قرآنِ حکیم کے ترجمے کے اصول و قوانین اور ترجمہ نگاری کی روایت کا تسلسل (۱/۲)

از: مفتی عبدالخالق آزاد‏، شیخ الحدیث والتفسیر ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ، لاہور، پاکستان

                اسلام کی تعلیمات میں قرآنِ حکیم کے فہم کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کو درست تناظر میں سمجھنا ہی دراصل دینی تعلیمات کی بنیاد ہے؛ اس لیے ہر دور کے علمائے حق نے اپنے عصری تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے قرآنی تعلیمات کے فہم کو عام انسانوں تک منتقل کرنے کے لیے بڑی کوشش فرمائی ہے۔ انھوں نے اپنے زمانے کے عصری تقاضوں کو سمجھا۔ اور پھر اسی زبان، لہجے اور انداز و اُسلوب میں قرآنی تعلیمات کا فہم و شعور پیدا کیا۔ جس سے اس دور کی انسانیت کو درپیش مسائل کا حل دریافت ہوا۔ اور عام انسانوں کو مجموعی فلاح و بہبود اور ترقی و کامیابی حاصل ہوئی، اس سے نہ صرف وقت کے تقاضے پورے ہوئے؛ بلکہ کل انسانیت کے مسائل حل کرنے کے مواقع پیدا ہوئے۔

قرآن فہمی کے حوالے سے شاہ ولی اللہ دہلوی کا تجدیدی کام:

                یہ ایک حقیقت ہے کہ اٹھارویں صدی کے عظیم مفکر و مجدد حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلوی ایک ایسی بلند مرتبت شخصیت ہیں کہ جنھوں نے اپنے دور کے تقاضوں کو اچھی طرح سمجھا۔ اور تمام علوم و فنون میں ایسی تجدید کی، جو انسانیت کے مسائل کے حل کے لیے ناگزیر حیثیت رکھتی ہے۔ آپ نے اگرچہ تمام علوم و فنون میں نئے زاویوں سے فہم و شعور پیدا کرنے کے لیے بڑا تجدیدی کردار ادا کیا ہے؛ لیکن خاص طور پر قرآن حکیم کی تعلیمات کو عام کرنے، اس کے فہم و شعور کے بنیادی اصول و ضوابط مرتب کرنے اور اصولِ تفسیر مدوّن کرنے میں آپ کا کوئی ثانی نہیں؛ بلاشبہ قرآنی تعلیمات کے فروغ کے سلسلے میں آپ نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ پچھلی تین صدیوں میں قرآن فہمی کی جتنی تحریکات اور انداز و اُسلوب سامنے آئے ہیں، ان پر حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلوی کے اسلوب کی چھاپ واضح طور پر نظر آتی ہے۔ علومِ قرآنیہ کے سلسلے میں تمام مکاتب ِفکر حضرت شاہ صاحب کے خوشہ چین ہیں۔

علومِ قرآنیہ کی نئی تہذیب و ترتیب:

                شاہ صاحب کا سب سے بڑا کام، علومِ قرآنیہ کی نئی تہذیب و تدوین اور اس میں مفید اضافہ جات ہیں۔ گزشتہ ہزار سال میں علمائے حق نے علوم القرآن سے متعلق جتنے بھی علوم و فنون دریافت کیے تھے، آپ نے ان کی تلخیص کی۔ اور انھیں بہترین ترتیب کے ساتھ مہذب و مدوّن کردیا۔ ان میں سے غیرضروری اور بے کار بحثوں کو الگ کیا۔ اور بنیادی اور اصولی بحثوں کو اصول و قوانین کی شکل میں مرتب کر دیا۔ آپ کی کتاب ”الفوزُ الکبیر فی اُصول التفسیر“ اس حوالے سے ایک بہترین کتاب ہے۔ جس میں آپ نے بڑی جامعیت کے ساتھ گزشتہ ہزار سالہ دور کے علومِ قرآنیہ کا نچوڑ بیان کردیا ہے۔

علومِ قرآنیہ کے حوالے سے مفید اضافے:

                پھر یہی نہیں؛ بلکہ علومِ قرآنیہ کے سلسلے میں شاہ صاحب نے نئے اور مفید اضافے بھی کیے۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے چند بنیادی علوم وہبی طور پر آپ کو عطا کیے؛ چناں چہ حضرت شاہ صاحب نے قرآن فہمی کے حوالے سے جن چند نئے بنیادی علومِ قرآنی کا تعارف کرایا ہے، ان میں (۱) ”علم تاویلِ قصص الانبیاء“، (۲) ”علومِ خمسہ قرآنیہ“، (۳) ”ترجمہ قرآن حکیم کا جامع اسلوب“، (۴)”علومِ خواص القرآن“ اور (۵) ”علم حل حروف مقطعاتِ قرآنیہ“ ایسے پانچ اہم علوم ہیں؛ چناں چہ شاہ صاحب ”الفوز الکبیر فی اصول التفسیر“ میں لکھتے ہیں:

”از علومِ وہبیہ در علم تفسیر ․․․․ (۱) تاویل قصص انبیاء ․․․․ (۲) دیگر علومِ خمسہ کہ منطوقِ قرآن عظیم ہماں است ․․․․ (۳) دیگر ترجمہ بزبانِ فارسی بوجہے کہ مشابہ عربی باشد ․․․․ (۴) دیگر علومِ خواص قرآن است ․․․․ (۵) یکے از علوم کہ بریں و ہم ضعیف نزول فرمودہ حل معنی مقطّعات قرآن است۔“ (1)

”اللہ تعالیٰ نے وہبی طور پر علم تفسیر میں مجھے درجِ ذیل علوم عطا فرمائے ہیں:

۱-            قصص انبیا کی حقیقت و ماہیت کی تاویل و تشریح

۲-           قرآن حکیم میں بیان کردہ پانچ علومِ قرآنیہ کی توضیح

۳-          فارسی میں ایسا ترجمہٴ قرآن، جو کہ عربی الفاظ کے مطابق ہے

۴-          علومِ خواص القرآن: قرآنی آیات کے خواص و اثرات

۵-           ”مقطّعاتِ قرآنیہ“ کا مفہوم اور اُن کا حل۔“

                یہ پانچ علوم ایسے ہیں کہ قرآن حکیم کے تقریباً تمام پہلووٴں کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ انسانی سوسائٹی کی تشکیل کے لیے جن بنیادی اوراساسی امور کی ضرورت ہے، وہ ان پانچ علوم میں بیان ہوجاتے ہیں۔ ان علوم کی پوری حقیقت کا فہم رکھتے ہوئے قرآن حکیم کا مطالعہ کیا جائے تو انسانی معاشرے کی تشکیل میں شریعت، طریقت اور سیاست پر مبنی تمام دینی پہلووٴں کا احاطہ ہوجاتا ہے۔

شاہ صاحب کے ترجمہٴ قرآن ”فتح الرّحمٰن“ کی اہمیت:

                ان پانچ علوم میں سے ایک اہم علم ”ترجمہٴ قرآن حکیم کا جامع اسلوب“ ہے۔ شاہ صاحب نے اس حوالے سے مکمل قرآن حکیم کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔ جس کا نام انھوں نے ”فتح الرّحمٰن بترجمة القُرآن“ رکھا۔ اس ترجمے کی اہمیت اور حقیقت شاہ صاحب اس طرح بیان فرماتے ہیں:

”دیگر ترجمہ بزبانِ فارسی بوجہے کہ مشابہ عربی باشد در قدرِ کلام، و در تخصیص و تفہیم و غیرِ آں۔ و آں را در ”فتح الرّحمٰن بترجمة القُرآن“ ثبت نمودیم۔ ہر چند در بعض مواضع بسبب خوف عدمِ فہم ناظراں بدوںِ تفصیل آں شرط را ترک کردہ باشیم۔“ (2)

”(اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیے گئے علوم میں سے ایک یہ ہے:) قرآن حکیم کا فارسی زبان میں ایسا ترجمہ کیا ہے جو کہ الفاظ کی مقدار میں اور تخصیص و تعمیم وغیرہ میں عربی زبان کے الفاظ کے عین مطابق ہے۔ اور اس کو ہم نے ”فتح الرّحمٰن بترجمة القُرآن“ میں اچھی طرح لکھا ہے۔ اگرچہ بعض مقامات میں قارئین کے نہ سمجھنے کے خوف سے، بلا تفصیل عربی زبان کے الفاظ کے مطابق الفاظ لانے کی شرط کو چھوڑ دیا ہے۔“

                اس ترجمہٴ قرآن کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور ترجمہ ”فتح الرحمن“ کی امتیازی خصوصیات کیا ہیں؟ شاہ صاحب نے ان سوالوں کے جوابات ”مقدمہٴ فتح الرحمن“ میں تفصیل سے دیے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے اپنے اس ترجمہٴ قرآن حکیم کی پانچ امتیازی خصوصیات کا ذکر کیا ہے:

۱-            قرآنی الفاظ کی مقدار اور تناسب کے مطابق فارسی الفاظ میں ان کا ترجمہ کیا ہے۔

۲-           قصصِ قرآنیہ کا بہ قدرِ ضرورت بیان ہے۔

۳-          عربی زبان و اَدب اور علمِ حدیث و فقہ کے حوالے سے بہترین توجیہات و تعبیرات اختیار کی ہیں۔

۴-          اعراب و ترکیب قرآن کو درست تناظر میں سمجھنے کی صلاحیت اور اس کا فہم و شعور پیدا کیا ہے۔

۵-           ترجمہ نگاری کے انتہائی جامع اسلوب کا استعمال کیا ہے۔ (3)

ترجمہ نگاری کی اہمیت:

                شاہ صاحب کے نقطہٴ نگاہ میں صحیح طریقے پر ترجمہ نگاری کی بڑی اہمیت ہے۔ ایک ایسے زمانے میں، جب کہ دنیا بھر میں علما اس بحث میں اُلجھے ہوئے تھے کہ قرآن حکیم کا ترجمہ کسی دوسری زبان میں کرنا جائز بھی ہے یا نہیں؟ شاہ صاحب نے اس پر بڑا زور دیا ہے کہ اگر لوگوں کی عمومی زبان، علوم و فنون کی زبان سے مختلف ہو تو یہ بہت ضروری ہے کہ ایسے علوم کا عام لوگوں کی زبان میں ترجمہ کیا جائے۔ شاہ صاحب کا نقطہٴ نگاہ یہ ہے کہ لوگوں کے لیے علوم و فنون کا صحیح فہم و شعور اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک کہ انھیں کی زبان میں ان علوم و فنون کا ترجمہ نہ کیا جائے؛ چناں چہ شاہ صاحب فرماتے ہیں:

”و دریں زمانہ کہ ما در آنیم، و دریں اقلیم کہ ما ساکنِ آنیم، نصیحت ِمسلماناں اقتضاء می کنند کہ ترجمہٴ قرآن بزبانِ فارسی سلیس، روزمرہ، متداول، بے تکلف فضیلت نمائی و بے تصنع عبارت آرائی، بغیر تعرضِ قصص مناسبہ،و بغیر ایرادِ توجیہاتِ منشعبہ تحریر کردہ شود؛ تا خواص و عوام ہمہ یکساں فہم کنند، و صغار و کبار بیک وضع ادراک نمایند۔“ (4)

”آج ہم جس زمانے میں ہیں، اور جس ملک (برصغیر ہندوستان) میں رہتے ہیں، مسلمانوں کی خیر خواہی کا تقاضہ یہ ہے کہ قرآنِ حکیم کا ترجمہ سلیس فارسی زبان میں روز مرہ محاورہ کو سامنے رکھتے ہوئے کیا جائے۔ جس کی عبارت ہر قسم کے تصنع، بناوٹ اور خودنمائی سے پاک ہو اور اس میں قصص و واقعات اور غیر ضروری توجیہات و تشریحات کے بجائے آیات کا ترجمہ پیش کیا جائے؛ تاکہ عوام و خواص یکساں طور پر اس کو سمجھیں، اور چھوٹے بڑے ایک ہی نہج پر اس کا شعور حاصل کریں۔“

                اس طرح شاہ صاحب نے اپنے زمانے میں بامحاورہ فارسی ترجمے کی اہمیت کو واضح کیا اور ترجمہ نگاری کے ایک ایسے اسلوب کی اہمیت واضح کی، جس میں رائج زبان کا بامحاورہ ترجمہ سلیس انداز میں کیا جائے۔

                شاہ صاحب کے نزدیک ترجمہ نگاری کی اہمیت اس حوالے سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ آپ نے بہت سے موقعوں پر کتابوں کے تراجم کے مطالعے کی اہمیت کو واضح کیا ہے؛ یہاں تک کہ کتاب فہمی کے ضمن میں استاد کی ذمہ داریاں بیان کرتے ہوئے کتاب کے بامحاورہ ترجمے کی اہمیت واضح کی ہے؛ چناں چہ شاہ صاحب نے کتاب فہمی کے حوالے سے ایک مستقل فن، ”فن دانش مندی“ مرتب کیا ہے۔ اور اس کے لیے اسی عنون سے ایک رسالہ بھی لکھا ہے۔ اس میں ایک استاد کے فرائض اور ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہوئے ایک ذمہ داری یہ بھی بیان کی ہے کہ وہ کتاب کی تفہیم کے لیے اس کا صحیح ترجمہ بھی طالب ِعلموں کے سامنے بیان کرے؛ چناں چہ شاہ صاحب لکھتے ہیں:

”ترجمہٴ عبارتِ کتاب بلغتِ شاگرداں، اگر لغت ایشاں مخالف کتاب باشد۔“ (5)

”(کتاب فہمی کے حوالے سے استاد کو چاہیے کہ) اگر شاگردوں کی زبان کتاب کی زبان سے مختلف ہو تو کتاب کی عبارت کا ترجمہ بھی بیان کرے۔“

                اسی طرح شاہ صاحب نے اپنے متبعین کو جو چند وصیتیں کی ہیں، اس میں بھی انھوں نے یہ لازمی قرار دیا ہے کہ کتاب و سنت کا مطالعہ کیا جائے اور اگر کوئی آدمی عربی زبان نہ جانتا ہو تو اسے ان کے ترجمے پڑھنے یا سننے کا معمول بنانا چاہیے؛ چناں چہ اپنے وصایا میں لکھتے ہیں:

”و ہر روز حصہٴ از ہر دو (کتاب و سنت) خواندن۔ و اگر طاقت خواندن نہ دارد ترجمہٴ ورقے از ہر دو شنیدن۔“ (6)

”روزانہ کتاب و سنت کا کچھ حصہ ضرور پڑھنا چاہیے۔ اور اگر خود پڑھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو ان دونوں کے ترجمے کا ایک آدھ ورق ضرور سننا چاہیے۔“

                کتاب و سنت کے ترجموں کی اسی اہمیت کے پیش نظر شاہ صاحب نے نہ صرف قرآن حکیم کا بہترین ترجمہ کیا؛ بلکہ ترجمہ نگاری کے جامع اُسلوب اور اس کے قوانین و ضوابط بھی مرتب اور مدوّن کیے۔ اور اس سلسلے میں ایک مستقل رسالہ ”المقدمہ فی قوانین الترجمہ“ ضبط ِتحریر میں لایا۔ جس میں ترجمہ نگاری کے اصول و ضوابط اور اس کے مختلف پہلووٴں پر اظہارِ خیال فرمایا۔

”المقدمہ فی قوانین الترجمہ“ کی تالیف کا سبب:

                شاہ صاحب نے جب قرآن حکیم کا یہ معرکة الآرا ترجمہ شروع کیا تو ترجمہ نگاری کے حوالے سے چند اسلوب آپ کے پیش نظر تھے۔ شاہ صاحب نے ان اسالیب میں موجود خرابیوں کا اِدراک کیا۔ اور اس حوالے سے انھوں نے ایک نیا اور جامع اسلوب متعارف کرانے کا فیصلہ کیا۔ اس اسلوب کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور اس کی اہمیت کیا ہے؟ نیز اس اسلوب کے بنیادی قواعد و ضوابط کیا ہیں؟ یہ اور ان جیسے دیگر سوالات کے جوابات کے لیے شاہ صاحب نے یہ رسالہ تصنیف فرمایا؛ چناں چہ ”مقدمہ فتح الرحمن“ میں ”المقدمہ فی قوانین الترجمہ“ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے شاہ صاحب لکھتے ہیں:

”ترجمہ خالی از دو حالت نیستند: یا ”ترجمہ تحت اللفظ“ مے باشد، یا ”ترجمہ حاصل المعنی“۔ و در ہر یکے وجوہِ خلل بسیار درمے یابد۔ و ایں ترجمہ جامع است و در ہر دو طریق و ہر خللے را ازاں خللہا علاجے مقرر کردہ شد۔ ایں سخن دراز است، در ”رسالہ قواعد ِترجمہ“ بیان کردہ آید۔“ (7)

”(عام طور پر) ترجمے دو حال سے خالی نہیں ہیں: یا ”لفظی ترجمہ“ کیا گیا ہے؛ یا ایسا ترجمہ جس میں معنی کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔ ہر ایک اسلوب میں خرابی کی بہت سی شکلیں پائی جاتی ہیں۔ یہ ترجمہ (فتح الرّحمٰن بترجمة القُرآن) ان دونوں اسالیب ِنگارش کا جامع ہے۔ اس میں ان دونوں کی خرابیوں کا علاج کردیا گیا ہے۔ یہ بات بڑی لمبی ہے۔ ”رسالہ قواعد ِترجمہ“ میں بیان کردی گئی ہے۔“

                شاہ صاحب کی اس عبارت سے اس رسالے کی تالیف کے مقاصد واضح ہوجاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس رسالے کا اصل مقصد ترجمہ نگاری کے اسالیب پر بحث کرنا اور ترجمے کے ایک جامع اسلوبِ نگارش کی دریافت ہے۔ نیز اس جامع اسلوب کے اصول و قوانین کی نشان دہی کرنا ہے۔

                آپ کے صاحبزادے حضرت شاہ رفیع الدین دہلوی نے بھی اس رسالے کا تذکرہ اپنی کتاب ”تکمیل الاذہان“ میں کیا ہے۔ اور بتلایا ہے کہ والد ِمحترم نے ترجمے کے اصول و قوانین مرتب و مدوّن کیے ہیں۔ شاہ رفیع الدین دہلوی تصنیف و تالیف کی حقیقت و ماہیت اور ان کی مختلف اقسام کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

          ”التصنیف․․․ لغةً بلغةٍ اخرٰی و دوّن والدی رضی اللہ عنہ قوانین الترجمة“․(8)

”تصنیف و تالیف کی ایک قسم یہ ہے کہ ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کیا جائے۔ اور میرے والد اللہ ان سے راضی ہوجائے نے ترجمے کے قوانین مدوّن کیے ہیں۔“

”المقدمہ فی قوانین الترجمہ“ کا سن تالیف:

                ”المقدمہ فی قوانین الترجمہ“ کا سن تصنیف و تالیف کیا ہے؟ اس سلسلے میں ایک رائے ڈاکٹرمولانا محمدسعود عالم قاسمی نے اختیار کی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ:

”اس رسالے کی تصنیف فتح الرحمن کی تسوید کے وقت عمل میں آئی۔ جیسا کہ خود شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ: ”یہ رسالہ ترجمہ قرآن کے قاعدوں کے بیان میں ہے۔ اس کا نام ”المقدمہ فی قوانین الترجمہ“ ہے۔ اسے فتح الرحمن کی تسوید کے وقت ضبط ِقلم کیا گیا ہے۔“ اور فتح الرحمن کے مسودے کی تکمیل شاہ صاحب نے شعبان 1151ھ بتائی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رسالہ 1150ھ سے 1151ھ کے درمیان لکھا گیا ہے۔“ (9)

                ہماری رائے یہ ہے کہ اس رسالے کی تالیف کایہ سن متعین کرنا درست نہیں؛ بلکہ اندازہ ہے کہ حضرت شاہ صاحب نے اپنے سفر حرمین شریفین سے پہلے ”زہراوین“ (سورة بقرہ و آلِ عمران) کے ترجمے کا مسودہ تیار کرنے کے دوران غالباً 1142ھ میں اس رسالے کی تصنیف و تالیف کی ہے؛ اس لیے کہ حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلوی نے قرآن حکیم کا ترجمہ رمضان 1151ھ /دسمبر 1738ء میں مکمل کیا۔ ترجمہ قرآن حکیم کا یہ کام وقفے وقفے سے تقریباً نو دس سال تک چلتا رہا۔ ”فتح الرّحمن“ کے مقدمے میں شاہ صاحب نے اس کی تفصیلات بیان فرمائی ہیں۔ اس طویل عرصے کا ایک سبب شاہ صاحب نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس کام کے دوران حرمین شریفین کا سفر درپیش ہوگیا۔ حضرت شاہ صاحب حرمین شریفین کے سفر پر دہلی سے 08/ ربیع الثانی 1143ھ / 21/ اکتوبر 1730ء کو روانہ ہوئے تھے۔ اور 14/ رجب 1145ھ / یکم/ جنوری 1733ء کو واپس دہلی تشریف لائے۔ (10) سفر حرمین سے پہلے شاہ صاحب اپنا ترجمہ ”سورة آلِ عمران“ تک مکمل کرچکے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن حکیم کے ترجمے کا آغاز اندازاً 1142ھ / 1729ء کے آخر میں ہوچکا تھا۔

                ہماری رائے یہ ہے کہ اس رسالے کی تصنیف کا زمانہ حرمین شریفین کے سفر سے پہلے کا ہے۔ اس لیے کہ اس رسالے میں شاہ صاحب نے زیادہ تر ترجمہ نگاری کے اَسالیب پر بحث کی ہے۔ اور یہ حقیقت خود شاہ صاحب نے بیان کی ہے کہ ترجمہ کرنے والوں کے کام کے نقائص اور خرابیوں پر مطلع ہونے کے بعد ہی انھوں نے نئے ترجمہ قرآن کا ارادہ فرمایا۔ چناں چہ ”فتح الرّحمٰن“ کے مقدمے میں لکھتے ہیں:

”ایں فقیر را داعیہٴ ایں امرِ خطیر بخاطر ریختند، و خواہ مخواہ برسرِ آں آوردند۔ یک چند در تفحص ترجمہ ہا اُفتاد تا ہر کرا از تراجم غیرِ آں کہ بخاطر مقرر شدہ است مناسب یابد، در ترویج آں کوشد۔ و کیف ما امکن پیش اہلِ عصر مرغوب نماید۔ در بعض تطویل مملّ یافت و در بعض تقصیر مخل۔ ہیچ یک موافق آں میزان نہ اُفتاد۔ لاجرم عزمِ تالیف ِترجمہٴ دیگر مصمم شد، و تسوید ِترجمہٴ ”زہراوین“ بر روئے کار آمد۔ بعد ازاں سفرِ حرمین اتفاق افتاد و آں سلسلہ از ہم گسست۔“ (11)

”اس فقیر کے دل میں اس امر عظیم (یعنی سلیس فارسی زبان میں قرآن حکیم کا ترجمہ) کرنے کا خیال پیدا کیا گیا۔ اور پورے جوش کے ساتھ خیالات کا یہ سلسلہ برابر جاری رہا۔ ایک دفعہ تو میں نے چاہا کہ قرآن حکیم کے جو پہلے ترجمے ہوچکے ہیں، ان میں ہی تحقیق و تفتیش کی جائے۔ اگرچہ وہ ہمارے ذہن میں آنے والے معیار کے مطابق نہ بھی ہوں؛ تاہم ان میں سے کوئی ترجمہ مناسب ہو، تو اُس کی ترویج و اشاعت کی جائے۔ اور جیسے بھی ممکن ہو، اُسے اہل زمانہ کے سامنے بہتر بنا کر پیش کردیا جائے۔ (لیکن جب ان سابقہ تراجم کو دیکھا گیا، تو) بعض ان میں سے اتنے لمبے اور طویل تھے کہ انھیں دیکھ کر اُکتاہٹ ہوتی تھی۔ اور بعض اتنے مختصر تھے کہ مفہوم سمجھنا بھی دُشوار تھا۔ ان ترجموں میں سے کوئی بھی ہمارے ذہن میں قائم شدہ معیار کے مطابق نہ تھا۔ اس طرح بہر حال ایک نئے ترجمے کی تالیف کا عزم پختہ کرنا پڑا۔ اور زہراوین (سورة بقرة و آلِ عمران) کے ترجمے کا مسودہ تیار ہوگیا تھا۔ اس کے بعد حرمین کے سفر کا اتفاق ہوگیا تھا۔ اس طرح ترجمے کا یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔“

                اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب شاہ صاحب نے قرآن حکیم کے مختلف تراجم کی تحقیق و تفتیش کی تو ترجمہ نگاری کے کئی اسالیب آپ کے سامنے آئے۔ انھیں کو سامنے رکھ کر شاہ صاحب نے ”المقدمہ فی قوانین الترجمہ“ میں ان اسالیب پر بحث اور گفتگو کی۔ اور ان میں موجود خرابیوں اور نقائص کی نشان دہی کی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ”زہراوین“ کے ترجمے کے مسودے کی تیاری کے دوران یہ رسالہ مرتب و مدوّن ہوا۔ اس تناظر میں شاہ صاحب نے رسالے کے آغاز میں جو کچھ لکھا ہے، اس سے مراد ”زہراوین“ کے مسودے کی تیاری کا زمانہ ہے، نہ کہ 1151ھ (دسمبر 1738ء) میں باقی قرآن حکیم کے ترجمے کے مسودے کا زمانہ مراد ہے۔ اس کا ایک قرینہ یہ بھی ہے کہ 1151ھ (دسمبر 1738ء) میں ”فتح الرّحمٰن بترجمة القرآن“ مکمل ہونے پر شاہ صاحب نے اس کا مقدمہ الگ سے تحریر کیا ہے۔ جب کہ ”المقدمہ فی قوانین الترجمہ“، ”زہراوین“ پر مشتمل سورتوں کے ترجمے سے پہلے بطور مقدمے کے شاہ صاحب نے لکھا تھا۔

                ہماری اس رائے کی تائید حضرت مولانا محمدحفظ الرحمن سیوہاری کی اس عبارت سے بھی ہوتی ہے، جو انھوں نے اس رسالے کے تعارف کے شروع میں تحریر فرمائی تھی؛ چناں چہ مولانا سیوہاروی لکھتے ہیں:

”بہت کم اہل علم ہیں، جن کے علم و خبر میں یہ بات ہے کہ حضرت شاہ صاحب نوراللہ مرقدہ نے قرآن حکیم کا ترجمہ شروع کرنے سے قبل چند صفحات کا ایک مقدمہ (المقدمہ فی قوانین الترجمہ) بھی تصنیف فرمایا تھا۔“ (12)

                مولانا سیوہاروی کی اس تحریر سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کی رائے بھی یہی ہے کہ اس رسالے کی تصنیف 1142ھ /1729ء میں ہوئی ہے۔ یہی رائے زیادہ درست اور صحیح ہے۔

”المقدمہ فی قوانین الترجمہ“ کے چند مخطوطات:

                اگرچہ اس رسالے کا تذکرہ شاہ صاحب نے ”مقدمہ فتح الرحمن“ میں کیا تھا؛ لیکن ایک بڑے عرصے تک یہ رسالہ عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہا۔ اگرچہ اس کے قلمی مخطوطے بہت سی جگہوں پر موجود تھے؛ لیکن اس کی طباعت کی کوئی شکل نہیں تھی۔ عام طور پر سب سے پہلے اس رسالے کا تذکرہ اس وقت سننے میں آیا، جب اکتوبر، نومبر 1945ء میں حضرت مولانا محمد حفظ الرحمن سیوہاروی نے اس کے ایک مخطوطے کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا اصل فارسی متن اور اردو ترجمہ ماہ نامہ ”برہان“ دہلی سے شائع کیا۔ اس اشاعت کے بعد سے اہل علم کی توجہ اس رسالے کی طرف ہوئی۔

دریافت شدہ پہلا مخطوطہ:

                اس رسالے کا دریافت شدہ پہلا مخطوطہ وہی ہے، جس سے نقل کرکے حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے اسے شائع کیا تھا۔ اگرچہ اس کے بارے میں انھوں نے یہ نہیں لکھا کہ یہ مخطوطہ کس کتب خانے کی زینت ہے؟ اور انھوں نے اسے کہاں سے حاصل کیا؟ تاہم مولانا سیوہاروی اس مخطوطے کا تذکرہ اس طرح کرتے ہیں:

”اس مقدمے کا نام ”مقدمہ فی قوانین الترجمہ“ ہے۔ اور جلی قلم سے درمیانی سائز کے تقریباً 12 صفحات پر مشتمل ہے۔ نامعلوم کن وجوہ کی بنا پر یہ مقدمہ ترجمے کے ساتھ شائع نہ ہوسکا۔ اور آج تک قلمی مخطوطات میں شامل ہے۔ ․․․․․․ ہم کو یہ ”مقدمہ“ اپنے ایک محب ِصادق کے ذریعے حاصل ہوا ہے۔ جن کو مخطوطاتِ علمی کا بے حد ذوق ہے۔ “ (13)

                یہ محب ِصادق کون ہیں؟ اور یہ مخطوطہ کس کتب خانے میں ہے؟ اس کے بارے میں مزید معلومات ہمیں مولوی ابوالطیب عبدالرشید صاحب لاہوری کے ایک مضمون سے ملتی ہیں۔ موصوف نے ”معارف“ اعظم گڑھ کی فروری 1948ء کی اشاعت میں ایک مضمون ”کتب خانہ ٹونک کے بعض مخطوطات“ کے عنوان سے لکھا۔ اس مضمون میں انھوں نے اپنے ٹونک میں قیام کے زمانے میں لکھی گئی یادداشت کی روشنی میں کتب خانہ ٹونک کے چند مخطوطات کا تعارف کرایا ہے۔ جس میں اس رسالے کا تعارف، مخطوطے کی نوعیت اور اس کے ناقل کے بارے میں درجِ ذیل وضاحت کی ہے:

”المقدمہ فی اصول الترجمہ“ یہ رسالہ بزبانِ فارسی حکیم الامت سیدنا شیخ ولی اللہ بن عبدالرحیم دہلوی کی تصنیف ہے۔ گو یہ ۱۲، ۱۳ صفحے کا مختصر رسالہ ہے۔ مگر مضمون کی ندرت اور خصوصیات کے لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ ترجمہ قرآن کے فن پر اپنے طرز کا یہ پہلا رسالہ ہے۔ فن ترجمہ قرآن کی جن خصوصیات کا اس رسالے میں ذکر کیا گیا ہے، ان کے اپنے ترجمہ قرآن (فتح الرّحمٰن) میں التزام رکھا ہے۔ ․․․

اکتوبر ۴۶ء (صحیح 1945ء ہے) کے ”برہان“ دہلی میں اسی ”مقدمے“ کو مختصر نوٹ کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔ ”برہان“ کا یہ شائع کردہ رسالہ راقم سطور کے ٹونک لائبریری کے نسخے سے نقل کیا ہوا ہے۔ اس نسخے کے طبع کرانے میں بڑی عجلت سے کام لیا گیا ہے۔ ضرورت تھی کہ اس کے دوسرے نسخوں کو تلاش کرکے ان سے تصحیح و مقابلے کے بعد شائع کیا جاتا۔ راقم سطور نے مختلف نسخوں کی مدد سے اس کی تصحیح کرلی ہے۔ اور اِن شاء اللہ تعالیٰ عن قریب اِسے شائع کیا جائے گا۔“

                انھوں نے یہ اطلاع بھی دی ہے کہ:

”اس رسالے کا ایک قلمی نسخہ مولانا سید نورالحق علوی استاذ اورنٹیل کالج لاہور کے یہاں بھی ہے۔ ان دونوں نسخوں میں کہیں کہیں الفاظ میں زیادتی اور کمی کا معمولی سا فرق ہے۔“ (14)

                ٹونک لائبریری کے اس مخطوطے کے آخر میں ”ترقیمہٴ کاتب“ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے کاتب ”محمد علی حسینی سقطی“ ہیں۔ اور انھوں نے اسے جمادی الاخریٰ 1227ھ (جون 1812ء) میں نقل کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نسخہ اپنے سن تالیف 1142ھ / 1729ء کے چھیاسی سال بعد لکھا گیا ہے۔ ترقیمہٴ کاتب اس طرح سے ہے:

          ”بحمد اللّٰہ و المِنّة کہ إیں رسالہ متبرکہ بتاریخ بست و یکم/ جمادی الثانی ۱۲۲۷ھ (جون 1812ء) بخط عاصی پُر معاصی محمد علی الحسینی السقطی بإختتام رسید۔ اللّٰہم اغفر لکاتبہ۔“ (14)

”اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا اور اس کے احسان کے ساتھ (کتابت پوری ہوئی)، یہ متبرک رسالہ بتاریخ 21/ جمادی الثانی 1227ھ (جون 1812ء) میں اس گناہ گار محمد علی حسینی سقطی کے خط سے اختتام پذیر ہوا۔ اے اللہ! اس رسالے کے کاتب کے گناہوں کو معاف فرما۔“

                اس مخطوطے میں بہت سی اغلاط ہیں۔ اور غالباً کِرم خوردگی کی وجہ سے عبارات کا تسلسل بھی باقی نہیں رہا۔ لیکن چوں کہ اس کی دریافت اہل علم کے سامنے سب سے پہلے ہوئی تھی؛ اس لیے ان تمام اغلاط کے باوجود اس مخطوطے کی بڑی اہمیت رہی۔ حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلوی کے ساتھ نسبت کی وجہ سے اس مخطوطے کو بہت غنیمت سمجھا گیا؛ چنانچہ اسی کو بنیاد بنا کر اس کا اردو ترجمہ حضرت مولانا سیوہاروی نے کیا۔ اور فوری طور پر اسے ”برہان“ کے ذریعے اہل علم کے سامنے پیش کردیا؛ چنانچہ مولانا سیوہاروی اس مخطوطے کے بارے میں لکھتے ہیں:

”یہ رسالہ اَغلاط سے پُر ہے؛ بلکہ بعض جگہ عبارات کا تسلسل تک مفقود ہے؛ مگر ان باتوں کے باوجود افادیت کا حامل ہے۔ اور قرآن حکیم کے ترجمے سے متعلق اصولِ قوانین کے لیے بہترین مشعل ہدایت اور باوجود اختصار کے اہم نکات و حقائق سے پُربدامان ہے؛ اس لیے اربابِ ذوقِ قرآنی کی خاطر یہی مناسب معلوم ہوا کہ بعجلت ”برہان“ کے ذریعے اس کو روشناس کرایا جائے۔ اور اصل رسالے کو کتابت کے نقائص و معائب کے باوجود منصہ شہود پر لے آیا جائے۔“ (15)

                حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کا ارادہ یہ تھا کہ اس رسالے کے تمام مخطوطات کی نقولات جمع کی جائیں اور اصل سے مقابلہ کرکے مختصر تشریحی نوٹ لکھ کر تحقیقی انداز میں اسے مرتب اور مدوّن کیا جائے اور اسے ایک مستقل رسالے کی شکل میں شائع کرایا جائے؛ چناں چہ مولانا لکھتے ہیں:

”اس کے بعد انشاء اللہ جلد ہی دوسری نقول اور اصل کا مقابلہ کرکے مع ترجمہ اور مختصر نوٹوں کے ساتھ مستقل رسالے کی شکل میں پیش کیا جائے گا۔“ (16)

                بعد کی معلومات سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالباً حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کو اس کا موقع نہیں ملا؛ لیکن ان کی جانب سے کی جانے والی مذکورہ بالا اشاعت سے یہ ضرور ہوا کہ اہل علم کو اس سے آگہی حاصل ہوئی۔ اور اس طرح یہ رسالہ عام لوگوں کے لیے بھی منصہ شہود پر آگیا۔

رسالے کا دوسرا مخطوطہ:

                اس رسالے کا دوسرا مخطوطہ وہ ہے، جو دارالعلوم ندوة العلما لکھنوٴ (انڈیا) کے کتب خانے کی زینت ہے۔ اور دہلی سے تعلق رکھنے والے ایک دوست (17) کی وساطت سے ہمیں اس کی نقل دستیاب ہوئی۔ اس نسخے کا عکس ہمارے سامنے ہے۔ یہ نسخہ 24*12 سینٹی میٹر سائز کے 06 صفحات پر مشتمل ہے۔ خط انتہائی صاف اور پختہ ہے۔ بعض مقامات پر عبارت اگرچہ مدھم ہے، اور صاف پڑھی نہیں جاتی۔ مخطوطے کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعض جگہوں پر کرم خوردگی کے اثرات بھی ہیں۔ یہ قلمی نسخہ سید ابراہیم نصیرآبادی کے قلم سے کتابت شدہ ہے۔ اس کے آخر میں ترقیمہٴ کاتب اس طرح سے ہے:

          ”بحمد اللہ و المنّة علٰی إتمام ھٰذہ الرسالة المتبرّکة مسمّاة بِ ’المقدمة فی قوانین الترجمة“، بتاریخ سیزدھم، شھر محرم الحرام ۱۲۳۲ھجری المقدسة (دسمبر 1816ء) علٰی ید الضعیف النحیف العاصی سید ابراھیم النصیرآبادی؛ أصلح اللہ حالہ و لآبائہ الکرام و أدخلھم فی فردوس الجنان۔ اللّٰھم اغفرلھم و لکاتبہ و لناظرہ بحمد اللہ سبحانہ۔ (18)

”سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ اور اسی کا انعام ہے کہ اس متبرک رسالے، جس کا نام ”المقدمہ فی قوانین الترجمہ“ ہے۔ بتاریخ 13/ ماہِ محرم 1232ھ (دسمبر 1816ء) کو اس کمزور، گناہ گار بندے، جس کا نام سید ابراہیم نصیرآبادی ہے، کے ہاتھ پر تکمیل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ اس کی اور اس کے معزز آبا وٴ اجداد کی حالت کو درست کرے۔ اور انھیں جنت الفردوس میں داخل کرے۔ اے اللہ! ان کو معاف فرما اور اس رسالے کے کاتب اور اس کے پڑھنے والوں کے گناہوں کو بھی معاف فرما۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی تعریف کے ساتھ۔“

                یہ مخطوطہ اپنے وقت ِتالیف (1142ء / 1729ء) کے تقریباً 90 سال بعد کا تحریر کیا ہوا ہے۔

                ہم نے اس رسالے کے فارسی متن کی تحقیق میں اس مخطوطے کو اپنے سامنے رکھا ہے۔ اور حوالے کے طور پر اس کے لیے ”نسخہٴ نصیر آبادی“ استعمال کیا گیا ہے۔

تیسرا مخطوطہ:

                اس رسالے کا ایک تیسرا مخطوطہ بھی ہے۔ اس کا اصل نسخہ بھی دارالعلوم ندوة العلما، لکھنوٴ کے کتب خانے کی زینت ہے۔ اسے کتب خانے میں ”اصولِ تفسیر فارسی“ کے ذیل میں پہلے 1/2493 نمبر دیا گیا تھا۔ پھر 2493 کاٹ کر صرف 19 (ع) نمبر دیا گیا ہے۔ اس کا عکس بھی ہمیں اپنے انہی کرم فرما دوست کے ذریعے سے ملا ہے۔ اس مخطوطے کا عکس ہمارے سامنے ہے۔ یہ مخطوطہ 30 *15 سینٹی میٹر سائز کے 06 صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ مخطوطہ بھی انتہائی پختہ قلم اور بہت نفاست کے ساتھ لکھا گیا ہے۔ الفاظ کی ساخت اور بناوٹ بھی خوب ہے۔ اس نسخے کے عکس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے صفحات کے اَطراف پانی کی زد میں آئے ہیں۔ جس کی وجہ سے اطراف کی عبارتیں گو مدھم ہیں؛ لیکن صاف پڑھی جاتی ہیں۔ صفحات کے درمیان میں جہاں پانی نہیں پہنچا، اس کے الفاظ بہت نمایاں اور بہترین ہیں۔ افسوس کہ اس مخطوطے کے آخر میں کوئی ”ترقیمہٴ کاتب“ نہیں ہے۔ جس سے حتمی طور پر اس کے لکھنے والے کا نام اور تاریخِ تحریر معلوم نہیں ہوتی۔

                ہم نے اس رسالے کے فارسی متن کی تحقیق میں اس مخطوطے کو بھی بالاستیعاب پڑھا ہے۔ اور متن کی ترتیب و تدوین میں اس کو پیش نظر رکھا ہے۔ اور اس کے لیے ”دوسرے نسخے“ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔

”المقدمہ فی قوانین الترجمہ“ کی اب تک کی اشاعتیں:

                اس رسالے کی سب سے پہلی اشاعت تو وہی ہے، جو اکتوبر، نومبر 1945ء میں ماہ نامہ ”برہان“ دہلی کے ذریعے سے سامنے آئی تھی۔ اس اشاعت میں مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے نہ صرف اس رسالے کا اصل فارسی متن نقل کرکے شائع کیا تھا؛ بلکہ خود اس کا اردو ترجمہ کرکے اُسے بھی شاملِ اشاعت کیا تھا۔ اس اشاعت میں اصل مخطوطے کے نقص کے باوجود اس رسالے کے فارسی متن کی تصحیح حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے کافی محنت سے کی ہے۔ چند ایک مقامات کو چھوڑ کرباقی جگہوں پر متن کی عبارت درست ہے؛ البتہ بعض جگہوں پر کتابت کی غلطیوں کی وجہ سے عبارتیں صحیح نہیں ہیں۔ اور بعض مقامات پر نسخے کی کِرم خوردگی کی وجہ سے اصل عبارتیں چھٹی ہوئی ہیں۔ اس لیے اس کے اردو ترجمے میں بھی ایسے مقامات پر نقص موجود ہے۔ اور بقول مولانا سیوہاروی: ”اس کو بغیر تحقیق کے بعجلت شائع کیا جا رہا ہے“؛ اس لیے اس اشاعت میں یہ نقائص موجودہے۔ اس اشاعت کے شروع میں مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے چار صفحات پر مشتمل ایک تعارف بھی لکھا ہے۔ جس میں ترجمہ نگاری کے بعض اہم پہلووٴں پر علمی محاکمہ انتہائی خوب صورت انداز میں بیان کیا ہے۔

                اس کی دوسری معلوم اشاعت حال ہی میں ایک معاصر سہ ماہی ”اسلام اور عصر جدید“ دہلی کے جولائی تا اکتوبر 2010ء میں ہوئی۔ اس اشاعت میں رسالے کا اصل متن شائع کیا گیا ہے۔ لیکن اس متن کی ترتیب و تدوین کس نے کی ہے، اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ اور نہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ فارسی متن کی تیاری میں کس مخطوطے کو سامنے رکھا گیا ہے۔ اس اشاعت میں اصل متن میں بہت سی اَغلاط ہیں۔ جن سے عبارت کا اصل مفہوم بدل کر رہ گیا ہے۔ اسی کے ساتھ اس رسالے کا ایک اردو ترجمہ محمد مشتاق تجاوری صاحب کے قلم سے ہے۔ اس ترجمے میں بھی کئی اَغلاط ہیں۔ ترجمے کے بعض مقامات ایسے ہیں، کہ جہاں پر اصل عبارت سے متصادم مفہوم سامنے آتا ہے۔ چوں کہ متن کی صحیح ترتیب و تدوین نہیں کی گئی، اس کا اثر ترجمے پر بھی لازمی طور پر آیا ہے۔ رسالے کی اس اشاعت میں جو متن اور ترجمہ شائع کیا گیا ہے، اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔

                ایسے میں ضرورت تھی کہ اس رسالے کا اصل متن، د ستیاب مخطوطات کو سامنے رکھ کر تیار کیا جائے۔ اور ترجمہ نگاری کے اُسی جامع اسلوب کو سامنے رکھ کر اس رسالے کا ترجمہ کیا جائے، جس کے اصول و قوانین شاہ صاحب نے اس رسالے میں بیان کیے ہیں۔

”المقدمہ فی قوانین الترجمہ“ کی بہترین اشاعت:

                ہم نے اس رسالے کا تحقیقی متن تیار کیا ہے۔ جو سہ ماہی مجلہ ”شعور و آگہی“ لاہور، جلد نمبر03، شمارہ نمبر03، بابت ماہِ جولائی تا ستمبر 2011ء میں شائع ہوا ہے۔ اس اشاعت میں ہم نے اس رسالے کے د ستیاب مذکورہ بالا دونوں قلمی نسخوں اور دونوں اشاعتوں کو پیش نظر رکھ کر اس کا اصل فارسی متن صحیح طور پر مرتب کیا ہے۔ نیز شاہ صاحب کی عبارتوں کی درست تفہیم کے لیے ذیلی عنوانات بھی قائم کردیے ہیں، جنھیں بریکٹ کے درمیان رکھا گیا ہے۔ نیز رسالے میں بیان کردہ اصول و قوانین اور بنیادی امور و نکات پر نمبرات بھی لگا دیے گئے ہیں؛ تاکہ استفادے میں آسانی ہو۔ اس اشاعت میں نہ صرف رسالے کا اصل فارسی متن تحقیق کے ساتھ شائع ہوا ہے؛ بلکہ اس کا سلیس اردو ترجمہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ اس ترجمے میں ہم نے حتی المقدور ترجمہ نگاری کے اُن اصولوں کو پیش نظر رکھنے کی کوشش کی ہے، جو خود شاہ صاحب نے اس رسالے میں بیان فرمائے ہیں۔

”المقدمہ فی قوانین الترجمہ“ کے مضامین پر ایک نظر:

                شاہ صاحب نے ابتدائی خطبے اور دیباچے کے بعد اس رسالے کو دو فصلوں میں تقسیم کیا ہے:

                پہلی فصل میں ترجمہ نگاری کے اسالیب پر بحث کی ہے۔ اور ان کا تحلیل و تجزیہ کرکے ترجمہ نگاری کے ایک ایسے جامع اسلوبِ ترجمہ کی ضرورت و اہمیت پر زور دیا ہے، جو بامحاورہ اور سلیس زبان میں کیا جائے۔ پھر اس اسلوب کی خصوصیات اور اس کے اصول و قوانین کی پوری وضاحت کی ہے۔ خاص طور پر عربی اور فارسی کے اسلوبِ بیان کے اختلافی مقامات کی نشان دہی کی ہے۔ اور ایسے مشکل مقامات میں صحیح ترجمہ کرنے کے طریقے بیان کیے ہیں۔

                اور دوسری فصل میں فارسی الفاظ و تراکیب کے استعمالات کی نشان دہی کی ہے۔اور ایسے موقعوں پر فن ترجمہ کی باریکیوں اور حقائق و دقائق بیان کیے ہیں۔ اور اس حوالے سے اصول و ضوابط کی وضاحت کی ہے۔

                ان دو فصلوں پر رسالہ مکمل ہوجاتا ہے۔ اب تک دریافت شدہ قلمی نسخوں میں دو ہی فصلوں کا تذکرہ ہے۔ بعض حضرات نے اس رسالے کے بعض مقامات پر بلاضرورت ”فصل“ کا جو عنوان قائم کیا ہے، وہ درست نہیں ہے۔(19)

ترجمہ نگاری کے اسالیب کا تجزیہ:

                پہلی فصل میں شاہ صاحب نے سب سے پہلے ترجمہ کرنے والوں کے اسلوبِ نگارش پر نظر کرتے ہوئے ترجمہ نگاری کے دو اسلوب بیان کیے ہیں۔ ایک ”لفظی ترجمہ“ دوسرے ”معنی کا خلاصہ بیان کرنا“ اور پھر ان دونوں اسالیب کی خرابیوں کی نشان دہی کی ہے۔ پھر اس کے بعد ترجمے کے تیسرے اسلوبِ نگارش کا تذکرہ کیا ہے۔

لفظی ترجمے کے اسلوب کا تحلیل و تجزیہ:

                ”لفظی ترجمہ“ کی خرابیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے شاہ صاحب نے زبانوں کی ساخت اور ان کے بنیادی سانچوں کی نوعیت میں موجود اختلاف کا تحلیل و تجزیہ کیا ہے۔ اور اس حقیقت کی نشان دہی کی ہے کہ زبانوں میں طبعی اور فطری اختلاف کی موجودگی میں محض لفظی ترجمہ نہ صرف جملے کی ساخت اور اس کی ہیئت ِترکیبیہ کو خراب کر دیتا ہے؛ بلکہ جملے کے اندر لفظی اور ترکیبی پیچیدگی اور فصاحت و بلاغت کے حوالے سے کمزوری پیدا کرتا ہے۔ نیز اس صورت میں بہت کم استعمال ہونے والے غیرمعروف الفاظ مجبوراً استعمال کرنا پڑتے ہیں۔ جس سے نہ صرف معنی و مفہوم کی جامعیت اور اس کی نوعیت بدل جاتی ہے؛ بلکہ زبان کا حُسن بھی ختم ہوکر رہ جاتا ہے۔

”معنی کا خلاصہ بیان کرنے“ کے اسلوب کا تحلیل و تجزیہ:

                ترجمہ نگاری کے دوسرے اُسلوب یعنی ”معنی کا خلاصہ اپنے الفاظ میں بیان کرنے“ کی خرابی بیان کرتے ہوئے اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ ایک جملے میں دو یا زائد معنوں کا احتمال ہوتا ہے۔ بسا اَوقات ترجمہ کرنے والے حضرات اس جملے کے صرف ایک معنی اور مفہوم کو سامنے رکھ کر اپنے الفاظ میں اس کا ترجمہ بیان کردیتے ہیں۔ اس سے متکلم کے کلام کی جامعیت اور اس کے مفہوم کی کلی حیثیت مجروح ہوکر رہ جاتی ہے۔ خاص طور پر جب کہ وہ ایک ”کلمہ جامعہ“ ہو۔ جو بلاشبہ ایک جامع جملہ ہونے کی وجہ سے اپنے اندر ایک جامع مفہوم رکھتا ہے۔ اور یوں وہ ایک مفہوم کلی کی حیثیت لیے ہوتا ہے۔ اور ہر کلی مفہوم کے بہت سے افراد ہوا کرتے ہیں؛ اس طرح مفہومِ کلی میں موجود افراد کی کثرت کی وجہ سے اس کے معنی میں کافی وسعت ہوتی ہے۔ چناں چہ اس کے دائرے میں تمام افراد کی شمولیت کے حوالے سے وہ ایک جامع مفہوم کا حامل ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں کسی جملے کے مفہومِ کلی کو اس کے افراد میں سے کسی ایک فرد پر محدود کردینا اور محض ایک احتمال کو لے کر ترجمہ کرنا، اس وسیع مفہوم والے جامع کلمہ کو جزوی مفہوم میں بند کردینا ہے۔ گویا ”کلی مفہوم“ کو ”جزوی مفہوم“ بنا دینا ہے۔ جو متکلم کی مراد کے برخلاف کسی طور پر درست نہیں ہے۔ نیز یہ بھی ہے کہ اگر ترجمہ کرنے والا محدود سطح کی ذہنیت رکھتا ہو، اور جملے کے ایک محتمل معنی کو بھی اپنی ذہنی سطح پر رکھ کر سوچے اور محدود الفاظ میں بیان کرے، تو جملے کے مفہوم کی محدودیت کا دائرہ مزید تنگ ہوجائے گا۔ اس طرح متکلم اس کلام سے جو وسیع اور جامع مفہوم اپنے پیش نظر رکھتا ہے، وہ ختم ہوکر رہ جاتا ہے۔

کتب ِسابقہ میں تحریف کا اصل سبب ترجمے کا یہ اسلوب ہے:

                شاہ صاحب نے یہاں اس حقیقت کی نشان دہی بھی کی ہے کہ کتب ِسابقہ یعنی تورات، زبور اور انجیل میں تحریف کا بنیادی سبب بھی یہی تھا کہ ان کے کلی معنی اور مفہوم کو جب دوسری زبانوں میں ترجمہ کیا گیا تو نہ صرف وہ ”جزئی مفہوم“ کی شکل اختیار کر گیا؛ بلکہ ترجمے میں اس یک طرفگی کی وجہ سے کتب ِالٰہیہ کے اصل معانی و مفاہیم اور مطالب و مقاصد ختم ہوکر رہ گئے۔ اور یوں معنی کا خلاصہ بیان کرنا سابقہ کتب ِالٰہیہ میں تحریف کا بنیادی سبب بن گیا؛ اس لیے ترجمے کا یہ اسلوب درست نہیں ہے۔

                خاص طور پر قرآن حکیم جو اپنے کلام میں جامعیت اور مفہومِ کلی پر مشتمل معنی و مفاہیم کا ایک جہاں اپنے اندر رکھتا ہے، اس کے لوازمات میں سے ہے کہ کلامِ الٰہی کے اصل نظم کو بہرحال باقی رہنا چاہیے۔ کلام کی جامعیت کو برقرار رکھتے ہوئے ترجمہ کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اگر بالفرض مترجم سے بعض مقامات میں معنی و مفہوم سمجھنے میں غلطی ہوجائے تو بعد میں آنے والا کوئی آدمی اس کا تدارُک کرسکتا ہے۔

                اسی تناظر میں وہ حدیث ہے، جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا: ”رُبّ مُبَلِّغٍ اوعٰی مِنْ سَامِعٍ“ (20) (ہوسکتا ہے کہ جسے یہ پیغام پہنچایا جائے، وہ ان الفاظ کے اندر پوشیدہ معنی و مفہوم کو سمجھنے میں، سنانے والے سے زیادہ ذہین و فطین اور سمجھ دار ہو۔) اس حدیث میں جب صحابہ کرام کو محض اپنے فہم و شعور کی بنیاد پر سمجھے ہوئے معنی اور مفہوم تک محدود کردینے کے بجائے پیغام کو پورے طور پر آگے پہنچانے کا حکم دیا گیا ہے۔ ایسی صورت میں اور کون یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ اس نے کلام میں موجود تمام مفاہیم اور معانی کو کلی طور پر سمجھ لیا ہے۔ اور ترجمے کی صورت میں اُسے اپنے لفظوں میں بیان کردیاہے۔

                اس تناظر میں کلامِ الٰہی کے ترجمے میں خاص طور پر اس احتیاط کی ضرورت ہے کہ قرآن حکیم کے کلماتِ جامعات پر مبنی اصل جملوں کے جامع مفہوم کا ترجمہ اتنے ہی جامع اور نپے تلے الفاظ میں قلم بند کیا جائے۔ یعنی قرآنی الفاظ جامع ہیں۔ اسے جس زبان میں ترجمہ کیا جا رہا ہے، اس کے بھی جامع اور نپے تلے الفاظ استعمال میں لائے جانے چاہئیں۔ نہ کم نہ زیادہ؛ اس لیے بہترین ترجمہ وہ قرار پائے گا، جو قرآن حکیم کے عربی الفاظ و تراکیب کی مقدار کے مطابق ہو۔ اور ایسے جامع الفاظ و تراکیب کے استعمال پر مبنی ہو، جو عربی کے مشابہ ہو۔

                اس سلسلے میں الفاظ کی ساخت اور جامعیت کو نظرانداز کرتے ہوئے محض انسانی عقل و فہم پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ خاص طور پر اس لیے بھی، کہ جب محض عقل کا استعمال کرنے والوں کا یہ حال ہے کہ وہ مشکل مقامات کی توجیہ و تعبیر اور متشابہات کی تفسیر و تشریح وغیرہ جیسے مسائل میں بہت ہی مختلف مذاہب رکھتے ہیں۔ ایسی صورت میں اپنے اپنے مذاہب کی بنا پر قرآنی الفاظ کے ”معنی کا خلاصہ“ بیان کرنا درست عمل نہیں ہوگا؛ بلکہ ایسا ترجمہ مذہبی تنگ نظری کا شکار ہوکر رہ جائے گا۔ یہاں شاہ صاحب نے اس حقیقت کی نشان دہی کی ہے کہ اگر تحقیق کی نظر سے دیکھا جائے تو ان تمام عقلی مذاہب کی بنیاد محض لفظی اور ترکیبی موشگافیوں پر مبنی ہے۔ ان کا اصل شریعت اور مقاصد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایسی صورت میں اگر ہر ایک کی تعبیر و تشریح کو قرآن کے ترجمے میں داخل کردیا جائے تو اصل الفاظ کا مفہوم باقی نہیں رہے گا۔ اور عقلی مذاہب کی دخل اندازی اس میں بڑھ جائے گی، جو کسی طرح درست نہیں۔

عربی زبان کی اہمیت:

                یہاں پر شاہ صاحب نے عربی زبان کی اہمیت کو بھی واضح کیا ہے۔ ہر مسلمان کے لیے عربی زبان سے واقفیت، اس کی زندگی کی علامت قرار دی ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ عربی زبان سے ناآشنا ہونا ایک مسلمان پر پژمردگی اور مردنی کی سی حالت طاری کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اس لیے بحیثیت مسلمان عربی زبان سے واقفیت اور تعلق رکھنا کم از کم مسنون و مستحب تو ضرور ہے۔ تاکہ قرآن کے الفاظ میں غور و فکر اور تدبر کا راستہ کھلے۔ اور فہم و شعور کے دروازے اس پر وا ہوں۔ اس تناظر میں ”معنی کا خلاصہ بیان کرنے“ سے یہ مقصد بھی حاصل نہیں ہوسکتا ہے۔

ترجمہ نگاری کا تیسرا اسلوب اور اس کا تحلیل و تجزیہ:

                پھر شاہ صاحب نے ترجمے کے تیسرے اسلوبِ نگارش کا تذکرہ کیا ہے۔ ترجمہ کرنے والوں کی ایک جماعت نے ان دونوں مذکورہ بالا اَسالیب کو باہم جمع کردیا ہے۔ کہ وہ لوگ پہلے لفظی ترجمہ کرتے ہیں، اس کے بعد انھیں الفاظ کا مفہوم اور ان کے معنی کا خلاصہ بیان کردیتے ہیں۔ اس طرح ان ودنوں طریقوں کو محض جمع کیا جاتا ہے۔ اور یوں وہ ان کی خرابیوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

                شاہ صاحب نے تیسرے اسلوب کا بھی خوب تحلیل و تجزیہ کیا ہے۔ شاہ صاحب کہتے ہیں کہ محض لفظی ترجمے اور معنی کے خلاصے کو ایک جگہ پر جمع کردینا بھی درست طریقہ نہیں ہے۔ ترجمے کا یہ اسلوب بھی ذوقِ سلیم رکھنے والے لوگوں پر بڑا گراں گزرتا ہے۔ خاص طور پر جو پہلی دفعہ قرآن پڑھنا چاہے، اس کو اس سے بڑی گھبراہٹ ہوتی ہے؛ اس لیے کہ سب سے پہلے تو اُسے لفظی ترجمے کی پیچیدگیاں پریشان کرتی ہیں۔ پھر اصل جملے میں موجود کئی احتمالات میں سے کسی ایک احتمال کو بنیاد بنا کر کیا گیا معنی کا خلاصہ اس کی پریشانی میں مزید اضافہ کردیتا ہے۔ وہ اس لیے کہ عام طور پر ان دونوں میں باہم مطابقت نہیں ہوتی۔ اس سے مبتدی آدمی اُلجھاوٴ کا شکار ہوجاتا ہے۔

                اور جس نے علوم پر عبور حاصل کیا ہوا ہو، اس کے لیے بھی ایسا ترجمہ کسی کام نہیں آتا۔ اس لیے کہ ایک طرف وہ اصل متن کے عربی الفاظ کی نشست و برخواست اور اس کی ترکیبی ساخت کو سمجھتا ہے۔ اور پھر اس کے کلی معانی اور مفاہیم کی وسعت کو بھی جانتا ہے۔ ایسی صورت میں اِسے دونوں طرح کے ناقص ترجموں کی خرابیوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے؛ اس لیے ترجمے کا یہ اسلوب، اس کے لیے قطعاً غیرضروری ہوتا ہے۔

                شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ ترجمہ نگاری کے اس اسلوب سے ترجمے میں بلاوجہ کی طوالت ہوجاتی ہے۔ نیز اس طرح گفتگو کا بہاوٴ اور تسلسل بھی برقرار نہیں رہتا۔

                شاہ صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس طرح کے اسلوب کا اگر صحیح تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ترجمے کا یہ اسلوب اور طریقہ ترجمہ نگار کے ذہنی عجز اور اس کی شعوری پستی پر دلالت کرتا ہے؛ کیوں کہ ایسا مترجم دونوں زبانوں کے طرزِ کلام اور اسلوبِ بیان سے ناآشنا ہوتا ہے۔

                اس رسالے میں شاہ صاحب نے ترجمہ نگاری کے ان تینوں اسالیب کے تنقیدی جائزے میں صرف اصولی بحث کی ہے۔ اور ترجمہ نگاری کے ان تینوں طریقوں کی بنیادی خرابیوں کی نشان دہی کی ہے۔ فتح الرحمن کے مقدمے کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ترجمہ نگاری کے ان تینوں اسالیب میں مزید کوتاہیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ خاص طور پر شاہ صاحب کے زمانے تک کیے گئے تراجم میں یہ کوتاہیاں بڑی نمایاں تھیں۔ یہ کوتاہیاں درجِ ذیل ہیں:

(الف)                     ان تینوں اسالیب میں سلیس زبان استعمال نہیں کی گئی۔

(ب)                        روزمرہ کے محاورات کے مطابق تراجم نہیں کیے گئے۔

(ج)                         ان تراجم میں علمی نمود و نمائش کے بے جا تکلّفات تھے۔

(د)                          عبارت آرائی کا تصنّع اور بناوٹ بہت تھی۔

(ھ)                         بلاوجہ طول طویل قصے کہانیاں بیان کیے گئے تھے۔

(و)                          سطحی قسم کی عقلی تعبیرات اور جزوی توجیہات کا استعمال بہت زیادہ تھا۔

                اس طرح ترجمہ نگاری کے ان تینوں اسالیب میں نہ صرف اصولی خرابیاں پائی جاتی تھیں، بلکہ یہ تینوں اسالیب عام فہم نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کے لیے بہت زیادہ فائدہ مند نہیں تھے۔

ترجمہ نگاری کا جامع اسلوب ؛ بامحاورہ اور سلیس ترجمہ:

                اس تناظر میں شاہ صاحب کے دل میں شدت سے یہ احساس پیدا ہوا کہ وہ ترجمہ نگاری کا ایک ایسا بہترین اور جامع اسلوبِ ترجمہ تخلیق کریں کہ جس میں مذکورہ بالا اسالیب کی خرابیاں نہ ہوں۔ اور اس کا معیار اتنا بلند ہو کہ وہ ہر طرح کی ”میزان“ پر پورا اُترے۔ چنانچہ شاہ صاحب نے علمی کتابوں، خاص طور پر قرآن حکیم کے ترجمے کے لیے جو اعلیٰ معیار قائم کیا ہے، اُس کی حقیقت شاہ صاحب نے ”فتح الرحمٰن“ کے مقدمے میں بیان کی ہے:

”قرآن کا ترجمہ ایسا ہونا چاہیے، جس میں سلیس زبان استعمال کی جائے۔ اور وہ روزمرہ استعمال ہونے والے محاورات کے مطابق ہو۔ یہ ترجمہ ہر طرح کی عبارت آرائی کے تصنّع اور فضیلت نمائی کے تکلف سے قطعاً پاک ہو۔ اُس میں محض طول طویل قصے کہانیاں نہ بیان کی جائیں۔ اور سطحی قسم کی عقلی تعبیرات اور جزوی توجیہات کو بھی بیان نہ کیا جائے۔“ (21)

                شاہ صاحب کے نزدیک اگر ترجمہ نگاری کے اس معیار کو برقرار نہ رکھا جائے تو ترجمے کی اصل روح ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔ اسی وجہ سے شاہ صاحب نے جب ایک دفعہ اپنے زمانے کے تراجم کو درست کرنے کا ارادہ کیا تو انھیں محسوس ہوا کہ ان میں کوئی ترجمہ بھی اس معیار پر پورا نہیں اُتر رہا۔ اسی لیے شاہ صاحب نے ترجمہ نگاری کے اس معیار کو سامنے رکھ کر قرآن حکیم کا بامحاورہ اور سلیس فارسی میں ترجمہ کیا۔

                اس طرح شاہ صاحب نے اس رسالے میں ترجمے کے ان تین اسالیب کے بیان اور ان کی خرابیوں کی نشان دہی کرنے کے بعد اپنے اچھوتے، منفرد اور جامع اُسلوبِ ترجمہ کا تذکرہ کیا ہے۔ اور اس کی اس خصوصیت کی نشان دہی کی ہے کہ وہ ان تینوں اسالیبِ ترجمہ کا جامع اور ان کی خرابیوں سے پاک ہے۔ اس اسلوب کے ذیل میں دونوں زبانوں کے اختلافی مقامات کی نشان دہی اور مشکل مقامات کے حل کے طریقے بیان کیے ہیں۔ مجموعی طور پر اس بات کا لحاظ رکھا ہے کہ اصل نظم قرآن کو پیش نظر رکھ کر اس کے مفہومِ کلی کو بڑے جامع انداز میں سلیس اور بامحاورہ ترجمہ کی صورت میں بیان کردیا جائے۔ اس حوالے سے عربی زبان کے الفاظ کے طریقہ ہائے استعمال اور ان کی جگہ فارسی میں منتخب کیے گئے الفاظ کے اصول و قوانین بیان کیے ہیں۔         (جاری)

***

حوالہ جات وحواشی:

1۔            الفوز الکبیر فارسی / عربی۔ ص:163 تا165۔ طبع: فرید بک ڈپو، دہلی۔

2۔             ایضاً، ص:164۔

3۔             مقدمہ فتح الرّحمٰن۔ از امام شاہ ولی اللہ دہلوی۔ ص:د،ھ۔ مطبوعہ: تاج کمپنی لمیٹڈ، لاہور۔

4۔            مقدمہ فتح الرّحمٰن بترجمة القرآن۔ از امام شاہ ولی اللہ دہلوی۔ مطبوعہ تاج کمپنی، لاہور۔

5۔            رسالہ دانش مندی۔ تصنیف: امام شاہ ولی اللہ دہلوی۔ ص:182۔ مطبوعہ بمع تکمیل الاذہان از مدرسہ نصرة العلوم، گوجرانوالہ۔

6۔            المقالة الوضیة فی النصیحة و الوصیة، تالیف: امام شاہ ولی اللہ دہلوی۔ ص:43۔ مطبوعہ: شاہ ولی اللہ اکیڈمی، حیدرآباد۔         

7۔             مقدمہ فتح الرّحمٰن۔ ص:د،ھ۔ مطبوعہ: تاج کمپنی لمیٹڈ، لاہور۔

8۔            تکمیل الاذہان۔ تالیف: حضرت شاہ رفیع الدین دہلوی۔ قلمی، ورق نمبر: 26 و مطبوعہ ص نمبر94۔ طبع: گوجرانوالہ۔

9۔             شاہ ولی اللہ کی قرآنی فکر کا مطالعہ، از مولانا محمد سعود عالم قاسمی۔ ص:97۔ مطبوعہ: محمود اکیڈمی، لاہور۔

10۔          القول الجلی فی مناقب الولی، تصنیف: مولانا محمدعاشق پھلتی ۔ ص: 38، 48۔ مطبوعہ: شاہ ابوالخیر اکیڈمی، دہلی۔

11۔          مقدمہ فتح الرّحمٰن، از امام شاہ ولی اللہ دہلوی۔ ص:الف و ب۔ مطبوعہ: تاج کمپنی لمیٹڈ، لاہور۔

12۔          مضمون: ”حضرت شاہ ولی اللہ اور مقدمہ ترجمة القرآن“۔ از مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی۔ شائع شدہ: ماہنامہ ”برہان“ دہلی۔ ص:235۔ شمارہ: اکتوبر 1945ء)     

13۔          ایضاً۔

14۔          مضمون: ”کتب خانہ ٹونک کے بعض مخطوطات“۔ از مولوی ابوالطیب عبدالرشید لاہور۔ ص:136۔ معارف، ج:61۔ شمارہ نمبر:02۔ فروری 1948ء۔ اعظم گڑھ۔             

15۔          ایضاً۔ ص:300۔          

16۔          ایضاً۔         

17۔          ایضاً۔

18۔          اس مخطوطے کا یہ نسخہ ہمیں اپنے محترم ترین دوست ماسٹر عبدالوحید ملک کی وساطت سے حاصل ہوا۔ ماسٹر صاحب موصوف جامع مسجد دہلی کے قریب مدرسہ تعلیم القرآن کے ہیڈ مدرّس تھے۔ اور رائے پور کے قریب ایک گاوٴں کے رہنے والے تھے۔ ان کا بیعت کا تعلق حضرت اقدس شاہ عبدالعزیز رائے پوری قدس سرہ سے تھا۔ اور پھر حضرت کے وِصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ سے عمر بھر تعلق رکھا۔ اسی سلسلے میں وہ ہر سال دہلی سے لاہور حضرت کی خدمت میں تشریف لایا کرتے تھے۔ ان مخطوطات کے حصول کے لیے ہم نے ان سے رابطہ کیا۔ وہ خود لکھنوٴ تشریف لے گئے اور دارالعلوم ندوة العلما کے کتب خانے سے ان کے بہترین عکس حاصل کرکے پاکستان کے سفر کے موقع پر اپنے ہمراہ لائے۔ افسوس کہ اس اشاعت کے موقع پر وہ دنیا میں نہیں ہیں۔ اور 18/ فروری 2009ء کو وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

19۔          مخطوطہ مکتوبہ سید ابراہیم نصیر آبادی۔ ورق نمبر:06۔ عکس نسخہ محفوظ کتب خانہ دارالعلوم ندوة العلما، لکھنوٴ، انڈیا۔

20۔          اس رسالے کا فارسی متن حال ہی میں ایک معاصر میں طبع ہوا ہے۔ جس میں پہلی فصل کے ذیل میں موجود مضامین پر دو فصلوں کے عنوانات کا اضافہ ہے۔ (دیکھیے! مقدمہ در قوانین ترجمہ (فارسی متن)۔ مطبوعہ: سہ ماہی ”اسلام اور عصر جدید“ (جولائی اکتوبر 2010ء) کا خصوصی شمارہ: ”شاہ ولی اللہ ؛ افکار و آثار“۔ ج:42۔ شمارہ نمبر:3،4۔ ص:311 تا 319۔ ذاکر حسین انسٹیٹیوٹ آف اسلامک سٹڈیز، جامعہ ملیہ اسلامیہ، جامعہ نگر، نئی دہلی، انڈیا)

                اس اشاعت میں ”فصل“ کے عنوان سے جو اضافہ کیا گیا ہے، اس رسالے کے مضامین کے سیاق و سباق کے اعتبار سے قطعی طور پر درست نہیں ہے۔ یہ اضافہ نہ صرف رسالے کی ہیئت ِترکیبیہ اور ساخت سے میل نہیں کھاتا، بلکہ ہمارے سامنے موجود اس رسالے کے دو قلمی مخطوطات میں بھی یہ اضافہ نہیں ہے۔ (آزاد)

21۔          أخرجہ البخاری عن أبی بکرة۔ باب الخطبة أیام المنٰی،صحیح بخاری۔ حدیث نمبر: 1741۔ ص:348۔ طبع: بیروت۔ 

————————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 8-9 ‏، جلد: 96 ‏، رمضان-ذیقعدہ 1433 ہجری مطابق اگست-ستمبر 2012ء

Related Posts