از: مولوی محمد نایاب حسن، شیخ الہنداکیڈمی، دارالعلوم دیوبند
یوں تو عصر حاضر میں اسلام اور مسلمانوں پر مختلف النوع تابڑتوڑ حملے ہورہے ہیں؛ چنانچہ کبھی انھیں بنیاد پرست ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے، کبھی قدامت پرستی کی پھبتیاں کسی جاتی ہیں، کبھی دہشت گردی کی تہمت سے نوازا جاتا ہے، کبھی قرآنِ مقدس کی آیاتِ قتال کے اخراج کی بات کی جاتی ہے، کبھی اسلامی تعلیم گاہوں کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے اور نہ جانے کتنے اعتراضات واشکالات ہیں، جو مسلمانوں پر؛ بلکہ دراصل اسلام پر کیے جاتے ہیں۔
اسلام کے خلاف شدومد کے ساتھ کیے جانے والے ان اعتراضات میں سے اک اہم، تعجب خیز؛ بلکہ ہر دلِ مسلم کے لیے دھماکہ خیز اعتراض وہ ہے جو حاقدین اسلام، اس کی حقانیت ظاہرہ اور اس کی روشن تعلیمات سے کورچشمی برتنے والے اہل مغرب اور ان کے پروردوں کی جانب سے ایک طویل عرصے سے پیہم اچھالا جاتا ہے، وہ اعتراض اسلام کے مبنی بر مصالح حکمِ حجاب پر ہے، یہ حکم اپنے تمام تر وضوح، ثمر آور اور دور رس ومثبت نتائج رکھنے کے باوجود عقل کے دشمنوں کے گلے ہی نہیں اترتا؛ چنانچہ مغرب سے اس کے خلاف بڑی پرزور وپرشور آوازیں اٹھتی رہتی ہیں، جن کی دھمک بلادِ عربیہ اور ایشیا تک میں نہ صرف محسوس کی جاتی ہے؛ بلکہ چند ایک متنور اور روشن خیال قسم کے لوگ ان کی سُر میں سُر ملانے کے لیے آگے بڑھتے نظر آتے ہیں؛ بقصد اختصار ہم صرف گذشتہ دو سالوں کا عالمی منظرنامہ پیش کرتے ہیں، جس سے اس مسئلے کی زبردست حساسیت واہمیت واشگاف ہوتی ہے۔
فروری ۲۰۰۹/ کو فرانس کی ایک بڑی یونیورسٹی کی پچیس سالہ طالبہ ”صابرین تروجات“ کو اس کے پیش کردہ تحقیقی مقالے کے انعام کے طور پر دیے جانے والے اسکالرشپ کو اس وجہ سے روک لیاگیا کہ وہ طالبہ برقع میں تھی، اسی سال جون کے مہینے میں اسلامی ملک بلجیم کی صوبائی اسمبلی کی ممبر ”ماہ نور“ کے باحجاب پارلیمنٹ جانے کی وجہ سے دائیں بازو کے ایک ممبر نے کورٹ میں اس کے خلاف جمہوریت کی پامالی کا مقدمہ دائر کردیا، اسی سال کی پہلی جولائی کو جرمنی کے شہر ”ڈریسڈن“ کے ایک کورٹ (یعنی عدل گاہ اور انصاف کے مسکن) میں بیس سالہ خاتون ”مروہ شربینی“ پر چاقو سے بہیمانہ حملہ کیاگیا جو بالآخر جان لیواثابت ہوا اور جولائی ہی کی سات کو جب کہ ”مروہ شربینی“ کا خونِ ناحق ابھی تازہ ہی تھا کہ ایک فرنچ مسلم خاتون کو اس کے ٹیلرنگ ورکشاپ سے نکال دیاگیا، سبب اس کا بھی حجاب ہی تھا۔
اسی طرح ۲۰۱۰/ میں بھی فرانس کے صدر ”سرکوزی“ کے زہرناک بیانات کا تسلسل رہا؛ بلکہ حجاب پر پابندی کو سرکاری قانون بنانے کی بھی کوشش کی گئی، بعض اسلامی ملکوں سے بھی مسئلہ حجاب کے حوالے سے غیرذمہ دارانہ رویہ کا اظہار کیاگیا، ایشیاء کے ایک بڑے جمہوری ملک ہندوستان میں بھی شاہانِ مغرب کی ہاں میں ہاں ملانے کا افسوس ناک منظر دیکھنے کو ملا؛ چنانچہ ایک نام نہاد مسلم خاتون، میدان سیاست کی سرگرم کارکن اور سابق فلمی ایکٹرس کی طرف اسلامی پردے کو غیرضروری اور بے فائدہ بتلایاگیا، کاغذی شیر، پیرنابالغ اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کے کسی بھی موقع کی ٹوہ میں لگے رہنے والے شیوسینک لیڈر ”بالا صاحب ٹھاکرے“ نے بھی برقع پر پابندی کا مطالبہ کیا؛ اس لیے کہ ہندوستان کی صنعتی راجدھانی ”ممبئی“ کے اژدحامی علاقے ”اندھیری“ سے کسی نقاب پوش نے ایک بچے کا اغوا کرلیا تھا اور چلتے چلتے سال کے اخیر میں یہ خبر بھی سننے کو ملی کہ اس سال عالمی نقشے پر اپنی جرأت وبیباکی کی چھاپ چھوڑنے اور اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی وجہ سے عالمی میڈیا کی سرخیوں میں رہنے والے اسلامی ملک ”ترکی“ کی استنبول یونیورسٹی کے کلیة الطب کی ایک طالبہ کو اس کے استاذ نے نقاب پوش ہونے کی وجہ سے لیکچر روم سے نکال دیا اور اس طالبہ کے مجلس تعلیمی سے شکایت کرنے کے بعد یونیورسٹی کو طالبہ کے (خواہ نقاب پوش ہو) محاضرے میں شرکت کی مطلق اجازت کا قانون نافذ کرنا پڑا، اس استاذ اور اس کے ہم نواؤں کا کہنا تھا کہ نقاب لگاکر کلاس میں آنا، جمہوری آئین کی خلاف ورزی ہے اور ترکی آئین اس کی اجازت نہیں دیتا؛ جبکہ مجلس تعلیمی کی طرف سے کہا گیا کہ ترکی کے دستور میں یہ بھی ہے کہ کسی بھی شخص کو حصولِ تعلیم کے حق سے باز نہیں رکھا جاسکتا اور بالآخر بات مجلس ہی کی معتبر رہی۔
اسلامی مفکرین دانشوران اور امت کے احوال کے تئیں واقعیت پسندی سے کام لینے والے ہر شخص کے دل میں ان سوالات کا کھٹکنا بالکل یقینی اور بدیہی ہے کہ آخر اسلامی پردے کے تئیں اس تنگ نظری کی کیا وجہ ہے؟ اور پردہ داری کی وجہ سے صرف مسلم خواتین کے حق میں ہی ہر نوع کا تشدد کیوں روا رکھا جارہا ہے؟ حالانکہ عیسائی راہبات اور بدھسٹ مذہب پرست عورتوں میں بھی اس کا خوب چلن ہے اور سب سے اہم یہ کہ اعداء اسلام کی ان ریشہ دوانیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک کر اسلامی معاشرے ہی سے جنم لینے والے چند ایک مذہب بیزار ذہنیت رکھنے والوں کی طرف سے ”چلوتم ادھر کو ہوا ہو جدھرکی“ کی صدائے مسلسل کیوں آرہی ہے؟۔
حکم حجاب پر چھینٹا کشی کرنے اور اس کو تنقید کا نشانہ بنانے کی وجہ نام نہاد جمہوریت کی پامالی کو بتایا جاتا ہے؛ حالانکہ دیگر مذاہب کی ماننے والی خواتین بھی اپنا مذہبی لباس پہنتی ہیں اور کسی بھی پبلک مقام یا تعلیم گاہ میں آنے کی ان کو کھلی اجازت ہوتی ہے۔
آخر جمہوریت کی بحالی کے لیے یہ دوہرے پیمانے کیوں؟ ایک طرف تو اسلامی پردے پر روک لگائی جائے اور دوسری طرف دیگر افراد کے لیے کوئی قید نہ ہو۔
بات دراصل یہ ہے کہ ان کے دعوے کے پیچھے ان کی بدنیتی پوشیدہ ہے، حکمِ حجاب پر پابندی کا مطالبہ اس لیے نہیں کرتے جو وہ ظاہر کرتے ہیں؛ بلکہ ان کے اس پروپیگنڈے کے پس پردہ اسلام کی بڑھتی ہوئی حیرت انگیز طور پر مقبولیت، اس کی بے پناہ کشش اور تعجب خیز حد تک حقیقت بیں افراد کے اسلام کے حظیرئہ قدس میں پناہ لینے کے غیرمنتہی تسلسل کو منقطع کرنے کی گھناؤنی سازشیں سرگرم عمل نظر آتی ہیں، وہ دیکھتے ہیں کہ اسلام کی قدرتی مقناطیسیت ہر فردِ باشعور کو اپنی طرف حیرت ناک حد تک کھینچے جارہی ہے، ہر سال اسلامی تعلیمات کی شفافیت سے متاثر ہوکر بے شمار افراد قبول اسلام سے مشرف ہورہے ہیں، اسی طرح اسلام کے حکمِ حجاب سے متاثر ہوکر ان گنت خواتین اسلام کی طرف جھک رہی ہیں؛ بلکہ چند ایک نومسلم خواتین کے یہ تاثرات دشمنانِ اسلام کے دماغ کی چولیں ہلائے دے رہے ہیں کہ وہ حجاب اپناکر اپنے آپ کو انتہائی محفوظ محسوس کررہی ہیں، حجاب اور باحجاب خواتین کو تشددِ بے جا کا نشانہ بنائے جانے کی وجہ صرف اور صرف یہی ہے۔
ایے نازک ترین اور تشویشناک صورتِ حال میں اسلامی سوسائٹی کا یہ فریضہ ہے کہ اسلام کی بیٹیوں کو ان کی اصلیت سمجھائے، اسلامی تعلیمات سے روشناس کرائے، انھیں بتائے کہ اسلام نے حجاب کا حکم دے کر تم پر ظلم نہیں کیاہے؛ بلکہ تمہاری عصمت وعفت کی حفاظت کا ایک اچھا انتظام کیا ہے۔ ان کے ذہن ودماغ میں یہ تصور بٹھادے کہ اگر حالات کے تھپیڑے اور حوادث دہر کی بے دردیاں کہیں تمہیں تلاش معاشِ میں بیرونِ خانہ نکلنے پر مجبور کردیں تو بھی تم اپنی ناموس کے تحفظ کی خاطر حجاب سے ہرگز باہر نہ آنا، انہیں یہ بھی ذہن نشین کرادیا جائے کہ اگر تم کسی بڑی دانش گاہ کی طالبہ ہوتو بھی پردہ نشینی سے دامن نہ جھٹک دینا، ان کے دلوں میں یہ حقیقت نقش کالحجر کردی جائے کہ تمہارے لیے شفقتِ مادریت، محبت خواہریت اور شوہر کے ساتھ اطاعت شعاری ووفاکیشی ایک عظیم شرف ہے نہ کہ بوجھ اور تکلیف کا سامان، انہیں اسلام کی روشن تعلیمات کے ذریعہ یہ باور کرادیا جائے کہ اسلام نے؛ بلکہ اسلام ہی نے تمہارے تمام حقوق کو کما حقہ ادا کیا ہے، انہیں یقین دلایا جائے کہ اسلام نے ماں ہونے کی صورت میں تمہارے قدموں تلے جنت رکھا ہے، بہن ہونے کی صورت میں بھائیوں کے بے مثال لاڈ وپیار سے نوازا ہے اور بیوی ہونے کی صورت میں تمہیں گھر کی ملکہ بنایا ہے، انہیں یاد دلایا جائے کہ اسلامی تاریخ میں صدیق وفاروق، عثمان وعلی، خالد وابن الوقاص وابن زیادوابن قاسم، ایوبی وزنگی، بوحنیفہ ومالک، جنید وشبلی اور ان جیسے ہزاروں جواہر ریزے تمہاری دَین ہیں؛ لہٰذا وقت کے تند وتیز جھکڑ تمہارے پائے ثبات میں ذرا بھی لغزش نہ پیدا کرنے پائیں اور تمہاری ناموس و وقار کے لٹیروں کی سازشیں ہرگز ہرگز تمہیں اپنے دین سے سرگشتہ نہ کرنے پائیں۔
اسی طرح مسلم معاشرے کے تنور پسند اور تہذیب جدید کو خوش آمدید و آفریں کہنے والوں کی غیرت وحمیت پر تازیانے برسائے جائیں، ان سے پوچھا جائے کہ کیا تم اتنے دیوث ہوگئے کہ سرِعام اپنی عزت وناموس کو بیچنے کے لیے تیار ہو؟ کیا تم چاہتے ہو کہ مغرب کی عریانیت وفحاشی اسلام کے حصن حصین میں درآئے؟ کیا تم پسند کروگے کہ تمہاری بیٹیاں سرِبازار اپنے حسن کی نمائش کریں، نائٹ کلبوں، رقص گاہوں اور تھیٹروں میں عریاں ونیم عریاں ہوکر شہوت رانی وہوس پرستی کے خوگروں کے لیے اپنی موسیقی سے لذت گوش، اپنے رقص وناز وادا سے لذت نظر اور اپنے صنفی کمالات (اور درحقیقت حیوانیت) کے ذریعہ لذت جسم بن جائیں؟۔
ان مائل بہ آوارگی ذہنوں اور مذہب ومذہبیات کے پالے سے اپنے کندھے کو جلد از جلد ہلکا کرنے کو بے تاب افراد کے سامنے تاریخ کی روداد ورق دروق کھول کر رکھ دی جائے، انہیں بتایا جائے کہ تہذیبِ یونان کے آفتابِ نیم روز کے گہنانے کی وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ اہل یونان خدا کی دی ہوئی بے پناہ دولت، سیم وزر کے ذخائر اور وسائل معیشت کی بے پناہ فراوانی کا صحیح اور موزوں طریقہ پر استعمال کرنے کی بجائے عیش وعشرت کے دل دادہ ہوگئے تھے، حسن وعشق کے درمیان پردہ نام کی کوئی چیز نہ تھی، شہوت رانی جنون کی حد تک ان کے دل ودماغ پر چھاچکی تھی بالآخر شورش شباب وکباب اور فتنہٴ خم وساغر نے ان کا قصہ ہی پاک کرڈالا اور تاریخ میں وہ فقط افسانہٴ عبرت بن کر رہ گئے، پھر روم کی بلند اقبالی کا دورِ ہمایوں آیا، ان کی تہذیب کا بھی خوب چرچا رہا، دنیا کے خطے خطے اور گوشے گوشے میں ان کی عظمت کی دھوم مچ رہی تھی؛ مگر انھوں نے بھی وہی غلطی کی کہ کہاں تو عصمت وعفت کو ایک قیمتی شئی سمجھا جاتا تھا اور اسی کو معیار شرافت گردانا جاتا تھا، اخلاق کا معیار کافی بلند تھا؛ مگر اچانک اخلاقیات کے سارے بند ٹوٹ پڑے اور روم میں شہوانیت، عریانیت اور فواحش کا سیلاب بلاخیز پھوٹ پڑا تھیٹروں میں بے حیائی کے کھلم کھلا مظاہرے ہونے لگے، ننگی اور فحش تصویریں ہرگھر کی زینت کے لیے ضروری ہوگئیں، قحبہ گری کے کاروبار کو اتنا فروغ حاصل ہوا کہ قیصر ٹائبریس (۱۴ م تا ۳۷ م) کو معزز خاندانوں کی عورتوں کو پیشہ ور طوائف بننے سے روکنے کے لیے مستقل قانون پاس کرنا پڑا، رومی لٹریچر میں فحش اور عریاں مضامین بے تکلف پڑھے جاتے تھے؛ بلکہ وہی ادب مقبول عام ہوتا تھا جس میں استعارے کنائے کا بھی کوئی گذر نہ ہو، بہیمی خواہشات سے اس قدر مغلوب ہوجانے کے بعد تہذیبِ روم کا قصرِ عظمت ایسا پیوندِ خاک ہوا کہ پھر اس کی ایک اینٹ بھی اپنی جگہ قائم نہ رہ سکی۔
مسلم معاشرہ کے عقل باختہ اور فریب خوردہ افراد کو مغربی تہذیب اور اس کے لائے ہوئے گناہوں کے سیلاب کے بارے میں کھول کھول کر بیان کیا جائے انہیں بتایا جائے کہ فرماں روایانِ مغرب کا نعرہٴ مساواتِ مردوزن، ان کے معاشی استقلال کی صدائے بازگشت اور مرد وعورت کے آزادانہ اختلاط کے اس پروپیگنڈے کے پس منظر میں کیا ہے، وہ دراصل بھانپ چکے ہیں کہ مسلمانوں کو ان کے دین، ان کے نبی ﷺ اور ان کے قرآن سے برگشتہ کرنے کے لیے ظلم وعدوان کی ہر تدبیر ناکارہ ہوتی جارہی ہے، لالچ اور حرص وطمع دے کر بھی ہم انھیں شیشے میں نہ اتارسکے؛ اس لیے انھوں نے ایسے پرفریب نعرے دیے کہ بہ ظاہر ہرسننے والا اس کو اپنے دل کی آواز سمجھ بیٹھے اور باور کرلے کہ واقعتا عورت کی صنف اب تک دبی کچلی تھی اور تہذیبِ غرب کے علمبرداروں کی ان کے حقوق کی بازیابی کی کوششوں کو سراہنا چاہیے؛ بلکہ ان کے قدم سے قدم ملاکر تعاون باہمی کا مکمل ثبوت دینا چاہیے؛ حالانکہ مغرب کی پالیسی وہ بالکل نہیں جو وہ ظاہر کرتے ہیں؛ بلکہ وہ فطرت کے مقیاس بدل دینے کے خواہاں ہیں، مساوات کے نام پر عورتوں کو ان کی سکت سے زیادہ مکلف بنانے کی خطرناک سازش ہے اور سب سے زیادہ ان کی خواہش یہ ہے کہ مسلمان عورتوں پر نشانہ سادھا جائے، ان کے نقاب کو الٹ دیا جائے اور ان کو کوچہ وبازار، رقص گاہ، سرکاری دفاتر اور ہر پبلک مقام پر کھینچ کر لایا جائے اور عورت ومرد کے آزادانہ اختلاط کا اندوہ ناک نتیجہ یہ ہے کہ عورتوں میں حسن کی نمائش، عریانی اور فواحش کو غیرمعمولی ترقی ملی ہے، صنفی میلان جو پہلے ہی سے مردوعورت کے درمیان موجود ہے طاقت ور ہوتا جارہا ہے، پھر اس قسم کے صنفی اختلاط کی سوسائٹی میں دونوں صنفوں کے اندر یہ جذبہ ابھرآتا ہے کہ صنف مقابل کے لیے زیادہ سے زیادہ جاذب نظر بنیں اور جبکہ اخلاقی نظریات کی رو سے ایسا کرنا باعث ننگ وعار بھی نہ ہو؛ بلکہ شان دلربائی کو مستحسن سمجھ لیا گیا ہو تو حسن وجمال کی نمائش اپنی تمام حدوں کو توڑتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ برہنگی کی آخری حد تک پہنچ کر ہی دم لیتی ہے یہی کیفیت اس وقت مغربی تہذیب میں پیدا ہوچکی ہے صنف مقابل کے لیے مقناطیس بننے کی خواہش عورت میں اتنی بڑھ گئی ہے (اور کسی لمحہ رکنے کا نام نہیں لیتی) کہ شوخ وشنگ لباسوں، غازوں کی تہوں، سرخیوں اور بناؤسنگار کے نت نئے سامانوں کے استعمال کے باوجود اس کی شہوت نمائش حسن کو قطعی تسکین نہیں ملتی؛ چنانچہ وہ تنگ آکر کپڑوں سے باہر نکل پڑتی ہے، یہاں تک کہ بسا اوقات بدن پر تارتک نہیں رہنے دیتی، ادھر مردوں کی طرف سے ”ہل من مزید“ کی مسلسل صدا ہے؛ کیوں کہ جذبات میں جو آگ لگی ہے وہ بے حجابی کے ہر منظر پر سرد نہیں ہوتی؛ بلکہ اس میں اور شعلگی آجاتی ہے اور مزید بے حجابی کا مطالبہ کرتی ہے ان غریبوں کی پیاس بڑھتے بڑھتے، ایسی حالت ہوچکی ہے، جیسے کسی کو استسقاء کا مرض ہو اور پانی کے ہر گھونٹ کے حلق سے نیچے اترنے پر اس کی پیاس مزید بڑھتی جاتی ہو، حد سے بڑھی ہوئی شہوانیت کی تسکین کے لیے وہ ہرممکن طریقہ استعمال کرتے ہیں؛ چنانچہ یہ ننگی تصویریں، یہ فحش لٹریچرس، یہ عشق ومحبت کے افسانے یہ عریاں اور جڑواں ناچ کے حیا سوز مناظر اور یہ جذبات شہوانی سے بھری ہوئی فلمیں آخر کیا ہیں؟ سب اسی آگ کو بجھانے (اور دراصل بھڑکانے) کے سامان ہیں، جو اس غلط معاشرت نے سینوں میں لگارکھی ہے، اور اس بے حیائی وعریانیت کا نام انھوں نے آرٹ، ثقافت اور فنون لطیفہ رکھا ہے۔
مغرب کی اس فحاشیت سے خود اس معاشرے میں جنم لینے والی بیٹیاں تنگ آچکی ہیں، جو ان میں تعلیم یافتہ اور باشعور ہیں، وہ اسلام کے غیرجانبدارانہ مطالعہ کے بعد بصد شوق ورغبت اسلام کی آغوش میں پناہ گزیں ہورہی ہیں، اور ایسی خواتین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہاہے، مغرب کی تہذیب کی بنیادوں کو گھن لگ چکا ہے اور اس کی عظمت وسطوت کا بلند وبالا محل زمین دوزہوا ہی چاہتا ہے۔
اب ایک بار پھر ان مغرب زدہ مشرقیوں سے پوچھا جائے کہ کیا تم اسی تہذیب کے حامی بننا چاہتے ہو جس کے دن گنے جاچکے ہیں؟ جس کی گود میں پلنے والے افراد ہی اس سے دامن چھڑانے کو بے تاب ہیں، جس کی دَین کہ انسان جسے اللہ نے مکرم بنایا تھا وہ ذلت ورسوائی کی تمام حدوں سے گذرچکا ہے۔ تہذیب جدید کے ان ہلاکت خیز نتائج کے سامنے آجانے کے باوجود اگر تمہیں عقل نہ آئی، تم نے اپنے خاندان اور معاشرے میں اسلامی حجاب کو رواجِ عام نہ دیا، تو اس دن کے لیے تیار رہنا، جب تمہاری ”فراخ دلی“ کشادہ ظرفی“ اور ”مارڈنیسٹ“ بننے کے شوقِ بے پناہ کی بھینٹ خود تمہاری بیٹی چڑھ جائے اور تمہیں اس نیلگوں آسمان کے نیچے اور اس روئے زمین پر ذلت ورسوائی کے سیاہ ترین دھبے کو دھونے کے لیے کوئی جگہ میسر نہ ہو، وَلاَ رَادَّ لِقَضَائہ․
$ $ $
—————————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 8-9 ، جلد: 95 ، رمضان — شوال 1432 ہجری مطابق اگست — ستمبر 2011ء