از: سید کمال اللہ بختیار ندوی‏،  لکچرر شعبہٴ عربی دی نیوکالج چینائی

                اسلام میں نکاح کی بڑی اہمیت ہے۔ اسلام نے نکاح کے تعلق سے جو فکرِ اعتدال اور نظریہٴ توازن پیش کیا ہے وہ نہایت جامع اور بے نظیر ہے۔ اسلام کی نظر میں نکاح محض انسانی خواہشات کی تکمیل اور فطری جذبات کی تسکین کا نام نہیں ہے۔ انسان کی جس طرح بہت ساری فطری ضروریات ہیں بس اسی طرح نکاح بھی انسان کی ایک اہم فطری ضرورت ہے۔ اس لیے اسلام میں انسان کو اپنی اس فطری ضرورت کو جائزاور مہذب طریقے کے ساتھ پوراکرنے کی اجازت ہے اوراسلام نے نکاح کوانسانی بقا وتحفظ کے لیے ضروری بتایا ہے اسلام نے تو نکاح کو احساسِ بندگی اور شعورِ زندگی کے لیے عبادت سے تعبیر فرمایا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو اپنی سنت قرار دیا ہے۔ ارشاد نبوی ہے: ”النکاح من سنّتی“ نکاح کرنا میری سنت ہے۔(۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کوآدھا ایمان بھی قرار دیا ہے ”اِذَا تَزَوَّجَ الْعَبْدُ اِسْتَکْمَلَ نِصْفَ الدِّیْنِ فَلْیَتَّقِ فِیْ النِّصْفِ الْبَاقِیْ“ جو کوئی نکاح کرتاہے تو وہ آدھا ایمان مکمل کرلیتاہے اور باقی آدھے دین میں اللہ سے ڈرتا رہے۔(۲) نکاح انبیاء کرام کی بھی سنت ہے۔ ارشاد ربانی ہے ”وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَہُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةً“ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ہم نے آپ سے پہلے یقینا رسول بھیجے اورانہیں بیویوں اور اولاد سے بھی نوازا(۳)۔ اس ارشاد ربانی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کرام بھی صاحبِ اہل وعیال رہے ہیں۔ارشاد نبوی اس طرح ہے حضرت ابوایوب انصاری فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا رسولوں کی چار سنتیں ہیں: (۱) شرم و حیاکا خیال (۲)مسواک کا اہتمام (۳) عطر کا استعمال (۴) نکاح کا التزام(۴)۔

                نکاح کی اہمیت ان احادیث سے بھی واضح ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے نوجوانو! تم میں سے جو نکاح کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی طاقت رکھتا ہے اسے نکاح کرلینا چاہئے کیونکہ نکاح نگاہ کو نیچا رکھتا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے (یعنی نظرکو بہکنے سے اور جذبات کو بے لگام ہونے سے بچاتا ہے) اور جو نکاح کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا ہے اسے چاہئے کہ شہوت کا زور توڑنے کے لیے وقتاً فوقتاً روزے رکھے(۵)۔ اسی طرح ایک مرتبہ جب بعض صحابہ کرام نے عبادت و ریاضت میں یکسوئی و دلچسپی کے پیشِ نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی قوت شہوت کو ختم کردینے کی خواہش ظاہر کی تو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع فرمایا اور شادی نہ کرنے کو زندگی سے فرار اختیار کرنا قرار دیا۔ اس لیے کہ اسلام زندگی سے فرار کی راہ کو بالکل ناپسند کرتاہے۔ چنانچہ ارشاد نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ”وَاللّٰہِ اِنِّیْ لاَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَاَتْقَاکُمْ لَہ وَلٰکِنِّیْ اَصُوْمُ وَاُفْطِرُ وَاُصَلِّیْ وَاَرْقُدُ وَاَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ“ بخدا میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ اس کی ناراضگی سے بچنے والا ہوں (لیکن میرا حال) یہ ہے کہ میں کبھی نفل روزے رکھتا ہوں اور کبھی بغیر روزوں کے رہتا ہوں راتوں میں نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور شادی بھی کرتا ہوں (یہ میرا طریقہ ہے) اور جو میرے طریقے سے منھ موڑے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔(۶)

                انسان کسی قدر آرام طلب واقع ہوا ہے اور فطری طور پر راحت وسکون کا محتاج ہے اوراسی طرح فطری جذبات اورانسانی خواہشات کو پورا کرنے کا مزاج رکھتا ہے۔ راحت و مسرت سکون و اطمینان اس کی فطرت میں داخل ہیں۔ انسان کو اپنے مقصد تخلیق میں کامیاب ہونے عبادت میں یکسوئی و دلچسپی پیدا کرنے بندوں کے حقوق کو اچھی طرح ادا کرنے اور اپنے متضاد جبلی اوصاف کو صحیح رخ پر لانے کے لیے نکاح انسان کے حق میں نہایت موٴثر ذریعہ اور کارآمد طریقہ ہے۔ اللہ نے نکاح میں انسان کے لیے بہت سے دینی ودنیاوی فائدے رکھے ہیں۔ مثلاً معاشرتی فائدے خاندانی فائدے اخلاقی فائدے سماجی فائدے نفسیاتی فائدے غرضیکہ فائدوں اور خوبیوں کا دوسرا نام نکاح ہے۔

                انسان کو نکاح کے ذریعہ صرف جنسی سکون ہی حاصل نہیں ہوتا بلکہ قلبی سکون ذہنی اطمینان غرض کہ ہرطرح کا سکون میسر ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے ”ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِیَسْکُنَ اِلَیْہَا“ وہی اللہ ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور پھر اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنادیا تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے(۷)۔ اس آیت سے عورت کی اہمیت معلوم ہوتی ہے کہ عورت مرد کے حق میں ایک انمول تحفہ ہے اورمرد کے لئے باعث سکون و اطمینان ہے لہٰذا جو مرد عورت کی قدر کرتا ہے وہ کامیاب اور پرسکون زندگی گزارتا ہے۔ اگر انسان نکاح سے جو انسانی فطری ضرورت ہے منھ موڑنے کی کوشش کرتا ہے تو انسان کو خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نکاح کے بغیر سارا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ تاریخ میں چند استثنائی صورتوں اور چند مذہبی لوگوں کے افکار کے علاوہ دنیا میں ہمیشہ تمام انسان ہر زمانے میں شادی کو اہم ضرورت تسلیم کرتے آئے ہیں تاریخ کی روشنی میں شادی سے مستثنیٰ کبھی کوئی قوم مذہب اور ملت نہیں رہے ہیں۔ہر مذہب وملت میں مقررہ مراسم اور رواجات کے بغیر تعلقات مرد وعورت برے اوراخلاق سے گرے ہوئے سمجھے گئے ہیں اگرچہ ہر مذہب وملت میں شادی کے طور طریقے رسم و رواج الگ الگ رہے ہیں بحرحال شادی کی اہمیت پر سب متفق ہیں۔

نکاح کے متعلق بعض مذاہب اوراہلِ مغرف کے افکار

                آگے اجمالی طور پر ان مذاہب کے افکار کو پیش کیا جارہا ہے جنھوں نے شادی کو غیراہم بتایا ہے اور شادی سے انکار کیا ہے بعض مذاہب کے بعض لوگوں نے رہبانیت کے چکر میں پھنس کر شادی کو روحانی اور اخلاقی ترقی میں رکاوٹ مانا ہے تجرد رہنے اور سنیاس لینے (یعنی شادی نہ کرنے) کو اہم بتایا ہے اسی طرح روحانی و اخلاقی ترقی کیلئے انسانی خواہشات مٹانے اور فطری جذبات دبانے کو ضروری قرار دیا ہے۔ ان لوگوں کے نظریات وافکار نہ صرف فطرتِ انسانی کے خلاف ہیں بلکہ نظامِ قدرت کے بھی خلاف ہیں۔

                ڈاکٹر اسرار احمد صاحب رقم طراز ہیں: ”رہبانیت کا تصور آپ کو عیسائیوں میں بھی نظر آئے گا اور ہندؤں میں بھی۔ دنیا کے اور بھی مذاہب ہیں جیسے بدھ مت جین مت ان میں بھی یہ تصور مشترک ملے گا کہ نکاح اور گھر گرہستی کی زندگی روحانیت کے اعتبار سے گھٹیا درجہ کی زندگی ہے۔ اس اعتبار سے ان مذاہب میں اعلیٰ زندگی تجرد کی زندگی ہے۔ شادی بیاہ کے بندھن کو یہ مذاہب کے بعض لوگ روحانی ترقی کے لئے رکاوٹ قرار دیتے ہیں مرد ہو یا عورت دونوں کے لئے تجرد کی زندگی کو ان کے ہاں روحانیت کا اعلیٰ و ارفع مقام دیا جاتا ہے نکاح کرنے والے ان مذاہب کے نزدیک ان کے معاشرہ میں دوسرے درجہ کے شہری (Second rate Citizens) شمار ہوتے ہیں چونکہ شادی بیاہ میں پڑکر انھوں نے اپنی حیثیت گرادی ہے“(۸)

                چنانچہ جن لوگوں نے شادی کرنے کو غلط قرار دیا ہے اور عورت سے دور رہنے کا درس دیا ہے اور روحانی ترقی کے لئے ایسا کرنا ناگزیر بتایا ہے آخر کار وہی لوگ انسانی خواہشات اور فطری جذبات سے مغلوب ہوکر طرح طرح کی جنسی خرابیوں اور اخلاقی برائیوں کے مرتکب ہوئے ہیں حتیٰ کہ فطرت کے خلاف کاموں تک میں ملوث ہوئے ہیں اور برے نتائج اور تباہ کن حالات سے دوچار ہیں۔

                اسی طرح عصرِ حاضر میں خصوصاً بعض اہلِ مغرب اور مغرب زدہ لوگوں نے بھی شادی کو غیراہم بتایاہے اور شادی سے انکار کردیا ہے۔ ان کے بے ہودہ نظریات کے مطابق انسان ہر طرح کی آزادی کا حق رکھتا ہے اور اسے اپنے فطری جذبات کو جیسا چاہے ویسا پورا کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اس معاملہ میں انسان کسی قسم کی روک ٹوک اسی طرح شادی جیسی کوئی پابندی اور بندھن کا قائل نہیں ہے۔ ان کے ہاں شادی کا تصور ہے بھی تواس کا مقصد صرف جنسی خواہشات کا پورا کرنا رنگ رلیاں منانا، موج مستی کرنا اور سیر وتفریح کرنا پھر ایک مقررہ وقت اورمدت کے بعدایک دوسرے سے جدا ہوجانا ہے۔ مغربی ممالک کے لوگ خصوصاً اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے دنیا کے دیگر ممالک کے افراد عموماً مرد کے لئے عورت دوست اور عورت کے لئے مرد دوست (Boy friend, Girl friend) نظریے کے تحت بے حیائی بے شرمی کے شکار ہیں۔ عاشق و معشوق کی حیثیت سے بے حیا وے بے شرم بن کر زندگی گزارتے ہیں ایشیائی ممالک میں تو بعض بیوقوف اور کم عقل لوگ اخلاق سوز فلموں اور بے ہودہ ٹی وی پروگراموں کی بدولت عشق کی خاطر جان دینے اور جان لینے کی احمقانہ باتیں اور عقل کے خلاف حرکتیں بھی کرتے ہیں۔ اہلِ مغرب اور مغرب زدہ لوگوں نے شادی کو ایک کھیل تماشا بناکر رکھ دیا ہے جس کی وجہ سے مغربی ممالک میں گھرگرہستی کا تصور ختم ہوگیا ہے۔ خاندان اور اقارب کا نام ونشان مٹ گیا ہے۔ ماں باپ اور بچوں کے درمیان کوئی تعلق قائم نہیں رہ گیا ہے۔ اس سنگین صورت حال سے خود مغربی ممالک کے سنجیدہ اور غیور لوگ بہت پریشان ہیں اور غور و فکر کررہے ہیں کہ کس طرح ان تباہ کن حالات اور انسانیت سوز ماحول پر قابو پایا جائے اور سوسائٹی کو ان برائیوں اور خرابیوں سے محفوظ رکھا جائے۔

اسلامی طریقہٴ نکاح میں تمام مسائل ومصائب کا حل

                ان تمام مسائل کا حل اور تمام مصائب کا علاج صرف اسلام میں موجود ہے۔ اس لیے کہ اسلام دینِ فطرت اور دینِ اعتدال ہے۔ ارشاد ربانی ہے ”فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَالنَّاسَ عَلَیْہَا لاَ تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ“ یہ فطرت (یعنی فطری جذبات) اللہ کی طرف سے ہے۔ اس فطرت پر انسان قائم رہے اوراس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ کرے(۹)۔ ہر انسان اپنے فطری جذبات اور انسانی خواہشات کو پورا کرنے پر مجبور ہے۔ اس سے کسی کو مفر نہیں ہے۔ اگر انسان نکاح سے فرار اختیار کرتا ہے اورجائز و مذہب طریقے پر اپنی فطری خواہشات کو پورا نہیں کرتا ہے تو ناجائز اور غیرمہذب طریقے پر پورا کرنے لگتا ہے اور ہرطرح کی برائی وبے حیائی کا شکار ہوجاتا ہے۔ لہٰذا جو کوئی بھی اللہ کی قائم کی ہوئی فطرت سے بغاوت کرتا ہے تو وہ خود تو تباہ و برباد ہوتا ہی ہے لیکن دوسروں کو بھی تباہ و برباد کردیتا ہے اوراس سے دنیا میں فتنہ و فساد پھیل جاتے ہیں یعنی لاوارث معصوم بچوں کے مسائل اور اسقاطِ حمل جیسے اخلاق سوز واقعات ہونے لگتے ہیں۔جیسا کہ مغربی سوسائٹی کے لئے یہ مسائل پریشانی کا باعث اور سرکا درد بنے ہوئے ہیں یورپ و امریکہ میں بہت سے لوگ ان سنگین حالات اورمسائل سے دوچار ہیں اوران ممالک میں بہت سارے لوگ لاوارث کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں۔

                اسی بنا پر اسلام نے نکاح کو اس قدر اہم بتایا ہے اور مرد اور عورت کو نکاح کے مہذب بندھن میں باندھنا لازمی سمجھا ہے اس لئے کہ نکاح خاندان کو وجود بخشتا ہے۔ سماج کا تصور دیتا ہے۔ گھرگرہستی کا نظام قائم کرتا ہے۔ اسلام نکاح کے ذریعہ نسل آدم کا تسلسل کے ساتھ صحیح طریقہ پر افزائش چاہتا ہے اور اس میں کسی بھی طرح کے انقطاع کو ناپسند کرتا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: ”وَہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا وَّجَعَلَہ نَسَبًا وَّصِہْرًا وَّکَانَ رَبُّکَ قَدِیْرًا“ وہی اللہ ہے جس نے انسان کو پانی (یعنی ایک قطرہ بوند) سے پیدا کیا (اور اس کے ذریعہ) نسل آدم کو چلادیا اور اسے خاندان اور سسرال والا بنادیا اور تمہارا رب واقعی بڑی قدرت والا ہے(۱۰)۔ اسی طرح اسلام انسانی زندگی کو اللہ کی بندگی اوراسوئہ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈھلی ہوئی دیکھنا چاہتا ہے۔ اسلام نکاح کو روحانی اوراخلاقی ترقی کے لیے رکاوٹ نہیں بلکہ ترقی کی شاہراہ قرار دیتا ہے۔ روحانیت اور اخلاق میں سب سے اونچا مقام اور بلند معیار انبیاء کرام کا ہوتا ہے اور انبیاء کرام کے تعلق سے ذکر کیا جاچکا ہے کہ انبیاء کرام شادی شدہ اور بال بچے والے رہے ہیں۔ انسان کو نکاح کے بعد گھر کی ذمہ داریوں کو نبھانے میں اورانسانی حقوق کے ادا کرنے میں جو پریشانیاں لاحق ہوتی ہیں اگر انسان ان حقوق و ذمہ داریوں کو اسلامی تعلیمات اور اسوئہ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں ادا کرتا ہے تو اسلام کی نظر میں نکاح خود انسان کے حق میں روحانی اور اخلاقی ترقی کے لئے بہترین ذریعہ ہے۔ اسی وجہ سے اسلام نے ایک طرف رہبانیت کو روا نہیں رکھا ہے تو دوسری طرف انسان کو بے لگام بھی نہیں چھوڑدیا ہے۔ اسلام انسان کی زندگی میں اعتدال و توازن پیدا کرتا ہے اوراسلام کے فکر اعتدال اور نظریہٴ توازن میں انسان ہی کی خیرخواہی و بھلائی ہے۔ اسلام نے نکاح کے سلسلہ میں اعتدال و توازن کا جو جامع فکری و عملی نظریہ پیش کیاہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔

اسلام میں نکاح کو انجام دینے کیلئے چند اہم امور

                مندرجہ ذیل امور میں سے چند کو تفصیل کے ساتھ اور چند کو اختصار کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے اور وہ چند امور اس طرح ہیں۔ایجاب و قبول دوگواہوں کی موجودگی، نکاح میں عورت کے لئے ولی (سرپرست) کا موجود ہونا، نکاح کا اعلان، دعوتِ ولیمہ، مہر کی ادائیگی اور خطبہٴ نکاح۔ اگر ان امور پر غور وفکر سے کام لیا جائے تو یہ بات خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ یہ امور عبادت ہونے کے ساتھ ساتھ کس قدر دعوتِ فکر وعمل اور باعثِ ثواب ہیں۔

ایجاب و قبول:

                ایجاب سے مراد ہے ایک فریق (یعنی دلہے) کی طرف سے نکاح کے معاملہ میں پیش کش اور قبول سے مراد ہے دوسرے فریق (یعنی دلہن) کی طرف سے اس پیش کش پر رضامندی غرض کہ فریقین کا نکاح پر خوشی سے رضامند ہوجانا ایجاب و قبول کہلاتا ہے۔

                ایجاب و قبول نکاح کے لئے شرط ہے اسلام میں کسی مرد یا عورت کی مرضی و اجازت کے بغیر نکاح قرار نہیں پاسکتا چنانچہ ارشادِ ربانی ہے ”یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لاَیَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ کَرْہًا“ اے ایمان والو تم کو حلال نہیں کیا کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ(۱۱)۔ لفظ کرہا کا اطلاق بہت سے معنوں میں ہوتا ہے مثلاً زور زبردستی جبر دباؤ وغیرہ۔ اسی طرح کسی مرد کا نکاح کسی عورت سے اس کی مرضی و اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتا چونکہ عموماً عورت باختیار نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے عورت کی اجازت و مرضی کا ذکر وضاحت سے کردیاگیا ہے اوراس سے بتانا مقصود ہے کہ اسلام نے نکاح میں عورت کو رضامندی پسند ناپسند کا پورا حق دیا ہے۔

دوگواہ:

                نکاح میں دو گواہ کا موجود ہونا بھی شرط ہے۔ نکاح میں شہادت نہایت ضروری ہے۔ اس لئے کہ اس سے بدکاری بے حیائی کا راستہ بند ہوجاتا ہے۔ارشاد نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم ہے عَنِ بْنِ عَبَّاسٍ ”اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اَلْبَغَایَا الَّتِیْ یَنْکِحْنَ اَنْفُسَہُنَّ بِغَیْرِ بَیِّنَةٍ“ عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو عورتیں چوری چھپے نکاح کرلیں وہ حرام کار ہیں(۱۲)۔

ولی کی اہمیت:

                عورت کے لئے نکاح میں رضامندی کے ساتھ ولی (سرپرست) کا ہونا بھی ضروری ہے۔ عورت کا نکاح بغیرولی کے نہیں ہوسکتا چنانچہ ارشاد نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم ہے ”عَنْ اَبِی مُوْسٰی عَنِ النَّبِیّ قَالَ لاَ نِکَاحَ اِلاَّ بِوَلِیٍّ“ حضرت ابوموسیٰ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ولی کے بدون نکاح نہیں(۱۳)۔ عورت کا شرف اور مقام اسی میں ہے کہ وہ کسی کی سرپرستی میں نکاح کرے۔ اس طرح بہت سی سماجی اور معاشرتی خرابیاں دور ہوجاتی ہیں۔ اس میں بہت سی حکمتیں اور مصلحتیں ہیں۔ اگرچہ نکاح کرنے یا نہ کرنے کا اختیار پورا عورت کو حاصل ہے ولی اس کی مرضی اور رائے کے بغیر نکاح نہیں کرسکتا۔

اعلانِ نکاح:

                اسی طرح اسلام نے نکاح میں اعلان و تشہیر کی تعلیم دی ہے۔ نکاح کا اعلان کرنا اورمسجد میں نکاح کرنا سنت ہے۔ ارشادِ نبوی ہے ”اِعْلِنُوْا ہٰذَا النِّکَاحَ وَاجْعَلُوہُ فِی الْمَسَاجِدِ“(۱۴)۔ نکاح کا اعلان کرو اور مسجد وں میں نکاح کرو۔ اس کا بنیادی مقصد نکاح کو عام کرنا اور نسب کو ثابت کرنا ہے۔

ولیمہٴ مسنون:

                دولہا اپنی شادی کی خوشی و شادمانی کے موقع پر جو دعوت دیتا ہے اسے ولیمہ کہا جاتا ہے اور ولیمہ کرنا سنت ہے۔ ولیمہ شوہر کے ذمہ ہے اور دعوت ولیمہ نکاح کے بعد ہے۔ مولانا عتیق احمد بستوی صاحب رقم طراز ہیں ”دعوتِ ولیمہ زن وشوہر کی پہلی ملاقات کے بعد کی جاتی ہے۔ اس میں بے شمار مصلحتیں ہیں۔ اس سے شائستہ طور پر نئے رشتے کی تشہیر ہوتی ہے۔ عورت اوراس کے اہلِ خاندان کا اعزاز ہوتا ہے ایک قابلِ قدر نئی نعمت کے ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا ہوتا ہے“(۱۵)۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے ولیمہ نکاح کے دوسرے دن کیا ہے۔ چنانچہ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے جب آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے نکاح کا ذکر کیا تو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ“ ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری کا ہی کیوں نہ ہو(۱۶)۔ لہٰذا نکاح کے دوسرے یا تیسرے دن ولیمہ کرنا مناسب اور سنت ہے۔ چاروں فقہی مسالک میں ولیمہ کا مستحب وقت عقد کے بعد ہے(۱۷)۔ ولیمہ اپنی حیثیت کے مطابق کیا جاسکتا ہے۔ قرض تکلف اسراف اور نمائش سے اجتناب ضروری ہے۔ ولیمہ کی دعوت میں اقارب احباب اور دیگر لوگوں کو بلانے کی گنجائش ہے۔ اپنی طاقت اور حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرنا خلافِ شریعت ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسراف اور غیرضروری اخراجات سے اپنا دامن بچاتے ہوئے تکلّفات اور لوازمات سے بچتے ہوئے ولیمہ کی دعوت حیثیت کے مطابق کی جاسکتی ہے۔

                آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر حضرت انس سے فرمایا تھا کہ جاؤ فلاں فلاں کو دعوت ولیمہ میں بلالاؤ(۱۸)۔ حضرت علی کا نکاح جب حضرت فاطمہ سے ہوا تو ان کے ولیمہ میں صرف کھجوراور منقیٰ پیش کیاگیا اور سادہ پانی پلایاگیا(۱۹)۔ دعوت ولیمہ کے تعلق سے ارشاد رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ہے ”قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذْ دُعِیَ اِلَی الْوَلِیْمَةِ فَلْیَاتِہَا“ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم میں سے کسی کو ولیمہ کی دعوت دی جائے تواس میں ضرور شرکت کرے(۲۰)۔ نیز فرمایا جو شخص دعوتِ ولیمہ بلاعذر قبول نہ کرے وہ اللہ اوراس کے رسول کی نافرمانی کیا(۲۱)۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ”بدترین کھانا اس ولیمہ کا کھانا ہے جس میں فقط مالدار لوگوں کو بلایا جائے اور غریبوں کو نظر انداز کردیا جائے“(۲۲)۔ عموماً ایسا کیا جاتا ہے۔ اس سے بچنا ضروری ہے ورنہ نکاح اور ولیمہ کی برکات و فیوضات سے محرومی یقینی ہے۔

مہر کی ادائیگی:

                نکاح میں مہر کا ادا کرنا واجب ہے۔ مہر عورت کا شرعی حق ہے۔ مہر اس رقم کو کہا جاتا ہے جو مرد شادی کے پرمسرت موقع پر خوشی سے اپنی ہونے والی بیوی کو تحفہ کی شکل میں دیتا ہے۔ مہر اسلام کے سوا کسی مذہب یا قوم میں نہیں ہے۔ ارشاداتِ ربانی یوں ہیں ”وَآتُوْا صَدَقٰتِہِنَّ نِحْلَةً“ اور دے ڈالو عورتوں کو مہر ان کے خوشی سے(۲۳)۔ ”وَآتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ“ بہترطریقے سے ان کے مہر ادا کرو(۲۴)۔

                آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے مرد کو جو مہر زیادہ سے زیادہ مقرر کرتا ہے اور پھر اسے نہ ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے نہ صرف گناہ گار بتایا ہے بلکہ زانی قرار دیا ہے۔ ارشاد نبوی ہے ”اَیُّمَا رَجُلٍ تَزَوَّجَ اِمْرَأةً عَلٰی صَدَاقٍ وَلاَ یُرِیْدُ اَنْ یُعْطِیْہَا فَہُوَ زَانٍ“ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی عورت سے مہر کے بدلے نکاح کرتا ہے مگر وہ اسے ادا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا ہے تو وہ زانی ہے(۲۵)۔ امام نووی نے مہر کو نکاح کا جز لاینفک قرار دیا ہے اوراس کے بغیر ازدواجی تعلقات کو ناجائز بتایا ہے(۲۶)۔

                مہر کی ادنیٰ رقم دس درہم یا اس کے بقدر قیمت ہے۔ قیمت کا اعتبار عقد کے وقت کا ہوگا ادائیگی کے وقت کا نہیں(۲۷) اور مہر میں زیادہ سے زیادہ کی کوئی تعیین نہیں ہے۔ شوہر کی حیثیت اور آمدنی پر انحصار ہے۔ اگر زیادہ مہر باندھتا ہے تو اسے ادا کرنا ضروری ہے۔مہر کی فوری ادائیگی مناسب اور مستحب ہے یا کچھ مدت کے بعد کا بھی جواز ہے۔ ان دونوں صورتوں کو اسلام کی اصطلاح میں اول الذکر کو مہر معجل کہا جاتاہے اورآخر الذکر کو مہر موٴجل کہتے ہیں۔ مہر کے تعلق سے مولانا محمد شہاب الدین ندوی لکھتے ہیں ”مہر کے نام سے عورت کو جو تھوڑی بہت رقم ملتی ہے وہ اس کی خدمات کا پورا پورا صلہ تو نہیں ہوسکتی ہاں البتہ اس کی وحشت دور کرنے کی راہ میں ایک درجہ میں باعث اطمینان ہوسکتی ہے۔ شریعت نے اگرچہ کم سے کم مہر کی کوئی مقدار مقرر نہیں کی ہے مگر زیادہ کی حد بھی مقرر نہیں کی ہے۔ اس میں حکمت عملی یہ معلوم ہوتی ہے کہ مہر مرد کی مالی اور اقتصادی حالت کے مطابق ہو لہٰذا اگر کوئی صاحب حیثیت اپنی منکوحہ کو ہزاروں بلکہ لاکھوں روپئے بھی دے دے تو وہ جائز ہوگا قرآن میں ڈھیرسارا مال دینے کا تذکرہ بھی موجود ہے“(۲۸)۔

                اس لئے مہرفاطمی بہت مناسب مہر ہے۔ اس کی مقدار چار سو مثقال چاندی ہے یعنی ایک کیلوسات سو گرام چاندی جس کی قیمت لگ بھگ بارہ ہزار روپئے ہوتی ہے(۲۹)۔ مہر نقد بھی ادا کیا جاسکتا ہے اور زیور کی شکل میں بھی دیا جاسکتا ہے(۳۰)۔ بیوی کی مرضی اور خواہش پر ہے۔ حضرت عمر کے ارشاد سے بھی مہر میں اعتدال و توازن کا نکتہ سامنے آتا ہے ”اے لوگو! عورتوں کے بھاری بھاری مہر نہ باندھنا اس لیے کہ اگر دنیا میں یہ کوئی شرف و عزت کی چیز ہوتی اور اللہ کی نگاہ میں اچھا فعل ہوتا تو اس کے سب سے زیادہ حقدار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھے لیکن مجھے نہیں معلوم کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ اوقیہ سے زیادہ پر کسی عورت سے نکاح کیا ہے یا اپنی لڑکیوں میں سے کسی لڑکی کا نکاح کیا ہے“(۳۱)۔

                ایک اوقیہ کی مقدار دس تولہ چاندی کے برابر ہے۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اُم حبیبہ کا مہر زیادہ باندھا تھا، اس لیے کہ ان کا مہر حبش کے بادشاہ نجاشی نے مقرر کردیا تھا(۳۲)۔ لوگ خاندانی شرافت و عزت کی بنا پر جھوٹی شان دکھانے کی خاطر بھاری بھاری مہر مقرر کردیتے ہیں اور ادا کرنے پر قادر نہیں ہوتے ہیں اس لئے حضرت عمر نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ہاں اگر کوئی واقعی صاحب حیثیت ہے زیادہ سے زیادہ مہر ادا کرنے پر قدرت رکھتا ہے تو مضائقہ نہیں ہے۔

                آج برِصغیر ہندوپاک اور بنگلہ دیش میں مسلم گھرانے لڑکیوں کے سلسلے میں جوڑے جہیز اور بہت ساری رسومات کی بنا پر پریشان ہیں تواسلامی ممالک میں مسلم گھرانے لڑکیوں کے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ مہر مقرر کرکے غیرضروری پریشانیوں میں گھرے ہوئے ہیں خاص طور پر عرب ممالک میں جو جتنا زیادہ مہر باندھتا ہے اتنی جلدی نکاح کرسکتا ہے بسا اوقات نکاح کا انحصار مہر کے زیادہ مقرر ہونے پر ہے جس کی وجہ سے بہت سارے مرد شادی سے محروم ہیں۔

***

حوالے وحواشی:

(۱)                   بخاری کتاب النکاح باب الترغیب فی النکاح۔

(۲)                  مشکوٰة المصابیح کتاب النکاح۔

(۳)                 الرعد: ۳۸۔

(۴)                 ترمذی بحوالہ اسلامی معاشرہ،ص:۶۰ مولانا یوسف اصلاحی۔

(۵)                 بخاری کتاب النکاح باب قول النبی مَنِ السْتَطَاعَ مِنْکُمْ ۔

(۶)                  بخاری بحوالہ اسلامی معاشرہ،ص:۶۳ مولانا یوسف اصلاحی۔

(۷)                 اعراف:۱۸۹۔

(۸)                 نکاح ایک اصلاحی تحریک،ص:۳۸ ڈاکٹراسراراحمد صاحب۔

(۹)                  الروم: ۳۰۔

(۱۰)                الفرقان:۵۴۔

(۱۱)                 النساء:۱۹۔

(۱۲)                ترمذی بحوالہ معارف الحدیث،ج:۷، ص:۲۰۔

(۱۳)                ابوداؤد بحوالہ معارف الحدیث،ج:۷،ص:۱۸۔

(۱۴)                ترمذی کتاب النکاح باب ما جاء فی اعلان النکاح ۔

(۱۵)                بحوالہ اسلامی نکاح، ص:۱۰ ، ناشر جمعیة شباب الاسلام۔

(۱۶)                بخاری کتاب النکاح باب ”کیف یدعی للمتزوج“

(۱۷)                ”الفقہ علی المذاہب الاربعة“ ج:۲، ص:۳۳ بحوالہ شادی کے شرعی اور غیر شرعی طریقے،ص:۳۰ شمس پیرزادہ۔

(۱۸)                بخاری ۶/۱۴۰۔

(۱۹)                 ابن ماجہ ۱/۶۱۶۔

(۲۰)               بخاری ومسلم۔

(۲۱)                بخاری کتاب النکاح باب حق الولیمہ والدعوة۔

(۲۲)               مسلم کتاب النکاح باب الامر باجابة الداعی الی الدعوة۔

(۲۳)               نساء: ۴۰۔

(۲۴)               نساء: ۲۵۔

(۲۵)               سنن کبریٰ ۷/۲۴۱۔

(۲۶)               اوجز المسالک، ج:۹ ،ص:۲۸۹۔

(۲۷)               ہدایة باب المہر۔

(۲۸)               بحوالہ نکاح کتنا آسان اور کتنا مشکل،ص:۳۰۔

(۲۹)                تحفة الاحوذی بشرح ترمذی،ج:۴، ص:۲۵۶۔

(۳۰)               شادی کے شرعی اور غیرشرعی طریقے ،ص:۲۴ شمس پیرزادہ۔

(۳۱)                ترمذی بحوالہ حسنِ اخلاق دہلی اگست ۱۹۹۵،ص:۲۹۔

(۳۲)               عون المعبود،ج:۲، ص:۱۰۵۔

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ2، جلد: 91 ‏، محرم 1428 ہجری مطابق فروری2007ء

Related Posts