از: ڈاکٹر محمد شمیم اختر قاسمی

شعبہٴ سنی دینیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ

معاندین اسلام بالعموم ایک اعتراض یہ بھی کرتے ہیں کہ اسلام نے غلامی کے رواج کو فروغ دیا اور نبی نے غلاموں کی حالت زار پر کوئی توجہ نہ دی ۔اسی وجہ سے عرب معاشرے میں غلاموں کی حالت انتہائی تشویش ناک ہوگئی تھی اور انہیں سماج میں لائق اعتنا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ معترضین کا یہ اعتراض بھی اور دوسرے اعتراضات کی طرح بے وزن ہے اور حقیقت سے اس کا دور دور تک تعلق نہیں۔غلامی اسلام کی پیدا وار نہیں ہے ۔ یہ ایک لعنت تھی جو صدیوں سے دنیا کے بیش ترممالک کی طرح مغرب میں بھی رائج تھی۔کسی قدیم مذہب کے بانیوں نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور نہ ان کی حالت زار پر غم کے آنسو بہائے۔ یہ اسلام کا کا رنامہ ہے کہ اس نے ان کے واضح حقو ق متعین کردیئے ۔جس کی وجہ سے معاشرہ میں ان کا قدبہت بلند ہوگیا۔

غلامی-قبل ازاسلام

کسی کی جسمانی طاقت کو اپنے آرام واسائش یا راحت ومسرت کے لیے استعمال کرنے کی خواہش ہی غلامی کی بنیاد ہے۔یہ خواہش اتنی ہی قدیم ہے جتنی فطرت انسانی۔ اس کے آثار ہر زمانے اور ہر قوم میں پائے گئے ہیں۔اس کا بیج اس وقت پڑا جب انسانی معاشرہ وحشت کے مرحلے میں تھا اور اس وقت بھی پھلتا پھولتا رہا جب مادی تہذیب کی ترقی نے اس کی ضرورت کو رفع کردیا۔یہ رجحان نہ صرف جنگی قیدیوں کے ساتھ خاص تھا ،بلکہ کبھی کبھی طاقت ور قبیلہ اپنے سے کمزور قبیلہ کو ذاتی مفاد اور داد عیش کے لیے غلام بنا لیتا تھا۔ راہ گیروں اور مسافروں کو بھی غلام بنائے جانے کی شہادت ملتی ہے۔غربت وافلاس کے باعث والدین اپنی اولادکو فروخت کردیتے تھے، اس کے نتیجے میں وہ غلام بن جاتا تھا۔ایک مرتبہ کسی کی گردن میں غلامی کا طوق پڑگیا تو پھر وہ کبھی اس سے آزاد نہیں ہوسکتا تھا۔اگر کوئی اس سے آزاد ہونے کی کوشش بھی کرتا تو اسے اتنے سخت قوانین اور کٹھن مرحلوں سے گزرنا پڑتا کہ وہ اسی میں دب کر رہ جاتا۔انہیں کھاناتو ملتا تھا ،مگر اتنا کہ اس کا رشتہ جسم وروح سے برقرار رہ سکے ، یہ غلام اور لونڈیاں چاہے زمینوں کے کمیرے ہوں ، چاہے گھروں کے خدمت گزار ،ان سے نفرت کی جاتی تھی اور انہیں بازاروں میں بیچا جاتا تھا۔(۱)معمولی سی لغزش پر انہیں سخت سے سخت سزادی جاتی تھی۔تمام تمدنی اور معاشرتی حقو ق سے وہ محروم تھے ۔سماجی زندگی میں بھی ان کا کوئی حصہ نہ تھا۔ روم سمیت دنیا کے دوسرے تما م ملکوں کے غلام بھی مظلومی اور بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔کہیں زیادہ تو کہیں ذراہلکے اور نسبتا کم گھناوٴنے رویے کا شکار تھے۔(۲)

اسلام میں غلامی کی حقیقت

 پوری دنیا کی طرح عرب معاشرے میں بھی غلامی پوری طرح رچی بسی تھی۔ بڑی حد تک یہ معاشرے کی ناگزیر ضرورت بن چکی تھی۔آئے دن کی لڑائی بھڑائی اس رواج کو مزید تقویت پہنچارہی تھی۔مال مفت دل بے رحم کا چسکا ہر کسی کو لگ گیا تھا۔ ان حالات میں اسلام اپنی جملہ خصوصیات کے ساتھ ظاہر ہوا۔لہٰذا اس نے اسے فوری طور پربرداشت کیا ، لیکن رائج خرابیوں کو رفع کرنے کی پوری کوشش کی۔سید امیر علی اپنی کتاب ‘روح اسلام’میں لکھتے ہیں:

’’ اسلام کے بہت سے دستور جو بعد میں منسوخ ہوگئے ،شروع شروع میں یا تو خاموشی سے جاری رہنے دیئے گئے یا اعلانیہ قانونا تسلیم کرلیے گئے۔ انہیں میں ایک غلامی کا دستور تھا۔یہ ایک برا ئی تھی جو عربوں کے گہرے سے گہرے باہمی تعلقات کے تاروپود سے گندھی ہوئی تھی۔اسے محو کرنے کا طریقہ یہ نہ تھا کہ جتنے غلام اس وقت موجود تھے ان سب کو فی الفور آزادی دے دی جاتی (جوکہ اخلاقی اور معاشی نقطئہ نگاہ سے ناممکن تھا) بلکہ یہ کہ باحکمت اور انسانیت نواز قوانین کے ذریعے آہستہ آہستہ زائل کیا جاتا۔ چنانچہ بہت سے قوانین سلبی اور ایجابی بھی غلاموں کی آزادی کو رفتہ رفتہ وجود میں لانے کی خاطر وضع کیے گئے۔اگر اس کے مخالف کوئی طریق عمل اختیار کیا جاتا تو نوزائیدہ جمہوریے کی عمارت زمیں بوس ہوجاتی۔‘‘(۳)

عام لوگوں کے حالات پر غور وفکر کرنے کے بعد اس میں موجود خرابیوں کو دور کرنے کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ممکن کوشش کی ۔ دین کی اشاعت کا محور ومرکز بھی یہی تھا۔اس طرح اللہ کے رسول کی نظر سماج کے کم زور طبقات پر بھی پڑی۔آپ نے لوگوں کو حکم دیا کہ ان کے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک کیا جائے ۔ان میں یہ غلام بھی تھے۔آپ نے جس انداز اور فراخ دلی سے انہیں سماج میں بلند مقام ومرتبہ دلایاایک روشن حقیقت ہے۔آپ نے ان کے حقو ق کی بحالی کے لیے مختلف قسم کے قانون بنائے تاکہ غلاموں کو آزادی دی جاسکے یا وہ ازخود آزادی حاصل کرسکیں۔حضور کے وضع کردہ ضابطے اور قوانین کی وضاحت قدرے تفصیل سے درج ذیل سطور میں کی جارہی ہے۔

کسی آزاد کو غلام بنانے کی ممانعت

عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اسلام پورے خطہٴ عرب میں پھیل چکا تھا۔لیکن ایسی چنگاری اب بھی موجود تھی جو ذراسی غفلت پر اسلام کی پوری عمارت کو یک لخت جلاکر بھسم کرسکتی تھی۔اس لیے عہد نبوی یا اس کے قریبی زمانے میں بھی اسلام کے استحکام کے لیے مدافعانہ جنگیں ہوئیں۔اسلام نے صرف ان قیدیوں کو غلام بنانے کی اجازت دی جو شرعی جنگ میں گرفتار ہوئے ہوں۔ فرمایاگیا :

’’فَإِذا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّی إِذَا أَثْخَنتُمُوھُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنّاً بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاء حَتَّی تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَھَا.‘‘(محمد:۴)

(پس جب ان کافروں سے تمہاری مڈ بھیر ہوتو پہلا کام گردنیں مارنا ہے ، یہاں تک کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دوتب قیدیوں کو مضبوط باندھو، اس کے بعد (تمہیں اجازت ہے) احسان کرو یا فدیے کا معاملہ کرلو،تا آں کہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے۔)

جنگوں کے علاوہ کسی کو زبردستی غلام بنانے کا جو رواج اور دستور تھا،اس کی اسلام نے بالکل اجازت نہیں دی۔آپ نے صاف لفظوں میں فرمایا:’’اللہ تعالیٰ روز قیامت تین آدمیوں سے جھگڑا کرے گا،ان میں سے ایک شخص وہ ہوگا جو کسی آزاد مسلمان کو غلام بناکر بیچ دے گا۔‘‘(۴)

غلاموں کی آزادی پر اجرو ثواب

اسلام کے ابتدائی عہد میں غلاموں کو بیک وقت آزاد بھی نہیں کیاجاسکتا تھا۔لیکن انفرادی طور پر مسلمانوں کو ترغیب دی گئی کہ وہ اپنے غلاموں کو ازخود آزاد کردیں تو عنداللہ وہ اجرو ثواب کے مستحق ہوں گے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’وَلَکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلآئِکَةِ وَالْکِتَابِ وَالنَّبِیِّیْنَ وَآتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہِ ذَوِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّائِلِیْنَ وَفِیْ الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَی الزَّکَاةَ.‘‘ (البقرہ:۱۷۷)

(بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبر وں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر،مسکینوں اور مسافروں پر،مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے ۔نماز قائم کرے اور زکوة دے۔)

ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے:

’’فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ. وَمَا أَدْرٰکَ مَا الْعَقَبَةُ. فَکُّ رَقَبَةٍ. أَوْ إِطْعَامٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَةٍ. یَتِیْماً ذَا مَقْرَبَةٍ. أَوْ مِسْکِیْناً ذَا مَتْرَبَةٍ.‘‘(البلد:۱۱-۱۶)

(مگر اس نے دشوار گزار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت نہ کی اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوار گزار گھاٹی؟ کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا،یا فاقے کے دن کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مسکین کو کھاناکھلانا۔)

غلام اور لونڈیاں خدمت گاری اور منافع حاصل کرنے کے اہم ذرائع تھے۔اس لیے مالک انہیں آسانی سے الگ کرنے کو تیار نہیں ہوسکتے تھے۔ اللہ کے رسول نے بڑے ہی حکیمانہ انداز میں انہیں غلاموں کی آزادی پر آمادہ کیا ۔آپ نے فرمایا:’جو شخص کسی مسلمان غلام کو آزاد کردے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر عضو کے بدلہ میں اس آزاد کرنے والے کے ہر عضو کو آتش دوزخ سے بچائے گا۔‘(۵)اسی جذبہ کے تحت صحابہ کرام نے بڑی تعداد میں غلاموں کو آزاد کرنا شروع کردیا۔بلکہ صحابہ کرام آخرت میں بلند مقام حاصل کرنے کے لیے اللہ کے رسول سے دریافت کرتے کہ غلام تو بہت سارے ہیں اور ان میں ہر قسم کے غلام ہیں ،کس طرح کے غلام کو آزاد کرنے پرزیاد ہ ثواب ملے گا۔صحابہ کرام کے اس جوش آزادی کو دیکھ کر آپ فرماتے: ‘جو غلام تم کو سب سے زیادہ محبوب ہو اور جوغلاموں میں سب سے اچھا ہو۔’(۶)

قیدیوں اورغلاموں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید

ہجرت مدینہ کے بعد اسلام اور کفر کے درمیان بڑی بڑی جنگیں ہوئیں۔ان میں بڑی تعداد میں دشمن کی فوج کو قید کیا گیا۔باوجود اس کے آپ نے ان کی رہائی کی مختلف سبیلیں نکالیں۔ابن قیم جوزی  رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگی قیدیوں میں سے بعض کو ازراہ احسان رہا کردیا، بعض کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا گیا اور بعض کو قتل کروادیا اور بعض کو مسلمان قیدیوں کے عوض رہا کردیا گیا۔(۷) حسب تقاضائے مصلحت آپ نے یہ تمام صورتیں اختیار فرمائیں۔ جنگ بدر میں آپ کے چچا حضرت عباس گرفتار ہوئے تو بعض صحابہ نے کہا کہ انہیں یوں ہی رہا کردیا جائے ،یا فدیہ لینے میں ان کے ساتھ کچھ نرمی برتی جائے۔آپ نے فرمایا کہ ایک درہم بھی نہ چھوڑا جائے۔(۸) اسی غزوہ میں آپ کے داماد یعنی حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے شوہر بھی گرفتار ہوئے ۔ آپ کی بیٹی نے شوہر کی رہائی کے لیے قیمتی ہار روانہ کیا ۔حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پرصحابہ نے زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے شوہر کا فدیہ لیے بغیر انہیں اس شرط پر رہا کردیا کہ وہ مکہ جاکر حضرت زینب کو باعزت مدینہ روانہ کردیں گے۔(۹) کچھ قیدی ایسے تھے جن کے پاس فدیہ ادا کرنے کے لیے کچھ نہ تھا۔ نبی نے ان کا فدیہ یہ مقرر کیا کہ وہ مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھادیں اور آزادی حاصل کرلیں۔(۱۰) اس سے معلوم ہوا کہ مال کے علاوہ کسی کام کو بھی فدیہ قراردیا جاسکتا ہے ۔یہ سربراہ مملکت کی صواب دید پرہے کہ وہ قیدیوں کے ساتھ کس طرح کا معاملہ کرے۔ بنو ہوازن کے قیدیوں کو غنیمت کے طور پر صحابہ کرام میں تقسیم کردیا گیا۔مگر جب ان لوگوں نے ان کی رہائی کی بات آپ کے سامنے رکھی تو آپ نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ انہیں واپس کردیا جائے۔(۱۱) حضورصلی اللہ علیہ وسلم نہیں چاہتے تھے کہ جنگی قیدیوں کو غلام بنایا جائے ۔ اگر کو ئی ان کی رہا ئی کے بارے میں ذرابھی پہل کرتا تو آپ آگے بڑھ کر آزاد کردیتے تھے۔ جو لوگ کسی طرح سے بھی آزادی حاصل کرنے کی استطاعت نہ رکھتے تھے اور قیدیوں کا سردا ر بھی ا نہیں رہا نہ کروانا چاہتا تھا ،انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ شکل مجبوری غلام کی حیثیت سے مسلمانوں میں تقسیم کردیا اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا۔ان قیدیوں کے ساتھ صحابہ کرام رضو اللہ تعالی علیہم اجمعین بڑی شفقت ومہربانی سے پیش آتے تھے۔خود روکھا سوکھا کھانے پر اکتفا کرتے اور انہیں عمدہ کھانا فراہم کرتے تھے ۔ان قیدیوں میں بعض کا بیان ہے کہ مسلمانوں کے اس لطف وکرم کو دیکھ کر ہمیں غیرت آنے لگی تھی۔(۱۲)

 غلام بھی انسان تھے۔حوادث زمانہ نے ان کے مقام ومعیار کو پست کردیا۔اگر اسلام ان کے ساتھ ہمدردی نہ کرتا تو کون ان کی حالت زار پر آنسو بہاتا۔چنانچہ اسلام نے اہل ایمان کو حکم دیا کہ یہ تمہارے حسن سلوک کے محتاج ہیں ۔ان کے ساتھ اچھا برتاوٴ کرو۔باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’وَاعْبُدُواْ اللہَ وَلاَ تُشْرِکُواْ بِہِ شَیْئاً وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَاناً وَبِذِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْجَارِ ذِیْ الْقُرْبَی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالجَنبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَمَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ إِنَّ اللّہَ لاَ یُحِبُّ مَن کَانَ مُخْتَالاً فَخُورا.‘‘ (النساء:۳۶)

(اور تم سب اللہ کی بندگی کرو،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناوٴ،ماں باپ کے ساتھ نیک برتاوٴ کرو ،قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آوٴ اور پڑوسی رشتہ دار سے،اجنبی ہمسایہ سے ،پہلو کے ساتھی اور مسافروں سے اور ان لونڈیوں اور غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں،احسان کا معاملہ رکھو ،یقین جانو اللہ ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے۔)

سیرت نبوی کا مطالعہ کریں تو جگہ جگہ ایسی مثالیں نظر سے گزرتی ہیں کہ آپ نے غلاموں کی حد درجہ توقیر فرمائی اور ان کے ساتھ شفقت ومحبت کا معاملہ کیا ہے ۔آپ کی محبت اس مظلوم طبقہ کے لیے اتنی گہری اور وسعت لیے ہوئے تھی کہ غلام ان کی جگہ اپنے والدین کی محبت کو ہیچ پاتے تھے۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ حضرت زید بن حارثہ کو جب ان کے گھر والے لینے کے لیے آئے تو انہوں نے نبی کی محبت میں اپنے والدین کے ساتھ جانے سے انکار کردیا۔(۱۳)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو غلاموں کی ہر وقت فکر رہتی تھی کہ مبادا انہیں کوئی اذیت پہنچائے اور ان کی حق تلفی کرے۔ہر وقت آپ اپنے اصحاب کو ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید فرماتے رہتے تھے۔یہاں تک کہ مرض الموت کے وقت بھی صحابہ کرام کو نصیحت کرتے ہیں:

’’نماز کو لازم پکڑو اور جو باندی اور غلام تمہارے قبضہ میں ہیں ان کے ساتھ معاملہ کرنے میں اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘(۱۴)

غلام کو غلام کہہ کر نہ پکاراجائے

اللہ کے رسول نے غلاموں کو ‘غلام’ کہہ کر پکارنے سے بھی منع کیا ہے ۔اس میں حقارت کا جو پہلو مضمر ہے وہ واضح ہے۔آپ نے غلاموں کے لیے بڑے ہی خوب صورت القاب وضع کیے اور لوگوں کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت فرمائی:

’’تم میں سے کوئی ’میرا غلام‘یا میری’باندی‘نہ کہے اور نہ غلام’ میرارب‘ کہے۔مالک کو ’میرے بچے‘ ،’میری بچی‘ کہنا چاہیے اور غلام کو چاہیے کہ ’میراسردار‘یا ’سردارنی‘ کہے۔کیوں کہ تم سب مملوک ہو اور رب تو سب کا اللہ تعالیٰ ہے۔‘‘(۱۵)

غلامی انسان کی فطرت میں داخل نہیں ،یہ ایک اتفاقی حادثہ ہے ۔اسلام نے اس کی وجہ سے غلاموں کو دل برداشتہ ہونے سے روکا ہے اور ان کے لیے حوصلہ افزا الفاظ استعمال کیے ہیں۔آج کی نام نہاد مہذب قوم غلامی کی لعنت ختم کرنے کے باوجود اپنے ماتحت لوگوں کے ساتھ بڑا ہی اذیت ناک رویہ اختیار کرتی ہے اور انہیں کسی خاطر میں نہیں لاتی اور ان کے ساتھ جس زیادتی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اس کے ذکر سے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جب کہ اسلام اپنے خادموں کو بھی گھر کا ایک فرد شمار کراتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی دنوں میں غلام اپنے لیے آزادی کی بجائے غلامی کو ہی پسند کرتے تھے۔وہ جانتے تھے کہ آزادی کے بعد انہیں وہ حمایت نہیں مل سکے گی اور اس استحسان کی نظر سے محروم ہو جائیں گے جو انہیں غلامی کی حالت میں حاصل ہے۔آزادی کے بعد وہ خود ذمہ دار ہوں گے،جب کہ غلامی کی صورت میں معاشرہ ان کا محافظ ہے۔

غلاموں کومارنے کی ممانعت اور آزاد کردینے کا حکم

غلاموں سے بھی اگر کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو انہیں زدو کوب کرنے کے بجائے معاف کردینا چاہیے۔نبی اکرم نے فرمایا :جب تم میں سے کوئی اپنے غلام کو مارے تواللہ کو یاد کرلے۔(۱۶) یعنی مارنے والا اللہ سے خوف کرے۔ایک مرتبہ کا واقعہ ہے حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ کسی بات پر اپنے غلام کو ماررہے تھے۔حضور نے انہیں ایسا کرتے ہوئے دیکھ لیا تو فرمایا:جتنا تم کو اپنے غلام پر قابو ہے ،اللہ اس سے زیادہ تم پر قدرت رکھتا ہے۔حضرت مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ اس کے بعد میں نے اپنے غلام کوکبھی نہیں مارا۔(۱۷) اس طرح کی بہت سی مثالیں کتب احادیث میں ملتی ہیں۔غلاموں کی تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ غلاموں کو مارنے اور بلاوجہ ستانے میں یہ لوگ لذت محسوس کرتے تھے۔یہاں تک کہ ایک خاص کھیل میں غلام آقا کے حکم سے ہارنے والے غلام کی بوٹی بوٹی کردیتا تھا اور تماشائی اس پر داد شجاعت دیتے تھے۔(۱۸)

عمر بن الحکم رضی اللہ تعالی عنہ اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی لونڈی کے بارے میں عرض کیا کہ وہ میری بکریا ں چراتی ہے ۔ ایک دن ایک بکری گم ہوگئی ۔میں نے سبب پوچھا تو اس نے کہا کہ بھیڑیے نے کھالیا۔مجھے بہت افسوس ہوا، انسان ہی تھا غصہ آگیا اور لونڈی کے چہرے پر تھپڑ ماردیا۔کیا اسی آن اس کوآزاد کردوں؟رسول نے اس کو بلاکر پوچھا:اللہ کہاں ہے ، اس نے کہاآسمان پر ۔پھر پوچھا : میں کون ہوں ،اس نے کہا آپ اللہ کے رسول ہیں ۔رسول نے فرمایا:اس کو آزاد کردو۔(۱۹)

ایک روایت میں ہے کہ ایک لونڈی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پا س آئی ۔اس کو اس کے مالک نے آگ سے جلاکرزخمی کردیا تھا ، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کو آزاد کروادیا۔(۲۰)

معاویہ بن سوید روایت کرتے ہیں کہ میرے گھر ایک غلام تھا ،میں نے اس کو مارا ، پھر والد کے خوف سے گھر سے بھاگ گیا،ظہر کے وقت آیا اور والد کے پیچھے نماز پڑھی۔بعد نماز والد نے مجھ کو اور غلام کو بلایا ،غلام کو حکم دیا کہ تم اپنا بدلہ لے لو۔اس نے مجھ کو معاف کردیا۔اس کے بعد والد نے یہ واقعہ بیان کیا کہ رسول کے زمانے میں ہمارے خان دان’ بنی مقرن‘ میں صرف ایک غلام تھا، ہم میں سے کسی نے اس کو ماردیا۔رسول کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا: اس کو آزادکردو۔لوگوں نے عرض کیا اس کے سوا ہمارے پا س اور کوئی خادم نہیں ہے۔آپ نے فرمایا:اچھا، جب تک دوسرے خادم کا انتظام نہ ہوجائے اس سے کام لو ، لیکن جیسے ہی انتظام ہوجائے اس کو آزاد کردو۔(۲۱)

غلاموں کی غلطیوں کو معاف کردینا بڑے ہی اجر کا کا م ہے

جس طرح ایک عام آدمی سے کوئی غلطی ہوسکتی ہے ،اسی طرح غلاموں سے غلطیوں کا صادر ہونا کوئی مستبعد نہیں ۔مگر یہ منصفانہ بات نہیں کہ عام آدمیوں کی غلطیوں کو نظر انداز کردیا جاے اور غلاموں سے کوئی غلطی سرزد ہوتو تازیانے لگائیں جائیں۔نبی اکرم کی تعلیمات میں یہ وصف بھی نظر آتا ہے کہ آپ نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ اگر غلام سے بھی کوئی غلطی ہوجائے تو اسے سزا دینے کے بجائے معاف کردیا جائے۔حضرت عبداللہ ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضور کی خدمت میں آیا اور دریافت کیا کہ ہم غلاموں کو کتنی بار معاف کردیا کریں۔آپ اس کی بات سن کر خاموش رہے ۔اس نے پھر کہا کتنی مرتبہ اسے معاف کریں ،آپ اب بھی خاموش رہے ۔جب اس نے تیسری بار یہی سوال کیا تو آپ نے فرمایا:

 ’’ہر روز ستر مرتبہ اسے اس کی غلطی پر معاف کردیا کرو۔‘‘(۲۲)

کیااسلام کے علاوہ کسی بھی مذہب یا شریعت نے اپنے غلام اور خادموں کے ساتھ ایسا سلوک کیا ہوگا اور اپنے ماننے والوں سے کہا ہوگا کہ اسے اتنی بار معاف کردیا کرو۔ تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ مالک کے لیے پنکھا جھلنے کے دوران اگر خادم کو ذراسی اونگھ آگئی تو اسے اس گستاخی کی پاداش میں مار مار کر موت کے گھاٹ اتاردیاگیا۔(۲۳)

آقا جو کھائے اور پہنے وہی اپنے غلاموں کو کھلائے پہنائے

دوسری قوموں کے لوگ اپنے غلاموں کو کھانے کے لیے بس اتناہی دیتے جس سے ان کی سانس برقرار رہے اور ان سے مشقت کے کام اتنے لیے جاتے کہ وہ بے دم ہوکر رہ جاتے ۔لیکن یہ اسلام کا کارنامہ ہے کہ اس نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ تم اپنے غلاموں کو وہی کھلاوٴ اور پہناوٴ جو تم خود کھاتے اور پہنتے ہو۔ایک حدیث میں اللہ کے رسول نے فرمایا:

’’تمہارے بھائی تمہارے خدمت گار ہیں،اللہ نے انہیں تمہارے ماتحت کردیا ہے ،پس جس شخص کا بھائی اس کے ماتحت ہو، اسے چاہیے کہ جو چیز خود کھائے ،اسی میں سے اسے بھی کھلائے اور جو پوشاک خود پہنے ویساہی اسے بھی پہنائے اور ان پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈالے جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو اور اگر ان کی طاقت سے زیادہ کام لیاجائے توپھر ان کی مددکردیا کرو۔‘‘(۲۴)

ہر انسان الگ الگ خصوصیت اور صلاحیت کا حامل ہے۔کوئی اپنی خوبیوں سے بہت جلد اپنے مالک کا محبوب بن جاتا ہے اور کوئی ایسا کرنے میں ناکام ہوتا ہے ۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے نفرت کی جائے اور اس کے ساتھ زیادتی کی جائے ۔غلاموں کے اندر بھی ایساہوسکتا ہے، اس کی بناپر انہیں مارنا ،پیٹنا نہیں چاہیے اور نہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرناچاہیے۔آپ نے فرمایا:

’’اور جو غلام تمہارے منشا کے مطابق ہو اس کو تم وہی کھلاوٴ اور پہناوٴ جو تم خود کھاتے اور پہنتے ہو اور جو غلام منشاکے برعکس ہو اس کو بیچ دو اور اللہ کے بندوں کو عذاب نہ دو۔‘‘(۲۵)

شارح مسلم علامہ نووی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس حدیث میں جو حکم دیا گیا ہے کہ مالک جو کھائے اور پہنے وہی غلام کو کھلائے اور پہنائے،یہ واجب نہیں بلکہ مستحب ہے ،اس پر علماء کا اجماع ہے۔واجب یہ ہے کہ رائج دستور کے مطابق اسے کھلائے اور پہنائے اور اس کی دیگر ضروریات کی تکمیل کی جائے اور اگر مالک اپنے تقویٰ یا بخل کی بناپر رائج دستور یا معیار سے ہٹ کر زندگی گزاررہا ہے توغلاموں کو اسے قبول کرلینے کے لیے مالک مجبو رنہیں کرسکتا اور علماء کا اس بات پر بھی اجماع ہے کہ غلام کی طاقت سے زیادہ کام نہ لیا جائے اور اگر اس طرح کا بوجھ ڈالا جائے تو الگ سے اس کی مدد کردی جائے۔(۲۶)

غلاموں سے خدمت گاری کا کام لیا جاتا تھا اور یہی لوگ گھروں کے کام کاج انجام دیتے تھے۔مگر ایسا بھی کیا جاتا کہ لوگ ان کے ’حق المحنت‘ (مزدوری) فراموش کردیتے تھے۔خود تو ان کے ہاتھ کا بنایا ہوا لذیذکھانا کھاتے ،مگر اس میں سے کچھ بھی غلاموں کو نہ دیتے۔آپ نے ایسا کرنے سے منع فرمایا:’’جب تم لوگوں میں سے کسی کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کرکے لائے تو چوں کہ اس نے کھانے کی تیاری میں آگ کی گرمی اور دھوئیں کی تکلیف اٹھائی ہے ،اس لیے اس کو اپنے ساتھ بیٹھاکر کھلانا چاہیے اور اگر کھاناکم ہوتو تب بھی اس کے ہاتھ پر ایک دولقمے رکھ دینا چاہیے۔‘‘(۲۷)

غلاموں کی تعلیم وتربیت پر اجرو ثواب

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح مسلمانوں کے لیے اپنی اولاد کی تعلیم تربیت پر زور دیا اور اسے باعث اجرو ثواب قرار دیاہے،اسی طرح غلاموں کی تعلیم تربیت پر بھی انہیں ابھاراہے۔تاکہ معاشرہ کو ان کے علم وہنر سے فائدہ پہنچے۔چنانچہ آپ نے فرمایا:

’’تین شخص ایسے ہیں جن کو دوہرے اجر ملیں گے۔ایک وہ جو اپنی باندی کو تعلیم دے اور عمدہ تعلیم دے،اس کو ادب سکھائے اور خوب سکھائے اور اس کو آزاد کرکے خود اس سے نکاح کرلے ۔دوسراوہ شخص ہے جو اہل کتاب تھا اور پھر اسلام لے آیا۔تیسرا وہ شخص ہے جو اللہ کا حق ادا کرتا ہے اور سید کی خیر خواہی کرتا ہے۔‘‘(۲۸)

حضور اکرم نے اپنے آزاد کردہ غلا م حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ کی شادی اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالی عنہا سے کرائی ۔تاکہ ان کی معاونت سے کتاب وسنت کی تعلیم عام ہوسکے۔(۲۹)

 غلاموں کی شادی بیاہ کی ذمہ داری آقا پر ہے

غلاموں کی شادی کے سلسلے میں اسلام کا موقف یہ ہے کہ آقا کو چاہیے کہ ان کی شادی کی فکر کریں ۔ غلام اگر مرد ہے تو آقا اس کے حق میں جو بہتر سمجھے جائز حدود میں رہ کر اس کی شادی کرائے ۔اگر باندی ہے توآقا اپنے تصرف میں رکھے یا اسے آزاد کرکے اس سے خود شادی کرلے یا دوسری جگہ کرادے۔قرآن کریم میں حکم دیا گیا ہے:

’’وَأَنکِحُوا الْأَیَامَی مِنکُمْ وَالصَّالِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَإِمَائِکُمْ إِن یَکُونُوا فُقَرَاء یُغْنِھِمُ اللہُ مِن فَضْلِہ.‘‘(النور:۳۲)

(تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں، ان کے نکاح کردو اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا۔)

بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد مجرد ززندگی گزارنے میں جو مفاسد ہیں، اسلام ان سے پوری طرح باخبر ہے ۔اس لیے وہ جس طرح دوسرے لوگوں کو شادی کا حکم دیتا ہے اسی طرح غلاموں کے لیے بھی شادی کو ناگزیرقرار دیتاہے۔زمانہ جاہلیت کے جراثیم بہر حال اس وقت تک عرب معاشرے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود تھے۔اس لیے آقا پر ذمہ داری عائد کی کہ ان کی شادی کی فکر کریں اور اس میں حیلے بہانے تلاش نہ کریں۔ ایسی بھی شہادت ملتی ہے کہ لوگ اپنی مرضی سے اپنے غلاموں کی شادی تو کردیتے تھے ،مگر اپنے تصرف سے جب چاہا ان میں تفریق کرادی اور غلاموں کے لیے اس پر عمل کرنا ضروری ہوجاتا۔آپ نے ایسا کرنے سے سختی سے منع کیا۔(۳۰) ایک حدیث میں غلاموں کی شادی کی ترغیب دلاتے ہوئے اللہ کے رسول نے فرمایا:

’’جس شخص کے پاس کوئی باندی ہو اور اس کی پرورش کرے اور اس کے ساتھ حسن معاشرت کرے،پھر اسے آزاد کرکے اس سے شادی کرلے تو اس کو دو اجر ملیں گے۔‘‘(۳۱)

لیکن اسی کے ساتھ غلاموں کو بھی تاکید کی جب تمہارے آقا تمہارے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرتے تو تمہارے لیے یہ بھی لازم ہے کہ تم ان کی رضا مندی کے بغیرایسا کوئی کام نہ کرو جس سے ان کی دل شکنی ہو۔اگر وہ اس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس سے باز پرس ہوگی۔(۳۲)

خطا اور گناہوں کے کفارہ میں غلاموں کی آزادی

اسلام نے غلاموں کی آزادی کی ایک صورت یہ نکالی کہ اگر کسی سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے، یا کسی نے کسی کو غلطی سے قتل کردیا تو بہ طور کفارہ غلام کو آزاد کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’وَمَن قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَدِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَی أَہْلِہِ.‘‘(النساء:۹۲)

(اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کردے تو اس کاکفارہ یہ ہے کہ ایک مومن کو غلامی سے آزادکردے اور مقتول کے ورثا کو خوں بہا دے۔)

خوں بہا کی ادائیگی کے ساتھ تحریر رقبہ کا حکم اپنے آپ میں بڑی معنویت کا حامل ہے۔چوں کہ قاتل نے ایک انسان کا قتل کیا ہے اور اس کی خدمات سے معاشرے کو محروم کردیاہے، جب وہ ایک غلام کو آزاد کرتا ہے تو گویا اس نے کسی حد تک معاشرہ کو اس کا بدل فراہم کردیا ۔ اب یہ غلام آزاد ہوکر اپنی صلاحیتوں سے معاشرے کی اس کمی کو پورا کرے گا۔اسلام نے ہر اس موقع سے فائدہ اٹھایا جس سے انسانوں کے ا س کم زور طبقہ کو آزادی کے حیات آفریں جذبہ سے بہرہ ور کرکے زندوں میں جگہ دی جائے۔اسی طرح کسی نے کسی ذمی یا معاہد کو غلطی سے قتل کردیا تو وہاں بھی یہی حکم ہے کہ اس کے کفارہ میں غلام کو آزاد کیاجائے۔(۳۳)قرآن کریم میں یہ حکم بہ صراحت موجود ہے:

’’وَإِن کَانَ مِن قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَھُمْ مِّیْثَاقٌ فَدِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَی أَہْلِہِ وَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةً.‘‘(النساء:۹۲)

( اور اگر وہ کسی ایسی غیر مسلم قوم کا فرد تھا جس سے تمہارا معاہدہ ہوتو اس کے وارثوں کو خوں بہا دیا جائے گا اور ایک مومن غلام کو آزاد کرنا ہوگا۔)

بعض اور گناہوں کے کفارہ میں اللہ کے رسول نے حکم دیا کہ غلاموں کو آزاد کیا جائے۔

قسم کے کفارہ میں غلاموں کی آزادی

کچھ لوگ بغیر سوچے سمجھے قسم کھالیتے ہیں ،پھر بعد میں انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے۔ اب اگر وہ اپنی قسم کو توڑنا چاہئیں ، یاجان بوچھ کر توڑ دیں تو اسلام اسے حکم دیتا ہے کہ کفارہ ادا کیا جائے گا۔کفارہ میں وہ تین اموربالترتیب انجام دے سکتے ہیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللہُ بِاللَّغْوِ فِیْ أَیْمَانِکُمْ وَلَکِن یُؤَاخِذُکُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الأَیْمَانَ فَکَفَّارَتُہُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاکِیْنَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَھْلِیْکُمْ أَوْ کِسْوَتُھُمْ أَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ فَمَن لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلاَثَةِ أَیَّامٍ ذَلِکَ کَفَّارَةُ أَیْمَانِکُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُواْ أَیْمَانَکُم.‘‘(المائدہ:۸۹)

(تم لوگ جو مہمل قسمیں کھالیتے ہو ،ان پر اللہ گرفت نہیں کرتا ،مگر جو قسمیں تم جان بوجھ کر کھاتے ہو،ان پر وہ ضرور مواخذہ کرے گا۔(ایسی قسم توڑنے کا) کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو اوسط درجہ کا کھانا کھلاوٴ،جو تم اپنے بال بچوں کو کھلاتے ہو،یا انہیں کپڑے پہناوٴ، یا ایک غلام آزاد کرو اورجو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ تین دن کے روزے رکھے۔یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے ،جب کہ تم قسم کھاکر توڑدو۔اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو۔)

کفارئہ صوم میں غلاموں کی آزادی

اگر کسی نے روزہ رکھا اور بغیر کسی شرعی عذر کے جان بوچھ کر اسے توڑدیا تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ وہ غلام آزاد کرے ،یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ تعالی عنہروایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی کی خدمت میں آیا اور کہا کہ اللہ کے رسول میں نے روزہ کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کرلیا ہے ،اب کیا حکم ہے ۔اللہ کے رسول نے فرمایا تمہارے پاس کوئی غلام ہے جسے آزاد کرسکو۔ اس نے انکارکیا۔پھر نبی نے پوچھا تم کیا تم پے درپے دومہینے کا روزہ رکھ سکتے ہو۔اس نے کہا نہیں ۔آخر میں آپ نے ان سے پوچھا تم ساٹھ مسکینوں کھانا کھلانے کی استظاعت رکھتے ہو،اس نے اس بار ے میں بھی نفی میں جواب دیا۔تھوڑی دیر کے بعد ایک آدمی کھجور کی ایک ٹوکری لے کرآیا۔ آپ نے اس آدمی کو عنایت کردیا اور فرمایا اسے صدقہ کردو ،اس نے کہا صدقہ کا مستحق مجھ سے زیادہ اور کون ہوسکتا ہے ۔اس پر رسول کو ہنسی آگئی اور آپ نے فرمایا اسے اپنے گھر والوں کو کھلادو۔(۳۴)

کفارئہ ظہار میں غلاموں کی آزادی

کچھ لوگ غصے میں آکر اپنی بیوی کو ماں سے تشبیہ دے کر اپنے لیے حرام کرلیتے ہیں۔یہ ’ظہار‘ کہلاتاہے۔ ایسا کرنے سے طلاق کی طرح بیوی اس کے نکاح سے تو نہیں نکل جاتی ،البتہ فوری طو رپر اس کے لیے حرام ہوجاتی ہے۔ اب اگر وہ اپنی حرام کی ہوئی بیوی کو حلال کرنا چا ہے اور اس سے رجوع کرنا چاہے تواسلام اس پر یہ شرط عائد کرتا ہے کہ وہ اس جرم کی پاداش میں کفارہ اداکرے ۔ ارشادباری تعالیٰ ہے:

’’وَالَّذِیْنَ یُظَاہِرُونَ مِن نِّسَائِھِمْ ثُمَّ یَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مِّن قَبْلِ أَن یَتَمَاسَّا ذَلِکُمْ تُوعَظُونَ بِہِ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْرٌ. فَمَن لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَھْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِن قَبْلِ أَن یَتَمَاسَّا فَمَن لَّمْ یَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنا.‘‘(المجادلہ: ۳-۴)

(جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں،پھر اپنی اس بات سے رجوع کریں جو انہوں نے کہی تھی،تو قبل اس کے کہ دونو ں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں ، ایک غلام آزاد کرنا ہوگا۔ اس سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے اور جو شخص غلام نہ پائے وہ دومہینے کے پے درپے روزے رکھے ،قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں اور جو اس پر قادر نہ ہو تووہ ساٹھ مسکینوں کو کھاناکھلائے۔)

کفارہ کی ادائیگی میں ترجیح غلاموں کی آزادی کودی جائے گی،جیساکہ فرمان باری تعالیٰ کی ترتیب سے واضح ہے۔صاحب مال و حیثیت روزہ رکھنے یا کفارہ میں مسکینوں کو کھانا کھلانے میں زیادہ دقت محسو س نہیں کریں گے۔لیکن غلاموں کی آزادی ان کے لیے بہت بڑا مسئلہ بنے گا، کیوں کہ اس سے اس کی خدمت اور مالی منفعت کو نقصان پہنچے گا۔

سورج اور چاند گرہن کے وقت غلاموں کی آزادی

سورج اور چاندگرہن کے موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی نماز ادا کرنے کی تلقین کی ہے۔اسی کے ساتھ آپ نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ ا گر استطاعت ہو تو غلاموں کو بھی آزاد کردیاکرو ،ہوسکتا ہے ایساکرنے سے جو بلا آنے والی ہے وہ ٹل جائے۔ چنانچہ ان دونوں مواقع پر غلاموں کے آزاد کرنے کی شہادت ملتی ہے۔حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

’’رسول نے حکم دیا کہ سورج گرہن کے وقت غلام آزاد کیا جائے۔‘‘(۳۵)

چاند گرہن کے وقت غلاموں کی آزادی کے بارے میں وہ فرماتی ہیں:

’’ہم کو حکم دیا جاتا تھا کہ چاند گرہن کے وقت غلام آزاد کریں۔‘‘(۳۶)

بعض اورمواقع پر غلاموں کی آزادی

نبی اکرم نے اپنے صحابہ کو بعض دوسرے مواقع اور حادثات کے وقت غلاموں کو آزاد کرنے کی تلقین فرمائی۔تاکہ اسی بہانے زیادہ سے زیادہ غلاموں کو آزادی مل سکے۔ اس طرح کی مثالیں بہ کثرت ملتی ہیں۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکر کا انتقال ہوا تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے ان کے ثواب کے لیے بہ کثرت غلاموں کو آزاد کیا۔(۳۷)ایک صحابی کی والدہ کا انتقال ہوگیا وہ غالبا اس وقت موجود نہ تھے،بعد میں انہوں اللہ کے رسول سے پوچھا کہ میں اپنی والدہ کی طرف سے غلاموں کو آزاد کروں تو اس کا اجر ملے گا کہ نہیں ؟آپ نے فرمایا:ہاں۔(۳۸) ایک موقع پر اللہ کے رسول نے حضرت ابو ذر غفاری  رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا: ان غلاموں کے ساتھ نیکی کا برتاوٴ کرو ۔انہوں نے نیکی کا یہ برتا وٴ کیا کہ غلام کو آزاد کردیا۔(۳۹) ایک مرتبہ حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ تعالی عنہاپنے غلام کے ساتھ حضورکی خدمت میں آرہے تھے، راہ میں ان کا غلام بھٹک گیا،مگر جب یہ رسولکی خدمت میں آگئے تو تھوڑی دیر کے بعد وہ غلام بھی آگیا۔رسول نے فرمایا :لو یہ آگیا۔ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اللہ کے رسول سے کہا :آپ گواہ رہیے میں نے اسے آزاد کردیا۔(۴۰)

٭٭٭

مآخذ مراجع

(۱)                   سید امیرعلی،روح اسلام،اسلامک بک سینٹر،دہلی،۲۰۰۵ء،ص:۴۰۵

(۲)                  محمد قطب،اسلام اور جدید ذہن کے شبہات،مرکزی مکتبہ اسلامی،دہلی، ۱۹۹۰ء، ص:۶۲

(۳)                 روح اسلام،ص:۴۱۰

(۴)                 ابو عبداللہ محمد بن اسمٰعیل البخاری،صحیح البخاری،کتاب الاجارہ،باب منع الآجر۔کتاب البیوع

(۵)                 صحیح البخاری،کتاب الرہن،باب فی العتق وفضول-ابو الحسن مسلم بن حجاج القشیری، صحیح مسلم،کتاب العتق،باب فضل العتق-سنن ابو اداوٴد،کتاب العتق،باب فی ثواب العتق

(۶)                  صحیح البخاری،کتاب العتق،باب ای الرقاب افضل

(۷)                 ابن قیم الجوزی،زادالمعاد،دارالریان للتراث ،قاہرہ،۱۹۸۷ء،ج:۳،ص:۱۰۹-۱۱۰

(۸)                 صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب فی شہود الملائکةبدرا۔کتاب العتق،باب اذا اسراخو الرجل او عمہ ہل یفادی اذکان مشرکا۔کتاب الجہاد،باب فداء المشرکین

(۹)                  ابن ہشام ،سیرة النبی،ج:۲،ص:۲۹۷

(۱۰)                مسند احمد بن حنبل،ج:۱،ص:۲۴۷

(۱۱)                 صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب قول اللہ ویوم حنین اذا عجبتکم لترکتم

(۱۲)                ابن جریر طبری،تاریخ طبری،دارالمعارف ،قاہرہ،۱۹۷۷ء،ج:۲،ص:۴۶۰-۴۶۱

(۱۳)                عزالدین ابن اثیر جزری،اسدالغابہ فی معرفة صحابة،دارلشعب، قاہرہ، ۱۹۷۰ء، ج:۲، ص:۲۸۲

(۱۴)                سنن ابوداوٴد،کتاب الادب،باب فی الحق المملوک

(۱۵)                سنن ابوداوٴ،کتاب الادب،باب لایقال المملوک ربی وربتی

(۱۶)                جامع الترمذی،ابواب البر والصلة ،باب ماجاء فی اداب الخادم

(۱۷)                صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب صحبة الممالیک وکفارة … جامع الترمذی،ابواب البر،باب النہی عن ضرب الخدام وشتمھم

(۱۸)                اسلام اور جدید ذہن کے شبہات،ص:۶۱

(۱۹)                 موطا امام مالک،کتاب العتق والولاء،باب مایجوز من العتق فی الرقاب الواجبة

(۲۰)               ایضا،باب عتق امہات الاولادوجامع القضا فی العتاقة

(۲۱)                صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب صحبة الممالیک وکفارة من یطم عبدہ۔سنن ابوداوٴد، کتاب الادب،باب فی حق المملوک

(۲۲)               سنن ابوداوٴد،کتاب الادب،باب فی حق المملوک

(۲۳)               مولانا اشرف علی تھانوی،المصالح العقلیہ(احکام اسلام عقل کی نظر میں)کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند،ص:۲۵۴

(۲۴)               صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب قول النبی العبد اخوانکم فاطعمو ہم ممتاکلون۔صحیح مسلم، کتاب الایمان،باب اطعام المملوک ممایا کل ۔ سنن ابوداوٴد،ابواب الادب،باب فی الحق المملوک

(۲۵)               سنن ابوداوٴد،ابواب الادب،باب فی الحق المملوک

(۲۶)               یحی بن شرف نووی،شرح صحیح مسلم،دارالریان ا لتراث ،قاہرہ،۱۹۸۷ء، جز:۱۱، ج:۴، ص:۱۳۳

(۲۷)               صحیح البخاری،کتاب العتق،باب اذا اتا ہ خادمہ لطعامہ

(۲۸)               صحیح البخاری،کتاب العلم،باب تعلیم الرجل امتہ واہلہ۔کتاب الجہاد،باب فضل من اسلم من اہل اللناس

(۲۹)                اسدالغابہ فی معرفة الصحابہ،ج:۷،ص:۱۲۵

(۳۰)               سنن ابوداوٴد،کتاب الطلاق،باب فی المملوکة تعتق وہی تحت حرا اوعبد،کتاب الجہاد، باب فی عبیدالمشرکین یلحقون بالمشرکین

(۳۱)                صحیح البخاری،کتاب العتق،باب اذا احسن عبادة ربہ ونصح سیدہ

(۳۲)               ایضا

(۳۳)              اسلام اور جدید ذہن کے شبہات

(۳۴)              صحیح البخاری،کتاب الصوم،باب اذا جاء رمضان ولم یکن شیٴ فتصدق علیہ فلیکفر۔باب المجامع فی رمضان ہل یطعم اہلہ من الکفارة ۔ سنن ابوداوٴد،کتاب الطلاق،باب فی الظہار

(۳۵)              صحیح البخاری،کتاب الرہن فی الحضر،باب ما یستحب من العتاقة فی الکسوف والآیات

(۳۶)               ایضا

(۳۷)              موطا امام مالک،کتاب العتق،باب عتق الحی عنہ المیت

(۳۸)              ایضا

(۳۹)               ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری،الادب المفرد،باب العفو عن الخادم،المطبعة السلفیة ، قاہرہ، ۱۳۷۸ھ،ج:۱،ص:۲۶۰

(۴۰)               صحیح البخاری،کتاب العتق،باب اذا قال العبد ہو اللہ ونوی العتق والاشہاد فی العتق

٭٭٭

——————————————-

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 1-2 ‏، جلد: 95 ‏، صفر‏، ربیع الاول 1432 ہجری مطابق جنوری‏، فروری 2011ء

Related Posts