فقید المثال امام اعظم ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ سیمینار

از:  مولانا محمد کلیم اللہ، مرکزی سیکرٹری اطلاعات، اتحاد اہل السنت والجماعت ،پاکستان

                علماء حق، علماء دیو بند کی جان نشین اہل السنت والجماعت کی نمائندہ مسلکی تنظیم ”اتحاد اہل السنت والجماعت“ کے زیر انتظام ”امامِ اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمة اللہ علیہ سیمینار“ میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔

                اسلام آباد کے خوشگوار ماحول میں میلوڈی مارکیٹ کے ایک عمدہ اور خوبصورت اسلام آباد ہوٹل میں سیمینار کا انعقاد کیاگیاتھا ۔یہ اتحاد اہل السنت والجماعت کی طرف سے دوسرا سالانہ سیمینار تھا، جس میں چیدہ چیدہ شخصیات کو مدعو کیاگیاتھا، ان میں بطور خاص چند نام قابل ذکرہیں:

                $فضیلة الشیخ مولانا عبدالحفیظ مکی، مکہ مکرمہ$شیخ الحدیث والتفسیر مولانا زاہد الراشدی، گوجرانوالہ$متکلم اسلام مولانامحمد الیاس گھمن، سرگودھا$مولانا سید عدنان کاکاخیل، کراچی $پیر عزیز الرحمن ہزاروی، اسلام آباد $ مولانا منیر احمد منور،کہروڑپکا$ڈاکٹر علی اصغر چشتی، اسلام آباد$مولانا شفیق الرحمن، راولپنڈی$مولاناابن الحسن عباسی،کراچی $مولانامحمد زاہد فیصل آباد$مفتی شبیر احمد،سرگودھا۔$مولاناعبدالشکور حقانی،لاہور $مولانا رضوان عزیز، سرگودھا۔ $مولاناسجاد ابن الحجابی، مردان اور مولانا تنویر احمد علوی وغیرہ۔

                 سیمینار کی باقاعدہ کارروائی تلاوت کلام مجید سے شروع ہوئی بعد ازاں علی الترتیب اہل علم وفضل اور مقالہ نویس حضرات کے پرمغز مدلل بیانات شروع ہوئے۔ سیمینار کے انعقاد سے تقریبا دوماہ قبل مندوبین حضرات کو ان کے مقالے اور بیان کا عنوان دے دیاگیاتھا۔

                دورحاضر کے چیلنجز اورفقہ حنفی سب کا مشترکہ عنوان تھا۔ ذیلی عنوانات میں جہاں فقہ اور فقہاء کی عظمت، اہمیت اور ضرورت بیان کی گئی، وہاں پر خصوصا سرتاج الفقہاء امام اعظم ابوحنیفہ کی بارگاہ عالیہ میں بھی خراج عقیدت پیش کیاگیا۔

                آپ کی منقبت اور خصائل جو اصحاب فضل وکمال حضرات متقدمین ومتاخرین نے بیان کیے ہیں اسے بھی دہرایاگیا؛ تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ امام اعظم کی شخصیت کا ہر پہلو اتنا نمایاں ہے کہ جس کی مثال دور تابعین میں کہیں نہیں ملتی۔

                امام اعظم رحمہ اللہ کی سیاسی زندگی پر گفتگو کرتے ہوئے امام اہل السنت مولانا محمد سرفراز خان صفدرفاضل دار العلوم دیوبند کے فرزندجامعہ نصرة العلوم کے شیخ التفسیر والحدیث مولانا زاہد الراشدی نے کہا:”امام اعظم کی زندگی کا ہر پہلو تابناک اور روشن ہے ۔امام صاحب کی سیاسی زندگی پر مولانا مناظر احسن گیلانی نے جو قلم اٹھایاہے، اسے پڑھ کریہ یقین ہوتاہے کہ امام اعظم محض تدریسِ حدیث وفقہ پر ہی دسترس نہ رکھتے تھے؛ بلکہ آپ کی سیاسی بصیرت سے بادشاہانِ وقت بھی متاثر تھے اورآپ کو چیف جسٹس کا عہدہ سونپنے پر بضد بھی رہے؛ لیکن امام اعظم رحمہ اللہ نے تدوینِ فقہ کی ضرورت کو ترجیح دی اوراپنے ایسے تلامذہ تیار کیے، جنہوں نے انصاف وعدل کی عطر بیزیوں سے عالمِ اسلام کو معطر کردیا․․․“

                آج بھی فقہِ حنفی کو بطور قانون نافذ کردیاجائے تو معاشرے میں کرپشن اور ناانصافی کا بھوت خودہی مرجائے۔متکلمِ اسلام وکیلِ احناف مولانامحمد الیاس گھمن نے کہا:” میں بے حدممنون اور مشکور ہوں ان تمام حضرت کا جنہوں نے ہمیں میزبانی کا شرف بخشا ۔مجھے جس عنوان پر گفتگو کے لیے کہاگیاتھا، وہ امام اعظم پر وارد ہونے والے اعتراضات کا ٹھوس حوالہ جات سے جواب دیناہے۔

                اللہ کافضل ہے کہ ہم نے جس امام کو اپنا بڑا اور ”امامِ اعظم “ماناہے۔ اس میں ہم اکیلے نہیں بلکہ اَن گنت فقہاء اور محدثینِ کرام ہمارے ساتھ ہیں۔ ائمہ اربعہ میں امام مالک ، شافعی اور احمد بن حنبل وغیرہ شامل ہیں، جنھوں نے امام صاحب کی عظمت شان کا اعتراف کیا ہے، محدثین کرام میں امام یحییٰ بن معین ، امام مکی بن ابراہیم اور دیگر جلیل القدر محدثین شامل ہیں تبعِ تابعین میں امام عبداللہ بن مبارک جیسے سربرآوردہ شخصیات ہمارے ساتھ کھڑے ہیں․․․․ انھوں نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ہم امام اعظم کو اپنا پیشوا اوررہنما مانتے ہیں اور اگر کوئی ان کی ذاتِ عالیہ پر تنقیص وتوہین کے نشتر چلائے تو دلائل کی قوت سے ہم ان کے انسداد اور روک تھام کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔

                اس وقت عجیب کیفیت تھی اور سامعین ہمہ تن گوش ہوئے، مولاناکی گفتگو سماعت کررہے تھے۔ مولانا محمد الیاس گھمن نے فرمایا:ہم امام اعظم ابوحنیفہ کو فقہاء اور تابعین کی صف میں ”امام اعظم“ کہتے ہیں ۔یار لوگوں نے منفی پروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے کہ” امامِ اعظم “تو حضرت محمدﷺ ہیں، یقینا امام اعظم انبیاء کی صف میں محمدﷺ ہی ہیں؛ لیکن جیسے صحابہ میں حضرت ابوبکر؛ صدیق اکبر ہیں حضرت عمر؛ فاروق اعظم ہیں ایسے ہی فقہاء اربعہ میں امام ابوحنیفہ؛ امام اعظم ہیں۔ حاشاوکلا اہل السنت والجماعت کا کوئی شخص امام ابوحنیفہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے برتر تو کیابرابر بھی نہیں سمجھتا․․․ انھوں نے اپنے وقت مقررہ میں گفتگو کو سمیٹے ہوئے کہا کہ جیسے” ابوبکر“ یہ صدیق اکبر کانام اور کنیت نہیں بلکہ وصف ہے۔ ایسے ہی ”ابوحنیفہ“ نام اور کنیت نہیں؛ بلکہ ان کا وصف ہے۔ ابوبکر اسے کہتے ہیں جو ہر نیک کام میں پہل کرے ایسے ہی ابوحنیفہ ملت حنیف دین حنیف والے کو کہتے ہیں۔

                 بات آئی تو کہتا چلوں کچھ لوگوں نے غلط باتیں مشہور کررکھی ہیں اور کہتے ہیں کہ” حنیفہ“ امام اعظم کی بیٹی کا نام تھا؛ حالانکہ اہلِ تاریخ اس بات پر متفق ہیں کہ امام صاحب کی کوئی بیٹی نہیں تھی؛ بلکہ ایک ہی صاحبزادے حضرت ”حماد“ تھے۔

                آخر میں انھوں نے کہا کہ ہم غیرسیاسی اور غیرعسکری طور پر ملک بھرمیں اور بیرون ممالک میں اپنے مشن کی تکمیل میں سرگرم ہیں، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں ہمارا ادارہ احناف میڈیا سروس بہت فعال ہے․․․․“

                سیمینار میں مندوبین حضرات کے علمی اصلاحی اور فکری بیانات نے سامعین کے قلب واذہان سے شکوک اور شہبات کو بالکل ختم کردیا۔مولانا سید عدنان کاکاخیل نے اپنی بات کاآغاز کرتے ہوئے کہا:” ہم اتحاد اہل السنت والجماعت کے راہنماؤں کو مولانا منیر احمد منور اور مولانا محمد الیاس گھمن کو اپنے ادارے جامعة الرشید کی طرف سے اپنے مہتمم مفتی عبدالرحیم ،شیخ الحدیث مولانامفتی محمد اور استاد محترم مفتی ابولبابہ کی جانب سے نیک تمناؤں بھرپور تعاون کی یقین دہانی کے ساتھ میں جامعة الرشید سے منسلک ابلاغی،اخباری اور رفاہی شعبہ جات کی طرف سے نمائندگی کررہاہوں ․․․․ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جو دعوت ہے یہ علم کی روایت کی پاسداری ہے جو جہالت کے مقابلے میں اٹھی ہے ․․․․کیا اس کوجہالت کی روایت نہیں سمجھا جائے گا کہ ایک آدمی کھڑا ہوجائے اور کہے کہ حیاتیات، کیمیا ، بائیو، فزکس،کمسٹری کے مسلمہ اصول (جن کی بنیاد پر کام بہت آگے جاچکاہے، دنیا اس کے نتائج دیکھ رہی ہے) میں ا س کو نہیں مانتا؛ بلکہ میں خود تحقیق کروں گا اسے انگریزی محاورے میں کہاجاتاہے کہ میں پہیہ دوبارہ ایجاد کررہا ہوں ۔ایسے ہی علوم دینیہ کے اندر ایک روایت آئی امت کے ذہین ترین افراد نے جن کو ایک یادو واسطوں سے رسول اللہ ﷺ کے قلبِ اطہر تک رسائی حاصل ہے ان کی تحقیقات تشریحات اور تعبیرات کا انکار کرکے تیرہویں یا چودہویں صدی کا ایک جاہل کھڑا ہوجائے اور کہے کہ میں خود ان تمام مسائل کی از سر نو تحقیق کروں گا تو اس جہالت کے مقابلے میں علم کے چراغ روشن کرنا اور اس طرح کے محافل کا انعقاد کرنا بہت ضروری ہے۔

                اورآج ہم جو ”امام اعظم“ کے نام سے یہاں اکھٹے ہوئے ہیں، یہ بھی ایک اور روایت کا تسلسل ہے اور وہ رجال، سیر، تاریخ جرح وتعدیل کی کتابوں میں امام اعظم ابوحنیفہ کی منقبت اور فضائل پر مشتمل اصحاب علم وفضل کی آراء میں ان کو عام کیاجائے اور اس طرح کے پروگرامز کا انعقاد کیاجائے۔

                امام شافعی فرماتے ہیں: اَلنَّاسُ عِیَالٌ فِیْ الْفِقْہِ عَلی أبِي حَنِیْفَةَ تمام لوگ فقہ میں امام ابوحنیفہ کے دسترخواں کے خوشہ چیں ہیں۔ محمد بن اسحاق ابن ندیم نے اپنی الفہرست میں لکھاہے: العلمُ بَرًّا وبحرًا وشرقاً وغرباً بُعدًا و قُرباً تَدْوِینُہ رضی اللہ عنہ علم بروبحر میں، مشرق ومغرب میں ،قریب اور بعیدمیں سے اس کو ”امام اعظم“ نے مدون کیا۔امام ابن مبارک کاقول ہے اَفْقَہُ الناسِ اَبُوحنیفةَ لوگوں میں سب سے زیادہ فقیہ ابوحنیفہ ہیں۔

                انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہاکہ امام صاحب نے مذہب کی بنیاد اس دورمیں ڈالی جب مجتہدین کے اجتہادات کی گرم بازاری تھی۔ اتنے سارے اقوال کو ایک منضبط قواعد میں لے کر آنا بہت کمال کی بات ہے، اجتماعی شورائی کمیٹی کے لیے 40رکنی فقہاء کی کمیٹی تشکیل دی۔

                حنفیت کو اسلام کے چودہ سو سالہ سیاسی نظام سے جو تعلق ہے، وہ بہت مضبوط تعلق ہے؛ کیونکہ سیاسی نظام ہی سے معاشی نظام، اقتصادی ،معاشرتی نظام اور تعلیمی نظام پھوٹتے ہیں،کئی صدیوں تک حنفی فقہاء کی عدالتیں تھیں، جہاں سے اسلامی قوانین کے مطابق فیصلے کیے جاتے رہے اور آج جدید مالیاتی نظام کی جتنی کمیٹیاں دنیا میں بنی ہیں، ان میں حنفی راہنما کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ 80فیصد آراء حنفی عالم کی رائے کے ساتھ متفق ہوتی ہیں۔ اصولِ اجتہادات میں بھی حنفی فقہاء کی آراء کو زیادہ تسلیم کیاجاتاہے، ایک اور خوبی فقہِ حنفی کی یہ بھی ہے کہ امام صاحب اور آپ کے تلامذہ نے ان مسائل کو بھی ذکر کیاہے، جو اس وقت پیش نہیں آئے تھے، تاکہ آج کے نام نہاد مجتہدین کو اجتہاد کی زحمت نہ اٹھانی پڑے۔

                مولانا ابن الحسن عباسی مدیر ماہنامہ ”وفاق المدارس“ پاکستان کی گفتگو کا عنوان تھا ”علم حدیث میں حنفی علماء کا کردار“ مولانانے اس کو بہت خوبصورت پیرائے میں بیان کیااور دسری تیسری صدی ہجری سے لے کر آج تک کی حدیث میں علماء احناف کی تصنیفی خدمات کا مختصر تذکرہ کیا۔

                دیگر علماء میں مولانا شفیق الرحمن، نائب امیر اتحاد اہل السنت والجماعت پنجاب نے اتحاد اہل السنت والجماعت کے تمام مندوبین اور مدعوین کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور اس عزم کا اظہار کیاکہ ہم اس طرح کے پرامن پروگرام کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور ان شاء اللہ ہم ان کا انعقاد کرتے رہیں گے۔ سیمینا رمیں مولانا عبدالحفیظ مکی، مولانا محمد زاہد فیصل آبادی اور دیگر علماء نے اپنے اپنے عنوان کے مطابق بیانات فرمائے،احناف میڈیاسروس کے ڈائریکٹر مولاناعابد جمشید نے اپنی ٹیم کے ہمراہ تمام پروگرام کو انٹرنیٹ کے حوالے سے ہینڈل کیا اور بیرون ممالک کے سینکڑوں افراد نے اس پروگرام کو براہ راست دیکھا۔آخر میں تمام قارئین کو کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں اس طرح کے پروگرامز میں شریک ہونا چاہیے، اللہ ہمیں اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلائے۔

$           $           $

—————————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 8-9 ، جلد: 95 ‏، رمضان — شوال 1432 ہجری مطابق اگست — ستمبر 2011ء

Related Posts