مہتمم دارالعلوم دیوبند، یوپی (الہند)
کے دفعتاً سانحہٴ ارتحال سے متأثر ہوکر
﴿منظوم خراج عقیدت﴾
بسم اللہ الرحمن الرحیم
﴿کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ﴾
٭
حضرت مرغوبؒ، مرغوبِ جہاں رخصت ہوا وہ امیر الہند ، میرِ کارواں رخصت ہوا
والیٴ گلشن ، وہ مخلص، باغباں رخصت ہوا وہ انیس ومونس بے چارگاں رخصت ہوا
جس کے دم سے، رقص فرما تھی گلستاں میں بہار کرکے وہ ویراں چمن کو، باغباں رُخصت ہوا
جو وفا کے طور پر دیتا تھا درسِ آگہی وہ معلم، وہ مدرس، حرزِ جاں رخصت ہوا
فخر تھا پھولوں کو جس پر، جس پہ نازاں تھی بہار وہ بہارِ گلستاں کا ، پاسباں رخصت ہوا
بادہٴ وحدت پلاتا تھا، جو رندوں کو مدام ساقیٴ میخانہ، وہ پیرِ مغاں رخصت ہوا
اِس جہاں سے کرکے سامانِ جہانِ آخرت بن کے وہ مطلوبِ ربِّ دو جہاں رخصت ہوا
کوچہٴ فانی سے اُٹھا ، باندھ کر رختِ سفر موت کی آغوش میں ، وہ شادماں رخصت ہوا
بارِ غم کا وہ دلوں پر ڈال کر کوہِ گراں
دارِ فانی سے ظفروہ جانِ جاں رخصت ہوا
——————————–
سوگوار وحزیں: (علامہ) سیّد عبدالعزیز ظفر جنکپوری القاسمی الحسنی غفرلہ
امام وخطیب شاہی مسجد خواجہ پیر، ۵۹ ڈی، فرینڈس کالونی نئی دہلی-۶۵
٭ مراد حضرت مولانا مرغوب الرحمن نوراللہ مرقدہ مہتمم دارالعلوم دیوبند
تعزیت نامہ بیاد
حضرت اقدس مولانا مرغوب الرحمن صاحب رحمة اللہ علیہ مہتمم دارالعلوم دیوبند
————————-
آہ ! اے مرغوبِ رحماں ، آہ ! اے روح چمن
حیف ! کہ جاتی رہی گلشن سے بوئے یاسمن
ایک عالم ، صاحبِ فکر ونظر جاتا رہا ایک مصلح، لائق وفائق بشر جاتا رہا
ایک دانشور، امیر و راہبر جاتا رہا رہنمائے قوم وملت، دیدہ ور جاتا رہا
ہائے ! اِس دنیائے فانی کا ہے یہ کیسا چلن
آہ ! اے مرغوب رحماں، آہ ! اے روح چمن
یوں تو فانی ہے اک شی، اور جہاں کا ہر بشر پر تیرا جانا تو چھلنی، کرگیا قلب وجگر
ہوک سی اٹھتی ہے دل میں، ہورہی ہے چشم تر چاہتا ہے جی کے ہوجائے یہ سب جھوٹی خبر
دل نہیں آمادہ سُن نے کو یہ رودادِ محن
آہ ! اے مرغوب رحماں، آہ اے روح چمن
آہ ! اب پرکیف نغمے، کیوں فضا گاتی نہیں کیوں! ضیاءِ ماہ وانجم اب یہاں آتی نہیں
آہ! ہریالی چمن کی، کیوں ہمیں بھاتی نہیں بوئے گلہائے چمن اب، کیوں یہاں آتی نہیں
لُٹ گئی کیسی بہارِ گلستان وانجمن
آہ! اے مرغوبِ رحماں، آہ اے روح چمن
چشم تر سے کررہا ہے، آج جعفر یہ دعا مغفرت فرما تو ان کی میرے رب میرے خدا
صبر ہم سب کو عطا کر، خالقِ صبح ومسا کرعطا جنت انہیں اے مالکِ روزِ جزا
اب کہاں سے لائیں گے ایسا بشر شیریں سخن
آہ! اے مرغوب رحماں، آہ اے روح چمن
—————————-
نتیجہ فکر: محمد جعفر امام جعفر،متعلّم ششم عربی دارالعلوم دیوبند
ذکرِ مرغوب
نتیجہ فکر: ولی اللہ قاسمی بستوی
استاذ جامعہ اسلامیہ اسلامیہ اشاعت العلوم، اکل کوا، نندوربار، مہاراشٹر
———————————————————
یادگارِ سلف، تاجدارِ خلف، جناب حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب قاسمی بجنوری علیہ الرحمہ
سابق مہتمم ازہرِ ہند، اُم المدارس، دارالعلوم دیوبند، سہارنپور (یوپی)
———————————————————
حضرتِ مرغوبِ رحماں، دے گئے داغِ فراق ہوگئے جاری لبوں پر نغمہ ہائے ’’اَلْفِرَاقْ‘‘
وہ گئے تو ہوگئی سونی بہارِ دیوبند اس لئے کہ وہ رہے ناز ونگارِ دیوبند
ان کے دم سے تھی منور علم وفن کی کہکشاں ناز فرماتی تھیں ان پربلبلانِ گلستاں
تیس برسوں تک رہے وہ رکنِ شوریٰ معتبر تھے مدبر اور عالی مرتب بالغ نظر
مہتمم صاحب کے پھر اچھے معاون بن گئے پھر گراں بارِ امانت کے بھی ضامن بن گئے
یعنی کہ بے لوث ٹھہرے خادمِ دارالعلوم تیس برسوں تک رہے وہ ناظمِ دارالعلوم
اختلافی مرحلے میں وہ رہے ثابت قدم گلستانِ قاسمی ان سے بنا رشکِ اِرَم
انقلابِ نو کی تدبیروں میں وہ کامل رہے نشأةِ ثانی کے معماروں میں وہ شامل رہے
سرفروشوں کے رہے اس دور میں وہ سربراہ مادرِ علمی بنی ان کے لئے جولان گاہ
ان کے سر رکھا گیا خوش رنگ تاجِ اہتمام ان کی زیر سرپرستی ٹھیک تھاہر انتظام
قوتِ فکر وعمل سے بہرہ ور مرغوب تھے آزمودہ اور مردِ دیدہ ور مرغوب تھے
حکمتِ عملی رہی ہے کار فرما شاندار وہ رہے خوددار ومخلص پارسا ایماندار
خوب اصلاحات فرمائی تھیں تعلیمات میں روز افزوں تھی ترقی دورِ تعمیرات میں
فخریہ ہے وہ رشیدی، مسجدِ دارالعلوم مچ گئی ہے جس کی سارے ایشیا میں خوب دھوم
زیرِ سایہ بن رہا تھا ان کے ہی دارِ جدید مادرِ علم وہنر کے وہ تھے معمارِ جدید
ازہرِ ہندوستان کے وہ تھے سچے پاسدار اور اسرارِ دروں کے تھے امین ورازدار
مادرِ علمی ہے ان کی ایک سچی یادگار جابجا روشن ہوئے ان کے نقوشِ تابدار
سارے استاذوں کے تھے وہ دردمند وغمگسار بلبلانِ گلستاں کے سرپرستِ جاں نثار
ذات میں مرغوبِ رحماں کی بہت تھیں خوبیاں چہرئہ خوباں پہ ان کے تھیں عیاں رعنائیاں
سادگی حلم وتواضع کے حسیں پیکر تھے وہ اور کردارِ اکابر کے حسیں مظہر تھے وہ
تھے ملنسار ونرم دل باوفا وخوش چلن بے ریا با فیض تھے سچے نگہبانِ چمن
صاحبِ فہم وفراست مفتی و عالم تھے وہ میکشانِ معرفت کے واسطے قاسم تھے وہ
شفقت والفت کا پتلہ حاملِ خلقِ حسن سربراہِ عالماں تھے، ناز بردارِ زمن
غمگسارِ ملک وملت اور تھے مہماں نواز موجزن دل میں رہا ہے عشقِ حق کا سوز وساز
٭٭٭
یادِ مرغوب
نتیجہ فکر: ولی اللہ قاسمی بستوی
استاذ جامعہ اسلامیہ اسلامیہ اشاعت العلوم، اکل کوا، نندوربار، مہاراشٹر
———————————————————
یادگارِ سلف، تاجدارِ خلف، جناب حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب قاسمی بجنوری علیہ الرحمہ
سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند، سہارنپور (یوپی)
———————————————————
وفاتِ حضرتِ مرغوبِ رحماں، آیتِ غم ہے فراقِ حضرتِ مرغوبِ رحماں، آفتِ غم ہے
وہ رخصت کیا ہوئے کہ گلستاں سونا سا لگتا ہے وصالِ حضرتِ مرغوبِ رحماں، زحمتِ غم ہے
—————————–
رئیس بلدئہ بجنور تھے وہ فخر دوراں تھے زعیم ملت اسلامیہ تھے اہلِ عرفاں تھے
امیر الہند تھے وہ سربراہِ قومِ مسلم تھے بہت سی خوبیوں سے متصف، مرغوبِ رحماں تھے
————————–
نگہبانِ چمن تھے اور فخر مادرِ علمی وہ ہمدوشِ گگن تھے اور نازِ مادرِ علمی
وہی تھے سرپرستِ بلبلانِ گلشن قاسم وہ سرخیلِ زمن تھے اور رشکِ مادرِ علمی
————————–
فرید دہر تھے ہاں ہاں امیرِ کارواں بھی تھے امامِ انقلابِ ازہر ہندوستان بھی تھے
انہی کے دم سے گلشن میں بہارِ علم قائم تھی وہ زیب گلستاں تھے، نوبہارِ گلستاں بھی تھے
————————–
وہی تھے جانِ محفل اور شمعِ انجمن وہ تھے اکابر کے جہاں میں حامل طرزِ کہن وہ تھے
نمونہ وہ رہے اسلاف کے حلم وتواضع میں علمبردارِ حق تھے اور اہل فکر وفن وہ تھے
————————–
چمن میں جس گھڑی کہ انقلابِ عام آیا تھا سرفہرست ان کا سر پھروں میں نام آیا تھا
تھااجڑا میکدہ، روٹھے ہوئے میخوار سارے تھے انہی کے فیض سے گردش میں دورِ جام آیا تھا
————————–
وہی تھے قاسمی میخانے کے قسّامِ فرزانہ انہی کے دم سے تھا آباد وہ حکمت کا میخانہ
جہاں پہنچے وہاں پر اک ہجومِ میکشاں آیا لئے پھرتے رہے ہاتھوں میں اپنے جام وپیمانہ
————————–
وہ لمبی زندگانی یعنی کہ سو سال پائے تھے خدا کے فضل سے وہ زندگی خوشحال پائے تھے
درِ خلاّقِ عالم سے انہی حاصل تھی فیاضی مراد وآرزو کا وہ سنہرا لعل پائے تھے
————————–
نمونہ طبقہٴ اسلاف کا، مرغوب لگتے تھے محبت کی ہمیں وہ تو مئے مرغوب لگتے تھے
جہاں پہنچے انہیں مسند نشینی ہوگئی حاصل سر اجلاس یوں سب کو وہی محبوب لگتے تھے
————————–
دعا گو ہے ’’ولی‘‘ فردوس کا گلزار حاصل ہو قیامت میں ترا مرغوب کو دیدار حاصل ہو
شبانہ روز تیری رحمتوں کے قافلے آئیں لحد میں روشنی کو جلوئہ ضوبار حاصل ہو
٭٭٭
وہ امیر الہند تھے اور رکنِ جمعیت بھی تھے حوصلہ عالی تھا ان کا خوب باہمت بھی تھے
وہ تھے سرخیل زمانہ اور میرِ کارواں ملت اسلامیہ کے تھے وہ سچے پاسباں
تھے مدارس کے بہت سے سرپرست محترم وہ غنی تھے باصفا تھے صاحبِ مجد وکرم
عیسوی انیس سو چودہ میں وہ پیدا ہوئے دیکھ کر مرغوب کو چھوٹے بڑے شیدا ہوئے
ان کا آبائی وطن وہ بلدئہ بجنور ہے علم کے انوار سے جو خطہ معمور ہے
وہ رحیمی مدرسے میں اوّلاً داخل ہوئے اور سن تیرہ سو سینتالیس میں کامل ہوئے
آئے جب بجنور سے وہ سوئے ارضِ دیوبند بن گئے اس کے مثالی ایک ابن ہوشمند
مدنی و مفتی شفیع ، اعزاز سے پائے علومجن کے فیضانِ نظر سے بن گئے رشک نجوم
بے کراں ان کو فیوضِ علم حاصل ہوگئے اور علم دین میں مرغوب کامل ہوگئے
ہوکے فارغ وہ ہوئے مصروف کاروبار میں پر بہت مقبول تھے اللہ کے دربار میں
بن گئے بانسٹھ میں رکنِ مجلس دارالعلوم تھے بیاسی میں وہ زیب مسند دارالعلوم
عمر طبعی حضرتِ مرغوب کی سو سال تھی رحمت مولیٰ سے ان کی زندگی خوشحال تھی
چند برسوں سے رہا کرتے رہے بیمار وہ پیکر زہد وغنا تھے اور تھے خود دار وہ
اک محرم چودہ سو بتیس ہے یومِ وصال رحلت مرغوب سے حاصل ہوا رنج وملال
نوبجے دن میں ہوا مرغوب کا جب انتقال اس قدر بیمار تھے کہ ہوگیا بچنا محال
آئی مرگِ ناگہانی بلدئہ بجنور میں یہ خبر ہر سمت پھیلی نالہٴ پُرشور میں
کہ جنابِ حضرتِ مرغوب رخصت ہوگئے وائے ناکامی ہمیں وہ داغِ فرقت دے گئے
یہ خبر جس نے سنی وہ پتلہٴ غم ہوگیا اور تصویرِ اَلَم بادیدئہ نم ہوگیا
ان کی فرقت سے ہوا فق چہرئہ دارالعلوم ہوگیا بے کیف دیکھو جلوئہ دارالعلوم
بن گیا ماتم کدہ پھر گلشن دارالعلوم اک ہوا موتی سے خالی دامنِ دارالعلوم
مشورے میں طے ہوا کہ لائیں ان کو دیوبند کانپتے ہاتھوں سے پھر دفنائیں ان کو دیوبند
شام کو لاشِ مبارک لے کے آئے دیوبند تاکہ فیض باطنی سے جگمگائے دیوبند
مُلْسَرِی میں غمگساروں کا رہا ہے اژدحام اور انوار الٰہی تھے جنازے کے امام
دس بجے شب میں ہوئی انکے جنازے کی نماز پھر حوالے ہوگئے وہ سوئے ربِّ بے نیاز
رات میں بارہ بجے تدفین ان کی ہوگئی یوں لقاءِ خاص کی تسکین ان کی ہوگئی
آخرش مدفن بنا ان کا مزارِ قاسمی دائمی مسکن بنا ان کا مزارِ قاسمی
ہے ’’ولی‘‘ کی یہ دعاء، ہو جنت الماویٰ نصیب
حشر کے میدان میں ہو عرش کا سایہ نصیب
—————————
پیشکش : (جناب حضرت مولانا) غلام محمد وستانوی (صاحب بانی ورئیس جامعہ اسلامیہ
اشاعت العلوم، اکل کوا، نندوربار، مہاراشٹر)
نالہٴ دل
بروفات حسرت آیات امیر الہند حضرت مولانا مفتی مرغوب الرحمن رحمة اللہ علیہ صاحب بجنوری
مہتمم دارالعلوم دیوبند
———————————
نتیجہٴ فکر:- ولی اللہ اختر بجنوری، تکمیل علوم ، دارالعلوم دیوبند
———————————
آج ہے ماتم کناں بزم جہاں تیرے بغیر
ہوگیا ہے سُونا سُونا گلستاں تیرے بغیر
اے امیر الہند ! ہم جائیں کہاں تیرے بغیر
دل نہیں لگتا کہیں اے مہرباں تیرے بغیر
تو گیا تو ہوگئی رخصت بہارِ زندگی
آہ جانے سے گیا تیرے قرارِ زندگی
آج میخانے پہ ہے چھایا ہوا غم کا ہجوم
ہوگیا افسردہ تیری یاد میں دارالعلوم
ایسا لگتا ہے کہ ہیں بے نور اب ماہ ونجوم
یعنی سب طلاب اور استاذ و اربابِ علوم
کرگیا بیتاب ہم کو تیرا یہ رختِ سفر
ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے غم میں ترے قلب و جگر
تیرے جانے سے گلستاں ایک ویرانہ ہوا
یاد میں مرغوب! ہر اک تیری دیوانہ ہوا
تیرے رخصت ہوتے ہی خالی یہ میخانہ ہوا
میکشوں کا بے مزہ اندازِ رِندانہ ہوا
بزم قاسم میں خموشی آج ہے چھائی ہوئی
ہر کلی ہے گلشنِ عابد کی کُملائی ہوئی
تیری خوبی تا قیامت ہم بُھلاسکتے نہیں
دل کہیں اب تیری فرقت میں لگاسکتے نہیں
یاد تیری قلب سے ہرگز مٹاسکتے نہیں
مثل تیرا ہم کہیں سے آہ لاسکتے نہیں
تو گیا لیکن ! یہاں باقی ترے انوار ہیں
اور چمن کے چپہ چپہ پر ترے آثار ہیں
تو مدبر ، تو مفکر ، تو تھا عالم بے مثال
انتہائی عمر میں بھی تو تھا اک روشن خیال
مل نہیں سکتا کہیں بھی تیرے جیسا باکمال
دل تڑپ اُٹھے ملی جب آہ ! خبر ارتحال
تیرے جانے کی خبر سے تھر تھرا اُٹھے بدن
چھاگئے ہر چار جانب سنتے ہی رنج ومحن
اس جہاں میں تو امینِ ملّت اسلام تھا
دین حق ہر سمت پھیلانا ہی تیرا کام تھا
اوراسی اک کام میں تو مست صبح وشام تھا
کتنے دل ہیں دھڑکنوں میں جن کی تیرا نام تھا
تو گیا دنیا سے کتنوں کو تڑپتا چھوڑ کر
کتنے دیوانوں کو روتا اور بلکتا چھوڑ کر
کس پہ ہوں گے اب فدا یہ عندلیبانِ چمن
یہ بتا ! اب ہوگی نازاں کس پہ یہ ارضِ وطن
کس کی خاطر ہوں گی اب نغمہ سرا گنگ وجمن
کسی کی خاطر اب یہاں مہکے گی بوئے یاسمن
کون پوچھے گا ہمارا آکے ہم سے حالِ زار
کون ہوگا اب ہمارے واسطے یوں بے قرار
آہِ اب ہم کو رموزِ عشق سمجھائے گا کون
اور سروں پر ابرِ رحمت بن کے اب چھائے گا کون
زندگی کے آہ ! اب آداب سکھلائے گا کون
اور کرم ہم پر امیر الہند ! فرمائے گا کون
ہے فضا بجنور کی بے کیف اب تیرے بغیر
اہلیانِ شہر ہیں افسردہ سب تیرے بغیر
تو گیا کیا آہ ! اس دنیا سے اے فخر زمن
بن گئی ظلمت کدہ افسوس اپنی انجمن
کیا بتائیں ہے جدائی تیری کتنی دل شکن
تیرے غم سے ختم ساری ہوگئی تابِ سخن
تیرا جانا بالیقیں سب کو پریشاں کرگیا
ہنس رہے تھے کل تلک جو ان کو گِرْیاں کرگیا
آج تک نغموں سے تیرے گلستاں معمور ہے
نام تیرا خانہ ، خانہ ، کو بہ کو مشہور ہے
ہوکے بھی ہم سے قریں ، تو آج کتنا دور ہے
ہر کوئی حکم خدا کے سامنے مجبور ہے
گرچہ جانے سے تیرے سُونا ہوا ہے اہتمام
ہے مگر بھی دعاء تجھ کو ملے اونچا مقام
اس جہانِ آب و گِلْ سے جب کیا تو نے سفر
حادثہ سن کر ترا غم سے جھکا ہر ایک سر
جب ملی اختر کو تیرے سانحہ کی یہ خبر
سنتے ہی اس کی زباں پر آگیا قول جگر
جان کر منجملہٴ خاصان میخانہ تجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے
٭٭٭
بسم اللہ الممیت العزیز الرحمن الرحیم
۱۴۳۲
ہدیہٴ مقبول بمولانا مرغوب الرحمن صاحب
۲۰۱۰
۲۰۱۰ ۲۰۱۰ ۲۰۱۰ ۲۰۱۰ ۲۰۱۰ ۲۰۱۰ ۲۰۱۰ ۲۰۱۰
۲۰۱۰ رہبر لائق سَروَر فائق عارف صادق مصلح کامل ۲۰۱۰
۲۰۱۰ لائق سرور فائق عارف صادق مصلح کامل رہبر ۲۰۱۰
۲۰۱۰ سرور فائق عارف صادق مصلح کامل رہبر لائق ۲۰۱۰
۲۰۱۰ فائق عارف صادق مصلح کامل رہبر لائق سرور ۲۰۱۰
۲۰۱۰ عارف صادق مصلح کامل رہبر لائق سرور فائق ۲۰۱۰
۲۰۱۰ صادق مصلح کامل رہبر لائق سرور فائق عارف ۲۰۱۰
۲۰۱۰ مصلح کامل رہبر لائق سرور فائق عارف صادق ۲۰۱۰
۲۰۱۰ کامل رہبر لائق سرور فائق عارف صادق مصلح ۲۰۱۰
۲۰۱۰ ۲۰۱۰ ۲۰۱۰ ۲۰۱۰ ۲۰۱۰ ۲۰۱۰ ۲۰۱۰ ۲۰۱۰
یہ مصرعہ چاروں طرف سے پڑھا جاسکتا ہے اورہر طرف سے جامعہ اسلامیہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم اور مسلمانانِ ہند کے امیر شریعت جناب مولانا مرغوب الرحمن صاحب بجنوری رحمة اللہ علیہ (متوفی ۲/محرم مطابق تقویم سعودی ویکم محرم مطابق تقویم ہندی ۱۴۳۲ھ مطابق ۸/دسمبر ۲۰۱۰ء یوم الاربعاء) کے سالِ رحلت کا عدد ۲۰۱۰ برآمد ہوتا ہے جو ۱۴۳۲ھ کے مطابق ہے۔
سوز محمد طاہر الاعظمی حزین بگوشہٴ عزلت شہر جدہ
۱۴۳۲ھ ۱۴۳۲
غمزدہ در شہر کبیر جدہ
۲۰۱۰م
بسم اللہ الممیت العزیز الرحمن الرحیم نحمد المبدیٴ المغنی ونصلی علی النبی الکریم
۱۴۳۲ ۲۰۱۰
تاریخ وفات بادشہ
۲۰۱۰
بدیع الزمن مولانا مرغوب الرحمن صاحب
۲۰۱۰
امیرالہند مہتمم محکم دارالعلوم دیوبند شیریں بیاں مرغوب الرحمن صدر عالم خوش کلام
۱۴۳۲ ۲۰۱۰ ۱۴۳۲
رحمہ الغنی المجید غفرلہ اللہ الودود نوّر مرقدہ العدل الستار
۱۴۳۲ ۱۴۳۲ ۱۴۳۲
أعوذ باللہ القوی الباری من الشیطن الرجیم
۲۰۱۰
قال اللہ الودود: وسقاھم ربھم شرابا طہورا = قال الجلیل الصمد: سلام علیکم ادخلو الجنة
۱۴۳۲ ۱۴۳۲
اکرام الصمد الجلیل علیکم ادخلوا الجنة
۱۴۳۲
قال النبی الحکیم المجیب: الموت جسریوصل الحبیب الی الحبیب
۱۴۳۲
بیّن النبی الأحق: تحفة الموٴمن الموت
۱۴۳۲
موت العالِم الأقدس موت العالَم واللہِ الواجد الماجد موت العالِم موت العالَم
۱۴۳۲ ۱۴۳۲
واللہ البصیر الجلیل لقد وقعت الواقعة
۱۴۳۲
کَسْ مثالِ تو نہ نبودہ در نُجوم = کارِ تو تقلید بودہ منفعتْ اہلِ عُلوم
۱۴۳۲ ۲۰۱۰
سایہٴ فضل وفرحت ہو رحمن کا فضلِ جوّاد ہو قبر میں دَم بہ دَم
۲۰۱۰ ۱۴۳۲
جھکاکر سَر سَنِ رحلتْ میں جب ہم غورکرتے ہیں
ندا پہونچی کہ جنت میں یہ نگراں سیرکرتے ہیں
۲۰۱۰
اَز حُزنِ محمد طاہر الاعظمی غمزدہ در شہرِ کبیر جدّہ
۱۴۳۲ھ ۲۰۱۰
————————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 1-2 ، جلد: 95 ، صفر، ربیع الاول 1432 ہجری مطابق جنوری، فروری 2011ء