از: سعید الظفر ٹانڈوی، شریک عربی ہفتم، دارالعلوم دیوبند
آج بے حیائی کا دور دورہ ہے، دنیا گناہوں کے سمندر میں غرق ہے، چاروں طرف فحاشی پھیلی ہوئی ہے، یقینا اس کے بہت سے اسباب ہیں، مگراس کاایک سبب بدنظری اور نظر کی بے احتیاطی بھی ہے ، یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جس کو شیطان انسان کے ہاتھ میں دے کر پوری طرح مطمئن ہوچکا ہے، اب اسے کبھی کسی طاغوتی منصوبے کو بروئے کارلانے میں زیادہ جدوجہد نہیں کرنی پڑتی، یہ بدنظری خود بخود اس کی آرزوؤں کی خاطر خواہ تکمیل کردیتی ہے۔ نظر کی حفاظت میں کوتاہی بے شرمی کی بنیاد، فتنہ و فساد کا موٴثر ذریعہ اور منکرات و معاصی کا سب سے بڑا محرک ہے، تجربہ اور تحقیق سے بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آج کم سے کم ۷۰ فیصد جرائم اور فحاشیاں محض اس بنیاد پر دنیا میں وقوع پذیر ہوتی ہیں کہ ان کی باقاعدہ تربیت سنیماہالوں، ٹی وی پروگراموں، ویڈیو کیسٹوں اور ایسی پارٹیوں کے ذریعے کی جاتی ہے، جس میں اچھی طرح غیرمحرم عورتوں کو دیکھنے اور اختلاط کا موقع فراہم ہوتا ہے، اسی بدنظری کی پاداش میں بلند و بالا ورع و تقویٰ کے میناروں میں دراڑیں پڑگئیں اور ذراسی بداحتیاطی نے زندگی بھر کے نیک کاموں پر بدنما داغ لگادئیے۔
اسلام برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم رکھتا ہے۔ دنیا میں اسلام سے بڑھ کر کوئی مذہب بے حیائیوں پر روک لگانے والا نہیں ہے۔ قرآن و حدیث میں فحاشی کی بنیاد یعنی آنکھ کی بے احتیاطی کو سختی سے قابو میں کرنے کی تلقین کی گئی ہے یہ ایسی بنیاد ہے اگر صرف اس پر ہی قابو پالیا جائے تو ساری بے حیائیاں دنیا سے رخصت ہوسکتی ہیں۔
قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے:
قُلْ لِلْمُوٴْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِن اَبصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوجَہم ذٰلِکَ اَزْکٰی لہم․ (سورة النور آیت: ۳۱، پ:۱۸)
(آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے زیادہ صفائی کی بات ہے۔)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس مہلک گناہ مٹانے کے لیے ارشاد فرمایا:
النظرة سہم مسموم من سہام ابلیس من ترکہا مِن مخافتی ابدلتہ ایمانا یجد حلاوتہ فی قلبہ․ (الترغیب و الترہیب:۳/۲۴)
(نظر شیطان کے تیروں میں سے ایک زہریلا تیر ہے، جو اسے میرے خوف سے چھوڑدے، تو میں اس کے عوض ایسا ایمان عطا کروں گا جس کی مٹھاس وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا۔)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نصیحت فرمائی تھی کہ علی! ایک مرتبہ بلا ارادہ دیکھنے کے بعد دوسری مرتبہ (اجنبی عورت کو) دیکھنے کا ارادہ مت کرنا اسلئے کہ پہلی (بلاارادہ) نظر تو معاف ہے مگر دوسری مرتبہ دیکھنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ (مشکوٰة شریف: ۲/۲۶۹)
بدنظری کی حقیقت
بدنظری کا حاصل یہ ہے کہ کسی غیرمحرم پر نگاہ ڈالنا، بالخصوص جبکہ شہوت کے ساتھ نگاہ ڈالی جائے، یا لذت حاصل کرنے کے لیے نگاہ ڈالی جائے خواہ غیرمحرم کی تصویر کیوں نہ ہو۔ اور ایسی چیز کو دیکھنا جس سے شریعت نے روکا ہو۔(اصلاحی خطبات، ج:۵)
بدنظری کی مذمت
بدنظری کی مذمت قرآن و احادیث میں واقع ہوئی ہے جیسا اوپر بیان کردیا گیا ہے۔ بیشک بدنظری بہت سے حرام کاموں کو جنم دیتی ہے جو انسان کے لیے مہلک ثابت ہوتے ہیں وہ حرام کام آدمی کو ذلیل کردیتے ہیں، جو کبھی عزت والا تھا آج وہ کہیں منھ نہیں دکھاسکتا۔ بدنظری کرنے والے شرفاء اور صلحاء کیساتھ بیٹھنے کے قابل نہیں رہتے۔ بدنظری کا زبردست وبال ان پر مسلط ہوتا ہے، بدنظری سے بچ کر آدمی سینکڑوں گناہوں اور آفتوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ بدنظری دراصل نفسانی خواہشات کی اتباع ہے۔
اور نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے والے کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ سے یاد کیاہے:
وَاتَّبَع ہَوَاہُ فَمَثْلُہ کَمَثَلِ الکَلبِ ․ (سورة اعراف: ۷۶)
(جس نے اپنی خواہش کی پیروی کی اس کی مثال کتے کی مثال کی طرح ہے۔)
حضرت ابومحمد حریری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس پر اسی کا نفس حاوی ہوجائے وہ شہوات کا اسیر ہوجاتا ہے اور خواہشات نفس کی جیل میں قید ہوجاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر فوائد کے نزول کو حرام کردیتے ہیں اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے کلام سے نہ لذت پاسکتا ہے نہ اس پر عمل کرسکتا ہے اگرچہ اس کا مذاکرہ اس کی زبان پر کثرت سے ہو۔
بدنظری کا گناہ اوراس کی سزا
بدنظری اپنے دامن میں گناہوں کا سمندر رکھتی ہے اوراس کی سزائیں بھی سخت ہیں۔ بہت سے واقعات ایسے بھی سامنے آئے کہ جن سے معلوم ہوا کہ بدنظری کرنے والوں کو دنیا میں بھی بدنظری کی وجہ سے سزا بھگتنی پڑی۔
چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خون بہاتے ہوئے حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا تیری یہ کیا حالت ہے؟ عرض کیا میرے پاس سے ایک عورت گزری تھی میں نے اس کی طرف دیکھ لیا، اس کے بعد میری آنکھ اس کی تاک میں رہی اور میرے سامنے ایک دیوار آگئی جس نے مجھے ضرب لگائی اور یہ کردیا جو آپ دیکھ رہے ہیں۔
معلوم ہوا اللہ تعالیٰ کبھی کبھی بندے کو بدنظری کی سزا دنیا میں بھی دیدیتے ہیں۔ ایسے سینکڑوں واقعات ہیں جو لائق عبرت ہیں۔
چنانچہ امام ابن جوزی نے ایک واقعہ نقل کیا کہ ابوعبداللہ ابن الجلاء کہتے ہیں کہ میں کھڑے ہوکر ایک حسین صورت عیسائی لڑکے کو دیکھ رہا تھا تو میرے پاس سے حضرت ابوعبداللہ بلخی رحمة اللہ علیہ گزرے اورپوچھاتم یہاں کیا کررہے ہو؟ میں نے عرض کیا اے چچا آپ کا کیاخیال ہے کہ (یہ حسین) صورت (کافر ہونے کی وجہ سے) دوزخ میں جلائی جائے گی، تو انھوں نے کندھے پر ہاتھ مارا اور فرمایا تم اس (بدنظری) کا وبال ضرور دیکھوگے اگرچہ کچھ مدت کے بعد۔
تو ابن الجلاء فرماتے ہیں کہ میں نے اس کا وبال چالیس سال بعد دیکھا کہ مجھے قرآن کریم بھلادیا گیا۔ واقعہ سے معلوم ہوا بدنظری نہایت خطرناک گناہ ہے۔ (عشق مجازی)
بدنظری اوراس کی چند صورتیں
بدنظری صرف اس کا نام نہیں ہے کہ غیرمحرم عورتوں کو دیکھ لیا یا بے ریش لڑکوں پر نظر ڈالی بلکہ بدنظری ایک وسیع عنوان ہے جو بہت سے طریقوں اور صورتوں کو اپنے اندر جذب کیے ہوئے ہے اگر دقیق نظر سے دیکھا جائے تو بہت سی صورتیں سامنے آئیں گی جن میں سے چند بیان کی جاتی ہیں۔
(۱) دوسروں کے گھر میں تانک جھانک
اس کی صورتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آدمی کسی دوسرے شخص کے گھر جائے اور داخل ہونے کی اجازت سے پہلے اس کے گھر میں یا کمرے میں دروازے، کھڑکی یا سوراخوں کے ذریعہ جھانکے یقینا یہ بھی ایک خطرناک صورت ہے جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت وعیدیں وارد ہوئیں ہیں۔
(۱) مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے جو متفق علیہ ہے کہ جو شخص کسی کے گھر میں بلا اجازت نظر ڈالے تو گھر والوں کے لیے اس کی آنکھ پھوڑ دینا جائز ہے۔ (مسلم شریف:۲/۲۱۲)
(۲) حضرت عمرابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے داخلے کی اجازت سے پہلے گھر کا صحن آنکھ بھر کر دیکھا اس نے گناہ اور فسق کا کام کیا۔ (شعب الایمان:۶/۴۴۴)
(۲) شرم گاہ کی طرف نظر کرنا
شرم گاہ دیکھنا یہ بھی بدنظری کی صورت ہے، یہ کسی بھی طرح جائز نہیں کہ انسان کسی کی شرمگاہ دیکھے اس سے بے شمار نقصانات پیدا ہوتے ہیں۔ شریعت نے تو میاں بیوی کے لیے اور خود انسان کے لیے ہدایت کی ہے کہ وہ ایک دوسرے کی شرمگاہ دیکھنے اور اپنی شرمگاہ دیکھنے سے پرہیز کریں۔
(۱) چنانچہ ایک مرسل روایت میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مبارک ارشاد نقل فرماتے ہیں:
اذ اتی احدکم اہلہ فلیستتر ولایتجردان تجرد العیرین․ (شعب الایمان ۶/۱۶۳)
جب تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس جائے تو حتی الامکان سترپوشی کرے اور جانوروں کی طرح بالکل ننگے نہ ہوجایا کریں۔
معلوم ہوا کہ حیا اور ادب و احترام کا تقاضہ یہ ہے کہ میاں بیوی بھی ایک دوسرے کے ستر کو نہ دیکھیں۔
(۲) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پوری زندگی نہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ستر دیکھا نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا۔ اس لیے ہمیں بھی سترپوشی میں حد درجے خیال رکھنا چاہئے۔
اس سے بڑھ کر حیا کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ہم تنہائی کے عالم میں بھی حتی الامکان اپنے ستر کو چھپانے کا اہتمام کریں۔ چنانچہ اس دنیا میں ایسے انسان بھی وجود میں آئے جنھوں نے حیا کے اس تقاضے کو بھی پورا کیا اور تنہائی میں بھی سترکھولنے سے احتراز برتا۔
(۱) حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ مشہور صحابی حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سوتے وقت (لنگی کے نیچے) نیکرپہن کر لیٹتے تھے کہ کہیں سونے کی حالت میں ان کا ستر نہ کھل جائے۔
(۲) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اپنی شرم و حیا کو بیان کرتے ہوئے اپنی تقریر کے دوران فرمایا کہ جب قضائے حاجت کیلئے صحراء میں جاتا ہوں تو اللہ تعالیٰ سے شرم کی وجہ سے اپنے کپڑے لپیٹ کر جاتا ہوں یعنی حتی الامکان (سترپوشی کا اہتمام کرتا ہوں) (اللہ سے شرم کیجئے)
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حیا کرنے والا اور سترپوشی پسند کرنے والا ہے۔ اس لیے جب تم میں سے کوئی غسل کا ارادہ کرے تو کسی چیز سے آڑ کرلے۔
مگر افسوس کہ تنہائی میں ہم کیا اہتمام کرتے بلکہ آج دریاؤں، سمندر کے ساحل پر بھی ہم ستر کا خیال نہیں کرتے۔ یا درکھئے والدین کے اعمال و اخلاق کا اولاد پر بہت اثر پڑتا ہے اگر ہم شرم و حیا کے تقاضوں پر عمل پیرا ہوں گے تو ہماری اولاد بھی انھیں صفات و خصائل کی حامل ہوگی اوراگر ہم شرم و حیا کا خیال نہ رکھیں گے تو اولاد میں بھی اس طرح کے خراب جراثیم سرایت کرجائیں گے۔
ایک بڑا نقصان
علاوہ ازیں سترپوشی میں لاپرواہی کا ایک اور نقصان حضرات فقہا نے لکھا ہے کہ اس کی وجہ سے آدمی پر بھول اورنسیان کا غلبہ ہوجاتا ہے اور ضروری باتیں بھی یاد نہیں رہتیں۔ علامہ شامی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بھول کا مرض پیدا کرنے والی چیزوں میں سے یہ بھی ہے کہ آدمی اپنی شرم گاہ سے کھیل کرے اور اس کی طرف دیکھے۔ (شامی: ۱/۲۲۵)
بہرحال نظر سے صادر ہونے والی نامناسب باتوں میں سے اپنے ستر پر بلا ضرورت نظر کرنا بھی ہے جس سے نظر کو محفوظ رکھنا چاہئے۔
(۳) ٹی وی دیکھنا
بدنظری کی ایک اہم صورت فلم بینی اور فحش تصویریں دیکھنا بھی ہے۔ یقینا یہ ہمارے سماج کی ایک اہم برائی ہے ، آج کل ٹی وی کے ذریعہ جو پروگرام نشر کیا جارہا ہے وہ نوپود اور نوخیز نسلوں کی زندگیوں کے لیے سم قاتل ہے۔ آج ٹیلی ویژن کے پردے پر ننگے اور انسانیت سے گرے ہوئے مناظر دیکھ کر ہمارے معاشرے میں ان کی نقل اتارنے کی کوشش کی جاتی ہے اوراس کا بالکل لحاظ نہیں رکھاجاتا کہ ہمارا رب اور ہمارا خالق و مالک تنہائیوں میں بھی ہمارے اعمال سے پوری طرح واقف ہے، وہ اس بدترین حالت میں دیکھے گا تو اسے کس قدر ناگوار گزرے گا۔ ٹی وی پر نشر ہونے والا پروگرام ایک متمدن اور مہذب سماج کی پیشانی کا کلنک ہے جسے مٹانا اور ختم کرنا ہر اچھے شہری کی ذمہ داری اوراس کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔
نظر کے فتنوں سے حفاظت
بدنظری کا عمل اپنے نفس کی اصلاح کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور یہ عمل انسان کے باطن کیلئے تباہ کن ہے کہ دوسرے گناہوں سے یہ بہت آگے بڑھا ہوا ہے اور انسان کے باطن کو خراب کرنے میں اس کا بہت دخل ہے۔ جب تک اس عمل کی اصلاح نہ ہو اور نگاہ قابو میں نہ آئے اس وقت تک باطن کی اصلاح کا تصور محال ہے، نظر کی حفاظت کے بعد ہی انسان کو رتبہ حاصل ہوسکتا ہے۔
(۱)حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شیطان انسان کی تین جگہوں پر ہوتا ہے۔ اس کی آنکھ میں، اس کے دل میں اور اس کی شرم گاہ میں اور عورت کے بھی تین جگہ پرہوتا ہے اس کی نگاہ میں اس کے دل میں اور اس کی سرین میں۔
(۲) حضرت سفیان ثوری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ربیع بن خثیم رحمة اللہ علیہ اپنی نگاہیں بند رکھتے تھے ایک مرتبہ انکے پاس سے چند عورتیں گزریں تو انھوں نے اسی طرح سے اپنی آنکھیں بند کرلیں، تو عورتوں نے یہی سمجھا کہ یہ نابینا ہیں اور انھوں نے اللہ تعالیٰ سے اندھے پن سے پناہ مانگی۔
(۳) حضرت عمروبن مرہ رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میں بینا ہوتا، میں وہ لمحہ نہیں بھولتا جب میں نے جوانی میں ایک مرتبہ (کسی غیر عورت) کو دیکھ لیاتھا۔
(۴) حضرت حکیم لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی کہ اے بیٹے شیر اور سانپ کے پیچھے چاہے تو چل لے مگر عورت کے پیچھے مت چلنا۔ (ذم الہوی)
حضرت مفتی اعظم شفیع صاحب رحمة اللہ علیہ کے ملفوظات میں لکھا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ شیطان نیک آدمی سے یہ نہیں کہتا کہ تم زناکرو، بلکہ پہلے ایک حسین صورت دکھاتا ہے اگر تم نے اس کی توجہ ذہن سے نہ نکالی تو باربار آئے گا۔ پہلی نظر اختیاری نہ تھی دوسری اختیاری ہوگئی آگے چل کر وہی درخت کی شکل اختیار کرلیتا ہے یہاں تک کہ اس سے وہ گناہ صادر ہوجاتا ہے۔
بدنظری سے حفاظت کیلئے دعا کرنے والے
اس دنیا میں جہاں ایسے لوگ گزرے کہ وہ برے کام کرنے کی وجہ سے ہلاک و برباد ہوئے تو وہیں ایسے لوگ بھی وجود میں آ:ے جو اپنی پاک دامنی اورگناہوں سے بچنے کے سبب اللہ کے مقرب بنے اور دنیا آج بھی ان کو یاد کرتی ہے، ان کو جب بھی گناہ کا شبہ ہوا تو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کی اور گناہ سے بچ گئے۔
حضرت یوسف بن یونس بن حماس کے پاس سے ایک عورت گزری اور وہ ان کے دل میں اترگئی تو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی (کہ ان کی بینائی چھین لے) چنانچہ ان کی بینائی جاتی رہی۔ اس کے بعد ایک زمانے تک اسی حالت میں مسجد تک آتے رہے کہ کوئی شخص ان کو مسجد تک لے آتا اور لے جاتا، ایک مرتبہ ان کو لے جانے والا آدمی مسجد سے چلا گیا اور ان کو کوئی ایسا شخص نہ ملا جو ان کو گھر تک چھوڑ آتا، تو ان کے دل میں کچھ تحریک سی پیدا ہوئی اور وہ مسجد سے نکلے اور اللہ تعالیٰ سے بینائی کی واپسی کی دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے بینائی درست فرمادی پھر انتقال تک بینا رہے۔
حفاظت نظر کا انعام
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ جہاں ہر طرف بے پردگی، بے حجابی، عریانی اور فحاشی کا بازار گرم ہے، ایسے میں اپنی نگاہوں کو بچانا مشکل نظر آتا ہے۔ یہ ایک کڑوا گھونٹ ہے جس کو پینا نہایت دشوار کام ہے، مگر جن اللہ کے نیک بندوں کو ایمان کی حلاوت حاصل کرنا مقصود ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق اور محبت منظور ہوتی ہے اور جن کو باطن کی صفائی، تزکیہ اور طہارت مدنظر ہوتی ہے وہ اس کڑوے گھونٹ کو ہمت کرکے پی جاتے ہیں اور جب ان کو عادت ہوجاتی ہے تو وہ لوگ اس کی حلاوت محسوس کرتے ہیں اور چین و سکون سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر بے انتہا انعامات کی بارش فرماتے ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ بہت سے ایسے لوگ گزرے ہیں کہ جنھوں نے اس کڑوے گھونٹ کو پیا توان کے مرنے تک ان کے جسم سے مشک و عنبر کی خوشبوئیں آتی رہیں۔
(۱) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
النظرة الاولی خطأ والثانیة عمد والثالثة تدمر نظر الرجل الی محاسن المرأة سہم من سہام ابلیس مسمرم من ترکہا من خشیة اللّٰہ ورجاء ما عندہ اثابہ اللّٰہ بذلک عبادة تبلغہ لذتہا․
پہلی بار دیکھنا غلطی ہے، دوسری بار دیکھنا جان کر گناہ کرنا ہے اور تیسری بار دیکھنا ہلاکت ہے، انسان کا عورت کے جسمانی محاسن دیکھنا ابلیس کے تیروں میں سے ایک زہر آلود تیر ہے جس مسلمان نے اسکو اللہ کے خوف سے اور اللہ کے پاس موجود انعامات کے حاصل کرنے کی امید میں چھوڑ دیا تو اللہ اس کی وجہ سے اس کو ایسی عبادت نصیب فرمائیں گے، جو اس کو اپنی عبادت اور نظر کی پاکیزگی کا مزہ نصیب کرے گی۔
(۲) حضرت مجاہد رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کو نہ دیکھنے سے اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہوتی ہے۔
حضرت ابراہیم بن مہلب رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے ثعلبہ اور خزیمہ کے درمیان ایک جوان کو نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا، جو لوگوں سے الگ تھلگ تھا اس کے پاس اخلاص و توحید کی دولت تھی اور اسے معرفتِ خداوندی حاصل تھی، اور اللہ پر مضبوط توکل رکھتا تھا یقینا اس کا درجہ اور مقام بہت بلند تھا۔ میں نے اس جوان سے معلوم کیا کہ تم کو یہ مرتبہ کیسے حاصل ہوا تواس جوان نے جواب دیا کہ ہر حرام چیز سے اپنی آنکھوں کی حفاظت کرکے اور ہر منکر اور گناہ سے اجتناب کرکے مجھے یہ انعام حاصل ہوا۔
معلوم ہوا کہ نظر کی حفاظت بے شمار انعامات کے حصول کا سبب ہے۔
خدا کے خوف سے گناہ سے بچنے والوں کا ثواب
گذشتہ تفصیل سے معلوم ہوگیاکہ بدنظری کتنا سخت گناہ ہے اور اس میں انسان اللہ تعالیٰ کے غضب کا مستحق ہوجاتا ہے، مگر جو لوگ اللہ کے خوف سے گناہ سے رک جاتے ہیں اور اپنی خواہشات کا صرف اللہ کی وجہ سے گلا گھونٹ دیتے ہیں تو رب العالمین ایسے لوگوں کو بے شمار انعامات اور ثواب سے سرفراز فرماتے ہیں۔
(۱) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ولمن خاف مقام ربہ جنتان (جو شخص اپنے رب کے سامنے پیش ہونے سے خوفزدہ ہوگیا اس کے لیے دو جنتیں ہوں گی)۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت مجاہد رحمةاللہ علیہ فرماتے ہیں۔ یہ دو جنتیں اس شخص کو عطا فرمائی جائیں گی جس نے گناہ کاارادہ کیا پھر اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے کے خوف سے گناہ کرنے سے رک گیا۔ (معارف القرآن)
(۲) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے پہلے ایک خطبے میں ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے کسی عورت یا لونڈی پر گناہ کی قدرت پائی اور اس کو خدا کے خوف سے چھوڑدیا، تو اللہ تعالیٰ اس کو بڑی گھبراہٹ کے دن میں امن نصیب کریں گے، اور دوزخ اس پر حرام کریں گے اور جنت میں داخل فرمائیں گے۔ (ذم الہوی)
(۳) حضرت میمون رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ذکر کی دو قسمیں ہیں: (۱) اللہ تعالیٰ کا ذکر زبان سے کرنا تو خوب ہے مگر (۲) اس سے افضل ذکر یہ ہے کہ انسان اس وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرکے گناہ سے رک جائے جب وہ گناہ میں مبتلا ہونے لگا ہو۔
اقوال اولیاء
(۱) حضرت بلال سعید رحمة اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ تم گناہ کے چھوٹے ہونے کو نہ دیکھو بلکہ یہ دیکھو کہ تم کس کی نافرمانی کررہے ہو۔
(۲) حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اے انسان گناہ کا چھوڑنا توبہ کرنے سے زیادہ آسان ہے۔
(۳) حضرت محمد بن کعب رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ گناہ چھوڑنے سے زیادہ محبوب اللہ کے نزدیک کوئی عبادت نہیں۔
(۴) حضرت سہل رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اچھے عمل تو نیک لوگ بھی کرتے ہیں اور گنہ گار بھی لیکن گناہوں سے وہی بچتا ہے جو صدیق ہوتا ہے۔
(۵) حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں، جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کو ذلیل فرمادیتے ہیں۔ (ذم الہوی)
بدنظری سے بچنے کا علاج
مضمون بالا سے معلوم ہوگیا کہ بدنظری باطن کو خراب کرنے کے ساتھ ذلت و رسوائی کا بھی سبب بنتی ہے لہٰذا اس کا علاج بہت ضروری ہے۔ تاکہ انسان کو اس سے حفاظت کے سبب دنیا اور آخرت کی سرخ روئی نصیب ہو۔ چنانچہ اس کا علاج یہی ہے کہ جب پہلی ہی نظر میں نگاہ کو پابند کرکے اللہ کے احکام کی پابندی کرلیں گے تو بدنظری اور بے شمار آفات سے نجات حاصل ہوجائے گی۔ اور اگر بار بار بدنگاہی میں مبتلا ہوں گے تو نظر نے جو کچھ دل میں تخم ریزی کی ہوگی، اس کو نیست و نابود کرنا بہت مشکل ہوجائے گا۔ جب بدنگاہی ہوجائے تواس کی گہرائی میں نہ جائیں بلکہ اس کے نتائج بد کی فکر کریں اور اللہ کا خوف دل میں لائیں، اور ہمت سے کام لیکر یہ طے کریں کہ یہ نگاہ غلط جگہ پر نہیں اٹھے گی اس کے بعد چاہے دل کتنا تقاضہ کرے نگاہ مت ڈالو۔ حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ نے انسان کو بدنگاہی سے بچانے کی کچھ تدبیریں بیان فرمائی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی عورت نظر آئے اور نفس یہ کہے کہ ایک دفعہ دیکھ لے کیا حرج ہے کیونکہ تو بدفعلی تو کرے گا ہے نہیں۔ تو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ نفس کا مکر ہے اور نجات کا طریقہ یہ ہے کہ عمل نہ کیا جائے۔
اس لئے کہ یہ شیطان کا دھوکہ ہے۔ وہ کہتا ہے کہ دیکھنے میں کیا حرج ہے یہ شیطان کا مضبوط فریب ہے۔ (اصلاحی خطبات،ج:۵)
حضرت ڈاکٹر عبدالحئی صاحب رحمة اللہ علیہ نے ایک مرتبہ فرمایاکہ یہ جو گناہ کے داعیے اور تقاضے پیدا ہوتے ہیں۔ ان کا علاج اس طرح کرو کہ جب دل میں یہ سخت تقاضہ پیدا ہو کہ اس نگاہ کو غلط جگہ استعمال کرو، تو اس وقت ذرا سا یہ تصور کرو کہ اگر میرے والد مجھے اس حالت میں دیکھ لیں یا میری اولاد میری اس حرکت کو دیکھ لے، تو کیا پھر بھی میں اس عمل کو جاری رکھوں گا۔ ظاہر ہے کہ اگر ان میں سے کوئی بھی میری اس حرکت کو دیکھ رہا ہوگا تو میں اپنی نگاہیں نیچی کرلوں گا اور یہ کام نہیں کروں گا چاہے دل میں کتنا ہی شدید تقاضہ کیوں نہ ہو۔
اسی طرح انسان کو راستے میں گزرتے وقت نگاہوں کو نیچا رکھنا چاہئے اس کے ذریعہ بھی آدمی اس عمل سے بچ سکتا ہے ۔ کیونکہ حضرت ڈاکٹر عبدالحئی صاحب رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ نے جس وقت شیطان کو جنت سے نکالا تو شیطان نے کہا کہ میں تیرے بندوں پر آگے، پیچھے، دائیں اور بائیں طرف سے حملہ کروں گا۔ شیطان نے صرف دوسمتوں کو یعنی اوپر اور نیچے کو چھوڑدیا۔ تو شیطان کے حملے سے صرف اوپر ، نیچے کی سمت محفوظ ہے۔ اب اگر نگاہ اوپر کرکے چلوگے تو ٹھوکر کھاکر گروگے اس لئے اب ایک راستہ رہ گیا کہ نیچے کی طرف نگاہ کرکے چلو تو انشاء اللہ شیطان کے چاروں حملوں سے محفوظ رہوگے۔
بدنظری کا صرف یہی علاج ہے اس کے علاوہ علاج نہیں۔ جب چند روز ہمت سے ایسا کروگے تو انشاء اللہ میلان بھی ختم ہوجائے گا۔
اصلاح دل کی دعا
حدیث شریف میںآ تا ہے کہ جب مسلمان گناہ کرتا ہے تواس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ پڑجاتا ہے اگر اس نے توبہ کرلی اور استغفار کیا تو اس کا دل صاف ہوجاتا ہے اور اگر گناہ کرتا ہے اور توبہ نہیں کرتا ہے تو یہ نکتہ پورے دل میں پھیل جاتا ہے اور پورا دل زنگ آلود ہوجاتا ہے۔ اور دل کو عبادت کی لذت محسوس نہیں ہوتی۔ تو انسان جب بدنظری کرتا رہے گا اور توبہ نہیں کرے گا تواس کا دل بھی زنگ آلود ہوجائے گا اور دل پر اچھا اثر ختم ہوجائے گا۔اس لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کیا جائے اوراصلاح دل کی دعا کی جائے۔
دیکھئے! جب انسان کسی دنیاوی مقصد کیلئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے تو بے شک اللہ تعالیٰ اس دعا کو قبول فرماتے ہیں، تو کیا جب انسان اللہ تعالیٰ سے دعا کرے گا ، اے اللہ مجھے گناہ سے بچادیجئے، دین پر چلا دیجئے، سنت پر چلا دیجئے، تو یقینا اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں گے۔ اس میں قبول نہ ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے۔
اوراگر خدانخواستہ پھر دوبارہ گناہ سرزد ہوگیا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دعا قبول نہیں ہوئی ہے۔ ایسا کچھ نہیں بلکہ دعا تو قبول ہوئی لیکن اگر بالفرض گناہ ہوبھی گیا تو اس توبہ کی برکت سے دوبارہ ان شاء اللہ توبہ کی توفیق نصیب ہوجائے گی۔ (اصلاحی خطبات)
یہی وہ چیزیں ہیں کہ جس کے کرنے سے انسان کا تعلق اللہ تعالیٰ سے پختہ ہوجاتا ہے۔ عزت و شہرت دنیا میں بھی اس کے قدم چومتی ہے اور آخرت میں بھی اس کو اعلیٰ مقام ملتا ہے۔
تمام گناہوں گے بچنے کا صرف ایک نسخہ
حضرت مولانا تقی عثمانی مدظلہ العالی نے لکھا ہے کہ صرف بدنظری ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہرگناہ سے بچنے کیلئے دو چزیں ضروری ہیں: (۱) انسان اللہ تعالیٰ سے اس گناہ سے دور رہنے کی دعا کرتا رہے، (۲) اور اپنے عمل و ہمت سے اس کام سے دور رہے۔
اگر ان میں سے ایک چیز ہے ایک چیز نہیں ہے ۔ صرف عا کرتے رہو اور ہمت نہ کرو تو کام نہیں چلے گا۔ مثلاً ایک آدمی مشرق کی طرف بھاگا جارہا ہے اور دعا کررہا ہے کہ اے اللہ مجھے مغرب پہونچا دے۔ تو دعا کیسے قبول ہوگی۔ پہلے ضروری ہے کہ اپنے رخ کو مغرب کی طرف کرے اور پھر دعا کرے ورنہ وہ دعا نہیں بلکہ مذاق ہے۔
اس لیے ہمیں دونوں کام کرنے چاہئے۔ بعد میں اس کا نتیجہ برآمد ہوگا ۔ بس یہی نسخہ نگاہوں سے بچنے کیلئے کافی ہے اور ساری طاعات کو حاصل کرنے کا بھی یہی نسخہ ہے۔
حاصل کلام
یہ بدنگاہی کا عمل اپنے نفس کی اصلاح کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور یہ عمل انسان کے باطن کیلئے اتنا تباہ کن ہے کہ دوسرے گناہوں سے یہ بہت آگے بڑھا ہوا ہے جب تک اس عمل کی اصلاح نہ ہو اور نگاہ قابو میں نہ آئے اس وقت تک باطن کی اصلاح کا تصور محال ہے۔ اللہ تعالیٰ اس عظیم گناہ سے ہم سب کو بچائے اور ان نصائح پر ہمیں اور تمام مسلمانوں کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
آرزوئیں خون ہوں یا حسرتیں برباد ہوں
اب تو اس دل کو بنانا ہے ترے قابل مجھے
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ10-11، جلد: 89 ، رمضان، شوال 1426ہجری مطابق اکتوبر، نومبر 2005ء