از: ریحان اختر ، ریسرچ اسکالر شعبہ سنی دینیات، علی گڑھ

آج کا دور بین الاقوامیت، حقوق انسانی، امن وآشتی اور مساوات و رواداری کے جھوٹے پروپیگنڈے کا دور ہے، پوری دنیا میں امن و شانتی اور تحفظ حقوق کا واویلا مچا ہوا ہے۔ اور بدامنی و دہشت گردی کے خاتمے کے لیے طرح طرح کے قوانین کو نافذ کیا جارہا ہے۔ دور جدید میں دوطاقتیں یعنی ”یہودیت اور عیسائیت“ اقوام عالم کو عام طور پر اور اہل اسلام کو خاص طور پر مغلوب اور زیرنگیں کرنے کے لیے عصر حاضر کے تمام بین الاقوامی ذرائع ووسائل پر اپنا کنٹرول کرکے مسلمان اور اسلام کے خلاف ان کواستعمال کرتی چلی آرہی ہیں۔ شرافت واخلاق، انسانیت نوازی انسان پروری، حقوق آزادی، مساوات ورواداری اور مذہب وعقیدہ کے تمام قوانین وضوابط سے بے پرواہ ہوکر اہل اسلام کے خلاف کمربستہ ہوگئے ہیں۔ تمام دلدوز وہیبت ناک طریقے کو بروئے کار لاکر اپنی فرعونیت کا علم بلند کرنے کے لیے انسانیت کو تہہ تیغ کررہی ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ دین اسلام کے ماننے والوں کی صاف وشفاف شبیہ کو پراگندہ کرنے کے لیے تمام علم وخبر کے بین الاقوامی ذرائع یعنی میڈیا خواہ وہ پرنٹ ہو یا الیکٹرانک میڈیا۔ ٹی وی چینلز ہوں یا کہ انٹرنیٹ ، ان تمام ذرائع ترسیل کو اسلام کے خلاف بڑی بے باکی سے استعمال کرتے ہیں۔ اسلام کے خلاف افواہیں پھیلانا اور اس کے ماننے والوں کو فتنہ وفساد اور بدامنی کا خوگر اور دہشت گرد کہنا یہ مغرب کا شیوہ بن چکا ہے۔

عصر حاضر میں مغرب اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے تمام ممالک صرف ایک ہی راگ الاپتے ہیں اور مغرب کی گندی سرسے سر ملاتے ہیں کہ مسلمان کائنات انسانی کے لیے روز بروز ایک بہت بڑا خطرہ بنتا چلا جارہا ہے۔ صفحہ ہستی سے اس کو مٹانا اپنا نصب العین ہونا چاہیے۔ اسلام ایک شدت پسند مذہب وعقیدہ ہے۔ اس مذہب کے ماننے والے فرد وجماعت، ملک وقوم میں دہشت گردی وشدت پسندی کو پھیلاتے ہیں۔ اور ان کی مقدس کتاب قرآن کریم میں غیر اقوام وملل کو قتل وغلام بنانے کی بھرپور تعلیمات موجود ہیں۔ اس کتاب کے اندر ظلم وتشدد بھڑکانے جبر و قہر ڈھانے والے ضابطہ بھرے پڑے ہیں۔ اور نہ ہی اسلام کے اندر اخوت وبھائی چارگی حقوق انسانی، آزادی فکر، مذہبی آزادی، حریت و آزادی مساوات، رواداری اور عدل وانصاف کا کوئی تصور موجود ہے۔ اور نہ ہی اسلام کے پاس جدید دنیا سے ہم آہنگ کوئی ضابطہ زندگی اور طرز معاشرت موجود ہے بلکہ یہ ایک سخت گیر، شدت پسند اور دہشت گرد مذہب ہے۔

یورپ نے ایک ایسی اصطلاح کو اسلام کے خلاف اپنے گندے پیٹ سے جنم دیا ہے جس کا نام ”دہشت گردی“ ہے۔ اور یہ لفظ اردو زبان میں ”دہشت گردی“ ہندی زبان میں ”آتنک واد“ اور انگریزی میں "Terrorism” جو Terrors سے بنا ہے۔ اور یہ بات مسلم ہے کہ جب بھی لفظ یا اصطلاح کا تکرار مسلسل کانوں کی خوراک بن جائے تو وہ لفظ ذہن ودل میں ایک تصویر بنالیتا ہے۔ یہی حال ہم لفظ دہشت گردی، شدت پسندی، انتہا پسندی، بنیادپرستی، کٹر پنتھی کا دیکھ رہے ہیں کہ فرد وجماعت ہو، ملک وقوم کے بچے، جوان، بوڑھے ہوں، تعلیم یافتہ ہوں یا غیرتعلیم یافتہ، ہر ایک کے دل ودماغ میں یہ تمام الفاظ مسلمانوں کے لیے مخصوص ہوگئے ہیں۔ ان الفاظ کو مغرب نے بین الاقوامی ذرائع و وسائل کے ذریعہ اتنی زیادہ ترویج واشاعت کی کہ پوری دنیا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت و عداوت کا آتش فشاں بن گئی ہے اور لوگ مغرب کے اس جھوٹ کو بھی سچ کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں اور اہل مغرب اسلام کی حق وصداقت پر اس طرح کی نقاب پوشی کرنا چاہتے ہیں کہ دنیا اس کے بارے میں سوچنا باعث گناہ سمجھے۔ جبکہ نام نہاد امن وآشتی کے اس ڈھنڈھنڈورچی کاکردار اس باب میں انتہائی شرمناک ہے۔

اس موقع پرامریکی تاریخ پر ایک سرسری اور طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے چلیں جس سے ہمیں آج کی انسانیت اور حقوق انسانی کے سب سے بڑے مسیحا کی تاریخ کو سمجھنے کا پورا اندازہ ہوجائے گا۔ انیسویں صدی کی دوسری دہائی میں تاریخ کو ایسے دلدوز وہیبت ناک مناظر دیکھنے کو ملے جن کی تاریخ کو رقم کرنے میں امریکہ کا اہم کردار رہا ہے۔ ۱۹۱۶ء میں پہلی جنگ عظیم میں کل ۱۶ سولہ ممالک نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ صرف ترکی ایسا واحد ملک تھا جس نے اس خونی جنگ سے اپنے آپ کو کنارہ کش رکھا اور اس کی جنگ عظیم کا حلیف بننے سے انکار کردیا۔ یہ جنگ سربیا کے ایک قوم پرست اور اسٹریا اور ہینگری کے ولی عہد فرانس فرڈی نینڈ کے قتل سے شروع ہوئی۔ ۱۹۱۶ء میں شروع ہونے والی پہلی جنگ عظیم نے ۸۵ لاکھ ۲۸ ہزار ۸۰۰ سے زیادہ انسانی جانوں کو لقمہ تر بنالیا۔ ۱۹۱۸ء میں یہ جنگ اپنے اختتام پر پہنچی۔ ۱۹۳۹ء میں شروع ہونے والی دوسری جنگ عظیم میں کل ۲۷ ممالک نے حصہ لیا اور یہ سب کے سب غیرمسلم تھے اور اسی دوران ہیروشیما کا انسانیت سوز سانحہ بھی دیکھنے میں آیا۔ جس میں موجودہ دور کے حقوق انسانی اور امن وشانتی پھیلانے کے سب سے بڑے مسیحا امریکہ نے ایک ایٹم بم کے ذریعہ لاکھوں انسانوں کو سوختہ کرڈالا۔ اوراس ملک کی آب وہوا کو مسموم و پراگندہ بناڈالا۔ جہاں کی فضا پر اب بھی موت کا سناٹا چھایا ہوا ہے۔ جہاں ماہرین سائنس جاکر اب بھی تجربہ کرتے ہیں کہ یہ شہر کب اپنی سابقہ حالت پر لوٹ سکے گا۔ بات اسی پر ختم نہیں ہوئی بلکہ تین دن کے وقفہ سے ۹/اگست ۱۹۴۵ء کو ایک اور ایٹم بم جاپان کے شہر ناگاساکی پر گرادیا اور آن کی آن میں ۲۸ہزار سے زائد انسانوں کو جلاکر راکھ کا ڈھیر بناڈالا۔ اور دوسری جنگ عظیم میں ۴۹ لاکھ ۴۰ ہزار انسان موت کے گھاٹ اتاردئیے گئے۔ ۱۹۴۵ء میں ہی چین پر ڈھائی سو جنگی طیاروں کی مدد سے دولاکھ پونڈ بارود برساکر موت کا رقص عام کیا۔ اسی طرح سے وقفہ وقفہ سے مختلف ممالک امریکی جارحیت و درندگی کا نشانہ بنتے رہے۔ ۱۹۵۰ء میں امریکہ نے کوریا پر چڑھائی کردی ۱۹۵۴ء میں کیوبا میں۔ ۱۹۶۴ء میں امریکہ و ویتنام کی جنگ نے ۴۵ ہزار سے زائد لوگوں کو موت کی لپیٹ میں لے لیا۔ اور اس جنگ کا ایندھن بننے والوں میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی جو یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کا جرم کیا ہے۔ کس جرم کی پاداش میں انہیں موت کی نیند سلایا جارہا ہے۔ ۱۹۶۵ء میں پیروں، اور ۱۹۷۳ء میں لاوس میں، ۱۹۷۵ء میں ویتنام میں، ۱۹۸۷ء میں گرینیڈا، ۱۹۸۴ء میں لبنان میں، ۱۹۸۹ء میں پناما میں، ۱۹۹۱ء میں عراق میں، ۱۹۹۸ء میں سوڈان میں، اور ۱۹۹۹ء میں یوگوسلاویہ میں۔ ان تمام خونی جنگوں کے بعد سوچا جانے لگا کہ شاید اب امریکی انسانیت جاگ اٹھی ہو۔ اس کا نعرہ امن حقیقت میں تبدیل ہوجائے اور دنیا امن وشانتی کا گہوارہ بن جائے۔ امن وامان کا بول بالا ہوجائے۔ لیکن ضمیر فروش اور مردہ دل کے جسم میں انسانیت تھی ہی کہاں کہ جاگتی کیونکہ وہ تو خون چوسنے کا عادی ہوگیا تھا۔ بالآخر پھر اس نے ۱۷/اکتوبر ۲۰۰۱ء میں افغانستان و عراق میں اپنی درندگی وسفاکیت اور حیوانیت و بہیمیت کا ایسا ننگا کھیل کھیلا کہ روئے زمین تھرا اٹھی لیکن اس کا ضمیر نہیں جاگا۔

تاریخ گواہ ہے کہ دہشت گرد تم ہو نہ کہ مسلمان، دہشت گردی تم پھیلاتے ہو نہ کہ مسلمان، قتل وخون ریزی تمہارا پیشہ ہے نہ کہ مسلمانوں کا، دنیا کے امن وامان میں بدامنی کی فضا تم بناتے ہو، بدامنی کا ماحول تم سازگار کرتے ہو نہ کہ مسلمان، درندگی وسفاکیت اور بہیمیت وسبعیت کا مظاہرہ تم کرتے ہو نہ کہ مسلمان، حقوق انسانی پر ڈاکہ تم ڈالتے ہو نہ کہ مسلمان، عدل وانصاف کا گلہ تم گھونٹتے ہونہ کہ مسلمان، مذکورہ ممالک وریاستوں میں معصوموں کے قاتل تم ہو نہ کہ مسلمان، پوری دنیا میں جابرانہ نظام کے قیام کی جدوجہد تم کررہے ہو نہ کہ مسلمان، تم ایک ایسے نظام کے قائل ہو جس میں کمزور و ناتواں لوگوں کی حصہ داری نہ ہو بلکہ طاقت وقوت کی حکمرانی ہو۔

ہم دنیائے انسانی کو اپنی زبان و بیان اور تحریر وقلم کے ذریعہ یہ بتادیں کہ اسلام ایک سراپا امن وسلامتی کا دین ہے۔ بدامنی فتنہ وفساد، خوں ریزی وغارت گری اور دہشت گردی سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ مسلمان تو ایک امن پسند اور ہمدرد وخیرخواہ قوم وملت کا نام ہے۔ دین اسلام کی درخشاں تعلیمات نے جس طرح ماضی میں فرد وجماعت، اقوام وملل اور ملک و قوم کی ترقی میں تعمیری واصلاحی انقلاب برپا کیا تھا۔ آج کے بدلے ہوئے حالات میں بدامنی وتخریب کاری اور فتنہ وفساد کی آماجگاہ بنے معاشرے میں بھی دین اسلام کی تعلیمات مفید اور معنی خیز ہوں گی اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی تعمیر نو کے لیے سیکڑوں جماعتوں نے تجربات کی دنیا میں غوطہ لگایا ہے لیکن نتیجہ آپ حضرات کے سامنے ہے۔ اور یہ بات تو مسلم ہے کہ ماضی کی طرح حال میں بھی تعلیمات اسلام کو تجربات کی دنیا میں بروئے کارلاکر ہی امن وآشتی، حقوق انسانی، مساوات و رواداری اور عدل و انصاف کی پیاسی انسانیت کو سیرابی حاصل ہوسکتی ہے۔ اور اس دور کے اہم چیلنج کے لیے نسخہ شفا قرار پاسکتا ہے۔ جس کے ذریعہ ایک مرتبہ پھر خرمن انسانیت میں امن وامان، صلح وآشتی، عدل وانصاف اور مساوات و رواداری کی بہار آسکتی ہے جب ہی پوری دنیا حقیقی امن وسلامتی اور سعادت وکامرانی سے ہمکنار ہوسکتی ہے۔

***

ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ ۶ ، جلد: ۹۴ ، جمادی الثانی- رجب ۱۴۳۱ ہجری مطابق جون ۲۰۱۰ ء

Related Posts