شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی نور اللہ مرقدہ (۱)

میرے قابل احترام اساتذہٴ کرام

از:  مولانا مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی

تمہید:

بہت عرصے سے میرا دل چاہتا تھا کہ اپنے محترم اساتذہٴ کرام کے تعلق سے جو یادداشتیں مشاہدات وتجربات طالب علمی کے زمانے کے میرے ذہن میں محفوظ ہیں ان کو مرتب کردوں۔ کبھی بہت پہلے کچھ چیزیں لکھی بھی تھیں جو ”چند باتیں چند یادیں“ کے عنوان سے بعض رسالوں اور اخباروں میں مختصر مختصر مضامین کی شکل میں شائع بھی ہوئیں اور پسند کی گئیں۔

چند سال پہلے میں نے کچھ ایسی یادداشتیں مدینہ طیبہ کے تعلق سے لکھیں جن میں حضرت مولانا سیدبدرعالم صاحب رحمة الله عليه کا ذکر تھا، وہ چھپیں اور پاکستان کے رسالوں نے خاص طور پر ان کو نقل کیا اور میرے پاس خطوط آئے کہ آپ ایسی یادداشتوں کو جمع کردیں یہ بڑا قیمتی ذخیرہ ہے۔

اب جب کہ دن ڈھل چکا ہے، شام ہوچکی ہے اور زندگی کاسورج ڈوباہی چاہتا ہے، دل چاہتا ہے کہ اپنے لائق صد احترام اساتذہٴ کرام کے تعلق سے جو باتیں ذہن میں ہیں وہ تحریر میں آجائیں۔ یہ صرف احسان مندی کا تقاضا ہی نہیں ہے بلکہ اساتذہ اور طلبہ کے تعلق سے ہمارے اس تہذیبی، دینی اور علمی ورثے کو بھی تازہ کرنا ہے کہ جو اخلاص اور جذبہٴ ہمدردی اساتذہ اور طلبہ کے درمیان ہوتا تھا آج وہ ہماری دینی درسگاہوں میں بھی کمزور دکھائی دینے لگا ہے۔

ہماری دینی درسگاہوں کا امتیازی پہلو صرف تعلیم وتعلّم نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ تربیت اخلاق اہم ترین عنصر تھا جو طلبہ کی زندگی کو اخلاقی سانچوں میں ڈھالتا تھا اور وہ درسگاہوں سے نکلتے تھے تو علم کے ساتھ ساتھ اخلاق سے مزین ہوتے تھے۔

بات شروع کرنے سے پہلے اپنی اس کمزوری کا اظہار بھی کردوں کہ کبھی بہت لکھنے والا ہاتھ عمر کے ساتھ ایسا کمزور ہوگیا ہے کہ چند سطروں سے زیادہ مسلسل لکھ نہیں پاتا اور مجبوراً اِملا کرانا پڑتا ہے۔ قلم اور دماغ کا جو ایک خاص رشتہ ہے آمد مضامین میں اس کا بڑا دخل ہے، شاید اسی لئے غالب نے کہا تھا۔

غالب صریرِ خامہ نوائے سروش ہے

اب خامہ بدستِ دیگر ہے اور خیالات خطاب کا انداز اختیار کرلیتے ہیں۔ بہرحال یہ تو ایک کمزوری ہوئی جسکا اظہار گویا قارئین کے سامنے ایک معذرت بھی ہے۔

اب دوسری بات کہ قابل احترام اساتذہ میں سے سب سے پہلے حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد صاحب مدنی نوراللہ مرقدہ کا تذکرہ ہی کیوں کیا گیا ہے اور بہت سی باتوں کے علاوہ اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ میری دینی زندگی کو دوبارہ پٹری پر لانے اور بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے جانے میں حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ کی مومنانہ نگاہ کابہت بڑا دخل ہے۔

اس کا واقعہ دلچسپ بھی ہے اور نصیحت آموز بھی جو آپ انشاء اللہ آئندہ سطروں بعد ملاحظہ فرمائیں گے۔

***

بات ۱۹۵۶/ مطابق ۱۳۷۶ھ کی ہے۔ جیساکہ لوگ جانتے ہیں درسِ نظامی میں ایک مرحلہ آتا ہے جس کو ”موقوف علیہ“ کہا جاتا ہے موقوف علیہ کا مطلب یہ ہے کہ جس پر دورہٴ حدیث کی تعلیم موقوف ہوتی ہے، حدیث میں مشکوٰة المصابیح پڑھنے کے بعد اب دورہٴ حدیث میں داخلے کے قابل سمجھاجاتا ہے۔

تو جناب یہ بندہٴ ناچیز مشکوٰة تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب کہ اگلے سال فاضل کے آخری درجے دورہٴ حدیث میں داخلہ ہونا تھا اَینٹھ گیا کہ میں آگے مولوی نہیں بنوں گا بلکہ کسی کالج میں جاکر پڑھوں گا۔ والد صاحب کے سامنے براہ راست کچھ کہنے کی ہمت تو کبھی نہیں ہوئی مگر والدہ کے ذریعے ہم نے اپنی بغاوت کا کھلا اعلان کردیا اور کہہ دیا کہ اگر ہمارا مطالبہ نہ مانا گیا تو ہمیں کچھ اور سوچنا پڑے گا، کچھ اور سوچنے کا مطلب گھر سے بھاگنا بھی ہوسکتا تھا۔ بہرحال یہ دھمکیوں کا سلسلہ چلتا رہا اور رمضان المبارک کی چھٹیاں ختم ہوکر شوال سرپر آگیا۔ گیارہ تاریخ سے مدرسے کھل گئے، داخلے شروع ہوگئے، داخلوں کے زمانے میں دیوبند کی چہل پہل اور رونق الگ ہی منظر پیش کرتی ہے۔ ہم کالج کے خیالوں میں مگن طرح طرح کے منصوبے بنارہے تھے کہ ایک دن باہر سے گھر میںآ ئے تو دیکھا سامنے دالان میں تخت پر بڑی بڑی کتابوں کا ایک چٹّہ رکھاہوا ہے کھول کر دیکھا تو وہ نئی چرمی جلدوں میں بخاری شریف، مسلم وغیرہ صحاح ستّہ اور دورہٴ حدیث کی پوری کتابیں وہ بھی بالکل نئی رکھی ہوئی ہیں۔

ہم نے ان کو دیکھ کر والدہ سے کہا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟

انھوں نے ٹالنے کے لیے کہہ دہا کہ مجھے نہیں معلوم تم اپنے ابّا سے پوچھ لینا۔

دوپہر کا کھانا سب ساتھ کھایا کرتے تھے۔ کھانا کھاتے ہوئے والد صاحب نے کہا کہ ”شاید تم ان کتابوں کو دیکھ کر ڈررہے ہو، ڈرنے کی کوئی بات نہیں تمہیں تو کالج میں پڑھنا ہے مولوی بننا نہیں ہے، مگر یہ کتابیں پورے سال یہاں رکھی رہیں گی اور ہم ان کو دیکھا کریں گے کہ اگر تم پڑھتے تو ان کو پڑھتے۔“

یہ کہہ کر انھوں نے ہمیں ایک حیرت کے عالم میں چھوڑدیا۔

آٹھ دس دن کے بعد غالباً بیس شوال سے جب سبق شروع ہونے تھے، دارالعلوم کے ٹائم ٹیبل کے حساب سے چوتھا گھنٹہ شروع ہونے والا تھا کہ والد صاحب نے مجھے اپنی درسگاہ میں بلایا۔

قارئین کو بتاتا چلوں کہ میرے والد مرحوم کا نام حضرت مولانا قاری جلیل الرحمن عثمانی تھا اور وہ دارالعلوم دیوبند کے تجوید کے استاذ تھے، احاطہٴ مولسری میں نودرے کے احاطے میں جنوبی طرف ان کی درسگاہ تھی، جہاں انھوں نے تقریباً ساٹھ سال قرأت وتجوید کا درس دیا۔

تو بات چل رہی تھی کہ چوتھے گھنٹے کے قریب والد صاحب نے مجھے اپنی درسگاہ میں بلایا اور فرمایا کہ ”ابھی تھوڑی دیر کے بعد مولانا حسین احمد صاحب مدنی بخاری شریف کا درس شروع کرائیں گے، تمہیں تو کالج میں پڑھنا ہے لیکن اگر تم مناسب سمجھو تو بغیرکتاب لیے ویسے ہی جاکر مولانا کے سبق میں شرکت کرلو تو اچھا ہے۔“ اس کے ساتھ انھوں نے چند جملے یہ بھی فرمائے کہ ”تمہاری نوعمری ہے، مولانا کا مرتبہ کیا ہے یہ تم جانتے نہیں ہو، بڑے بڑے علماء مولانا سے پڑھنے کی تمنا کرتے ہیں اور تمہارے تو گھر میں ہی نہر بہہ رہی ہے۔“

میں نے دل میں سوچا ابا جی میری ساری باتیں مان رہے ہیں چلو اتنی چھوٹی سی بات اگر میں ان کی مان لوں تو کیا حرج ہے۔

میں اٹھا، وہاں سے چل کر چند قدم پر ہی دارالحدیث تحتانی میں دورہٴ حدیث کے طلباء جمع تھے، میرے ہاتھ میں کتاب بھی نہیں تھی، اتفاق سے جگہ ملی تو حضرت مدنی رحمة الله عليه بالکل عین سامنے۔

طریقہ یہ تھا کہ بخاری شریف کا درس دوپہر کو اور رات کو ہوتا تھا، رات کے درس میں حضرت مدنی رحمة الله عليه خطبہ اور عبارت خود پڑھتے تھے، دن کے درس میں حدیث کی عبارت کوئی طالب علم پڑھتا تھا۔ مگر پہلے دن، دن میں بھی خطبہ اور حدیث خود حضرت مدنی رحمة الله عليه پڑھاکرتے تھے۔ اُس وقت درس میں لاؤڈاسپیکر کا استعمال نہیں ہوتا تھا۔ حضرت مدنی رحمة الله عليه کی آواز بہت بلند تھی اور طلبہ کی تعداد بھی اتنی زیادہ نہیں ہوتی تھی، اُس سال دورہٴ حدیث میں دو سوساٹھ طلبہ تھے۔

اب سنئے کہ ہمیں جگہ ملی حضرت مدنی رحمة الله عليه کے عین سامنے، تھوڑی دیر کے بعد حضرت مدنی رحمة الله عليه نے اپنی بلند، باوقار اور کھنک دار آواز میں خطبہ حدیث پڑھا، پھر حدیث کی تلاوت فرمائی۔ کیا کہیں، کیسے کہیں، اس کیفیت کے لئے الفاظ کہاں سے لائیں، بس ایسا معلوم ہورہا تھا کہ پوری فضا نور سے بھری ہوئی ہے، فرشتے اپنے پروں کا سایہ کیے ہوئے ہیں اور بلامبالغہ کئی بار ایسا محسوس ہوا کہ حضرت مدنی رحمة الله عليه سیدھے میری آنکھوں میں دیکھ رہے ہیں۔

نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

اس نگاہ نے میری دل کی دنیا کو زیروزبر کردیا، کچھ لمحے کے لئے تو ایسا محسوس ہوا کہ پورے ہال میں میرے اور حضرت مدنی رحمة الله عليه کے سوا کوئی اور نہیں ہے، پھر دل کا سارا غبار آنسوؤں کے راستے سے دُھلتا چلا گیا جو چند لمحے پہلے تھا وہ اب نہیں تھا ”نکلے جو میکدے سے تو دنیا بدل گئی“ سب کچھ بدل چکا تھا۔میں گھر واپس آیااور گھر والوں سے کہا کہ اب میں مولوی بننا چاہتا ہوں۔ ابا جی تو اس لمحے کے جیسے منتظر تھے خوشی سے پھولے نہیں سمائے تھے، دادے ابا کی مسجد، مسجد عزیز میں میرے لئے وہ کمرہ صاف کرایاگیا جس میں کبھی طالب علمی کے زمانے میں میرے تائے ابا مفتی عتیق الرحمن صاحب عثمانی رحمة الله عليه رہا کرتے تھے، ان کی طالب علمی کے زمانے کی کچھ کتابیں بھی مجھے ان کے کمرے سے ملیں۔

کمرے میں چائے بنانے کے لئے جو اسٹو وراثت میں ملا وہ حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی رحمة الله عليه کا تھا، صاف کرکے جو پالش لگایا تو ایسا چمک گیا جیسے بالکل نیا ہو، وہ اسٹو یہاں مالیرکوٹلہ آنے تک میرے پاس رہا، پھر ایک دن کسی چور کے ہاتھ لگ گیا اور اس نے میرے اوپر کے کمرے سے وہ اسٹوچرالیا جس کا مجھے بڑا افسوس رہا کہ وہ بھی ایک یادگار چیز تھی۔

بہرحال کمرہ تایا ابا کا، اسٹو حضرت دادا صاحب کا اور ہمارے کمرے کے ساتھی بنے رفیق درس مولانا شفیق عالم پورنوی، قاضی مجاہد الاسلام صاحب ہم سے ایک سال پہلے دورہٴ حدیث سے فارغ ہوچکے تھے، ان سے درس کی کچھ کاپیاں ہتھیائیں اور شب وروز کا مشغلہ بس مطالعہ مطالعہ، سبق سبق، پڑھنا ہی پڑھنا تھا۔ صبح فجر کے بعد سبق شروع ہوتے تھے، دوپہر، عصر بعد اور مغرب بعد کے علاوہ رات کے بارہ بجے تک سبق چلتے رہتے تھے۔ مگر مطالعہ اور سبق کی یہ مشغولیات ذہن پرذرا بھی بار نہیں ہوتی تھیں اور عجیب سی سرمستی اور خوشی کی کیفیت رہتی تھی۔ نہ دن کی خبر نہ رات کی، نہ تکلف نہ الجھن۔ ساتھیوں کے ساتھ خوشگوار صحبتیں، علمی بحثیں۔ طالب علمانہ زندگی کا وہ لطف جو اُس سال آیا پھر کبھی میسر نہ آیا۔

”دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن“

ہمارے دیوبند کے ساتھیوں میں سب سے زیادہ متقشف قسم کے مولانا خورشید عالم صاحب تھے، مگر تھوڑے دنوں میں ہم نے ان کو بھی اپنے ڈھرے پر لگالیا اور وہ بھی محفلوں میں اسی طرح شریک ہونے لگے۔ مولانا حسیب صدیقی ہمارے شروع سے ساتھی تھے۔ بھوپال کے مولانا عبدالرزاق صاحب اور کتنے ہی لوگ تھے۔

* آگے بڑھنے سے پہلے ذرا اس پر توجہ فرمائیں کہ والد صاحب نے کس خوبصورتی کے ساتھ ایک ماہر نفسیات کی طرح میرے ذہن کو موڑدیا اگر وہ سختی سے کام لیتے، ڈانٹ ڈپٹ کرتے تو شاید میری ضد بڑھتی چلی جاتی لیکن انھوں نے ہلکے ہلکے میرے جذبات کو ایک رُخ دیدیا اور بڑی عمدگی سے بات منوالی جو ظاہر ہے میرے ہی فائدے کی تھی۔ دوسری طرف استاذ گرامی کی نگاہِ کامل کا اندازہ کیجئے، اب آپ اس کو روحانیت کی زبان میں جو بھی نام دینا چاہیں دے لیں لیکن اس کی تاثیر سے کیسے انکار کیاجاسکتا ہے جس کو میں نے خود محسوس کیا۔ ہمارے مدارس میں یہی نسبتیں تھیں جن کی وجہ سے یہ ادارے اندھیروں میں چراغ جلاتے رہے۔

* درس شروع ہوئے تھوڑا ہی عرصہ گذرا تھا اور حضرت مدنی رحمة الله عليه سے میری عقیدت کا تعلق ہردن زیادہ ہوتا چلا جارہاتھا کہ والد صاحب نے مجھ سے کہا کہ تمہیں حضرت مدنی کی دعوت کرنی چاہئے۔ میں نے کہا کیسے کہوں میری تو ہمت ہی نہیں پڑتی۔

ابا جی نے کہا نہیں تم ان سے عرض کرو انشاء اللہ وہ قبول کرلیں گے۔

چنانچہ سبق سے فارغ ہونے کے بعد جب دوپہر کو حضرت درسگاہ سے باہر تشریف لائے تو میں ہمت کرکے آگے بڑھا اور کہا مجھے کچھ عرض کرنا ہے!

حضرت سن کر کھڑے ہوگئے اور کہا فرمائیے!

میں نے کہا آپ کیدعوت کرنے کو دل چاہتا ہے!

اس پر جو حضرت نے جملے ارشاد فرمائے وہ میرے لئے انتہائی حیران کن تھے، میرا خیال تو یہ تھا کہ شاید حضرت مجھے پہچانتے بھی نہ ہوں گے اور مجھے اپنا تعارف کرانا ہوگا، مگر یہ سب اندازے غلط تھے۔ حضرت مجھے جانتے اور پہچانتے تھے اورآپ نے نہایت شفقت اور محبت کے لہجے میں فرمایاکہ:

”میں آپ کے گھرانے کا خادم ہوں، جب کہیں حاضر ہوجاؤں، کیا آج ہی چلوں؟“

میں نے عرض کیا کہ کل شام کو مناسب ہے۔

فرمایا ”بہتر ہے میں حاضر ہوجاؤں گا“۔

اگلے دن شام کو میں حضرت کو لینے کے لئے جانے بھی نہیں پایاتھا کہ بعد نمازِ مغرب حضرت تانگے میں بیٹھ کر خود ہی تشریف لے آئے۔

اور شفقت کی انتہا ہے کہ نہ صرف یہ کہ خود تشریف لائے بلکہ اپنے ساتھ اپنے داماد بھائی رشیدالدین حمیدی اور ارشد میاں وغیرہ سب کو لے کر آئے۔

دیوبند میں بھائی ناصر مرحوم کا تانگا حضرت کے لئے مخصوص تھا، اسٹیشن وغیرہ جہاں بھی جاتے تھے اسی تانگے سے جاتے تھے۔

حضرت کی تشریف آوری بادِ بہاری کی آمد سے کم نہ تھی، سارے گھر میں عجیب مسرت کا احساس تھا، پھر حضرت نے فرداً فرداً ایک ایک بچے کو بلایا، شفقت سے سرپر ہاتھ رکھا اور دعائیں فرماتے رہے۔

صاف نظر آرہا تھا کہ یہ آنا عام آنا نہیں ہے بلکہ اس کا ایک مخصوص انداز ہے۔ بہت دیر حضرت بیٹھے رہے، مسرت کا اظہار فرماتے رہے اور پرانے تعلق کو یاد کرتے رہے۔ غالباً حضرت میرے دادا مرحوم مفتی عزیزالرحمن عثمانی رحمة اللہ علیہ کے شاگرد بھی تھے۔

لیکن سچائی یہ ہے کہ اب سے پہلے دادا مرحوم کے بھائی حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی رحمة الله عليه کے ساتھ ان کے سیاسی اختلافات کی وجہ سے کچھ بُعد محسوس ہوتا تھا مگر اب وہ دوری کا احساس انتہائی قربت میں بدل گیا تھااور وہ پرانی باتیں ذہن سے نکل گئی تھیں۔

اب تو یہ بڑے میاں ہمیں اتنے اچھے لگتے تھے کہ دل چاہتا تھا کہ دیکھتے ہی رہیں۔ اللہ نے وہ نورانیت اور چہرے پر وہ وقار عطا کیاتھا کہ جو ایک دفعہ دیکھ لیتا تھا اس کا دل حضرت کی طرف کھنچنے لگتا تھا۔

جب واپس ہوکر تانگے میں بیٹھنے لگے تو حضرت کی عادت تھی کہ تانگے میں پیچھے کی طرف بیٹھتے تھے۔ والد صاحب نے مجھے ساتھ جانے کا اشارہ کیا۔اگلے حصے میں سب بیٹھے ہوئے تھے اور تانگے کے پچھلے حصے میں حضرت کے برابر میں بیٹھتے ہوئے مجھے جھجھک ہوئی تو حضرت نے نہایت محبت سے ڈانٹتے ہوئے فرمایا ”میرے پاس کیوں نہیں بیٹھتا، کیا میں تجھے کھا جاؤں گا۔“ اور میں جلدی سے آپ کے پاس بیٹھ گیا۔

آپ کے اس مشفقانہ انداز کا آج تک دل پر گہرا اثر ہے۔

* درس کے دوران کئی واقعات ایسے پیش آئے جس سے حضرت کی عظمت دل میں اور زیادہ ہوگئی۔

ایک دن کاواقعہ ہے، دوپہر کو بخاری شریف کا درس ہورہا تھا کہ کسی نے آکر حضرت سے کہا کہ سینٹر سے منسٹرتیاگی صاحب حضرت سے ملنے کے لئے آئے ہیں اور گھر پر مہمان خانے میں انتظار کررہے ہیں۔

ہم نے سمجھا کہ چونکہ منسٹر صاحب آئے ہیں اس لئے آج حضرت سبق جلدی ختم کردیں گے۔ مگر معاملہ اس کے برعکس ہوا، حضرت نے مقررہ وقت سے بھی پندرہ بیس منٹ زیادہ پڑھایا۔ سبق ختم ہونے پر ہم بھی حضرت کے ساتھ ساتھ چلے کہ منسٹر صاحب کو دیکھیں گے، منسٹر صاحب مہمان خانے میں منتظر تھے، چند رسمی باتوں کے بعد حضرت نے آنے کی وجہ دریافت کی، یاد نہیں انھوں نے کیا وجہ آنے کی بتائی، اتنا یاد ہے کہ حضرت ان پر بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ آپ لوگ حکومت میں جاکر مسلمانوں کو بھول جاتے ہیں۔

حضرت نیمولانا اسعد میاں کو چائے کے لیے اشارہ کیا تو معلوم ہوا کہ منسٹر صاحب کے لئے قاری اصغر علی صاحب کی طرف سے الگ چائے کا انتظام کیاگیاہے۔ حضرت نے فرمایاکہ الگ نہیں، یہیں سب کے ساتھ پئیں گے۔ اسی مجمع میں دیہاتی اور بہت سارے لوگ گھسے ہوئے تھے کسی کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں تھا، سب کے ساتھ یکساں سلوک اوراس بے نیازی کو دیکھ کر حضرت کی وقعت دل میں اور زیادہ بڑھ گئی۔

اور اب مجھے اپنے بچپن کا یہ منظر تو ابھی تک یاد ہے کہ جب شاہ سعود ہندوستان آئے تھے تو دہلی کے تال کٹورا گارڈن میں ان کے اعزاز میں جمعیة العلماء ہند کی طرف سے چائے پارٹی دی گئی تھی۔ ہندوستان کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو مقررہ وقت سے کچھ پہلے ہی پہنچ گئے تھے، جب پارٹی شروع ہوئی تو ایک کرسی پر شاہ سعود جلوہ افروز تھے برابر میں حضرت مدنی رحمة الله عليه اور اس کے ساتھ پنڈت جواہر لال نہرو بیٹھے تھے۔جواہر لال نہرو بار بار جھک جھک کر حضرت مدنی رحمة الله عليه سے باتیں کرتے تھے مگر حضرت نہایت شانِ بے نیازی کے ساتھ سیدھے بیٹھے ہوئے جواب دیتے رہے، ایک بار بھی جھک کر جواہر لال نہرو کی طرف متوجہ نہیں ہوئے۔

اس عالمانہ وقار اور شانِ بے نیازی نے ایسا متاثر کیا کہ اب کوئی جلدی سے نگاہوں میں سماتا نہیں ہے۔

ان کے جلووں کاتصور آگیا تھا ایک بار

اب میری نظروں میں کوئی دید کے قابل نہ تھا

حضرت مدنی رحمة الله عليه نے حکومت ہند کے دیے ہوئے اعزاز ”بھارت بھوشن“ کو بھی بے نیازی کے ساتھ ٹھکرادیا تھا۔

کیا عشق نے سمجھا ہے کیا حسن نے جانا ہے

ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے

* حضرت کا درس خشک نہیں ہوتاتھا، بعض اوقات بڑی پُرلطف باتیں بھی ہوجاتی تھیں۔ اسی سال حضرت کے یہاں جب کہ غالباً عمر بھی اسّی سے اوپر ہی رہی ہوگی اللہ نے لڑکا عطا کیا اسجدمیاں سلّمہ پیداہوئے۔ ہم نے پرچہ لکھ کر بھیجاکہ اللہ نے آپ کو حضرت ابراہیم عليه السلام کی طرح اسّی سال کی عمر میں بیٹا دیا ہے مٹھائی کھلائیے۔ کئی روز تک اس پر تقریر ہوتی رہی کہ میں غریب آدمی ہوں اہل وعیال کے اخراجات زیادہ ہیں، آپ لوگ میرے اوپر اتنا بوجھ ڈالنا چاہتے ہیں، مٹھائی کے پیسے کہاں سے لاؤں۔

غرض اسی طرح کی پُرلطف باتیں کئی روز تک ہوتی رہیں اور پھر شاندار قسم کی مٹھائی غالباً دس دس بارہ بارہ بالوشاہیاں ہرطالب علم کو حضرت کی طرف سے عنایت ہوئیں۔

شگفتہ مزاجی اور ہلکا پھلکا مزاح ہمارے بزرگوں کے مزاج کا حصہ رہا ہے۔ایک مرتبہ ہم نے پرچہ لکھ کر بھیجاکہ آپ اپنے سامنے جو جگہ چھوڑتے ہیں ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہاں جنات آکر بیٹھتے ہیں اور یہ جگہ ان کے لئے چھوڑی جاتی ہے، جب انسان اشرف المخلوقات ہے تو جنات کو ہم پر مقدم کیوں رکھا جاتا ہے۔ اس پر بھی حضرت نے جن واِنس کے تعلق سے ایک بڑا شگفتہ خطاب فرمایا جس میں دلچسپی بھی تھی اور معلومات بھی۔

* درس کے دوران ایک واقعے نے تو میرے اوپر حیرت کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ اصل میں معاملہ یہ تھا کہ حضرت مدنی رحمة الله عليه کسی کو اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ ان کے جوتے اٹھائے اور سامنے رکھ دے، اگر کوئی طالب علم ایسا کرتا تھا تو حضرت کافی ناراض ہوتے تھے۔

اب یہ ہماری شوخی کہئے کہ ہم نے حضرت کی ناراضگی کی پروا کیے بغیر ایک روز فرطِ عقیدت میں حضرت کے جوتے اٹھائے اور حضرت کے سامنے رکھ دیے، خلافِ معمول حضرت نے ہمیں کچھ نہیں کہا، خاموشی کے ساتھ جوتے پہن لیے اور تشریف لے گئے۔ اس بات کو کئی دن گذر گئے، ایک دن جیسے ہی سبق ختم ہوا حضرت بجلی کی تیزی کے ساتھ اٹھے اور معلوم نہیں کیسے ان کو ہمارے جوتے رکھنے کی جگہ کاپتہ لگ گیا، ہمارے جوتے اٹھائے اور ہمارے سامنے رکھ دیے اور فرمایا ”آپ نے ہمارے جوتے اٹھائے تھے ہم آپ کے جوتے اٹھائیں گے۔“ اب آئندہ کسی کی ہمت تھی کہ حضرت کے جوتے اٹھاسکے۔ اس طرح انھوں نے گویا عملاً یہ سبق سکھادیا کہ تواضع کیا ہے، عقیدت کیا ہے اور ان رسمی چیزوں سے دلی جذبات کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

* ایک روز ہمیں خیال آیا کہ اپنے ہاتھ سے کوئی چیز بناکر حضرت کو کھلائیں۔ ہم نے بڑی محنت سے زردہ بنایا، بہت اچھا بنا، مغرب کی نماز کے بعد حضرت کے یہاں کھانا ہوتا تھا، بڑی سی پلیٹ میں لے کر حضرت کے یہاں پہنچے، کھانالگانے کی تیاری ہورہی تھی، دسترخوان بچھ رہا تھا اور حضرت بھی تشریف فرماتھے۔ وہاں جاکر ہمت نہ پڑی اور ستون کے پیچھے چھپ کر کھڑا ہوگیا، حضرت نے کہیں دیکھ لیا، پوچھا کون ہے، میں سامنے آیا تو فرمایا کہ کیوںآ ئے ہو، پلیٹ ہاتھ میں تھی، کہا یہ لے کر آیا ہوں، اپنے ہاتھ سے بنایا ہے۔ حضرت نے بڑی محبت سے قبول فرمایا، تھوڑا سا کھاکر فرمایا کہ اتنی اچھی چیز کو چھپا کیوں رکھا تھا۔

* غرض دورہٴ حدیث کا یہ سال عجیب سی سرخوشی میں دیکھتے دیکھتے گذرگیا۔

جلوہٴ گل سیر نہ دیدم وبہار آخر شد

سالانہ امتحان ہوا تو حضرت کی برکت کہئے یا والد صاحب کی دعائیں اورتمنائیں کہ ایسے ایسے قابل اور لائق وفائق طلبہ کے درمیان جو دوسرے مدرسوں سے دورہٴ حدیث پڑھ کر آئے تھے اور حضرت مدنی رحمة الله عليه کی وجہ سے دوبارہ دورہٴ حدیث میں داخلہ لیا تھا، ہم جیسے ناکارہ اور پھسڈی قسم کے طالب علم بھی سیکنڈڈویژن کے نمبرات لے کر پاس ہوگئے۔

حیرت کی بات یہ تھی کہ والد صاحب کو ہمارے سند لینے کی بڑی جلدی لگی ہوئی تھی اور ہم حسب معمول ٹال مٹول کررہے تھے کہ جلدی کیا ہے لے لیں گے۔ جب والد صاحب نے ہماری سہل انگاری کو محسوس کیاتو خود ہی درخواست دے کر سند حاصل کرلی اوراس پر حضرت مدنی رحمة الله عليه کے دستخط کرالیے، بلکہ ایک خصوصی سند بھی حضرت نے عنایت فرمائی۔ والد صاحب کی عجلت پر حیرت اس وقت ختم ہوئی جب آئندہ سال چند مہینہ پڑھانے کے بعد ہی ۱۳۷۷ھ=۱۹۵۷/ میں حضرت کا وصال ہوگیا اورہمارے بہت سے ساتھیوں کی سندیں حضرت کے دستخط کی برکتوں سے محروم رہ گئیں۔ اس طرح حضرت سے مکمل بخاری شریف پڑھنے والوں کی یہ ہماری جماعت آخری جماعت تھی۔

* یہ تو ہوئے وہ مشاہدات اور تجربات جو طالب علمی کے زمانے میں میرے سامنے آئے، مختصر طور پر شیخ العرب والعجم کی زندگی کے حالات بھی آپ کے سامنے آجائیں تو میں اس کو اپنی سعادت سمجھوں گا۔

حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی رحمة الله عليه کی تاریخ ولادت ۱۹/شوال المکرم ۱۲۹۶ھ ہے۔ آپ موضع الٰہ داد پور قصبہ ٹانڈہ ضلع فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم کا نام نامی حضرت مولانا سید حبیب اللہ صاحب تھا۔ سید حبیب اللہ صاحب حضرت مولانا فضل الرحمن گنج مرادآبادی کے خلیفہ خاص تھے۔ مولانا حسین احمد صاحب مدنی کاتاریخی نام چراغ محمد تھا۔ آپ حسینی سید ہیں۔ مڈل تک ابتدائی تعلیم اپنے والد کے پاس حاصل کیں، قرآن مجید اور ابتدائی فارسی کی تعلیم والد کے علاوہ والدہ سے بھی حاصل کی۔

جس زمانے میں آپ حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه کے ساتھ مالٹا میں قید تھے وہاں آپ نے قرآن مجید حفظ کیا۔

۱۳۰۹ھ میں جس وقت آپ کی عمر تیرہ سال کی تھی آپ نے دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور اپنے بڑے بھائی مولانا صدیق احمد اور اپنے شفیق استاذ شیخ الہند مولانا محمود حسن عثمانی دیوبندی رحمة الله عليه کی نگرانی میں درسِ نظامی کی تعلیم مکمل کی۔

درسِ نظامی کی کچھ ابتدائی کتابیں شیخ الہند رحمة الله عليه نے آپ کو خود پڑھائیں۔ درسِ نظامی کی ۶۷ کتابیں جو ستّرہ فنون پر مشتمل تھیں آپ نے ساڑھے چھ سال میں مکمل کیں اور ۱۳۱۴ھ میں دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوگئے۔

درسی کتابوں کے علاوہ ابھی آپ طب، ادب اورہیئت کی کچھ کتابیں پڑھ ہی رہے تھے کہ آپ کے والد سیدحبیب اللہ صاحب نے مدینہ منورہ کی ہجرت کا ارادہ کرلیا اور آپ بھی اپنے والدین اور بھائیوں کے ساتھ مدینہ طیبہ چلے گئے اور باقی کتابیں مدینہ منورہ کے مشہور ادیب حضرت شیخ آفندی عبدالجلیل بُرادہ سے پڑھیں۔

آپ کے خصوصی استاذ حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه نے آپ کو رخصت کرتے وقت یہ نصیحت فرمائی تھی کہ پڑھانا ہرگز نہ چھوڑنا چاہے ایک دو ہی طالب علم ہوں۔

۱۳۱۶ھ سے ۱۳۳۱ھ تک آپ کا زیادہ تر وقت مدینہ طیبہ میں بسر ہوا اور اس دوران آپ حرمِ نبوی صلى الله عليه وسلم میں درس دیتے رہے۔

۱۹۲۷/ سے ۱۹۵۷/ تک دارالعلوم دیوبند میں شیخ الحدیث اور صدرالمدرسین کے منصب پر فائز رہے اس کے علاوہ امروہہ، کلکتہ کے مدرسہ عالیہ اور سہلٹ کے جامعہ اسلامیہ میں بھی آپ نے درس دیا۔

* ۱۳۱۶ھ میں آپ قطب الارشاد حضرت مولانا رشیداحمد گنگوہی رحمة الله عليه سے بیعت ہوئے۔ حضرت گنگوہی رحمة الله عليه نے آپ کو خلافت سینوازا اور اپنے دستِ مبارک سے دستارِ خلافت آپ کے سرپر باندھی۔

مکہ مکرمہ میں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمة الله عليه کی بابرکت مجلس میں بھی روحانی تربیت حاصل کرتے رہے۔

حضرت مولانا احمد علی لاہوری آپ کے متعلق یہ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مدنی رحمة الله عليه اس زمانے میں اولیاء اللہ کے امام ہیں۔

* درس وتدریس کے علاوہ طریقت وتصوف،ملی اور سیاسی خدمات کے ساتھ تصنیف وتالیف کے میدان میں بھی آپ کی نمایاں خدمات ہیں۔ آپ کی چند مشہور تصانیف کے نام یہ ہیں:

۱-   ”نقشِ حیات“ جو دو جلدوں میں ہے۔

۲- ”مکتوبات شیخ الاسلام رحمة الله عليه“ جس کی چار جلدیں ہیں۔

۳- بدعت کے خلاف آپ کی مشہور کتاب ہے ”الشہاب الثاقب“۔

۴- تعلیمی ہند

۵- اسیر مالٹا

۶- متحدہ قومیت اور اسلام

۷- ایمان وعمل

۸- مودودی دستور وعقائد کی حقیقت

۹- سلاسل طیبہ

۱۰-کشفِ حقیقت

۱۱-خطباتِ صدارت

* حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمة الله عليه کے بعد دارالعلوم دیوبند کی علمی اور عملی فضا میں حضرت مدنی رحمة الله عليه کانام سب سے نمایاں رہا۔ آپ نے بڑی ہمت، استقلال اور جرأت کے ساتھ دین کی اور ملک وملت کی خدمات انجام دی۔ زندگی بھر تعلیم وتدریس، تصنیف وتالیف، وعظ و تبلیغ اور متعلقین کی تربیت کا سلسلہ جاری رہا۔ آپ بڑے مہمان نواز، نہایت متواضع اور منکسرالمزاج تھے۔

یہ بات مجھے ذاتی طورپر معلوم ہے کہ مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے حضرت مدنی رحمة الله عليه اکثر مقروض رہتے تھے۔ دیوبند کے ایک تاجر مولانا سید احمد مالک کتب خانہ اعزازیہ دیوبند سے حضرت قاری اصغرعلی صاحب کے ذریعے قرض لیا کرتے تھے اور پھر آنے پر ادا کردیا کرتے تھے اگر وہ چاہتے تو دولت کے ڈھیرلگاسکتے تھے۔ مہمانوں کی خدمت خود کیاکرتے تھے۔ دیکھا گیا کہ رات کو چپکے چپکے مہمانوں کے پیر بھی دبادیتے تھے۔ بہت سے لوگ اپنے کام کے سلسلے میں دیوبند آتے تھے اور حضرت کے مہمان بن جاتے تھے۔ اگر کوئی کہتا تھا کہ حضرت یہ اپنے کام سے آئے ہیں اور آپ کے یہاں مہمان بن کر پڑے ہوئے ہیں تو حضرت کو بہت برا لگتا تھا اور فرماتے تھے کہ تمہیں میرے مہمانوں سے کیا تکلیف ہے؟۔

مہمانوں میں اکثر گاؤں کے لوگ ہوتے تھے، میلے کچیلے کپڑے، گندے جوتے، کپڑوں سے بدبوآیا کرتی تھی۔ مگر حضرت مدنی رحمة الله عليه کبھی گھِن نہیں کرتے تھے اور خوشی خوشی ان کو پاس بٹھایا کرتے تھے۔

اکثر اپنے دستخط کے ساتھ ”ننگ اسلاف“ لکھنے کامعمول تھا۔ ایک مرتبہ والد صاحب نے کوئی تحریر لکھوائی تو پہلی بار خلافِ معمول دستخط کے ساتھ ”خادمِ علوم دینیہ“ تحریر فرمایا۔

مزاج کی شگفتگی کا تذکرہ پہلے بھی آچکا ہے، اتباعِ سنت کے معاملے میں جہاں مزاج میں کافی سختی تھی، عام ملاقاتوں میں اتنے ہی خوش مزاج نظر آتے تھے۔ میں نے کئی دفعہ اہتمام میں دیکھا کہ حضرت مدنی رحمة الله عليه تشریف لائے اور حضرت مہتمم صاحب مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمة الله عليه سے خوب مذاق فرمارہے ہیں۔

غرض علم وعمل، اخلاق وکردار، وضع داری اور خدمتِ خلق میں یہ ایک بے مثال شخصیت تھی جس کو کھوکر ہم نے بہت کچھ کھودیا ہے۔

حضرت مدنی رحمة الله عليه نے ۲۸/محرم الحرام ۱۳۷۷ھ مطابق ۲۵/اگست ۱۹۵۷/ کو بخاری شریف جلد اوّل کاآخری سبق پڑھایا اور ۱۳/جمادی الاولیٰ ۱۳۷۷ھ مطابق ۵/دسمبر۱۹۵۷/ کو علم وعمل، زہد و تقویٰ اور رُشد وہدایت کا یہ آفتاب عالم تاب غروب ہوگیا۔

مجھے اب تک وہ منظریاد ہے کہ تحتانی دارالحدیث میں حضرت کا جنازہ رکھاہوا تھا۔ لوگ لائن بناکر چلے آرہے تھے اور اس نورانی صورت کا دیدار کرتے تھے جس نے زندگی بھر احیاء سنت نبوی میں اپنی عمر کھپادی۔ آنے والوں کا تانتا ٹوٹتا نہیں تھا، میں ایک طرف سرہانے کھڑا رہا، چہرے پر وہی وقار، وہی نورانیت اور وہی کشش جس نے میری زندگی کا دھارا بدل دیا تھا۔ جانا سب کو ہے مگر کچھ لوگ جاتے ہیں تو ہزاروں کو یتیم کرجاتے ہیں۔ مجھے محسوس ہورہا تھا کہ آج میرے سرسے میرے روحانی باپ کا سایہ اٹھ گیا ہے۔ قبرستان قاسمی میں حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه کے برابر میں دفن کیاگیا۔ زندگی میں بھی ہمیشہ استاذ محترم کے ساتھ رہے اور انتقال کے بعد بھی ان کی معیت حاصل ہوئی۔ رحمة اللّٰہ علیہ ورحمةً واسعة .

مت سہل اسے جانو پھرتا ہے فلک برسوں

تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے

***

_______________________________________

ماہنامہ  دارالعلوم ، شماره 9-10 ، جلد: 93 رمضان-شوال 1430 ھ مطابق ستمبر-اكتوبر 2009ء

Related Posts