از: محمد شمیم اختر قاسمی ، ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی، علی گڑھ

اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخری نبی حضرت محمد صلى الله عليه وسلم تک ہزاروں نبیوں و رسولوں کو اپنی کتاب اور اپنے احکام سے نوازااور انہیں انسانیت کی ہدایت کے لیے دنیا میں بھیجا۔ باوجود اس کے دنیا میں تہذیب وتمدن اور علم وفن کی ترقی نہیں ہوئی اور وہ جہالت ہی میں مبتلا رہی۔ان کتابوں نے اور نہ ان کے حاملین نے یہ دعویٰ کیا کہ ان میں دنیا کی تمام چیزوں کو جمع کردیاگیا ہے۔ انبیاءِ سابقین پر نازل کتاب اور ان کی تعلیمات کو مخصوص خطہ ،محدود افراداور ایک خاص عہد تک کے لیے موثر قرار دیتے ہوے علامہ سید سلیمان ندوی رحمة الله عليه لکھتے ہیں:

”تورات کے تمام انبیاء ملک عراق یا ملک شام یا ملک مصر سے آگے نہیں بڑھے،یعنی اپنے وطن میں جہاں وہ رہتے تھے محدود رہے اور اپنی نسل و قوم کے سوا غیروں کو انہوں نے آواز نہیں دی۔ زیادہ تر ان کی کوششوں کا مرکز صرف اسرائیل کا خاندان رہا۔عرب کے قدیم انبیاء بھی اپنی اپنی قوموں کے ذمہ دار تھے،وہ باہر نہیں گئے۔حضرت عیسیٰ کے مکتب میں بھی غیر اسرائیلی طالب علم کا وجود نہ تھا،وہ صرف اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑیوں کی تلاش میں تھے(متی،باب:۷،آیت:۲۴) اور غیروں کو تعلیم دے کر وہ بچوں کی روٹی کتوں کے آگے ڈالنا پسند نہیں کرتے تھے۔ (انجیل) ہندوستان کے داعی پاک آریہ ورت سے باہر جانے کا خیال بھی دل میں نہیں لاسکتے تھے،اگرچہ بدھ کے پیرو بادشاہوں نے اس کے پیغام کو باہر کی قوموں تک پہنچایا،مگر یہ عیسائیوں کی طرح بعد کے پیرووٴں کا فعل تھا ، جو داعی مذہب کی سیرت اس عالم گیر جامعت کی مثال سے خالی ہے۔“(۱)

اس کے برعکس نبی صلى الله عليه وسلم پر جو کتاب نازل ہوئی اس کا اعجاز وامتیاز اور دعویٰ ہے کہ یہ کتاب رہتی دنیا تک اور پوری انسانیت کے لیے ہدایت ورحمت ہے۔ اس میں دنیا کے تمام علوم کا ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے دوسروں تک پہنچانے کا حکم دیا ہے ۔ اس کے رسول صلى الله عليه وسلم نے بھی بہ ذات خود اس کی اشاعت میں بڑی دل چسپی لی ۔ قرآن کہتا ہے:

”وَنَزَّلْنَا عَلَیْْکَ الْکِتَابَ تِبْیَاناً لِّکُلِّ شَیْْءٍ وَہُدًی وَرَحْمَةً وَبُشْرَی لِلْمُسْلِمِیْنَ.“ (النحل:۸۹)

(اے نبی صلى الله عليه وسلم ! ہم نے آپ پر جو کتاب نازل کی ہے اس میں ہرچیز کو بیان کردیا ہے اور اس میں رحمت وہدایت ہے اور مسلمانوں کے لیے خوش خبری ہے۔)

قرآن مقدس میں جگہ جگہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت اور اس کے لیے شب وروز گزارنے کے اصول بیان کیے ہیں ۔ انسانیت کی خوبیوں کو آشکارا کیا ہے اور خامیوں کی نشان دہی کی ہے۔ جو بھی اس پر عمل کرے گا اور اس سے استفادہ کرے گا وہ دین و دنیاکی کامیابی سے ہم کنار ہوگااورجو اس کی خلاف ورزی کرے گا وہ ناکام ونامراد ہوگا۔

حضور صلى الله عليه وسلم کو جب نبوت کے منصب عظیم سے نوازا گیا ،اس وقت جزیرة العرب کی کیا حالت تھی؟ قتل وغارت گری، چوری، ڈکیتی ،قتل اولاد، زنا،بت پرستی کون سی ایسی برائی تھی جو ان میں پائی نہ جاتی ہو۔ بعضے وقت بڑے فخریہ انداز میں اسے نجام دیاجاتا تھا۔ اللہ کے رسول نے ان کی تعلیم و تربیت اس انداز سے کی اور زندگی گزارنے کے ایسے اصول بتائے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ان کی حالت یکسر بدل گئی اور تہذیبی قدروں سے آشنا ہوگئے۔ جہاں اور جدھر دیکھیے لوگ تعلیم وتعلم سے جڑ گئے اور قرآن وحدیث کی افہام وتفہیم میں مشغول ہوگئے۔ اس کے لیے باضابطہ اللہ کے رسول نے مسجد نبوی میں ایک مقام کو خاص کردیا ،جسے صفہ کہا جاتا تھا۔اس میں صحابہ کرام فروکش ہوتے اور علم وعمل کی دولت سے مالا مال ہوتے۔ اس کے علاوہ بھی مدینہ میں اور مسجدیں تھیں جن میں صحابہ کرام کی تعلیم و تربیت کا انتظام تھا۔ یہاں سے فیضان نبوت حاصل کرکے یہ حضرات دور دراز مقام پر پہنچے اور دوسروں کو علوم نبوت سے مالامال کیا۔ کون کہہ سکتا تھا کہ عرب جیسی اجڈ قوم اتنی جلد علم و تہذیب سے اس طرح آراستہ وپیراستہ ہوجائے گی کہ لوگ اس کی تقلید کرنے لگیں گے اور دنیا اس روشنی سے معمور ہوجائے گی۔ یہ کارنامہ تھا اللہ کے رسول کا اور ان کے فیوض و برکات کا جس کی نظیر نہیں ملتی۔جیساکہ دنیا پر عہد نبوی کے تعلیمی اثرات کا جائزہ لیتے ہوے ایک دانش ور لکھتے ہیں:

”عرب میں چھٹی صدی عیسوی میں اسلام سے علم وحکمت کا نیا باب شروع ہوا،جس نے پندرہویں صدی تک ایشیاء، افریقہ اور مغربی یورپ کو دنیا کے نقشہ پر انقلاب آفریں خطہ بنادیااور علم وحکمت کی فصل گل سے پورا خطہ چمن زار ہوگیا۔ بالآخر ہر چہار سو خوش حالی ، امن و آشتی اور باد بہاری کی خوش گواری سے اہل یورپ بھی بیدار ہوے۔ یہ عہد عہد وسطیٰ کہلایا۔ اس عہد کی ابتدا ء میں کہتے ہیں قرطبہ اور بغداد دنیا کی عظیم ترین دانش گاہ مانی جاتی تھی۔ قدیم علمی ذخیروں کی تلاش کی گئی اور یونان، مصر،روم اور ہند کی نایاب کتابوں کا ترجمہ کرکے ان علمی سرمایوں کو ضائع ہونے سے بچالیا۔ مسلم خلفا ء و سلاطین نے اپنی نوازشوں سے علم کی خدمت پر مامور دنیا بھر کے دانش وروں اور ماہرین فن کی سرپرستی کی جنہوں نے علم و حکمت میں گراں مایہ کارنامے انجام دیے۔“(۲)

اہل علم کی فضیلت

 نبی اکرم کو جس دین سے نوازا گیا ،اس کی ابتدا ہی تعلیم ہوئی۔غارحرا میں سب سے پہلی جو وحی نازل ہوئی وہ سورہ علق کی ابتدائی چند آیتیں ہیں ،جن میں نبی امی کو کہا گیا :

”اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ. خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ. اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ. الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ. عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَم.“(العلق:۱-۵)

(پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے سب کو پیدا کیا۔ پیدا کیا اس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے ۔ پڑھ ، تیرارب بڑا کریم ہے۔ جس نے سکھایا علم قلم کے زیعہ۔ اس چیز کا علم دیا انسان کو جو وہ نہیں جانتا ۔)

علم کے ذریعہ ہی آدمی ایمان ویقین کی دنیا آباد کرتا ہے ،بھٹکے ہوے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھاتا ہے، بروں کو اچھا بناتا ہے، دشمن کو دوست بناتاہے ، بے گانوں کو اپنا بناتا ہے اور دنیا میں امن وامان کی فضاء پیدا کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حاملین علم کی قرآن وحدیث میں بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور اسے دنیوی و اخروی بشارتوں سے نوازاگیا ہے۔ قرآن کہتا ہے:

”یَرْفَعِ اللَّہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَالَّذِیْنَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْرٌ.“(المجادلہ:۱۱)

(تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جن کو علم عطا ہواہے ،اللہ اس کے درجات بلند فرمائے گا اورجو عمل تم کرتے ہو اس سے اللہ باخبر ہے۔)

دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے:

”قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُونَ إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُوْلُوا الْأَلْبَاب.“ (الزمر:۹)

(اے نبی،کہہ دیجیے کیاعلم رکھنے والے(عالم) اور علم نہ رکھنے والے (جاہل) برابر ہوسکتے ہیں۔نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔)

تاریکی اور روشنی کی مثال دے کر عالم اور جاہل کے فرق کو واضح کیا گیاہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے:

”قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الأَعْمَی وَالْبَصِیْرُ أَمْ ہَلْ تَسْتَوِیْ الظُّلُمَاتُ وَالنُّور.“(الرعد:۱۶)

(کہہ دیجیے،کیا برابر ہوسکتے ہیں اندھا(جاہل) اور دیکھنے والا(عالم) یا کہیں برابر ہوسکتا ہے اندھیرا اور اجالا۔)

اس طرح کی بہت ساری آیتیں ہیں جن میں عالم اور جاہل کے فرق کو واضح کیا گیا ہے اور ان کے درجات کے تعین کے ساتھ مسلمانوں کو حصول علم کے لیے ابھارا گیا ہے۔

 اس سلسلے میں کثرت سے احادیث بھی وارد ہوئی ہیں جن میں اہل علم کی ستائش کی گئی ہے اور انہیں انسانیت کا سب سے اچھا آدمی قرار دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول فرماتے ہیں:

” وَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَی الْعابِدِ ،کَفَضْلِی عَلَی اَدْنَاکُمْ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم: اِنَّ اللّٰہَ وَمَلَائِکَتَہُ وَاھْلَ السَّمٰوَاتِ وَ الْاَرْضِیْنَ حَتَّی النَّمْلَةَ فِی جُحْرِھَا وَحَتَّی الْحُوْتَ لَیُصَلُّوْنَ عَلی مُعَلِّمِ النَّاسِ الْخَیْرَ.“(۳)

(اورعابد پر عالم کی فضیلت ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے ادنی پر۔ یقینا اللہ عزوجل ،اس کے فرشتے اور آسمان وزمین والے حتیٰ کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلی تک لوگوں کے معلم کے لیے بھلائی کی دعاء کرتی ہیں۔)

ایک دوسرے حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہیں ،وہ بیان کرتے ہیں:

”خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم ذَاتَ یَوْمٍ مِن بَعضِ حُجَرِہِ، فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَاِذَا ھُوَ بِحَلْقَتَیْنِ: اِحْداھُمَا یَقرَوٴُن الُقُرْآنَ وَیَدْعُوْنَ اللّٰہ، وَالْاُخْرَی یَتَعَلَّمُونَ وَیُعَلِّمُونَ. فَقَالَ النَّبِیُ: کُلٌّ عَلی خَیْرٍ، ھٰوٴُلَاءِ یَقُرَوٴُنَ الْقُرْآنَ وَیَدْعُوْنَ اللّٰہ، فَاِنْ شَاءَ اَعْطَاھُمْ وَاِنْ شَاءَ مَنَعَھُمْ، وَھٰوٴلَاءِ یَتَعَلَّمُوْنَ وَیُعَلِّمُوْنَ، وَاِنَّمّا بُعِثْتُ مُعَلِّماً، فَجَلَسَ مَعَھُمْ.“(۴)

(ایک دن رسول اللہ اپنے حجرے سے باہر تشریف لائے اور مسجد (نبوی) میں داخل ہوے،وہاں دوحلقے بیٹھے ہوے تھے،ایک حلقہ قرآن کی تلاوت کررہا تھا اوراللہ سے دعاء کررہا تھا،دوسرا تعلیم وتعلم کا کام سرانجام دے رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: دونوں بھلائی پر ہیں۔ یہ حلقہ قرآن پڑھ رہا ہے اور اللہ سے دعاء کررہاہے ۔ اللہ چاہے تو اس کی دعاء قبول فرمائے ، یا نہ فرمائے۔دوسرا حلقہ تعلیم وتعلم میں مشغول ہے (یہ زیادہ بہتر ہے) اور میں تو معلم بناکر بھیجا گیا ہوں۔ پھر یہیں بیٹھ گئے۔)

اہل علم کاصرف یہی مقام ومرتبہ نہیں ہے کہ اسے دنیا کی تمام چیزوں پر فضیلت دی گئی ہے اور اس کام میں وہ جب تک مصروف ہیں ، اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق اس کے لیے دعاء کرتی رہتی ہے،بلکہ اس کا مقام ومرتبہ یہ بھی ہے کہ اللہ کے رسول نے انہیں انبیاء کا وارث اور جانشین قرار دیا ہے :

” مَنْ سَلَکَ طَرِیْقاً یَبْتَغِی فِیْہِ عِلْماً سَلَکَ اللّٰہُ بِہ طَرِیْقاً اَلَی الْجَنَّةِ، وَاِنَّ الْمَلائِکَةَ لَتَضَعُ اَجنِحْتَھَا رَضًی لَطَالِبِ الْعِلْمِ، وَاِنَّ الْعَالِمَ لَیَسْتَغْفِرُ لَہُ مَنْ فِی السَّمَواتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ حَتَّی الْحِیتَانُ فَی الْمَاءِ، وَفَضْلُ الْعَالِم عَلَی الْعَابِدِ، کَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَی سَائِرِ الْکَوَاکِبِ، انَّ الْعُلْمَاءَ وَرَثَةُ الْاَنْبِیَاءِ، اِنَّ الْاَنْبِیَاءَ لَمْ یُوَرِّثُوْا دِیْنَارًا وَلَا دِرْھَماً، اِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ، فَمَنْ اَخَذَ بِہ فَقَدْ اَخَذَ بِحَظّ وَافَرٍ.“(۵)

(جو کوئی حصول علم کی غرض سے راستہ طے کرے تو خدا اس کے سبب اسے جنت کی ایک راہ چلاتا ہے۔ فرشتے طالب علم کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھادیتے ہیں اور یقینا عالم کے لیے آسمان اور زمین کی تمام چیزیں مغفرت طلب کرتی ہیں،یہاں تک کہ وہ مچھلیاں بھی جو پانی میں ہیں ۔ عابد پر عالم کو ایسی فضیلت حاصل ہے جیسی چاند کو تمام تاروں پر۔بلاشبہ علماء ہی پیغمبروں کے وارث ہیں۔پیغمبروں نے ترکہ میں نہ دینار چھوڑا ہے اور نہ درہم ۔ انہوں نے تو صرف علم کو اپنے ترکہ میں چھوڑا۔ پس جس کسی نے علم حاصل کیا اس نے ہی حصہ کامل پایا۔)

علم کا دائرہ بہت وسیع ہے

قرآن میں جہاں بھی علم کا تذکرہ کیا گیا ہے ،بیش تر مقامات پر مطلق علم کاذکر ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم اپنی ذات کے اعتبار سے لا محدود ہے اور اسلام نے اس کی لامحدودیت کو برقرار رکھتے ہوے حکم دیا ہے کہ علم حاصل کرو۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ بیان کرتے ہیں:

”قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم اَلْعِلْمُ ثَلاثَةٌ: فَمَاوَرَاءَ ذٰلِکَ فَھُوَ فَضْلٌ، آیَةٌ مُحْکَمَةٌ، اَوْسُنَّةٌ قَائِمَةٌ اَوْ فَرِیْضَةٌ عَادِلَةٌ.“(۶)

(اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :علم تین ہیں:آیت محکمہ،سنت قائمہ اور فریضہٴ عادلہ،اس کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ زائد ہے۔)

ایک دوسری حدیث میں جو تفصیل آئی ہے ،اس سے بھی یہی واضح ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا:

”یَبْعَثُ اللّٰہُ الْعِبَادَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، ثُمَّ یُمَیِّزُ الْعُلَمَاءَ فَیَقُوْلُ: یَا مَعْشَرَ الْعُلَمَاءِ اِنِّی لَمْ اَضَعْ عِلْمِیْ فِیْکُمْ لِاعَذِّبَکُمْ، اذْھَبُوْا فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ.“(۷)

(قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کو زندہ کرے گا اور اس میں علماء کو ممتاز کرے گا اور فرمائے گا اے پڑھے لکھے لوگو!میں نے اپنا علم تمہارے اندر اس لیے نہیں رکھا کہ میں تمہیں عذاب دوں ،جاوٴ تم سب کی مغفرت کردی۔)

عالم کہتے ہی ہیں پڑھے لکھے لوگوں کو ،چاہے اس نے قرآن کی تعلیم حاصل کی ہو یا حدیث کی، فقہ کی کی ہو یا کلام ومنطق کی ۔ سائنس کی ڈگری لی ہو یا میڈیکل سائنس کی ۔ نیچرل سائنس پڑھاہو یاآرٹس کے مضامین ۔ سارے کے سارے پڑھے لکھے لوگوں میں شمار کیے جائیں گے۔ یہ ایسی چیز ہے جو انسان کو ہمیشہ کام آئے گی، مقصد نیک ہو اور اس کا صحیح استعمال کیا جائے تو اس کی بدولت وہ دین ودنیا کی ساری نعمت اور دولت حاصل کرسکتا ہے۔

 قرآن میں متعدد مقامات پر اہل ایمان کوعلم حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اس میں دینی علوم بھی شامل ہیں اورسائنسی علوم بھی۔ بلکہ ان آیات کی تلاوت کی جائے تویہ واضح ہوتا ہے کہ آج ہم جن چیزوں کوسائنس وٹکنالوجی کاعلم کہتے ہیں،اسکے حصول پر خاص طور سے توجہ دلائی گئی ہے۔ جگہ جگہ فرمایاگیاہے: تم اپنی صلاحیتوں کو کام میں کیوں نہیں لاتے؟ تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے؟ تم قرآنی آیات پرغور کیوں نہیں کرتے ؟ تمہارے اندر شعورکیوں نہیں ہے؟ تم سمجھ کر کیوں نہیں پڑھتے؟ میری نشانی پرغور کیوں نہیں کرتے ؟ گویاکہ قرآن مجید میں لفظ علم مختلف اشتقاقی صورتوں میں۷۷۸ مرتبہ واردہواہے ۔ان سے یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں کہ قرآن مجیدکی رو سے علم کو غیر معمولی بلکہ فوق الکل اہمیت حاصل ہے اور جب یہ لفظ جزوی ترادف کے ساتھ دوسرے مرادفات (مثلاتعقلون، یتدبرون، تفہمون، تشعرون.)وغیرہ کے ساتھ مل کریاان کی جگہ آتاہے توان سے علم کے طریقوں، غایتوں اورجہتوں کاپتہ چلتاہے ۔(۸)

انسان کو جس چیز سے واسطہ پڑ سکتا ہے ،اس کے حل کے لیے معلومات حاصل کرنا اور اس میں مہارت پیدا کرنا اسلام کو مطلوب ہے۔حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جب پیدا کیا تو انہیں وہ تمام علوم عطاکیے جن سے ان کا واسطہ پڑ سکتا تھا۔قرآن کریم میں اس کی صراحت موجودہے:

”وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاء کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمْ عَلَی الْمَلاَئِکَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِیْ بِأَسْمَاء ہَؤُلاء إِن کُنتُمْ صَادِقِیْن. قَالُواْ سُبْحَانَکَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّکَ أَنتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ. قَالَ یَا آدَمُ أَنبِئْہُم بِأَسْمَآئِہِمْ فَلَمَّا أَنبَأَہُمْ بِأَسْمَآئِہِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّکُمْ إِنِّیْ أَعْلَمُ غَیْْبَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا کُنتُمْ تَکْتُمُونَ.“ (البقرہ:۳۱)

(اور سکھایا اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام چیزوں کے نام اور پھر سامنے کیا ان سب چیزوں کوفرشتوں کے،پھر اللہ نے فرمایا ان سے بتاوٴ مجھ کو ان کے نام اگر تم سچے(جانتے) ہو؟فرشتوں نے کہا: تیری ذات پاک ہے ،ہم کو نہیں معلوم، مگر جتنا تونے مجھے علم دیا ہے۔ بے شک تو ہی ہے اصل جاننے والا اور حکمت والا۔ پھر اللہ نے آدم سے کہا: بتاوٴ تم ان کو ان چیزوں کے نام ۔ جب انہوں نے بتادیا ان کے نام ،تواللہ نے فرشتوں سے کہا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں خوب جانتا ہوں ان چیزوں کو جو آسمان و زمیں میں چھپی ہوئی ہیں اور میں یہ بھی جانتا ہوں جو ظاہر ہے اور جو چیز چھپی ہوئی ہے۔)

حکمت ودانائی کی بات مومن کی گم شدہ پونجی ہے

انسان کو جب اللہ نے اپنا خلیفہ بنایا ہے(البقرہ:۲۰) تو ضروری ہے کہ وہ خلافت کا حق اداکرے۔یہ کام ایسے ہی انجام نہیں پائے گا۔اس کے لیے بہت سی چیزوں کی ضرور ت پڑتی ہے اور ہر طرح کے لوگ درکار ہوتے ہیں،تاکہ وہ اپنے علم وہنر اور تجربے کی روشنی میں اور خلافت کی ضرورتوں کو پورا کریں۔اگر نفع بخشی کا سامان کسی دوسری جگہ سے حاصل ہو تو یہ بھی ضروری ہے کہ اسے وہاں سے حاصل کیاجائے ،اگر وہ اس کے حصول میں کوتا ہی کرے گا تو خدا کے نزدیک قابل مواخذہ ہوگا۔اللہ کے رسول نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے :

”اَلْکَلِمَةُ الْحِکْمَةُ ضَالَّةُ الْمُوٴْمِنِ، فَحَیْثُ وَجَدَھَافَھُوَ اَحَقُّ بِھَا.“(۹)

(حکمت ودانائی کی بات مومن کی گم شدہ پونجی ہے ،پس جہاں بھی پائے حاصل کرنا چاہیے)

حکمت کے معنی ڈکشنری میں وہی ملیں گے جو سائنس کے معنی ہیں۔ یعنی اشیاء اور چیزوں کی حقیقتوں پر غور کرنا ،اسے پہچاننا اور سمجھنا ،اس کے خواص اور تاثیرات کو معلوم کرنے کے بعد اس کو اپنے لیے اور دوسروں کے لیے نفع بخش بنانا اور استعمال میں لانا ہے۔

علم سے انسان کے اندر اخلاق حمیدہ پیدا ہوتے ہیں

جب انبیاءِ سابقین کے عہد میں علم واخلاق کو عمومی وسعت حاصل نہ ہوسکی تو کیسے ممکن تھا کہ دنیا میں اخلاق وکردار اور تہذیب وتمدن کا بول بالاہو۔انبیاء کی آمد سے ان کے اندر کسی قدر تہذیبی قدروں کو ترقی ضرور ہوئی ،مگر جلدہی وہ فنا ہوگئی۔اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ پہلے بھی جہالت میں مبتلا تھے اور بعد میں بھی یہ صورت برقرار رہی۔ بڑے اچھے انداز میں اس نکتہ کی وضاحت کرتے ہوے علامہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:

”دنیامیں بابل واسیریا،ہندوستان وچین،مصر وشام ،یونان وروم میں بڑے بڑے تمدن پیدا ہوے۔اخلاق کے بڑے بڑے نظریے قائم کیے گئے۔ تہذیب وشائستگی کے بڑے بڑے اصول بنائے گئے۔ اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے،ملنے جلنے،پہننے اوڑھنے، رہنے سہنے،سونے جاگنے، شادی بیاہ،مرنے جینے، غم ومسرت، دعوت وملاقات،مصافحہ وسلام ،غسل و طہارت، عیادت وتعزیت، تبریک وتہنیت، دفن وکفن کے بہت سے رسوم ، آداب ، شرائط اور ہدایات مرتب ہوے اور ان سے ان قوموں کی تہذیب، تمدن، اور معاشرت کے اصول بنائے گئے۔ یہ اصول صدہا سال میں بنے پھر بھی بگڑ گئے۔صدیوں میں ان کی تعمیر ہوئی تاہم وہ فنا ہوگئے۔“(۱۰)

لیکن قرآن ، پیغمبر عربی صلى الله عليه وسلم نے صالح معاشرہ کی تعمیر وتشکیل کا جودرس دیا وہ اس وقت سے لے کر آج تک اپنی اصل صورت میں برقرار ہے اور جب تک مسلمانوں کے اندر دینی وعلمی روح زندہ رہے گی ،دنیا میں اخلاقی اقدار کی بالا دستی رہے گی۔ مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ خودکو اخلاق کا نمونہ بنائیں ۔ گھر میں ہوں یا بازار میں، محفل میں ہوں یا مجلس میں، ہر جگہ اخلاق کا مظاہر ہ کرنا اسلام کو مطلوب ہے۔اللہ کے رسول نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا ۔ دوست ہو یا دشمن ،اپنے ہو کہ پرائے ،سب کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کیا۔اگر علم حاصل کرنے کے بعد آدمی کے اندر یہ صفت پیدا نہ ہوئی تو ایسا علم کسی کام کانہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول فرمایا کرتے تھے: بُعِثْتُ لِاُتَمِّم حُسْن الْاِخْلْاق۔ (۱۱)آپ کے اس وصف خاص کی گواہی قرآن مقدس میں بھی موجود ہے:اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلق عَظَیْم۔ (القرآن) (آپ اخلاق کے اعلی مقام پر فائز ہیں۔)ایک مرتبہ چند صحابہ رضوان الله عليهم اجمعين حضرت عائشہ رضى الله تعالى عنها کی خدمت میں حاضر ہوے اور ان سے دریافت کیا کہ ہمیں حضور کے اخلاق اور معمولات کے بارے میں کچھ بتائیے۔انہوں نے فرمایا: خُلْقَ رَسُوْل اللّٰہ صلى الله عليه وسلم کَا نَ الْقُرْآنَ۔ (۱۲) (آپ کا اخلاق ہمہ تن قرآن تھا۔) باوجود اس کے آپ ہر وقت درستیٴ اخلاق کی دعاکرتے رہتے ہیں۔ آئینہ میں اپنا چہرہ یکھتے تو اللہ کا شکر اداکرتے اور خدا کے حضور یہ دعا کرتے: اَللّٰھُمَّ اَحْسَنْتَ خَلْقِیْ فَاَحْسِنَ خُلْقِی۔(۱۳) (اے اللہ میرے اخلاق کو بھی اسی طرح اچھا کردے جس طرح تونے میرے چہرے کو اچھا بنایا ہے۔) آپ سے کسی نے پوچھا کون لوگ اچھے ہیں؟ آپ نے فرمایا:”اِنَّ خَیَارَکُمْ اَحْسَنُکُمْ اَخْلَاقاً۔“(۱۴) سب سے بہتر انسان وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے۔) ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا:اَکْمَلُ الْمُوٴْمِنِیْنَ اِیْمَاناً اَحْسَنُھُم خُلْقاً۔ (۱۵)(سب سے زیادہ کامل الایمان وہ شخص ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو۔) اس طرح بہت سی احادیث ہیں جن میں اخلاق کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔

اخلاق صرف یہی نہیں ہے کہ لوگوں سے ہنستے مسکراتے مل لیا اور اس کے ساتھ کچھ اچھی باتیں کرلیں ۔ یہ تو اخلاق کا جزوہے ، ان کے علاوہ بھی اور بہت ساری باتیں اخلاق میں داخل ہیں۔ یہ خوبیاں اسی وقت پیدا ہوں گی جب ہم علم سے آراستہ و پیراستہ ہوں گے۔ اللہ اور اس کے بتائے ہوے راستہ پر چلیں گے۔اگر ایک آدمی اچھے اخلاق کا حامل ہے تو کسی کے ظلم کو برداشت کرنا بھی اخلاق کے دائرہ میں آتا ہے۔ بے صبری کا مظاہرہ کرنااورانتقام لینا بے اخلاقی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تلخ باتوں پر صبر کریں ۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا کرنے سے وہ ہم نوا بن جائے ۔ غصہ کرنا،بد لہ لینا،کسی کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش نہ آنا،کسی کا ما ل غصب کرنا،چوری ڈکیتی کرنا یہ مذموم حرکتیں ہیں ،جو بداخلاقی ہے۔چنانچہ اللہ کے رسول نے فرمایا:

”لَیْسَ الشَّدِیْدُ بِالصُّرْعَة اِنَّمَاالشَّدِیْدُ اَلَّذِیْ یَمْلِکُ نَفْسَہُ عِنْدَالْغَضَب.“(۱۶)

( طاقت وروہ آدمی نہیں ہے جوکشتی میں کسی کو پچھاڑدے، بلکہ وہ آدمی طاقت ور ہے، جوغصہ کے وقت اپنے نفس کوقابو میں رکھے۔)

ایک دوسری حدیث میں اللہ کے رسول نے فرمایا:

”خَصْلَتَانِ لَاتَجْتَمِعَانِ فِی مُنَافِقٍ: حُسْنُ سَمْتٍ، وَلَافِقْہٌ فِی الدِّیْنِ.“(۱۷)

(دوعادتیں ایسی ہیں جو منافق میں جمع نہیں ہوتیں ۔ ایک اچھی عادت اور دوسرے دینی بصیرت۔)

دنیا کے لیے نفع بخش بنا جائے

اسلام حکم دیتا ہے کہ اپنے آپ کو ضرر رساں نہیں بلکہ نفع بخش بنا وٴ۔ایک انسان کے قول وعمل سے دوسرے انسان کو تکلیف نہ پہنچے۔ اچھی اور بھلی باتوں کا تمیز وہی انسان کرسکتا ہے جس کے اندر شعور وفراست ہوگی اور یہ خوبی بغیر علم کے پیدا نہیں ہوسکتی۔عقل و شعور تو جاہل کے پا س بھی ہے۔مگر جو فراست ایک پڑھے لکھے کو حاصل ہوگی وہ جاہل کو ہر گز حاصل نہیں ہوسکتی۔اس کے دن رات کے عمل میں ،اس کی گفتگو میں ،اس کے معاملات میں ، اس کے فیصلہ لینے میں ایسی بات کا صادر ہونا جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچ جائے کوئی بعید نہیں ہے۔ اگر اسے اس کا ادراک ہوجائے تو وہ جاہل ہی کیوں رہے گا۔ اللہ کے رسول کی حدیث سے بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔آپ نے فرمایا:

”انَّ مَثَلَ عِلْمٍ لَایَنْفَعُ کَمَثَلِ کَنْزٍ لَا یُنْفَقُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہ.“(۱۸)

( جو علم نفع بخش نہ ہو اس کی مثال اس خزانے جیسی ہے جس میں سے خداکی راہ میں کچھ خرچ نہ کیا جائے۔)

نیز آپ نے یہ بھی فرمایا:

”خَیْرُ النَّاسِ اَنْفَعَھُمْ لِلنَّاسِ.“(۱۹)

( اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ آدمی وہ ہے جو سب سے زیادہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے والاہے۔)

جب آدمی کے اندر یہ ذوق و جذبہ ہوگا تو یقینا وہ کوشش کرے گا کہ وہ علم حاصل کرے اور دوسروں تک پہنچائے۔

علم نافع کی دعا ء بھی کرتے رہنا چاہیے

نبی اکرم صلى الله عليه وسلم دنیا کے لیے معلم بناکر بھیجے گئے ۔ آپ کی وجہ سے دنیا میں علم کی روشنی پھیلی اورانسانیت کو روشن اور واضح سمت ملا ۔باوجود اس کے ہر وقت اللہ کے حضور زیادتی علم اور استقامت علم کے ساتھ علم نافع کی دعا ء کرتے ہیں:

”اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَعُوْذُبِکَ مِنْ عِلْمٍ لَایَنْفَعُ، وَمِنْ دُعَاءٍ لَا یُسْمَعُ، وَمِنْ قَلْبٍ لَا یَخْشَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ۔“(۲۰)

(اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس علم سے جو نفع بخش نہ ہو اور اس دعاء سے جو سنی نہ جائے اور اس دل سے جس میں خشوع نہ ہو اور اس نفس سے جو کبھی سیر نہ ہو۔)

علم نافع اور رزق وسیع کے لیے اللہ کے حضور یہ دعاء بھی کرتے تھے:

”اَللّٰھُمَّ اِنّی اَسْئَلُکَ عِلْماً نَافِعاً، عَمَلاً مُتَقَبَّلاً، وَرِزْقاً طَیِّباً.“(۲۱)

(اے اللہ! میں تجھ سے علم نافع، عمل مقبول اور پاک رزق کی درخواست کرتا ہوں۔)

کیوں کہ اللہ نے انہیں ایسا کرنے کا حکم دیا تھا:

”وَقُل رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْما.“(طٰہٰ:۱۱۴)

(اے پیغمبر کہو:اے میرے رب !میرا علم زیادہ کر۔)

” رَبَّنَا آتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَةً وَفِیْ الآخِرَةِ حَسَنَةً.“(البقرہ:۲۰۱)

(اے میرے رب! تو مجھے دنیا وآخرت دونوں میں اچھا بنا۔)

 اللہ نے انسان کو جو علم عطا کیا ہے ،اسے ہی حرف آخر نہ سمجھا جائے ، بلکہ زیادتی علم کی کوشش کرتے رہنا چاہیے اوراسے اپنی محنت اور جدو جہد کا نتیجہ نہ سمجھنا چاہیے بلکہ عطا ءِ خدا وندی سمجھتے ہوئے یہ اعتراف کرتے رہنا چاہیے:

”وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَکَانَ فَضْلُ اللّہِ عَلَیْْکَ عَظِیْما.“ (النساء:۱۱۳)

(اور تجھ کوسکھائیں وہ باتیں جو نہیں جانتا تھااور یہ تیرے رب کا فضل عظیم ہے۔)

 جس کو علم وحکمت سے نواز دیاگیا،گویا اسے دین ودنیا کی دولت حاصل ہو گئی۔ ضروری ہے کہ جو علم عطا کیا گیا ہے اس کی قدر کی جائے اور اس کا صحیح استعمال کیا جائے۔ باری تعالیٰ نے اہل علم کی ستائش کرتے ہوے فرمایا:

”وَمَن یُؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ أُوتِیَ خَیْْراً کَثِیْراً وَمَا یَذَّکَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الأَلْبَابِ.“ (البقرہ:۲۶۹)

(اور جس کو حکمت مل گئی اس کو بڑی خوبی کی چیز مل گئی اور نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل رکھتے ہیں۔)

اسی طرح اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا:

”مَن یُرِدِاللّٰہُ بِہ خَیْرًایُفَقِّہْہُ فِی الدِّیْنِ، وَاِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ، وَاللّٰہُ یُعْطِی.“(۲۲)

(اللہ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے اور میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور دینے والا اللہ ہے۔)

عہد نبوی میں علوم وفنون کی ترقی

عہدنبوی کے مدنی معاشرہ پرغورکریں کہ کس کس مپرسی کے عالم میں مسلمان مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے ۔ کھانے کھانے کوترستے تھے، تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا میسر نہیں تھا،رہنے کوگھرنہیں تھے ، لیکن ان کے اندرحصول علم کاجذبہ تھا۔ اسی وجہ سے مختصرعرصے میں وہ نمونہ زندگی بن گئے اورزندگی کے ہرشعبے میں کمال پیدا کرکے اپنی ضرورتوں کی تکمیل کرنے لگے ۔ چوں کہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم ایک بڑے پیغمبر ہونے کے ساتھ ایک عظیم حکم راں بھی تھے اورکوئی بھی حکومت اس وقت تک صحیح طریقے سے نہیں چل سکتی جب تک کہ اس کے اندرمختلف صلاحیت کے افراد موجودنہ ہوں۔ضروری ہے کہ یہاں طبیب بھی ہوں اور سرجن بھی ،یہ بھی ضروری ہے کہ وہاں بڑھی بھی ہوں اور لوہاربھی ، کاشت کار بھی ہوں اور صنعت گربھی ۔جس وقت حضورصلى الله عليه وسلم مسجدنبوی کی تعمیر کروارہے تھے ، صحابہ کرام مختلف کاموں پر مامور تھے ۔ کسی کو اینٹ بنانے اور ڈھونے کا حکم دیا تو کسی کو گارا بنانے کا ،تو کسی کو کوئی دوسرے کام پر مامور کیا۔ ایک صحابی نے خواہش ظاہر کی کہ میں دوسرا کام بھی کرسکتا ہوں ،آپ نے منع کیا اور فرمایا :نہیں تم گارا گھولو،تم اس کام سے خوب واقف ہو۔ (۲۳) گویاکہ حضورکے زمانہ میں ہرفن کے ماہرین موجودتھے ۔ کچھ لوگوں نے علمی کام کیے ، کچھ لوگوں نے دست کاریاں سیکھیں، بعض صحابہ نے دوسری قوموں کی زبان اور ان کی تہذیب و تمدن کامطالعہ کیا۔ (۲۴)اس وقت کی ضرورت کے مطابق کوئی ایسا علم اورفن نہ تھاجس میں صحابہ کرام پیچھے رہے ہوں۔ عملی علم ہویافنی ، سبھی میں صحابہ کرام ماہراور یکتاءِ روزگارتھے۔ مندرجہ ذیل اقتباس سے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ علامہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:

”ایک طرف عقلاءِ روزگار ،اسرار فطرت کے محرم ،دنیا کے جہاں باں اور ملکوں کے فرماں روااس درس گاہ سے تعلیم پاکر نکلے ہیں، جنہوں نے مشرق سے مغرب تک ،افریقہ سے ہندوستان کی سرحد تک فرماں روائی کی اور ایسی فرماں روائی جو دنیا کے بڑے سے بڑے شہنشاہ اور حکم راں کی سیاست وتدبر اور نظم ونسق کے کارناموں کو منسوخ کردیتی ہے ۔ دوسری طرف خالد بن ولید رضى الله عنه، سعدبن ابی وقاص رضى الله عليه، ابو عبیدہ بن جراح رضى الله عنه، عمروبن العاص رضى الله عنه ہیں جنہوں نے مشرق ومغرب کی دوظالم و گناہ گار اور انسانیت کے لیے لعنت سلطنتوں کا چند سال میں قلع قمع کر دیتے ہیں اور دنیا کے وہ فاتح اعظم اور سپہ سالار اکبر ثابت ہوتے ہیں، جن کے فاتحانہ کارناموں کی دھاک آج بھی دنیا میں بیٹھی ہوئی ہے۔ تیسری طرف وہ صحابہ ہیں جنہوں نے صوبوں اور شہروں کی کامیاب حکومت کی اور خلق خدا کو آرام پہنچایا۔ چوتھی طرف علماء وفقہاء کی صف ہے۔ انہوں نے اسلام کے فقہ وقانون کی بنیاد ڈالی اور دنیا کے مقنن میں خاص درجہ پایا۔ پانچویں صف عام ارباب روایت وتاریخ کی ہے،جو احکام ووقائع کے ناقل وراوی ہیں۔ ایک چھٹی جماعت ان ستر صحابہ (اصحاب صفہ) کی ہے جن کے پاس سررکھنے کے لیے مسجد نبوی کے چبوترے کے سوا کوئی جگہ نہ تھی ۔ ساتواں رخ دیکھو! ابو ذررضى الله عنه ہیں، ان کے نزدیک آج کا کھانا کل کے لیے اٹھا رکھنا بھی شان توکل کے خلاف تھا۔سلمان فارسی رضى الله عنه ہیں جو زہدوتقویٰ کی تصویر ہیں ۔ عبداللہ بن عمر رضى الله عنه ہیں جن کے سامنے خلافت پیش ہوئی تو فرمایا کہ اگر اس میں مسلمانوں کا ایک قطرہ خون گرے تو مجھے منظور نہیں ۔ مصعب بن عمیر رضى الله عنه ہیں جو اسلام سے پہلے قاقم وحریر کے کپڑے پہنتے اور جب اسلام لائے تو ٹاٹ اوڑھتے اور پیوند لگے کپڑے پہنتے تھے اور جب شہادت پائی تو کفن کے لیے پورا کپڑا تک نہ ملا۔ عثمان بن مطعون رضى الله عنه ہیں جو اسلام سے پہلے صوفی کہلاتے ہیں۔ ابودردا رضى الله عنه ہیں کہ جن کی راتیں نمازوں میں اور دن روزوں میں گزرتے تھے۔ ایک اور طرف دیکھو! یہ بہادر کار پردازوں اور عرب کے مدبرین کی جماعت ہے ۔کاروباری دنیا میں دیکھو تو مکہ کے تاجر اور بیوپاری ہیں اور مدینہ کے کاشت کار اور کسان بھی ہیں اور بڑے بڑے دولت مند بھی ہیں۔ ان نیرنگیوں اور اختلاف استعداد کے باوجود ایک چیز تھی جو مشترک طورسے سب میں نمایاں تھی۔وہ ایک بجلی تھی جو سب میں کوند رہی تھی،کوئی بھی ہوں توحید کا نور، اخلاق کی رو،قربانی کا ولولہ ،خلق کی ہدایت اور رہنمائی کا جذبہ اور بالآخر ہر کام میں خدا تعالیٰ کی رضا طلبی کا جو ش ہر ایک کے اندر کام کررہاتھا۔“(۲۵)

عہد نبوی کے ترقی پذیر علوم وفنون

قرآن وحدیث اور دوسرے علوم کی نشرو اشاعت کے علاوہ عہد نبوی میں بعض ترقی پذیر علوم فنون بھی تھے اور جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ ہر قسم کے لوگ اور مختلف فنون کے ماہرین پائے جاتے تھے۔ان میں خاص طور سے طب و جراحت اور علم ہیئت بہت مقبول تھا ۔ علم ہیئت اس لیے اہم تھا کہ اس کے ذریعہ رات کے وقت مسافر اپنا راستہ معلوم کرتے اور اوقات حج کے تعین کے ساتھ مذہبی تقریبات وقت پر انجام دیتے تھے۔ طب وجراحت اس لیے دل چسپ فن تھا کہ اس پر انسانی صحت کی بحالی کا انحصار تھا۔ ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں:

”عہد نبوی میں علوم وفنون زیادہ نہیں تھے لیکن جو فنون تھے ،ترقی پذیر تھے اور ان کی ضرورت بھی تھی۔ان میں سے ایک چیز طبابت ہے ۔اس کے متعلق ہمیں بہت سی معلومات ملتی ہیں۔عہد نبوی صلى الله عليه وسلم میں طبیبوں کی حالت اور جراحی کرنے والوں سرجنوں کے حالات پر بھی کچھ روشنی پڑتی ہے۔اس طرح ایک حدیث میں ذکر ہے کہ ایک مرتبہ ایک صحابی بیمار ہوے ۔ رسول اللہ ان کی عیادت کو جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تمہارے محلے یا قبیلے میں کوئی طبیب ہے؟ جواب میں دونام بتائے جاتے ہیں۔ رسول اللہ فرماتے ہیں ان میں سے جو ماہر تر ہو اسے بلاوٴ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس بات کا بھی خیال رکھا کہ علم میں تخصیص پیدا کریں اور ماہروں سے علاج کرائیں۔ اس سے لوگوں کو ماہر بننے کی ترغیب بھی ملتی ہے۔اسی طرح اس کا بھی پتا چلتا ہے کہ آں حضرت طبابت سے ناواقف شخص کو اس کی اجازت دینا نہیں چاہتے کہ وہ طبیب بن جائے۔ایک حدیث کے الفاظ ہیں کہ جس شخص کو علم طب سے کوئی واقفیت نہیں ،اگر وہ علاج کرے تو اسے سزادی جائے گی،کیوں کہ اناڑی پن سے لوگوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔اسی طرح کی اور مثالیں بھی ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبوی میں علم طب کی کافی اہمیت سمجھی جاتی تھی اور علاج سادہ مفردات کے ذریعہ ہوتا تھا۔رسول اللہ سے بے شمار نسخے منسوب ہیں۔“(۲۶)

(باقی آئندہ)

***

مآخذ ومراجع

(۱)           سید سلیمان ندوی،خطبات مدراس،فرید بک ڈپو،دہلی،۲۰۰۴ء،ص:۹۵

(۲)           ابراہیم عمادی ندوی،مسلمان سائنس داں اور ان کی خدمات،مکتبہ الحسنات، دہلی، ۲۰۰۷ء، ص:۱۸

(۳)          ابو عیسی ترمذی،جامع الترمذی،کتاب العلم،باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادة۔ سلیمان بن الاشعث،سنن ابوداوٴد،کتاب العلم،باب فضل العلماء۔ احمد بن حنبل، مسند احمد، المطبعة المیمنیہ،مصر۱۳۱۳ھ،ج:۵،ص:۱۹۶۔علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔

(۴)          ابو عبداللہ محمد یزید الربعی،سنن ابن ماجہ ،کتاب السنة،باب فضل العلم والحث علی طلب العلماء۔ علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔

(۵)          ابو عبداللہ محمد بن اسمعیل بخاری،الجامع الصحیح من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ وایامہ،کتاب العلم،باب العلم قبل القول والعمل۔جامع الترمذی،کتاب العلم،باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادة۔سنن ابوداوٴد،کتاب العلم،باب فضل العلماء۔سنن ابن ماجہ ،کتاب السنة،باب فضل العلم والحث علی طلب العلماء ۔مسند احمد ،ج:۵، ص: ۱۹۶ ۔

(۶)           سنن ابن ماجہ ،کتاب السنة،باب اجتناب الرای والقیاس۔سنن ابوداوٴد،کتاب الفرائض، باب ماجاء فی تعلیم الفرائض

(۷)          رواہ طبرانی فی الکبیر،حافظ ذکی الدین عبدالعظیم ،الترغیب والترہیب، دارالریان، قاہرہ، ۱۹۸۷ء،ج:۱،ص:۱۰۱

(۸)          اردو دائرہ معارف اسلامیہ،دانش گاہ پنجاب،لاہو، ۱۹۷۶ء،ج:۱۳،ص:۴۴۷

(۹)           جامع الترمذی،کتاب العلم،باب ماجاء فضل الفقہ علی العبادة۔سنن ابن ماجہ، ابواب الزہد،باب الحکمة۔علامہ البانی نے اس حدیث کے بارے میں کہا ہے:ضعیف جدا۔

(۱۰)         خطبات مدراس،ص:۱۸

(۱۱)          مالک بن انس بن مالک،الموطا،کتاب حسن الخلق

(۱۲)         سنن ابوداوٴد،کتاب التطوع،باب فی صلوٰة اللیل

(۱۳)         مسند احمد ،ج:۱،۴۰۳،ج:۶،۶۸،۱۵۵

(۱۴)         الصحیح البخاری،کتاب الادب،باب حسن الخلق والسخا۔مسند احمد ،ج:۲،ص:۴۶۷

(۱۵)         سنن ابی داوٴد،کتاب السنة،باب الدلیل علی زیادة الایمان ونقصانہ، جامع الترمذی، کتاب الرضا،باب ماجاء فی حق المرأة علی زوجہا، ابواب الایمان،باب استکمال الایمان والزیادة والنقصان مسند احمد ،ج:۲، ص:۲۵۰، ۴۷۲، ۶۲۷۔ ج:۶، ص:۴۷- ۹۹

(۱۶)         الصحیح البخاری،کتاب الادب،باب الحذر من الغضب۔ ابوالحسن مسلم بن حجاج القشیری المسند الصحیح مسلم،کتاب البر،باب فضل من یملک نفسہ عند الغضب۔موطا امام مالک، باب حسن اخلق۔مسند احمد ، ج:۳،ص:۲۳۶،۲۶۸،۲۰۷

(۱۷)         جامع الترمذی ،کتاب العلم،باب ماجاء فضل الفقہ علی العبادة۔علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔

(۱۸)         مسند احمد،ج:۲،ص:۴۹۹

(۱۹)          عبدالروٴف المناوی،فیض القدیر شرح الجامع الصغیر،دار احیاء السنة النبویہ،للطباعة والنشر والتوزیع، ۱۹۳۸ء، ج:۳، ص:۴۸۱

(۲۰)         سنن ابن ماجہ ،کتاب السنة،باب انتفاع بالعلم والعمل۔علامہ البانی نے اس حدیث کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔

(۲۱)         مسند احمد ،ج:۶،ص:۲۹۴،۳۰۵،۳۱۸،۳۲۲

(۲۲)         الصحیح البخاری،کتاب العلم،کتاب العلم،باب من یرد اللہ بہ خیرا یفقہہ فی الدین،کتاب الاعتصام، باب تعلیم النبی ۔سنن ابن ماجہ ،کتاب السنة،باب فضل العلم والحث علی طلب العلم

(۲۳)        ادریس کاندھلوی،سیرة المصطفیٰ،دارالکتاب،دیوبند،ج:۱،ص:۴۲۷،بحوالہ:زرقانی، ج:۱،ص:۳۶۸

(۲۴)        جامع الترمذی،ابواب الاستیذان والادب،باب فی تعلیم السریانیة۔علامہ البانی نے اس حدیث کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔

(۲۵)        خطبات مدراس،ص:۹۷-۱۰۲(ملخص)

(۲۶)         ڈاکٹر حمید اللہ،خطبات بھاول پور،اسلامک بک فاوٴنڈیشن،نئی دہلی،۱۹۹۷ء، ص: ۳۱۹-۳۲۰

***

——————————

ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 07 ، جلد: 93 رجب 1430 ھ مطابق جولائى  2009ء

Related Posts