از: مولانا محمد شوکت علی بھاگلپوری
شیخ الحدیث دارالعلوم سعادت دارین، بھروچ
نحمدہ ونصلی ونسلم علی رسولہ الکریم أما بعد: یہ بات کسی صاحب نظر سے پوشیدہ نہیں ہے کہ مصنّفین وموٴلفین کتب کے یہاں اِس بات کا بڑا اہتمام رہا ہے کہ کتابوں کے نام ایسے جامع اور جاذِب نظر رکھے جائیں کہ نام پر نگاہ پڑتے ہی آدمی کتاب پڑھنے کو بے تاب ہوجائے، پہلی ہی نظر میں اُس کے مشمولات کا اندازہ، متعلقہ علم وفن کی ضرورت، اہمیت اور اُس کی قدر وقیمت کا احساس ہوجائے، اِسی لیے علماء ہر دور میں اپنی اپنی کتاب کا ایسا نام رکھتے چلے آئے ہیں، جو کتاب کے ساتھ ساتھ اُس کے مندرجات کا بھی جامع تعارف کرائے، اِس مقصد کے حصول کے لیے ضرورت پڑنے پر اہل تصنیف نے بڑے بڑے نام رکھنے سے بھی دریغ نہیں کیا ہے، نہ ہی اُنھیں بڑے نام رکھنے میں کبھی کوئی تأمل ہوا، چنانچہ امام بخاری، امام مسلم اور امام ترمذی رحمہ اللہ جیسے ماہرینِ فن نے بھی اِسی دقتِ نظر کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلا جھجھک اپنی اپنی صحیح کے طویل نام رکھے ہیں؛ تاکہ نام پڑھتے ہی طلبہ مضامین کتاب، مقصد ترتیب، اور اُس کی ضرورت وقدر وقیمت سے واقف ہوجائیں، یہ طویل نام اُن تینوں اماموں اور بعد کے قریب زمانوں تک معروف تھے، طلبہ اُن ناموں کو جانتے تھے اور ناقلین اُن ناموں کو کتاب کے سرورق پر لکھا بھی کرتے تھے؛ مگر جب یہ تینوں کتابیں چہاردانگ عالم میں پورے طور پر مشہور ہوگئیں، ہر خاص وعام اُن کو جاننے لگے، پھر طلبہ ناموں کو قدرِ طویل بھی سمجھنے لگے، تو شہرت کو کافی سمجھتے ہوئے رفتہ رفتہ پورا نام لکھنے کے بجائے بغرض سہولت اِن کتابوں کا مختصر نام لکھا جانے لگا، اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امام بخاری کی کتاب صرف (صحیح البخاری)، اور امام مسلم کی کتاب صرف (صحیح مسلم) اور امام ترمذی کی جامع صرف (جامع ترمذی) کے نام سے مشہور ہوگئی، اور بعد کے زمانوں میں تو یہ نام اتنے پسندیدہ اور مالوف ہوگئے کہ ناسخین وناقلین اپنے مخطوطات کے سرورق پر بھی یہی نام لکھنے لگے، یہ سلسلہ زمانہٴ دراز سے آج تک جاری ہے، اِس اختصار پسندی کا نقصان یہ ہوا کہ اِن کتابوں کے بنیادی مضامین، مقاصدِ تالیف، خصوصیات و امتیازات اور ارکان واصول جن پر اصل ناموں سے روشنی پڑتی تھی اور وہ اوصاف جن کی طرف ناموں پر نظر پڑتے ہی قاری کا ذہن جاتا تھا، ایک دم سے پردئہ خفا میں چلے گئے، آج حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ یہ کتابیں جس قدر مشہور ومعروف ہیں، اِن کے نام اُسی قدر بلکہ اُس سے کہیں زیادہ مجہول ونامعلوم ہوگئے ہیں، اور المیہ یہ ہے کہ صرف حدیث پڑھنے والے طلبہ ہی نہیں بعض اچھے اچھے فضلاء بھی ان کتابوں کے اصل نام سے ناواقف اور غافل نظر آتے ہیں، اس لیے خیال آیا کہ شیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ کے ایک طویل مقالہ- جو اس موضوع پر کتابی شکل میں مطبوعہ ہے- کا خلاصہ شروحات بخاری، مسلم وترمذی کی روشنی میں کچھ حذف واضافہ کے ساتھ ہدیہٴ ناظرین کردوں تاکہ طلبہٴ حدیث کم از کم ان کتابوں کے صحیح نام اور بخاری شریف سے متعلق بعض ضروری واہم متعلقات سے واقف ہوجائیں، بس اسی جذبہ کے تحت یہ تفصیلات پیش خدمت ہیں، ملاحظہ فرمائیں۔
صحیح بخاری کا نام
حضرت امام بخاری رضی اللہ عنہ کی حیات وسوانح، اصول وحدیث پر لکھی گئی کتابوں اور شروحات بخاری کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے، کہ حضرت امام بخاری رضی اللہ عنہ کی صحیح کا پورا اور اصل نام (الْجَامِعُ الْمُسْنَدُ الصَّحیحُ الْمُختَصَرُ مِنْ اُمُوْرِ رَسُوْلِ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم وسُنَنِہ وَاَیَّامِہِ) ہے، اِس کے علاوہ جو بھی نام بیان کیے گئے ہیں، تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ وہ سب ناقص اور مصنف رحمہ اللہ کے رکھے ہوئے نام سے الگ ہیں۔
شیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ (ولادت ۱۳۳۶ھ م ۱۹۱۷/، وفات: ۹/شوال ۱۴۱۷ھ م ۱۹۹۷/ پیر) اپنے مقالہ ”تَحقِیْقُ اِسمَیِ الصَّحِیحَیْنِ واِسْمِ جَامِعِ التِّرْمِذِی“ میں اِس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: کہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہُ اللہ نے اپنی کتاب ”ھَدْیُ السَّارِی مُقَدَّمَة فَتْح الْبَارِی بِشَرْحِ صَحِیْحِ الْبُخَارِی“ (ص:۸) پر فصل ثانی کے شروع میں امام بخاری کی جامع صحیح کا نام ”الْجَامِعُ الصَّحِیْحُ الْمُسْنَدُ مِنْ حَدِیْثِ رَسُوْلِ ﷺ وَسُنَنِہ وَاَیَّامِہ“ تحریر فرمایا ہے، مگر تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نام محلِ نظر اور ناقص ہے، اِس میں کچھ تقدیم وتاخیر اور فروگذاشت ہوئی ہے، کیونکہ حافظ ابن الصلاح نے ”مقدمہ علوم الحدیث“ کے نوع اوّل: صحیح کے فائدئہ سادس میں بیان فرمایا ہے کہ امام بخاری نے اپنی صحیح کا نام ”الجَامِعُ الْمُسْنَدُ الصَّحِیْحُ المُخْتَصَرُ مِنْ اُمُوْرِ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ وَسُنَنِہ وَاَیَّامِہ“ رکھا ہے۔ (دیکھئے مقدمہ علوم الحدیث: ۴۳)
حافظ ابونصرالکلاباذِی (ولادت: ۳۲۳ھ، وفات: ۳۹۸ھ) نے بھی اپنی کتاب ”رِجَالُ صَحِیْحِ الْبُخَارِی“ (۱/۲۴) کے شروع میں صحیح بخاری کا بعینہ یہی نام نقل فرمایا ہے۔
محدثِ کبیر مفسرِ اعظم فقیہ دوراں قاضی ابومحمد عبدالحق بن غالب بن عطیہ الأندلسی (المولود: ۴۸۱ھ المتوفی ۵۴۱ھ) نے بھی اپنی کتاب ”فِہْرِسْتُ ابن عَطِیَّہ“ میں صحیح بخاری کا ہوبہو یہی نام تحریر فرمایا ہے۔
مِنْ وعَنْ یہی نام قاضی ابن عطیہ کے شاگردِ رشید محدِّثِ جلیل، صاحبِ ضبط و اتقان حافظ ابوبکر بن خیرالاشْبِیْلِیِ الاُندُلُسِیْ (المتوفی ۵۷۵ھ) نے بھی اپنی کتاب ”فِھْرِسْتُ مَا رَوَاہُ عَنْ شُیُوْخِہ“ میں۔
اور امام حافظ محیُ الدین ابوزکریا یحییٰ بن شرف بن حسن بن حسین بن محمد بن جمعہ بن حِزَام النووی (المولود: ۶۳۱ھ المتوفی: ۶۷۶ھ) نے بھی اپنی دو کتاب: ”شَرْحُ صَحِیْح الْبُخَارِی“ اور ”تَھْذِیْبُ الاسماء واللغات“ میں امام بخاری کے حالات میں صحیح بخاری کا یہی نام تحریر فرمایا ہے۔
ابْنُ رُشَیْد السَّبْتِیْ الاُنْدُلُسِی نے بھی اپنی کتاب ”التعریف بسند الجامع الصحیح“ میں۔
اور حافظ بدرالدین ابومحمد محمود بن احمد العینی (المولود: ۱۵/رمضان ۷۶۲ھ المتوفی: ذی الحجہ ۸۵۵ھ) نے بھی اپنی کتاب ”عُمْدَةُ القاری شرحُ صحیح البخاری“ میں بخاری کا یہی نام تحریر فرمایا ہے۔ بخاری شریف کے دو قدیم مخطوطات کے شروع میں بھی یہی نام درج ہے۔
اِسی طرح معمولی اختصار وتصرف کے ساتھ صحیح بخاری کا یہی نام قاضی عیاض (المولود: ۴۷۶ھ المتوفی: ۵۴۴ھ) نے بھی اپنی کتاب ”مَشَارِقُ الأنوارِ علیٰ صِحاح الآثار“ کے اوائل میں اِس طرح ذکر کیا ہے ”الجَامِعُ المُسندُ الصحیحُ الْمُخْتَصَرُ مِنْ آثَارِ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ“
مذکورہ بالا شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ حافظ ابن حجر نے صحیح بخاری کے نام کے سلسلے میں اتنا اہتمام نہیں کیا، جتنا دوسروں نے کیاہے، اس کی واضح مثال یہ ہے کہ ابن حجر نے لفظ الصحیح کو المسند پر مقدم کیا؛ جب کہ مناسب اس کو موٴخر کرنا تھا، اور لفظ المختصر کو چھوڑ دیا، پھر ”من أمورِ رسولِ اللہِ ﷺ“ کی جگہ ”مِنْ حدیثِ رَسُولِ اللہِ ﷺ“ اختیار فرمایا؛ حالانکہ لفظِ حدیث کے مقابلے میں لفظِ امور میں زیادہ عموم وشمول اور باریکی پائی جاتی ہے۔
ایک سوال اور اس کا جواب
لیکن سوال یہ ہوتا ہے کہ حافظ ابن حجر جیسے ماہر وباریک بیں محدث جو ضبط واتقان اور تحقیق وجستجو میں ہمدوش ثُریّا ہیں، ایسے امام عالی مقام سے نام کے بارے میں یہ چوک کس طرح اور کیونکر ہوگئی؟ جواب یہ ہے کہ ایسالگتا ہے نام لکھتے وقت حافظ ابن حجر کا نکتہ رس ذہن کسی اور سوچ میں مشغول ہوگا، مطلوبہ حاضر دماغی اور ذہنی یکسوئی اُس وقت میسر نہیں ہوگی، اور یہ کوئی تعجب خیز بات بھی نہیں، اِس قسم کے عوارض بعض مرتبہ بڑے بڑے بیدار مغزوں کو پیش آیا کرتے ہیں، جن سے قدرتی طور پر انسان کا ذہن منتشر اور ضبط متأثر ہوجایا کرتا ہے۔ ایسے کتنے ہی واقعات تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں، اگر حافظ کے ساتھ بھی پیش آیا تواس میں تعجب کی کیا بات ہے؟
ہاں تعجب اس پر ہے اور ہونا چاہیے کہ ہمارے علم کے مطابق آج تک صحیح بخاری کے کسی مطبوعہ نسخے کے سرورق پر اس کتاب کا نام نہیں چھپ سکا؛ جب کہ اس کی عظمت شان کا تقاضہ تو یہ تھا کہ ہر ہر جز کے شروع میں اس کا نام چھپا ہوتا اور ناظرین وقارئین بخاری کو نام کے ساتھ مضمونِ کتاب اور مقصد تالیف کا استحضار رہتا۔
شیخ عبدالفتاح اپنے مقالے میں آگے تحریر فرماتے ہیں: کہ اس مضمون کو لکھنے کے کافی عرصہ بعد علامہ جمال الدین القاسمی کا تحریر کردہ ”حیاة البخاری“ نامی رسالہ نظر سے گزرا تو دیکھا کہ علامہ موصوف اُس میں حافظ ابن حجر کا بیان کردہ صحیح بخاری کا نام نقل کرنے کے بعد یوں تحریر فرماتے ہیں: ”ھٰذا عُنْوانُ صَحِیحِہِ فَلْیُحْفَظْ ویَنْبَغِیْ لِکُلِّ مَنْ یَّنْسَخُ اَوْ یَطْبَعُہُ اَن یُعَنْوِنَہُ بِتَسْمِیَةِ الْمُوٴَلِّفِ مُحَافَظَةً علٰی الأعْلاَمِ الخ“ کہ امام بخاری کی صحیح کا یہ نام ہے اسے یاد رکھنا چاہیے اور مناسب ہے کہ صحیح کا ہر ناقل یا اُس کو طبع کرنے والا صحیح کے شروع میں مصنف کا رکھا ہوا نام لکھے، تاکہ کتاب کا نام محفوظ رہ سکے۔ یہ تحریر پڑھ کر مجھے بے انتہا خوشی ہوئی کہ علامہ قاسمی جیسی عظیم اور نابغہٴ روزگار ہستی بھی اس سلسلے میں میرے ہم نوا ہیں۔ (فالحمدُ للّٰہ علٰی ہذا التوفیق)
صحیح بخاری کے ناقلین ورواة
علامہ محمد بن یوسف بن مطر الفربری کے قول کے مطابق امام ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن المغیرہ بن بردز بہ الیمانی البخاری رضی اللہ عنہ سے قریب نوے ہزار شاگردوں نے صحیح بخاری کا سماع کیا؛ مگر صرف چار ہونہار شاگردوں سے ہی اس کی روایت کا سلسلہ چلا، اور علمی دنیا میں بخاری شریف کے اوّلا چار ہی نسخے مشہور ومعروف ہوئے، ایک نسفی کا، دوسرا نسوی کا، تیسرا بزدوی کا، چوتھا فربری کا، ویسے ان کے علاوہ ایک پانچواں نسخہ محاملی کا بھی ہے، جو مختلف فیہ ہے کہ وہ مستقل نسخہ ہے یا نہیں؟ علامہ کرمانی کی رائے میں وہ مستقل نسخہ ہے، چنانچہ انھوں نے ”مقدمة الکواکب الدراری فی شرح صحیح البخاری المعروف بشرح الکرمانی“ (۱/۱۰) میں اپنی سند قاضی ابوعبداللہ حسین بن اسماعیل المحاملی تک پہنچائی ہے، اور لکھا ہے ”وقال بعضہم سماعہ منہ انما ھو لبعض صحیحہ لا لِکُلِّہ“ (الکرمانی:۱/۱۰) کہ بعض علماء فرماتے ہیں: کہ محاملی نے امام بخاری سے صحیح کا کچھ حصہ سنا ہے، پوری صحیح نہیں، مگر حافظ ابن حجر اس کا انکار کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ”ولکن لم یکن عندہ الجامع الصحیح وانما سمع منہ مجالس اِملاھا ببغداد فی آخر قدمة قدمھا البخاری وقد غلط من روی الصحیح من طریق المحاملی المذکور غلطا فاحشا“ (فتح الباری:۱/۵)
ترجمہ: مگر ان کے پاس امام بخاری سے سنا ہوا پورا نسخہ نہیں تھا، صرف وہ اوراق تھے، جو انھوں نے امام بخاری کے آخری مرتبہ بغداد تشریف آوری کے موقع پر چند مجالس میں احادیث کا املا کراتے ہوئے ان سے سنے تھے؛ اس لیے جو حضرات محاملی کے طریق سے صحیح بخاری روایت کرتے ہیں، وہ بہت بڑی غلطی کرتے ہیں، بہرحال امام بخاری کے ان پانچوں شاگردوں کے نام حسب ذیل ہیں:
(۱) ابوعبداللہ محمد بن یوسف بن مطر بن صالح بن بشر الفربری (المولود: ۲۴۱ھ المتوفی: ۲۰/شوال ۳۲۰ھ) موصوف نے امام بخاری سے ان کی جامع صحیح دو مرتبہ سنی: ایک مرتبہ آٹھ سال کی عمر میں اپنے گاؤں فربر کے اندر ۲۴۷ھ میں، اور دوسری مرتبہ گیارہ سال کی عمر میں بخارا کے اندر ۲۵۲ھ میں، بعض علما نے لکھا ہے کہ فربری نے تیسری مرتبہ امام بخاری کے وصال کے سال ۲۵۶ھ میں بھی امام بخاری سے صحیح بخاری کے سماع کا شرف حاصل کیا ہے (واللہ اعلم بالصواب)
(۲) أبوالاسحاق ابراھیم بن مَعْقِلْ بن الحجاج النَّسَفِی (المتوفی: ۲۹۵ھ وقیل ۲۹۴ھ) موصوف نے کچھ اوراق کو چھوڑ کر امام بخاری سے پوری بخاری کا سماع کیا ہے، بقیہ چھوٹے ہوئے اوراق کی روایت جازةً کرتے ہیں۔
(۳) ابومحمد حماد بن شاکر بن سَوِیَّہ (بالھاء الھوز بدون نقط) النَّسَوِی (المتوفی: ۳۱۱ھ) موصوف کو امام بخاری سے صحیح بخاری کے سماع کا شرف حاصل ہے؛ مگر کچھ حصے کا سماع حاصل نہیں ہوسکا؛ اس لیے ان چھوٹے ہوئے حصے کی روایت اجازةً کرتے ہیں۔
(۴) ابوطلحہ منصور بن محمد بن علی بن قَرِیْنَةَ (بقاف ونون بوزن یسیرة) اَلْبَزْدَوِیْ (بفتح الموحدة وسکون الزاء) (المتوفی: ۳۲۹ھ) موصوف ابن حجر کے قول کے مطابق امام بخاری سے ان کی صحیح کو روایت کرنے والے آخری راوی ہیں۔
(۵) قاضی ابوعبداللہ حسین بن اسماعیل الضبی المحاملی (المولود: ۲۳۵ھ المتوفی: ۳۳۰ھ) موصوف بغداد میں امام بخاری کے آخری شاگرد ہیں، جو ابوطلحہ منصور بن محمد البزدوی کے بعد تک بغداد میں باحیات رہے اور خلقِ خدا کو فیض یاب کرتے رہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ امام بخاری سے ان کے پانچ شاگردان صحیح بخاری روایت کرتے ہیں اور اُن کے نسخے پائے جاتے ہیں؛ مگر آج کل سب سے زیادہ معروف ومتداول نسخہ شیخ محمد بن یوسف فربری ہی کا ہے۔
شیخ فربری کے بارہ شاگردان
شیخ فربری سے ان کے بارہ شاگردان صحیح بخاری کی روایت کرتے ہیں، جن میں سے نو کا ذکر ابن حجر نے فتح الباری میں کیاہے، دو کا ذکر امام نووی نے شرح بخاری میں کیا ہے اور ایک کا تذکرہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے مسلسلات میں کیا ہے، ان بارہ راویوں کے نام حسب ذیل ہیں:
(۱) اِبْنُ السَّکَنْ: ابوعلی سعید بن عثمان بن سعید بن السَّکَن (بفتح السین والکاف) المتوفی: ۳۵۳ھ۔
(۲) الْمُسْتَمْلِیْ: ابواسحاق ابراھیم بن احمد المُسْتَمْلِیْ المتوفی: ۳۷۶ھ۔
(۳) اَلاَخِسْیکَثِیْ: ابونصراحمد بن احمد الاخسیکَثی (بفتح الھمزة وسکون الخاء وکسر السین وسکون الیاء وفتح الکاف ثم مثلثة نسبة الی أخسیکث مدینہ علی شاطئی نھر الشاس) اخسیکث فرغانہ کے علاقہ میں نہر شاس کے کنارے پر ایک شہر ہے، بعض علماء اخیر میں ثائے مثلث کی جگہ پر تاء پڑھتے ہیں اوریہی اولیٰ ہے۔ المتوفی: ۳۷۶ھ (دیکھئے مقدمہ لامع: ۶۶)
(۴) المَرْوَزِیْ: الفقیہ ابوزید محمد احمد المروزی المتوفی: ۳۷۱ھ۔
(۵) الشَّبُّوْیِیْی: ابوعلی محمد بن عمر بن شَبُّویَہْ (بفتح الشین المعجمہ وضم الباء المشددة وسکون الواو وفتح الیاء)
(۶) الجُرْجَانی: ابواحمد محمد بن محمد الجُرْجَانِی (نسبة الی جُرْجَان بضم الجیم الاولی وفتح الثانیة مدینة مشھورة بین طبرستان وخراسان) المتوفی: ۳۷۳ھ (مقدمہٴ لامع:۶۶)
(۷) السَّرَخْسِیْ الحَمُّوْیِیْ: ابومحمد عبداللہ بن احمد بن حمّویہ السَّرَخْسِی (بفتح السین المہملة الأولی والراء وسکون الخاء المعجمة وکسر السین الثانیة نسبة الی سَرَخْسَ مدینة بخراسان) المعروف بالحمّویِی المولود: ۲۹۳ھ المتوفی: ۲۸/ذی الحجہ ۳۸۱ھ۔
الحَمُّوییی: بفتح الحاء المھملة وضمّ المیم المشددة وسکون الواو فی آخرھا یاء نسبة الی جدہ حمّویہ وھی لفظة فارسیّة (حوالہ بالا)
(۸) اَلْکُشْمَیْھَنِی: الھیثم محمد بن مکی بن زُرَاع الأدیب الکشمیھنی (بضم الکاف وسکون الشین المجعمة وفتح المیم وسکون الیاء وفتح الحاء المھملة قریة بمرو) المتوفی: ۳۸۹ھ موصوف نے ۳۱۶ھ میں فربری سے صحیح بخاری پڑھی۔
(۹) اَلْکُشَّانِی: ابوعلی اسماعیل بن محمد بن احمد بن حاجب اَلْکُشَّانِی (بضم الکاف وفتح الشین المشددة نسبة الی کُشَّانِیہ بلدة بِصَقَّةَ) المتوفی: ۳۹۱ھ موصوف فربری کے آخری شاگرد ہیں۔
(۱۰) ابوسعید احمد بن محمد۔
(۱۱) محمد بن احمد مَتّ (بفتح المیم وتشدید التاء)
(۱۲) ابولقمان: یحییٰ بن عمار بن مقبل بن شاہان الخُتَّلاَنی المعمر بثلاث وأربعین ومئة سنة ۱۴۳ھ (مقدمہ لامع: ۶۶)
تنبیہ: اخیر کے تین راویوں میں سے دو راویوں کے نام کا ذکر امام نووی نے شرح بخاری میں کیا ہے؛ مگر اس کی سند ذکر نہیں کی ہے، اور آخری راوی کا ذکر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نوراللہ مرقدہ نے اپنی کتاب ”الفضل المبین فی الحدیث المسلسل من حدیث النبی الأمین ﷺ“ کے (ص:۸۵) پر مسلسل بالمشارقہ کی سند میں کیا ہے اور پوری سند ذکر کی ہے۔ (دیکھئے لامع کا مقدمہ ص:۶۶-۶۷)
شیخ فِرَبْرِی کے نو شاگردوں کے فیض یافتگان
اب ہم ذیل میں ان راویوں کے نام درج کرتے ہیں جو فربری کے مندرجہ بالا شاگردوں میں سے نوشاگردوں سے صحیح بخاری روایت کرتے ہیں:
(۱) اِبْنُ السَّکَنْ: سے ان کے ایک شاگرد: عبداللہ بن محمد بن اسد الجھنی روایت کرتے ہیں۔
(۲) الْمُسْتَمْلِیْ: سے ان کے دو شاگرد روایت کرتے ہیں: (۱) ابوذرعبداللہ بن محمد بن احمد اَلْہَرَوِیْ (بفتح الہاء والراء) المولود: ۳۵۵ھ یا ۳۵۶ھ المتوفی: ۴۳۴ھ (۲) عبدالرحمن بن عبداللہ الہمدانی۔
(۳) اَلْاَخْسِکَثِی: سے ان کے ایک شاگرد روایت کرتے ہیں: اسماعیل بن اسحاق بن اسماعیل الصَّفَّار الزاہد۔
(۴) أبوزید: سے ان کے تین شاگرد روایت کرتے ہیں: (۱) ابونُعَیم احمد بن عبداللہ اَلاَصْبَھَانِی المتوفی۴۳۰ھ (۲) حافظ ابومحمد عبداللہ بن ابراہیم اَلْاُصَیْلِیْ المالکی المتوفی ۳۹۲ھ (۳) امام ابوالحسن علی بن محمد اَلقاَبِسِی المالکی المتوفی ۴۰۳ھ۔
(۵) أبوعلی الشَّبُّویِی سے ان کے دو شاگرد روایت کرتے ہیں: (۱) سعید بن احمد بن محمد الصیرفی العیّار (بفتح العین المہملة والیاء المشددہ وفی آخرہِ الراءُ) (۲) عبدالرحمن بن عبداللہ الھمدانی۔
(۶) أبوأحمد اَلْجُرْجَانِی: سے ان کے دو شاگرد روایت کرتے ہیں: (۱) ابونعیم الأصبھانی، (۲) ابوالحسن بن محمد القابسی۔
(۷) أبومحمد السرخسی الحمویِی: سے ان کے دو شاگرد روایت کرتے ہیں: (۱) ابوذرعبداللہ بن محمد بن احمد الھَرَوِی (۲) ابوالحسن بن عبدالرحمن بن محمد بن المظفر بن محمد بن داؤد الداؤدی الفوشنجی (نسبة الی فوشنج بضم الفاء وسکون الواو وفتح الشین المعجمة وتسکین النون وبالجیم بلد بقرب ہُراةِ خراسان) المتوفی: ۴۷۶ھ (کرمانی:۱/۸)
(۸) اَلْکُشْمَیْہَنِی: سے ان کے دو شاگرد روایت کرتے ہیں: (۱) ابوذر الھَرَوِیْ (۲) ابوسہل محمد بن احمد الحفصی المتوفی ۴۶۲ھ (۳) أم الکرام کریمة بنت احمد بن محمد بن حاتم المروزیة المتوفی: ۴۵۶ھ۔
(۹) اَلْکُشّانی: سے ان کے ایک شاگرد ابوالعباس جعفر بن محمد المستغفری المتوفی ۴۳۲ھ روایت کرتے ہیں۔
اس ترتیب کے مطابق فِرَبْرِی کے شاگردوں سے صحیح بخاری کی روایت کرنے والے راویوں کی تعداد مکررات کو حذف کرکے کل بارہ ہیں، جن کے نام حسب ذیل ہیں: (۱) عبداللہ بن محمد بن اسد الجھنی (۲) ابوذر عبداللہ بن محمد بن احمد الھَرَوِی (۳) عبدالرحمن بن عبداللہ الہمدانی (۴) اسماعیل بن اسحاق بن اسماعیل الصَّفَّار الزاہد (۵) ابونعیم الاصبھانی (۶) ابومحمد عبداللہ بن ابراہیم الاصیلی (۷) ابوالحسن علی بن محمد القابسی (۸) سعید بن احمد بن محمد الصیرفی العیّار (۹) ابوالحسن بن عبدالرحمن بن محمد بن المظفر بن محمد بن داؤد الداؤدی (۱۰) ابوسہل محمد بن احمد الحفصی (۱۱) ام الکرام کریمة بنت احمد بن محمد بن حاتم المروزیہ (۱۲) ابوالعباس جعفر بن محمد المستغفری۔
بخاری شریف کے نسخے
حضرت مولانا احمد صاحب محدّث سہارنپوری رحمہ اللہ نے مقدّمہ صحیح البخاری میں بخاری شریف کے نسخوں کے کل انیس رموز وعلامات تحریر کیے ہیں، جن میں سے ”ک“ اکثر کی علامت ہے، کسی نسخے کی طرف اشارہ نہیں، اور ”اَلْحَمُّوییی والسّرَخْسِی“ شیخ زکریا کی تحقیق کے مطابق ایک ہی شخص کی دو نسبتیں ہیں، یہ الگ الگ نہیں ہیں، لہٰذا یہ دونوں ایک ہی نسخہ ہوئے، اس تفصیل کا حاصل یہ نکلا کہ اس وقت صحیح بخاری کے کل سترہ نسخے دستیاب ہیں، جن کے رموز محدّث سہارنپوری رحمہ اللہ نے بیان کیے ہیں: دو نسخے امام بخاری کے دوشاگردوں: فِرَبْرِی اور نَسَفِیْ کے ہیں، سات نسخے فِرَبْرِی کے سات شاگردوں : ابنُ السَّکَنْ، الْمُسْتَمْلِیْ، اَلْمَرْوَزِیْ، اِبْنُ شَبُّویَہْ (اَلْشَبُّویِیْ)، اَلْجُرْجَانِیْ، اَلْحَمُّوْیِیْ، اَلْسّرَخْسِی، اَلْکُشْمَیْھَنِیْ کے ہیں، چار نسخے فِرَبْرِیْ کے شاگردوں کے فیض یافتہ چار شاگردوں: اَبُوذَرْ، اَلْاصَیْلِیْ، اَلْقَابِسِیْ اور کریمہ بنت احمد المروزیہ کے ہیں، اور چار نسخے بعد کے علماء اعلام، ابن حجر عسقلانی، ابوالوقت، حافظ ابن عساکر اور رضی الدّین الصّغانی کے ہیں، ان ہی سترہ نسخوں کے حوالے حسب موقع ہندوستانی مطبوعہ نسخے کے ہر صفحہ پر عبارت اور حواشی کی درمیانی نالی میں اشارةً دئیے گئے ہیں، مذکورہ بالا اکابر میں سے آخر کے تین ناموں کو چھوڑ کر سب کا ذکر ماقبل میں آچکا ہے اور وہ حضرات کافی حد تک متعارف بھی ہیں، البتہ آخری تین نام اس مضمون کی مناسبت سے غیرمعروف سے ہیں، اس لیے ذیل میں ان کے ناموں کی تفصیل اتمامِ فائدہ کے لیے درج کی جاتی ہے:
(۱) ابوالوقت: سے مراد اپنے زمانہ کے مشہور صوفی شیخ ابوالوقت عبدالاوّل بن عیسی بن شعیب السِّجزی (بکسر السین المہملہ وسکون الجیم وکسر الزاء المعجمة) الہَرَوِی ہیں، جن کی ولادت: ذیقعدہ ۴۵۸ھ اور وفات: ۶/ذیقعدہ ۵۵۳ھ میں ہوئی، موصوف داؤدی سے بخاری کی روایت کرنے والے دنیا میں آخری راوی ہیں، جن کا انتقال بغداد میں ہوا،اور محلہ شونیزیہ میں مدفون ہوئے (وَفَیات الْاَعْیَانِ لِابنِ خَلّکان: ۲/۱۰۷ ارقم الترجمہ:۴۰۳)
(۲) ابنِ عساکر: سے مراد شام کے مشہور محدّث ثقة الدین حافظ ابوالقاسم علی بن ابی محمد الحسن بن ھبة اللہ ابی الحسن بن عبداللہ بن الحسین المعروف بابن العساکر الدمشقی ہیں، جن کی ولادت: یکم محرم ۴۹۹ھ اور وفات: شب پیر ۱۱/رجب ۵۷۱ھ کو دمشق میں ہوئی (وَفَیات الْاَعْیَانِ لِابنِ خَلّّکان: ۲/۱۴۷ ارقم الترجمہ:۴۴۱)
(۳) الصَّغَانی: سے مراد فقہ وحدیث اور لغت کے مشہور امام رضی الدین ابوالفضائل الحسن بن محمد بن الحسن بن حیدر بن علی بن اسماعیل القُرَشِی العَدَوی العُمَرِی الصَّغَانِیْ اللاہوری البغدادی الحنفی ہیں، جن کی ولادت: ۱۰/صفر ۵۷۷ھ م ۱۱۸۱/ اور وفات: رمضان ۶۵۰ھ م ۱۲۵۲/ میں ہوئی (دیکھئے معجم الموٴلفین لعمررضا کحالہ: ۳/۲۷۹)
نسخوں کے رموز وعلامات
قارئین کی سہولت کے خاطر پیش ہے محدث سہارنپوری کے بیان کردہ بخاری شریف کے ان سترہ نسخوں کے رموز کی تفصیل:
”ف“ للفِرَبرِی، ”ہ“ لِلْکُشْمَیْھَنِی، ”ح“ لِلحَمُّوْیِیْ، ”س“ لِلْمُسْتَمْلِی، ”عس“ لابن عساکر، ”مہ“ لکریمة بنت احمد، ”ص“ للاُصَیْلی، ”قا“ للقابِسی، ”مر“ للمروزی، ”ذ“ لابی ذر، ”شحج“ للشیخ ابن حجر، ”قت“ لابی الوقت، ”سف“ للنسفی، ”صغ“ لِلصَّغَانی، ”کن“ لابن السّکن، ”جا“ للجرجانی، ”بو“ لابن شَبُّویَہ․
(جاری)
***
—————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 2 ، جلد: 96 ، ربیع الاول 1433 ہجری مطابق فروری 2012ء