حرفِ آغاز
مولانا حبیب الرحمن اعظمی
عقل انسانی اگر وحی ربّانی سے مستنیر اور روشن نہ ہو، اور اس کی تائید وحی مُنَزَّل سے نہ کی جائے تو اس کے بس میں نہیں ہے کہ بطور خود ”کلام اللہ“ سے شریعت کی جملہ تفصیلات اور تمام تر احکامات کا فہم وادراک کرسکے؛ اس لیے مکمل طور پر شریعت اسلامی کو جاننے کے لیے از بس ضروری ہے کہ حاملِ وحی الٰہی، اور خدائے علیم وخبیر کے فرستادہ ”کلام اللہ کے شارح پیغمبرِاعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا سہارا لیاجائے؛ تاکہ ان کے شرح وبیان سے باری تعالیٰ کی مراد کو سمجھا، اور قرآنِ محکم سے احکام کی تفصیلات کو اخذ کیا جاسکے، لہٰذا اگر حدیث کی حجیت کو تسلیم نہیں کیا جائے گا تو ان کی استعانت سے کلام اللہ کی مراد کی تعیین اور احکام ومسائل کی تفصیل کیوں کر درست ہوگی؟
حدیث پاک کی اسی ہمہ گیر اہمیت اور تشریعی حیثیت کی بناء پر، رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کی اتباع اور پیروی کا اس قدر تاکید اور کثرت سے حکم دیا ہے کہ اس کا شمار آسان نہیں ہے، جس کے مجموعہ سے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلامی شریعت میں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دلیل وحجت کی حیثیت حاصل ہے، اس موقع پر طوالت سے بچنے کے لیے صرف تین احادیث نقل کی جارہی ہیں؛ جبکہ کسی دعویٰ کے اثبات میں ایک دلیل کافی ہوتی ہے:
(۱) عن المقدام بن معدی کرِب رضی اللہ عنہ، عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال: الاھل عَسَی رجل یبلغُہ الحدیث عنّی وھو متّکیٴ علی أریکتہ، فیقول: بیننا وبینکم کتاب اللہ، فما وجدنا فیہ حلالاً استحللناہ، و ما وجدنا فیہ حراماً حرّمناہ، واِنّ ما حرّم رسول اللہ کما حرّم اللہ“ (رواہ الائمة ابوداؤد، والترمذی، وابن ماجہ، والدارمی واللفظ لھم سوی ابی داؤد)
غور سے سنو! بیشک قریب ہے کہ ایک مرد کو میری جانب سے حدیث پہنچے گی، اور وہ اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے ہوگا، تو کہے گاکہ ہمارے، تمہارے درمیان اللہ کی کتاب ہے؛ لہٰذا اس میں جس چیز کو ہم حلال پائیں گے اسے حلال باور کریں گے، اور اس میں جس چیز کو ہم حرام پائیں گے اسے حرام سمجھیں گے؛ حالانکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز کو حرام ٹھہرایا ہے اس کی حرمت اللہ تعالیٰ کے حرام قرار دینے کی طرح ہے۔
امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے یہ حدیث ان الفاظ میں روایت کی ہے۔
عن المقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ، عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال: ألا انّی اُوتیتُ الکتاب ومثلہ معہ، اَلا یوشک رجل شبعانُ علی أریکتہ یقول، علیکم بھذا القرآن، فما وجدتم فیہ من حلال فاحلّوہ، وما وجدتم فیہ من حرام فحرّموہ، الحدیث (کتاب الأطعمة فی باب النھی عن أکل السباع)
بغور سنو! بیشک مجھے (اللہ کی جانب سے) کتاب دی گئی ہے، اور کتاب کے ساتھ اسی جیسی (حدیث وسنت بھی دی گئی ہے) خبردار رہو! قریب ہے کہ آسودہ حال شخص اپنی مزیّن سریر پر (ٹیک لگائے) کہے گا اسی قرآن کو لازم پکڑو، لہٰذا اس میں جو چیز حلال سے پاؤ اسے حلال قرار دو، اور اس میں جو چیز از قبیل حرام پاؤ اسے حرام ٹھہراؤ۔
حضرت مقدام رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث پاک درج ذیل باتوں پر مشتمل ہے:
(الف) قرآن مجید کی طرح احادیث بھی منجانب اللہ نبی علیہ الصلوٰة والسلام کو دی گئی ہیں۔
(ب) قرآن حکیم کی طرح احادیث بھی احکام میں حجت ہیں۔
(ج) قرآن مقدس کی طرح احادیث مبارکہ پر بھی عمل لازم ہے۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد پاک حجیتِ حدیث کے اثبات میں بالکل صریح ہے؛ کیوں کہ اس حدیث کے جملہ ”اُوتیت الکتاب ومثلہ معہ“ میں ”الکتاب“ سے قرآن مجید، اور ”مثلہ“ سے حدیث ہی مراد ہے، اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا ہے کہ آپ کی حدیث سے اعراض جائز نہیں ہے؛ کیونکہ حدیث سے اعراض قرآن مجید سے اعراض کے مرادف ہے، اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے ”وَمَا اَتَاکُم الرسولُ فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا“ رسول اللہ تم سے جو بیان کریں اس پر عمل کرو اور جس کام سے روک دیں اس سے رک جاؤ۔
(۲) عن ابن عباس رضی اللہ عنہ، اَنّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطب الناس فی حجّة الوداع فقال فی خطبتہ: ”․․․ یا أیھا الناس، انّی ترکتُ فیکم ما اِن اعتصمتم بہ فلن یَضِلّوا أبداً: کتاب اللہ، وسنة نبیہ ․․․“ (رواہ الحاکم فی المستدرک فی کتاب العلم من طریق ابی اُویس عن ثور بن زید الدِّیلی، عن عکرمة، عن ابن عباس․ قال الحاکم: قد احتج البخاری بأحادیث عکرمة، واحتج مسلم بأبی أویس، وسائر رواتِہ متفق علیھم، انتھی․ ووافقہ الذہبی فی ”تلخیصہ“ علی ذلک، وقال: لہ أصل فی ”الصحیح“ انتھی)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ”حجة الوداع“ میں لوگوں سے خطاب کیا تو اپنے خطبہ میں فرمایا:اے لوگو بیشک میں نے چھوڑی ہے تمہارے درمیان ایسی چیز کہ اگر تم اسے پکڑے رہوگے تو کبھی راہ سے نہیں ہٹوگے (وہ چیز) اللہ کی کتاب، اور اللہ کے نبی کی حدیث ہے۔
امام بیہقی نے ”المدخل“ میں اسی کے ہم معنی حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، جس کے آخر میں یہ زیادتی ہے ”لن یفترقا حتی یردوا علی الحوض“ (مفتاح السنة ص۷)
یعنی قرآن وحدیث کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ ایک ہی ساتھ قیامت میں حوض پر پہنچیں گے۔
یہ حدیث پاک صاف بتارہی ہے کہ ”کلام اللہ“ اور ”حدیث رسول اللہ“ دونوں تَوَام (جڑواں) ہیں، کبھی بھی ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہیں ہوں گے، اسلامی شرائع واحکام کی تکمیل ان دونوں کے بغیر نہیں ہوسکتی ہے، ان دونوں کو دلیلِ راہ بنائے بغیر منزلِ مقصود تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ حدیث پاک ہی سے قرآنِ حکیم کے مقاصد کی تفصیل اوراس کے احکام کی تکمیل ہوتی ہے، درحقیقت حدیث، اللہ کے کلام قرآن محکم کا بیان وشرح ہے، تو ایک کو دوسرے سے علیحدہ کیسے کیاجاسکتا ہے!
قرآن وحدیث کا یہ ربط باہمی صاف بتارہا ہے کہ دین اسلام میں حدیث رسول علی صاحبہا الصلوٰة والسلام کی حیثیت تشریعی اور حجت و دلیل ہی کی ہے؛ کیونکہ جب حدیث پاک کتاب اِلٰہی کا بیان اور اس کی شرح ہے، اور بلا ریب قرآن کی حیثیت تشریعی ہے، تو بغیر کسی تردد کے اس کے بیان و شرح کی حیثیت بھی تشریعی ہی ہوگی، یہی عقیدہ صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم سے لے کر آج تک امت کا ہے۔
(۳) عن زید بن ثابت رضی اللہ عنہ قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: نضّراللہ امرأً سمع منا حدیثاً فحفظہ حتی یُبلّغة غیرہ فانہ رُبّ حاملِ فقہٍ لیس بفقیہ، ورُبّ حامل فقہ الی من ھو أفقہ منہ (مسند احمد ج۵ ص۱۸۳، مسند الأنصار، وقال البیہقی: ھذا الحدیث متواتر، مفتاح الجنة ص۵)
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ شادماں و بارونق بنائے اس آدمی کو جس نے مجھ سے حدیث سنی پھر اسے محفوظ کیا یہاں تک کہ دوسرے کو پہنچادیا؛ اس لیے کہ بہت سے حاملِ فقہ، فقیہ نہیں ہوتے، اور بہت سے حاملِ فقہ اس کو پہنچاتے ہیں جو اس حاملِ فقہ سے زیادہ فقیہ ہوتا ہے۔
یہ مبارک حدیث زید بن ثابت کے علاوہ، عبداللہ بن مسعود، جبیر بن مطعم وغیرہ رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے، حدیث پاک کو براہ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر اسے محفوظ رکھنے پھر اس کی تبلیغ وتحدیث پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے یہ مسرت خیز دعا کیا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ حدیث رسول علی صاحبہا الصلوٰة والسلام کی شان انتہائی بلند اوراس کا فائدہ نہایت عظیم ہے؟ ورنہ یہ دعا کیوں دی جاتی!
حدیث پاک کی یہ عظمتِ شان اور فائدئہ بیکراں اس کے سوا اور کیا ہے کہ یہ دین میں حجت اور احکامِ شریعت کی دلیل و بیان ہے۔ جیساکہ خود اس حدیث کے آخری جزء ”رُبّ حامل فقہ لیس بفقیہ الخ“ سے ظاہر ہے۔
کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بابرکت فرمان ہمیں یہ احساس نہیں دلارہا ہے کہ سامع حدیث کو بعد والوں تک اسے پہنچانے پر مامور کیے جانے کا مقصد بس یہی ہے کہ یہ بعد والے بھی اس فقہ اور حکم شرعی پر عمل کریں جس پر یہ حدیث مشتمل ہے؟ اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے؛ جبکہ حدیث دلیل وحجت ہو اور شریعت کے احکام اس سے ثابت ہوتے ہوں۔
ایک مرد موٴمن جس کے سر میں تھوڑی سی بھی عقل ہے کیا یہ وہم وگمان کرسکتا ہے کہ پیغمبرِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث پاک کو جو دوسروں کو سنانے کا حکم فرمایا ہے تو یہ احادیث (حاشا وکلاّ) ان دل بہلانے والی باتوں اور قصے، کہانیوں کی طرح ہیں جنھیں چوپال اور بیٹھکوں میں سنایا جاتا ہے؟ (حاشا وکلاّ) کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس بات سے بہت ہی بلند وبالا ہیں، اور آپ کی شانِ عصمت سے دور اور بہت دور ہے کہ اپنی امت کو بے فائدہ اور عبث کام کا حکم دیں؛ اس لیے لامحالہ حدیث کی تبلیغ وتحدیث کا حکم اوراس پر یہ دعا محض اسی بناء پر ہے کہ یہ دین اسلام میں حجت ہے۔ ہماری اس بات کی تائید امامِ مطّلبی محمد بن ادریس شافعی متوفی ۲۰۴ھ رحمہ اللہ کے قول سے ہوتی ہے؛ چنانچہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مروی اس حدیث کے تحت امام شافعی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”فلما ندب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی استماع مقالتہ وحفظھا، وأدائھا دل علی أنہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یأمر أن یودّی عنہ الّا ما تقوم بہ الحجة علی من أدی الیہ․ لأنہ انما یُودَّی عنہ حلال یُوٴْتَی، وحرام یُجتَنب، وحَدّ یقام ومال یُوٴخَذ ویُعطَی، ونصیحة فی دین ودنیا، ودلّ علی أنہ قد یحمل الفقہ غیرُ فقیہ، یکون لہ حافظاً ولا یکون فیہ فقیھا“ (الرسالة ص۴۰۲ ونقلہ الامام السیوطی عن البیہقی فی مفتاح الجنة فی الاحتجاج بالسنة ص ۵)
پس جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول وحدیث کو سننے، اسے محفوظ کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کا حکم دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم بتارہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانے کا حکم اسی صورت میں دیں گے کہ جس کو یہ پہنچائی گئی ہے، اس پر اس سے حجت قائم ہورہی ہے؛ کیونکہ آپ کی جانب سے جو بات پہنچائی گئی ہے (وہ مشتمل ہوگی) حلال پر جو استعمال کیا جائے گا، یا حرام پر جس سے بچا جائے گا، یا حد و ممانعت پر کہ ٹھہرا جائے گا، یا مال پر جو لیا دیا جائے گا یا دین ودنیا کی خیرخواہی پر، اور آپ کا یہ فرمان یہ (بھی) دلالت کررہا ہے کہ کبھی فقہ کا حامل غیرفقیہ ہوتا ہے، اس کا حافظ تو ہوتا ہے، اس میں فقیہ نہیں ہوتا۔
حضرت امام شافعی رحمہ اللہ نے اصول فقہ کی اپنی نادر و بے مثال تصنیف ”الرسالة“ میں یہ حدیث خبر آحاد کی حجیت میں نقل کی ہے اور اس پر یہ تعلیق اور شرح درج فرمائی ہے، جس سے صاف طور پر معلوم ہورہا ہے کہ حدیث مبارک ”نَضّراللہ امرأً سمع منا حدیثاً الخ“ حجیت حدیث کی ایک روشن دلیل ہے۔
اللّٰھم أرنا الحق حقاً وارزقنا اتباعہ أرنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ․
***
——————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 7 ، جلد: 96 ، شعبان-رمضان 1433 ہجری مطابق جولائی 2012ء