از: فاروق اعظم عاجز قاسمی ، شعبہٴ انگریزی زبان و ادب دارالعلوم دیوبند
بظاہر تو ہر کوئی دینداری و پاکبازی کا دعویدار ہوتا ہے؛ لیکن حقیقت کی کسوٹی پر کچھ ہی لوگ اترپاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج دنیا میں صاحب دل اور خداترس لوگ کمیاب تو ضرور ہیں لیکن نایاب نہیں۔ کائنات کا وجود ہی ایسے لوگوں کے دم سے ہے جن کے دل خوف خدا سے لبریز ہوں، جن کے دماغ پر ہمہ وقت آخرت کا فکر سوار ہو، جن کی زبانیں ذکر الٰہی سے تروتازہ اور جن کی ہر ہر حرکت اور زندگی کا ہر ہر سانس اطاعت الٰہی اور سنت نبوی کا نمونہ ہو۔
انھیں عظیم انسانوں میں ایک نام حضرت مولانا شبیر احمد صاحب رحمة الله عليه کا تھا، راقم کو دارالعلوم میں اپنی دس سالہ تعلیمی زندگی کے دوران مولانا مرحوم کو دور ونزدیک سے دیکھنے کا موقع ملا اس سے بڑھ کر راقم کو مولانا سے شاگردی کا شرف بھی حاصل ہے؛ لیکن ہر موقع پر ان کو اسلام اور مسلمان کے تئیں فکرمند ہی پایا اور فکر آخرت میں بھی وہ ہمہ وقت غرق رہتے تھے، دنیا کسے کہتے ہیں شاید انھیں معلوم نہیں تھا، چند ہی میل کے فاصلہ پر ان کا گھر (باغونوالی مظفرنگر) تھا، لیکن بہت ہی کم جاتے اور جاتے بھی تو فوراً دیوبند واپس آجاتے اور پھر وہی کاروبارزندگی، گوشہ نشینی اور علمی انہماک۔
سفیدی مائل ڈاڑھی، منھ میں پان، کندھے پر رومال، آنکھوں پر روایتی چشمہ اور چشمے کے پیچھے خوفِ خدا سے رونے والی آنکھیں، سرپر دوپلی ٹوپی، میانہ قد، سڈول جسم، سفید کرتا سفید پاجامہ، پاؤں میں عام جوتے، ہاتھ میں عصائے پیری، بغل میں بوسیدہ سی ایک کتاب دبائے، نگاہیں نیچی کیے ہوئے گویا کسی گم شدہ شئی کی تلاش ہے، اپنی لے میں ایک سترسالہ شخص مدرسہ ثانویہ کی طرف چلا جارہاہے، یہ تھے مولانا شبیراحمد صاحب جو آج مرحوم ہوچکے، لیکن ان کی ادائیں، باتیں اورملاقاتیں ہمیشہ ان کی یادوں کے دیے روشن کرتی رہیں گی۔علم کے ساتھ عاجزی وانکساری، بے نفسی اور دنیا ومافیہا سے بے خبری کے مولانا نمونہ تھے۔
ان کی حیثیت ایک ماہر مدرس، مصنف اور مصلح کی تھی؛ لیکن ان کے اندر اصلاح امت کا جذبہ ہرڈگر چھلکتا ہے، درس و تدریس کے وقت بھی، سفر وحضر کی حالت میں بھی، خاص مجلسوں اور عام گفتگو میں بھی؛ بلکہ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے اور کھاتے پیتے بھی مولانا کا اصلاحی مشن جاری رہتا۔ دوران درس کبھی کبھی ازراہِ شفقت خوش طبعی کا اظہار بھی کرتے؛ لیکن عام طور پر متفکر رہتے، ایسا لگتا کہ ہمہ وقت ان پر جذب کی سی کیفیت طاری ہے، بہت کم ان کی نگاہیں اوپر اٹھتیں، دورانِ درس بھی ان کا زاویہٴ نگاہ کتاب کے صفحات اور تپائی تک ہی محدود رہتا۔ ان کی دینی غیرت وحمیت کا منظر دیدنی ہوتا، پڑھا رہے ہیں، ہنس رہے ہیں، بول رہے ہیں؛ لیکن جوں ہی اسلام پر آنچ، شریعت پر حملہ اور مغربی تہذیب کا تذکرہ چھڑجاتا، بس پھر کیا سبق ایک طرف اور ان کے جذبات ایک طرف، وہ مشتعل ہوجاتے گویا ان کے جسم و تن میں کسی نے آگ لگادی ہو، وہ بے قابو ہوجاتے، مسلمانوں کی زبوں حالی پر روتے، تڑپتے اور افسوس کرتے، اسلامی معاشرہ پر آج جو مغربیت کا گہرا اثر ہے اس کا بھی تذکرہ کرتے اور بے خود ہوجاتے۔ اکثر فرماتے: ”آج دنیا اس قدر مغربیت کے پیچھے بھاگ رہی ہے کہ اگر مغرب ننگے رہیں گے تو یہ بھی ان کے قدم بقدم چلیں گے۔“ ”آج ہر گھر میں عیسائیت داخل ہوگئی ہے اور ہمیں احساس تک نہیں ہے۔“
وہ اردو زبان کے ساتھ انگلش کی آمیزش سے متفق نہیں تھے اور فرماتے تھے کہ ”مدنی گیٹ“ اور ”صدرگیٹ“ کیاہوتا ہے؟ مدنی دروازہ اور صدر دروازہ کہنا چاہیے۔ اسی طرح اپنے معصومانہ لہجے میں فرماتے: کتنا اچھا نام تھا شیخ الہند اس کے ساتھ اکیڈمی جوڑدیا۔ اس سے مولانا کا مقصد کسی زبان کی برائی نہیں تھا؛ بلکہ وہ ایک مستقل زبان میں کسی قسم کی ملاوٹ کو زبان کی روح کے منافی سمجھتے تھے اور زبان کو اس کی اصل شکل میں دیکھنا چاہتے تھے۔
جب اپنے اساتذہ کا تذکرہ فرماتے تو تیور انتہائی والہانہ وعاشقانہ ہوجاتا، ان کے ایک ایک حرف سے اپنے اساتذہ کا احترام اور عظمت ٹپکتی تھی۔
وہ سطحیت کے مخالف تھے اور فن کو پوری گہرائی اور گیرائی کے ساتھ سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتے۔ بارہا اس کا اظہار کرتے کہ ”میں نے گرچہ ”دروس البلاغہ“ کی شرح لکھ دی ہے؛ لیکن یہ حرف آخر نہیں ہے اس پر اب بھی بہت کچھ کام کرنا باقی ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں بھی ان کا نظریہ یہ تھا کہ ان کو ضروری دینی تعلیم کے دیے جانے پر اکتفا کیا جائے مکمل عالمیت کی ضرورت نہیں۔
سنت کا بڑا خیال رہتا تھا، سنت کے خلاف کسی کو کچھ کرتے دیکھ لیتے تو آگ بگولہ ہوجاتے اور اس سلسلے میں اگر کوئی شاگرد سامنے ہوتا تو ”تنبیہ الغافلین“ سے اس کی خبر لی جاتی۔ ثقل سماعت کی وجہ سے کچھ اونچا سنتے تھے جس کی وجہ سے عام طور پر لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے جب کہ ان کے شاگرد ان کی صورت حال سے واقف تھے اور بلند آواز سے سلام کرتے اور حضرت اس کا جواب بھی دیتے تھے اور ضرور دیتے تھے۔
وادیٴ کشمیر سے ان کا بڑا گہرا ربط و تعلق تھا اور وہاں کے باشندے بھی آپ پر جان نچھاور کرتے تھے، اس خطے کے طلبہ کے ساتھ بطور خاص شفقت ومحبت کا معاملہ کرتے؛ یہی وجہ ہے کہ مولانا مرحوم عموماً اسفار وغیرہ سے گریزاں رہنے کے باوجود سال میں ایک آدھ مرتبہ کشمیر کا دورہ ضرور کرتے اسی طرح گوشہ نشینی کا مزاج رکھنے کے باوجود کشمیری انجمن کے پروگراموں میں بھی اپنی حاضری سے شرف بخشتے۔
مولانا شبیر احمد صاحب مرحوم ۱۹۳۲/ میں اپنے وطن باغونوالی (مظفرنگر) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ خادم العلوم باغونوالی ہی میں حاصل کی، مزیدتعلیم کے لیے دیوبند کا سفر کیا، یگانہٴ روزگار شخصیات مولانا حسین احمد مدنی رحمة الله عليه، علامہ ابراہیم بلیاوی رحمة الله عليه، شیخ الادب مولانا اعزاز علی امروہوی رحمة الله عليه، مولانا محمد نعیم دیوبندی رحمة الله عليه اور مولانا نصیر احمد خاں صاحب وغیرہ کے زیرسایہ مختلف علوم وفنون کی کتابیں پڑھیں اور ۱۳۷۱ھ میں دارالعلوم دیوبند سے سند فضیلت حاصل کی، درس نظامی سے فراغت کے بعد طب یونانی کی تکمیل کی۔ دیوبند کے معروف حکیم عبدالقدوس دیوبندی مولانا کے ہم درس تھے۔ اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ایم، اے بھی کیا۔
جہاں تک اصلاحی تعلق کی بات ہے تو اس سلسلے میں بتایا جاتا ہے کہ خواب میں حضرت مدنی کے اشارہ سے مظفرنگر کے معروف صاحبِ دل اور اہل کشف وکرامات صوفی عبدالرزاق رحمة الله عليه سے اصلاحی رشتہ قائم کیا۔
تعلیمی مرحلہ طے کرلینے کے بعد مولانا کے تدریسی سلسلہ کا آغاز مدرسہ باغونوالی سے ہوا، چند سال مدرسہ شمس العلوم ٹنڈھیڑہ (مظفرنگر) میں تدریسی خدمات انجام دیں، پھر مدرسہ قاسمیہ شاہی مرادآباد میں مستقل استاذ منتخب ہوئے اور سترہ سالوں تک مختلف علوم وفنون کی کتابیں پڑھاتے رہے۔ پھر یہیں سے ۱۴۱۰ھ میں دارالعلوم کے لیے ان کا انتخاب ہوا اور تادم واپسیں انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ مختلف فنون: ادب و بلاغت اور تفسیر وفقہ کی کتابیں پڑھاتے رہے۔ عمر کے آخری پڑاؤ تک وقت کی پابندی اور نصاب کی تکمیل ان کا امتیاز رہا۔ مولانا مرحوم نے حضرات اکابر کی قدیم روایات کو باقی رکھتے ہوئے درس و تدریس کے ساتھ ساتھ قلم سے بھی اپنا رشتہ استوار کیا اور کشمیر سے نکلنے والا ماہنامہ ”النور“ میں ”احقاق حق“ کے عنوان سے بہت کچھ لکھا، ان کی قلمی جولانیوں کا غیرمعمولی اندازہ ”النور“ کے مطالعہ کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔
ابتدائی درجات کے پیش نظر نحو وصرف میں ”الدراسة النحویہ“، ”الدراسة الصرفیہ“ اور دروس البلاغہ کی شرح ”نبراس البلاغہ“ مولانا کی قلمی یادگار ہیں۔ اس کے علاوہ ہر اس کتاب پر جو ان سے متعلق ہوتی اپنا حاشیہ ہوتا۔
اس طرح سے مولانا کی پوری زندگی تعلیم و تعلّم میں گزری اور بالآخر مختصرعلالت کے بعد دہلی کے ایک اسپتال میں یکم ربیع الثانی ۱۴۳۰ھ کی شام علم وعمل کا یہ آفتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔
اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے (آمین)
***
———————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 07 ، جلد: 93 رجب 1430 ھ مطابق جولائى 2009ء