از: مولانا احمدعبید اللہ یاسر قاسمی

ردَّۃٌ ولا ابابکرٍ لہا

            اس میں کوئی شک نہیں کہ ابتدائے آفرینش سے ہی حق و باطل کی معرکہ آرائی جاری ہے، ہر دور میں معاندین اور ہر زمانے میں مخالفین نے شر انگیزی پھیلائی ہے، ہر قوم و ملت میں ایسے ناعاقبت اندیش افراد نے جنم لیا ہے جنھیں اشاعتِ حق اور غلبہ خیر سے پیدائشی دشمنی رہی ہے؛ لیکن موجودہ دور کے جو فتنے سر ابھار رہے ہیں وہ ایک خطرناک ترین سازش اور تعصب پر مبنی اسلام دشمنی اور اہل اسلام سے ازلی عداوت و نفرت کا شاخسانہ ہے، شاید یہی وہ ذہنی فکری عملی ارتداد ہے جو سب سے پہلے انسان کے ظاہری طبیعت پر اثر انداز ہوکر اس کے باطن سے ایمان کی حقیقی لذت چھین لیتا ہے بقول مفکر اسلام ابو الحسن علی میاں ندوی رحمہ اللہ ’’ردۃ ولا ابابکر لہا‘‘ ’’یہ ایک ایسا ارتداد ہے جس کے لیے کوئی ابوبکر نہیں ہے‘‘ شاید اس جملے پر کسی شخص کواعتراض ہو؛ لیکن راقم الحروف صد فی صد متفق ہے؛ کیونکہ ہمیں اس کا اندازہ ہی نہیں کہ ہم ایک صریح فکری تہذیبی و ثقافتی ارتداد میں جھونک دیے گئے ہیں جہاں سے واپسی کی راہ کافی دور ہوچکی ہے اور ہر کوئی اس سے بے اعتنائی کا شکار ہے اگر ہم اس پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہماری صبح وشام میں مغربی تہذیب و ثقافت کے آثار ہیں ؛ بلکہ دنیا میں پائے جانے والے تمام مذاہب میں مغربی الحاد اور بے دینی کی لہر ہے، حتی کہ مذاہب کا اثر لوگوں میں صرف ناموں تک رہ گیا ہے باقی سب رسومات وعبادات اخلاقیات ومعاشرت اسی تہذیب مغرب کی نذر ہوکر تباہ و برباد ہوگئے ہیں ، ہمارے معاشرہ کا سرمایہ دار طبقہ مغربی تہذیب وثقافت کا دلدادہ بن چکا ہے،ہمارا موجودہ تعلیمی نظام بھی اسی طبقہ کے ہاتھ میں ہے جس کی وجہ سے کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکلنے والے طلباء کی اکثریت مغربی (افرنگی) تہذیب وثقافت کی دلدادہ بن رہی ہے، یہ سلسلہ مسلسل تیزی کے ساتھ جاری ہے اگر اس ارتداد کی طرف فورا توجہ نہ دی جائے اور اگر اسے یونہی جاری رہنے دیا جائے تو بہت جلد اکثریت کا اسلام سے جذباتی لگاؤ بھی ختم ہونے لگے گا۔

مغربی تہذیب کا تعارف

            مغربی تہذیب کسی خاص مذہب کا نام نہیں ہے جو الہامی یا خدائی تعلیمات پر عمل کرنے کامدعی ہو بلکہ تہذیبِ مغرب یا مغربی فکر وفلسفہ ایک ایسی سوچ وفکر کا نام ہے جو ہر کسی کو اپنے اپنے مذہب پر پرائیویٹ زندگی میں عمل کرنے کی اجازت ضرور دیتی ہے؛ لیکن خاص طرز فکر عقائد اور وحی پر مبنی تعلیمات کو قبول نہیں کرتی، اس لیے کہ مغربی نقطئہ نظر میں سب سے اہم چیز خود انسان ہے دنیا میں عیش و عشرت،فرحت ولذت اس کا حق ہے، اپنے عمل کا کسی دوسرے کے سامنے جواب دہ نہیں ،تو وہی مادیت، زرپرستی اور مال ومنال سے بے انتہا محبت اس کا بنیادی وصف ہے۔

مغربی تہذیب کی بنیاد

            اہل مغرب کی تہذیب و ثقافت کا دارومدار تین چیزوں پر ہے:

            (۱)       آزادی    (۲)       مساوات (۳)      ترقی

            اگر ان تینوں چیزوں میں اضافہ ہورہا ہو تو اس کو فروغ دیا جاتا ہے؛بلکہ اس پر زور دیا جاتا ہے اور اگر کوئی فرد یا گروہ کسی رکاوٹ کے ذریعے اس راہ میں حائل ہوجائے تو اس کو قانوناً یا جبراً ختم کردیا جاتا ہے اور اِن ہی تین اشیاء کو مد نظر رکھ کر اہل مغرب نے ایک عالمگیر قانون ’’انسانی حقوق کا عالمی منشور‘‘ کے نام سے مرتب کرکے ہر ملک کو اس کا پابند بنایا ہے جس کی پاس داری تمام ممالک کے ذمہ ضروری ہے۔ (بحوالہ: تعارف تہذیب مغرب اور فلسفہ جدید)

اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب میں بنیادی فروق

            (۱)       اسلام میں اعلی اتھارٹی اﷲجل شانہ کو مانا گیا ہے، کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے؟کیا حلال ہے کیا حرام ہے؟اس کے بارے میں اﷲتعالیٰ کا حکم نازل ہوگا،انسان خود کسی چیز کو حرام یا حلال قراردینے میں آزاد نہیں ہے۔ زنا حرام ہے یا حلال؟  سودلینا اور دینا حلال ہے یا حرام؟

            اس کی تعیین صرف اﷲجل شانہ کریں گے؛جب کہ اہل مغرب اعلیٰ اتھارٹی انسان کو سونپ دیتے ہیں کہہر چیز کا اختیار انسان کے ہاتھوں میں ہے، وہ جسے درست کہہ دے وہ درست اور جسے غلط کہہ دے وہ غلط، صحت وسقم کا دارو مدار انسان کی عقل پر ہے اور وہ ہر طرح سے آزاد ہے جیسے: زنا کرنا درست ہے یا غلط؟ لواطت انسانی حق ہے یا قبیح ترین عمل؟ سودلینا جائز ہے یا حرام؟ اس کا فیصلہ انسانی عقل کرے گی۔

            (۲)       اسلام کی رہنمائی شریعت محمدی کے ذریعے ہے جب کہ مغربی فکروفلسفہ میں رہنمائی حاصل کرنے کے لیے نہ ہی رسولوں کی ضرورت ہے نہ کسی آسمانی کتاب کی؛ بلکہ انسان عقل کے سوا کسی کا تابعدار نہیں ۔

            (۳)      اسلام میں قانون شریعت سے اخذ کیا جائے گا جب کہ مغربی نظریات اور ان کی تہذیب و تمدن کے مطابق قانون انسانوں کا منتخب کردہ گروہ (پارلیمنٹ)بنائے گا۔

            (۴)      اسلامی تہذیب میں خدا کا تصور یہ ہے کہ خدا ایک ہے، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اور مسلمان اسی ایک خالق و مالک کے ماننے والے ہیں ،جس نے انسانوں اور سارے جہانوں کو پیدا کیا ہے؛ جب کہ اس کے برعکس مغربی تہذیب نے خدا اور مذہب کے انکار کے بعد مادہ کو اپنا خدا تسلیم کیا ہے، اس کے نزدیک مادہ ہمیشہ سے ہے، ہمیشہ رہے گا اور وہ اپنے شعور کی بنیاد پر اشیاء کی تخلیق کرتاہے۔

            (۵)      اسلامی تہذیب میں علم کا تفوق وحی ہے،چنانچہ وحی کے مقابلے میں انسان کا تخلیق کردہ کوئی بھی علم فوقیت نہیں رکھتا ہے؛ جب کہ مغربی تہذیب میں تفوق عقل کو حاصل ہے،اسی وجہ سے جنت جہنم کے وجود کا انکار کرتے ہیں ، بعث بعد الموت کو جھٹلاتے ہیں ،جزا وسزا اور ان جیسے دیگر عقائد کے صریح انکاری ہیں اور یہی وجہ ہے اہل مغرب کسی مذہب کے قائل نہیں ہیں اس لیے کہ مذہب کو عقلیات اور سائنس سے ثابت نہیں کیا جا سکتا؛بلکہ ایمانیات و عقائد کا باب توصرف وحی کے علم کے ذریعے سے ہی سمجھ میں آسکتا ہے۔

            (۶)       اسلام میں عبادات کا مقصد اور انسان کی تگ ودو کا حاصل مسلمانوں کے لیے آخرت میں کامیابی اور جنت کا حصول ہے؛ جب کہ مغربی تہذیب کامیابی صرف مادی ترقی کو مانتی ہے، جس نے دنیا میں جتنی زیادہ مادی ترقی کی وہی کامیاب ترین انسان ہے، اور یہ تصور اس قدر عام ہوچکا ہے کہ آج عوام تو کجا خواص بھی مالداری اور دنیوی ترقی کو کامیابی سمجھ بیٹھے ہیں ۔

            (۷)      اسلامی تہذیب میں انسان کو زمین پر اللہ کا خلیفہ اور اس کا نائب ماناگیاہے، خلاصہ کائنات، اشرف المخلوقات، حتی کہ ایک مؤمن مسلمان کی حرمت کو کعبہ کی حرمت سے زیادہ بتایا گیا ہے اس کے بالمقابل مغربی تہذیب نے انسان کو حیوان سے زیادہ کبھی تسلیم نہیں کیا ہے۔

            مغربی تہذیب کے مطابق علم سیاسیات میں انسان ایک سیاسی حیوان ہے، علم معاشیات میں ایک معاشی حیوان ہے، علم نفسیات میں انسان مخصوص جبلتوں کے مجموعہ کا نام ہے، علم حیاتیات میں انسان محض ایک حیاتی وجود ہے، اس تہذیب نے انسان کو مادیت سے آگے پہنچایا ہی نہیں اسی نقطئہ نظر کی خرابی نے پوری انسانیت کو مادیت پرستی کی آگ میں جھونک دیا ہے۔

            یہ وہ بنیادی فروق ہیں جن سے اسلامی اور مغربی تہذیب و ثقافت کو پرکھا جاسکتا ہے اور اس کے نقصانات سے بچایا جاسکتا ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہم تہذیب و ثقافت کی اصطلاح بہت سطحی معنی میں استعمال کرتے ہیں ، مغربی تہذیب کا مطلب صرف اتنا ہی سمجھتے ہیں کہ پینٹ شرٹ پہنا جائے، ٹائی لگائی جائے، کلین شیو ہو تو یہ مغربی تہذیب کا دلدادہ ہے، یا صرف فحاشی و عریانی کے سیلاب کو مغربی تہذیب سمجھتے ہیں ؛ جب کہ بات ایسی نہیں ہے، بلاشبہ تہذیب کو لباس، وضع قطع، تراش خراش کو لے کر بھی پرکھا جاسکتا ہے؛ لیکن تہذیب کی جو سطح ہے وہ لباس اور وضع قطع ہی نہیں ؛ بلکہ اس کی بنیادیں اور نظریات ہیں جن کو سمجھ کر ہی اس تہذیب کا مقابلہ ممکن ہے۔

فساد ِقلب ونظر ہے فرنگ کی تہذیب

            مغرب نے الحاد، بے دینی اور لامذہبیت کو فروغ دینے کے لیے اور اسلام دشمنی اور مسلم تعصب کے ہدف کو دنیا میں عام کرنے کے لیے خطرناک ہتھکنڈوں کو استعمال کیا:

            (۱)       انھوں نے سب سے مؤثر طریقہ دولت کی لالچ اور جاب کی آفر دے کر جگہ جگہ عیسائی مشنری اسکولس کا قیام عمل میں لایا، جن میں اہل مغرب نے ایسا نصاب مرتب کیاکہ طالب علم دین سے متنفر ہو جائے اور بے دینی کو ترجیح دے جہاں کے ماڈرن تعلیم یافتہ فضلاء مذہب کی تاریخی توجیہ کرکے یہ بتاتے ہیں کہ پہلے مذہب نہیں ، مذہب بعد کی پیداوار ہے،اورآخرت کوئی چیزنہیں ، اصل دنیا ہے اور مذہب ایک نجی مسئلہ ہے،اس پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں اور اہل مغرب کومہذب اور مسلمانوں کو غیرمہذب ثابت کرتے ہیں ، پھر بتدریج اسلامی نظریات کومغربی نظریات کے تابع کرکے پیش کرنا شروع کرتے ہیں ، وحی کا انکار اور عقل اور تجربہ کو حق وصداقت کے لیے معیار قراردیتے ہیں  اور پھر طلبہ کے دماغ میں یہ بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دین دنیا کی ترقی کے لیے مانع ہے، علماء اور دین پرعمل کرنے والے سب حقیر لوگ ہیں ،اوریہ تصور پیش کرتے ہیں ہے کہ اسلام عصر حاضر کے مطابق نہیں  اور یہ کہتے ہیں کہ ترقی کا پورا مدار سائنس اور ٹیکنالوجی پر ہے:

اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم

ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف

یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے

حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات

یہ علم ، یہ حکمت ، یہ تدبر ، یہ حکومت

پیتے ہیں لہو ، دیتے ہیں تعلیم مساوات

            (۲)       دوسرا طریقہ انہوں نے یہ اپنایا کہ غرباء میں رفاہی مالی امداد کی جائے اور ان کو اپنے مذہب سے دور کرکے مرتد بنایا جائے تعلیمی پسماندگی اور غربت و مفلسی میں مجبور افراد بکثرت اس کے شکار ہوئے ہیں ۔

            (۳)      تیسرا طریقہ انھوں نے یہ اپنایا کہ ذہین مسلم طلبہ کو اعلی تعلیم کے لیے مغربی ممالک میں موجود کالجوں ،یونیورسٹیوں آکسفورڈ ،کمبریج وغیرہ میں بھیجا جائے ان کی ذہن سازی کی جائے،یہ بتایا جائے کہ سود ترقی کے لیے لازم و ضروری ہے، سنتیں تو نعوذبااللہ صرف قدیم عربی رسم و رواج ہیں نماز کے لیے وقت نکالنا العیاذباللہ تضیع اوقات کے مترادف ہے، زکوٰۃ اور ٹیکس تو ایک ہے ، قربانی، حج اور عمرہ میں خرچ کی جانے والی رقم بے جا مصرف میں خرچ کرنا ہے، اس کے بجائے غریب،بیوہ کو رقم دینا زیادہ بہتر ہے، سیاست اور دین میں کوئی تعلق نہیں ،فیشن وقت کا تقاضہ ہے، اب تم آزاد ہو اور عورت چاہے پردہ کرے یا نہ کرے،ایسا لباس پہنے جس سے بدن کی ساخت ظاہر ہو تو کوئی آپ کو روک ٹوک نہیں کرسکتا،ہاں یہ تمہارا کلچر ہے کہ تم ویلنٹائن ڈے، برتھ ڈے مناؤ، یعنی کہ عیش و عشرت کا عادی بنایا جائے،پھر جب ان کے دماغ پر مکمل طور سے قبضہ ہوجائے تو مال و زر کے ذریعہ ملک کی سربراہی حاصل کرکے ان کو سونپی جاتی ہے اور انھیں اپنا آلۂ کار بنا کر اسلام اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ان سے کام لیا جاتا ہے۔

            علامہ اقبال نے کیا ہی خوب کہا تھا :

ظاہر میں تجارت ہے ، حقیقت میں جوا ہے

سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات

رعنائی تعمیر میں ، رونق میں ، صفا میں

گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات

            (۴)      اور مغربی تہذیب کو فروغ دینے میں سب سے زیادہ معاون میڈیا بنا جس کے ذریعے فحاشی، عریانی اور بے دینی کو عام کیا گیا،ایسی ایسی فلمیں بنائیں جن میں دین داروں کا مذاق اڑایا گیا،موسیقی اور رقص و سرور کو روح کی غذا بتایا گیا جس نے تخریب اخلاق و بے دینی کے عام کرنے میں سب سے بڑا رول ادا کیا ہے۔

            علامہ اقبال نے کیا ہی خوب کہا:

بے کاری و عریانی و مے خواری و افلاس

کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات

(بحوالہ:اسلام اور تہذیب مغرب کی کشمکش)

امید کی کرن

            خلاصۂ کلام یہ کہ تعلیم کے نام پر بے دینی، تہذیب کے نام پر بے حیائی اور میڈیا کے نام پر عریانیت پھیلائی جارہی ہے اور ہماری صبح و شام اسی میں گذر رہی ہے ابھی بھی وقت ہے مسلمان بیدار ہو جائیں اور جان لیں کہ اصل آخرت ہے دنیا نہیں ، اصل رضائے الٰہی ہے منصب نہیں ، اصل دین ہے دنیا نہیں ؛اب بھی امید کی کرن باقی ہے بقول علامہ علی میاں ندوی اس عالمگیرصورتحال کی تبدیلی کے لیے، امت مسلمہ کے موجودہ تباہ کن حالات میں انقلاب عظیم پیدا کرنے کے لیے دین کے داعیوں کو مغربی تعلیم یافتہ طبقہ پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے کہ اسی طبقہ کی بیراہ روی نے پوری امت مسلمہ کے عوام کو ذہنی ارتداد کے خطرے میں مبتلا کردیا ہے اسلامی ممالک کا رخ خالص اسلامیت کے بجائے خالص مغربیت کی طرف موڑ دیا ہے اور عوام کو بے زبان گلہ اور جانور کے ریوڑ کی طرح غیر اسلامی قیادت کے ہاتھ میں دے دیا ہے اور ان کی اصلاح سے دوبارہ ان ممالک کا رخ مغربیت سے اسلامیت کی طرف موڑا جا سکتا ہے۔ (بحوالہ مغربی ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش)

            اگر اس بے دینی و ارتداد کی لہر سے اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو بچانا چاہتے ہیں تو خدارا اہل مغرب کی ان سازشوں کو سمجھیں اور ان راستوں سے اجتناب کریں جس کی منزل مغرب کی دمکتی ہوئی مگر اندھیری دنیا ہے جو ناقابل تلافی خطرات کا پیش خیمہ ہے:

دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت

احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

وہ قوم کہ فیضان سماوی سے ہو محروم

حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات

            خدا ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے،آمین!

—————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 2-3،    جلد:104‏،  جمادى الاول  1441ھ مطابق اپریل –مئی  2020ء

*      *      *

Related Posts