از: مولانا رضوان احمدندوی قاسمی
سب ایڈیٹر ہفتہ وار نقیب، پٹنہ
اسلام مسلمانوں کو نظم واتحاد کے ساتھ جماعتی زندگی گذارنے کی تعلیم دیتا ہے وہ انتشار اور خودسرائی کو قطعاً برداشت نہیں کرتا، اس لئے اس نے نظام عبادت کی روح اجتماعیت و شیرازہ بندی پر رکھا تاکہ مسلمان ایک مرکز سے وابستہ رہیں
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
غور کیجئے کہ نمازیں ہر شخص تنہا تنہا بھی ادا کرسکتا ہے۔ بلکہ یہ طریقہ ریا و نمود سے محفوظ اور اخلاص وللہیت سے قریب تر ہے، لیکن پنج وقتہ نمازوں کے لئے جماعت کو واجب قرار دیا، جمعہ وعیدین کے لئے گاؤں کی بڑی جامع مسجد اور عیدگاہ میں اکٹھا ہوکر ایک امام کے پیچھے باجماعت نماز ادا کرنے کو لازم ٹھہرایا تاکہ مسلمانوں کے اندر برادرانہ مساوات کی تربیت دی جاسکے اور دلوں میں اتحاد و ہم آہنگی کے جذبہ کو فروغ مل سکے، نماز باجماعت ادا کرنے کی حکمتوں اور مصلحتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے ہندوستان کے ممتاز مورخ وسیرة نگار حضرت علامہ سیدسلیمان ندوی رحمة الله عليه رقم طراز ہیں کہ
”جماعت کی نماز مسلمانوں میں برادرانہ مساوات اور انسانی برابری کی درس گاہ ہے، یہاں امیرو غریب، کالے گورے، رومی و حبشی، عرب و عجم کی کوئی تمیز نہیں ہے سب ایک ساتھ، ایک درجہ اور ایک صف میں کھڑے ہوکر خدا کے آگے سرنگوں ہوتے ہیں۔ یہاں شاہ و گدا اور شریف و رذیل کی تفریق نہیں، سب ہی ایک زمین پر، ایک امام کے پیچھے ایک صف میں دوش بدوش کھڑے ہوتے ہیں اور کوئی کسی کو اپنی جگہ سے نہیں ہٹاسکتا۔ (سیرة النبی ۵/۱۸۹) گویا۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
نماز میں اجتماع کی وجہ سے اللہ کی طرف سے برکتوں کا نزول ہوتا ہے، آسمان سے رحمتیں اترتی ہیں اور ان کو اپنے سایہ میں ڈھانپ لیتی ہیں، ٹھیک اسی طرح زکوٰة میں بھی اجتماعی نظام کو ملحوظ رکھا گیا، اس کے ذریعہ قوم کے ضعیف و بے سہارا طبقہ کی پرورش و کفالت ہوتی ہے، اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا خذ من اغنیائہم وترد الی فقرائہم زکوٰة ان کے مالداروں سے لی جائے اور حاجت مندوں کو واپس کردی جائے، اسلام نے اجتماعی طورپر ماہ رمضان میں روزہ رکھنے کا حکم دیا، ایسا ہوسکتا تھا کہ ہر ملک کے مسلمان آب و ہوا اور موسم کے لحاظ سے الگ الگ مہینوں میں روزے رکھ لیتے، لیکن تمام مسلمانوں پر ایک ہی مہینہ میں روزہ فرض کیا تاکہ جماعتی شان برقرار رہے، پوری دنیا کے مالدار مسلمانوں پر ایک خاص ایام میں حج کا حکم دیاگیا یہ بات بھی ممکن تھی کہ ہر ممالک کے مسلمانوں کے لئے الگ الگ مہینوں میں فریضہ حج ادا کرنے کی تاکید کی جاتی تاکہ ازدہام کم ہوتا اور مناسک حج کی ادائیگی میں کوئی دشواری پیش نہ آتی، لیکن حکم دیا گیا کہ نہیں، سبھوں کو ذی الحجہ کے ایام میں حج بیت اللہ کا طواف کرنا، صفا ومروہ کا سعی کرنا اور ارکان حج کو ادا کرنا ضروری ہے، تاکہ مسلمانوں میں اجتماعیت اور آفاقیت کا مزاج پیدا ہو اور سارے مسلمان وطنیت، قومیت، تمدن ومعاشرت کے تمام امتیازات کو مٹاکر سب ایک ہی ملت (ملت ابراہیمی) میں گم ہوجائیں اور ایک ہی بولی میں خدا سے باتیں کریں۔ حاکم ہو یا محکوم، عالم وفاضل ہو یا فقیر بے نوا سب اپنی امتیازی حیثیت کو مٹاکر اپنی انانیت اور خودی کو قربان کرکے مالک کے دروازے پر بھکاری بن کر آئے ہیں، یہی وہ وحدت کا رنگ ہے جو ان تمام مادی امتیازات کو مٹادیتا ہے، اسلام کے اسی نظم واتحاد نے انصار کے دو بڑے قبیلے اوس و خزرج کو شیروشکر بنادیا، یہ دونوں ہمیشہ دو مستقل قوموں اور حریفوں کی طرف ایک دوسرے کے مقابلہ میں صف آرا اور نبرد آزا رہتے تھے۔ کسی شاعر نے کہا۔
وہ اوس اور خزرج کی باہم لڑائی
صدی جس میں آدھی انھوں نے گنوائی
اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے کلمہ کی بنیاد پر دونوں کو متحد کردیا، اب یہ دونوں ایک دوسرے کے مونس وہمدرد اور غمگسار بن گئے، صحابی رسول حضرت بلال حبشی رضي الله تعالى عنه کی سماجی حیثیت مکہ میں کچھ نہ تھی، وہ غلام تھے، سیاہ فام تھے بے ننگ ونام تھے، لیکن جب ان کا قلب نور ایمان سے منور ہوگیا اور مشرف بہ اسلام ہوئے، تو انہیں یہ مقام اور مرتبہ ملا کہ دیوار کعبہ پر کھڑے ہوکر اذان دی، حضرت ابوبکر صدیق اور عمر فاروق کے برابر بیٹھنے لگے، کیوں کہ ایمان کا رشتہ خاندانی ونسلی رشتوں سے زیادہ مضبوط ومستحکم ہوتا ہے اور بقول حضرت مولانا ابوالکلام آزاد کہ ”دنیا کے تمام رشتے، عہد مودت، خون و نسل کے باندھے ہوئے پیماں وفا ومحبت ٹوٹ سکتے ہیں، مگر جو رشتہ ایک چین کے مسلمانوں کو افریقہ کے مسلمان سے، ایک عرب کے بدو کو تاتار کے چرواہے سے اور ہندوستان کے نومسلم کو مکہ مکرمہ کے صحیح النسب قریشی سے پیوست ویک جان کرتا ہے، دنیا میں کوئی طاقت نہیں جو اسے توڑ سکے اور اس زنجیر کو کاٹ سکے۔ جس میں خدا کے ہاتھوں نے انسانوں کے دلوں کو ہمیشہ کے لئے جکڑ دیا ہے (خطبات آزاد ۱۸) انہیں رشتوں کی وجہ سے دنیا کے ایک کنارے کسی مسلمان کو تلوے میں کانٹا چبھتا ہے تو اس کی ٹیس دوسرے کنارے میں رہنے والے مسلمان اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں۔حدیث پاک میں فرمایاگیا: تری المومنین فی تراحہم وتواذہم وتعاطفہم کمثل الجسد اذا اشتکی عضوا تداعی لہ سائر الجسد بالسہر والحمٰی تم مسلمانوں کو باہم رحم دل، باہم محبت کرنے والے اور ایک دوسرے کی تکلیف کے احساس کے بارے میں ایسا دیکھوگے جیسا کہ ایک قالب اور ایک عضو بیمار پڑجائے تو سارا جسم بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے اور بیداری کے لئے تیار رہتا ہے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے مسلمانوں کی وحدت واجتماعیت کو ایک عمارت کی مانند قرار دیا۔ فرمایا المومن للمومن کالبنیان یشد بعضہ بعضا ثم شبک اصابعہ ایک مومن دوسرے مومن کے لئے ایک عمارت کی طرح ہے جس طرح مکان کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کے لئے مضبوطی اور قوت کا باعث ہوتی ہے پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں سے ملاکر سمجھایا، مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ جو مذہب عالمگیر وحدت واخوت کا داعی و پیامبر ہے آج خود اس کے پیروکار گروہی و علاقائی عصبیت، خاندانی و نسلی برتری، زبان و بیان اور مسلکی اختلاف کی بنیاد پر انتشار و افتراق کے شکار ہوگئے، انھوں نے رنگ و نسل کے امتیاز و اختلاف کی اونچی اونچی دیواریں کھڑی کردیں کوئی سید خاندان سے تعلق رکھتا ہے تو اس کو اپنے عالی نسب ہونے پر فخر ہے کوئی شیخ و پٹھان ہے تو منصوریوں اور سبزی فروشوں کو نیچی نظروں سے دیکھتا ہے۔
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
افسوس کہ جب قیامت آئے گی تو یہ سارے خاندانی و نسلی رشتے اپنا وجود کھودیں گے، فلا انساب بینہم نسب اور رشتہ داری اس دن کام نہیں آئے گی اس لئے کہ گروہ بندی اور فرقہ بندی شعار جاہلیت ہے۔ حضور صلى الله عليه وسلم نے فتح مکہ کے موقعہ پر آباؤ اجداد اور خاندان کی مفاخرت پر پوری قوت سے چوٹ لگاتے ہوئے فرمایا معشر قریش ان اللّٰہ اذہب فیکم نخوة الجاہلیة وتعظمہا بالآباء قریش کے لوگو! اللہ نے تم کو جاہلیت کی جھوٹی نخوت سے نجات دیدی اور باپ دادا کی بنیاد پر بڑائی جتنلانے کا دستور ختم کردیا، پس جس کسی نے بھی شعار جاہلیت کو زندہ کیا ذات و برادری کی بنیاد پرملت کو ٹکڑوں میں تقسیم کیا اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا، حدیث شریف میں ہے من دعا بدعوا لجاہلیة فہو من جثی جہنم جو جاہلیت کا نعرہ لگائے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اسلام گروہ بندی اور داخلی انتشار کو قطعاً برداشت نہیں کرتا۔ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے حجة الوداع میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا یا ایہا الناس الا ان ربکم واحد لافضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی، علی عربی ولا لاسود علی احمر ولا لاحمر علی اسود الا بالتقوی اے لوگو! تم سب کا رب ایک ہے کسی عربی کو عجمی پر، اور کسی عجمی کو کسی عربی پر اور کسی کالے کو گورے پر، اور کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت نہیں، مگر تقویٰ کی بنیاد پر اس لئے کہ حسب ونسب، خاندان اور قبیلے ایک دوسرے کے تعارف اور شناخت کے لئے بنائے گئے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے یا ایہا الناس انا خلقناکم من ذکر وانثی وجعلناکم شعوبا وقبائل لتعارفوا ان اکرمکم عند اللّٰہ اتقاکم اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر ہم نے تمہیں قوموں اور قبیلوں میں اس لئے بانٹ دیا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے معزز وہ ہیں جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہیں (سورہ الحجرات۱۳) قرآن کریم نے انسانوں کی بنائی ہوئی تمام تفریقات کو توڑ دیا اور بتلایا کہ فخر و عزت کی چیز درحقیقت ایمان اور تقویٰ ہے۔
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
اس لئے قرآن کہتا ہے کہ سب مل کر اپنے پروردگار کے ساتھ وابستہ ہوجاؤ اور اس کے بھیجے ہوئے دین کو مضبوطی سے پکڑلو، واعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعا ولا تفرقوا تم سب اللہ کے دین کو مضبوطی سے پکڑلو اور ٹکڑوں میں نہ بٹو، جس طرح بٹی ہوئی رسی ایک دوسرے کو قوت پہنچاتی ہے تم بھی اتحاد واجتماعیت کی زندگی گذار کر اسلام کو فروغ دو، اگر منتشر رہوگے تو تمہاری اجتماعی قوت ختم ہوجائے گی، قرآن پاک میں ہے ولا تنازعو فتفشلوا وتذہب ریحکم آپس میں نہ جھگڑو، ورنہ تمہارے قدموں میں لغزش پیداہوجائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، بزرگوں نے لکھا ہے کہ جب لوگ گروہ بندیوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں تو ان سے سنجیدگی اور اعتدال کا دامن چھوٹ جاتاہے پھر وہ بے راہ روی کے شکار ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹر طہٰ جابر فیاض علوانی نے اپنی بے نظیر تصنیف ”ادب الاختلاف فی الاسلام“ میں لکھا ہے کہ جب اختلاف بڑھتا ہے تو اس کی خلیجیں وسیع سے وسیع تر ہوتی جاتی ہیں اور آدمی کے حواس پر اس کے اثرات اس حد تک چھاجاتے ہیں کہ وہ نقطہ اتحاد کو بھول جاتا ہے اس کی نظر میں اسلامی اخلاق کی ابتدائی چیزیں بھی نہیں آپاتیں جس کی وجہ سے اس کا معیار فکر بدل جاتا ہے(ص۱۳) پھر اس سے وحدت امت کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمودالحسن صاحب مالٹا کی چار سالہ جیل سے رہائی کے بعد دیوبند تشریف لائے تو فرمایا کہ ہم نے مالٹا کی زندگی میں دو سبق سیکھے ہیں پھر فرمایا کہ میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہورہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے ایک ان کا قرآن کو چھوڑنا، دوسرے ان کے آپس کے اختلاف اور خانہ جنگی، اس لئے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیاہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظاً اور معناً عام کیا جائے، بچوں کے لئے لفظی تعلیم کے مکاتب ہر بستی میں قائم کئے جائیں، بڑوں کو عوامی درس قرآن کی صورت میں اس کے معنی سے روشناس کرایا جائے۔ اور قرآنی تعلیمات پر عمل کیاجائے اور مسلمانوں کے باہمی جنگ وجدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے (وحدت امت ص۴۰) ماضی میں اسپین کی مسلم حکومت (۷۱۱- ۱۴۹۲) کے ختم ہونے کی وجہ بھی مسلمانوں کا باہمی اختلاف تھا۔ اسپینی مسلمانوں نے جس وقت مسیحی قوتوں سے شکست کھائی اس وقت وہ علم وتہذیب اور سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں اپنے حریف سے بدرجہا بڑھے ہوئے تھے اس کے باوجود ان کے شکست و ریخت کی وجہ یہ تھی کہ عیسائی باہم متحد ومنظم تھے جب کہ مسلمان فرقوں اور جماعتوں میں بٹ گئے، امراء و عمال نے مرکز خلافت سے بغاوت کرکے اپنی چھوٹی چھوٹی خودمختار حکومتیں قائم کرلی تھیں (الاسلام ۱۲۸) اسلام نے اسی فکر میں تبدیلی لانے کے لئے ایک مرکز سے وابستہ رہنے کی تعلیم دی، مسلمانوں کی تعظیم و تکریم کو ایمان کی علامت قرار دیا، حضور اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ المسلم اخو المسلم لا یظلمہ ولا یسلمہ ومن کان فی حاجة اخیہ کان اللّٰہ فی حاجتہ ومن فرج عن مسلم کربة فرج اللّٰہ عنہ کربة من کربات یوم القیامة ومن ستر مسلمًا سترہ اللّٰہ یوم القیامة مسلمان مسلمان سب بھائی ہیں نہ ایک دوسرے پر ظلم کرتا ہے نہ اس کو کسی مصیبت میں ڈال سکتا ہے، جو اپنے کسی بھائی کی حاجت روائی کی فکر میں رہتا ہے اللہ اس کی حاجت روائی کرتاہے اور جو کسی مسلمان کی کوئی مشکل آسان کردیتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کی مشکلات میں اس کی مشکل آسان کردیتاہے اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرلیتا ہے اللہ تعالیٰ بھی آخرت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمالیتا ہے۔ دوسری حدیث میں ہے المسلم اخو المسلم لایظلمہ ولا یخذلہ ولایحقرہ التقوی ہہنا ویشیر الی صدرہ ثلث مرار بحسب امراء من الشر ان یحقر اخاہ المسلم کل المسلم علی المسلم حرام دمہ ومالہ وعرضہ (بہ روایت ابوہریرہ) مسلمان سب بھائی بھائی ہیں ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر نہ ظلم کرسکتا ہے نہ بروقت اس کی مدد سے دست کش ہوسکتا ہے اور نہ اس کو حقیر کرسکتا ہے اس کے بعد آپ نے سینہ کی طرف تین بار اشارہ کرکے فرمایا کہ اصل تقوی یہاں ہے برائی کے لئے بس اتنی ہی بات کافی ہے کہ اپنے کسی بھائی کو ذلیل اور حقیر سمجھے یاد رکھو کہ ہر مسلمان پورا کا پورا قابل احترام ہوتا ہے اس کی جان بھی، اس کا مال بھی، اور اس کی آبرو بھی (مسلم شریف) اب وقت آگیا ہے کہ تمام خود غرضیوں اور مصلحتوں سے اوپر اٹھ کر ملت اسلامیہ کے اتحاد میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کیا جائے اور ایک ایسی طاقت بنائی جائے جس کو قرآن پاک نے بنیان مرصوص (سیسہ پلائی ہوئی دیوار) سے تعبیر کیا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اختلاف و افتراق سے بچنے اور اتحاد و اجتماعیت کی زندگی گذارنے کی توفیق بخشے آمین۔
بتان رنگ وخوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی ، نہ ایرانی ، نہ افغانی
(علامہ اقبال)
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شماره : 6 ، جلد : 92 جمادی الثانی 1429ھ مطابق جون 2008ء