از: مولانا عبد القوی ذکی حسامی

استاذ دارالعلوم رشیدیہ، مہدی پٹنم، حیدرآباد

             اسلام ایک پاکیزہ مذہب ہے،جس کا خالق اللہ ہے،وہ یحب النظافة والی صفت کا حامل ہے، اس دین کے مبلغ وپیغامبر حضرت محمد … ہیں،جو نفاست ولطافت، نزاکت ولطافت کے اونچے کردار کے علمبردار تھے، قرآن مجید اسی دین کی آخری کتاب ہے جس کی تبریک کی طلبگار ساری انسانیت ہے،جب یہ بات واضح ہوگئی کہ اسلام کے مصادر وماخذ ہر اعتبار سے صاف وستھرے معیارپر فائز ہیں،تو پھر انھیں سے متشرح احکامات،ارشادات، اوامر ونواہی میں نحوست کا تصورکہاں سے در آیا ہے، سچ یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت کی رسومات دوبارہ عود کر آرہی ہیں،بنیاد ی طور پر مسلم معاشرہ میں نحوست کا جو تصور بالخصوص طبقہ خواتین میں جوپایا جاتا ہے اس کی دو وجوہات ہیں ایک یہ کہ اسلامی تعلیمات کی کمی یااس سے عدم واقفیت ہے؛بلکہ بہت سے تو اسلام کی ابجد ہی سے نابلد ہوتے ہیں، دوسری وجہ اغیارسے غیر ضروری قربت اور تعلقات میں بے احتیاطی،ان کے رسومات وتقریبات کا ماحول،خوشی وغم کامنظرکسی مضبوط دینی اساس کے بغیر دیکھا جائے تونتیجہ اس صورت میں ظاہر ہوگاکہ مسلمان کہے جانے والا بھی تاریخ،مہینہ، دیگر کائنات ارضی پرموجود بے جان چیزوں اورپرندوں میں بھی نحوست خیال کرے گا،ماقبل اسلام اہل عرب بہت سی چیزوں میں نحوست کا تصور رکھا کرتے تھے، اور یہ اسوقت عام سی بات تھی،مثلاً خانہ کعبہ میں چند تیروں کو” نعم “یا ”لا“سے مختص کرلیتے اور اس کو بذریعہ قرعہ اٹھاتے،اس کے مطابق فیصلہ کرتے تھے،سفرکی روانگی پر دیکھا جاتا تھا کہ سامنے کے درخت پر اگر کوئی پرندہ ہوتو اس کو اڑادیاجاتا تھا اگر وہ دائیں جانب پرواز کرے تو سفرکی کامیابی کی ضمانت ہوتی،بائیں سمت اگر وہ پرندہ چلاجائے تو سفر میں نقصان ہونے کااندیشہ کیا کرتے تھے،آقا … نے اس کی نفی فرمادی اور ارشاد فرمایاکہ اقروا الطیور علی مکانتھا۔ پرندوں کو اپنی جگہ پر بیٹھے رہنے دو۔اسی طرح زمانہٴ جاہلیت کا ایک عقیدہ تعدیہ کاتھا، یعنی بیماریاں ایک دوسرے میں متعدی ہوتی ہیںآ پ… نے فرمایا لاعدوی(تعدیہ کوئی چیز نہیں) تعدیہ کے متعلق ایک دیہاتی نے نبی اکرم … سے سوال کیا کہ اونٹ رتیلے علاقوں میں ہرنوں کی طرح تیز وطرار رہتے ہیں انھیں کوئی بیماری نہیں ہوتی ہے؛ لیکن ایک خارش زدہ اونٹ ان کے درمیان آکر گھل مل جاتا ہے تو وہ سب کو خارش زدہ کردیتا ہے، تو آپ…نے فرمایا فمن اعدی الأول پہلے اونٹ کو کس نے خارش دی،جب پہلے والے اونٹ کو خار ش من جانب اللہ خارش ہوئی تو انھیں بھی اللہ کے حکم سے ہوئی ہے۔ (البخاری۵۷۱۷) ”الّو“جو ایک پرندہ ہے اس کے متعلق یہ خیال تھاکہ مردے کا جسم جب ”گل سڑ“ جاتا ہے تو اس کی ہڈیاں ”الُو“کی شکل میں میت کے گھر کے اطراف میں گھومتی ہیں،آپ … نے ولاھامة فرما کراس نحوست والے نظریہ کو بھی ختم کردیا یہ کوئی چیز نہیں ہے، بالکل یہی نظریہ آج شکل کی تبدیلی کے ساتھ یہ رکھا جاتا ہے کہ شب معراج،شب برأت میں مُردوں کی روحیں اپنے اپنے گھرآیا کرتی ہیں؛ لہٰذا اشیائے خوراکی میں اضافی چیزیں بڑھائی جائے وغیرہ۔اسی طرح ایک عقیدہ صفر سے متعلق یہ موضوع روایت کے ذریعہ مشہور کردیا گیا من بشرنی بخروج صفر بشرتہ بالجنة۔ جو شخص مجھے صفر کا مہینہ ختم ہونے کی خوشخبری دے میں اسے جنت کی خوش خبری دوں گا، تمام علماء اس کے موضوع ہونے پر متفق ہیں،اس کے علاوہ ماہ صفر کو منحوس سمجھنا،اس میں کسی قسم کی دعوت محض اس بنا پر نہ کرنا کہ اس ماہ میں اگر دعوت کی جائے گی تو نحوست آجائے گی،اس ماہ میں عقدنکاح یا پیغام نکاح یا سفروغیرہ کا کرنا منحوس سمجھا جاتا ہے،بعض ایام کو بابرکت خیال کرنا اور بعض کو منحوس تصور کرنا جیسے” تین تیرہ آٹھ اٹھارہ“ کے ایام،یا ماہ صفر کو سرے سے منحوس گرداننا،یہ اس دورمیں جاہل لوگوں کا ایک وطیرہ بن گیا ہے؛ حالانکہ نبی … نے اس کی خوب تردید فرمائی اور فرمایا ولاصفر،تیرہ تیزی کی کوئی حقیقت نہیں،ذرا اس جیسے عقیدہ رکھنے والوں کو دعوت فکر دیتا ہوں کہ قرآن مجید میں اللہ نے فرمایا ان عدة الشہور عند اللّٰہ الثنا عشر شھرًا یوم خلق السمٰوٰت والارض(التوبة) یعنی یہ مہینے اللہ کے یہاں آسمان وزمین کی تخلیق کے وقت ہی سے شمار کیے جاتے تھے،تو نحوست کہاں سے گھس گئی،اہل عرب اس کا بھی تصور رکھا کرتے تھے کہ جنگلوں اور بیابانوں میں بھوت پریت نظر آتے ہیں جو لوگوں کو گم کردہ راہ کردیتے ہیں آپ … نے فرمایا ولا غول، بد شگونی لینا بد فالی لینا،بلی کا سامنے سے گذر جانے کو منحوس سمجھنا،کوے کا گھر پر چیخ وپکار کرنے کو مہمان کی آمد خیال کرنایہ اور اس جیسی بے ہودہ باتیں مسلم معاشرہ میں پائی جاتی ہیں جس کی کوئی حقیقت نہیں،آپ… نے فرمایا الطیرة شرک بد شگونی لینا یابد فالی لینا اعمال شرکیہ ہیں،جہالت کی انتہاء یہ ہے کہ اس وقت بازاروں میں ایک مصنوعی مشین رکھی رہتی ہے جس کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی اس پر کھڑے ہوکر اپنے دل کی کیفیات سے باخبر ہوجائے، کس قدر عقل وشعور سے عاری ہونے کی دلیل ہے۔دین اسلام کی تعبیر وتشریح، تفسیر وتحقیق کسی ٹیکنالوجی کے واسطے سے نہیں لی جاسکتی،اگر شریعت مطہرہ کی تعلیم ذرائع حقہ سے نہ لی جائے تو جائزوناجائز کا کوئی پیمانہ نہیں رہ جائے گا۔

( مستفاد ازمضمون۔مفتی رفیع الدین حنیف)

——————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :12،    جلد:105‏،  ربیع الثانی – جمادِی الاول 1443ھ مطابق   دسمبر 2021ء

٭        ٭        ٭

Related Posts