از: اشتیاق احمد قاسمی ، مدرس دارالعلوم دیوبند
”فقہی اصول وقواعد“ دین فہمی کی اساس اوراحکام شرعیہ کی کسوٹی ہیں، عصر حاضر کی علمی زبان میں ”قواعدُ تفسیرِ النصوص“ کی تعبیر اصولِ فقہ کے لیے مستعمل ہے یہ قرآن وسنت کی تشریح وتفہیم کا مقررہ منہاج ہیں، ان کی بنیادیں گہری اور ستون مضبوط ہیں، شریعت کو باطل کی آمیزش سے پاک رکھنے کے لیے مدارکِ اجتہاد اور مقاصد شریعت پر گہری بصیرت رکھنے والے علمائے راسخین اور فقہائے عاملین نے ان کو فن کی حیثیت سے مرتب فرمایا ہے، انھیں اصول و قواعد کے مطابق احکام کی تشریح وتوضیح صحت وحَقّیِّتْ کی ضامن ہے۔
فقہی اصول وقواعد کی تدوین:
جب اسلام عرب سے عجم میں سرعت کے ساتھ پھیل رہا تھا، اسی وقت اس کی تدوین عمل میں آئی، اس وقت کی صورت حال کچھ اس طرح تھی:
۱- نئی قوم اپنے ماضی کے رجحانات کے ساتھ اسلام میں داخل ہورہی تھی، دین میں ان رجحانات کی آمیزش کا خدشہ تھا۔
۲- نئے نئے لوگوں کے ساتھ نئے نئے مسائل بھی اسلام سے اپنا حل طلب کررہے تھے، گویا اسلام کو ایک چیلنج درپیش تھا، جو مسائل قرآن وحدیث میں صراحت کے ساتھ بیان نہیں ہوئے ہیں، ان کا حکم دریافت کرنا بڑا اہم مطالبہ تھا۔
۳- بعض منافقانہ ذہن رکھنے والے لوگوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر نصوص کی غلط تشریح کا آغاز کردیا تھا، ان کا اسلوب مناظرانہ اور مقصد اسلام کی شبیہ بگاڑنا تھا اور بس؛ لیکن وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے، مگر اتنا ضرور ہوا کہ چند افراد کا گروہ ان کے موافق ہوگیا۔
انھیں حالات میں فقہائے امت کی باتوفیق جماعت نے چاہا کہ اسلام کے جزوی احکام کے لیے ایسے اصول وضع کیے جائیں، جن سے اسلام کی شبیہ بگڑنے سے بچ جائے، اور فروعی مسائل کو ایسے ستون سے باندھ دیا جائے، جو ہلائے نہ ہلے، انھیں اصول وقواعد کے مطابق تشریح، اسلام کی صحیح ترجمانی کی ضامن ہو، جو ترجمانی ان سے ہٹ کر ہو، وہ جادئہ استقامت سے ہٹی ہوئی کہلائے۔ فقہاء کی وہ جماعت جہاں فطری استقامت، سلامت روی، انقیاد واطاعت اور خلوص وللہیت کے زیور سے آراستہ تھی؛ وہیں ان کے اندر نصوص فہمی، استنباطِ مسائل اور عربی زبان وادب کا ذوق سلیم اعلیٰ درجے کا موجود تھا، وہ قواعد وضوابط کے محتاج نہ تھے، وہ اپنے ذوق سلیم سے استفادہ کرکے احکام شریعہ سمجھتے اور سمجھاتے تھے۔
انھوں نے قرآن وسنت کے معانی تک پہنچنے کے لیے لفظی اور معنوی قواعد وضوابط مرتب کیے۔ اس طرح اسلام غیروں کے دست برد اور باطل کی آمیزش سے محفوظ رہا، جب ”فقہی اصول وقواعد“ کی تدوین عمل میں آگئی، تو سارے اہل علم کے لیے آسانیاں پیدا ہوگئیں، اسلام کے خلاف نئے چیلنج کا سامنا کرنا آسان ہوگیا نئے مسائل کے حل میں جو دشواریاں پیش آرہی تھیں، سب ختم ہوگئیں، اس فن سے جہاں ائمہ متبوعین کا منہج اور استنباطِ مسائل کا طریقہٴ کار معلوم ہوتا ہے، وہیں اس فن سے اسلامی قوانین اور احکام فرعیہ کے صحیح طور پر سمجھنے کا ذوق اور ملکہ پیدا ہوتا ہے۔
اصول اور قواعد میں فرق
”اصولِ فقہ“ اور ”قواعد فقہ“ میں فرق ہے، ”اصولِ فقہ“ میں نصوص کے الفاظ ومعانی کی اقسام الفاظ کے ظہور وخفا، اجمال و تفصیل، اسی طرح الفاظ کے معانی پر دلالت کی جہتوں اور شکلوں سے بحث ہوتی ہے، اسی طرح نصوص سے تحقیق مناط اور تعیین علت کے بعد علت مشترکہ کی بنیاد پر احکام کی تخریج کا طریقہ بھی بتایا جاتا ہے، اور ”قواعد فقہ“ کے فقہائے کرام نے قرآن وسنت، عرف وعادت، مصالح ومقاصد شریعت وغیرہ کو سامنے رکھ کر ترتیب دئیے ہیں، فروعی احکام کی صحت و سقم کو ان پر جانچا اور پرکھا جاتا ہے، بعض احکام اُن قواعد سے مستثنیٰ ہوتے ہیں جو بظاہر منطبق ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں، لیکن درحقیقت وہ کسی دوسرے قاعدے پر متفرع ہوتے ہیں، مستثنیٰ احکام کو ان کے متعلقہ قواعد پر منطبق کرنا، آسان کام نہیں، اس کے لیے ایک طرف فقہی بصیرت اور ذوقِ سلیم کی ضرورت ہے تو دوسری طرف فقہ کا وسیع مطالعہ اور قواعد سے احکام کی تفریع اسی طرح عملی زندگی میں احکام اسلامی کی تطبیق کا ملکہ بھی ضروری ہے، ان اوصاف کے بغیر قواعد سے احکام کی تفریع میں لگنا ہی جائز نہیں، اس سے بڑی بڑی خرابیاں درآنے کا شدید اندیشہ ہے، ایسے لوگ اگر اس میدان میں آئیں گے تو ”فقہ اسلامی“ کے ساتھ ”نادان دوست“ والا معاملہ ہوگا، یہ لوگ اِسے ”بڑھیا کا طوطا“ بناڈالیں گے، یہ خطرہ اس وجہ سے بھی زیادہ ہوگا کہ فقہی قواعد؛ منطق، نحو، صرف اور اشتقاق کے قواعد کی طرح کلی نہیں ہوتے؛ بلکہ اکثری ہوتے ہیں، اکثر جزئیات واحکام ضرور اس پر منطبق ہوجاتے ہیں، لیکن مستثنیات کی بھی ایک اچھی خاصی تعداد ہوتی ہے، جیسا کہ علامہ حموی رحمة الله عليه نے حاشیہ الاشباہ والنظائر میں اس کی صراحت فرمائی ہے: اذ ہي عندَ الفقہاء حکمٌ أکثريٌ لا کليٌ یَنْطَبِقُ علی أکثرِ جزئیاتہ (حاشیہ الاشباہ ،ص:۶۶، الفن الاول، ط: فقیہ الامت دیوبند)
علامہ زیدالدین بن ابراہیم بن نجیم رحمة الله عليه کی کتاب ”الاشباء والنظائر“ اس بات کی شاہد عدل ہے، جن لوگوں نے بھی گہرائی سے اس کا مطالعہ کیا ہے، ان پر یہ باتیں بالکل عیاں اور واضح ہیں، مزید تشریح کی چنداں ضرورت نہیں۔
مدارس میں اصول وقواعد کی تدریس کا جائزہ
ہندوپاک کے مدارس میں عموماً، چار یا پانچ کتابیں اصولِ فقہ میں پڑھائی جاتی ہیں، اصول الشاشی سے پہلے تسہیل الاصول، معین الاصول اور آسان اصول فقہ جیسی کتابیں داخل درس ہوتی ہیں، پھر نورالانوار اور حسامی پڑھائی جاتی ہے، اور دارالعلوم دیوبند جیسے ادارے، جہاں فنون کی تکمیل کا رواج ہے، وہاں مسلم الثبوت آخری کتاب مانی جاتی ہے۔ افتاء میں ”اصولِ بزدوی“ بعض جگہ داخل نصاب ہے، ممکن ہے کہ ”اصول سرخسی“ بھی کہیں پڑھائی جاتی ہو، اس لیے کہ اب وہ چھپ چکی ہے، طلبہ فارغ ہوجاتے ہیں، دورئہ حدیث شریف تک ”فقہی قواعد“ کی ہواتک نہیں لگتی، جن طلبہ کا انتخاب ”افتاء“ کے لیے ہوتا ہے، بس انھیں کو ”فقہی قواعد“ کی تعلیم دی جاتی ہے، اس کے لیے عموماً ذیل کتابیں پڑھائی جاتی ہیں:
(۱) الاشباہ والنظائر (۲)قواعد الفقہ (۳) دررالحکام
”الاشباہ والنظائر“ اگرچہ مطالعہ کی کتاب ہے، لیکن اسے درساً درساً پڑھایاجاتا ہے؛ چونکہ پورا پڑھایا جانا ممکن نہیں ہے؛ اس لیے پہلی جلد ہی پوری ہوپاتی ہے، اس میں صرف دو نوعیں ہیں النوع الاول کے قواعد کلیہ چھ ہیں اور النوع الثانی کے انیس، اور ان قواعد کے تحت اکتیس ضابطے (ذیلی قواعد) ہیں، اس طرح قواعد کی جملہ تعداد چھپن ہوجاتی ہے۔
”قواعد الفقہ“ (موٴلفہ: مفتی عمیم الاحسان رحمة الله عليه) جہاں داخل نصاب ہے اور پوری پڑھائی جاتی ہے، وہاں کرخی کے چالیس اصول، اور فقہائے اربعہ کے درمیان آپسی اختلافی تہتر اصول، اسی طرح ”عام قواعد“ فقہ چار سو چھبیس پڑھائے جاتے ہیں؛ سب کی تعداد پانچ سو انتالیس (۵۳۹) ہوجاتی ہے۔
اسی طرح بعض مدارس میں ”دررالحکام“ سے چند قواعد کا انتخاب پڑھایا جاتا ہے، یہ ہے مدراسِ اسلامیہ میں فقہی قواعد کا پڑھایا جانے والا نصاب اوراس کا سرسری جائزہ۔
لمحہٴ فکریہ
آج کی اس علمی اور فکری مجلس میں یہ غور کرنا ہے کہ: اگر ہمارے مدارسِ اسلامیہ میں فقہ اور قواعد فقہ پڑھنے والے طلبہ آخر اتنے فائق کیوں نہیں ہوتے، جتنے ہمارے اکابر واسلاف کے دور میں ہوا کرتے تھے؟ حالاں کہ ہم بھی وہی نصاب پڑھتے اور پڑھاتے ہیں جو ہمارے اکابر وبزرگان کے دور میں تھا، مزید یہ کہ آج علمی وسائل پہلے سے کہیں زیادہ مہیا ہیں، کتابت وطباعت کی مشکلیں ختم ہوگئی ہیں۔ بہت سی علمی کتابیں جن کو دیکھنے کے لیے اکابر کی آنکھیں ترس گئی تھیں، آج وہ بہت آسانی سے ہر طالب علم کو مل جاتی ہیں، جن کتابوں کے لیے بڑی بڑی رقمیں خرچ ہوتی تھیں، آج سستی سے سستی قیمت پر مل جارہی ہیں، سی، ڈیز اور انٹرنیٹ سے اور بھی آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں، ان سب کے باوجود نتائج حوصلہ افزا نہیں، آخر اس کی کیا وجوہات ہیں؟
فقہی بصیرت میں کمی کی وجوہات
مقالہ نگار کے نزدیک اسکی متعدد وجوہات ہیں، بعض ان میں اہم اور بعض بہت ہی اہم ہیں:
۱- سب سے پہلی بات یہ ہے کہ مدارس میں فقہی کتابیں پوری نہیں پڑھائی جاتیں، اکابر کے دور میں کتابیں پوری ہوتی تھیں۔
ایک سرسری جائزہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ: ہمارے مدارس میں سب سے پہلے ”نورالایضاح“ پڑھائی جاتی ہے، وہ صرف عبادات کے مسائل پر مشتمل ہے، یہ بھی بعض مدارس میں پوری نہیں ہوتی۔ ”قدوری“ دو سال میں پڑھائی جاتی ہے، اس وقت طالب علم کا شعور کامل اور بیدار نہیں ہوتا، بس کسی طرح کتاب پوری ہوجاتی ہے، بعض مدارس میں یہ دونوں کتابیں بھی پوری نہیں ہوتیں۔
ان کے بعد ”شرح وقایہ“ کا نمبر آتا ہے،اس کی چار جلدیں ہیں، بہت سے طلبہ جانتے بھی نہیں کہ اس کی چار جلدیں ہیں، یا صرف دو؟ ان میں سے بھی پہلی جلد مکمل ہوتی ہے، اس میں صرف عبادات کے ابواب ہیں اور دوسری جلد کا کچھ ہی حصہ پڑھایا جاتا ہے، بقیہ دو جلدیں طباعت سے بھی محروم ہیں۔
پھر ”ہدایہ“ شروع ہوجاتی ہے، اس کی پہلی اور دوسری جلدیں بمشکل تمام اکثر مدارس میں پوری ہوتی ہیں، تیسری اور چوتھی جلد تو کہیں بھی پوری نہیں ہوتی، اسی پر فقہ کی تعلیم پوری ہوجاتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ مدارسِ اسلامیہ میں طلبہ عبادات کے ابواب تو اچھی طرح پڑھتے ہیں؛ لیکن معاملات وغیرہ کے ابواب تشنہ رہ جاتے ہیں، اس کے بعد ”افتاء“ میں داخل ہوجاتے ہیں، اس وقت جب وہ ”فقہی قواعد“ پڑھتے ہیں تو ان کو دو دشواریاں پیش آتی ہیں: (الف) قواعد کے تحت جو مثالیں بے پڑھے ابواب کی ہوتی ہیں، وہ ان کو اجنبی لگتی ہیں، یا تو وہ بالکل سمجھ میں نہیں آتیں یا بمشکل ذہن نشیں ہوتی ہیں۔ (ب) دوسری دشواری؛ بلکہ مجبوری یہ ہوتی ہے کہ قواعد کے تحت مثالوں کی تخریج میں وہ بے پڑھے ابواب کی مثالیں پیش نہیں کرسکتے۔
۲- ”علم فقہ“ یکسوئی کا طالب ہے، لیکن آج طلبہ اور اساتذہ کی مشغولیتوں کی کثرت نے یکسوئی کا بیڑا غرق کردیا ہے۔
۳- عربی زبان وادب کا ذوق پہلے کی طرح نہیں رہ گیا، پہلے ہر عالم اورہر فقیہ کو زبان وادب کا قابل لحاظ ذوق ہوتا تھا، آج وہ بات نہیں رہی۔
۴- استنباطِ مسائل کا تعلق بڑی حد تک علومِ عقلیہ سے مناسبت پر ہے، اس فن سے فکر وتدبر کا ملکہ پیدا ہوتا ہے، حضرات اکابر کا ذہن علومِ عقلیہ کو پڑھ کر روشن اور تیز ہوجاتا تھا، آج اس طرف توجہ نہیں کے برابر ہے؛ اس لیے بھی گہرائی وگیرائی کا فقدان ہے، خصوصا علومِ ولی اللّہی کے دعویٰ کرنے والے حضرات اور مدارس کو اس کی طرف توجہ دینی چاہئے!
۵- چند سالوں سے فقہ وافتاء کے طلبہ بھی علم سے زیادہ محض سند کے حصول کی طرف متوجہ ہورہے ہیں، بعض طلبہ سوم یا چہارم عربی کے بعد دورئہ حدیث میں داخلہ لے لیتے ہیں، دیوبند کے بعض مدرسوں میں بھی ایسے واقعات پیش آرہے ہیں، بعض مختصر مدتی عالم کورس کرکے سند حاصل کرتے ہیں پھر انھیں افتاء میں داخلہ کی خواہش ہوتی ہے، جبکہ مختصر مدتی کورس سے فقہ تو دور کی بات ہے، کسی بھی فن سے مناسبت نہیں ہوپاتی۔
۶- تنخواہوں کی قلت اور مہنگائی کی کثرت کی وجہ سے اساتذہ بھی غیرعلمی مشاغل میں مصروف نظر آتے ہیں، حیدرآباد اور اس طرح کے بڑے شہروں کی صورتِ حال یہی ہے، اساتذئہ کرام محض واجب ڈیوٹی کرکے امامت، خطابت اور دکان داری میں لگ جاتے ہیں، یہ ان کی مجبوری ہے؛ اس لیے جیسے تیسے عبارت حل کرکے طلبہ کو پڑھا دیتے ہیں، ان کو خود فن سے مناسبت نہیں ہوتی، تو طلبہ کو کیا آئے گا؟
حضراتِ اکابر کے دور میں ”قواعد فقہ“ کو باضابطہ نہیں پڑھایا جاتا تھا، افتاء میں فتوی نویسی کی تمرین کے ساتھ صرف ”رسم المفتی“ پڑھائی جاتی تھی، جس سے اُن کو ”اصولِ افتاء“ معلوم ہوجاتے تھے، وہ ”فقہ اسلامی“ کا محیط مطالعہ رکھتے تھے اور اساتذہ کی رہنمائی اوران کے مشورے سے کسی ایک کتاب کا تفصیلی مطالعہ بھی کرلیتے تھے، علومِ عقلیہ میں مہارت کی وجہ سے کسی بھی مسئلہ کے ہر چہار پہلو پر غور وفکر کرنا اُن کے لیے آسان تھا، عربی زبان وادب کا ذوق ہونے کی وجہ سے ہر کتاب ان کے لیے آسان تھی، آج محض اردو کے فتاویٰ سے فتویٰ دے کر فقیہ اور مفتی کے مبارک لقب سے ملقب ہوجاتے ہیں اور محض اردو شرح سے کتاب حل کرکے اکابر اساتذہ کی صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔
چند تجاویز
ان سب وجوہات کی بنا پر ضروری ہے کہ درج ذیل گذارشات پر توجہ دی جائے:
۱- فقہ اسلامی کے موجودہ نصاب کو نہ بدلا جائے؛ بلکہ طریقہٴ تعلیم میں بہتری پیدا کرنے کی کوشش کی جائے!
۲- اساتذہ کو اتنی کم تنخواہ نہ دی جائے کہ وہ دوسری حرفت وتجارت کرنے پر مجبور ہوجائیں اور یکسوئی سے خدمت نہ کرسکیں! نیز اتنی زیادہ کتابیں نہ دی جائیں کہ ان کو مطالعہ وتحقیق کا وقت نہ مل سکے!
۳- شروع سے ہی نحو وصرف کے ساتھ عربی زبان وادب کی تعلیم پر توجہ دی جائے!
۴- فقہی کتابوں کی تدریس بڑے اور تجربہ کار اساتذہ کے سپرد کی جائے، جو ایک طرف تو رخصتوں کو کم کرکے نصاب کی تکمیل کی طرف توجہ دیں اور دوسری طرف طلبہ میں فقہی ذوق پیدا کرنے کے لیے ”فقہی قواعد“ کی وضاحت کے ساتھ ان پر مسائل کی تطبیق کریں، نیز عرف وعادت کے بدلنے اور زمان ومکان وغیرہ کی تبدیلی سے جو مسائل جزوی یا کلی طور پر بدل گئے ہیں، اُن کی نشاندہی کریں، عملی زندگی میں ان مسائل پر کس طرح عمل ممکن ہے؟ اس کی بھی وضاحت کریں، یہ طریقہ طلبہ کی استعداد کو دیکھتے ہوئے شرح وقایہ یا ہدایہ میں ضرور اپنائیں، نورالایضاح اور قدوری میں بیان کو مفصل کرنے کے بجائے اختصار سے کام لیا جائے؛ البتہ عملی زندگی میں تطبیق مسائل کی تفہیم کو نہ چھوڑا جائے،اس طریقہ سے استعداد پختہ ہوگی اور طلبہ میں فقہ کا ذوق پیدا ہوگا، اور ان کے دل میں ”قواعد فقہ“ کی اہمیت بیٹھے گی، پھر جب وہ ”افتاء“ میں ”قواعد فقہ“ کا مطالعہ کریں گے تو ان کو اجنبیت نہ ہوگی۔
۵- ”افتاء“ میں بالالتزام ایک متن کا محیط مطالعہ ضرور کرادیا جائے، اس کے لیے ”ملتقی الابحر“ بڑی اچھی کتاب معلوم ہوتی ہے، اس کا فائدہ بہت ہوگا اس لیے بھی یہ ضروری ہے کہ قواعد پر جزئیات کی تطبیق کے لیے مطالعہ کا وسیع محیط اور گہرا ہونا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
۶- ”افتاء“ میں فتاوی نویسی کی مشق صریح جزئیہ کی روشنی میں کرائی جائے، اگر صریح جزئیہ نہ ہوتو ”نظائر“ کی روشنی میں تمرین ہو، آج تک اکابر کا طریقہ یہی چلا آرہا ہے، نظیرکے تلاشنے میں خوب خوب تھکنا اورتھکانا بڑا ہی کارآمد ثابت ہوتا ہے۔
۷- ”قواعد فقہ“ دراصل مطالعہ کا فن ہے، لیکن اب اِسے باضابطہ درس میں پڑھایا جاتا ہے اور پڑھانے کا طریقہ اکثر دارالافتاء میں وہی پرانا ہے کہ استاذ صاحب نے ہر قاعدہ کی مثالوں کے ساتھ تشریح کردی اور طلبہ نے سمجھ کر یا بلا سمجھے سن لیا اور چلے گئے۔
قواعد فقہ کی تدریس کا طریقہ
ناچیز کے نزدیک یہ طریقہ زیادہ مفید نہیں، اس میں کچھ ضروری تبدیلی لانی چاہئے؛ تاکہ مزید بہتری پیدا ہوجائے، چوں کہ پہلے کی طرح طلبہ مطالعہ نہیں کرتے، اس لیے ایسا طریقہ جو ان کو مطالعہ کی طرف متوجہ کرے وہی زیادہ مفید ہوگا، ناچیز نے دارالعلوم حیدرآباد میں ”الاشباہ والنظائر“ کی تدریس کا پانچ سال تجربہ کیا ہے، اس سے یہ اندازہ ہوا کہ تخریج وتمرین کا طریقہ اچھا اور بہتر ہے، مثلاً: ”الاشباہ والنظائر“ کی پہلی جلد میں چھپن قواعد پڑھائے جاتے ہیں، پہلے ان سب کو یکجا کرکے زبانی یاد کرایا جائے، پھر تدریس کے ساتھ اولاً یہ تمرین کرائی جائے کہ سارے قواعد کن نصوص کی روشنی میں بنائے گئے ہیں، اُن معانی کے نصوص کی تخریج، پھر ان سے قواعد کے استخراج کی تفصیل لکھوائی جائے، اس کے لیے خود علامہ ابن نجیم کی تشریح اور حموی کا حاشیہ،اولین معاون ثابت ہوتے ہیں، اسی کے ساتھ ”الفوائد الجنیئة“ جو شوافع کی ”الاشباہ والنظائر“ کہلاتی ہے، اس سے بھی طلبہ تعاون لیں،اس لیے کہ اکثر قواعد اور ان کے مآخذ ملتے جلتے ہیں اس کے بعد اُن معانی کی نصوص مزید تلاش کرائی جائے، اس لیے کتابوں کی سی، ڈیز کا استعمال بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس طرح طلبہ کو ”قواعد“ کی صحت کا اطمینان حاصل ہوجائے گا، اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ وہ غیرمقلدین کے اس اعتراض سے متاثر نہ ہوں گے جو یہ کہتے ہیں کہ فقہی قواعد کی کوئی اصل نصوصِ شرعیہ میں موجود نہیں یہ محض فقہاء کی بنائی ہوئی عبارتیں ہیں۔
جب سارے قواعد پر یہ کام ہوجائے، تب ”الاشباہ“ میں ذکرکردہ جزئیات کی تطبیق کی تقریر استاذ صاحب کریں اور زیادہ بہتر ہے کہ باری مقرر کرکے طلبہ سے ہی تقریر کرائی جائے، اس لیے کہ افتاء میں طلبہ بااستعداد ہوتے ہیں، البتہ مشکل مقامات کی تقریر لازماً استاذ صاحب ہی کریں، جب ایک قاعدہ پورا ہوجائے تو اس قاعدہ پر منطبق جزئیات کی تخریج فقہی کتابوں سے کرائی جائے، اگر طلبہ ایک دو مثال بھی صحیح تخریج کرکے لائیں تو ان کی حوصلہ افزائی کی جائے، تاکہ ہمت پیدا ہو اور رسوخ فی العلم کی دولت سے بہرہ ور ہوں۔
”قواعد الفقہ“ (موٴلفہ مفتی عمیم الاحسان رحمة الله عليه) اگر پڑھائی جاتی ہوتو اس میں بھی قواعد کے ”حفظ“ کے ساتھ تخریج کی مشق کرائی جائے۔
قواعد کے حفظ کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ جب بھی کوئی مسئلہ اُن کے سامنے آئے گا، فوراً اُن کا ذہن قواعد کی طرف منعطف اور متوجہ ہوگا، کبھی نیا مسئلہ اگر سامنے آئے گا تو اس کے سمجھنے میں بھی مدد ملے گی۔
۸- تدریس کی حد تک فقہی قواعد پر مسائل کی تطبیق مشق وتمرین مفید ہے، فتویٰ نویسی میں محض قواعد سے فتویٰ لکھنے سے احتراز کیا جانا ضروری ہے، جیساکہ ”رسم المفتی“ وغیرہ میں اس کی تفصیل موجود ہے، اس سے ایک تو فتویٰ نویسی کا رائج طریقہ ٹوٹے گا، دوسرے فتویٰ نویس مسئلہ کو کچھ سے کچھ سمجھ لے گا،جس سے زحمتیں پیدا ہوں گی۔ رہے ماہر اور مشّاق فتویٰ نویس مفتیان کرام تو ان کے فتویٰ میں قواعد کا ذکر ہونا چنداں مضر نہیں۔ واللہ الموفق
***
ماهنامه دارالعلوم ، شماره 2 ، جلد: 94 صفر – ربیع الاول 1431 ھ مطابق فروری 2010 ء