دعاء حقیقت و اہمیت

افادات: حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ ([1])

انتخاب وتخریج: محمد حبان بیگ قاسمی علی گڑھی

شعبہٴ ترتیب فتاویٰ دارالعلوم دیوبند

ناگوار حالات، وباوٴں اورمصائب وپریشانیوں سے نجات کے لیے دعاوٴں کے اندر جو قوی تاثیرہے اُس کے سامنے ہر قسم کی دوسری تدابیر اور کوششیں ہیچ ہیں، خدائے وحدہٗ لاشریک لہٗ کے سامنے بے سہارا بندے کا جلوت وخلوت میں دست بستہ راز ونیاز، آہ و زاری، اپنے گناہوں کا اعتراف، رحمت کی دُہائی اورپھر اس کے جواب میں خدائے رحیم و کریم کا عفو و درگذر، رحم و کرم اور حاجت برآری ایک ایسا باب ہے جسے سارے دین کا خلاصہ اور لبّ لباب کہا جا سکتا ہے۔

بندہٴ مجبور ومضطر خدائے قادر کے سامنے جب قصور وار اورسوالی بن کر معافی اور آنسووٴں کا واسطہ پیش کرتا ہے اور اپنی بے وقعت ذات کو دستِ قدرت کے حوالے کر کے کچھ مانگتا ہے تو بادشاہِ جبّار کی رحمت و شفقت کو کچھ ایسا جوش آتا ہے کہ بعض دفعہ طے شدہ فیصلوں کو بھی تبدیل کر دیا جاتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ دعائیں جہاں تمام عبادات کا خلاصہ ہیں وہیں یہ ایک ایسا حصن حصین بھی ہیں جن کے حصار میں رہنے والا کبھی نا مراد اور ناکام نہیں ہوتا، بس شرط یہ ہے کہ عرض و معروض کا صحیح سلیقہ اور راز و نیاز کا ٹھیک ڈھنگ انسان کو آتا ہو۔

 اس سلسلے میں حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ کا ایک نہایت جامع اور مفید مضمون نظر سے گذرا، جس میں دعاوٴں کی اہمیت وحقیقت،مانگنے کا سلیقہ،عرض و نیاز کا ڈھنگ اور دعا مانگنے میں عام کوتاہیوں پر نہایت عمدہ اور جامع گفتگو کی گئی ہے۔

 خیال ہوا کہ اگر حضرت والا کی چند دقیق عبارتوں کی ہلکی سی تسہیل وتشریح کردی جائے تو عوام کے لیے اس سے استفادہ اور بھی آسان ہوجائے، نیز حضرت کے مضمون میں عوام کے پیشِ نظر احادیث وآثار کا صرف ترجمہ مندرج تھا، جن کے حوالوں پر اگرچہ پورا اعتماد تھا؛ لیکن اُن کی تخریج علمی ذوق کے حاملین کے لیے مفید محسوس ہوئی؛ لہٰذا ایسے اضافات حاشیہ میں درج کردیے گئے ہیں، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس حقیر سی کوشش کو موٴلف علیہ الرحمة کی برکت سے قبول فرما کر نافعِ عام فرمائیں اور ہم سبھی کو دعا کی حقیقت سے نواز کر دارین کی فلاح سے سرفراز فرمائیں۔ (حبان )

             ألْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ جَعَلَ الدُّعَاءَ لِرَدِّ الْقَضَاءِ وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ الَّذِيْ عَلَّمَنَا مَا نَتَّقِيْ بِہِ الْبَلاَءَ وَعَلٰی آلِہ وَصَحْبِہِ الْہَادِیْنَ إلٰی مَا نَخْرُجُ بِہ  عَنْ کُلِّ عَنَاءٍ وَعَلٰی عُلَمَاءِ أُمَّتِہ وَ أوْلِیَاءِ زُمْرَتِہِ الَّذِیْنَ بَذَلُوْا جُہْدَہُمْ فِيْ جَمْعِ أسْبَابِ الشِّفَاءِ عَنْ کُلِّ دَاءٍ۔

            اما بعد! کوئی شخص ایسا نہ ہوگا جس کو ہر قسم کی صلاح و فلاح کی ضرورت نہ ہو؛ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے دارین کے صلاح و فلاح کے واسطے اسبابِ متکثرّہ و اسبابِ متعددہ موضوع فرما دیے کہ اہل حاجت ان سے مدد لیں اور عقبات ومہالک(۱)سے نجات پائیں۔

            ان اسباب مذکورہ میں سے بہ جز دعا کے جتنے اسباب ہیں ان کے مسبّبات خاص خاص امور ہیں؛ چنانچہ اسبابِ طبعیہ کا (مثل زراعت و تجارت و طبابت کے) اصلی مقصود فلاح دنیوی بنایا گیا ہے، گو بہ واسطہ معینِ دین بھی ہو، اور اسبابِ شرعیہ کا (مثل صوم و صلاة وحج کے) مقصود بالذات فلاحِ دینی ٹھہرایا گیا ہے، گو بالعرض نافعِ دنیا بھی ہو؛ مگر صرف دعا ایک ایسی چیز ہے کہ فلاح دین و فلاح دنیا دونوں کے لیے بالمساوات ایک مرتبہ میں مشروع و موضوع ہے(۲) جس سے بہ وجہ اس جامعیت کے اس کی وقعت و عظمت ظاہر و باہر ہے؛ اس لیے قرآن مجید و حدیث شریف میں نہایت درجہ اس کی ترغیب و فضیلت و تاکید جا بجا وارد ہے؛ چنانچہ ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے ”دعا کرو مجھ سے میں قبول کروں گا“(۳) اور ارشاد فرمایا حضورB نے”بڑی عبادت تو دعا ہے“(۴) اور فرمایا ”جس شخص کو دعا کی توفیق ہوگئی اس کے لیے قبولیت کے دروازے کھل گئے“(۵) اور ایک روایت میں ہے کہ” جنت کے دروازے کھل گئے“(۶) اور ایک روایت میں ہے کہ” رحمت کے دروازے کھل گئے“، اور فرمایا کہ” اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز نہیں مانگی گئی جو عافیت کے مانگنے سے زیادہ محبوب ہو“(۷) اِس سے معلوم ہوا کہ دنیوی حوائج مانگنے کا بھی حکم ہے۔

             اور ارشاد فرمایا کہ ”قضا کو صرف دعا ہٹا دیتی ہے“(۸) اور ارشاد فرمایا کہ ”احتیاط و تدبیر سے تقدیر نہیں ٹلتی اور دعا نازل شدہ بلا سے بھی نافع ہے اور اُس بلا سے جو ابھی نازل نہیں ہوئی، اور کبھی بلا نازل ہوتی ہے اور ادھر سے دعا پہنچ کر اس سے ملتی ہے اور دونوں میں قیامت تک کُشتی ہوتی رہتی ہے(۹) اس سے معلوم ہوا کہ دعا تمام تدبیروں اور احتیاطوں سے بڑھ کر مفید ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ قبل مصیبت بھی دعا کرتا رہے، اس کی برکت سے مصیبت نہیں آتی۔

             اور یہ بھی معلوم ہوا کہ کبھی قبولیت کی یہ بھی شکل ہوتی ہے کہ اس کی وجہ سے کوئی بلا ٹل جاتی ہے، پس دعا کر کے خواہ قبول ہونا معلوم ہو یا نہ ہو بدگمان نہ ہونا چاہیے۔

            اورارشاد فرمایا کہ” اللہ تعالیٰ کے نزدیک دعا سے زیادہ کوئی چیز قدر و منزلت کی نہیں“(۱۰) اور ارشاد فرمایا”جس کو یہ بات پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ سختیوں کے وقت اس کی دعا قبول فرما لیا کریں اس کو چاہیے کہ خوش عیشی کے وقت کثرت سے دعا مانگا کرے“(۱۱) اس سے معلوم ہوا کہ بِلا مصیبت کے دعا مانگنے کا اثر مصیبت کے وقت مانگنے میں ہوتاہے۔

             اور ارشاد فرمایا کہ” دعا میں ہمت نہ ہارو؛ کیوں کہ دعا کرتے ہوئے کوئی ضائع نہیں ہوتا“(۱۲) اور ارشاد فرمایا کہ ”دعا مسلمان کا ہتھیار ہے اور دین کا ستون ہے اور آسمان و زمین کا نور ہے“(۱۳) اور حضورB کا ایک بَلا زدہ قوم پر گذر ہوا، آپB نے ارشاد فرمایا کہ ”یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے عافیت کیوں نہیں مانگتے“(۱۴) اور فرمایا کہ” کوئی ایسا مسلمان نہیں جو دعا میں اَڑ جائے اور پھر اس کو عطا نہ ہو، خواہ سردست اس کی مانگی ہوئی چیز دے دیں یا آئندہ کے لیے جمع کر دیں“(۱۵)

            اس سے معلوم ہوا کہ دعا قبول توضرور ہوتی ہے؛ مگر صورتیں اس کی مختلف ہیں: کبھی وہی چیز مل جاتی ہے او رکبھی اس کے لیے جمع ہوجاتا ہے، اور اوپر معلوم ہوچکا ہے کہ کبھی اس کی برکت سے بَلا ٹل جاتی ہے، غرض اس دربار میں ہاتھ پسارنے سے کچھ نہ کچھ مل کر رہتا ہے؛ لیکن باوجود اس کے دیکھا جاتا ہے کہ اکثر لوگوں کو عوام تو کیا بہت سے خواص کو بھی اس سے محض بے رغبتی و بے توجہی ہے حتی کہ جو معمولی اوقات دعا کے ہیں جیسے نماز پنجگانہ ان میں بھی بہ جز آموختہ سا پڑھ لینے کے اصلاً الحاح(۱۶) یا دلچسپی کا اثر تک نہیں پایا جاتا، اور یہ سمجھ کر دعا کرنے کا تو ذکر ہی کیا کہ یہ عرضداشت اللہ تعالیٰ کی جنابِ پاک میں پیش کر دینا اور بار بار درخواست گذارنا کامیابی کا ایک موٴثر اور اعلیٰ درجہ کا طریقہ ہے، جس طرح اپنے بعض حوائج کے لیے دنیا کے امراء و حکّام سے بار بار التجا کرنا اپنی مطلب برآری کا قوی ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور تکرارِ عرض و معروض سے روزانہ امیدیں اور امنگیں ابھرتی اور تازہ ہوتی ہیں، اگر کوئی بڑی ہی مصیبت پڑتی ہے اور ہاتھ پاوٴں مارنے سے کام نہیں چلتا تب بہ مجبوری کسی ایک آدھ کو شاذو نادر اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ ہوتی ہے، وہ بھی دعا کے ساتھ نہیں؛ بلکہ بڑی دوڑ یہ ہوتی ہے کہ کوئی وظیفہ عمل عزیمت شروع کر دیا خواہ شرع کے موافق ہو یا مخالف اور اگر کسی نے بڑی احتیاط کی اور موافقتِ شرع کا بھی لحاظ کر لیا تب بھی ان اعمال میں وہ برکت کہاں جو اللہ و رسولB کی تعلیم فرمودہ دعاوٴں میں ہے۔

            غرض مقدمہٴ دعا میں چند کوتاہیاں واقع ہورہی ہیں:

            اوّل: بدون آڑے وقت کے دعا کی طرف توجہ نہ ہونا۔

            دوم: ایسے وقت میں بھی اللہ و رسولB کی بتلائی ہوئی دعائیں چھوڑ کر نئے نئے وظائف پڑھنا۔

            سوم: بدشوقی و بے رغبتی سے دعا کرنا اور جی نہ لگانا۔

            چہارم: قبولیت کا یقین اور امنگ نہ ہونا۔

            پنجم: جلدی اور تقاضا مچانا اور ذرا توقف ہوجائے تو تنگ ہوکر چھوڑ دینا۔

             ان کوتاہیوں کے تدارک کرنے کے لیے بہ مقتضائے مصلحت و ضرورتِ وقت مناسب معلوم ہوا کہ جو جامع دعائیں قرآن و حدیث میں وارد ہیں ان کو جمع کر دیا(۱۷) جائے؛ کیوں کہ اُن کو دوسری دعاوٴں پر بہ چند وجوہ ترجیح ہے:

            اوّل: یہ کہ جب خود حاکم مضمون عرضی کا بتلا دیتا ہے تو اس کی منظوری میں پھر کوئی تردّد نہیں رہتا، اسی طرح جو دعائیں اللہ تعالیٰ نے بہ واسطہٴ وحی جلی یا خفی(۱۸) خود تعلیم فرمائیں تو بلا شک اقرب الیٰ الاجابت(۱۹)ہیں۔

            دوسرے: ان میں جس قدر دینی و دنیوی ضرورتوں کی رعایت کی گئی ہے اگر ہم لوگ قیامت تک بھی سوچیں توممکن نہیں کہ ایسے جامع مضامین تجویز کر سکیں۔

            تیسرے: بعض اوقات مضمونِ دعا میں سوءِ ادب ہوجاتا ہے جس سے وہ دعا الٹی وبالِ جان ہوجاتی ہے، جس طرح کسی صحابیt نے صبر کی دعا کی تھی اور حضورB نے ارشاد فرمایا تھا کہ” تم نے بَلا کی درخواست کی“(۲۰) یاایک صحابیt نے دعا کی تھی کہ جتنا عذاب مجھ کو آخرت میں ہونا ہو وہ سب یہیں ہوجائے اور آپB نے تنبیہ فرمائی تھی(۲۱) یاکسی صحابی زادہ نے جنت کے داہنے جانب کو شکِ(۲۲) سفید دعا میں مانگا تھا اور اُن کے والد نے اصلاح فرمائی تھی(۲۳)

             غرض اپنی رائے اور قیاس سے مضمون معیّن کرنے سے اس قسم کا احتمال اس میں رہتا ہے اور جو دعائیں منصوص ہیں وہ ان خدشات سے منزّہ و مبرّا ہیں، اور ہر چند افضل و اکمل طریقہ تو یہی ہے کہ وہ دعائیں بعینہ انھیں الفاظ سے پڑھی جائیں جس طرح منقول ہیں۔

            حضرت مولانا محمد عاقل صاحب (شیخ الحدیث و صدر المدرسین مدرسہ مظاہر علوم، سہارنپور) رقم طراز ہیں:

             حضرت مولانا تھانوی قدس سرہؒ کا یہ مضمون ہم نے حضرت کی مشہور تالیف مناجاتِ مقبول کے شروع سے لیا ہے، دعا کی فضیلت و اہمیت سمجھنے کے لیے انتہائی جامع اور مدلل مضمون ہے، خصوصًا اہلِ علم حضرات کے پڑھنے کی چیز ہے۔ واللّٰہ الموفّق۔ ( الحزب الأعظم مع ترجمہ وتخریج، ص: ۸)

حضرت مولانا محمد الیاس صاحب نور اللہ مرقدہ کا یہ قیمتی ملفوظ بھی ملاحظہ ہو:

            مسلمان دعا سے بہت غافل ہیں اور جو کرتے بھی ہیں اُن کو دعا کی حقیقت معلوم نہیں، مسلمانوں کے سامنے دعا کی حقیقت کو واضح کرنا چاہیے۔

             دعا کی حقیقت ہے اپنی حاجتوں کو بلند بارگاہ میں پیش کرنا، پس جتنی بلند بارگاہ ہے اتنا ہی دعاوٴں کے وقت دل کو متوجہ کرنا اور الفاظِ دعا کو تضرع و زاری سے ادا کرنا چاہیے اور یقین و اذعان کے ساتھ دعا کرنا چاہیے کہ ضرور قبول ہوگی؛ کیوں کہ جس سے مانگا جا رہا ہے وہ بہت سخی اور کریم ہے اپنے بندوں پر رحیم ہے، زمین و آسمان کے خزانے سب اسی کے قبضہ میں ہیں۔( ملفوظات حضرت مولانا محمد الیاس، موٴلفہ: حضرت مولانا محمد منظور نعمانی ، ص: ۴۹_۵۰، ملفوظ نمبر:۵۳، ط: مدنی کتب خانہ، کراچی)

#         #         #

حواشی

(۱)           عقبات ومہالک: مشکلات اور پریشانیاں، عقبہ:مشکل گھاٹی، مہلکہ: ہلاکت کی جگہ۔ (فیروزاللغات،ص:۸۹۹، ۱۳۲۳، مطبوعہ: فیروز سنز، پرائیویٹ لمیٹڈ، لاہور)

(۲)          یعنی بعض امور تو وہ ہیں جن کا تعلق فطرتِ انسانی اور بشری ضروریات سے ہے، جیسے کھانا، پینا وغیرہ؛ لہٰذا یہ امور اصلاً ان ہی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہیں اور تبعاً ان سے امورِ دینیہ میں بھی مدد ملتی ہے، مثلاً کھانے سے عبادت میں قوت و توانائی بھی حاصل ہوجاتی ہے اوربعض امور وہ ہیں جن کا تعلق شریعتِ اسلامی اور حکمِ خداوندی سے ہے، جیسے روزہ، نماز وغیرہ کہ اصلاً مقصود ان سے حکمِ خداوندی کو بجالانا ہے؛ مگر تبعاً ان سے دنیوی فائدے بھی حاصل ہوجاتے ہیں، مثلاً روزہ نظامِ ہضم وغیرہ میں بہت مفید ہے۔

                البتہ یہ خاصیت صرف دعا ہی کی ہے کہ امورِ دینیہ ودنیویہ دونوں کے لیے بہ یک وقت اصالةً مشروع کی گئی ہے، ایسا نہیں کہ کسی ایک کے لیے اصالةً ہو اور دوسرے کے لیے تبعاً۔

(۳)         ﴿وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ﴾(سورہٴ غافر، آیت:۶۰)

(۴)          عن النّعمان بن بشیر قال: قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم: الدّعاء ہو العبادة۔ الحدیث، رواہ أحمد والتّرمذي وأبوداود والنّسائي وابن ماجہ۔(مشکاة المصابیح،ص:۱۹۴،کتاب الدّعوات، الفصل الثّاني، ط: مکتبة الإتّحاد، دیوبند)

(۵)          عن ابن عمر قال: قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم: من فُتح لہ من الدّعاء منکم فُتحتْ لہ أبواب الإجابة۔ (المصنّف لابن أبي شیبة، رقم الحدیث: ۲۹۱۶۸، ط: مکتبة الرّشد، الرّیاض)

(۶)           عن ابن عمر قال: قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم: من فُتح لہ في الدّعاء منکم فُتحتْ لہ أبواب الجنّة۔ الحدیث، ہٰذا حدیث صحیح الإسناد ولم یخرّجاہ۔(المستدرک علی الصّحیحین للحاکم، رقم الحدیث:۱۸۳۳-۳۳، ط: دارالکتب العلمیة، بیروت)

(۷)         عن ابن عمر قال: قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم: من فُتح لہ منکم باب الدّعاء فُتحتْ لہ أبواب الرّحمة وما سئل اللّٰہ شیئًا یعني أحبّ إلیہ من أن یسأل العافیة، رواہ التّرمذي۔(مشکاة المصابیح،ص:۱۹۵، کتاب الدّعوات، الفصل الثاني)

(۸)         عن سلمان الفارسيّ قال: قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم لا یردّ القضاء إلاّ الدّعاء۔ الحدیث۔ (مشکاة المصابیح،ص:۱۹۵، کتاب الدّعوات، الفصل الثّاني)

(۹)          عن عائشة قالت: قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم: لا یغني حذر من قدر والدّعاء ینفع ممّا نزل وممّا لم ینزل؛ فإنّ البلاء لینزل فیتلقّاہ الدّعاء فیعتلجان إلی یوم القیامة، ہٰذا حدیث صحیح الإسناد ولم یخرّجاہ۔ (المستدرک علی الصّحیحین للحاکم، رقم الحدیث:۱۸۱۳-۱۳)

(۱۰)        عن أبي ہریرة قال: قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم: لیس شيء أکرم علی اللّٰہ من الدّعاء، رواہ التّرمذي وابن ماجہ وقال التّرمذي: ہٰذا حدیث حسن غریب۔(مشکاة المصابیح،ص:۱۹۴، کتاب الدّعوات، الفصل الثّاني)

(۱۱)         عن أبي ہریرة قال: قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم: مَن سرّہ أن یستجیب اللّٰہ لہ عند الشّدائد فلیکثر الدّعاء في الرّخاء، رواہ التّرمذي وقال: ہٰذا حدیث غریب۔(مشکاة المصابیح،ص:۱۹۵، کتاب الدّعوات، الفصل الثّاني)

(۱۲)        عن أنس بن مالک عن النّبي صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم قال: لا تعجزوا في الدّعاء؛ فإنّہ لا یہلک مع الدّعاء أحد، ہٰذا حدیث صحیح الإسناد ولم یخرّجاہ۔(المستدرک للحاکم، رقم الحدیث:۱۸۱۸-۱۸)

(۱۳) عن عليّ قال قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم: الدّعاء سلاح الموٴمن وعماد الدّین ونور السّماوات والأرض، ہٰذا حدیث صحیح۔(المستدرک للحاکم، رقم الحدیث:۱۸۱۲-۱۲)

(۱۴)        عن أنس أنّ النّبي صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم مرّ بقومٍ مبتَلین فقال: أما کان ہٰوٴلاء یسألون اللّٰہ العافیة۔ (مسند البزّار، رقم الحدیث:۶۶۴۳، ط: مکتبة العلوم والحکم، المدینة المنوّرة)

                قال الہیثمي في مجمع الزّوائد (۱۰/۱۴۷، کتاب الأدعیة، باب طلب الدّعاء، ط: دارالکتاب العربي، بیروت): رواہ البزّار ورجالہ ثقات۔

(۱۵)         عن أبي ہریرة عن النّبي صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم قال: ما من موٴمن ینصب وجہہ إلی اللّٰہ یسألہ مسألة إلاّ أعطاہ إیّاہا، إمّا عجّلہا لہ في الدّنیا وإمّا ذخّرہا لہ في الآخرة ما لم یعجّل۔(الأدب المفرد للبخاري، رقم الحدیث: ۷۱۱، ط: مکتبة المعارف للنّشر والتّوزیع، الرّیاض)

                ومثلہ في: (المستدرک للحاکم، رقم الحدیث:۱۸۲۹-۲۹) وقال: ہٰذا حدیث صحیح الإسناد ولم یخرّجاہ۔

(۱۶)          الحاح: گڑگڑانا، منّت کرنا، خوشامد، گریہ و زاری۔ (فیروزاللغات،ص:۱۱۴)

(۱۷)       ہر چند بعض ادعیہ ان میں احادیث موقوفہ سے لی گئی ہیں، مگر صحابہt جو بلا واسطہ سرکارِ نبویB سے تربیت پائے ہوئے ہیں، ان میں بھی قریب ایسی ہی برکت ہے، اور وہ مضامین گویا حضورB ہی کے مضامین ہیں۔ ۱۲ منہ (حضرت تھانویؒ)

(۱۸)       یعنی قرآن و حدیث۔

(۱۹)        یعنی قبولیت کے زیادہ قریب۔

(۲۰)       عن معاذ بن جبل قال: سمِعَ النّبي صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم رجلاً یدعو یقول: اللّٰہمّ إنّي أسألک تمام النّعمة، فقال: أيّ شيء تمامُ النّعمة؟ قال:دعوةٌ أرجو بہا خیرًا، فقال: إنّ من تمامِ النّعمة دخولَ الجنّة والفوزَ من النّارِ، وسمعَ رجلاً یقول: یا ذا الجلال والإکرام، فقال: قد استُجِیب لک فسَل، وسمِع النّبي صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم رجلاً وہو یقول: اللّٰہمّ إنّي أسألک الصّبر، فقال: سألتَ اللّٰہ البلاءَ فأسألہ العافیة، رواہ التّرمذي۔ (مشکاة المصابیح،ص:۲۱۴، کتاب الدّعوات، باب الدّعوات في الأوقات، الفصل الثّاني)

(۲۱) وعن أنس أنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم عادَ رجلاً من المسلمین قد خَفَتَ فصار مثلَ الفرخ، فقال لہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم: ہل کنت تدعوا اللّٰہ بشيءٍ أو تسألہ ایّاہ ؟ قال: نعم! کنت أقول: أللّٰہمّ ما کنت مُعاقبي بہ في الآخرة فعجّلہ لي في الدّنیا، فقال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم: سبحان اللّٰہ ! لا تطیقہ ولا تستطیعہ، أفلا قُلتَ: أللّٰہمّ آتنا في الدّنیا حسنةً وفي الآخرة حسنةً وقنا عذاب النّار، قال: فدعا اللّٰہ بہ فشفاہُ اللّٰہ، رواہ مسلم۔ (مشکاة المصابیح، ص:۲۲۰، کتاب الدّعوات، باب جامع الدّعاء، الفصل الثّالث)

(۲۲)        کوشک: قصر، محل۔ (فیروز اللغات، ص:۱۰۴۴)

(۲۳) عن عبد اللّٰہ بن المغفّل أنّہ سمع ابنہ یقول: أللّٰہمّ إنّي أسألک القصر الأبیض عن یمین الجنّة، قال: أي بُنيّ! سل اللّٰہ الجنّة وتعوّذ بہ من النّار؛ فإنّي سمعتُ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یقول: إنّہ سیکون في ہٰذہ الأمة قومٌ یعتدون في الطّہور والدّعاء، رواہ أحمد وأبوداود وابن ماجہ۔ (مشکاة المصابیح،ص:۴۷، کتاب الطّہارة، باب سنن الوضوء، الفصل الثّاني)

————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 7،  جلد:106‏،  ذی الحجہ 1443ھ مطابق جولائی  2022ء

٭        ٭        ٭


[1]  یہ پورا مضمون مناجاتِ مقبول، موٴلفہ: حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ، مطبوعہ: فریدبک ڈپو، دہلی(ص:۸۵-۸۹)اور الحزب الاعظم مع ترجمہ و تخریج، بہ اہتمام: حضرت مولانا محمد عاقل صاحب سہارنپوری دامت برکاتہم، مطبوعہ: مکتبہ خلیلیہ، سہارنپور (ص:۵-۹) سے ماخوذ ہے۔

Related Posts