از: محمد حنیف نقشبندی ،  معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ، پاکستان

سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمة الله عليه اکابرین علمائے دیوبند کے بارے میں رقمطراز ہیں:

”متقدمین کا قافلہ جارہا تھا، اس میں سے چند قدسی روحیں پیچھے رہ گئیں، اللہ رب العزت نے اس دور میں ان کو پیدا فرمادیا، تاکہ متاخرین کو متقدمین کے نمونے کا پتہ چل سکے۔“

شاہ جی رحمة الله عليه کے اس فرمان کے پیچھے یہ حقیقت پنہاں ہے کہ بزرگانِ دیوبند کے قلوب عشق نبوی صلى الله عليه وسلم میں دھڑکتے تھے۔ یوں لگتا ہے کہ اُن حضرات نے اتباع سنت نبوی صلى الله عليه وسلم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایاہوا تھا۔ ان حضرات نے اپنے مقام پر رہ کر سنت کی پیروی کو حرزِ جاں بنایا ہوتا تھا اور جب انہیں بارگاہِ رسالت صلى الله عليه وسلم میں حاضری کا شرف حاصل ہوتا تھا تو وہ آداب نبوی صلى الله عليه وسلم کی ایسی بے نظیر مثالیں قائم کرتے تھے کہ ان کو پڑھ کر آج بھی قارئین پر رقت طاری ہوجاتی ہے۔

جب اِدھر سے اطاعت و فرمانبرداری کا یہ عالم تھا تو پھر بارگاہِ رسالت صلى الله عليه وسلم سے بھی مکاشفات ومنامات کی صورت میں ان کی خوب حوصلہ افزائی ہوتی تھی۔ اسے … ”نگاہِ نبوت کی فیاضی…“ سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ زیر نظر مضمون میں دربار رسالت صلى الله عليه وسلم سے ہونے والی نظر عنایت کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔

* بانی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمة الله عليه ایک مرتبہ حج کو جاتے ہوئے پنجلاسہ (ضلع انبالہ) کے ایک باکمال بزرگ راؤ عبداللہ شاہ رحمة الله عليه سے ملنے کے لیے تشریف لے گئے اور ان سے عرض کیا، ”حضرت! میرے لیے دُعا فرمائیے۔“ اس پر راؤ عبداللہ شاہ رحمة الله عليه نے فرمایا:

”بھائی! میں تمہارے لیے کیا دعا کروں، میں نے اپنی آنکھوں سے تمہیں دونوں جہاں کے بادشاہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے سامنے بخاری شریف پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔“(ارواح ثلاثہ:،ص:۱۹۳)

دیوان محمد یاسین صاحب دیوبندی حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمة الله عليه کے خدام میں سے تھے۔ نہایت دردناک آواز میں ذکر کرتے اور بہت رُلاتے تھے۔ فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ میں چھتہ کی مسجد میں شمالی گنبد کے نیچے ذکر جہر میں مشغول تھا۔ حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمة الله عليه مسجد کے صحن میں شمالی جانب مراقب اور متوجہ تھے اور توجہ کا رخ میرے ہی قلب کی جانب تھا۔ اسی اثنا میں مجھ پر ایک حالت طاری ہوئی اورمیں نے بحالت ذکر دیکھا کہ مسجد کی چار دیواری تو موجود ہے مگر چھت اور گنبد کچھ نہیں ہے، بلکہ ایک عظیم الشان نور اور روشنی ہے جو آسمان تک فضا میں پھیلی ہوئی ہے۔ یکایک میں نے دیکھا کہ آسمان سے ایک تخت اتر رہا ہے اور اس پر خاتم الانبیاء صلى الله عليه وسلم تشریف فرما ہیں اور چاروں خلفاء کونوں پر موجود ہیں۔ وہ تخت اترتے اترتے بالکل میرے قریب آکر مسجد میں ٹھہرگیا اور حضرت امام الانبیاء صلى الله عليه وسلم نے خلفاء میں سے ایک سے فرمایا: ”بھائی! ذرا مولانا محمد قاسم کو بلالو“۔ وہ تشریف لے گئے اور مولانا کے ہمراہ آئے۔ امام الانبیاء صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا، ”مولانا! مدرسہ کا حساب لائیے۔“ عرض کیا، جی حاضر ہے اور یہ کہہ کرحساب بتانا شروع کردیا اور ایک ایک پائی کا حساب دیا۔ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی خوشی اور مسرت کی کوئی انتہا نہ تھی۔ بہت ہی خوش ہوئے اور فرمایا: ”اچھا مولانا! ہم کو اب اجازت ہے۔“ مولانا نے عرض کیا، جو مرضی مبارک ہو۔ اس کے بعد وہ تخت آسمان کی طرف رجوع کرتا ہوا نظروں سے غائب ہوگیا۔ (حکایات اولیاء از حضرت مولانا اشرف علی تھانوی،ص:۴۴۵)

* حکیم الامت حضرت مولانامحمداشرف علی تھانوی رحمة الله عليه کو بارگاہِ رسالت صلى الله عليه وسلم میں اتنا بلند مقام حاصل تھا کہ ایک مرتبہ بنگلہ دیش کے دارالخلافہ ڈھاکہ کے ایک بزرگ کو حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی خواب میں زیارت ہوئی۔ حضور صلى الله عليه وسلم نے ان سے فرمایا ”اشرف علی کو میرا سلام پہنچانا۔“ وہ حضرت تھانویرحمة الله عليه سے واقف نہ تھے، اس لیے عرض کیا، حضور! میں ان سے ناواقف ہوں۔ پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا، ”ظفر کے ذریعے“۔ اس سے مراد مولانا ظفر احمد عثمانی رحمة الله عليه تھے جو حضرت تھانوی رحمة الله عليه کے حقیقی بھانجے تھے اور وہ بزرگ ان سے واقف بھی تھے۔ اس وقت مولانا ظفراحمد عثمانی رحمة الله عليه ڈھاکہ میں ہی مقیم تھے۔ چنانچہ صبح ہوتے ہی انھوں نے اس خواب کی مولانا ظفراحمد صاحب کو خبر دی، جو انھوں نے حضرت تھانوی رحمة الله عليه تک پہنچائی۔ جب حضرت تھانوی رحمة الله عليه کو یہ مژدہ جانفزا پہنچا تو آپ پر فرطِ ادب و مسرت سے ایک خاص کیفیت طاری ہوگئی اور زبان سے بے ساختہ نکلا… وَعَلَیْکَ السَّلاَمُ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ… اوراُس دن کے تمام معمولات موقوف کرکے سارا دن درود شریف پڑھنے میں مشغول رہے۔ (سیرت اشرف،ص:۵۲۷)

* مولانا قاری محمد طیب رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمة الله عليه نے اٹھارہ برس حرم نبوی صلى الله عليه وسلم میں بیٹھ کر خود صاحب کتاب وسنت (نبی کریم صلى الله عليه وسلم) کے پاس اوران کے زیرنظر رہ کر درسِ کتاب وسنت دیا، جس سے مشرق و مغرب کے ہزارہا عوام و خواص اور علماء وفضلاء مستفید ہوئے اور حجاز و شام، مصر و عراق اور ترک و تاتار وغیرہ تک آپ کے کمالات کا شہرہ پہنچ گیا۔ (مقدمہ شیخ الاسلام)

ایک دن آپ اردو اشعار کی ایک کتاب پڑھ رہے تھے کہ آپ کے سامنے یہ مصرعہ آیا:

”ہاں اے حبیب! رخ سے ہٹا دو نقاب کو“

یہ مصرعہ آپ کوبہت اچھا لگا۔ چنانچہ آپ نے روضہٴ اطہر کے قریب پہنچ کر صلوٰة و سلام کے بعد نہایت بے قراری کے عالم میں یہ مصرعہ پڑھنا اور شوق دیدار میں رونا شروع کردیا۔ کچھ دیر کے بعد آپ کو اسی بیداری کی حالت میں نظر آیا کہ جناب رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سامنے ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں، آپ صلى الله عليه وسلم کا چہرہ مبارک سامنے ہے اور بہت چمک رہا ہے۔ (نقش حیات،ج:۱،ص:۹۲)

شہور عالم اور بزرگ مولانا مشتاق احمد انبیٹھوی رحمة الله عليه نے بیان فرمایا کہ ایک بار زیارت بیت اللہ سے فراغت کے بعد دربار رسالت میں حاضری ہوئی تو مدینہ طیبہ کے قیام کے وقت مشائخ وقت سے یہ تذکرہ سناکہ امسال روضہٴ اطہر سے عجیب کرامت کا ظہور ہوا ہے۔ ایک ہندی نوجوان نے جب بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر صلوٰة و سلام پڑھا تو دربارِ رسالت سے … وَعَلَیْکُمُ السَّلاَم یَا وَلَدِیْ… کے پیارے الفاظ سے اس کوجواب ملا۔ اس واقعہ کو سن کر قلب پر ایک خاص اثر ہوا۔ مزید خوشی کا سبب یہ بھی تھا کہ یہ سعادت ہندی نوجوان کو نصیب ہوئی ہے۔ دل تڑپ اٹھا اوراس ہندی نوجوان کی جستجو شروع کردی تاکہ اس محبوبِ بارگاہِ رسالت کی زیارت سے مشرف ہوسکوں اور خود اس واقعہ کی تصدیق بھی کرلوں۔ تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ وہ ہندی نوجوان سید حبیب اللہ مہاجر مدنی رحمة الله عليه کے فرزند ارجمند مولانا حسین احمد مدنی رحمة الله عليه ہیں… ابتداءً انھوں نے خاموشی اختیار کی لیکن اصرار کے بعد فرمایا ”بے شک جو آپ نے سنا وہ صحیح ہے۔“ (الجمعیة شیخ الاسلام نمبر،ص:۴۹)

* شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمة الله عليه کی حیات میں فیض باغ لاہور کے عبدالقادر راج نے خواب میں دیکھا کہ نبی علیہ الصلوٰة والسلام خدام الدین کے دفتر میں تشریف فرما ہیں اور حضرت لاہوری رحمة الله عليه آپ کے سامنے دو زانو بیٹھے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور صلى الله عليه وسلم کے سامنے اپنے ایک ساتھی کو پیش کیا جو مسلک کے بارے میں جھگڑا کرتا تھا، اور دریافت کیا کہ امت کے موجودہ فرقوں میں سے کونسا فرقہ حق پرہے۔ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے حضرت لاہوری رحمة الله عليه کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:

”یہ جو کچھ کہتے ہیں، وہ حق ہے۔“ (خدام الدین: ۲۳/فروری ۱۹۶۳/)

* امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمة الله عليه تقسیم ہند کے بعد سیاست سے الگ ہوکر خاتم النّبیین صلى الله عليه وسلم کی ختم نبوت کی حفاظت پر ہی کمربستہ ہوگئے۔ چنانچہ آپ نے اس سلسلہ میں ملک بھر کے دورے کیے اور ناموس رسول صلى الله عليه وسلم کے تحفظ کے لیے مسلمانوں کو بیدار کیا۔ یوں آپ قادیانیت کے لیے درّئہ عمر فاروق ثابت ہوئے۔

اسی زمانے کی بات ہے کہ حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستی رحمة الله عليه حج کے لیے تشریف لے گئے۔ ارادہ یہ تھا کہ اب پاکستان واپس نہیں آئیں گے۔ مدینہ منورہ میں قیام کے دوران حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی خواب میں زیارت ہوئی۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے ان سے فرمایا:

”یہاں دین کاکام خوب ہورہا ہے، پاکستان میںآ پ کی ضرورت ہے، پاکستان میں جاکر میرے بیٹے عطاء اللہ شاہ بخاری کو میرا سلام کہنا اور کہنا، ختم نبوت کے محاذ پر تمہارے کام سے میں گنبدخضرا میں خوش ہوں، ڈٹے رہو، اس کام کو خوب کرو، میں تمہارے لیے دعا کرتا ہوں۔“

حضرت درخواستی رحمة الله عليه حج سے واپسی پر سیدھے ملتان پہنچے۔ شاہ جی رحمة الله عليه چارپائی پر تھے۔ حضرت درخواستی رحمة الله عليه نے خواب سنایا تو شاہ جی رحمة الله عليه تڑپ کر نیچے گرپڑے۔ کافی دیر کے بعد ہوش آیا۔ بار بار پوچھتے درخواستی صاحب! میرے آقا صلى الله عليه وسلم نے میرا نام بھی لیا تھا۔ حضرت درخواستی رحمة الله عليه کے ہاں میں جواب دینے پر پھر وجد کی حالت طاری ہوجاتی۔

حضرت مولانا محمد علی جالندھری رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ حضرت مولانا رسول خان رحمة الله عليه جو بہت بڑے محدث تھے، نے فرمایا کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم جماعت صحابہ رضوان الله تعالى عليهم اجمعين میں تشریف فرماہیں۔ حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں (ایک سنہری طشت میں آسمان سے) ایک دستار مبارک لائی گئی۔ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے جناب صدیق اکبررضى الله تعالي عنه کو حکم دیا:

”اٹھو اور میرے بیٹے عطاء اللہ شاہ کے سرپر باندھ دو، میں اس سے خوش ہوں کہ اس نے میری ختم نبوت کے لیے بہت سارا کام کیا ہے۔“ (تقاریر مجاہد ملت،ص:۷)

* شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی رحمة الله عليه کو بارگاہِ نبوی صلى الله عليه وسلم میں اس قدر مقبولیت حاصل تھی کہ خودنبی کریم صلى الله عليه وسلم کے اشارے پر سعودی حکومت نے آپ کو مدینہ طیبہ میں سکونت اوراقامت کی خصوصی اجازت مرحمت فرمائی۔

ایک مرتبہ مولانا عبدالحفیظ نے صلوٰة و سلام عرض کرنے کے بعد شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریارحمة الله عليه کی طرف سے صلوٰة وسلام عرض کیا اور صحت کے لیے (دعا کی) درخواست کی۔ حضور اقدس صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:

”ان کے لیے تو ہم خود دعا کرتے ہیں، ان کو یاد دلانے کی ضرورت نہیں۔“

پھر دعا وغیرہ میں مشغول ہوگئے۔ تھوڑی دیر کے بعد دیکھا کہ حضور انور صلى الله عليه وسلم کی دائیں جانب ایک گلدستہ ہے جس میں مختلف قسموں کے دس بارہ پھول ہیں۔ ان میں سے ایک پھول ذرا بڑا اورابھرا ہوا ہے۔ حضور اکرم صلى الله عليه وسلم نے اس بڑے پھول کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:

”یہ (شیخ الحدیث رحمة الله عليه) ہمارے گلدستے کے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ خوشبودار پھول ہیں۔“ (بہجة القلوب،ص:۲۶)

***

_________________

ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 10-11 ، جلد : 92 ذيقعده 1429 ھ مطابق اكتوبر – نومبر 2008ء

Related Posts