از:            ڈاکٹر عبدالخالق                             

شعبہٴ دینیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی   

اسلام میں ”اہلِ بیت“ کی اصطلاح نہایت محترم اور معزز ہے۔ کلام الٰہی یعنی قرآن کریم میں دو مقامات پر اور حدیث پاک میں متعدد احادیث اور روایات میں اہل بیت کا ذکر ہے۔ قرآن کریم میں سورئہ ہود: آیت، ۷۳ اور سورہٴ احزاب: آیت:۳۳ میں اہل بیت کا صراحتاً ذکر ہے۔ سورہٴ ہوو میں ابوالانبیاء حضرت ابراہیم   کے اہل بیت کا ذکر ہے، جبکہ سورہٴ احزاب میں خاتم النّبیین فخرالانبیاء والرسل نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کا ذکر ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اہل بیت سے متعلق آیت کے الفاظ اس طرح ہیں: ”قَالُوا أتَعْجَبِیْنَ مِنْ أمْرِ اللہِ رَحمةُ اللہِ وَبَرَکَاتُہ عَلَیْکُمْ أہْلَ الْبَیْتِ انَّہ حَمِیْدٌ مَجِید“ (سورہ ہود: آیت،۳۷) ترجمہ: (وہ بولے کیا تو تعجب کرتی ہے اللہ کے حکم سے، اللہ کی رحمت ہے اور برکتیں تم پر اے گھروالو! تحقیق اللہ ہے تعریف کیاگیا بڑائیوں والا)۔

                اور سید خاتم النّبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے متعلق الفاظ قرآنی اس طرح ہیں: ”انَّمَا یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْراً“ (سورئہ احزاب: آیت،۳۳) ترجمہ: (اور اللہ یہی چاہتا ہے کہ دور کرے تم سے گندی باتیں۔ اے نبی کے گھر والو اور ستھرا کردے تم کو ایک ستھرائی)۔

اہل بیت کی علمی خدمات پر بحث کرنے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بذاتِ خود اہل بیت کی حقیقت کا تعین ہوجائے۔ قرآن کریم، احادیث نبوی اور علماء اسلام کی تصنیفات (جن میں حضرات صحابہٴ کرام، حضرات تابعین اور بہت سے علمائے متقدمین اورمتاخرین شامل ہیں) ان تمام حضرات کی تصنیفات کا خلاصہ یہ ہے کہ ظاہراً اہل بیت کی اصطلاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ یعنی زواجِ مطہرات و اولاد کے لیے خصوصاً اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عشیرہ اور عترت کے لیے عموماً استعمال ہوتی ہے۔ بعض علمائے کرام وسعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بنومطلب اور بنو ہاشم کو بھی اس اصطلاح میں شامل کرتے ہیں؛ لیکن اہل سنت والجماعت کے اس واضح موقف کے برخلاف اہل تشیع یعنی علمائے شیعہ کے نزدیک اہلِ بیت کی اصطلاح کا حامل، نہایت ہی محدود مفہوم جس میں وسعت کی کوئی گنجائش نہیں۔ بعض علمائے حق نے اہلِ بیت سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو لیا ہے، ان حضرات کے نزدیک بیت سے مراد رسول اللہ کا گھر اور اہل بیت سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروالے ہیں۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات۔

اپنے موقف کی حمات میں سورہٴ احزاب کی آیت پیش کی ہے: وَقَرْنَ فِی بُیُوتِکُنَّ وَلا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الجَاہِلِیَّةِ الأولٰی وَأقِمْنَ الصَّلاَةَ وَاٰتِیْنَ الزَّکوٰة وَاطعْنَ اللہَ وَرَسُولَہ انَّما یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أھْلَ البَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا“ (سورہٴ احزاب: آیت،۳۳) ترجمہ: (اور قرار پکڑو اپنے گھروں میں اور دکھاتی نہ پھرو جیسا کہ دکھانا دستور تھا پہلے جہالت کے وقت میں اور قائم رکھو نماز اور دیتی رہو زکوٰة اور اطاعت میں رہو اللہ کی اور اللہ یہی چاہتا ہے کہ دور کرے تم سے گندی باتیں۔ اے نبی کے گھر والو اور ستھرا کردے تم کو ایک ستھرائی سے) اور اس موقف کے سلسلہ میں اتنی شدت برتی ہے کہ حضرت عکرمہ بازار میں منادی کرتے تھے کہ آیت: ”انَّما یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أھْلَ البَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا“ (سورہٴ احزاب: آیت،۳۳) ترجمہ: (اور اللہ یہی چاہتا ہے کہ دو کرے تم سے گندی باتیں۔ اے نبی کے گھر والو اور ستھرا کردے تم کو ایک ستھرائی سے) میں اہل بیت سے مراد ازواج مطہرات ہی ہیں؛ کیوں کہ یہ آیت انھیں محترم ومعزز خواتین کے یہاں نازل ہوئی تھی، اور فرمایا کرتے تھے کہ میں اس معاملے میں مباہلہ کرنے کو تیار ہوں؛ لیکن حدیث شریف میں الفاظ اس طرح سے ہیں: ”اللّٰھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلی آل ابراھیم انک حمید مجید،․ اللّٰھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراھیم وعلی آل ابراھیم انک حمید مجید“ جس طرح سے قرآن کریم میں اہل بیت کی اصطلاح حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے استعمال ہوئی ہے، اسی طرح درودِ ابراہیمی میں بھی لفظ آل ابراہیم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اہل کی ایک شکل آل بھی ہے۔ امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں تحریر فرمایا ہے کہ بعض حضرات آل النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقارب مراد لیتے ہیں اور بعض حضرات کے نزدیک آل النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد اہل علم ہیں، جن کا آپ کے ساتھ خصوصی تعلق تھا، یا تعلق پایا جائے۔

امام راغب اصفہانی نے اہل دین کی دو قسمیں بیان کی ہیں: ایک قسم وہ ہے جن میں وہ لوگ شامل ہیں، جو علم وعمل کے لحاظ سے راسخ العقیدہ ہوئے ہیں، ان کے لیے آل النبی یا امت کے الفاظ استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ دوسری قسم وہ ہے، جن میں وہ لوگ شامل ہیں جن کا علم صرف تقلیدی ہوتا ہے، انھیں امتِ محمد کہا جاسکتا ہے؛ لیکن آل محمد نہیں کہا جاسکتا۔ اس سلسلہ میں امام راغب نے امام جعفر صادق سے منسوب ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ: کسی شخص نے حضرت جعفر صادق سے دریافت کیا کہ اس سلسلہ میں آپ کی رائے کیا ہے کہ بعض لوگ تمام مسلمانوں کو آل النبی میں داخل سمجھتے ہیں؟ حضرت جعفر نے فرمایا: ”یہ رائے صحیح بھی ہے اور غلط بھی۔ غلط تو اس لیے ہے کہ تمام امت آل النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں شامل نہیں ہے اور صحیح اس لیے کہ اگر تمام لوگ شریعت کے کما حقہ پابند ہوجائیں تو ان کو آل النبی صلی اللہ علیہ وسلم کہا جاسکتا ہے۔ ابن خالویہ کے مطابق آل کی ۲۵ سے زائد اصناف ہیں، جیساکہ الجرائی کی کتاب ”منار الہوا“ میں مذکور ہے۔

لیکن شیعہ حضرات اہل بیت میں صرف اہل الکساء کو ہی شمار کرتے ہیں، یہ لقب حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین کو مجموعی اعتبار سے اس واسطے دیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ جب کہ اہل نجران کے نصاریٰ کا وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ہوا تھا، تو توحید اور تثلیث میں حق وباطل کے انتخاب کے سلسلہ میں مباہلے کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چاروں حضرات کو اپنی چادر میں لپیٹ لیا اور قرآن کریم کی آیت: ”انَّما یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أھْلَ البَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا“ (سورئہ احزاب: آیت،۳۳) ترجمہ: (اور اللہ یہی چاہتا ہے کہ دور کرے تم سے گندی باتیں۔ اے نبی کے گھر والو اور ستھرا کردے تم کو ایک ستھرائی سے)۔

ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حضرات حسنین کے علاوہ آپ نے حضرت عباس (چچا) اور ان کے بیٹوں کو بھی اہل بیت میں شامل کیا ہے؛ کیونکہ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس اور ان کے بیٹوں کے اوپر اپنی چادر ڈال دی تھی اور فرمایا تھا: اے اللہ! انھیں دوزخ کی آگ اسی طرح چھپائے رکھ جیسے میں نے انھیں اپنی چادر میں چھپالیا ہے (بعض علماء اہل الکساء کے لیے اہل العباء کی اصطلاح بھی استعمال کرتے ہیں)

خلاصہٴ کلام یہ کہ اگر ایک طرف قرآن کریم سے ازواج مطہرات کا اہل بیت میں شامل ہونا ثابت ہوتا ہے، تو دوسری طرف احادیث کثیرہ اور بہت سے روایات سے حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حضرات حسنین کا اہل بیت ہونا اظہر من الشمس ہے۔ اگر ان دونوں حقائق کو ملادیا جائے، تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اہل بیت میں ازواج مطہرات کے ساتھ حضرات حسنین اور ان کے والدین بھی شامل ہیں۔ اگر قرآن کریم کی آیات کا بغور مطالعہ کیا جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ آیات قرآنی سورہٴ احزاب ۷۳ ازواج مطہرات کی شان میں نازل ہوئی ہے اور اہل بیت سے وہی مراد ہیں؛ لیکن اہل بیت میں اور نفوس مقدسہ کا شامل ہونا قرآنی آیات کے منافی نہیں؛ کیوں کہ ”انَّما یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أھْلَ البَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا“ (سورہٴ احزاب: آیت،۳۳) ترجمہ: (اور اللہ یہی چاہتاہے کہ دور کرے تم سے گندی باتیں۔ اے نبی کے گھروالو اور ستھرا کردے تم کو ایک ستھرائی سے) والی آیت میں مذکر وموٴنث دونوں شامل ہیں۔ یعنی اگر اس آیت سے ماسبق اور مابعد والی آیات قرآنی ازواج مطہرات کی طرف مشیر ہیں، تو یہ آیت تمام اہل بیت مذکر وموٴنث دونوں کو شامل ہے؛ اس لیے حق یہ ہے کہ اہل بیت میں ازواج مطہرات کے ساتھ دوسرے حضرات بھی شامل ہیں اور حدیث شریف اور دیگر روایات اگر حضرت حسنین اوران کے والدین کو اہل بیت میں شمار کررہی ہیں تو احادیث سے یہ بات کہیں بھی ثابت نہیں ہوتی؛ بلکہ اشارہ بھی نہیں ملتا کہ اہل بیت میں حضرات حسنین اور ان کے والدین کے علاوہ کوئی دیگر شخص (ازواج مطہرات وغیرہ) شامل نہیں ہیں۔

شیعہ حضرات کا یہ موقف کہ اہل بیت میں صرف حضرات حسنین اور ان کے والدین ہی شامل ہیں، باقی اور کوئی نہیں۔ قرآنی آیت ۷۳ سورئہ احزاب کے سیاق وسباق کے منافی ہے؛ کیوں کہ مذکورہ آیت کے الفاظ قرآنی سے قبل اور بعد دونوں جگہ یا نساء النبی کے عنوان سے خطاب اور ان کے واسطے صیغہٴ موٴنث کا استعمال فرمایا گیا ہے۔ سابقہ آیات: ”فَلَا تَخْضَعْنَ بالقول“ سب صیغہ موٴنث استعمال ہوئے ہیں اورآگے پھر ”وَاذْکُرْ مَا یُتْلٰی“ میں بصیغہ تانیث خطاب ہوا ہے، اس درمیانی آیت کو سیاق وسباق سے کاٹ کر بصیغہٴ مذکر ”اِنَّکمْ“ اور ”یُطَھِّرَکُم“ فرمانا بھی اس پر شاہد ہے کہ اس آیت میں اہل بیت میں صرف ازواج مطہرات ہی داخل نہیں ہیں؛ بلکہ کچھ رجال بھی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شارع اور مفسر قرآن کی حیثیت سے کچھ رجال اور نساء کو اہل بیت میں شمار کرلیا ہے۔ مثلاً ازواج مطہرات کے ساتھ حضرت فاطمہ (عورت کی حیثیت میں اور کچھ رجال بھی مثلاً حضرت علی، حضرات حسنین، حضرت عباس اور ان کے بیٹے وغیرہ) واللہ اعلم بالصواب۔ اس طرح اسلامی مصادر دین کی اہمیت کے پیش نظر وہ اہل بیت جو قرآن کریم سے واضح طور پر ثابت ہیں، ان کو اس مضمون میں طبقہٴ اولیٰ میں رکھا جارہا ہے۔ یعنی ازواج مطہرات، اور وہ حضرات اہل بیت جو احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں، ان کو طبقہ ثانیہ میں رکھا جارہا ہے اور دیگر حضرات جو بعض دوسری روایات سے اہل بیت میں شامل نظر آتے ہیں، ان کو طبقہ ثالثہ میں رکھا جارہا ہے۔ مندرجہ ذیل سطور میں ان تینوں طبقات اہل بیت کی علمی خدمات کو نقل کیا جارہا ہے۔

اہلِ بیت کی خدمات (طبقہٴ اولیٰ- ازواجِ مطہرات)

اس طبقہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سبھی ازواج مطہرات شامل ہیں؛ لیکن حدیث شریف میں اور دیگر کتب میں حضرت عائشہ، حضرت ام سلمہ، حضرت حفصہ اور حضرت میمونہ کو اس طبقے میں شمار کیا ہے۔

حضرت عائشہ کی علمی خدمات

                حضرت عائشہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جب نکاح ہوا، تو آپ کی عمر صرف ۶ سال تھی اور جب رخصتی ہوئی تو ۹ سال تھی اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو آپ کی عمر ۱۸ سال تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد آپ ۴۸ سال تک زندہ رہیں، اس دوران طویل عرصے میں یعنی تقریباً ۵۷ سال آپ شب وروز دین کی خدمت کرتی رہیں۔ علمِ دین کو پھیلاتی رہیں، صحابیات میں سب سے زیادہ احادیث آپ سے ہی مروی ہیں۔ آپ کا حافظہ نہایت قوی تھا، جو سنتی تھیں وہ صرف وقتی طور پر یاد ہی نہیں ہوجاتا تھا؛ بلکہ دل ودماغ میں نقش ہوکر رہ جاتا تھا۔ حدیث شریف سے آپ کو گہرا تعلق تھا، کسی حدیث کے سلسلے میں اگر اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی شبہ ہوتا تھا، تو آپ ہی کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔ آپ بڑی آسانی کے ساتھ مدلل طور پر شک وشبہ کو رفع کردیتی تھیں، مثلاً ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”لوگ قربانی کے گوشت کو ۳ دن سے زیادہ نہ رکھیں“ حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوسعید خدری نے یہ سمجھا کہ یہ حکم دائمی ہے۔ حضرت عائشہ نے جب یہ بات سنی تو فرمایا کہ یہ حکم نہ تو دائمی ہے اور نہ ہی واجب ہے؛ بلکہ مستحب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ قربانی کے گوشت کو جمع نہ کریں؛ بلکہ دوسروں کو کھلائیں۔ حضرت عائشہ کی ایک قابل ذکر خوبی یہ تھی کہ جب آپ روایت کرتی ہیں تو ساتھ ہی ساتھ اس کی علم وحکمت پر بھی روشنی ڈالتی ہیں، مثلاً ابوسعید خدری اور عبداللہ بن عمر سے غسلِ جمعہ کے سلسلہ میں صرف اس قدر مروی ہے کہ جمعہ کے دن غسل کرلینا چاہیے؛ لیکن اس حدیث شریف کو حضرت عائشہ صدیقہ نے ذکر فرمایا تویہ بھی فرمایا کہ لوگ اپنے گھروں اور مدینہ کے آس پاس کی آبادیوں سے نماز جمعہ کو آیا کرتے تھے، وہ گردوغبار سے اٹے ہوئے اور پسینے سے تر ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک صاحب آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم آج کے دن غسل کرلیتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ حضرت عائشہ کے تفقہ فی الدین دقت نظر قوت حافظہ اور شوق حدیث کے موضوع پر بہت سے حضرات نے قلم اٹھایا ہے، ان میں حضرت علامہ سیوطی بھی ہیں۔ آپ نے ایک رسالہ ”عین الاصابہ“ میں اس قسم کی ۴۰ روایات کا تذکرہ کیا ہے، جس سے آپ کی دقیق نظر، تفقہ فی الدین، دور اندیشی اور دوربینی کا اندازہ ہوتا ہے۔

حضرت عائشہ کے شاگرد: آپ سے تقریباً ۱۰۰ صحابہ اور صحابیات نے روایت کی ہے، مثلاً عروہ بن زبیر، سعید بن المسیب، عبداللہ بن عامر، مسروق بن اجدع، عکرمہ جیسے جلیل القدر حضرات آپ کے تلامذہ میں شامل ہیں۔

مرویات کی تعداد: محدثینِ عظام کے مطابق حضرت عائشہ کا شمار ان حضرات میں ، جن سے کثیر تعداد میں حدیث شریف کی روایات ذکر کی گئی ہیں، چھٹے نمبر پر آتا ہے؛ بلکہ بعض حضرات کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرنے والوں میں آپ کا نمبر چوتھا ہے۔ صحابہ کرام کی مرویات کی فہرست دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ صرف حضرت ابوہریرہ، عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر کی مرویات آپ سے زیادہ ہیں۔ محدثین عظام نے آپ کی مرویات کی تعداد ۲۲۱۰ (دوہزار دو سو دس) بتلائی ہیں، ان میں تقریباً ۲۷۳ صحیحین یعنی بخاری شریف اور مسلم شریف میں موجود ہیں۔

حضرت ام سلمہ کی علمی خدمات

حضرت ام سلمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان ازواج مطہرات میں شامل ہیں، جن کو علم حدیث سے بہت ہی شغف تھا، آپ ہی کے حجرہ شریف میں اہل بیت سے متعلق آیات نازل ہوئیں، یعنی ”انَّما یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أھْلَ البَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا“ (سورہٴ احزاب: آیت،۳۳) آپ کی علمی اور دینی خدمات اتنی زیادہ ہیں کہ آپ کا شمار محدثین کے تیسرے طبقے میں ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کو سننے کے لیے اپنی ذاتی ضروریات کو بھی موٴخر کردیتی تھیں، مثلاً ایک مرتبہ آپ بال بندھوارہی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ کی آواز سنائی دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے ”أیھا الناس“ (اے لوگو!) یہ سنتے ہی آپ نے مشاطہ سے فرمایا کہ بس بال باندھ دو۔ مشاطہ نے کہا ایسی بھی کیاجلدی ہے، ابھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ”أیھا الناس“ فرمایا ہے، تو آپ نے یہ جواب دیا کہ کیاہم انسانوں میں شمار نہیں ہیں؟ یہ کہہ کر خود ہی بال باندھ کر کھڑی ہوگئیں اور خطبہ سننے میں مشغول ہوگئیں۔

آپ کے شاگرد: حضرت ام سلمہ کے شاگردوں میں اسامہ بن زید، سلیمان بن یسار، عبداللہ بن رافع، سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر، زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہما شامل ہیں۔

مرویات کی تعداد اور افتاء: آپ کی مرویات کی تعداد محدثین عظام کے مطابق ۳۷۸ ہے، جن میں سے بہت سی احادیث بخاری اور مسلم وغیرہ کتب میں شامل ہیں۔ آپ مفتیہ بھی تھیں، آپ کے متعدد فتاویٰ موجود ہیں۔ حضرت ابن قیم کے مطابق اگر آپ کے فتاویٰ جمع کیے جائیں تو ایک رسالہ تیار ہوجائے۔

حضرت حفصہ کی علمی خدمات

                آپ کوازواج مطہرات میں شامل ہونے کی وجہ سے آپ کو بلا واسطہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث مبارکہ سننے کا موقع ملا تھا۔ آپ کی مرویات کی تعداد ۶۰ ہے۔ آپ سے بڑے بڑے صحابہ نے حدیث شریف کی روایت کی ہیں۔

حضرت میمونہ کی علمی خدمات

                آپ کو بھی ازواج مطہرات میں شامل ہونے کی وجہ سے بلاواسطہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث سننے کا موقع وقتاً فوقتاً فراہم ہوتا رہتا تھا۔

مرویات کی تعداد: آپ کی مرویات کی تعداد ۴۶ ہے۔

شاگرد: آپ کے شاگردوں میں یعنی آپ سے روایت کرنے والوں میں مشاہیر صحابہ اور علمائے حدیث شامل ہیں: مثلاً حضرت عبداللہ بن عباس، زید بن حاصم، عطا بن یسار۔

حضرت جویریہ کی علمی خدمات

                آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں شامل ہیں۔ آپ سے حدیث شریف کی ۷ روایات مذکور ہیں۔

حضرت سودہ کی علمی خدمات

                آپ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں شامل ہیں۔ آپ سے حدیث شریف کی ۸ روایات مذکور ہیں۔

***

———————————————

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 2 ، جلد: 96 ‏، ربیع الاول 1433 ہجری مطابق فروری 2012ء

Related Posts