از: مولاناسعیدالرحمن الاعظمی ندوی
مدیر البعث الاسلامی، ندوۃ العلماء، لکھنؤ
گذشتہ بیسویں صدی کے چوتھے دہے کی بالکل ابتدا میں، میں مدرسہ مفتاح العلوم جامع مسجد شاہی مئو میں ابتدائی مکتب میں داخل ہوا تھا، اس وقت میرے اساتذہ میں پرائمری درجات کے ذمہ دار جناب منشی گدا حسین صاحب فاروقی اور ناظرئہ قرآن کریم کے استاذ قاری عبدالمنان صاحب تھے، بہت جلد چند سالوں میں یہ مرحلہ پورا ہوگیا، پھر عربی درجات میں تعلیم حاصل کرنے کی سعادت اس خاکسار کو حاصل ہوئی اور درجہ اوّل سے لے کر غالباً سال ششم جلالین ومشکوٰۃ اورہدایہ کے درجہ تک کی ساری کتابیں ۱۹۴۸ء مطابق ۱۳۶۸ھ تک اپنے سبھی جلیل القدر اساتذہ سے پڑھ لیا تھا، ان میں عربی ادب کی کتابیں محدث جلیل حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی نوراللہ مرقدہ اور درسیات کی جملہ کتابیں اپنے والد مکرم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد ایوب اعظمی رحمہ اللہ، حضرت مولانا عبداللطیف نعمانی رحمہ اللہ، حضرت مولانا عبدالجبار صاحب اعظمی رحمہ اللہ، حضرت مولانا شمس الدین صاحب رحمہ اللہ، حضرت مولانا مفتی عبدالباری صاحب رحمہ اللہ، حضرت مولانا یحییٰ صاحب رحمہ اللہ اور بعض دیگر اساتذہ سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ فجزاہم اللّٰہ خیرا کثیراً۔
مفتی صاحب میرے استاذ میرے مربی
غالباً سال دوم میں علامہ جرجانی کی کتاب ’’شرح مأۃ عامل‘‘ کے اسباق حضرت مولانا مفتی محمد ظفیرالدین مفتاحی رحمہ اللہ سے پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی، یہ غالباً ۱۹۴۴ء کا زمانہ تھا، بالکل اسی زمانہ میں مولانا مفتی محمد ظفیرالدین صاحب مفتاح العلوم سے سند فراغ لے چکے تھے اور محدث جلیل حضرت مولانا اعظمی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کا معاون مدرس کی حیثیت سے مفتاح العلوم میں تقرر فرمالیا تھا، الحمدللہ ان کے طریقۂ تدریس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کا موقع ملا اور ترکیب نحوی کی مشق کرنے اور اعراب کی صحت کا ادراک حاصل ہوا، مولانا مفتاحی نے بہت خوبی اور وضاحت کے ساتھ یہ کتاب ہم کو پڑھائی۔ فجزاہ اللہ خیرًا کثیراً۔
متعدد مدارس میں تعلیمی وتدریسی سرگرمیاں
مولانا مفتاحیؒ نے اپنا بیشتر تعلیمی سفر مفتاح العلوم میں پورا کیا، محدث جلیل حضرت مولانا اعظمی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے جوہر کو اچھی طرح پہچان لیا تھا؛ اس لیے ان کی تعلیم وتربیت کی طرف خاص طور سے متوجہ رہے اور حضرت مولانا سے مفتی صاحب کا علمی اور تربیتی تعلق بہت مضبوط ہوا، اور اس شجر سایہ دار؛ بلکہ شجر طوبیٰ کے سایہ میں اپنی علمی شخصیت کو پروان چڑھانے میں ہمہ تن مشغول ہوگئے، اور اہل علم کی صفوں میں ان کا شمار ہونے لگا، اسی کے ساتھ انھوں نے اپنے استاذ ومربی علامہ اعظمی سے اجازت لے کر دو تین سال تک مدرسہ معدن العلوم نگرام ضلع لکھنؤ میں تدریسی خدمت انجام دیں، ۱۹۴۸ء میں دارالعلوم معینیہ سانحہ ضلع مونگیر میں مدرس ہوئے اور عرصۂ دراز تک درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا، ایک سال ڈابھیل ضلع سورت کی جامعہ اسلامیہ میں تعلیمی خدمت انجام دی، لیکن وہاں کی آب وہوا راس نہ آنے کی وجہ سے پھر دارالعلوم سانحہ واپس تشریف لے گئے۔
مفتاح العلوم سے فراغت کے بعد علامہ سید سلیمان ندویؒ کے مشورہ سے انھوں نے ۱۹۴۴ء ہی میں دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخلہ لیا، اور تقریباً چھ ماہ بحیثیت طالب علم، یہاں قیام کرسکے، اس دوران وہ شیخ الحدیث حضرت مولانا شاہ حلیم عطا صاحبؒ، مولانا محمد ناظم صاحب ندویؒ، مولانا محمد اسحاق ندویؒ اور مولانا حمیدالدینؒ جیسے اساتذہ سے استفادہ کیا اور حضرت مولانا اویس ندوی نگرامیؒ کے مشورہ سے ان کے قصبہ نگرام کے مدرسہ معدن العلوم میں مدرس ہوگئے، اور ایک اچھا تعلیمی اور تربیتی وقت گذارنے کا وہاں موقع ملا۔
دارالعلوم دیوبند میں علمی مشغولیت
۱۳۷۶ھ مطابق ۱۹۵۶ء میں دارالعلوم دیوبند کے شعبۂ تصنیف وتالیف سے منسلک ہوکر کئی کتابیں تصنیف کیں، ان میں اسلام کا نظام مساجد، نظام عفت وعصمت خاص طور سے قابل ذکر ہے، ۷ سال تک اس شعبہ سے متعلق رہنے کے بعد ۱۹۶۳ء میں دارالعلوم دیوبند کے کتب خانہ کے مرتب مقرر ہوئے اور فتاویٰ دارالعلوم دیوبند کی ترتیب نو کا بیڑہ اٹھایا، ۱۲؍جلدوں میں حضرت مولانا مفتی عزیزالرحمن عثمانی دیوبندی کے فتاویٰ کی تدوین کی اور یہ فتاویٰ شائع ہوئے، مفتی صاحب نے دارالعلوم دیوبند کے مختلف علمی اور تدریبی شعبوں کی سرپرستی کی اور اس کے ذریعہ سے بہت سے ذہین اور ہونہار طلباء کے اندر علمی اور تفسیری مطالعہ کا شوق پیدا کیا، اور انھوں نے ان کی بہترین رہنمائی میں اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا، دارالعلوم کے بہت سے شعبوں کو اپنی صلاحیتوں سے مالامال کیا، دارالافتاء میں مفتی کا منصب آپ کو عطا کیاگیا، رسالۂ ’’دارالعلوم‘‘ میں اداریہ لکھنے کے فرائض بھی آپ نے انجام دیے، اور ۱۴۲۹ھ میں دارالعلوم کے ساتھ سبکدوشی کی درخواست کی، اور اپنے وطن عزیز میں قیام فرمایا۔
مفتی صاحب مرحوم نے ہر اعتبار سے ایک کامیاب استاذ، انشاء پرداز اور افتاء میں مہارت کے ساتھ ساتھ جملہ دینی اور اخلاقی صفات کے ساتھ زندگی گذاری، وہ تعلیم و تربیت کے فن سے نہ صرف واقف تھے؛ بلکہ وہ اس فن سے پوری طرح مسلح تھے اور حدیث وفقہ کی کتابوں کو درجات علیا میں پڑھانے کی استعداد کامل رکھتے تھے۔
مفتی صاحب کے قابل صد افتخار اساتذہ
مفتی صاحب کے اساتذہٴ کرام میں سرفہرست محدث جلیل حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی رحمۃ اللہ علیہ، جن کے زیرتربیت رہ کر مفتی حاصل نے عالمانہ زندگی کا درس حاصل کیا، مطالعہ کی گہرائی، مسائل میں باریک بینی، ائمہ اسلام کی حیات وخدمات کا مطالعہ، علم دین کی اہمیت کے ساتھ حسنات دنیا سے پوری واقفیت، یہ ساری چیزیں حضرت محدث جلیل کی تربیت میں رہ کر ان کو سیکھنے کا خوب موقع ملا، ان کے دیگر اساتذہ کرام میں حضرت علامہ سید سلیمان ندویؒ، امیر شریعت حضرت مولانا منت اللہ رحمانیؒ، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ، مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی حسنی ندویؒ، شیخ الحدیث حضرت مولانا شاہ حلیم عطا صاحبؒ جیسی نادرئہ روزگار ہستیاں شمار کی جاتی ہیں۔
برادرمکرم حضرت مولانا حکیم عزیزالرحمن صاحبؒ سے بے تکلّفانہ مراسم
دوران قیام دارالعلوم دیوبند مفتی صاحب مرحوم کا محبانہ تعلق ہمارے برادراکبر حضرت مولانا حکیم عزیز الرحمن صاحب اعظمیؒ سے بہت بے تکلّفانہ تھا، اکثر یہ حضرات مجلسوں کی زینت بنتے تھے اور اپنے علم وآگہی سے دوسروں کو فائدہ پہنچانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے تھے، اور صدق دلی کے ساتھ یہ دونوں حضرات اخیر تک ایک دوسرے سے برادرانہ اور محبانہ تعلق میں مشہور تھے، حکیم صاحب مرحوم اپنی چائے کی مجلسوں میں اکثر مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو دعوت دیتے اور شرکت کرنے کی درخواست کرتے تھے، مفتی صاحب انتہائی خوشی اور انبساط کے ساتھ تشریف لاتے،اور جب تک وقت ساتھ دیتا علمی، دینی اور ادبی معلومات میں تبادلۂ خیال کرتے اور زندہ دلی اور فوائد علمیہ کی ایک بہتر فضا قائم کرکے ایک دوسرے سے جداہوا کرتے تھے، مختلف مواقع پر حکیم صاحب مرحوم مفتی صاحب کی قیام گاہ پر تشریف لے جاتے اور وہیں ایک لطیف اور مفید مجلس منعقد ہوجایا کرتی تھی، بے تکلفی کے ساتھ ایک دوسرے کا احترام واعتماد مجلس کی زینت میں اضافہ کا باعث بنتا تھا اور جملہ اہل تعلق اس سے مستفید ہوتے تھے۔
مفتی صاحب نے تاحیات اپنے بنیادی ادارے مفتاح العلوم مئوسے مخلصانہ تعلق قائم رکھا، حضرت محدث جلیل کے مشورہ سے وہاں کی تعلیمی اور ادبی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا کرتے تھے، جب بھی کوئی اہم موقع ہوتا، مفتی صاحب وہاں بلائے جاتے تھے، مفتاح العلوم کے ایک عظیم جلسہ تقسیم اسناد میں جو غالباً ۱۹۵۳ء میں جامع مسجد کے وسیع میدان میں ہوا، مفتی صاحب نے جلسہ کے تنظیمی امور میں خاطر خواہ حصہ لیا اور اپنے استاذ ومربی حضرت محدث اعظمیؒ کی ہدایات کے مطابق وہاں کی سرگرمیوں میں مشغول رہے، مفتاح العلوم سے فراغت کے بعد جہاں کہیں بھی تعلیمی اور تربیتی اعتبار سے قیام کیا، برابر محدث اعظمیؒ سے رابطہ رکھا، اور ان کی ہدایات کے مطابق کام کیا، ان کی وفاداری کا حال یہ تھا کہ جب بھی وہ اپنے وطن جاتے یا وہاں سے واپس ہوتے مربی جلیل اور اساتذہ کرام کی خدمت میں حاضری دینے کے لیے مئو میں بریک جرنی (Breake Journey) کرتے، یا مزید کچھ وقت گذارنے کے بعد اپنے وطن واپس جاتے، محدث اعظمیؒ سے اپنے خاص الخاص تعلق کی بنا پر ان سے تعلق رکھنے والے ہرفرد سے اور ان کے خاندان کے جملہ افراد سے مخلصانہ تعلق رکھتے تھے۔
اسلامی فقہ اکیڈمی کی صدارت
دارالعلوم دیوبند میں قیام کے دوران وہاں کے دارالافتاء میں مفتی دارالعلوم کے منصب پر فائز ہوئے تو اسلامی فقہ اکیڈمی (انڈیا) کے ذمہ داروں نے ان سے درخواست کی کہ اس اکیڈمی کے رئیس کا منصب قبول فرماکر اپنی ہدایات اور مشوروں سے اس کے لیے ترقی کی راہ عمل تجویز فرمائیں، اور اپنی تجاویز سے ارکان اکیڈمی کو مستفید فرمائیں، الحمدللہ انھوں نے اس پیش کش کو قبول فرمالیا اور تاحیات اکیڈمی کے منصب صدارت پر فائز رہے، اکیڈمی کے سکریٹری جنرل حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ہیں اور سیمینار کے انعقاد کے سکریٹری حضرت مولانا عبیداللہ الاسعدی ہیں، جب تک صحت نے ساتھ دیا، مفتی صاحب نے سیمیناروں میں شرکت فرمائی اور اپنی نگارشات اور تقریروں سے فقہ اسلامی کی روشنی میں مسائل جدیدہ کا حل تلاش کرنے کی لوگوں کو دعوت دی، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اہم ترین ارکان میں تھے، اور فقیہانہ بلندی سے مسائل اور بورڈ کے سیمیناروں اور اجلاس کے ایجنڈے پر غور کرکے اپنی رائے دیا کرتے تھے اور بورڈ کے سبھی جلسوں میں شرکت فرماتے تھے۔
ندوۃ العلماء کے جشن تعلیمی کی تیاری میں مفتی صاحب کی سرگرمی
مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ جب مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی صاحب حسنی ندویؒ نے ۱۹۷۵ء میں ندوۃ العلماء کا پچاسی سالہ جشن منعقد کرنے کا فیصلہ فرمایا اور مجلس انتظامی نے اس پر اپنی مہر تصدیق ثبت کردی تو ندوۃ العلماء کے کتب خانہ میں موجود مخطوطات کا تعارف لکھنے کے لیے حضرت مولانا کی نظر انتخاب مفتی صاحب مرحوم پر پڑی، اور دارالعلوم کے ذمہ داروں سے خط وکتابت کرنے کے بعد ان کو کم از کم دو مہینے تک ندوہ میں قیام کرنے کے لیے بلالیا، اس موقع پر مفتی صاحب سے جب میں ملا تو انھوں نے بہت ہی خوشی کا اظہار فرمایا اور کہا کہ سعیدالرحمن! میں اب تمہارا مہمان ہوں، میں نے عرض کیا: میرے لیے اس سے بڑی سعادت کیا ہوسکتی ہے؛ چنانچہ ندوہ کے دوران قیام اور پچاسی سالہ اجلاس کی تیاریوں کی مشغولیت کی بنا پر بہت زیادہ خدمت کا موقع نہ مل سکا، مختلف مواقع سے دارالعلوم سے باہر اپنی قیام گاہ پر تشریف لے چلنے کی درخواست کیا کرتا تھا؛ تاکہ وہاں دوپہر کا کھانا نوش فرمائیں اور کھانے کے بعد عصر تک آرام فرمائیں، الحمدللہ اس طرح کے مواقع اُن اوقات میں بھی پیش آتے، جب وہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی میٹنگ یا اجلاس کے موقع پر دارالعلوم ندوۃ العلماء، دیگر ارکان اور علماء کے ساتھ تشریف لایا کرتے تھے، کئی اہم حضرات سے وہ اپنی خاص شفقت کے ساتھ میرا تعارف کراتے اور انتہائی شفقت کے ساتھ یہ بھی فرماتے کہ سعیدالرحمن میرے شاگرد ہیں، مجھے بہت خوشی ہوتی تھی اور جی چاہتا تھا کہ میں مفتی صاحب کے قدموں میں رہ کر زندگی گذاروں۔
احقر پر مفتی صاحب کی شفقت
اجلاس ندوۃ العلماء کے دوران قیام، مفتی صاحب کو یہاں کی آب وہوا اور کھانا موافق نہیں آتا تھا، ہم نے گذارش کی کہ مجھے اجازت دیں کہ میں اپنے گھر کا پکاہوا روکھا سوکھا کھانا آپ کی خدمت میں لایا کروں، لیکن انھوں نے مجھے اس کی مستقل اجازت نہیں دی؛ اس لیے مواقع کے انتظار میں رہا کرتا تھا؛ تاکہ مفتی صاحب کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کا موقع ملے، انھوں نے مجھے ہر موقع پر بہت دعائیں دیں اور ان کی دعائوں سے مجھے فائدہ پہنچا، مجھے یاد ہے کہ کئی بار مفتی صاحب نے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں کچھ طلباء کے داخلہ کے سلسلے میں مجھے خط لکھا اور میں نے اس کی تعمیل کرنے کی پوری کوشش کی، ندوہ کے تمام ذمہ دار حضرات اور مفکر اسلام حضرت مولانا سیدابوالحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ مفتی صاحب کا بہت احترام اور خاص خیال فرماتے تھے۔ کسی موقع سے جب یہاں تشریف لاتے تو ان کے قیام وطعام کا خاص اہتمام فرمانے کا حکم فرماتے اور اکثر مجھ سے فرماتے کہ دیکھو! مفتی صاحب کا خیال رکھنا۔
مفتی صاحب کے صاحبزادگان
مفتی صاحب کے بڑے صاحبزادے جناب احمد سجاد قاسمی صاحب اپنے وطن کے قرب وجوار میں کسی ہائی اسکول میں استاذ ہیں، دوسرے صاحبزادے جناب حماد میاں صاحب جامعہ رحمانی مونگیر سے فارغ ہوئے اور تیسرے صاحبزادے جناب عباد میاں صاحب مفتی صاحب کے ساتھ رہتے تھے، انھوں نے دارالعلوم دیوبند میں حفظ کیا۔
مفتی صاحب کے خط کا ایک حصہ جو انھوں نے ۱۳۹۲ھ یعنی آج سے چالیس سال پہلے برادرمکرم حضرت مولانا نورعالم صاحب امینی کی خدمت میں بھیجا تھا، اس کا ایک حصہ نقل کرنا یہاں مفید ہوگا؛ اس لیے ان کی کتاب ’’پس مرگ زندہ‘‘ سے مفتی صاحب کے خط کا یہ ٹکڑا نقل کیا جارہا ہے۔
’’۔۔۔۔۔ عزیزم احمد سجادسلّمہ فراغت کے بعد گھر گئے تھے، ابھی شوال میں ان کو ’’سانحہ‘‘ بھیج کر آیا ہوں، وہاں وہ میٹرک کی تیاری میں ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں کامیاب فرمائے اور میاں حماد سلّمہ کو جامعہ رحمانی مونگیر بھجوادیا ہے؛ اس لیے کہ سانحہ سے قریب ہے، میاں احمد سجاد اس کی نگرانی بھی کریں گے؛ البتہ عباد سلّمہ کو اپنے ساتھ لایا، وہ یہاں حفظ کررہے ہیں۔
مولانا علی میاں مدظلہ، مولانا سعیدالرحمن سلّمہ اور مولانا شمس تبریز سے سلام مسنون عرض ہے، اپنی خیریت سے برابر مطلع کرتے رہیں، میرا علمی تعلق ندوہ سے بھی ہے، اس لیے کہ میں وہاں کچھ دنوں طالب علم رہ چکا ہوں، مولانا شاہ حلیم عطا صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا ناظم صاحب اور مولانا اسحاق صاحب دامت برکاتہم، یہ سب ہمارے اساتذہ رہے ہیں، گو ندوہ والے یہ نہیں جانتے۔
طالب دعا
محمدظفیرالدین، دارالعلوم دیوبند
شب ۶؍ذی قعدہ ۱۳۹۲ھ‘‘
مفتی صاحب کی تصنیفات
حضرت مولانا نورعالم صاحب کی کتاب ’’پس مرگ زندہ‘‘ سے مفتی صاحب کے سوانحی خاکہ سے مفتی صاحب کی تصنیفات کے بارے میں نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے:
(۱) جماعت اسلامی کے دینی رجحانات (۲) اسلام کا نظام مساجد (۳) اسلام کا نظام عفت وعصمت (۴) اسلام کا نظام امن (۵) نظام تعلیم و تربیت (۶) نظام تعمیر سیرت (۷) اسلامی حکومت کے نقش ونگار (۸) تذکرہ مولانا عبداللطیف نعمانیؒ (۹) تذکرہ مولانا عبدالرشید رانی ساگریؒ (۱۰) امارت شرعیہ: دینی جدوجہد کا روشن باب (۱۱) حکیم الاسلامؒ اور ان کی مجالس (۱۲) تعارف مخطوطات کتب خانۂ دارالعلوم دیوبند، دو جلدیں (۱۳) مشاہیر علمائے دیوبند (۱۴) دارالعلوم کا قیام اور اس کا پس منظر (۱۵) حیات مولانا گیلانی (۱۶) اسلامی نظام معیشت (۱۷) تاریخ المساجد (۱۸) فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، بارہ جلدیں (۱۹) جرم وسزا کتاب وسنت کی روشنی میں (۲۰) مصائب سرکار دوعالمﷺ (اسوہٴ حسنہ) (۲۱) زندگی کا علمی سفر (خود نوشت) (۲۲) ترجمہ درمختار از ابتدا تا ختم کتاب الطلاق (۲۳) درس قرآن (۲۴) مسائل حج وعمرہ۔
سانحۂ وفات
۲۵؍ربیع الثانی ۱۴۳۲ھ مطابق ۳۱؍مارچ ۲۰۱۱ء ۸۵ سال اور ۲۵ دن اس دارفانی میں اپنے علم وتقویٰ اور تواضع، وسعت نظر اور بلندیٔ فکر کی ایک مثال قائم کرکے راہیِ دارآخرت ہوئے اور علمی دنیا میں ایک ایسا خلا پیدا کرگئے جو مشکل سے پر ہوتا ہے، اور علم وعمل کی دنیا میں اس کو ایک بڑے نقصان سے تعبیر کیا جاتا ہے:
مت سہل ہمیں سمجھو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
اللہ تعالیٰ مفتی صاحب کے درجات بہت بلند فرمائیں، انھوں نے علم وعمل کی جامعیت کے ساتھ اللہ کے دین اور اس کی شریعت اور کتاب وسنت کے علم کو پھیلانے اور اس کے مطابق زندگی گذارنے اور دوسروں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کی جو سعی بلیغ کی ہے، اللہ اس کو قبول فرمائیں اور دارآخرت میں اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں اور جنت الفردوس کی بہاروں سے پوری طرح سرفراز فرمائیں۔
اس موقع پر یہ عرض کرنا شاید مناسب ہوکہ مفتی صاحب کے مفتاح العلوم مئو کے زمانۂ تعلیم میں حضرت محدث جلیل شیخ الحدیث اور صدرمدرس تھے، اور حضرت مولانا عبداللطیف نعمانی علوم اسلامیہ کے درجات علیا میں استاذ ومربی تھے، اور میرے والد ماجد حضرت مولانا ایوب صاحب اعظمی مفتاح العلوم کے ناظم اور علوم دینیہ وعقلیہ کے استاذ تھے اور دیگر بڑے اساتذہٴ کرام کا ذکر اس مقالہ میں واضح طریقہ سے آچکا ہے۔
اللہ تعالیٰ ان تمام حضرات کو غریق رحمت فرمائیں اور ان کی خطائوں اور لغزشوں کو معاف فرماکر جنت الفردوس کے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام میں جگہ عطا فرمائیں، آمین۔
وصلی اللّٰہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین۔
٭ ٭ ٭
————————————–
دارالعلوم ، شماره 6، جلد: 95 رجب 1432ہجری مطابق جون 2011 ء