از: محمد شمیم اختر قاسمی‏، ریسرچ اسکالر

شعبہ سنی دینیات‏، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ

کیا جزیہ اسلامی ہی کی محدثات ہے:

                جب یہ بات متحقق ہوگئی کہ ہندوستان کے غی0رمسلموں کو فقہائے اسلام نے شبہ اہل کتاب کا درجہ دے کر انہیں ذمی کی حیثیت دی، تو اب یہ دیکھنا ہے کہ ان پرجو جزیہ نافذ کیاگیا، کیا وہ صرف اسلام ہی کا طریقہ ہے یا اس سے پہلے بھی حکمراں جماعت اپنی رعایا سے اس قسم کی رقم وصول کرتی تھی۔ چنانچہ اس سلسلے میں جرجی زیدان(۵۷) نے اسکی تاریخی حیثیت کا تعین کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

”جزیہ کچھ اسلام کی محدثات (نئی پیدا کی ہوئی باتوں) میں سے نہیں ہے، بلکہ یہ تمدن قدیم سے رائج چلا آرہا ہے۔ ایتھینز کے رہنے والے یونانیوں سے پانچویں صدی قبل مسیح میں سواحل ایشیاء کوچک کے رہنے والوں پر جزیہ مقرر کیاگیا تھا اورانھوں نے اس جزیہ کا تقرر اس ذمہ داری کے مقابلہ میں کیا تھا جو انھوں نے ان مقامات کے باشندوں کو اہل فینیفیہ کے حملوں سے محفوظ رکھنے کی بابت اٹھائی تھی اور فینیفیہ اس زمانے میں فارس کا مقبوضہ ملک تھا۔ ان سواحل کے باشندوں کو اپنی جانوں کی حفاظت کے مقابلہ میں مال کا دے دینا آسان معلوم ہوا اور انھوں نے اسے خوشی کے ساتھ منظور کرلیاتھا۔ رومانی لوگوں نے جن قوموں کو زیر کرکے اپنا تابع و فرماں بردار بنایا ان پر انھوں نے مسلمانوں کے اس مقدار جزیہ سے جس کو فاتحین اسلام نے اس زمانہ کے بہت عرصہ بعد مقرر کیاتھا کہیں اور کئی حصہ بڑھ کر جزیہ مقرر کردیاتھا؛ کیوں کہ رومانی لوگوں نے جس زمانہ میں گال (فرانس کا ملک) فتح کیا ہے تو انھوں نے وہاں کے ہر ایک باشندہ پر جزیہ مقرر کیا تھا جس کی تعداد ۹ سے ۱۵ گنی سالانہ تک کے مابین ہوتی تھی، یا یوں کہنا چاہیے کہ مسلمانوں کے مقرر کردہ جزیہ سے سات گنی تھی۔“(۵۸)

                پروفیسر خلیق احمد نظامی نے متعدد مستند حوالوں کی روشنی میں ثابت کیاہے کہ اسلام سے پہلے اوراس کے بعد بھی دنیا کے مختلف ممالک اور ملل کے سربراہ اپنی رعایا سے ایک مخصوص رقم وصول کرتی تھی، جو اسلامی جزیہ سے ہرگز مختلف نہیں، چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ:

”تاریخی شواہد سے ثابت ہے کہ اسلام سے پہلے جزیہ کا لفظ رائج ہوچکا تھا اور نوشیرواں عادل نے اس کے قواعد بھی مرتب کیے تھے۔ ایران اور روم میں اس طرح کے ٹیکس لیے جاتے تھے۔ عرب کے جو علاقے ان کے زیر نگیں تھے وہ اسی طرح کے ٹیکسوں سے واقف تھے۔ ہندوستان کے شہری بھی اس قسم کے ٹیکسوں سے ناواقف نہ تھے۔ قنوج کا گہروار خاندان ایک ٹیکس ترشکی ڈانڈا وصول کرتا تھا۔ ٹاڈنے لکھا ہے کہ اس کے زمانہ میں بھی بعض راج پوت ریاستیں ایک روپیہ فی کس وصول کرتی تھی۔ ڈاکٹر ترپاٹھی کا خیال ہے کہ کم و بیش اسی نوعیت کے ٹیکس فرانس میں Hoste tax ،جرمنی میں Commen Penny انگلستان میں Sculage کے نام سے وصول کیے جاتے تھے۔“(۶۰)

                علامہ شبلی نعمانی(۶۱) نے بھی اپنی تحقیق میں وضاحت کی ہے کہ جزیہ اسلام سے بہت پہلے کی پیداوار ہے اور غالبا نوشیرواں کے عہد میں نہ صرف اس کا نفاذ ہوا بلکہ اس نے اس حوالے سے باضابطہ اصول و ضوابط مرتب کیے۔ اس ضابطے میں معزز حضرات شامل نہ کیے گئے اور صرف متوسط اور مفلوک الحال لوگوں سے جزیہ بمعنی ٹیکس وصول کیا جاتا رہا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ:

”جہاں تک ہم کو معلوم ہے کہ ایران و عرب میں خراج و جزیہ کے وہ قواعد جو باقی اسلام میں رائج ہیں، نوشیرواں کے عہد میں مرتب ہوئے۔ امام ابوجعفر طبری جو بہت بڑے محدث اور مورخ تھے نوشیرواں کے انتظامات ملکی کے بیان میں لکھتے ہیں کہ : ”لوگوں پر جزیہ مقرر کیاگیاجس کی شرح ۱۲ درہم اور ۸ و ۶ و ۴ تھی، لیکن خاندانی شرفا اور امرا اور اہل فوج اور پیشوایانِ مذہب اور اہل قلم اور عہدہ داران دربار جزیہ سے مستثنیٰ تھے اور وہ لوگ بھی جن کی عمر ۵۰ سے زیادہ یا بیس کے کم ہوتی تھی“۔ امام موصوف اس واقعہ کے بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ : حضرت عمر نے جب فارس کو فتح کیا تو ان ہی قاعدوں کی تقلید کی۔ علامہ ابوحنیفہ دینوری نے بھی کتاب الاخبار والاحوال میں بعینہ اس تفصیل کو نقل کیا ہے․․․․ اس غرض سے نوشیرواں نے جزیہ کا قاعدہ جاری کیا اس کی وجہ علامہ طبری نے نوشیرواں کے اقوال سے یہ نقل کی ہے کہ ”اہل فوج ملک کے محافظ ہیں اور ملک کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈالتے ہیں، اس لیے لوگوں کی آمدنی سے ان لیے ایک رقم خاص مقرر کی کہ ان کی محنتوں کا معاوضہ ہو ․․․“ خراج و جزیہ کے متعلق جو کچھ ان مورخوں نے لکھا ہے اس کی تائید فردوسی کے اشعار سے بھی ہوتی ہے، اگرچہ بعض امور میں دونوں کا بیان مختلف ہے۔“(۶۲)

جزیہ کی وصولی اسلامی سلطنت کی ناگزیر ضرورت:

                قابل ذکر ہے کہ ٹیکس ہو یا جزیہ کسی بھی مملکت کے سربراہ کے لیے اپنے ملک میں مقیم رعایا سے وصول کرنا ناگزیرامر ہے، جس کے بغیر حکومت کا نظم و نسق سنبھالا نہیں جاسکتا، کیوں کہ اس طرح کی رقم وصول کرکے رعایاپر ہی مختلف طریقے سے خرچ کردی جاتی ہے۔ مگر اس ٹیکس کی وصولی میں رعایا کے کسی بھی طبقہ کی تخصیص نہیں۔ اس کے برعکس اسلام نے غیر مسلموں سے ٹیکس وصولی میں اس کی مالی حیثیت کے علاوہ سماج کے کمزور طبقہ کو اس سے بری کردیا، جس کی وضاحت کی جاچکی ہے، اور جس مقدار میں رقم وصول کی جاتی تھی اس کی ادائیگی کسی بھی فرد کے لیے چنداں مشکل نہ تھا، جو دوسرے سربراہ مملک جبراً و قہرا اپنی رعایاسے وصول کرتے تھے۔

                اس کے علاوہ بعضے وقت اس رقم سے ذمی اور معاہد کی مدد بھی کی جاتی تھی جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ حضرت عمر(۶۳) نے اپنے زمانہ خلافت میں ایک غیرمسلم بوڑھے شخص کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا، انھوں نے اس بوڑھے فقیر سے پوچھا کہ تیرا کیا مذہب ہے، اس نے اپنا مذہب یہودی بتایا، حضرت عمر کو اس بوڑھے پر بہت ترس آیا۔ وہ فقیر کو اپنے ساتھ لائے اور روپے پیسے دینے کے بعد بیت المال کے افسر سے کہلا بھیجا کہ اس بوڑھے اوراس کے ساتھیوں پر خیال کرو۔ اللہ کی قسم! یہ ناانصافی ہوگی کہ اس کی جوانی کی کمائی ہم کھائیں اور اب یہ بوڑھا ہوگیا ہے تو اس کو ہم نکال دیں۔ صدقے کی نسبت جو خدا نے کہا ہے کہ فقیروں اورمسکینوں کو دینا چاہیے تو فقیروں سے مسلمان اور مسکینوں سے اہل کتاب مراد ہیں۔(۶۴)

                اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں نے غیرمسلموں سے جزیہ وصول کرکے انہیں ہر قسم کی آزادی اور امان دے دیا۔ یہاں تک کہ انہیں یہ بھی ضمانت دی کہ دشمنوں کے حملے اور ان کے ظلم سے انہیں محفوظ رکھا جائے گا۔ جب کبھی مسلم فاتح اس قسم کے حقوق دینے میں خود کو کمزور پایا تو وصول کی جانے والی جزیہ کی رقم کو واپس کردیا یہ کہہ کر کہ ان حالات میں تمہاری حفاظت ممکن نہیں، تم اپنی حفاظت خود کرو، جس کی ایک مثال یہ ہے کہ حضرت عمر ہی کے زمانے میں جب اسلامی فوجیں حمص (شام) سے ہٹ آئیں تو حضرت عبیدہ(۶۵) رضی اللہ عنہ نے وہاں کے یہودیوں اور عیسائیوں کو بلاکر کئی لاکھ رقم جزیہ کی یہ کہہ کر واپس کردی کہ اب تمہاری حفاظت نہیں کرسکتے، اس لیے جزیے کی رقم بھی نہیں رکھ سکتے۔ اس قسم کی حفاظت اور تعاون کی مثال کیا دنیا کے کسی دوسرے فاتحین کی تاریخ میں مل سکتی ہے کہ اس نے غیر مذہب رعایا کی خاطرداری اوراس کی حفاظت کی ذمہ داری اس انداز میں لی ہو(۶۶)۔ بلکہ اگر تاریخ کا مطالعہ کیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہود و نصاریٰ نے جب بھی عروج حاصل کیا تو ایک نے دوسرے پر کتنے شدید مظالم ڈھائے اور انہیں نیست و نابود کیا۔ حکمراں جماعت نے کمزور طبقہ کو بڑی بے دردی سے کچلا اور ستایا۔ خود ہندوستان میں ہندو مذہب اور بدھ مت کے عروج و زوال کی داستان بڑی کرب ناک ہے ایک دوسرے نے اپنے زمانہ عروج میں محکوم طبقہ کا جینا حرام کردیا اور ایک دوسرے کے معابد و منادر کو منہدم اور مسمار کیا۔(۶۷)

                تاریخ ہند خاموش ہے کہ مسلم حکمرانوں نے ہندوستان میں داخل ہونے کے بعد جزیہ کی وصولی سے پہلے یا اس کے بعد اپنی غیرمسلم رعایاکو تعصب و تنگ نظری کی بنا پر ستایا اور تہہ تیغ کیا اور ان کے منادر و معابد پر دست درازی کی بلکہ تاریخ بتاتی ہے کہ جنھوں نے جزیہ ادا کیا یا جو ٹیکس دینے سے مجبور رہے سب کو یکساں حقوق ملے، جس حد تک فقہاء نے ان کے حقوق متعین کیے ہیں۔ بلکہ بعضے وقت تو حکمراں جماعت ان حقوق متعینہ سے زیادہ ان کا خیال رکھا اور سلطنت کے اہم امور ان کے سپرد کیے اور ان پر غیر معمولی اعتماد و بھروسہ کیا۔

”مسلمان فاتح نے مفتوحوں کے ساتھ عقلمندی اور فیاضی کا سلوک کیا۔ مال گزاری کا پرانا نظام قائم رہنے دیا، اور قدیمی ملازموں کو برقرار رکھا، ہندوپجاریوں اور برہمنوں کو اپنے مندروں میں پرستش کی اجازت دی اور ان پر فقط ایک خفیف سا محصول عاید کیا جو آمدنی کے مطابق ادا کرنا پڑتا تھا۔ زمینداروں کو اجازت دی گئی کہ وہ برہمنوں اور ہندوؤں کو قدیم ٹیکس دیتے رہیں۔“

                سندھ میں داخلہ کے بعد محمد بن قاسم نے اگر کچھ متمول لوگوں سے جزیہ وصول کیاتو اس کے ساتھ انھوں نے غیرمسلموں کو جس فراخ دلی سے عہدے اور مناصب دئیے اس پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالتے ہوئے شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں کہ:

”محمد بن قاسم نے پرانے نظام کو حتی الوسع تبدیل نہ کیا، راجا داہر کے وزیراعظم کو وزارت پر برقرار رکھا اور اس کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے تمام نظام سلطنت ہندوؤں کے ہاتھ میں رہنے دیا۔ عرب فوجی اور سپاہیانہ انتظام کے لیے تھے، مسلمانوں کے مقدمات کا فیصلہ قاضی کرتے تھے، لیکن ہندوؤں کے لیے ان کی پنچائتیں بدستور قائم رہیں۔“

                جزیہ دے کر غیرمسلم اسلامی ریاست کی طرف سے فوجی خدمات، ملک کی نگہداشت اور دوسرے کاموں سے بری ہوجاتے اور انہیں مسلمانوں کے مساوی حقوق حاصل ہوجاتے۔ حالاں کہ مسلمانوں کو اس طرح کے کئی ٹیکس زکوٰة و صدقات اور عشر و خراج نکالنے پڑتے تھے اور حکومت ان سے وصول کرتی تھی، باوجود اس کے ملک کی فلاح و بہبود اوراس کی تعمیر و ترقی کے ساتھ فوجی خدمات پر بھی مامور ہونا پڑتا ہے، جہاد میں شرکت کرنا پڑتا تھا۔ چنانچہ جزیہ کی وصولی کی حکمت بیان کرتے ہوئے علامہ یوسف القرضاوی لکھتے ہیں کہ:

”ذمیوں پر جزیہ لگانے کی ایک دوسری وجہ بھی تھی اور یہ وہی وجہ ہے جس کا سہارا ہر زمانہ میں کوئی بھی حکومت ٹیکس لگاتے وقت لیتی ہے، یعنی مفاد عامہ کے اخراجات مثلاً پولیس اور عدالت کا نظام، سڑکوں اور پلوں وغیرہ کی تعمیر کے کام جو معیشت کی بہتری کے لیے ضروری ہیں اور جن سے ہرشہری چاہے وہ مسلمان ہو یا غیرمسلم یکساں فائدہ اٹھاتا ہے۔ مسلمان زکوٰة، صدقہٴ فطر اور دیگر ٹیکسوں کی صورت میں اس طرح کے اخراجات میں حصہ لیتے ہیں۔ اگر غیرمسلمین جزیہ کی صورت میں ایک معمولی رقم کے ذریعہ ان میں حصہ لیں تو تعجب کی کیا بات ہوگی۔“(۹۷)

                پھر علامہ موصوف یہ بھی لکھتے ہیں کہ:

”اس فریضہ کے بدلہ وطن کے دفاع و حفاظت کے اخراجات میں شرکت کیلئے غیرمسلم شہریوں پر جو ٹیکس لگایا گیا ہے اسے اصطلاحاً جزیہ کہتے ہیں، چنانچہ جزیہ کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ وہ فوجی خدمت کا مالی بدل ہے نہ کہ اسلامی حکومت کے سامنے جھکنے کی علامت۔“(۹۷)

جزیہ کب ساقط ہوگا:

                جزیہ فوجی خدمات سے سبکدوشی کا بدل ہے، اگر کوئی ذمی اپنی مرضی سے اس میں شامل ہونا چاہتا ہے یا ریاست کے مفاد کے لیے اپنی خدمات پیش کرنا چاہتا ہے اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر دشمنان اسلام سے دارالاسلام کو بچانے کے لیے جنگ میں حصہ لیتے ہیں تو ایسی صورت میں ان سے جزیہ ساقط ہوجائے گا اور تمام حقوق مثل مسلمان کے اسے حاصل رہیں گے۔“(۹۸)

                اسی طرح اگر حکام وقت ذمیوں کی حفاظت کرپانے پر قادر نہیں ہیں تو پھر ضروری ہوگا کہ امارت کے سربراہ جزیہ کی رقم واپس کردیں۔ جس کی طرف گذشتہ سطور میں اشارہ کیا جاچکا ہے کہ ایسے حالات میں لی گئی جزیہ کی رقم واپس کردی گئی۔(۹۹)

                انہی رعایتوں سے فائدہ اٹھاکر بہت سے ذمیوں نے ترقی کے اعلیٰ مدارج طے کیے اور بڑے بڑے عہدے ان کے ذمے کیے گئے (۱۰۰) اور بقول مولانا شبلی نعمانی ہرزمانے میں سیکڑوں اور ہزاروں عیسائی، یہودی، ہندو، آتش پرست سرکاری خدمتوں پر مامور ہوئے، ہندوستان میں ایک خاص تغیر ہوا، یعنی یہ کہ ہندوؤں نے کثرت سے فوجی خدمتیں قبول کیں اور فوج میں بہت بڑا حصہ ان کا تھا۔ اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ ہندوؤں نے ہرقسم کے بڑے بڑے عہدے حاصل کیے۔(۱۰۱)

تنقیض معادہ کی صورت اور علت:

                ذمی یا معاہد کو اسلامی قلم رو میں ہر قسم کی آزادی اور مراعات حاصل ہوں گی، جو ایک مسلمان کو حاصل ہوتے ہیں۔ البتہ وہ اسلامی قلم رو میں ایساکوئی کام نہیں کریں گے جو حکومت کے منشا کے خلاف ہو۔ مثلاً

                اگر ذمی جزیہ ادا کرنے یا معاہدہ کے خلاف کسی حکم کوماننے سے انکار کردے، یا کسی مسلمان کو قتل کردے، یا مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لیے لوگوں کو جمع کرے، یا کسی مسلمان عورت سے زنا کرے یعنی نکاح (غیرشرعی) کرکے مسلمان عورت سے قربت کرے، یا کسی مسلمان کو اسلام کی طرف سے ورغلائے، یا مسلمانوں کو راستہ میں لوٹ لے اور رہزنی کرے یا مشرکوں کے لیے جاسوسی کرے، یا مسلمانوں کے خلاف کافروں کی راہنمائی کرے، یا کافروں کو مسلمانوں کی خبریں اور مسلمانوں کے رازوں سے واقف کرے تو ظاہر روایت کے مطابق ایسے ذمی کا معاہدہ توڑ دیا جائے گا اور وہ ذمی نہیں رہے گا۔ ایک دوسری روایت یہ ہے کہ معاہدہ ذمیت کی شکست صرف اسی وقت کی جاسکتی ہے کہ ذمی اداء جزیہ سے یا ہمارے احکام کو ماننے سے انکار کردے۔(۶۸)

                امام مالک نے فرمایا کہ صرف تین وجوہ سے ذمیت کا معاہدہ توڑا جاسکتا ہے۔ جزیہ دینے سے انکار کردے یا اسلام کے احکام کو لاگوہونے سے انکار کردے، یا مسلمانوں سے لڑنے کا پکا ارادہ کرلے۔ ہاں اگر مندرجہ بالا امور کی شرط معاہدے کے وقت کرلی گئی ہو تو پھر امور مندرجہ بالا میں سے اگر کوئی خدمت کرے تواس کی ذمیت کا معاہدہ توڑدیا جائے گا۔(۶۹)

                امام شافعی نے فرمایا کہ مسلمان عورتوں سے اگر ذمی زنا کرے یا برائے نام نکاح کے بعد مسلمان عورت سے قربت کرے یا رہزنی کرے تو ان تینوں صورتوں میں معاہدہ نہیں توڑا جاسکتا۔ باقی مذکورہ بالا صورتوں میں معاہدہ توڑ دیا جائے گا۔(۷۰) امام مالک کے شاگرد قاسم کے نزدیک رہزنی کی صورت میں بھی شکست معاہدہ کی جاسکتی ہے۔(۷۱)

                امام ابوحنیفہ نے کہا کہ صرف اس صورت میں معاہدہ توڑا جاسکتا ہے کہ ذمی دارالحرب سے مل جائے یا اس کے پاس کوئی فوجی طاقت ہو جس کی وجہ سے وہ دارالاسلام کے کسی حصہ پر قابض ہوگیا ہو۔ ان دونوں صورتوں میں وہ حربی ہوجائے گا۔ ذمی نہ رہے گا، باقی کسی صورت میں جزیہ کا وعدہ کرلیتے ہیں اور جزیہ کو اپنے اوپر لاگو مان لیتے ہیں (اس کے بعد ادا بھی کرتے ہیں یا نہیں یہ دوسری بات ہے) جزیہ ادا کرنا معاہدے کی بنیاد نہیں ہے۔ اب اگر کوئی آدمی جزیہ نہیں دیتا اوراس کے پاس جنگی یافوجی قوت بھی نہیں ہے تواس نہ دینے کا اعتبار نہیں (ہم اس کو باغی یا جری نہیں کہہ سکتے) امام المسلمین اس کو گرفتار کراسکتا ہے اور مارسکتا ہے۔(۷۲)

جزیہ کی مقدار کیاہوگی:

                حکومت اسلامی مقیم غیرمسلموں سے جزیہ کی رقم کتنی مقدار میں وصول کی جائے گی۔ اس کے بارے میں امام ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ اس کا تعین باہم صلح اوررضامندی سے ہونا چاہیے۔ دونوں جتنی مقدار میں جزیہ کی رقم طے کرلیں۔ دلیل کے لیے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے یمن کے نجرانیوں سے، قسط وار دوہزار کپڑے کے جوڑوں کی شرط پر صلح کی تھی۔ ایک قسط ماہ رجب میں ادا کریں اور دوسری قسط ماہ صفر میں۔ اور اگر مصالحت کے بجائے بطور غلبہ ان پر اقتدار حاصل کیاگیا تو ہر مال دار سے چار درہم ماہانہ کے اعتبار سے یعنی سالانہ ۴۸ درہم، متوسط درجہ سے دو درہم ماہانہ کے حساب سے اور غریب سے برسرروزگار سے جو سال کے زیادہ حصوں میں تندرست رہتا ہو ایک درہم ماہانہ کے حساب سے جزیہ وصول کیا جائے گا۔(۷۳)

                یہاں یہ امر ملحوظ رہے کہ ہندوستان کی فتح بزور طاقت ہوئی تھی۔ اس لیے ابتدائی مسلم فاتحوں نے یہاں کی ذمی (غیرمسلموں) سے جزیہ کی رقم مذکورہ بالا تصریح کی روشنی میں اسی مقدار میں وصول کیا جس کا ادا کرنا چنداں مشکل نہیں۔

                امام مالک کا مشہور قول یہ ہے کہ امیر غریب کا کوئی فرق نہیں ہر شخص سے چار دینار یا چالیس درہم سالانہ لیے جائیں۔(۷۳) امام شافعی کے نزدیک ہر غریب امیر سے سالانہ ایک دینارلیا جائے(۷۴)۔ امام احمد کے چار اقوال مختلف روایات میںآ ئے ہیں۔ پہلی روایت میں وہ امام ابوحنیفہ کے ساتھ ہیں۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ مقدار کی تعین امیر اسلام کی رائے پر ہے۔ متعین مقدار کوئی نہیں۔ تیسری روایت میںآ یا ہے کہ کم سے کم ایک دینار سالانہ لیا جائے، زیادہ کی حد بندی نہیں ہے۔ چوتھی روایت میںآ یا ہے کہ صرف اہل یمن کے لیے ایک دینار فی کش سالانہ مخصوص تھا۔ (یہ حکم عمومی ہر ذمی کے لیے نہیں)(۷۵)

                امام ابوحنیفہ کے نزدیک سال شروع ہوتے ہی پورے سال کا جزیہ ادا کرنا واجب ہوگا۔ امام مالک کا قول بھی ایک روایت میں یہی آیا ہے۔ لہٰذا ذمیت کا معاہدہ ہوتے ہی سال بھر کا جزیہ اداکرنا لازم ہے۔ امام شافعی اورامام احمد کے نزدیک اداء جزیہ کا وجوب سال ختم ہونے پر ہوتا ہے، اس لیے سال گزرنے سے پہلے مطالبہ نہیں کیاجاسکتا۔ امام مالک کا بھی مشہور قول یہی ہے۔(۷۷)

                اگر دوران سال یا سال تمام ہونے کے بعد ذمی مرجائے اور جزیہ ادا نہ کیا ہو تو امام ابوحنیفہ اور امام احمد کے نزدیک واجب الادا رقم جزیہ ساقط ہوجائے گی۔ (اس کے ترکہ سے وصول نہیں کی جائے گی) کیوں کہ جزیہ کفر کی دنیوی سزا ہے اور موت سے تمام دنیوی سزائیں ساقط ہوجاتی ہیں، جس طرح حدود (وقصاص) کا سقوط ہوجاتا ہے(۷۸)۔ امام شافعی اور امام مالک کے نزدیک جزیہ چوں کہ دارالاسلام میں رہنے کا اور حفاظت جان کا معاوضہ ہے اور سکونت و حفاظت سے مرنے والا سال بھر فائدہ اٹھاچکا ہے اس لیے معاوضہ کی ادائیگی واجب ہے اورجزیہ اس کے ترکہ سے وصول کیا جائے گا، بالکل اسی طرح جس طرح دوسرے قرض ترکہ سے وصول کیے جاتے ہیں۔(۷۹)

ذمی اور معاہد کن لوگوں کو کہا جائے گا:

                ذمی اور معاہد اگرچہ دو مختلف فقہی اصطلاحات ہیں۔ مگر سلطنت اسلامی میں آجانے کے بعد دونوں کے احکام یکساں ہی ہیں۔ یعنی یہ کہ سلطان وقت غیرمسلموں کی حتی المقدور نگہداشت کرے اوراس کی راحت رسانی اور اس کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرے۔ یہ ساری سہولتیں دراصل جزیہ کا بدل ہے۔ چنانچہ ذمی اور معاہد کے سلسلے میں جو احکام ملتے ہیں اور ان کی جو تعریف شرعی واصطلاحی کی گئی ہے وہ مندرجہ ذیل ہے:

”ذمی یا ذمہ کے معنی عہد، کفالت، حرمت، ذمے داری اور حق کے آتے ہیں۔ ”رجل ذمی“ کے معنی ہیں رجل لہ عہد یعنی وہ شخص جس سے کوئی عہد وپیمان کیاگیا ہو۔ اس لیے اہل العہد اور اہل الذمہ مترادف الفاظ ہیں۔ جوہری نے لکھا ہے کہ اہل العقد کو اہل الذمہ کہا جاتا ہے۔ ابوعبیدہ نے ذمہ کے معنی امان کیے ہیں، چنانچہ حدیث نبوی ویسعی بذمتہم ادناہم میں ذمہ کے معنی ”امان“ ہی کے لیے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ قوم میں سے کوئی ایک شخص بھی کسی کو اماں دے دے تو پوری قوم کا فرض ہے کہ جسے امان دی گئی ہے،اس کی حفاظت کرے اوراسے گزند نہ پہنچائے۔ چنانچہ ایک غلام نے دشمن کے ایک لشکر کو امان دے دی تھی تو حضرت عمر نے اس کے وعدے کو قائم رکھا تھا۔ معاہد کو ذمی اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی حفاظت، امان، ذمے داری اور معاہدے میں ہوتے ہیں۔ (لدخولہم فی عہد المسلمین وامانہم) قرآن مجید میں ہے: لا یرقبون فی مومن الا ولا ذمة (التوبہ:۹) یعنی کسی مسلمان کے حق میں قرابت اور عہد کا لحاظ نہیں کرتے۔ یہاں ذمہ سے عہد مراد ہے۔ اصطلاح میں یہ وہ ذمہ داری ہے جو اسلامی حکومت اپنی غیرمسلم رعایا کو ذمی یا اہل ذمہ کہا جاتا ہے۔ گویا یہ وہ لوگ ہیں جن کے جان ومال اور عزت و آبرو اور شہری حقوق کی حفاظت کا اسلامی حکومت نے ذمہ لیا ہے۔ یہ ذمہ داری بڑی مقدس ہے۔ امام ابوزید نے لکھا ہے کہ: ان الذمة شرعاً وصفٌ یصیر بہ الانسان اہلا لما لہ ولما علیہ یعنی اصطلاح شریعت میں ذمہ سے مراد وہ وصف ہے جس کے ذریعہ کوئی شخص اپنے حقوق اور ذمے داریوں کا اہل گردانا جاتا ہے۔ اسلامی اصطلاح میں ذمی لفظ میں ذم یاتحقیر کا پہلو نہیں، بلکہ لفظ ذمی میں اس کی حفاظت کی کفالت اور اس کی شہریت کی حفاظت کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ یہ اسلامی حکومت میں رہنے والا وہ غیرمسلم ہے جس کی حفاظت کرنے اورجس کے حقوق ادا کرنے کا اسلامی حکومت نے ذمہ لیا ہے۔“(۹۱)

شرعی احکام میں ذمی اور معاہد برابر ہیں:

                ذمی اور معاہد دو اصطلاحیں عام طور سے مروج ہیں جو اسلامی مملکت میں رہتے ہیں، ان کے احکام بھی یکساں ہیں، البتہ دونوں میں فرق یہ ہے کہ ذمی جو ممالک جنگ کے بعد فتح ہوئے اور وہاں کے باشندوں کی اسلامی ریاست نے جان و مال، عزت و آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری لی اور انہیں مذہبی آزادی دی اور ان کے قانونی حقوق متعین کیے اور ان سے فوجی خدمات نہیں لی گئی انہیں اصطلاح میں ذمی کہا جائے گا اور ان حقوق کے عطا کرنے کے بعد ایسے لوگوں سے ریاست کے حکام ایک رقم وصول کریں گے جو جزیہ کہلاتا ہے۔(۹۲)

                وہ غیرمسلم علاقے جو جنگ کے ذریعہ فتح نہیں ہوئے بلکہ بعض شرائط کی بناپر وہ اسلامی ریاست میں شامل ہوکر اس کا حصہ بن گئے اور شرائط کے تعین میں دونوں قوموں نے رضامندی ظاہر کردی جو ملک کی سالمیت اوراس کے مفاد کے لیے کوئی خطرہ پیدا نہیں کرسکتے، لہٰذا جن شرائط کے ساتھ معاہد اور پابندی کی گئی تو ایسے لوگوں کو معاہد کہا جائے گا۔(۹۳)

                مختصر یہ کہ ذمی اور معاہد میں بس اتنا فرق ہے کہ ذمی کو اسلامی ریاست اپنی طرف سے حقوق دیتی ہے اور معاہد ریاست سے معاہدہ کے تحت اپنے حقوق کا تعین کرنا ہے۔ علماء جب ذمی کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو دونوں طرح کے لوگ اس میں شامل ہوتے ہیں۔ چنانچہ علامہ ابن اثیر معاہد کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ:

                المعاہد من کان بینک وبینہ عہد واکثر ما یطلق فی الحدیث علی اہل الذمة وقد یطلق علی غیرہم من الکفار اذا صولحوا علی ترک الحرب مدة ما لانہ معصوم المال یجری حکمہ مجری حکم الذمی“(۹۴)

                (معاہد وہ ہے کہ تمہارے اور اس کے درمیان عہد و پیمان ہو۔ حدیث میں اس کا زیادہ تر اطلاق ذمیوں پر ہوتا ہے، کبھی ان کے علاوہ یہ ان غیرمسلموں کے لیے بھی بولا جاتا ہے جن سے کسی مدت تک کے لیے جنگ بندی کی صلح کی جائے ۔ اس لیے کہ اس کے مال کو عصمت اور حفاظت حاصل ہے، اس پر وہی حکم نافذ ہوگا جو ذمی پر نافذ ہوتا ہے)

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ3، جلد: 91 ‏، صفر 1428 ہجری مطابق مارچ2007ء

Related Posts