از: غلام رسول دیشمکھ ، انجمن روڈ، بھساول (ضلع جلگاؤں)
اسلام دراصل اللہ کی مکمل اطاعت کا نام ہے۔ اسلامی شرعیت کا مقصد انسان کی فلاح وبہبود ہے۔ وہ زندگی کے تمام امور ومسائل میں رہنمائی کرکے انسان کو شریعت اسلامی کا پابند بنانا چاہتی ہے۔ زیر نظر مضمون میں شادی بیاہ کے مسائل پر روشنی ڈالی جارہی ہے تاکہ غیراسلامی اور جاہلانہ رسوم ورواج سے بچا جاسکے۔ شادی بیاہ میں رشتہ کا انتخاب بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں شریعت کی کیا رہنمائی ہے؟
رشتوں کا معیار
* نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:”عورتوں سے چار باتوں کے پیش نظر نکاح کیا جاسکتا ہے۔ اس کے مال کے پیش نظر، اس کے حسب (خاندان) کے باعث، اس کے حسن کی خاطر اور دینداری کے باعث۔ تیرے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں (یہ جملہ کبھی تعجب اور کبھی تنبیہ وغیرہ کے لئے بولا جاتا ہے) تجھے تو دین دار عورت حاصل کرنا چاہئے“(بخاری)
دوسری جگہ ارشاد ہے:
* تم ان سے دین کی بنیادپر شادی کرو۔ کیونکہ ایک کالی کلوٹی کم عقل والی لونڈی بھی اگر دین دار ہو تو وہ دوسری عورتوں سے افضل ہے۔ (حدیث)
مزید ایک جگہ فرمایا:
*”دنیا کی حیثیت ایک متاع ہے اور متاع دنیا میں بہترین چیز نیک عورت ہے۔“(بہ روایت عبداللہ بن عمررضى الله تعالى عنه، مسلم)
دراصل دین کا علم اور اس پر عمل بہت بڑی دولت ہے۔ زندگی کو پرلطف و پرسکون بنانے اور اطمینانِ قلب حاصل کرنے کے لئے دین داری ہی بہتر اور ضروری ہے۔
نکاح کی اہمیت
* حضرت ابوایوب انصاری رضى الله عنه سے روایت ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:”جس شخص نے میری سنت کو راہِ زندگی بنالیا پس وہ مجھ سے ہے اور میری سنت نکاح ہے۔“(حدیث)
جلدی کرو
* حضور صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:”اے علی رضى الله عنه! تین کام ہیں جن میں جلدی کرنا چاہئے۔ ایک نماز جب اس کا وقت آجائے۔ دوسرے جنازہ جب کہ وہ تیار ہوجائے۔ تیسرے بن بیاہی عورت کا نکاح جب کہ اس کا مناسب رشتہ مل جائے۔“ (ترمذی۔ حاکم)
رشتہ کے طئے ہونے ہی کو منگنی کہا جاتاہے۔ لیکن رشتہ طئے ہوجانے کے بعد جاہلانہ غیراسلامی رسوم ورواج کا ایسا سلسلہ چلتا ہے کہ رسم و رواج کی پیروی میں لوگ شیطان کو بھی شرمادیتے ہیں۔ دراصل اہل ایمان کو مندرجہٴ بالا تعلیمات کے مطابق اسلامی احکام کی پابندی کرتے ہوئے رسم و رواج سے پرہیز کرنا چاہئے۔
مہر:
* نکاح میں مہر کی حیثیت فرض کی ہے۔ شریعت نے مہر کو عورت کا لازمی حق قرار دے کر ازدواجی زندگی کی اہمیت، قدروقیمت کو بڑھا کر یہ احساس دلایا ہے کہ نکاح یہ ایک سنجیدہ و لازمی عمل ہے۔
اللہ کا فرمان
*”عورتوں کا مہر خوش دلی کے ساتھ عطیہ کے طور پر ادا کرو“(سورئہ نساء)
*”ان کا مہر فریضہ کے طور پر ادا کرو“۔
نکاح کے وقت جو مہر طے کیاگیاہو اس کی ادائیگی مرد پر لازمی ہے۔ اس کو نکاح کے وقت ہی ادا کردینا چاہئے۔ اس کو شریعت کی اصطلاح میں ”معجل“ (عجلت سے) کہتے ہیں یعنی فوراً ادا کردیں۔ اور اگر مرد اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ فوری ادا کرے تو پھر یہ بات طے کرلی جائے کہ وہ کب، کیسے اور کس طرح ادا کرے گا۔ اس کو شریعت کی اصطلاح میں موجّل (ادھار) کہتے ہیں۔
*”نبی صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے کہ مہروں میں حد سے نہ بڑھو“(حدیث)
مطلب یہ ہے کہ مہر کو مرد کی حیثیت کے مطابق ہونا چاہئے۔ محض نام ونمود کے لئے بڑی بڑی رقمیں طے کرلی جاتی ہیں۔ اگر یہ نقد ادا کردی جائے تو افضل ہے اور اگرادھار ہے اور نیت دینے کی نہ ہوتو دونوں صورتوں میں وہ گنہگار ہوگا۔ جیساکہ آگے آرہا ہے۔
مہر کی سلسلے میں اللہ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم نے کوئی آخری حد مقرر نہیں کی ہے۔ حضرت عمر رضى الله عنه اپنے دورِ حکومت میں ۴۰ اوقیہ چاندی (تقریباً ۴۵۰ تولہ چاندی) کی حد مقرر کرنا چاہتے تھے کہ اس سے زائد کوئی مہر طے نہ کرے لیکن اس نشست میں ایک عورت نے حضرت عمر رضى الله عنه کو ٹوک دیا اور کہا کہ اللہ کی تعلیمات کے خلاف فیصلہ کرنے کا آپ کو یہ حق کس نے دیا ہے؟ جب کہ اللہ کا ارشاد ہے:
*”عورتوں کو اگر تم نے ڈھیرسا مال بھی دیا ہوتو اس میں سے کچھ واپس نہ لو“(سورہ نساء)
اس دلیل کو سن کر حضرت عمر نے فرمایا: ایک عورت نے صحیح بات کہی اور مرد غلطی کرگیا۔
دراصل شریعت نے لوگوں کو افراط و تفریط سے روکا ہے کہ لڑکے کی حیثیت سے کم بھی نہ ہو اور اتنا زیادہ بھی نہ ہو کہ ادائیگی مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجائے۔
مدینہ کے اسلامی معاشرہ میں اس طرح کی بہت ساری مثالیں ملتی ہیں کہ مہر میں کھجور کے باغ وغیرہ بھی دئیے گئے تھے۔ طوالت سے بچنے کے لئے دومثالیں دینے پر اکتفا کرتا ہوں۔
(۱) نبی صلى الله عليه وسلم کے پاس ایک عورت جمیلہ بنت ابّی آئی اور اپنے شوہر کی شکایت کرکے کہا کہ میں علیحدگی چاہتی ہوں۔ حضور صلى الله عليه وسلم نے یہ شکایت سنی اور فرمایا جو باغ تجھ کو اس نے دیا تھا وہ واپس کردے گی؟ اس نے عرض کیا۔ ہاں یارسول اللہ۔
(۲) دوسرا واقعہ حبیبہ بنت سہل کا ہے۔ جب خاتون نے اپنے شوہر کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ جو مال اس نے مجھے دیا ہے میں واپس کرتی ہوں۔ مجھے علیحدگی دلوادیجئے۔
حضور صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے:
*”جس نے کسی عورت سے نکاح کیا اور نیت یہ رکھی کہ وہ مہر نہیں دے گا وہ زانی ہے“ (حدیث)
جس نے ایک مال مہر کے عوض کسی عورت سے نکاح کیا اور نیت یہ رکھی کہ اس مہر کو ادا نہیں کرے گا۔ وہ دراصل زانی ہے اور جس نے قرض لیا اور نیت یہ رکھی کہ اس قرض کو ادا کرنا نہیں ہے وہ دراصل چور ہے۔ (حدیث)
مندرجہ بالا باتوں سے شریعت میں مہر کی اہمیت، حیثیت اور ضرورت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ عدم ادائیگی کی صورت میں انجام بھی معلوم ہوجاتا ہے۔
دعوت طعام ولیمہ
دعوت ولیمہ حضور صلى الله عليه وسلم کی سنت ہے جو نکاح کے بعد دیا جاتا ہے۔ نبی صلى الله عليه وسلم نے اپنے تمام نکاح کے بعد ولیمہ دیا ہے۔ چاہے اس کی مقدار کم ہو یا زیادہ بہرحال اس پر عمل ہونا چاہئے۔
*”حضرت ابوہریرہ رضى الله عنه سے روایت ہے کہ رسول خدا صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: بدترین کھانا اس ولیمہ کا کھانا ہے جس میں مالداروں کو بلایا جائے اور محتاجوں کو چھوڑ دیا جائے۔“(بخاری، مسلم)
عام طور پر جاہلانہ رسموں کے مطابق شادی سے قبل ہی لڑکے کی طرف سے کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے وہ غلط اور غیر شرعی اور سنت ولیمہ کی ضد ہے۔ اہل ایمان کو نافرمانی سے بچتے رہنا چاہئے۔
ایک جاہلانہ رسم
بعض جگہ دیکھا گیا ہے کہ طعام گاہ کے قریب میز (ٹیبل) لگادیا جاتاہے تاکہ لوگ کھانے سے فارغ ہوکر کچھ رقم جمع کریں۔ یہ بھی ایک بیہودہ رسم ہے کہ کھانے کی دعوت پر لوگوں کو جمع کیا جائے اور ان سے ایک مخصوص رقم (کھانے کا بل) وصول کیا جائے۔
بے پردگی
شادی بیاہ کے موقع پر بے پردگی بہت ہوتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں اپنے حسن کی نمائش کررہی ہیں۔ واضح رہے کہ پردہ فرض ہے۔ اس کی خلاف ورزی بہت بڑا گناہ ہے۔
قرآن کا فرمان ہے:
*”اے نبی! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں۔ بجز اس کے جو ظاہر ہوجائے۔ اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں اور وہ اپنا بناؤ سنگھار ظاہر نہ کریں۔“ (نیز ان کو حکم دوکہ) وہ چلتے وقت اپنے پاؤں زمین پر اس طرح نہ مارتی چلیں کہ جو زینت انھوں نے چھپا رکھی ہے اس کا اظہار ہو۔“ (سورئہ نور:۳۱)
عورتوں کے ستر
عورتوں کے لئے ستر کی حدود یہ ہیں کہ وہ اپنے چہرے اور ہاتھوں کے سوا تمام جسم کو شوہر کے علاوہ تمام لوگوں سے چھپائیں کیونکہ عورت کے لئے یہ حصے شرم گاہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
* نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: کسی عورت کیلئے جو اللہ اوریومِ آخرت پر ایمان رکھتی ہو، جائز نہیں کہ وہ اپنا ہاتھ اس سے زیادہ کھولے۔ یہ کہہ کر آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنی کلائی کے نصف پر ہاتھ رکھا“۔
رسولِ خدا صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
*”جب عورت بالغ ہوجائے تو اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر نہ آنا چاہئے، سوائے چہرے اور کلائی کے جوڑ تک ہاتھ کے“ (ابوداؤد)
*”نبی صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ کی لعنت ہے ان عورتوں پر جو لباس پہن کر بھی ننگی کی ننگی رہیں۔“ (حدیث)
*”حضرت عمررضى الله عنه کا ارشاد ہے کہ اپنی عورتوں کو ایسے کپڑے نہ پہناؤ جو جسم پر اس طرح چست ہو کہ سارے جسم کی ہیئت نمایاں ہوجائے۔“
مندرجہ بالا تعلیمات کی روشنی میں خواتین کو بے پردگی سے بچنا چاہئے۔
(یہ احادیث ستر سے متعلق ہیں حجاب یعنی اجنبی سے پردے کا حکم اس سے مختلف ہے، اجنبی مرد کے سامنے چہرے کا ظاہر کرنا بھی درست نہیں ہے۔ مدیر)
وراثت میں لڑکی کا حصہ
وراثت میں لڑکی کا حصہ مرد کے مقابلے میں نصف (1/2) ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
*”تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔ (سورة نساء)
لیکن جو لوگ لڑکیوں کا حصہ نہیں نکالتے ان کے تعلق سے فرمایا:
*”اور جو اللہ اور رسول صلى الله عليه وسلم کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدود سے تجاوز کرے گا اسے اللہ آگ میں ڈالے گا۔ جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لئے رسواکن سزا ہے۔“ (سورہ نساء)
اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
*”جو اپنے وارث کو میراث سے محروم کرے گا تو قیامت کے دن اللہ اس کو جنت کی میراث سے محروم کرے گا۔“(ابن ماجہ)
ان تعلیمات کے مطابق وراثت میں لڑکی کا نصف حصہ جو شریعت نے مقرر کیا ہے ادا کرنا چاہئے تاکہ اللہ کے غضب سے بچا جاسکے۔ (واضح رہے کہ یہاں صرف لڑکی کے حصے کی بات کی جارہی ہے۔ رہا مکمل وراثت کا معاملہ تو یہ اس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے)
تحفہ
تحفہ دینا شریعت میں پسندیدہ ہے لیکن بدلے کی نیت سے نہیں دینا چاہئے۔ یہ بات اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کو کوئی چیز تحفے کے طور پر دے چکا ہو، بدلے کی نیت رکھے۔ اس ذلیل حرکت کو حدیث میں اس کتے کے فعل سے تشبیہ دی گئی ہے جو اپنی ہی قئے خود چاٹ لے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اہل ایمان کو اللہ اطاعت کرنے اور شریعت اسلامیہ کی پابندی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
***
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ ۶ ، جلد: ۹۴ ، جمادی الثانی- رجب ۱۴۳۱ ہجری مطابق جون ۲۰۱۰ ء