہ کو شخصیتوں سے الگ کرکے تنہا کو معیار نہیں بتلایا؛ بلکہ اپنی ذاتِ بابرکات اور اپنے صحابہ کی ذواتِ قدسیہ کی طرف منسوب کرکے معیار بتلایا کہ وہ ان شخصیتوں کے ضمن میں پایا جائے۔ ورنہ بیانِ معیار میں اس نسبت اور نام زدگی کی ضرورت نہ تھی؛ بلکہ مَنْ ہُمْ کے جواب میں بجائے مَا أَنَا عَلَیْہِ کے سیدھی تعبیر یہ تھی کہ مَا جِئْتُ بہ فرمادیا جاتا، یعنی معیارِ حق وہی ہے، جسے لے کر میں آیا ہوں یعنی شریعت؛ لیکن اس شریعت کو شخصیتوں سے الگ کرکے ذکر کرنے کے بجائے شخصیتوں کے انتساب سے ذکر کرنے کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ محض کاغذ کے کالے نقوش معیار نہیں؛ بلکہ وہ ذوات معارِ حق ہیں، جن میں یہ نقوش و حروف اعمال واحوال بن کر رچ گئے ہیں اور اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ اب کوئی بھی ان کی ذوات کو دین سے الگ کرکے اور دین کو ان کی ذوات سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھ سکتا، جس کا حاصل یہ نکلا کہ محض لٹریچر معیارِ حق نہیں؛ بلکہ وہ ذوات معیارِ حق ہیں، جو اس لٹریچر کے حقیقی ظرف بن چکے ہیں:

          بَلْ ھُوَ آیَاتٌ بَیِّنَاتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ أوتُوا الْعِلْمَ وَمَا یَجْحَدُ بِآیاتِنَا الاَّ الظٰلِمُوْنَ (سورة العنکبوت:۴۸)

                ترجمہ: بلکہ یہ قرآن تو آیتیں ہیں صاف، ان لوگوں کے سینوں میں جن کو سمجھ ملی ہے، اور منکر نہیں ہماری باتوں سے؛ مگر وہی جو بے انصاف ہیں۔ پھر اس طریقہ کو شخصیت کی طرف منسوب کرنے کے سلسلہ میں بظاہر ”ما“ کے بعد ”اَنا“ کافی تھا اور یہ فرمادینا بس کرتا کہ نجات وہلاکت پہنچانے کا طریقہ میری ذات ہے؛ تاکہ معیارِ حق صرف رسولِ خدا  صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ثابت ہوتی؛ لیکن آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ اپنے صحابہ کو بھی شامل فرمایا۔ جس سے واضح طور پر ثابت ہوجاتا ہے کہ فرقوں اور مختلف مکاتیبِ خیال کے پرکھنے کا معیار جیسے رسول کی ذات ہے، ویسے ہی صحابہٴ رسول کی ذوات بھی ہیں اور اس لیے رسولِ خدا کی موجودگی یا عدمِ موجودگی میں کسی فرقہ اور مکتب خیال کے افراد کو پرکھنے کے لیے یہ دیکھ لینا کافی ہے کہ وہ صحابہ کی راہ کے مطابق چل رہے ہیں یا مخالف سَمت میں ہیں۔ ان کی اطاعت کررہے ہیں یا اس سے گریز کررہے ہیں، ان کے ساتھ حسنِ ظن کا برتاؤ کررہے یا سوءِ ظن اور بے اعتمادی کا؟ کہ یہی شان کسی شئے کے معیار ہونے کی ہوتی ہے جس سے صاف طور پر رسولِ خدا کے ساتھ صحابہٴ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کا معیارِ حق ہونا واضح ہوجاتا ہے اور یہ حدیث اس بارے میں نص صریح ثابت ہوتی ہے، جس کا مقصد ہی یہ مدعا ثابت کرنا ہے۔

                اس کی وجہ یہ ہے جو خود اس حدیث ہی سے نمایاں ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اپنے طریق کو بعینہ اپنے صحابہ کا طریق بتلایا ہے، جس کا حاصل یہ نکلتا ہے کہ ان کی راہ چلنا میری راہ چلنا ہے اور ان کی پیروی میری پیروی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیساکہ حق تعالیٰ شانہ نے اپنے رسولِ پاک  صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ مَنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أطَاعَ اللہَ (سورة النساء:۸۰) جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔

                اس سے ایک کی اطاعت کو بعینہ دوسرے کی اطاعت بتلانا مقصود ہے، جس کے صاف معنی یہی ہوتے ہیں کہ خدا اور اس کے رسول کا طریق الگ الگ نہیں جو رسول کا راستہ ہے وہی اللہ کا راستہ ہے۔ پس اللہ کی اطاعت معلوم کرنے کا معیار یہ ہے کہ رسول کی اطاعت دیکھ لی جائے، اگر وہ ہے تو بلاشبہ خدا کی اطاعت بھی ہے ورنہ نہیں۔ وہی صورت یہاں بھی ہے کہ رسولِ خدا  صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی پیروی اور اطاعت کو بعینہ اپنی پیروی اور اطاعت قرار دیا ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ اگر رسول کی اطاعت دیکھنی ہوتو صحابہ کی اطاعت دیکھ لی جائے۔

                اگر صحابہ کی متابعت کی جارہی ہے تو رسولِ خدا کی اطاعت قائم ہے ورنہ نہیں۔ اس کا حاصل وہی نکلتا ہے کہ رسول اور صحابہٴ رسول کے طریقے الگ الگ نہیں؛ بلکہ جو رسول کا طریقہ ہے وہی بعینہ صحابہٴ رسول کا طریقہ ہے، اس لیے جیسے رسول فرقوں کے حق وباطل ہونے کا معیار ہیں، ایسے ہی صحابہٴ رسول بھی معیارِ حق وباطل ہیں۔ جن کو سامنے رکھ کر سب کے حق وباطل کو بآسانی پرکھا جاسکتا ہے۔“

                خلاصہ یہی ہے کہ حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کا معیارِ حق وباطل ہونا کوئی قیاسی مسئلہ نہیں؛ بلکہ منصوص مسئلہ ہے۔ حدیثِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی حکیمانہ تشریح سے یہ بات بَیِّنْ طریقہ سے واضح ہوتی ہے کہ اہل السنة والجماعة کا مصداق وہ جماعت ہے جو کتاب اللہ، سنتِ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماعِ صحابہ کو حجتِ شرعیہ مانتی ہو اور امت کا سوادِ اعظم اسی زمرہ میں آتا ہے؛ کیونکہ پوری دنیا میں زیادہ تر ائمہٴ اربعہ کے ماننے والے اور ان کے مقلدین ہیں ، جو بالاتفاق اصولِ ثلاثہ کو حجت مانتے ہیں اور طریقہٴ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ اقوالِ صحابہ، افعالِ صحابہ اور بالخصوص اجماعِ صحابہ کو دلیلِ شرعی مان کر اتباع کرتے ہیں اور صرف اتباع ہی نہیں؛ بلکہ سنت کا درجہ دیتے ہیں، خاص طور پر خلفاءِ راشدین حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے فیصلوں کو اتفاقی طور پر قبول کرکے عمل کرتے ہیں؛ کیونکہ حدیث شریف میں حضرات خلفاء راشدین کے طریقوں کو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل اپنا طریقہ فرمایا ہے جیساکہ حضرت حکیم الاسلام کی تحریر میں بہ وضاحت یہ مسئلہ آچکا ہے، اور ایک دوسری حدیث میں یہ مسئلہ صراحت کے ساتھ مذکور ہے؛ ارشاد نبوی ہے: عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِيْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ تَمَسَّکُوْا بِھَا وَعَضُّوا عَلَیْھَا بِالنَّوَاجِذِ (مشکاة المصابیح:۳۰) تم لوگ میرے طریقہ اور رہنمائی کرنے والے اور راہ یافتہ خلفاء کے طریقہ کو لازم پکڑلو اور اس کو مضبوطی سے تھام لو۔ حضرت رسولِ خدا  صلی اللہ علیہ وسلم بھی خلفاءِ راشدین کے طریقوں اور ان کے اعمال واقوال کو سنت رسول کے مساوی قرار دے رہے ہیں کہ دونوں پر سنت کا لفظ لانا اور پھر بہا میں ضمیر واحد لانا بتاتا ہے کہ حجت شرعیہ ہونے کی حیثیت سے دونوں میں فرقِ مراتب نہیں؛ بلکہ دونوں مساوی اور برابر ہیں۔ لہٰذا معلوم ہوتا کہ اہل حق صرف اہل السنة والجماعة ہیں اور اہل السنة والجماعة کا صحیح مصداق ائمہٴ اربعہ کے مقلدین؛ حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی حضرات ہیں اور جو حضرات تقلید کے قائل نہیں وہ اہل السنة والجماعة میں داخل نہیں؛ بلکہ خارج ہیں۔ حکیم الامت، مرشدِ ملت حضرت اقدس تھانوی مائة دروس میں درس نمبر ۹۵ میں اس کی صراحت فرماتے ہیں:

                ہمارے زمانے کے ان مذاہب کے بارے میں جو اسلام کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں۔ اہلِ حق ان میں سے اہل السنة والجماعة ہیں جو قابلِ اعتماد لوگوں کے اجماع سے منحصر ہیں حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ اور حنابلہ میں۔ اور اہلِ ہواء ان میں سے (۱) غیرمقلدین ہیں جو کہ اتباعِ حدیث کا دعویٰ کرتے ہیں؛ حالانکہ انھیں اس دعویٰ کا حق نہیں (۲) جاہل صوفی اور مبتدعین میں سے ان کے پیرو ہیں۔ اگرچہ بعض ان میں سے علماء کی صورت میں ہیں (۳)روافض (۴) نیچری جو کہ معتزلہ کے مشابہ ہیں؛ لہٰذا اے مخاطب تو ان سے بچ، ورنہ ان کی خواہش نفسانی سے پلید ہوجائے گا۔

مسلک علماءِ دیوبند:

                علماءِ دیوبند صرف اہل السنة والجماعة کے اصول وقوانین ہی کے از اوّل تا آخر پابند رہے ہیں؛ بلکہ ان کے متوارِث ذوق کو بھی انھوں نے تھاما اور محفوظ رکھا ہے۔ پھر وہ خودرو قسم کے اہلِ سنت نہیں؛ بلکہ اوپر ان کا استنادی سلسلہ ملا ہوا ہے؛ اس لیے مسلک کے لحاظ سے نہ وہ کوئی جدید فرقہ ہیں اور نہ بعد کی پیداوار ہیں؛ بلکہ وہی قدیم اہل السنة والجماعة کا مسلسل سلسلہ ہیں، جو اوپر سے تسلسل اور استمرار اور سند متصل کے ساتھ چلا آرہا ہے۔ وقت کے عوامل اور افراط وتفریط نے چونکہ اہلِ سنت میں مختلف شاخیں پیدا کردیں اور ہر نئی شاخ نے اصل ہونے کا دعویٰ کیا جو دعویٰ ہی کی حد تک نہیں رہا؛ بلکہ اپنے وجود وبقا کے لیے ہر شاخ نے اصل طبقہ کے خلاف محاذ بناکر اسے غیراصل اور اپنے کو اصل ثابت کرنے کی جدوجہد کا بھی آغاز کردیا، جیساکہ اصل سے کٹی ہوئی شاخوں کا یہی طرزِ عمل ہوتا ہے؛ اس لیے حقیقی اصل عوام کی نگاہوں میں مشتبہ ہونے لگی اور بہت سے سوالات اٹھنے لگے؛ مگر اصل بہر حال اصل ہی ہوتی ہے اورمعیار پر کسنے کے بعد اس کی اصلیت نکھر کر سامنے آجاتی ہے۔

                پس علماءِ دیوبند کے جامع اور معتدل ترین مسلک کو سمجھنے کے لیے جس میں افراط ہے نہ تفریط، غلو ہے نہ مبالغہ؛ بلکہ کمالِ اعتدال اور جامعیت کا جوہر پیوست ہے۔ سب سے پہلے اس کے لقب کے ماخذ پر غور کرلیا جائے تو اسی سے اس کی بنیادیں واضح ہوجائیں گی اور معیار بھی مشخص ہوکر سامنے آجائے گا اور وہ یہ ہے کہ اہل السنة والجماعة کا یہ مرکب اور مسلکی لقب دو اجزاء سے مرکب ہے، ایک ”السنة“ اور دوسرا ”الجماعة“ ان دونوں کے مجموعہ ہی سے علماءِ دیوبند کا مسلک بنتا ہے تنہا ایک کلمہ سے نہیں۔ ”السنة“ کے لفظ سے اصول، قانون اور طریق نمایاں ہے اور ”الجماعة“ کے لفظ سے ذوات، شخصیات اور رفقاءِ طریق نمایاں ہیں۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ اس مسلک میں اصول وقوانین بغیر ذوات کے اور ذوات بغیر اصول وقوانین کے معتبر نہیں؛ جبکہ قوانین ان ذوات ہی کے راستے سے آئے ہوں اور ذوات ان قوانین ہی سے پہچانی گئی ہوں۔ اس لیے ماخوذ کو لے لیا جانا اور ماخذ کو چھوڑ دینا کوئی معتدل مسلک نہیں ہوسکتا۔ جیساکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس امت کو قرآن کریم ہی نہیں دیا؛ بلکہ پیغمبر  صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بھی عطا فرمائی ہے، جنھوں نے قرآن کریم سنایا، سمجھایا اور اس کے عمل کا نمونہ دکھلایا۔ پس مسلک کی جامع حقیقت جس جامع لقب سے ظاہر کی ہے اس کے دونوں اجزاء قیاسی نہیں؛ بلکہ منصوص ہیں؛ کیونکہ” السنة“ سے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک طریقہ مراد ہے جو حدیث شریف میں لفظ ”ما“ سے مفہوم ہورہا ہے اور ”الجماعة“ کا لفظ اصحابی سے لیاگیا ہے؛ جبکہ ایک دوسری روایت میں جو امام احمد اور امام ابوداؤد نے نقل فرمائی ہے اس میں أنا و أصحابی کی جگہ صراحتاً  وَھِیَ الْجَمَاعَةُ کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔

مسلک علماءِ دیوبند کے اجزاءِ ترکیبی:

                (۱) عقیدہٴ توحید: علماءِ دیوبند عقیدہٴ توحید میں اعتدال قائم رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے توحید کاعقیدہ رکھنے کے ساتھ اہل اللہ کی عظمت وتوقیر اور اربابِ فضل وکمال کے ادب واحترام کو عقیدہٴ توحید کے منافی سمجھنا مسلکِ دیوبند کا عنصر نہیں ہے۔ پس توحید میں لگ کر بے باکی، جسارت اور شخصیات کی عظمتوں سے بے نیازی ہمارا مسلک نہیں؛ بلکہ یہ توحید کا غلو ہے اور ایسے ہی تعظیمِ اولیاء اور توقیرِ شخصیات میں مبالغہ کرنا جس سے توحید میں خلل پڑتا ہو یا شرک کی آمیزش کردینا بھی علماءِ دیوبند کا مسلک نہیں۔ بس توحید اس درجہ تک کہ تعظیم اہلِ دل متاثر نہ ہو اور تعظیم وتوقیر اس حد تک کہ توحید مجروح نہ ہو یہی راہِ اعتدال ہے جو مسلک دیوبند ہے۔

                (۲) صفاتِ باری تعالیٰ: صفاتِ خداوندی میں علماءِ دیوبند کا اصل مسلک تفویض ہے، یعنی جو صفات اللہ رب العزت نے خود اپنے لیے ثابت فرمائی ہیں مثلاً ”ید“ ارشاد ہے ید اللہ فوق أیدیھم اور ”استواء علی العرش“ ارشادِ باری ہے الرحمن علی العرش استوی (سورة طٰہ:۵) یا احادیث شریفہ میں وہ صفات اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کی گئی ہیں مثلاً ”ضحک“ حدیث شریف میں ہے ان اللہ یضحک وغیرہ تو ایسے اوصاف کے سلسلہ میں علماءِ دیوبند کا مسلک یہ ہے کہ وہ تمام صفات اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت ہیں، اور یہ صفات مخلوقات کی صفات جیسی نہیں ہیں؛ کیونکہ خود اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں لیس کمثلہ شیء (سورة شوریٰ:۱۱) اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے ولم یکن لہ کفوا أحد (سورة الاخلاص) اور کوئی اس کے برابر نہیں۔ اور ہمیں ان اوصاف کی کیفیت معلوم نہیں ہے بس وہ صفات اس کے لیے ثابت ہیں؛ البتہ علماءِ دیوبند ثانوی درجہ میں تاویل کی گنجائش دیتے ہیں وہ بھی چند شرطوں کے ساتھ (۱) لفظ میں وہ معنی مراد لینے کی گنجائش ہو، (۲) وہ معنی مرادی شانِ الوہیت کے منافی نہ ہوں؛ بلکہ لائق اور مناسب ہوں (۳)وہ معنی کسی دوسری نص میں خدا تعالیٰ کے لیے ثابت ہوں (۴) تاویلی معنی کو حتمی اور قطعی باور نہ کیا جائے؛ بلکہ احتمال ہی کے درجہ میں رکھا جائے وغیرہ۔

                (۳) سید الکونین آں حضرت  صلی اللہ علیہ وسلم: آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق علماءِ دیوبند کا مسلک اور عقیدہ (جونہایت معتدل اور افراط و تفریط سے پاک ہے) یہ کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سیدالکونین، افضل الکائنات، افضل البشر اور افضل الانبیاء؛ بلکہ امام الانبیاء ہیں؛ البتہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو بشریت سے نکالنا ہمارا عقیدہ نہیں ہے کہ عقیدت ومحبت میں اندھے ہوکر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کی نفی کردیں ایسا نہیں ہے۔

                (۴) حضراتِ انبیاء علیہم الصلوٰة والتسلیم: اس مسئلہ میں بھی مسلکِ دیوبند غلو اور افراط وتفریط سے بچ کر نقطہٴ اعتدال کو اپنی راہ مقرر کرتا ہے کہ نہ تو غلو زدہ اور بے بصیرت لوگوں کی طرح کہ خدا اور انبیاء میں کوئی فرق نہیں صرف ذاتی اور عرضی کا فرق ہے (معاذ اللہ من ذلک) یا خدا ان میں حلول کیے ہوئے ہے اور وہ ایک پردہٴ مجاز ہیں۔ یا وہ عام انسانوں سے الگ ما فوق الفطرت کوئی دوسری مخلوق ہیں جن میں بشری نوع سے مماثلت نہیں وغیرہ گمراہ کن عقیدہ ہو، اور نہ ایسا ہے کہ وہ محض ایک ڈاکیا اور اخبار فروش کی حیثیت رکھتے ہیں جن کا کام خدا کا پیغام پہنچادینا ہے اور بس! یعنی حضرات انبیاء علیہم السلام صرف سفیر محض کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان دونوں افراط وتفریط کے راستوں کے درمیان کا معتدل ترین راستہ علماءِ دیوبند کا اختیار کردہ ہے کہ یہ مقدس وپاکیزہ ہستیاں جہاں پیغامِ الٰہی کی امین ہیں کہ کمالِ دیانت اور نہایت حزم واحتیاط کے ساتھ خالق کا پیغام مخلوق تک پہنچایا ہے اس کے ساتھ اس کے رمز شناس، معلم اور اس کی روشنی میں خلق خدا کے مربی ومحسن بھی ہیں۔ پس وہ محسن عالم بھی ہیں، اخلاقِ انسانیت کا درس دینے والے شیوخ واساتذہ بھی؛ چنانچہ وہ ہر تعظیم و توقیر اور ہر ادب واحترام کے مستحق ہیں؛ البتہ وہ بشر ہیں کوئی مافوق الفطرت مخلوق نہیں، انبیاء کی بے ادبی کفر ہے اور عظمت عینِ ایمان ہے؛ لیکن اس عظمت میں شرک کی آمیزش بھی کفر سے بڑھ کر کفر ہے۔

                (۵) حضراتِ صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین: صحابہٴ کرام کی جماعت وہ خوش بخت اور سعادت مند جماعت ہے جس کو کسبِ فیض کا موقع آں حضرت  صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست اور بلا واسطہ نصیب ہوا ہے؛ لہٰذا یہ جماعت اور گروہ پورا کا پورا راشد ومرشد، راضی ومرضی، تقی القلب، پاک باطن، مستمرالطاعة، محسن وصادق اور موعود بالجنة ہے۔ پس اس جماعت کے تعلق سے علماءِ دیوبند کا مسلک وعقیدہ یہ ہے کہ عظمت وجلالت کے معیار سے صحابہٴ کرام میں تفریق نہیں ہے کہ کسی کو لائق محبت وعظمت سمجھیں اور کسی کو معاذ اللہ لائق عداوت، کسی کی مدح میں رطب اللسان ہوں اور العیاذ باللہ کسی کی مذمت میں زبان دراز کریں، کسی کو نبوت سے بھی اونچا مقام دینے پر اتر آئیں اور معصوم باور کریں اور کسی کے ساتھ سب وشتم اور قتل وغارت گری کا معاملہ کرنے تک سے گریز نہ کریں، علماءِ دیوبند کہتے ہیں: کہ یہ سب حضرات تقدس کے انتہائی مقام پر ہیں؛ مگر نبی یا خدا نہیں! بلکہ بشریت کی صفات سے متصف، لوازمِ بشریت اور ضروریاتِ بشری کے پابند ہیں؛ لیکن ان سب کے باوجود زہد وتقویٰ میں کامل، فراست وبصیرت میں یکتا، معصیت وگناہ کے جذبات سے عاری، طاعات وعبادات میں بھاری، ایمان وتقویٰ سے ان کے قلوب آراستہ اور کفر وفسق سے ان کو کیا واسطہ، پس وہ غیر معصوم ہونے کے باوجود تنقید و تبصرہ سے بالاتر ہیں؛ کیونکہ وہ من جانب اللہ گناہوں سے محفوظ ہیں۔

                (۶) صوفیاء کرام اور مسلک علماءِ دیوبند: اولیاءِ کرام اور صوفیاءِ عظام کا طبقہ امت کے لیے روحِ رواں کی حیثیت رکھتا ہے، جس سے امت کی باطنی حیات وابستہ ہے، جو اصل حیات ہے، اس لیے علماءِ دیوبند ان کی محبت وعظمت کو ایمان کے تحفظ کے لیے ضروری سمجھتے ہیں؛ مگر غلو کے ساتھ محبت وعقیدت میں انھیں ربوبیت کا مقام نہیں دیتے۔ ان کی تعظیم شرعاً ضروری سمجھتے ہیں؛ لیکن اس کے معنی عبادت کے نہیں لیتے کہ انھیں یا ان کی قبروں کو رکوع و سجدہ طواف و نذر اور مَنَّتْ وقربانی کا مقام اور محل بنالیا جائے۔ علماءِ دیوبند اولیاء اللہ کو مشکل کشا، حاجت روا، دافع البلاء والوبا نہیں مانتے ایسی شان صرف اللہ رب العزت کی ہے۔

                (۷) ایصالِ ثواب اور مسلکِ دیوبند: ایصالِ ثواب ایک مستحسن امر اور اموات کا حق ہے اس سلسلہ میں بھی نہ تو یہ صورت ہے کہ میت کی قبر پر کھانا رکھنا، چادر چڑھانا، چراغاں کرنا وغیرہ بیہودہ کاموں کے بارے میں نہ تویہ نظریہ ہے کہ ان کاموں سے میت کو کوئی فائدہ حاصل ہوگا اور نہ ہی یہ عقیدہ ہے کہ مرنے والے کو دوسرے کے کسی عمل کا کوئی اجر وثواب نہیں پہنچتا؛ بلکہ علماءِ دیوبند نے ایک درمیانی اور معتدل راہ اپنائی ہے کہ میت کے لیے دعا واستغفار کرنا، صدقہ دینا، بلا اجرت قرآن کریم پڑھ کر ایصالِ ثواب کرنا، نفلی نماز، روزہ، حج وغیرہ کا ثواب میت کو پہنچانا جائز اور صحیح ہے؛ کیونکہ حدیث شریف میں مرنے کے بعد اعمال کا سلسلہ منقطع ہونے والی روایت میں صدقہٴ جاریہ اورنفع بخش علم کے ساتھ اولادِ صالح کو شمار کیا ہے؛ مگر اس کی مخصوص صورتیں بنانے کے قائل نہیں! جیسے نیاز، فاتحہ، تیجہ، دسواں، بیسواں، چالیسواں اور برسی وغیرہ کے عنوانات ہیں۔

                (۸) تزکیہٴ نفس اور مسلک علماءِ دیوبند: تکمیل اخلاق اور تزکیہٴ نفس کے لیے طریقت کے سلسلوں کے مطابق مشائخ سے بیعت وصحبت کو حق اور طریقت کے اصول وہدایات کی پابندی کو ضروری اور مفید کہتے ہیں؛ لیکن طریقت کو شریعت سے الگ کوئی مستقل راہ نہیں سمجھتے، جو سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہو؛ بلکہ شریعت ہی کے باطنی اور اخلاقی حصہ کو طریقت کہتے ہیں جواصلاحِ قلب کا راستہ ہے اسی کو شریعت نے ”احسان“ کے لفظ سے ذکر کیا ہے؛ لہٰذا طریقت کے اصول وقوانین کو کتاب وسنت ہی سے ثابت شدہ جانتے ہیں اوراس لائن یعنی تصوف کی بے اصولیوں اور خود ایجاد کردہ رسم ورواج کو طریقت نہیں کہتے اور خلافِ سنت ہونے کی وجہ سے قابلِ ترک؛ بلکہ مردود سمجھتے ہیں۔

                (۹)فقہ وفقہاء اور مسلک دیوبند: فقہ وفقہاء کے سلسلہ میں بھی علماءِ دیوبند کا مسلک وہی جامعیت اور جوہرِ اعتدال لیے ہوئے ہے، کہ آزادیِ نفس سے بچنے، دینی بے قیدی اور خودرائی سے دور رہنے اور اپنے دین کو تشتت وپراگندگی سے بچانے کے لیے اجتہادی مسائل میں کسی متعین فقہ کی پابندی اور ایک ہی امام کے مذہب کے دائرہ میں محدود رہنا ضروری ہے؛ اس لیے علماءِ دیوبند فقہیات میں حنفی المذہب ہیں؛ ان میں افراط وتفریط نہیں ہے کہ نہ تو اسلاف کے قائم کردہ اصولِ تفقہ اور ان سے استنباط کردہ مسائل ہی کے قائل نہ ہوں اور ہر قدم پر اپنے فہم ورائے کی قطعیت کے توہم میں اجتہادِ مطلق کا دعویٰ لے کھڑے ہوں اور نہ اس کے برعکس فقہیات میں ایسے جمود اور بے شعوری کے قائل ہیں کہ ان فقہی مسائل کی تحقیق وتدقیق یا ان کے ماخذوں کا پتہ چلانے کے لیے کتاب وسنت کی طرف مراجعت کرنا بھی گناہ تصور کرنے لگیں! پس علماءِ دیوبند بلاشک وشبہ مقلد اور معین فقہ کے پابند ہیں؛ لیکن مقلد محقق ہیں جامد نہیں، تقلید ضرور ہے؛ مگر اندھی نہیں اور یہ بھی کمال کی بات ہے کہ شانِ تحقیق رکھنے کے باوصف پوری جماعت مجتہد ہونے کا دعویٰ نہیں کرتی۔

                (۱۰) حدیث ومحدثین اور مسلکِ دیوبند: حدیث شریف؛ چونکہ کلامِ الٰہی کا بیان و تفسیر ہے اور دوسرے درجہ میں مصدرِ شریعت ہے؛ اس لیے علماءِ دیوبند کسی ضعیف سے ضعیف حدیث کو بھی چھوڑنے کے روادار نہیں ہیں، بشرطیکہ وہ قابلِ استدلال ہو، حتیٰ کہ متعارض روایات میں بھی اخذ وترک کا اصول نہیں اپناتے؛ بلکہ سب سے پہلی کوشش جمع بین الروایات اور تطبیق وتوفیق کی ہوتی ہے؛ تاکہ تمام روایات پر کسی بھی درجہ میں عمل ہوجائے؛ کیونکہ اہمال (بیکار چھوڑنے) سے بہرصورتِ اعمال (عمل کرنا) افضل ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کا اس سلسلہ میں طرزِ عمل یہ تھا کہ باب سے متعلق تمام روایات کو جمع فرماتے پھر مجموعہ پر غور فرماتے تھے کہ شارع علیہ السلام کی غرض کیا نکلتی ہے، اسی کو مناطِ حکم کی تخریج کرنا کہتے ہیں، پھر اس کی تنقیح وتجزیہ کرکے اس روایت کو اپنے مذہب کی بنیاد بناتے تھے جس میں شارع کی غرض سب سے نماں ہو، خواہ وہ روایت سنداً قوی ہو یا کچھ کمزور! پھر بقیہ روایات کو ترک کرنے کے بجائے غرضِ شارع اور مناطِ حکم کے معیار سے اس روایت کے ساتھ جوڑتے چلے جاتے ہیں جس میں غرض زیادہ واضح تھی، پس ساری روایات اپنے اپنے مواقع پر چسپاں ہوتی چلی جاتی ہیں۔

                (۱۱) علم کلام اور مسلکِ دیوبند: نصوصِ صریحہ سے ثابت شدہ عقائد تقریباً سب متفق علیہ ہیں، جو کتاب وسنت اور اجماع سے ثابت ہیں؛ لیکن استنباطی یا فروعی عقائد، اسی طرح وہ قطعی عقائد جن کی کیفیات اور تشریحات میں اربابِ فن کے درمیان اختلافات ہیں، اس لحاظ سے اس فن میں بھی یکسوئی حاصل کرنے کے لیے علمِ کلام کے بابصیرت ائمہ میں سے کسی ایک کا دامن تھامنا اسی طرح ضروری ہے جس طرح فقہ کے اجتہادی مسائل میں کسی امام کے مذہب کا پابند رہنا ضروری ہے، پس علماءِ دیوبند علم کلام میں تمام متکلمین کو برحق مانتے ہوئے اور سب کی عظمت کے ساتھ امام ابومنصورماتریدی کا اتباع کرتے ہیں؛ لیکن یہاں بھی معین کلام کی پابندی اور اتباع کے ساتھ تحقیق کا سرا ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ کلامی مسائل میں خصوصیت کے ساتھ حجة الاسلام، بانیِ دارالعلوم دیوبند حضرت اقدس مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ کی حکیمانہ تعلیمات سے ماخوذ قاسمیت غالب ہے۔ حضرت نانوتوی قدس سرہ اشاعرہ اور ماتریدیہ کے اختلافی مسائل میں ردوقدح کی راہ اختیار نہیں کرتے؛ بلکہ رفع اختلاف اور تطبیق وتوفیق کا راستہ اختیار فرماتے ہیں جس سے کلامی مسائل کا بڑے سے بڑا اختلاف نزاعِ لفظی محسوس ہونے لگتا ہے، اسی بنا پر اکابرِ دیوبند کلامی مسائل میں علماءِ دیوبند کو اشعری کہہ دیتے ہیں۔ علم کلام چونکہ مخالفین کے اٹھائے ہوئے شکوک وشبہات اور ان کے پیدا کردہ اشکالات واعتراضات کے جوابات دینے کے لیے وضع کیاگیا ہے اور چونکہ مخالفین اس سلسلہ میں عقل کا استعمال کرتے ہیں تو ان کے جوابات دینے کے لیے بھی ایسا ہی طریقہ ہونا چاہیے جس میں معقولات کی آمیزش رہے، پس علماء متکلمین بھی ایسے موقع پر عقل سے تعاون لیتے ہیں؛ لیکن عقل سے مدد لینے کا یہ مطلب بالکل نہیں کہ نقل سے صرفِ نظر کرلیتے ہیں، اسی لیے علمِ کلام عقل ونقل کا سنگم بن گیا ہے پھر اس میں افراط وتفریط شروع ہوگئی کہ ایک طبقہ اور جماعت نے عقل کا مقام نقل سے بڑھادیا، نقل کو عقل کے تابع کردیا کہ اصل حیثیت اور مقام عقل کو دے دیا، چنانچہ معتزلہ جیسی جماعتیں اسی نظریہ کی شکار ہوئی ہیں۔ اس کے ردِعمل میں کچھ اسلامی جماعتوں نے دین کے دائرہ میں عقل کے عمل، دخل کی کلی ممانعت کرڈالی اور عقل کو مذہب کی حد تک مہمل و بیکار اور لایعنی شئے قرار دے دیا کہ مذہب کا عقل یا معقولیت سے کوئی واسطہ نہیں،اور نہ ہی مذہبی کسی حکم میں کوئی عقلی مصلحت ملحوظ رکھی جائے گی۔ ان دونوں افراط وتفریط والے نظریات سے الگ ہٹ کر ایک معتدل اور جامع رائے ہے جو علماءِ دیوبند کا مسلک ہے کہ عقل کو مذہبی امور میں نہ تو مہمل اور دوراز کار سمجھتے ہیں؛ کیونکہ احکام کی عقلی مصلحتوں، کلی علتوں اور جامع حقیقتوں سے نصوصِ شرعیہ بھری پڑی ہیں اور جگہ جگہ اثباتِ مسائل، اجتہادِ مسائل، استخراجِ مسائل اور استنباطِ حقائق میں امورِ معقولہ کی تاثیر نمایاں ہے اور ان امورِ معقولہ کی ضرورت ناقابل انکار ہے، اور نہ عقل کو اس درجہ مستقل مانتے ہیں کہ وہ وحی کے مقابلہ میں اصل ہو، ثواب وعقاب کا استحقاق بھی اسی کے فتویٰ پر دائرہو؛ چنانچہ مسلک دیوبند میں عقل کارآمد ہونے کے باوجود حاکم یا موجد ثمرات واحکام نہیں، وہ مسائل وعقائد کے اثبات کا آلہ ہے، یعنی علماءِ دیوبند عقل کو کارآمد اور موٴثر مانتے ہیں؛ لیکن بحیثیت خادم، حاکم کی حیثیت سے نہیں، مثلاً عقل دین میں تدبر وتفکر کا ایک آلہ ہے جس سے مخفی حکمتوں اور حقائق کا سراغ لگایا جاتا ہے، یہ حکمتیں اورحقائق عقل سے وجود میں نہیں آتے۔ عقل محسوسات کے ناپ تول کرنے کی ترازو ضرور ہے؛ مگر مغیبات کے علم وادراک کو محسوس کرنے والی نہیں، مسلکِ دیوبند میں دین ومذہب کی اصل وحیِ خداوندی ہے اور اس کے اثبات کے خدام میں سے ایک خادم عقل بھی ہے۔

                (۱۲) حضرات انبیاء علیہم السلام اور حیاتِ برزخی: حبیبِ کبریا، شافعِ محشر، شاقیِ کوثر حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے اور تمام انبیاء علیہم الصلوٰة والتسلیم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد عالم برزخ میں حضرات انبیاء اور بالخصوص سید الانبیاء  صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اپنی مبارک قبروں میں باحیات ہیں، پھر وہ حیات کس انداز کی ہے؟ اس مسئلہ میں بھی امت کے اندر افراط و تفریط کا معاملہ ہے کہ کچھ حضرات کا نظریہ یہ ہے کہ حضرات انبیاء علیہم السلام چونکہ نور ہیں، انسان یا بشر نہیں؛ اس لیے ان مقدس اور پاکباز ہستیوں پر موت طاری نہیں ہوتی؛ اس لیے تمام انبیاء بشمول آں حضور  صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مبارک قبروں اورمقدس روضوں میں بعینہ اسی حیات کے ساتھ آرام فرما ہیں جو دنیا میں حاصل تھی۔ صرف عام انسانوں سے پردہ فرمالیا ہے۔ اور دوسرا نظریہ اس کے بالکل برعکس ہے کہ حضراتِ انبیاء علیہم السلام اور سید الانبیاء  صلی اللہ علیہ وسلم کی موت عام انسانوں کی طرح ہے۔ پس جس طرح غیر انبیاء کی روحوں کا تعلق جسم سے نہیں رہتا اور قبر کے تمام احوال کا تعلق صرف روح سے رہتا ہے اور جسم گل کر مٹی ہوجاتا ہے بعینہ یہی صورت (العیاذ باللہ) تمام انبیاء اور سید الانبیاء  صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم و روح کے ساتھ بھی ہے، یہ دونوں نظریے حدّ اعتدال سے دور اور افراط وتفریط کے شکار ہیں۔ پس راہ اعتدال اور صراطِ مستقیم (سب سے سیدھا راستہ) علماء دیوبند کا اختیار کردہ اور پسند فرامودہ راستہ ہے کہ نہ توایسا ہے کہ انبیاء پر موت بالکل اثر نہیں کرتی، اور حضراتِ انبیاء اپنی قبروں میں بالکل حیاتِ دنیاوی کے ساتھ آرام فرما ہیں؛ کیونکہ اس نظریے کی بنیاد ہی ایک بے بنیاد اصل پر ہے کہ حضراتِ انبیاء بشر نہیں، نور ہوتے ہیں۔ اور نہ ہی وہ دوسرا نظریہ کہ موتِ انبیاء بالکل عام انسانوں کی سی ہے؛ بلکہ عالم برزخ میں روح کا تعلق ایک تو عام انسانوں کا ہے تو وہ بالکل نہیں رہتا؛ بلکہ جسم گل، سڑجاتا ہے اور احوالِ برزخ یعنی ثواب وعقاب روح کو پیش آتے ہیں اور دوسرے درجہ میں شہداء ہیں جن کے بارے میں قرآن ناطق ہے کہ وہ زندہ ہیں، مردہ نہیں، یعنی ان کا جسم مٹی سے متاثر نہیں ہوتا، اور بہ سلامت رہتا ہے جیساکہ نصوص اور مشاہدہ اس کے شاہد ہیں۔ اور حضرات انبیاء کی حیاتِ برزخی شہداء سے بھی زیادہ ہے یعنی نیند کی حالت میں جسم سے روح کا تعلق جس قدر ٹوٹتا ہے، حضرات انبیاء کی حیاتِ برزخی میں اس سے کچھ زیادہ ٹوٹتا ہے! لہٰذا حضرات انبیاء علیہم السلام کی حیات برزخی میں حیات کے آثار عام انسانوں اور شہیدوں سے بھی زیادہ ہوتے ہیں؛ اسی لیے دنیاوی زندگی کے کچھ آثار بھی کسی درجہ میں باقی رہتے ہیں کہ اُن کی ازواج سے مناکحت کی اجازت نہیں ہوتی، اور ان کے اموال میں وراثت جاری نہیں ہوتی وغیرہ۔ یہ سب چیزیں دلالت کرتی ہیں کہ حضراتِ انبیاء  صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مبارک قبروں میں باحیات ہیں جو دنیاوی حیات سے گوکچھ کم درجہ کی ہے، پر عام انسانوں جیسا معاملہ بھی نہیں ہے۔

(تلخیص از مسلک علماءِ دیوبند مع اضافہ)

***

————————————

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 5 ‏، جلد: 97 ‏، رجب 1434 ہجری مطابق مئی 2013ء

Related Posts