از: محمد عارف جمیل مبارک پوری  ، شارجہ، متحدہ عرب امارات

فرمان باری ہے: واذا تولی سعی فی الارض لیفسد فیہا ویہلک الحرث والنسل واللّٰہ لا یُحبہ الفساد (بقرہ:۲۰۵)

”اور جب پھرے تیرے پاس سے تو دوڑتا پھرے ملک میں تاکہ اس میں خرابی ڈالے، اور تباہ کرے کھیتیاں اور جانیں، اور اللہ ناپسند کرتا ہے فساد کو“۔

اس آیت میں دو مقام پر بدیہیات ہیں:

مقام اوّل: ”سعی“ کے حقیقی معنی: تیزی کے ساتھ پاؤں سے چلنا۔ اور ظاہر ہے اس لحاظ سے سعی زمین میں ہی ہوگی پھر (فی الارض) کے ذریعہ اس کی وضاحت کرنے میں کیا حکمت ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے عموم معلوم ہوتا ہے کہ وہ جہاں بھی جاتا ہے، فساد کی سعی کرتا ہے۔ اور لفظ (فی الارض) سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زمین کے مختلف اطراف میں بہت زیادہ نقل وحرکت کرتا ہے۔ اس لیے کہ جب (الارض) کو عام رکھا ہے، تو اس سے کثرت سعی معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح کا مضمون اس سے پہلے، (لا تفسدوا فی الارض) (بقرہ:۱۱) میں آچکا ہے۔ یہ جواب ابوحیان نے نقل کیا ہے۔(۱)

مقام دوم: فساد پیدا کرنا ایک عام لفظ ہے، جس کے تحت کھیتیاں اور جان تباہ کرنا داخل ہے، پھر اس کو الگ سے بیان کرنے میں کیا حکمت ہے؟

اس کے دو جواب دیے گئے ہیں:

اول: اللہ تعالیٰ نے فساد انگیزی کو اولا (لیفسد فیہا) کے ذریعہ اجمالی طور پر بیان فرمایا پھر (ویہلک الحرث والنسل) میں اس کی تفصیل بیان فرمائی۔ اس کی نظیر یہ آیت کریمہ من کان عدوا للّٰہ، وملائکتہ ورسلہ وجبریل ومیکال. (بقرہ:۹۸)

”اور جو کوئی ہو دشمن اللہ کا اوراس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبریل ومیکائیل کا۔“

فساد انگیزی کی ان دوشکلوں کو خاص طور پر اس لیے بیان فرمایا کہ دنیا کی آبادکاری میں ان دو چیزوں کی سب سے زیادہ ضرورت پڑتی ہے۔ اس لیے ان دونوں کو تباہ کرنا، حد درجہ کی فساد انگیزی ہے۔ یہ جواب رازی اورابوحیان نے نقل کیا ہے۔(۲)

یہ تو اس صورت میں ہے جب کہ فساد انگیزی کے معنی، تخریب کاری لی جائے لیکن اگر فساد انگیزی کا معنی یہ لیاجائے کہ یہ شخص جب مجلس نبوی سے واپس ہوتا تو اس کا کام ہی یہ تھا کہ مسلمانوں کے دلوں میں شبہات پیدا کرے،اور کفر کی تائید کے راستے نکالے۔ اور اس کو بھی فساد انگیزی کہاجاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرعونیوں کی بات نقل کرتے ہوئے فرمایا:

أتذر موسی وقومہ لیفسدوا فی الارض (اعراف:۱۲۷)

یوں چھوڑتا ہے تو موسیٰ اوراس کی قوم کو کہ دھوم مچائیں ملک میں اور موقوف کردے تجھ کو اور تیرے بتوں کو۔

نیز فرمایا:

اني اخاف ان یبدل دینکم أو أن یظہر في الأرض الفساد.

”میں ڈرتا ہوں کہ بگاڑ دے تمہارا دین یا پھیلائے ملک میں خرابی“۔

اور اسی طرح کی توجیہ اس فرمان باری میں آچکی ہے:

واذا قیل لہم لا تفسدوا فی الارض (بقرہ:۱۱)

”اور جب کہا جاتا ان سے، فساد نہ ڈالو ملک میں“۔

اس صورت حال کو ”زمین میں فساد انگیزی“ سے ا س لیے تعبیر کیاگیا کہ اس کی وجہ سے لوگوں میں اختلاف جنم لیتے ہیں، ان کا شیرازہ بکھرتا ہے، اور ہر ایک دوسرے سے اظہار برأت کرتا ہے، پھر قطع رحمی اور خوں ریزی ہوتی ہے۔ فرمان باری ہے:

فہل عسیتم ان تولیتم أن تفسدوا فی الارض، وتقطعوا أرحامکم (سورہ محمد:۲۲)

”پھر تم سے یہ بھی توقع ہے کہ اگر تم کو حکومت مل جائے، تو خرابی ڈالوملک میں اور قطع کرو اپنی قرابتیں“۔

اس میں اللہ تعالیٰ نے خبردار کردیا ہے کہ اگریہ لوگ دین سے اعراض کریں گے تو زمین میں فساد انگیزی اور قطع رحمی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اور یہ اسلوب قرآن میں (جیساکہ ہم بتاچکے ہیں) بہ کثرت موجود ہے۔

فساد انگیزی کو، تخریب کاری اور لوٹ مار کے مقابلہ، اس معنی پر محمول کرنا بہتر ہے؛ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے، اس کو حرف عطف (واو) کے ذریعہ بیان فرمایا ہے،اور معطوف، معطوف علیہ سے، لازما الگ ہوتا ہے۔ یہ جواب رازی نے نقل کیا ہے۔(۳)

دوم: فساد انگیزی سے مراد، شبہ ڈالنا ہے۔ جس طرح دینِ حق، دو امور سے عبارت ہے: علم اور عمل۔ اسی طرح دینِ باطل دو امور سے عبارت ہے: شبہات اور غلط کام کرنا۔ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے بارے میں اولاً یہ بیان فرمایا کہ یہ شبہات پیدا کرنے میں لگتا ہے، اور (لیفسد فیہا) سے یہی مراد ہے، اس کے بعد یہ بتایا کہ یہ شخص غلط کار ہے۔ اور (ویہلک الحرث والنسل) سے یہی مراد ہے۔ یہ جواب رازی نے نقل کیا ہے۔(۴)

۲- فرمان باری: والمطلقات یتربصن بأنفسہن ثلاثة قروء (بقرہ:۲۲۸)

”اور طلاق والی عورتیں انتظار میں رکھیں اپنے آپ کو تین حیض تک“۔

سوال یہ ہے کہ اگر یوں کہہ دیتے (یتربصن ثلاثة قروء) تو بھی کافی تھا، جیساکہ ایک دوسری جگہ فرمایا:

تربص أربعة أشہر (بقرہ:۲۲۶)

”مہلت ہے چار مہینے کی“۔

یہاں پر (بأنفسہن) کے ذریعہ تاکید لانے میں کیا حکمت ہے؟

اس کے کئی جواب دیے گئے ہیں:

اول: (بأنفسہن) کے ذکر میں، عورتوں کو انتظار کرنے پر ورغلانا اور خوب ترغیب دینا ہے؛ اس لیے کہ یہ ایسی چیز ہے، جس سے ان کو اعراض ہوتا ہے، اس میں ان کو اس پر آمادہ کرنا ہے۔ کیوں کہ عورتوں کی طبیعت، مردوں کی طرف مائل ہوتی ہے، اس ٹکڑے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کی اس رغبت کو لگام دیں، اور انتظار پر مجبور کریں۔ یہ جواب زمخشری، رازی، ابن عاشور، ابوسعود، آلوسی اور بیضاوی نے نقل کیا ہے۔(۵)

دوم: (بأنفسہن) کا تعلق، (یتربصن) سے ہے، اور اس صورت میں ظاہر یہ ہے کہ ”باء“ سببیت کی ہے۔ یعنی اپنے نفس کی وجہ سے۔ اور اس صورت میں (بأنفسہن) کاذکر ضروری تھا؛ اس لیے کہ اگر یوں کہاجاتا: ”یتربصن بہن“ تو یہ ترکیب درست نہ ہوتی؛ کیوں کہ اس میں اسم متصل کی ضمیر کو رفع دینے والے فعل کو، ضمیر مجرور کی طرف، متعدی کرنا ہوتا ، جیسے: (ہن تمر بہا) اور یہ ترکیب صحیح نہیں۔ یہ جواب ابوحیان نے ذکر کیاہے۔(۶)

سوم: تاکید کے زائد ہے اور مطلب یہ ہے: (یتربصن أنفسہن) جیسے کہتے ہیں: جاء زید بنفسہ، جاء زید بعینہ یعنی نفسہ وعینہ ۔ یہ جواب ابوحیان اور ابن عاشور نے نقل کیا ہے۔ البتہ ابن عاشور نے صاحب ”المغنی“ کے بارے میں لکھا ہے کہ انھوں نے اس کو دو وجوہات سے رد کیاہے:

الف: باعتبار لفظ،اس وجہ سے کہ ضمیر متصل کی تاکید کا حق یہ ہے کہ ضمیر منفصل یا کسی اور فاصل کے ذکر کے بعد آئے۔ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ حرفِ عطف پر اکتفا کیا۔

ب: باعتبار معنی: اس وجہ سے کہ یہاں تاکید کا کوئی تقاضا نہیں، اس لیے کہ سامع کا ذہن اس طرف نہیں جاسکتا کہ اس امر کا مخاطب مبتدا یعنی ”المطلقات“ (جس کی ضمیر خبر میں موجود ہے) کے علاوہ کوئی اور ہے۔(۷)

اس اشکال کاجواب ابوحیان دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

”یہ اعتراض نہ ہو کہ یہاں پر تاکید جائزنہیں؛ کیوں کہ یہ ضمیر مرفوع متصل (یعنی یتربصن میں جو نون نسوة ہے) کی تاکید کے باب سے ہوگیا اور اس کے لیے شرط یہ ہے کہ اس کی تاکید ضمیر منفصل کے ذریعہ لائی جاچکی ہے،اور ترکیب یوں ہو: یتربصن ہن بأنفسہن. اس کی وجہ یہ ہے کہ اس تاکید پر حرف ”باء“ کی وجہ سے جر آگیا، تو یہ تابع ہونے سے خارج ہوگئی۔ اور اس میں وہ علت مفقود ہوگئی،جس کی وجہ سے ضمیر مرفوع متصل کی تاکید محال تھی تاآں کہ ضمیر منفصل کے ذریعہ اس کی تاکید لائی جائے، اگر نفس و عین کے ذریعہ اس کی تاکید لانی ہو۔ اس جواز کی نظیر: أحسن بزید، و أجمل ہے، تقدیر عبارت یہ ہے: وأجمل بہ ہے۔ ”بہ“ کو فاعل ہونے کے باوجود، حذف کردیاگیا۔ یہ اہل بصرہ کا مذہب ہے۔

نیزاس لیے کہ جب حرف جر ”باء“ کی وجہ سے اس پرجر آگیا تو صورت میں فاعل ہونے سے خارج ہوگیا۔ اور ”فضلہ“ کی طرح ہوگیا۔ لہٰذا اس کا حذف کرنا جائزہوگیا۔ مزید براں یہ کہ اخفش نے ”المسائل“ میں لکھا ہے کہ قاموا أنفسہم بلا تاکید جائزہے۔

یہاں پر اس تاکیدکا فائدہ یہ ہے کہ یہ عورتیں خود اس مدت کا انتظار کریں گی، اس میں یہ احتمال ختم ہوگیا کہ کوئی اور ان کے ساتھ اس کام کو انجام دے گا۔ ان عورتوں کو ہی، اس انتظار کا حکم دیاگیا ہے۔ اس صورت میں اس فعل کے، ان سے واقع ہونے کا زیادہ تقاضا ہے۔ لہٰذا اس کی تاکید کی ضرورت محسوس ہوئی؛ کیوں کہ عورتوں کی طبیعت میں، شادی اورمردوں کی طرف میلان ہوتا ہے۔ اور جب اس کی تاکید لادی گئی، تو معلوم ہوگیا کہ یہ شدت سے مطلوب ہے۔(۸)

۳- فرمان باری: واذا طلقتم النساء فبلغن أجلہن فأمسکوہن بمعروف أو سرحوہن بمعروف ولا تمسکوہن ضرارا لتعتدوا (بقرہ:۲۳۱)

”اور جب طلاق دی تم نے عورتوں کو پھر پہنچیں اپنی عدت تک تو رکھ لو ان کو موافق دستور کے، یا چھوڑ دو ان کو بھلی طرح سے، اور نہ روکے رکھو ان کو ستانے کے لیے“۔

سوال یہ ہے کہ (فأمسکوہن بمعروف) اور (ولا تمسکوہن ضرارا) میں کوئی فرق نہیں؛ کیوں کہ کسی بات کا حکم دینا اس کی ضد سے روکنا ہے، لہٰذا اس تکرار کا کیا فائدہ ہے؟

اس اشکال کے دو جواب دیے گئے ہیں:

اول: (ولا تمسکوہن ضرار) یہ ٹکڑا، (فأمسکوہن بمعروف) کی تاکید کی طرح ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے، ستانے کے لیے عورتوں کوروکے رکھنے سے منع فرمایا۔ اور اس ممانعت میں حکمت یہ ہے کہ (فأمسکوہن بمعروف) میں جو امر ہے اس کی تعمیل ایک بار دستور کے موافق رکھ لینے سے ہوجاتی ہے، یہی امر کا مدلول ہے، یہ ہمہ وقت کو شامل نہیں۔ اس کے بعد ”نہی“ آئی، جو تمام اوقات کو شامل ہے۔ اور اس میں اس غلط عادت پر تنبیہ ہے جو دورِ جاہلیت میں رائج تھی کہ طلاق کے بعد، رجوع کرلیتے، پھر طلاق دیتے پھر رجوع کرلیتے تاکہ عورت کو ستائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس فعل بد سے، خصوصا منع فرمادیا تاکہ اس گھناؤنے عمل پر تنبیہ ہوجائے، جو عورتوں کے لیے سب سے زیادہ اذیت ناک ہے کہ اس طریقہ سے ان عورتوں کی عدت (جو مہینوں سے عدت گذارتی ہیں) نو ماہ تک طول پکڑ جاتی تھی۔ یہ جواب رازی، ابوحیان، ابوسعود اور آلوسی نے نقل کیاہے۔(۹)

دوم : ابن عاشور کہتے ہیں:

”(ولا تمسکوہن ضرارا) میں (فأمسکوہن بمعروف) کے مفہوم مخالف کی تصریح ہے، اس لیے کہ ”ضرار“، ”معروف“ کی ضد ہے۔ یہ مفہوم، امر سے سمجھ میں آرہا تھا اس کے باوجود عطف کے ذریعہ اس کے بیان کرنے کی وجہ، اس ضدکی حددرجہ برائی کو بیان کرنا کہ شوہر (جودستور کے موافق رکھنے کے حکم الٰہی کی خلاف ورزی کرتے ہیں) عموماً اسی کے مرتکب ہوتے ہیں، نیز اس میں تاکید بھی ہے ، اور اس میں نکتہ یہ ہے کہ ایک مفہوم کو ذہن کے اندر دو مختلف طریقے (جن کا مقصد ایک ہے) سے راسخ کردیا جائے۔(۱۰)

ابن عاشور پہلے جواب سے مطمئن نہیں، وہ رقم طراز ہیں:

”فخرالدین رازی نے کہا کہ اس آیت میں ”امر“ پر، ضد کی شکل میں، ”نہی“ کا عطف کیاگیا ہے، اس میں نکتہ یہ ہے کہ ”نہی“ کے برخلاف ”امر“ تکرار کا متقاضی نہیں۔“

لیکن امر ونہی کے درمیان یہ تفریق مسلم نہیں، علمِ اصول کا یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے، البتہ انھوں نے اس کی بنیاد اس پر رکھی ہے کہ لغوی لحاظ سے امر ونہی کے درمیان فرق ہے۔ تاہم اگر ہم یہ کہیں کہ جہاں کہیں، ”امساک“ میں ”معروف“ پایا جائے ، وہاں ”ضرار“ کا وجود نہیں ہوگا۔ اور جہاں ”معروف“ معدوم ہوگا، ”ضرار“ کا وجود ہوگا۔ لہٰذا ”ضرار“، ”معروف“ کی نقیض کے مساوی ہوگیا۔ تو اس صورت میں ہم اس عطف میں نکتہ یہ قرار دے سکتے ہیں کہ یہ اثبات ونفی کے دوطریقوں سے، ”امساک بالمعروف“ کے حکم کی تاکید ہے، گویا یوں کہا گیا: لا تمسکوا الا بمعروف ۔ جیساکہ سموئل کے اس شعر میں ہے:

تسیل علی حد الظبات نفوسنا                  ولیس علی غیر الظبات تسیل

تلوار کی دھاروں پر ہماری جان جاتی ہے۔ تلوار کی دھاروں کے علاوہ کسی اور چیز پر ہماری جان نہیں جاتی۔(۱۱)

۴- فرمان باری: ولا جناح علیکم فیما عرضتم بہ من خطبة النساء أو أکننتم فی أنفسکم علم اللّٰہ أنکم ستذکرونہن ولکن لا تواعدوہن سرا الا أن تقولوا قولا معروفا ولا تعزموا عقدة النکاح حتی یبلغ الکتاب أجلہ واعلموا أن اللّٰہ یعلم ما فی أنفسکم فاحذروہ واعلموا أن اللّٰہ غفور حلیم (بقرہ:۲۳۵)

”اور کچھ گناہ نہیں تم پر کہ اشارہ میں کہو پیغام نکاح ان عورتوں کا یا پوشیدہ رکھو اپنے دل میں، اللہ کو معلوم ہے کہ البتہ ان عورتوں کا ذکر تم کروگے، لیکن ان سے نکاح کا وعدہ نہ کررکھو چھپ کر، مگر یہی کہ کہہ دو کوئی بات رواج شریعت کے موافق، اور نہ ارادہ کرو نکاح کا، یہاں تک کہ پہنچ جائے عدت، مقررہ اپنی انتہا کو، اور جان رکھو کہ اللہ کو معلوم ہے، جو کچھ تمہارے دل میں ہے، سواس سے ڈرتے رہو اور جان رکھو اللہ بخشنے والا اور تحمل کرنے والا ہے۔“

بدیہی بات ہے کہ اشارہ میں نکاح کا پیغام دینا، اس سے کہیں بڑھ کر ہے کہ دل کا میلان ہو اور زبان سے کچھ نہ کہے، اور جب اشارہ میں نکاح کا پیغام دینا پہلے مباح قرار دے دیا تو اب (أو أکننتم فی أنفسکم) کا جملہ ایک واضح امر کی وضاحت کے درجہ میں ہوگیا۔

اس کے کئی جواب دیے گئے ہیں:

اول: امام رازی لکھتے ہیں:

”آیت کا مطلب وہ نہیں جو آپ نے سمجھا؛ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فی الحال ”تعریض“ (اشارہ میں کہنا) کو مباح اور ”تصریح“ (صراحتاً اظہار کرنا) حرام قرار دیا، اس کے بعد فرمایا (أو أکننتم) اور اس سے مراد یہ ہے کہ دل میں یہ عزم کرے کہ مستقبل میں اس کا اظہار صراحتاً کرے گا۔ پہلی آیت میں فی الحال تعریض کو مباح، اور تصریح کو حرام کرنا ہے، اور دوسری آیت میں اس امر کو مباح کیا ہے کہ دل میں یہ عزم رکھے کہ زمانہ عدت گذرنے کے بعد، اس کا صراحتاً اظہار کردے گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے وہ سبب بیان کیا جس کی وجہ سے اس کو مباح کیاہے، اور فرمایا (علم اللّٰہ أنکم ستذکرونہن) اس لیے کہ نکاح کے باب میں جب نفس میں شہوت پیدا ہوجاتی ہے، تو صاحبِ شہوت، عزم و تمنا سے بہ مشکل چھوٹ سکتا ہے، اور چوں کہ اس میلان قلبی کو دور کرنا، ایک شاق امر کی طرح ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس سے حرج کو اٹھادیا اور اس کو مباح کردیا۔“

یہ جواب ابوحیان نے بھی نقل کیاہے۔(۱۲)

دوم: ابن عاشور کہتے ہیں:

”گناہ نہ ہونے کے باب میں، تعریض پر (أو أکننتم فی أنفسکم) کا عطف کرنے (حالاں کہ یہ بات عیاں ہے کہ تعریض، نفس میں عزم کے بعد ہی ہوتی ہے،اور تعریض پر گناہ نہ ہونے کالازمی مطلب ہے کہ محض نفس کے عزم پر گناہ نہیں ہوگا) فائدہ یہ تنبیہ ہے کہ عزم ایسی چیز ہے جس کو دور نہیں کیا جاسکتا، اور نہ اس کو ممنوع کیاجاسکتا ہے، اور جب یہ واقعہ اور صاحبِ عزم کا اپنے عزم کو زبان پر لانا ایک انسانی فطرت ہے کہ انسان اس کو چھپائے نہیں رکھ سکتا، تو اللہ تعالیٰ نے مقام رخصت کو بیان فرمادیا کہ یہ انسانوں پر، اللہ کے رحم وکرم کا ایک مظہر ہے، نیز اس میں حالتِ عدت کے احترام کو بھی ملحوظ رکھا، اور اس رخصت کی علت بھی بیان فرمادی کہ اس کا سبب، نفی حرج ہے۔ یہ اس تشریع کی حکمت ہے جو اس سے پہلے ان کے سامنے بیان نہیں ہوئی تھی۔“

یہ جواب ابوحیان نے بھی نقل کیاہے۔(۱۳)

***

حواشی:

(۱)           ابوحیان تفسیر آیت۔

(۲)           رازی ۵/۲۱۷؛ ابوحیان ۲/۲۲۹۔

(۳)          رازی ۵/۲۴۶۔

(۴)          رازی ۵/۲۴۶۔

(۵)          زمخشری تفسیر آیت، رازی ۴/۴۳۴؛ ابن عاشور تفسیر آیت،ابوسعود ۱/۲۲۶؛ آلوسی ۲/۱۳۰؛ ابوحیان تفسیر آیت؛ بیضاوی۱/۵۱۳۔

(۶)           ابوحیان تفسیر آیت۔

(۷)          ابوحیان تفسیر آیت؛ ابن عاشور تفسیر آیت۔

(۸)          ابوحیان تفسیر آیت۔

(۹)           رازی ۶/۴۵۳؛ ابوحیان تفسیر آیت؛ ابوسعود ۱/۲۳۰؛ آلوسی ۲/۱۴۴۔

(۱۰)         ابن عاشور تفسیر آیت۔

(۱۱)          ابن عاشور تفسیر آیت۔

(۱۲)         رازی ۶/۴۶۹؛ ابوحیان ۲/۵۲۱۔

(۱۳)         ابن عاشور تفسیر آیت؛ ابوحیان تفسیر آیت۔

***

_______________________

ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 9-10 ، جلد: 93 رمضان-شوال 1430 ھ مطابق ستمبر-اكتوبر 2009ء

Related Posts